• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاظر میں انکار حدیث اور فتنہ ناصبیت،

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس سے ایک بات اور ذہین میں آئی کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ عراقی حضرت علی کے گھر والے ہیں !!!
اور حضرت علی قبیلہ بنی ہاشم سے ہیں یعنی آپ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے صاحبزادے ہیں تو آپ کے قاعدے سے عراقی رسول اللہﷺ کے گھر والے ہیں اب رسول اللہﷺ کے گھر والوں کی گواہی ایک مسلمان نہ مانے گا تو کون مانے گا ؟؟؟؟
میں تو نہیں مانتا کہ عراقی حضرت علی رضی الله عنہ کے گھر والے ہیں - البتہ رافضیوں نے زبردستی گھر والے بنا دیے ہیں -لیکن میں صرف ان کی جھوٹی نسبت کو سامنے رکھ کر ہی ان عراقیوں کو اہل بیت کا گھر والا که رہا ہوں -ورنہ جہاں تک "اہل بیت کے فضائل کی روایات کا تعلق ہے" تو یہاں بھی اہل بیت سے مراد وہ اہل بیت ہیں جن کو آپ اہل بیت کہتے ہیں - ورنہ اہل سنّت کے نزدیک تو اہل بیت میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی آجاتی ہیں -بلکہ اصلی اہل بیت تو وہی ہیں - تو اس لحاظ سے تو عراقیوں کی نبی کریم نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ سلم سے دور دور تک رشتہ داری نہیں بنتی- کیوں کہ معاف کیجیے گا ازواج مطہرات کے بارے میں جو عراقیوں کی راے ہے اس غلیظ سوچ کو کون نہیں جانتا -
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں تو نہیں مانتا کہ عراقی حضرت علی رضی الله عنہ کے گھر والے ہیں - البتہ رافضیوں نے زبردستی گھر والے بنا دیے ہیں -لیکن میں صرف ان کی جھوٹی نسبت کو سامنے رکھ کر ہی ان عراقیوں کو اہل بیت کا گھر والا که رہا ہوں -ورنہ جہاں تک "اہل بیت کے فضائل کی روایات کا تعلق ہے" تو یہاں بھی اہل بیت سے مراد وہ اہل بیت ہیں جن کو آپ اہل بیت کہتے ہیں - ورنہ اہل سنّت کے نزدیک تو اہل بیت میں نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی آجاتی ہیں -بلکہ اصلی اہل بیت تو وہی ہیں - تو اس لحاظ سے تو عراقیوں کی نبی کریم نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ سلم سے دور دور تک رشتہ داری نہیں بنتی- کیوں کہ معاف کیجیے گا ازواج مطہرات کے بارے میں جو عراقیوں کی راے ہے اس غلیظ سوچ کو کون نہیں جانتا -

میں صرف ان روایات کی بات کر رہا ہوں جن کا تعلق اہل بیت کے فضائل سے ہے -اور راوی عراقی ہیں- یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ گھر والوں کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی -
جلد حاضر ہونگا -
اس سے ایک بات اور ذہین میں آئی کہ آپ یہ مانتے ہیں کہ عراقی حضرت علی کے گھر والے ہیں !!!
اور حضرت علی قبیلہ بنی ہاشم سے ہیں یعنی آپ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے صاحبزادے ہیں تو آپ کے قاعدے سے عراقی رسول اللہﷺ کے گھر والے ہیں اب رسول اللہﷺ کے گھر والوں کی گواہی ایک مسلمان نہ مانے گا تو کون مانے گا ؟؟؟؟
عراقیوں کو اہل بیت اطہار کے گھر والے ہونے کی بناء پر آپ ہی ان کی گواہی قبول نہیں فرمارہے ہیں یعنی آپ خود ہی عراقیوں کو گھر والے بھی کہتے ہیں اور جب آپ پر گرفت کی جاتی ہے تو فورا انکار بھی فرمادیتے ہیں کیا عجب تما شا ہے ؟؟
آپ کو شاید یاد نہیں کہ آپ نے یہاں ان محدیثین کا ذکر کرنا ہے جنہوں نے اہل بیت اطہار کے فضائل میں عجمی مسلمانوں کی گواہی قبول نہیں کی اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمانا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے اصول ہیں جن میں عربی اور عجمی کی تقسیم کی بناء پر یہ اصول واضع کیا گیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمانا ہے کہ ابو بکر کو خلیفہ اول ماننے والوں کی گواہی خلفہ ثلاثہ کے فضائل میں کیوں قبول کی جاتی ہے ؟
اگر فرصت ہو تو ان پر اپنے فرمودات ارشاد فرمائیں
شکریہ
والسلام
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
علی بہرام بھائی آپ سے موئدبانہ گزارش ہے کہ اس موضوع کو میرے اور جواد بھائی کے درمیان رہنے دیں، کیونکہ ہم یہاں مناظرہ کرنے نہیں بلکہ ایک مخصوص موضوع پر ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ جو پوسٹ آپ یہاں کر رہے ہیں، ایسی پوسٹس آپ پہلے بھی کئی بار مختلف تھریڈز میں کر چکے ہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی تحقیقات کو وہیں بیان کیجیئے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ محمد علی جواد بھائی آپ سے جلد اپنے خیالات شئیر کرونگا۔ جزاک اللہ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
السلام علیکم محمد علی جواد بھائی، آپ کا نام اتنا پیارا ہے کہ اس نام سے ہی بدعتیوں کا معلوم ہو جانا چاہئے کہ اہل سنت تمام صحابہ و خلفاء کا ایک جیسا احترام کرتے ہیں، اور سب کے ناموں پر اپنے نام رکھتے ہیں، چاہے علی ہو یا عثمان رضی اللہ عنہما۔
علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:
جہاں تک غامدی کا تعلق ہے تو دین کا صحیح فہم رکھنے والا کوئی بھی آدمی ہو وہ ان کے اس قسم کے باطل نظریات سے نہ متاثر ہے اور نہ متفق ہے (بشمول میرے)- لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ غامدی کی بات اگر کسی اور مصنف کی بات سے میل کھاتی ہے تو آپ اس کو بھی غامدی کے نظریات کا حامل سمجھیں -
آپ نے صحیح فرمایا کہ قول یا فعل میں ظاہری مماثلت ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ منہج و مقاصدبھی ایک ہوں۔ مگر کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاھتا ہوں۔

ماہنامہ اشراق جو المورد کے زیر نگرانی غامدی صاحب کی سربراہی میں شائع ہوتا ہے، اس کہ شمارہ 4 جلد 4 (اپریل 1988) میں "روایات کی تحقیق" کے موضوع پر ایک مضمون کاندہلوی صاحب کی کتاب "مذہبی داستانیں" کے حوالے سے شائع کروایا گیا۔

2- غامدی صاحب کے امام جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے جب اس کتاب "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" کا مطالعہ کیا تو فرمایا "میں نے اپنی ذندگی میں دو آدمی اس لفظ علامہ کے مستحق دیکھے ہیں، ایک کاندھلوی صاحب اور ایک عباسی صاحب"۔

3- اصلاحی صاحب کا ایک اور نادر قول کاندھلوی صاحب اپنی کتاب میں بھی نقل کرتے ہیں:
"سب سن لو، اگر تم نے اس کتاب کو جگہ جگہ پھیلانے میں کوتاہی کی تو تم اللہ کے مجرم ہو گے"
(بحوالہ احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ- 55)

میں نے ایک جگہ پڑھا تھا مگر حوالہ اس وقت صحیح یاد نہیں کہ "محدث فورم" اور "ماہنامہ محدث" کے سربراہ جناب شیخ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ ایک بار بذات خود جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے پاس تشریف لے کر گئے اور غلام احمد پرویز کے رد میں کوئی علمی شاہکار تحریر کرنے کو کہا تو مولانا صاحب نے اپنے کچھ ہمنواوں سے کہا کہ:
" میرا دل چاہتا ہے کہ اس شخص کا سر کچل دوں، اس کو میرے سامنے سے دور کر دو"
محترم انس اس حوالہ سے کچھ راہنمائی فرما سکتے ہیں۔

علی جواد بھائی در اصل اس قسم کی جتنی بھی تحقیقات آج کل سامنے آتی ہیں، جن میں بخاری و مسلم کی احادیث پر تنقید کی جاتی ہے، یہ بالاخر جا کر فتنہ انکار حدیث کی گمراہ وادی میں پناہ لیتی ہیں۔

علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:
لیکن میرے بھائی یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ تاریخی حوالہ جات تو باہر حال اپنی جگہ ہیں - اب یا تو ان تاریخی حوالہ جات کا کھلم کھلا انکار کیا جائے یا ان کا اثبات کیا جائے - جہاں تک علامہ ابن جریر طبری کے حوالہ جات کا تعلق ہے تواس میں بھی بے پناہ تضاد ہے-اب چاہے وہ خود اہل سنّت ہوں یا رافضی لیکن دور خلافت سے لے کر واقعہ کربلا تک ان کی ٨٠ فیصد تحقیق ابو مخنف لوط بن یحییٰ کے حوالہ جات کا منبع رہی ہے - اور امام ذہبی سمیت اور بہت سے دوسرے محدثین کا اس بات پر اجماع ہے کہ ابو مخنف غالی شیعہ تھا - اور بنو امیہ سے ذاتی دشمنی رکھتا تھا - کیوں کہ اس کا دادا جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی طرف سے لڑتا ہوے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا - اور اس ابو مخنف کی پیدائش سن ١٠٠ ہجری کے لگ بھگ کی ہے (یعنی کربلا کی ٤٠ سال بعد پیدا ہوا) -جب کہ مشہور مورخین علامہ ان جریر طبری ، ابن ہشام ، ابن سعد وغیرہ کا دور ١٥٠ سے ٣٠٠ ہجری کے درمیان رہا ہے --
جواد بھائی اس وقت میں صرف اپنی بات کو علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تک محدود رکھتا ہوں۔ کچھ باتیں اپ سے عرض کرنا چاہونگا:

ہمارے بہت سے محدثین کرام جیسا کہ امام ابو داود، امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں احادیث جمع کیں، اور محدثین میں سے خصوصا امام بخاری و مسلم نے اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث جمع کرنے کا دعوہ کیا، باقی محدثین نے صرف احادیث اسناد کے ساتھ بیان کر دیں اور ان اسناد کی جانچ پڑت کا کام اسماء و رجال کے علماء پر چھوڑ دیا۔ اکثر محدثین نے حدیث کے بیان کے ساتھ حکم بھی لگایا کہ یہ حدیث فلاں وجہ سے ضعیف ہے۔ جیسا کہ مشہور اختلافی مسئلہ رفع الیدین میں بیان کی جانے والی سنن ابو داود کی ایک حدیث جس میں نماز میں صرف ایک بار رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے، اس حدیث کو امام ابو داود بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث ضعیف ہے"، مگر احناف بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ شافعی المسلک تھے۔ خیر یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ محدثین نے احادیث کی سند بیان کر کہ اس کام کو علماء اسما و رجال پر چھوڑ دیا کہ وہ ان احادیث کی چھان پٹک کر کہ صحیح حسن ضعیف و موضوع احادیث کو الگ کر دیں، کچھ ایسا ہی کام دور حاظر کے عظیم محدث امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے کیا اور اسناد کی تحقیق کے بعد صحیح ابو داود و ضعیف ابو داود، صحیح ابن ماجہ و ضعیف ابن ماجہ وغیرہ الگ الگ شائع کروائیں۔

یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک عالم جب ایک روایت سند کے ساتھ بیان کرتا ہے تو اس کے بعد وہ اس روایت میں بیان ہونے والی کسی بھی قباحت سے بری ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو امام احمد بن حنبل یا دیگر محدثین کو لوگ اس بنا پر گمراہ قرار دیں کہ انک کی کتاب مٰیں فلاں فلاں حدیث موجود ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کیا اس محدث نے ان روایات کو کسی عقیدہ یا مسئلہ میں اپنایا ہے کہ نہیں۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے محدث پر کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے۔

یہی حال امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی کتاب کا ہے۔ امام صاحب نے روایات سند کے ساتھ بیان کر دیں اور کتاب کے مقدمہ میں یہ سنہری الفاظ در کر دیئے:

ماری اس کتاب کے قاری کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں اپنی شرط کے مطابق جو روایات ذکر کرنے والا ہوں اور جو آثار بیان کرنے والا ہوں اس میں میرا طریقہ کار یہ ہو گا کہ میں ان کو ان کہ راویوں تک سند کے ساتھ بیان کرونگا۔ چنانچہ میری اس کتاب میں درج شدہ ایسی روایات جو ہم نے بعض متقدمین کے حوالے سے بیان کی ہیں اور انکا مطالعہ کرنے والا آدمی ان کو نا قابل اعتبار سمجھتا ہے، یا انکا سننے والا ان کو قبیح جانتا ہے، کیونکہ وہ انہیں کسی طرح سے صحیح نہیں سمجھتا، تو وہ جان لے کہ یہ روایت ہماری طرف سے نہیں بلکہ ہم تک پہنچانے والوں کی طرف سے ہیں، ہم نے انہیں اسی طرح بیان کر دیا جس طرح وہ ہم تک پہنچی ہیں۔" (مقدمہ تاریخ طبری، صفحہ 5، بحوالہ صحیح تاریخ الاسلام والمسلمین 38)

جواد بھائی یہ وہ بات ہے کہ اگر مودودی صاحب یا کاندھلوی صاحب ایک بار اس عبارت کو ابنی کتابوں میں درج کر دیتے تو قاری شائد انکی کتب سے وہ اثر نہ لیتا جو اثر انہوں نے دینا چاہا۔
ان سب تصریحات کے بعد میرے خیال میں امام طبری کے بارہ میں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ

"- اس لحاظ سے چاہے وہ طبری ہوں، زہری یا پھر واقدی یہ تمام مورخین ابو مخنف لوط بن یحییٰ الازدی اور سعد کلبی (جو کہ دجال و کذاب مورخوں میں سر فہرست تھے) ان کے حوالہ جات کے زیر اثر رہے- اور وہ اس میں کسی حد تک مجبور بھی تھے -"

واقدی اور ابو مخنف تو یقینا مشہور کذاب ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ مولانا صلاح الدین یوسف کی کتاب " حقیقت خلافت و ملوکیت" اور دکوتر محمد عثمان آل خمیس کی کتاب "صحیح تاریخ الاسلام و المسلین میں موجود صرف اصولی مباحث کا مطالعہ کریں تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔

اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
علی بہرام بھائی آپ سے موئدبانہ گزارش ہے کہ اس موضوع کو میرے اور جواد بھائی کے درمیان رہنے دیں، کیونکہ ہم یہاں مناظرہ کرنے نہیں بلکہ ایک مخصوص موضوع پر ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ جو پوسٹ آپ یہاں کر رہے ہیں، ایسی پوسٹس آپ پہلے بھی کئی بار مختلف تھریڈز میں کر چکے ہیں۔ بہتر ہے کہ اپنی تحقیقات کو وہیں بیان کیجیئے۔ آپ کا بہت شکریہ۔ محمد علی جواد بھائی آپ سے جلد اپنے خیالات شئیر کرونگا۔ جزاک اللہ۔
ٹھیک ہے بھائی جب آپ اپنے تبادلہ خیال سے فارغ ہوجائیں تو ان سے اس سوال کا جواب بھی حاصل کرلیجئے گا جو کہ اگر دیکھا جائے تو یہ آپ ہی کا سوال ہے میں نے تو صرف اس میں چند باتوں کا اضافہ ہی کیا ہے
آپ کو شاید یاد نہیں کہ آپ نے یہاں ان محدیثین کا ذکر کرنا ہے جنہوں نے اہل بیت اطہار کے فضائل میں عجمی مسلمانوں کی گواہی قبول نہیں کی اور آپ نے یہ بھی ارشاد فرمانا ہے کہ اسلام کے وہ کون سے اصول ہیں جن میں عربی اور عجمی کی تقسیم کی بناء پر یہ اصول واضع کیا گیا ہے اور یہ بھی ارشاد فرمانا ہے کہ ابو بکر کو خلیفہ اول ماننے والوں کی گواہی خلفہ ثلاثہ کے فضائل میں کیوں قبول کی جاتی ہے ؟
اگر فرصت ہو تو ان پر اپنے فرمودات ارشاد فرمائیں
شکریہ
والسلام
جب اس سوال کا جواب آجائے تو مجھے پھر سے ٹیگ فرمادیجئے گا شکریہ
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
چند دن پہلے ایک مشہور مصنف جو کہ انکار حدیث کی طرف مائل تھے، مولانا تمنا عمادی پھلواری، کی کتاب امام طبری و زہری-تصویر کے دو رخ پڑھنے کا موقع ملا، ان کا امام طبری کے بارہ میں موقف پڑھا تو سوچا یہاں بھی شیئر کر دوں،



منکرین حدیث کا امام طبری کے ساتھ عموما یہی رویہ رہا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ اور تفسیر اسلامی تاریخ کے اولین دور سے تعلق رکھتی ہے، اور اگر اس کو ہی مشکوک بنا دیا جائے تو تمام ذخیرہ تواریخ و روایات کو غلام احمد پرویز کی طرح "عجمی سازش" کا شکار قرار دینا آسان ہو جائے گا۔ واللہ اعلم۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم محمد علی جواد بھائی، آپ کا نام اتنا پیارا ہے کہ اس نام سے ہی بدعتیوں کا معلوم ہو جانا چاہئے کہ اہل سنت تمام صحابہ و خلفاء کا ایک جیسا احترام کرتے ہیں، اور سب کے ناموں پر اپنے نام رکھتے ہیں، چاہے علی ہو یا عثمان رضی اللہ عنہما۔
علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:


آپ نے صحیح فرمایا کہ قول یا فعل میں ظاہری مماثلت ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ منہج و مقاصدبھی ایک ہوں۔ مگر کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاھتا ہوں۔

ماہنامہ اشراق جو المورد کے زیر نگرانی غامدی صاحب کی سربراہی میں شائع ہوتا ہے، اس کہ شمارہ 4 جلد 4 (اپریل 1988) میں "روایات کی تحقیق" کے موضوع پر ایک مضمون کاندہلوی صاحب کی کتاب "مذہبی داستانیں" کے حوالے سے شائع کروایا گیا۔

2- غامدی صاحب کے امام جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے جب اس کتاب "مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" کا مطالعہ کیا تو فرمایا "میں نے اپنی ذندگی میں دو آدمی اس لفظ علامہ کے مستحق دیکھے ہیں، ایک کاندھلوی صاحب اور ایک عباسی صاحب"۔

3- اصلاحی صاحب کا ایک اور نادر قول کاندھلوی صاحب اپنی کتاب میں بھی نقل کرتے ہیں:
"سب سن لو، اگر تم نے اس کتاب کو جگہ جگہ پھیلانے میں کوتاہی کی تو تم اللہ کے مجرم ہو گے"
(بحوالہ احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ- 55)

میں نے ایک جگہ پڑھا تھا مگر حوالہ اس وقت صحیح یاد نہیں کہ "محدث فورم" اور "ماہنامہ محدث" کے سربراہ جناب شیخ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ ایک بار بذات خود جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے پاس تشریف لے کر گئے اور غلام احمد پرویز کے رد میں کوئی علمی شاہکار تحریر کرنے کو کہا تو مولانا صاحب نے اپنے کچھ ہمنواوں سے کہا کہ:
" میرا دل چاہتا ہے کہ اس شخص کا سر کچل دوں، اس کو میرے سامنے سے دور کر دو"
محترم انس اس حوالہ سے کچھ راہنمائی فرما سکتے ہیں۔

علی جواد بھائی در اصل اس قسم کی جتنی بھی تحقیقات آج کل سامنے آتی ہیں، جن میں بخاری و مسلم کی احادیث پر تنقید کی جاتی ہے، یہ بالاخر جا کر فتنہ انکار حدیث کی گمراہ وادی میں پناہ لیتی ہیں۔

علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:


جواد بھائی اس وقت میں صرف اپنی بات کو علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تک محدود رکھتا ہوں۔ کچھ باتیں اپ سے عرض کرنا چاہونگا:

ہمارے بہت سے محدثین کرام جیسا کہ امام ابو داود، امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں احادیث جمع کیں، اور محدثین میں سے خصوصا امام بخاری و مسلم نے اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث جمع کرنے کا دعوہ کیا، باقی محدثین نے صرف احادیث اسناد کے ساتھ بیان کر دیں اور ان اسناد کی جانچ پڑت کا کام اسماء و رجال کے علماء پر چھوڑ دیا۔ اکثر محدثین نے حدیث کے بیان کے ساتھ حکم بھی لگایا کہ یہ حدیث فلاں وجہ سے ضعیف ہے۔ جیسا کہ مشہور اختلافی مسئلہ رفع الیدین میں بیان کی جانے والی سنن ابو داود کی ایک حدیث جس میں نماز میں صرف ایک بار رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے، اس حدیث کو امام ابو داود بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث ضعیف ہے"، مگر احناف بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ شافعی المسلک تھے۔ خیر یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ محدثین نے احادیث کی سند بیان کر کہ اس کام کو علماء اسما و رجال پر چھوڑ دیا کہ وہ ان احادیث کی چھان پٹک کر کہ صحیح حسن ضعیف و موضوع احادیث کو الگ کر دیں، کچھ ایسا ہی کام دور حاظر کے عظیم محدث امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے کیا اور اسناد کی تحقیق کے بعد صحیح ابو داود و ضعیف ابو داود، صحیح ابن ماجہ و ضعیف ابن ماجہ وغیرہ الگ الگ شائع کروائیں۔

یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک عالم جب ایک روایت سند کے ساتھ بیان کرتا ہے تو اس کے بعد وہ اس روایت میں بیان ہونے والی کسی بھی قباحت سے بری ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو امام احمد بن حنبل یا دیگر محدثین کو لوگ اس بنا پر گمراہ قرار دیں کہ انک کی کتاب مٰیں فلاں فلاں حدیث موجود ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کیا اس محدث نے ان روایات کو کسی عقیدہ یا مسئلہ میں اپنایا ہے کہ نہیں۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے محدث پر کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے۔

یہی حال امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی کتاب کا ہے۔ امام صاحب نے روایات سند کے ساتھ بیان کر دیں اور کتاب کے مقدمہ میں یہ سنہری الفاظ در کر دیئے:

ماری اس کتاب کے قاری کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں اپنی شرط کے مطابق جو روایات ذکر کرنے والا ہوں اور جو آثار بیان کرنے والا ہوں اس میں میرا طریقہ کار یہ ہو گا کہ میں ان کو ان کہ راویوں تک سند کے ساتھ بیان کرونگا۔ چنانچہ میری اس کتاب میں درج شدہ ایسی روایات جو ہم نے بعض متقدمین کے حوالے سے بیان کی ہیں اور انکا مطالعہ کرنے والا آدمی ان کو نا قابل اعتبار سمجھتا ہے، یا انکا سننے والا ان کو قبیح جانتا ہے، کیونکہ وہ انہیں کسی طرح سے صحیح نہیں سمجھتا، تو وہ جان لے کہ یہ روایت ہماری طرف سے نہیں بلکہ ہم تک پہنچانے والوں کی طرف سے ہیں، ہم نے انہیں اسی طرح بیان کر دیا جس طرح وہ ہم تک پہنچی ہیں۔" (مقدمہ تاریخ طبری، صفحہ 5، بحوالہ صحیح تاریخ الاسلام والمسلمین 38)

جواد بھائی یہ وہ بات ہے کہ اگر مودودی صاحب یا کاندھلوی صاحب ایک بار اس عبارت کو ابنی کتابوں میں درج کر دیتے تو قاری شائد انکی کتب سے وہ اثر نہ لیتا جو اثر انہوں نے دینا چاہا۔
ان سب تصریحات کے بعد میرے خیال میں امام طبری کے بارہ میں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ

"- اس لحاظ سے چاہے وہ طبری ہوں، زہری یا پھر واقدی یہ تمام مورخین ابو مخنف لوط بن یحییٰ الازدی اور سعد کلبی (جو کہ دجال و کذاب مورخوں میں سر فہرست تھے) ان کے حوالہ جات کے زیر اثر رہے- اور وہ اس میں کسی حد تک مجبور بھی تھے -"

واقدی اور ابو مخنف تو یقینا مشہور کذاب ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ مولانا صلاح الدین یوسف کی کتاب " حقیقت خلافت و ملوکیت" اور دکوتر محمد عثمان آل خمیس کی کتاب "صحیح تاریخ الاسلام و المسلین میں موجود صرف اصولی مباحث کا مطالعہ کریں تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔

اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔
السلام و علیکم عثمان بھائی -

سب سے پہلے تو آپ کے شکرا گزار ہوں کہ میرے نام کے حوالے سے جو آپ نے کمنٹس دیے - اگرچہ میں اپنے آپ کو اس تعریف کے قابل نہیں سمجھتا-

دوسرے یہ کہ آج کل بے انتہا مصروفیت کی بنا پر میں اس فورم سے دور ہو گیا ہوں -(معذرت)- جلد ہی فراغت کے بعد آپ سے مزید اس ٹاپک پر بات ہو گی. اچھا لگتا ہے جب کوئی تاریخ کے حوالے سے وسیع علم رکھتا ہو اور غیر جانبداری سے مکمل اسلامی تاریخ کا علم و فہم کے ساتھ جائزہ لیتا ہو جیسے اس مراسلے میں آپ نے کیا ہے -

غامدی سے متعلق میں کافی پڑھ چکا ہوں- یہ تو وہ انسان ہے جس نے اپنے استاد اصلاحی صاحب سے کئی مقامات پر انحراف کیا ہے - باقی اس بارے میں اگر ٹائم ملا تو تفصیلی بات بعد میں ہو گی -

علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ پر بھی ابھی مصروفیت کی بنا پربات نہیں ہو سکتی - ان شاء الله جلد بات ہوگی -خوش رہیں-
 
Top