السلام علیکم محمد علی جواد بھائی، آپ کا نام اتنا پیارا ہے کہ اس نام سے ہی بدعتیوں کا معلوم ہو جانا چاہئے کہ اہل سنت تمام صحابہ و خلفاء کا ایک جیسا احترام کرتے ہیں، اور سب کے ناموں پر اپنے نام رکھتے ہیں، چاہے علی ہو یا عثمان رضی اللہ عنہما۔
علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:
آپ نے صحیح فرمایا کہ قول یا فعل میں ظاہری مماثلت ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ منہج و مقاصدبھی ایک ہوں۔ مگر کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاھتا ہوں۔
1۔
ماہنامہ اشراق جو المورد کے زیر نگرانی غامدی صاحب کی سربراہی میں شائع ہوتا ہے، اس کہ
شمارہ 4 جلد 4 (اپریل 1988) میں
"روایات کی تحقیق" کے موضوع پر ایک مضمون کاندہلوی صاحب کی کتاب "مذہبی داستانیں" کے حوالے سے شائع کروایا گیا۔
2- غامدی صاحب کے امام جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے جب اس کتاب "
مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت" کا مطالعہ کیا تو فرمایا "
میں نے اپنی ذندگی میں دو آدمی اس لفظ علامہ کے مستحق دیکھے ہیں، ایک کاندھلوی صاحب اور ایک عباسی صاحب"۔
3- اصلاحی صاحب کا ایک اور نادر قول کاندھلوی صاحب اپنی کتاب میں بھی نقل کرتے ہیں:
"سب سن لو، اگر تم نے اس کتاب کو جگہ جگہ پھیلانے میں کوتاہی کی تو تم اللہ کے مجرم ہو گے"
(بحوالہ احادیث صحیح بخاری و مسلم میں پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ- 55)
میں نے ایک جگہ پڑھا تھا مگر حوالہ اس وقت صحیح یاد نہیں کہ "محدث فورم" اور "ماہنامہ محدث" کے سربراہ جناب شیخ حافظ عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ ایک بار بذات خود جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے پاس تشریف لے کر گئے اور غلام احمد پرویز کے رد میں کوئی علمی شاہکار تحریر کرنے کو کہا تو مولانا صاحب نے اپنے کچھ ہمنواوں سے کہا کہ:
" میرا دل چاہتا ہے کہ اس شخص کا سر کچل دوں، اس کو میرے سامنے سے دور کر دو"
محترم انس اس حوالہ سے کچھ راہنمائی فرما سکتے ہیں۔
علی جواد بھائی در اصل اس قسم کی جتنی بھی تحقیقات آج کل سامنے آتی ہیں، جن میں بخاری و مسلم کی احادیث پر تنقید کی جاتی ہے، یہ بالاخر جا کر فتنہ انکار حدیث کی گمراہ وادی میں پناہ لیتی ہیں۔
علی جواد بھائی آپ نے جو فرمایا کہ:
جواد بھائی اس وقت میں صرف اپنی بات کو علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ تک محدود رکھتا ہوں۔ کچھ باتیں اپ سے عرض کرنا چاہونگا:
ہمارے بہت سے محدثین کرام جیسا کہ امام ابو داود، امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اپنی کتب میں احادیث جمع کیں، اور محدثین میں سے خصوصا امام بخاری و مسلم نے اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث جمع کرنے کا دعوہ کیا، باقی محدثین نے صرف احادیث اسناد کے ساتھ بیان کر دیں اور ان اسناد کی جانچ پڑت کا کام اسماء و رجال کے علماء پر چھوڑ دیا۔ اکثر محدثین نے حدیث کے بیان کے ساتھ حکم بھی لگایا کہ یہ حدیث فلاں وجہ سے ضعیف ہے۔ جیسا کہ مشہور اختلافی مسئلہ رفع الیدین میں بیان کی جانے والی سنن ابو داود کی ایک حدیث جس میں نماز میں صرف ایک بار رفع الیدین کرنے کا ذکر ہے، اس حدیث کو امام ابو داود بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث ضعیف ہے"، مگر احناف بھائی کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ اس لئے فرمایا کہ وہ شافعی المسلک تھے۔ خیر یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ محدثین نے احادیث کی سند بیان کر کہ اس کام کو علماء اسما و رجال پر چھوڑ دیا کہ وہ ان احادیث کی چھان پٹک کر کہ صحیح حسن ضعیف و موضوع احادیث کو الگ کر دیں، کچھ ایسا ہی کام دور حاظر کے عظیم محدث امام ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے کیا اور اسناد کی تحقیق کے بعد صحیح ابو داود و ضعیف ابو داود، صحیح ابن ماجہ و ضعیف ابن ماجہ وغیرہ الگ الگ شائع کروائیں۔
یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ایک عالم جب ایک روایت سند کے ساتھ بیان کرتا ہے تو اس کے بعد وہ اس روایت میں بیان ہونے والی کسی بھی قباحت سے بری ہو جاتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو امام احمد بن حنبل یا دیگر محدثین کو لوگ اس بنا پر گمراہ قرار دیں کہ انک کی کتاب مٰیں فلاں فلاں حدیث موجود ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ کیا اس محدث نے ان روایات کو کسی عقیدہ یا مسئلہ میں اپنایا ہے کہ نہیں۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے محدث پر کوئی حکم لگایا جا سکتا ہے۔
یہی حال امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی کتاب کا ہے۔ امام صاحب نے روایات سند کے ساتھ بیان کر دیں اور کتاب کے مقدمہ میں یہ سنہری الفاظ در کر دیئے:
"ہ
ماری اس کتاب کے قاری کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں اپنی شرط کے مطابق جو روایات ذکر کرنے والا ہوں اور جو آثار بیان کرنے والا ہوں اس میں میرا طریقہ کار یہ ہو گا کہ میں ان کو ان کہ راویوں تک سند کے ساتھ بیان کرونگا۔ چنانچہ میری اس کتاب میں درج شدہ ایسی روایات جو ہم نے بعض متقدمین کے حوالے سے بیان کی ہیں اور انکا مطالعہ کرنے والا آدمی ان کو نا قابل اعتبار سمجھتا ہے، یا انکا سننے والا ان کو قبیح جانتا ہے، کیونکہ وہ انہیں کسی طرح سے صحیح نہیں سمجھتا، تو وہ جان لے کہ یہ روایت ہماری طرف سے نہیں بلکہ ہم تک پہنچانے والوں کی طرف سے ہیں، ہم نے انہیں اسی طرح بیان کر دیا جس طرح وہ ہم تک پہنچی ہیں۔" (مقدمہ تاریخ طبری، صفحہ 5، بحوالہ صحیح تاریخ الاسلام والمسلمین 38)
جواد بھائی یہ وہ بات ہے کہ اگر مودودی صاحب یا کاندھلوی صاحب ایک بار اس عبارت کو ابنی کتابوں میں درج کر دیتے تو قاری شائد انکی کتب سے وہ اثر نہ لیتا جو اثر انہوں نے دینا چاہا۔
ان سب تصریحات کے بعد میرے خیال میں
امام طبری کے بارہ میں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ
"- اس لحاظ سے چاہے وہ طبری ہوں، زہری یا پھر واقدی یہ تمام مورخین ابو مخنف لوط بن یحییٰ الازدی اور سعد کلبی (جو کہ دجال و کذاب مورخوں میں سر فہرست تھے) ان کے حوالہ جات کے زیر اثر رہے- اور وہ اس میں کسی حد تک مجبور بھی تھے -"
واقدی اور ابو مخنف تو یقینا مشہور کذاب ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ مولانا صلاح الدین یوسف کی کتاب " حقیقت خلافت و ملوکیت" اور دکوتر محمد عثمان آل خمیس کی کتاب "صحیح تاریخ الاسلام و المسلین میں موجود صرف اصولی مباحث کا مطالعہ کریں تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔
اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے، آمین۔