عصر کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنا کیسا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دو رکعتیں پڑھتے دیکھا یہ ان کا علم ہے۔ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ رہا آپ کا عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے سے منع فرمانا تو وہ درست ہے، لیکن اس منع والی حدیث سے جو نمازیں آپ نے عصر کے بعد پڑھیں یا ان کے پڑھنے کی اجازت دی وہ اس حدیث سے مستثنیٰ ہیں منع نہیں۔ تفصیل کے لیے اس فقیر إلی اللہ الغنی کے
رسالہ ’’ تعداد رکعات ‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
فتاوی احکام ومسائل
کتاب الصلاۃ ج 2 ص 264۔265
محدث فتویٰ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
دوسرا فتوی
جس طرح فجر کے غلاوہ باقی نمازوں کے بعد کسی بھی قسم کی نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح نماز عصر کے بعد بھی جب تک سورج بلند ہو نوافل پڑھے جاسکتے ہیں ۔ عموما جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ نماز عصر کے بعد کوئی نفلی نماز نہیں تو وہ بالکل غلط ہے ‘ درست یہ ہے کہ نماز عصر کے بعد جب سورج غروب ہونے کے لیے جھک جائے اسکے بعد کوئی نفلی نماز نہیں ۔ کیونکہ جب تک سورج بلند ہو اس وقت تک نماز پڑھنے کی اجازت نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے دی ہے
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ وَهْبِ بْنِ الْأَجْدَعِ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ
سنن ابی داود کتاب الصلاۃ باب من رخص فیہما إذا کانت الشمس مرتفعۃ ح 1274
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ہاں اگر سورج ابھی بلند ہو تو پڑھی جاسکتی ہے ۔
اس ضمن میں جتنی بھی مطلق روایات ہیں وہ سب کی سب اس روایت کی وجہ سے مقید ہیں ۔ یعنی ممانعت سورج کے بلندی ختم ہونے کے بعد ہے مطلق نہیں ۔
خوب سمجھ لیں
اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز عصر کے بعد دو رکعتیں ادا فرماتے تھے بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو ان دو رکعتوں کے بارہ میں نہایت صراحت سے وضاحت فرماتی ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ قَالَتْ وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنْ الصَّلَاةِ وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْ
صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب ما یصلى بعد العصر من الفوائت ونحوھا ح 590
اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وفات دی ہے آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں حتى کہ خالق حقیقی سے جاملے ۔ اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اس وقت تک رفیق اعلى سے نہیں ملے جبتک آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز مشکل نہیں ہوئی اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اکثر بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے یعنی عصر کے بعد والی دو رکعتیں اور نبی صلى اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں بلکہ گھر میں پڑھتے تھے کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں امت پر مشقت نہ ہو اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم امت کے لیے تخفیف پسند فرماتے تھے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صراحت سے واضح ہوتا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان دو رکعتوں کا علم کیوں نہ ہوا ۔ اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم یہ عمل زندگی میں ایک دو بار نہیں بلکہ مستقل کیا ہے حتى کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ۔
اور یاد رہے کہ یہ عمل نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا خاصہ بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل امت کے لیے عام ہوتا ہے الا کہ خاصہ ہونے کی کوئی دلیل مل جائے ۔ اور ان دو رکعتوں کے خاصہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
بعض لوگ ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی قضائی دی تھی اور امت کو منع کر دیا تھا لیکن اس روایت میں " أفنقضیہما إذا فاتتا" کے الفاظ محفوظ نہیں ہیں
اور دوسری بات یہ ہے کہ ظہر کی دوسنتیں تو صرف ایک بار آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے قضاء ہوئی ہیں جبکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد یہ دو رکعتیں ہمیشہ پڑھی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو رکعتیں اور ہیں اور یہ دو رکعتیں اور ہیں
مزید تفصیل کے لیے یہ آڈیو سماعت فرمائیں :
مولانا محمد رفیق طاھر, جولائی 30, 2012