محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَدَّ كَثِيْرٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا۰ۚۖ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ۰ۚ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰى يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۱۰۹ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ۰ۭ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۱۱۰
۲؎ حسد وجمود بدترین لعنتیں ہیں۔ حدیث میں آتا ہے ۔ ھی الحالقۃ لااقول حالقۃ الشعر ولٰکن حالقۃ الدین یعنی حسد وبغض دین ودیانت کو بیخ وبن سے اکھاڑدینے والی چیز ہے ۔ایک حدیث میں فرمایا ہییہ داء الامم ہے یعنی تمام قوموں کی مشترکہ بیماری جس سے قومیں ہلاکت کے قریب پہنچ جاتی ہیں۔ضرور تھا کہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایاجائے اور بالخصوص جب کہ اس سے پہلی آیتوں میں یہودیوں کے راہ راست سے بھٹک جانے کا ذکر ہے اور اس کا سبب بتایا ہے کہ حسد وبغض کی انتہا۔
ان آیات میں تین چیزوں کی ہدایت کی گئی ہے ۔ نماز، زکوٰۃ اور تقدیم خیر کی ۔ نماز سے روح کی جلا ہوتی ہے ۔ قلب سے دوئی کا خیال اٹھ جاتا ہے ۔ سب خدا کے حضور میں بلاامتیاز جھک جاتے ہیں، اس لیے حسد وبغض کی گنجائش نہیں رہتی۔ زکوٰۃ سے محتاج وغنی میں رشتۂ مودت واخوت قائم ہوجاتا ہے اور تقدیم خیر سے عام تعاون باہمی پر آمادہ کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں چیزوں کے ہونے کے بعد کسی قوم میں حسد وبغض کی مہلک وبا نہیں رہتی۔ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی۔ تم جو کچھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کروگے، اس کا بہترین ثمرہ ضرور ملے گا، اس لیے کہ خدا ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
{یَرُدُّوْنَ} ماد ہ رد۔ لوٹانا {کُفَّارًا}جمع کافر۔{تَبَیَّنَ} ظاہرہوا{فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا} مادہ عفو معاف کردینا اور صَفْحٌ ۔ درگزر کردینا۔ {اَمْرٌ} بات۔ حکم۔ چیز۔
۱؎ مخاض بن عاذوراء اور زید بن قیس یہودی نے جب دیکھا کہ غزوہ احد میں عارضی شکست ہوگئی ہے تو انھوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عماررضی اللہ عنہ سے کہا۔ آؤ پھرسے یہودی ہوجاؤ۔ کیوں ہزیمت اٹھاتے ہو مسلمان رہ کر۔ حضرت عماررضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ تمہارے مذہب میں نقض عہد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ انھوں نے کہا ۔ بہت بری نظر سے ۔ فرمایا تو سن رکھو۔ میں نے یہ عہد کررکھا ہے کہ جیتے جی محمدﷺ سے بیزار نہیں ہونے کا۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔میں توبہرحال اللہ سے خوش ہوں، اس کے دین سے خوش ہوں، اس کی کتاب سے خوش ہوں، اس کے بنائے ہوئے قبلہ سے خوش ہوں اور مسلمانوں کی ہمہ گیر اخوت پر خوش ہوں۔ یہ سن کر وہ مایوس ہوگئے۔ بہرحال ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے ۔ ان آیات میں فرمایا کوئی مضائقہ نہیں۔ تم ان سب سیاہ کاریوں کو برداشت کرو اور معاف کردو۔ وقت آئے گا کہ حق خود بخود ظاہرہو جائے گا، اس لیے کہ اللہ کے لیے حالات کا بدل دینا کوئی مشکل نہیں۔اہل کتاب میں بہت لوگ ہیں جو بعد اس کے کہ ان پر حق ظاہر ہوچکا، اپنے دل میں حسد کرکے چاہتے ہیں کہ کسی طرح پھیر کر تم کومسلمان ہوئے پیچھے کافر کردیں۔ سو تم درگزر کرو اور خیال میں نہ لاؤ۔ یہاں تک کہ خدا اپنا حکم بھیجے۔ بیشک خدا ہرشے پر قادر ہے ۔۱؎ (۱۰۹) نماز قائم(کھڑی) رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور جو بھی بھلائی تم اپنی جانوں کے لیے آگے بھیجوگے، اس کو اللہ کے پاس پاؤگے۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے ۔۲؎(۱۱۰)
۲؎ حسد وجمود بدترین لعنتیں ہیں۔ حدیث میں آتا ہے ۔ ھی الحالقۃ لااقول حالقۃ الشعر ولٰکن حالقۃ الدین یعنی حسد وبغض دین ودیانت کو بیخ وبن سے اکھاڑدینے والی چیز ہے ۔ایک حدیث میں فرمایا ہییہ داء الامم ہے یعنی تمام قوموں کی مشترکہ بیماری جس سے قومیں ہلاکت کے قریب پہنچ جاتی ہیں۔ضرور تھا کہ اس کی روک تھام کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایاجائے اور بالخصوص جب کہ اس سے پہلی آیتوں میں یہودیوں کے راہ راست سے بھٹک جانے کا ذکر ہے اور اس کا سبب بتایا ہے کہ حسد وبغض کی انتہا۔
ان آیات میں تین چیزوں کی ہدایت کی گئی ہے ۔ نماز، زکوٰۃ اور تقدیم خیر کی ۔ نماز سے روح کی جلا ہوتی ہے ۔ قلب سے دوئی کا خیال اٹھ جاتا ہے ۔ سب خدا کے حضور میں بلاامتیاز جھک جاتے ہیں، اس لیے حسد وبغض کی گنجائش نہیں رہتی۔ زکوٰۃ سے محتاج وغنی میں رشتۂ مودت واخوت قائم ہوجاتا ہے اور تقدیم خیر سے عام تعاون باہمی پر آمادہ کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ان تینوں چیزوں کے ہونے کے بعد کسی قوم میں حسد وبغض کی مہلک وبا نہیں رہتی۔ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی۔ تم جو کچھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کروگے، اس کا بہترین ثمرہ ضرور ملے گا، اس لیے کہ خدا ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
حل لغات