- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
تقریبا ایک سال پہلے انٹرنیٹ پر مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب کی ایک تحریر پڑھی تھی جس کا عنوان تھا :
’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘
جس میں مفید باتیں بھی تھیں لیکن بہت ساری باتیں قابل اعتراض بھی تھیں ۔ اس مختصر تحریر کے اندر مولانا اپنے مخصوص انداز میں کافی ساری باتیں زیر بحث لائیں ہیں مثلا :
عقائد میں اختلاف کب شروع ہوا ؟
معتزلہ وغیرہ کی عقائد میں کیا غلطیاں تھیں ؟
اس زمانے کے علماء بالخصوص حنابلہ نے صحیح عقیدے کادفاع کیسے کیا ؟
اشاعر و ماتریدیہ نے عقدی مباحث کی گتھیاں کیسے سلجھائیں ؟
متأخرین حنابلہ (سلفیوں ) کا غلو اور اشاعرہ و ماتریدیہ سے اختلاف
صفات میں تأویل کرنے کا جواز اور عدم جواز کے قائلین کا تشدد
پھر آخر میں انہوں نے کہا اشاعرہ و ماتریدیہ اور حنابلہ (متقدمین سلفی ) سب برحق ہیں البتہ آج کل کے سلفی غلو کی وجہ سے جادہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں ۔
پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ فقہی مذاہب میں سے صرف مذاہب اربعہ حق پر ہیں ۔
اور اس طرح کی ملتی جلتی بہت ساری اس طرح کی آراء انہوں نے پیش کیں ۔
خیال آیا کہ ان کی اس تحریر کا جائزہ لینا چاہیے اور جو جو باتیں قابل اعتراض ہیں ان کی وضاحت کرنی چاہیے ۔
چنانچہ چند دنوں کے اندر اندر اختصار کے ساتھ دو مضمون سپردِ فورم کیے تھے :
مولانا سہارنپوری نے متأخرین حنابلہ یعنی سلفیوں پر جو غلو کا الزام لگایا تھا اس کو ثابت کرنے کے لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک من گھڑت حکایت کا سہارا لیا تھا اس مضمون میں اسی حکایت مصنوعہ و مزورہ کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اہل حدیث حضرات جب احادیث کی تحقیق کرتے ہیں اور ضعیف احادیث کا ضعف واضح کرتے ہیں تو کچھ لوگ ان کو معتزلہ کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح معتزلہ اپنی عقل کی نبیاد پر حدیثوں کو قبول و رد کرتے تھے اسی طرح تم اپنے مخالف احادیث کو رد کرتے ہو ۔ مولانا پالن پوری صاحب نے بھی یہی اعتراض اہل حدیث پر کیا ہے ۔ بالا چند سطور میں اسی بات کی حقیقت کوواضح کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ کون احادیث کو معتزلہ کی طرح رد کرتا ہے ؟
یہ تو مختصر سی دو بحثیں تھیں جو چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئیں اور اسی وقت فورم پر لگادی گئیں ۔
باقی چونکہ کافی پیچیدہ مسائل تھے لہذا فیصلہ کیا کہ خوب مطالعہ کرنے کےبعد کچھ لکھا جائے اور تقریبا ایک مہینہ تک کافی ساری کتابیں کھنگال بھی لیں تھیں لیکن بہر صورت معلومات کمیت و کیفیت میں اسقدر نہ تھیں کہ جن سے کوئی دوسرا بھی پڑھ کر نتیجہ پر پہنج سکے ۔ اور ویسے بھی چونکہ راقم خود ابھی طالب علمی مراحل سے گزر رہا ہے اس لیے ان تمام مباحث کو جن کا ذکر پالن پوری صاحب نے ایک مختصر مضمون میں چھیڑ دیا تھا اسی طرح کے مختصر مقالے میں سمیٹنا مشکل ہی ناممکن نظر آرہا تھا ۔
دوسری طرف مسئلہ یہ ہے آئے روز کسی نہ کسی علمی بحث میں کافی مطالعہ کرنا پڑ جاتا ہے ۔ اور ویسے بھی خیر سے طبیعت اس طرح کی ہے کہ وقت کو منظم و مرتب کرکے اس کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی بالکل بھی عادت پیدا نہیں ہورہی چار دن کسی ایک موضوع پر مطالعہ کیا پھر اس کو طاق نسیاں میں رکھ کر ایک نئے موضوع کے پیچھے پڑنے کی خواہش انگڑائیاں لینا شروع کردیتی ہے ۔ اسی طرح طالب جامعی کے لیے اساتذہ کی طرف سے بھی کافی بحوث کا مطالبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے جو کام چند دن کے لیے رک گیا سمجھیں پکا پکا رک گیا ۔
یہی حال اس مضمون ’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘ کے جائزے کا ہوا ہے ۔ کہ ایک سال پہلے جو کچھ کیا جوں کا توں پڑا ہوا ہے ۔ اور ابھی تک کوئی امید نہیں کہ مزید اس سلسلے میں کچھ کر پاؤں گا لہذا سوچا جو کچھ ہوگیا ہے اس کی کانٹ چھانٹ کرکے قارئین کی نذر کردینا چاہیے ۔
آئندہ سطور میں تأویل کی تعریف ، مختلف اطلاقات ، اس کے نقصانات ، حکم اور اس سے ملتے جلتے چند الفاظ پر مشتمل کچھ معلومات پیش خدمت ہیں
’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘
جس میں مفید باتیں بھی تھیں لیکن بہت ساری باتیں قابل اعتراض بھی تھیں ۔ اس مختصر تحریر کے اندر مولانا اپنے مخصوص انداز میں کافی ساری باتیں زیر بحث لائیں ہیں مثلا :
عقائد میں اختلاف کب شروع ہوا ؟
معتزلہ وغیرہ کی عقائد میں کیا غلطیاں تھیں ؟
اس زمانے کے علماء بالخصوص حنابلہ نے صحیح عقیدے کادفاع کیسے کیا ؟
اشاعر و ماتریدیہ نے عقدی مباحث کی گتھیاں کیسے سلجھائیں ؟
متأخرین حنابلہ (سلفیوں ) کا غلو اور اشاعرہ و ماتریدیہ سے اختلاف
صفات میں تأویل کرنے کا جواز اور عدم جواز کے قائلین کا تشدد
پھر آخر میں انہوں نے کہا اشاعرہ و ماتریدیہ اور حنابلہ (متقدمین سلفی ) سب برحق ہیں البتہ آج کل کے سلفی غلو کی وجہ سے جادہ حق سے ہٹے ہوئے ہیں ۔
پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ فقہی مذاہب میں سے صرف مذاہب اربعہ حق پر ہیں ۔
اور اس طرح کی ملتی جلتی بہت ساری اس طرح کی آراء انہوں نے پیش کیں ۔
خیال آیا کہ ان کی اس تحریر کا جائزہ لینا چاہیے اور جو جو باتیں قابل اعتراض ہیں ان کی وضاحت کرنی چاہیے ۔
چنانچہ چند دنوں کے اندر اندر اختصار کے ساتھ دو مضمون سپردِ فورم کیے تھے :
مولانا سہارنپوری نے متأخرین حنابلہ یعنی سلفیوں پر جو غلو کا الزام لگایا تھا اس کو ثابت کرنے کے لیے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک من گھڑت حکایت کا سہارا لیا تھا اس مضمون میں اسی حکایت مصنوعہ و مزورہ کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
اہل حدیث حضرات جب احادیث کی تحقیق کرتے ہیں اور ضعیف احادیث کا ضعف واضح کرتے ہیں تو کچھ لوگ ان کو معتزلہ کے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح معتزلہ اپنی عقل کی نبیاد پر حدیثوں کو قبول و رد کرتے تھے اسی طرح تم اپنے مخالف احادیث کو رد کرتے ہو ۔ مولانا پالن پوری صاحب نے بھی یہی اعتراض اہل حدیث پر کیا ہے ۔ بالا چند سطور میں اسی بات کی حقیقت کوواضح کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ کون احادیث کو معتزلہ کی طرح رد کرتا ہے ؟
یہ تو مختصر سی دو بحثیں تھیں جو چند گھنٹوں میں مکمل ہوگئیں اور اسی وقت فورم پر لگادی گئیں ۔
باقی چونکہ کافی پیچیدہ مسائل تھے لہذا فیصلہ کیا کہ خوب مطالعہ کرنے کےبعد کچھ لکھا جائے اور تقریبا ایک مہینہ تک کافی ساری کتابیں کھنگال بھی لیں تھیں لیکن بہر صورت معلومات کمیت و کیفیت میں اسقدر نہ تھیں کہ جن سے کوئی دوسرا بھی پڑھ کر نتیجہ پر پہنج سکے ۔ اور ویسے بھی چونکہ راقم خود ابھی طالب علمی مراحل سے گزر رہا ہے اس لیے ان تمام مباحث کو جن کا ذکر پالن پوری صاحب نے ایک مختصر مضمون میں چھیڑ دیا تھا اسی طرح کے مختصر مقالے میں سمیٹنا مشکل ہی ناممکن نظر آرہا تھا ۔
دوسری طرف مسئلہ یہ ہے آئے روز کسی نہ کسی علمی بحث میں کافی مطالعہ کرنا پڑ جاتا ہے ۔ اور ویسے بھی خیر سے طبیعت اس طرح کی ہے کہ وقت کو منظم و مرتب کرکے اس کے مطابق ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی بالکل بھی عادت پیدا نہیں ہورہی چار دن کسی ایک موضوع پر مطالعہ کیا پھر اس کو طاق نسیاں میں رکھ کر ایک نئے موضوع کے پیچھے پڑنے کی خواہش انگڑائیاں لینا شروع کردیتی ہے ۔ اسی طرح طالب جامعی کے لیے اساتذہ کی طرف سے بھی کافی بحوث کا مطالبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے جو کام چند دن کے لیے رک گیا سمجھیں پکا پکا رک گیا ۔
یہی حال اس مضمون ’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘ کے جائزے کا ہوا ہے ۔ کہ ایک سال پہلے جو کچھ کیا جوں کا توں پڑا ہوا ہے ۔ اور ابھی تک کوئی امید نہیں کہ مزید اس سلسلے میں کچھ کر پاؤں گا لہذا سوچا جو کچھ ہوگیا ہے اس کی کانٹ چھانٹ کرکے قارئین کی نذر کردینا چاہیے ۔
آئندہ سطور میں تأویل کی تعریف ، مختلف اطلاقات ، اس کے نقصانات ، حکم اور اس سے ملتے جلتے چند الفاظ پر مشتمل کچھ معلومات پیش خدمت ہیں