﷽
اللهم أرنا الحق حقا وأرزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وأرزقنا اجتنابهْ
محترم ریحان بھائی! ہمارے مذہبی مباحث در مباحث کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر شخص خواہ مذہب سے نابلد کیوں نہ ،لیکن جو وہ چار حروف جانتا ہے ،اپنے تئیں وہ مفتی بنا پھرتا ہے،آپ کسی سے کہے کہ جوتی سلائی کر دو،کپڑا سی دو، تو وہ فوراً کہے گا کہ جاؤمتعلقہ فن کے آدمی سے بات کرو،مگر جب باری مذہب کی آتی ہے تو ہر شخص کیوں علامہ بن جاتا ہے ،اگر بات اسماء الرجال کی ہو،تو محدثین کو دیکھا جائے گا،اگر تفسیر کی مفسرین کی آراء پر غور کیا جائے گا،اسی طرح جب بات علم احسان و سلوک کی ہو گئی تو پھر صوفیاء عظام رحمہ اللہ سے استفادہ کیا جائے گا،اور بات پھر اگر پلے نہ پڑے تو کسی صوفی کامل کے پاس حاضری دیکر بالمشافہ ملاقات سے بات کو سمجھا جا سکتا ہے ،ان کاوشوں کے سلسلے میں خاکسار نے عملی طور پرجو جانا یا سمجھا پیش خدمت ہے۔
ہمارے معاشرے میں بعض وہ بدبخت لوگ ہیں جنہیں صوفیاء عظام سے اللہ رسول کا بیر ہے ،بس جہاں دیکھا فوراً فتوی گاڑھ دیا۔علم سلوک بعینہ ایسا ہی ہے ،جیسا ہمارے مدارس میں علوم سیکھنے کے مختلف درجات، علوم ظاہری اور باطنی میں فرق یہ ہے کہ علوم ظاہری میں کے حصول میں کفیات شرط نہیں ،جب علم سلوک کفیات مطلوب ہیں۔علم ظاہری الفاظ سے حروف و سکنات سے سیکھا جا تا ہے ،حتی کہ ایمان نہ بھی ہو تو بندہ حروف و الفاظ زبانی یاد کر لیتا ہے ،سیکھ جاتا ہے ۔
علم سلوک الفاظ کا محتاج نہیں،یہ قلب اور روح کا معاملہ ہے اور انعکاسی طور پر آنحضرتﷺ سے لیکر سینہ بہ سینہ یہ علم آج تک منتقل ہو رہا ہے۔اسکے لئے شیخ کامل کی صحبت اور ایمان و بنیادی شرط ہے ورنہ یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا۔الحمد للہ اس پر قرآن وسنت سے مکمل دلائل موجود ہیں ،اگر آپکا مطالبہ ہوا تو وہ بھی پیش کر دیجئے گے۔
اب جن لوگوں نے یہ علم حاصل کیا ،وہ جب مختلف مقامات سے گزرے یا پھر یہ علم سکھلانے کے لئے مختلف درجہ بتدرجہ اس عمل کی ضرورت پڑی تو علم ظواہر کی طرح اسکے مختلف درجات کو مختلف نام دئے گئے ،ان ہی میں اسے ایک مقام مراقبہ فنا و بقا ہے ، اب جو لوگ علم سلوک حاصل کرتے ہیں ۔انہیں دو طرح کے معملات پیش آتے ہیں، انہیں یا تو وجدان ہو گا یا کشف۔ وجدان سے مراد یہ کہ صرف کفیات محسوس کریں گا نظر کچھ بھی نہیں آئے گا ،اسی طرح کشف میں کفیت بھی محسوس ہوتی ہے اور نظر بھی آتا ہے۔اب جب فنا بقا کا مراقبہ کیا جاتا ہے ، تو اس وقت جو کفیت گزرتی ہے اس پر وحدت الوجود کی ساری بحث ہے،میں شاید اپنے الفاظ میں وہ کفیت بیان نہ کر سکوں ،ماہنامہ المرشد میں صاحب حال صوفی نے کیا کمال سے اس کفیت کو قلم بند کیا ہے ۔
(بحوالہ ماہنامہ المرشد فروری اور مارچ 2007)
صوفیا کے مختلف مراقبات اور مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔جس طرح علوم ظاہری میں اسباق چلتے ہیں اسی طرح کیفیات باطنی بھی سبق درسبق چلتی ہیں اور ان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔ جن دوستوں کے اسباق ہیں وہاں تک اور جنہیں مشاہدہ ہے اندازہ فرماتے ہوں گے کہ جب ’’ مراقبہ فنا ‘‘ کیا جاتاہے تو اس میں ہر چیز فنا ہوتی نظر آتی ہے حتیٰ کہ ساری کائنات فنا ہو جاتی ہے کچھ باقی نہیں بچتا ۔ کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ ہر چیز فنا ہوجاتی ہے ۔اس کے بعد جب بقاباللہ کا مراقبہ کیا جاتا ہے ۔و یبقی ٰ وجہ ربک ذوالجلال والا کرام تو ہر وجود کے ساتھ قادر مطلق کے انوارت نظرآتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے وہ قائم ہے تو سامنے سمجھ آرہی ہے کہ قائم بذات صرف اللہ کی ذات ہے باقی سارے وجود اس کے قائم بذات صرف اللہ کی ذات ہے باقی سارے وجود اس کے قائم رکھنے سے قائم ہیں ۔ اس کے بنانے سے بنتے ہیں اور اس کے مٹانے سے مٹ جاتے ہیں ان کی اپنی ذاتی کوئی حثییت نہیں ہے ۔ جب اس کیفیت سے صوفیا ء گزرے تو انہوں نے کہا کہ وجودراصل ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے ۔جو ازل سے ابد تک ہے ، ہمیشہ ہے ،ہر حال میں ہے ہر جگہ ہے ۔ باقی نہ ہونے کے برابر ہیں اور صرف اس کے قائم رکھنے سے قائم رہتے ہیں اس کے مٹا دینے سے مٹ جاتے ہیں ان کی کوئی ذاتی حثییت نہیں ہے ۔ اسے’وحدت الوجود ‘ کا نام دیا گیا ہے کہ وجود صرف ایک ہے واحد لا شریک ہے۔باقی وجودوں کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے ۔شیخ محی لدین عربی ؒ نے جب اس نظر یے کو اپنی کتاب میں جگہ دی اور اس پر بحث فرمائی تو پھر یہ مستقل ایک نظریہ بن گیا ۔ لیکن اس کا مفہوم یہ تھا جو میں عرض کر رہا ہوں۔
کاملین سے جاہلین
یہ بات کا ملین کی تھی ، اہل علم کی تھی ۔بعد میں جب لوگ آئے ان کا کمال نہ علوم باطنی میں اس پائے کا تھا نہ علوم ظاہری میں ان کے علوم اس پائے کے تھے تو اس میں ایک قبا حت آگئی ۔ بجائے اس کے کہ یہ سمجھا جاتاکہ اللہ ہی باقی ہے جو کچھ ہے یہ فانی ہے سمجھا یہ جانے لگا کہ ہر وجود میں اللہ ہے ۔وحدت الوجود کاجو مفہوم تھا وہ یکسر بدلنے لگا تو یہ ہندؤوں والا عقیدہ بننے لگ تھا جیسے ہر وہ طاقت جسے وہ ناقا بل تسخیر سمجھتے ہیں کہ اس میں بھگوان موجود ہے ۔ بڑا پہاڑ ہوتو اس کی پوجا شروع کر دو، بڑا درخت ہو تو اس کی پو جاشروع کر دو ۔کو ئی بھی جانور ایسا ہوتا جو قابو نہ آئے تو اس کی پوجا شروع کرنا کہ اس میں بھگوان ہے ۔تو وہ اس میں قبا حتیں در آئیں نااہلوں کی وجہ سے وہ یہ تھیں ۔ ان قباحتوں کی وجہ سے حضرت الف ثانی ؒ نے اس کے مقابلے میں کروحدت الشہود کا لفظ دیا کہ ہر چیز ہر وجود اس کی وحدت پہ گواہ ہے یعنی ہر وجود کی ذات ہے وہ اس کی قدرت کاملہ پہ گواہ ہے ۔اس کی شہادت دے ہی ہے تو ان قباحتوں سے بچنے کے لئے اس کی اصلاحی صورت تشکیل دی گئی جس میں خطرہ کم تھا یا نہ ہونے کے برابرتھا ۔اب جسے گمراہ ہونا ہو اور کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھے کہ اللہ کریم اسے رو کر دے تو گمراہ ہوتا ہی ہے ۔
ویھدی الیہ من ینیب قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے لو گ اس کی وجہ سے اعتراض تراش کر گمراہ ہو جاتے ہیں تو جو آب حیات پی کر مر جائے اب اس کا علاج ہے لیکن وہ خطرات ختم ہو گئے اور اصل بات نکھر کر سامنے آگئی ۔ اسے حقوق دے ہیں اسے زندگی سی ہے یا اسے شعور دیا ہے لیکن وہ گواہ ہے اللہ کی قدرت کاملہ پر ۔وہ انسان ہے یا حیوان ہے ‘ جاندار ہے نباتات ہے ، آسمان ہے یا زمین ہے ‘ کوئی وجود بھی ہے تو وہ ایک شہادت دے رہا ہے اور سب شہادت جو ہے وہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ہے ، اس کے خالق اور اس کی قادر مطلق ہونے پر ہے تو یہ ان خطرات سے بچنے کے لئے جو لوگوں کی علمی یا باطنی استعداد کی کمزوری کی وجہ سے وحدت الوجود کیاا صطلا ح سے در آئے تھے ان سے بچنے کیلئے جو لوگوں کی علمی یا باطنی استعداد کی کمزوری کی وجہ سے وحدت الوجود کی اصطلاح سے در آئے تھے ان بچنے کے لئے یہ راستہ اپنایا گیا ۔ وحدت الشہود کا تو یہ اصطلاحات ہیں یہ نظریات نہیں ہیں یہ اصطلاحات ہیں ۔
نظریات یا عقائدوہی ہیں جو شریعت مطہرہ نے بیان فرما دئیے ۔( حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مد ظلہ عالی)
نظریات یا عقائد وہی ہیں جو شریعت مطہرہ نے بیا ن فرمادئیے ۔اب مختلف کیفیات کے اظہار کے لئے مختلف اصطلاحات ہیں جن سے اس کی کیفیت کا اظہار مطلوب ہے ۔ تو اپنی اصل دونوں درست ہیں ان میں اختلاف نہیں ہے ۔ صرف یہ ہے کی وحدت الوجود جب کہاگیا تو اس میں خطرات درآئے اور بجائے اس کے یہ سمجھاجا کہ ہر وجود جو ہے اسکی ذاتی کوئی حثییت نہیں ہے سمجھایہ جانے لگاکہ ہر وجود اللہ ہے ۔تو اس کی اصطلاح حضرت مجددؒ جو لائے وہ تھی وحدت پر ہے ۔اس کے خالق کائنات ،خالق کل اور قادرمطلق ہونے پر ہے تو وہ نظریات ہیں جن کے پاس علوم ظاہربھی ہوں اور انہیں کمالات باطنی بھی حاصل ہوں ۔تو عموماًاہل علم جو اس شعبے میں آتے ہیں تو یہ ان کے بحث کرنے کی باتیں ہیں اور اپنے علم کے مطا بق اسے سمجھتے ہیں اور اس میں غلطیاں ہوتی ہیں ۔دراصل بات ایک ہی ہے اس کے لئے اصطلاحیں دو ہیں اور یہ بنیادی عقیدہ ہے اسلام کا اس میں سے ہے کہ قائم بذات صرف اللہ ہے باقی ہر چیز فانی ہے اور جسے اللہ بناتا ہے بنتی ہے جسے اللہ مٹادیتاہے مٹ جاتی ہے ۔
کو ئی تشریح ان حدود سے متجاوزنہیں ہونی چاہیے جو شریعت مطہرہ نے متعین فرمادی ہیں
تشریح کی حدود متعین کرتے ہوئے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ عالی نے فرمایا:
یہ ایسا فن ہے کہ اسمیں ہر شخص کو اپنی استعداد اور اپنی علمی استعداد جس طرح اللہ کریم نے مختلف استعداددی ہے علم ظاہر کے لئے ۔دو شخص اکٹھے پڑھتے ہیں ایک استاد سے پڑھتے ہیں ایک جیسی کتابیں پڑھتے ہیں لیکن دونوں کی حثییت الگ الگ ہوتی ہے ۔اس لئے کہ دونوں کی اپنی استعداد جو ہے حصول علم کی وہ الگ ہوتی ہے ۔اس طرح بے شمار لوگ اللہ اللہ سیکھتے ہیں ،کیفیات باطنی حاصل کرتے ہیں ایک ہی استاد سے ایک ہی وقت میں کرتے رہتے ہیں لیکن ہر حال الگ ہوتاہے ۔ جس طرح کی کیفیات کی استعداد اللہ کریم نے اسکے وجود میں رکھی ہوتی ہے اس طرح کی کیفیات بھی حاصل کرتاہے اور جس طرح کا شعورو آگہی کا مادہ اس میں اللہ کریم نے رکھا ہوتاہے اسی طرح سے وہ سمجھتاہے ۔تو اصولی بات یہ ہے کہ جو بنیادی عقائدہیں شریعت کے اصل ہیں ۔آگے یہ سب تشریحات ہیں اور کوئی تشریح ان حدودسے متحاوزنہیں ہونی چاہیے جو شریعت مطہرہ نے متعین فرمادی ہیں ۔ان حدودکے اندروضاحتیں ہیں تفصیلات ہیں ۔جیسے قرآن حکیم کی تفسیر میں بے شمار تفصیل لکھی حضرات نے اللہ مفسرین کرام پرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے لیکن اس سب کا معیار یہ ہے کہ وہ جتنی تفصیل میں چلے جائیں وہ تفصیل ان حدود کے اندرہونی چاہئے جو حضوراکرمﷺ نے متعین فرمادیں ۔ شارحیں حدیث نے حدیث مبارکہ پر بڑی لمبی بحثیں فرمائی ہیں۔مختلف لوگوں نے اعتراض کئے ۔حضرات نے ان کے جواب دئیے اور ایک ایک حدیث پر بہت بڑی بڑی لمبی بحثیں ہیں تو شرط بنیادی صرف یہ ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کی مراد رتھی ۔ارشاد سے آپ ﷺ کی مراد کیا تھی اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس کا کیامفہوم سمجھا، اس پر حضورﷺ کے سامنے کیسے عمل کیا اور حضور ﷺ نے اسکی تصدق فرمائی وہ ہوجاتی ہے ۔ ان الفاط سے مراد کیا تھا اس حد کے اندر جتنی تشریح ، جتنی تفصیل ہوتی رہے ۔جب اس حد سے متصادم ہو گی تو باطل ہو جائے گی ۔چو نکہ حق اس کے اندر ہے ۔اس طرح صوفیا کے مراقبات ہوتے ہیں کیفیات ہوتی ہیں مختلف کیفیات سمجھتے ہیں وہ اور ان کی تعبیر ات ان کو دیتے ہیں لیکن اس سب کی شرط یہی ہے کہ شریعت مظہرہ کی حدود کے اندجو کچھ ہے وہ حق ہے جہاں سے کسی کی کیفیت یا کسی کا کشف یا کسی کا الہام شریعت سے متصادم ہوگا تو باطل ہو جائے گا اور شریعت بر حق ہے ۔
وحی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ عالی نے فرمایا:
ہوتایہ ہے کہ انبیا ء علیہم الصلوۃ والسلام نے بھی ساری شریعت کشف وا لہام سے ، وحی سے حاصل فرمائی ۔وحی کی کیفیت بھی صرف نبی پہ ظاہر ہوتی ہے کوئی دوسرا جو پاس بیٹھا ہوا اور وحی نازل ہو رہی ہوتو دوسرے کو سمجھ نہیں آتی ۔اس طرح کشف و الہام بھی صاحب کشف والہام پہ وارد ہوتاہے کوئی ساتھ دوسرا بیٹھا ہواسے سمجھ نہیں آتی ۔لیکن نبی کریم ﷺ پر جو وارد ہوتااس میں دوباتیں یقینی تھیں ۔اس میں ایک تو حضور ﷺ پہ جوکچھ واردہوتاوہ حق ہوتا تھا۔اس میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔دوسری بات یہ حق ہوتی تھی کہ جو کچھ حضور پہ وحی یا کشف سے ‘ یا نبی کا خواب بھی وحی الہیٰ ہوتاہے ‘ خواب سے اگر کوئی بات نبی پہ وارد ہوتی ہے تو وہ بھی وحی ہوتی ہے اور وہ بھی برحق ہوتی ہے نہ اس میں شیطان مداخلت کرتا ہے اورنہ اللہ کے نبی کوسمجھنے میں غلطی لگتی ہے۔
صوفیا ء اور انبیا ء کے کشف اور مجاہدہ میں فرق :
جو کشف اور مجاہدہ صوفیاء کو ہوتاہے وہ بھی وہی ہوتاہے جو نبی کو ہوتاہے ۔اس لئے کہ باتباع نبی اور نبی کی اطاعت میں فنا ہونے سے وہ برکات نصیب ہوتی ہیں ۔لیکن یہاں بہت بڑا فرق ہے ۔صوفی کے مشاہدے یا اس کے القایا کشف میں شطان بھی مداخلت کرسکتاہے ۔یہ دونوں خطرات ولی کے ساتھ موجود ہیں جو نبی کے ساتھ نہیں ہیں ،لہٰذاہر ولیٰ االلہ کا کشف ومشاہدہ محتاج ہے نبی کے ارشادات عالیہ کا ۔ اگر حضور ﷺ کے احکام کی حدود کے اندر ہے ،اس کے مطابق ہے تو درست ہے اگر متصادم ہے تو باطل ہے ۔دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ جو کشف نبی کو ہوتوہے ،جوا لہام نبی ہوتا ہے ،جو وحی نبی پہ آتی ہے ، جو خواب اللہ کا نبی دیکھتا ہے ساری امت اس کی مکلف ہوتی ہے۔پوری امت کو وہ ماننا پڑتا ہے ۔ جو مشاہدہ ولی کو ہوتا ہے کو ئی دوسرا بندہ اس کا مکلف نہیں ۔صاحب مشاہدہ اگر اس کا مشاہدہ شرعی حدود کے اندر ہے تو اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے کہ فلاں کو یہ کشف ہوااس لئے میں یہ عمل کروں ۔ یہ شان صرف انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام کی ہے تو لہذا کو ئی بھی نظریہہو یا اسے آپ اصطلاح کہیں یا کشف کہیں یا مشاہدہ کہیں تو بنیاد شریعت مطہرہ ہے اور ارشادات نبوی ﷺاور قرآن اور حدیث ہے اور سنت ہے اس کے اندر اندر اس کی تشریحات اس کی تفصیلات علماء کو اللہ کریم علم کے راستے بتادیتاہے ،علم کے ذریعے سے سمجھا دیتا ہے اور بڑی بڑی بحثیں علماء حضرات نے فرمائی ہیں اور علما ہی کو مشاہدات بھی نصیب ہوتے ہیں ۔جو اس طرف آجائے اس اللہ کریم کشف اور مشاہدے سے سرفراز فرماتے ہیں ان کے کشف سے کوئی نیا حکم جاری نہیں ہو سکتااور شرعی حدود سے باہر بھی نہیں ہو سکتیں ۔اسلام تو ارشادات نبویﷺ کا نام ہے ، اسلام تو اعمال نبوی کا نام ہے ،اسلام تواخلاق نبوی ﷺکا نام ہے ۔جو حضور ﷺ نے سکھادیا وہ اسلام ہے۔ "((بحوالہ ماہنامہ المرشد فروری اور مارچ 2007)
محترم ریحان بھائی ! دکھ اس بات کا ہے کہ اور حیرانگی بھی ہے کہ ایک آدمی کا علم علم سلوک سے کوئی تعلق ہی نہیں اور پھر وہ صوفیاء کی کفیات ( مثلاً وحدت الوجود ، مکاشفات وغیرہ) پر بحث کرتا ہے ،جن پر ایک عالم بھی اور صوفی بھی ہو تو بات کرنے سے ہچکچاتا ہے ،کیونکہ کفیات کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
اب رہی ابن عربیؒ کی بات تو ان کی بات کو جاننے کے لئے قدیم فلسفہ میں مہارت کی ضرورت ہے ،بڑے بڑے صاحب علم لوگوں نے کہا کہ ابن عربی اصطلاحات کی بھر مار کرتے ہیں،اور ان کی بات کو سمجھنا آسان نہیں ،ابو الحسن علوی حفظ اللہ نے فورم پر یہی بات فرمائی ہے۔
اور آخری بات یہ ہے کہ اس دور میں علم سلوک نا پید ہو چکا ہے ،خال خال کوئی اس کی الف ،ب،جاننے والا ملتا ہے ،اب عام عوام کو تو معلوم بھی نہیں کوئی یہ مسلئہ زیر بحث بھی ہے ،لہذا میرے خیال اب اس پر زیادہ لے دے کی ضرورت بھی نہیں ہے ،اور جو حقیقت ہے وہ بیان کر دیگئی ہے۔علماء اہلحدیث کے فتوی جات کے ھوالے سے پھر سہی۔