• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ وحدت الوجود کیا ہے اور اس کی اصل تعریف کیا ہے؟

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
السلام علیکم!

میں ایک جگہ عرض کیا تھا کہ قائلین تصوف آج تک وحدت الوجود کی متفقہ تعریف پیش نہیں کرسکے تو عزمی بھائی نے کہا کہ اس بارے میں ایک نیا دھاگہ بنایا جائے۔

اس دھاگہ میں سوال کے مطابق صرف وحدت الوجود کی تعریف پر ہی بحث کریں اور غیر اخلاقی گفتگو سے پرہیز کریں۔ جزاک اللہ
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
اللهم أرنا الحق حقا وأرزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وأرزقنا اجتنابهْ
محترم ریحان بھائی! ہمارے مذہبی مباحث در مباحث کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر شخص خواہ مذہب سے نابلد کیوں نہ ،لیکن جو وہ چار حروف جانتا ہے ،اپنے تئیں وہ مفتی بنا پھرتا ہے،آپ کسی سے کہے کہ جوتی سلائی کر دو،کپڑا سی دو، تو وہ فوراً کہے گا کہ جاؤمتعلقہ فن کے آدمی سے بات کرو،مگر جب باری مذہب کی آتی ہے تو ہر شخص کیوں علامہ بن جاتا ہے ،اگر بات اسماء الرجال کی ہو،تو محدثین کو دیکھا جائے گا،اگر تفسیر کی مفسرین کی آراء پر غور کیا جائے گا،اسی طرح جب بات علم احسان و سلوک کی ہو گئی تو پھر صوفیاء عظام رحمہ اللہ سے استفادہ کیا جائے گا،اور بات پھر اگر پلے نہ پڑے تو کسی صوفی کامل کے پاس حاضری دیکر بالمشافہ ملاقات سے بات کو سمجھا جا سکتا ہے ،ان کاوشوں کے سلسلے میں خاکسار نے عملی طور پرجو جانا یا سمجھا پیش خدمت ہے۔​
ہمارے معاشرے میں بعض وہ بدبخت لوگ ہیں جنہیں صوفیاء عظام سے اللہ رسول کا بیر ہے ،بس جہاں دیکھا فوراً فتوی گاڑھ دیا۔علم سلوک بعینہ ایسا ہی ہے ،جیسا ہمارے مدارس میں علوم سیکھنے کے مختلف درجات، علوم ظاہری اور باطنی میں فرق یہ ہے کہ علوم ظاہری میں کے حصول میں کفیات شرط نہیں ،جب علم سلوک کفیات مطلوب ہیں۔علم ظاہری الفاظ سے حروف و سکنات سے سیکھا جا تا ہے ،حتی کہ ایمان نہ بھی ہو تو بندہ حروف و الفاظ زبانی یاد کر لیتا ہے ،سیکھ جاتا ہے ۔​
علم سلوک الفاظ کا محتاج نہیں،یہ قلب اور روح کا معاملہ ہے اور انعکاسی طور پر آنحضرتﷺ سے لیکر سینہ بہ سینہ یہ علم آج تک منتقل ہو رہا ہے۔اسکے لئے شیخ کامل کی صحبت اور ایمان و بنیادی شرط ہے ورنہ یہ علم حاصل نہیں ہو سکتا۔الحمد للہ اس پر قرآن وسنت سے مکمل دلائل موجود ہیں ،اگر آپکا مطالبہ ہوا تو وہ بھی پیش کر دیجئے گے۔​
اب جن لوگوں نے یہ علم حاصل کیا ،وہ جب مختلف مقامات سے گزرے یا پھر یہ علم سکھلانے کے لئے مختلف درجہ بتدرجہ اس عمل کی ضرورت پڑی تو علم ظواہر کی طرح اسکے مختلف درجات کو مختلف نام دئے گئے ،ان ہی میں اسے ایک مقام مراقبہ فنا و بقا ہے ، اب جو لوگ علم سلوک حاصل کرتے ہیں ۔انہیں دو طرح کے معملات پیش آتے ہیں، انہیں یا تو وجدان ہو گا یا کشف۔ وجدان سے مراد یہ کہ صرف کفیات محسوس کریں گا نظر کچھ بھی نہیں آئے گا ،اسی طرح کشف میں کفیت بھی محسوس ہوتی ہے اور نظر بھی آتا ہے۔اب جب فنا بقا کا مراقبہ کیا جاتا ہے ، تو اس وقت جو کفیت گزرتی ہے اس پر وحدت الوجود کی ساری بحث ہے،میں شاید اپنے الفاظ میں وہ کفیت بیان نہ کر سکوں ،ماہنامہ المرشد میں صاحب حال صوفی نے کیا کمال سے اس کفیت کو قلم بند کیا ہے ۔​

(بحوالہ ماہنامہ المرشد فروری اور مارچ 2007)​
صوفیا کے مختلف مراقبات اور مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔جس طرح علوم ظاہری میں اسباق چلتے ہیں اسی طرح کیفیات باطنی بھی سبق درسبق چلتی ہیں اور ان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں ۔ جن دوستوں کے اسباق ہیں وہاں تک اور جنہیں مشاہدہ ہے اندازہ فرماتے ہوں گے کہ جب ’’ مراقبہ فنا ‘‘ کیا جاتاہے تو اس میں ہر چیز فنا ہوتی نظر آتی ہے حتیٰ کہ ساری کائنات فنا ہو جاتی ہے کچھ باقی نہیں بچتا ۔ کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ ہر چیز فنا ہوجاتی ہے ۔اس کے بعد جب بقاباللہ کا مراقبہ کیا جاتا ہے ۔و یبقی ٰ وجہ ربک ذوالجلال والا کرام تو ہر وجود کے ساتھ قادر مطلق کے انوارت نظرآتے ہیں ۔ جن کی وجہ سے وہ قائم ہے تو سامنے سمجھ آرہی ہے کہ قائم بذات صرف اللہ کی ذات ہے باقی سارے وجود اس کے قائم بذات صرف اللہ کی ذات ہے باقی سارے وجود اس کے قائم رکھنے سے قائم ہیں ۔ اس کے بنانے سے بنتے ہیں اور اس کے مٹانے سے مٹ جاتے ہیں ان کی اپنی ذاتی کوئی حثییت نہیں ہے ۔ جب اس کیفیت سے صوفیا ء گزرے تو انہوں نے کہا کہ وجودراصل ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے ۔جو ازل سے ابد تک ہے ، ہمیشہ ہے ،ہر حال میں ہے ہر جگہ ہے ۔ باقی نہ ہونے کے برابر ہیں اور صرف اس کے قائم رکھنے سے قائم رہتے ہیں اس کے مٹا دینے سے مٹ جاتے ہیں ان کی کوئی ذاتی حثییت نہیں ہے ۔ اسے’وحدت الوجود ‘ کا نام دیا گیا ہے کہ وجود صرف ایک ہے واحد لا شریک ہے۔باقی وجودوں کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے ۔شیخ محی لدین عربی ؒ نے جب اس نظر یے کو اپنی کتاب میں جگہ دی اور اس پر بحث فرمائی تو پھر یہ مستقل ایک نظریہ بن گیا ۔ لیکن اس کا مفہوم یہ تھا جو میں عرض کر رہا ہوں۔​
کاملین سے جاہلین​
یہ بات کا ملین کی تھی ، اہل علم کی تھی ۔بعد میں جب لوگ آئے ان کا کمال نہ علوم باطنی میں اس پائے کا تھا نہ علوم ظاہری میں ان کے علوم اس پائے کے تھے تو اس میں ایک قبا حت آگئی ۔ بجائے اس کے کہ یہ سمجھا جاتاکہ اللہ ہی باقی ہے جو کچھ ہے یہ فانی ہے سمجھا یہ جانے لگا کہ ہر وجود میں اللہ ہے ۔وحدت الوجود کاجو مفہوم تھا وہ یکسر بدلنے لگا تو یہ ہندؤوں والا عقیدہ بننے لگ تھا جیسے ہر وہ طاقت جسے وہ ناقا بل تسخیر سمجھتے ہیں کہ اس میں بھگوان موجود ہے ۔ بڑا پہاڑ ہوتو اس کی پوجا شروع کر دو، بڑا درخت ہو تو اس کی پو جاشروع کر دو ۔کو ئی بھی جانور ایسا ہوتا جو قابو نہ آئے تو اس کی پوجا شروع کرنا کہ اس میں بھگوان ہے ۔تو وہ اس میں قبا حتیں در آئیں نااہلوں کی وجہ سے وہ یہ تھیں ۔ ان قباحتوں کی وجہ سے حضرت الف ثانی ؒ نے اس کے مقابلے میں کروحدت الشہود کا لفظ دیا کہ ہر چیز ہر وجود اس کی وحدت پہ گواہ ہے یعنی ہر وجود کی ذات ہے وہ اس کی قدرت کاملہ پہ گواہ ہے ۔اس کی شہادت دے ہی ہے تو ان قباحتوں سے بچنے کے لئے اس کی اصلاحی صورت تشکیل دی گئی جس میں خطرہ کم تھا یا نہ ہونے کے برابرتھا ۔اب جسے گمراہ ہونا ہو اور کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھے کہ اللہ کریم اسے رو کر دے تو گمراہ ہوتا ہی ہے ۔​
ویھدی الیہ من ینیب قرآن حکیم کتاب ہدایت ہے لو گ اس کی وجہ سے اعتراض تراش کر گمراہ ہو جاتے ہیں تو جو آب حیات پی کر مر جائے اب اس کا علاج ہے لیکن وہ خطرات ختم ہو گئے اور اصل بات نکھر کر سامنے آگئی ۔ اسے حقوق دے ہیں اسے زندگی سی ہے یا اسے شعور دیا ہے لیکن وہ گواہ ہے اللہ کی قدرت کاملہ پر ۔وہ انسان ہے یا حیوان ہے ‘ جاندار ہے نباتات ہے ، آسمان ہے یا زمین ہے ‘ کوئی وجود بھی ہے تو وہ ایک شہادت دے رہا ہے اور سب شہادت جو ہے وہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ہے ، اس کے خالق اور اس کی قادر مطلق ہونے پر ہے تو یہ ان خطرات سے بچنے کے لئے جو لوگوں کی علمی یا باطنی استعداد کی کمزوری کی وجہ سے وحدت الوجود کیاا صطلا ح سے در آئے تھے ان سے بچنے کیلئے جو لوگوں کی علمی یا باطنی استعداد کی کمزوری کی وجہ سے وحدت الوجود کی اصطلاح سے در آئے تھے ان بچنے کے لئے یہ راستہ اپنایا گیا ۔ وحدت الشہود کا تو یہ اصطلاحات ہیں یہ نظریات نہیں ہیں یہ اصطلاحات ہیں ۔​
نظریات یا عقائدوہی ہیں جو شریعت مطہرہ نے بیان فرما دئیے ۔( حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مد ظلہ عالی)​
نظریات یا عقائد وہی ہیں جو شریعت مطہرہ نے بیا ن فرمادئیے ۔اب مختلف کیفیات کے اظہار کے لئے مختلف اصطلاحات ہیں جن سے اس کی کیفیت کا اظہار مطلوب ہے ۔ تو اپنی اصل دونوں درست ہیں ان میں اختلاف نہیں ہے ۔ صرف یہ ہے کی وحدت الوجود جب کہاگیا تو اس میں خطرات درآئے اور بجائے اس کے یہ سمجھاجا کہ ہر وجود جو ہے اسکی ذاتی کوئی حثییت نہیں ہے سمجھایہ جانے لگاکہ ہر وجود اللہ ہے ۔تو اس کی اصطلاح حضرت مجددؒ جو لائے وہ تھی وحدت پر ہے ۔اس کے خالق کائنات ،خالق کل اور قادرمطلق ہونے پر ہے تو وہ نظریات ہیں جن کے پاس علوم ظاہربھی ہوں اور انہیں کمالات باطنی بھی حاصل ہوں ۔تو عموماًاہل علم جو اس شعبے میں آتے ہیں تو یہ ان کے بحث کرنے کی باتیں ہیں اور اپنے علم کے مطا بق اسے سمجھتے ہیں اور اس میں غلطیاں ہوتی ہیں ۔دراصل بات ایک ہی ہے اس کے لئے اصطلاحیں دو ہیں اور یہ بنیادی عقیدہ ہے اسلام کا اس میں سے ہے کہ قائم بذات صرف اللہ ہے باقی ہر چیز فانی ہے اور جسے اللہ بناتا ہے بنتی ہے جسے اللہ مٹادیتاہے مٹ جاتی ہے ۔​
کو ئی تشریح ان حدود سے متجاوزنہیں ہونی چاہیے جو شریعت مطہرہ نے متعین فرمادی ہیں​
تشریح کی حدود متعین کرتے ہوئے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ عالی نے فرمایا:​
یہ ایسا فن ہے کہ اسمیں ہر شخص کو اپنی استعداد اور اپنی علمی استعداد جس طرح اللہ کریم نے مختلف استعداددی ہے علم ظاہر کے لئے ۔دو شخص اکٹھے پڑھتے ہیں ایک استاد سے پڑھتے ہیں ایک جیسی کتابیں پڑھتے ہیں لیکن دونوں کی حثییت الگ الگ ہوتی ہے ۔اس لئے کہ دونوں کی اپنی استعداد جو ہے حصول علم کی وہ الگ ہوتی ہے ۔اس طرح بے شمار لوگ اللہ اللہ سیکھتے ہیں ،کیفیات باطنی حاصل کرتے ہیں ایک ہی استاد سے ایک ہی وقت میں کرتے رہتے ہیں لیکن ہر حال الگ ہوتاہے ۔ جس طرح کی کیفیات کی استعداد اللہ کریم نے اسکے وجود میں رکھی ہوتی ہے اس طرح کی کیفیات بھی حاصل کرتاہے اور جس طرح کا شعورو آگہی کا مادہ اس میں اللہ کریم نے رکھا ہوتاہے اسی طرح سے وہ سمجھتاہے ۔تو اصولی بات یہ ہے کہ جو بنیادی عقائدہیں شریعت کے اصل ہیں ۔آگے یہ سب تشریحات ہیں اور کوئی تشریح ان حدودسے متحاوزنہیں ہونی چاہیے جو شریعت مطہرہ نے متعین فرمادی ہیں ۔ان حدودکے اندروضاحتیں ہیں تفصیلات ہیں ۔جیسے قرآن حکیم کی تفسیر میں بے شمار تفصیل لکھی حضرات نے اللہ مفسرین کرام پرکروڑوں رحمتیں نازل فرمائے لیکن اس سب کا معیار یہ ہے کہ وہ جتنی تفصیل میں چلے جائیں وہ تفصیل ان حدود کے اندرہونی چاہئے جو حضوراکرمﷺ نے متعین فرمادیں ۔ شارحیں حدیث نے حدیث مبارکہ پر بڑی لمبی بحثیں فرمائی ہیں۔مختلف لوگوں نے اعتراض کئے ۔حضرات نے ان کے جواب دئیے اور ایک ایک حدیث پر بہت بڑی بڑی لمبی بحثیں ہیں تو شرط بنیادی صرف یہ ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کی مراد رتھی ۔ارشاد سے آپ ﷺ کی مراد کیا تھی اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس کا کیامفہوم سمجھا، اس پر حضورﷺ کے سامنے کیسے عمل کیا اور حضور ﷺ نے اسکی تصدق فرمائی وہ ہوجاتی ہے ۔ ان الفاط سے مراد کیا تھا اس حد کے اندر جتنی تشریح ، جتنی تفصیل ہوتی رہے ۔جب اس حد سے متصادم ہو گی تو باطل ہو جائے گی ۔چو نکہ حق اس کے اندر ہے ۔اس طرح صوفیا کے مراقبات ہوتے ہیں کیفیات ہوتی ہیں مختلف کیفیات سمجھتے ہیں وہ اور ان کی تعبیر ات ان کو دیتے ہیں لیکن اس سب کی شرط یہی ہے کہ شریعت مظہرہ کی حدود کے اندجو کچھ ہے وہ حق ہے جہاں سے کسی کی کیفیت یا کسی کا کشف یا کسی کا الہام شریعت سے متصادم ہوگا تو باطل ہو جائے گا اور شریعت بر حق ہے ۔​
وحی کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا امیر محمد اکرم اعوان مدظلہ عالی نے فرمایا:​
ہوتایہ ہے کہ انبیا ء علیہم الصلوۃ والسلام نے بھی ساری شریعت کشف وا لہام سے ، وحی سے حاصل فرمائی ۔وحی کی کیفیت بھی صرف نبی پہ ظاہر ہوتی ہے کوئی دوسرا جو پاس بیٹھا ہوا اور وحی نازل ہو رہی ہوتو دوسرے کو سمجھ نہیں آتی ۔اس طرح کشف و الہام بھی صاحب کشف والہام پہ وارد ہوتاہے کوئی ساتھ دوسرا بیٹھا ہواسے سمجھ نہیں آتی ۔لیکن نبی کریم ﷺ پر جو وارد ہوتااس میں دوباتیں یقینی تھیں ۔اس میں ایک تو حضور ﷺ پہ جوکچھ واردہوتاوہ حق ہوتا تھا۔اس میں شیطان مداخلت نہیں کرسکتا تھا۔دوسری بات یہ حق ہوتی تھی کہ جو کچھ حضور پہ وحی یا کشف سے ‘ یا نبی کا خواب بھی وحی الہیٰ ہوتاہے ‘ خواب سے اگر کوئی بات نبی پہ وارد ہوتی ہے تو وہ بھی وحی ہوتی ہے اور وہ بھی برحق ہوتی ہے نہ اس میں شیطان مداخلت کرتا ہے اورنہ اللہ کے نبی کوسمجھنے میں غلطی لگتی ہے۔​
صوفیا ء اور انبیا ء کے کشف اور مجاہدہ میں فرق :​
جو کشف اور مجاہدہ صوفیاء کو ہوتاہے وہ بھی وہی ہوتاہے جو نبی کو ہوتاہے ۔اس لئے کہ باتباع نبی اور نبی کی اطاعت میں فنا ہونے سے وہ برکات نصیب ہوتی ہیں ۔لیکن یہاں بہت بڑا فرق ہے ۔صوفی کے مشاہدے یا اس کے القایا کشف میں شطان بھی مداخلت کرسکتاہے ۔یہ دونوں خطرات ولی کے ساتھ موجود ہیں جو نبی کے ساتھ نہیں ہیں ،لہٰذاہر ولیٰ االلہ کا کشف ومشاہدہ محتاج ہے نبی کے ارشادات عالیہ کا ۔ اگر حضور ﷺ کے احکام کی حدود کے اندر ہے ،اس کے مطابق ہے تو درست ہے اگر متصادم ہے تو باطل ہے ۔دوسری بات یہ ہوتی ہے کہ جو کشف نبی کو ہوتوہے ،جوا لہام نبی ہوتا ہے ،جو وحی نبی پہ آتی ہے ، جو خواب اللہ کا نبی دیکھتا ہے ساری امت اس کی مکلف ہوتی ہے۔پوری امت کو وہ ماننا پڑتا ہے ۔ جو مشاہدہ ولی کو ہوتا ہے کو ئی دوسرا بندہ اس کا مکلف نہیں ۔صاحب مشاہدہ اگر اس کا مشاہدہ شرعی حدود کے اندر ہے تو اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں ہے کہ فلاں کو یہ کشف ہوااس لئے میں یہ عمل کروں ۔ یہ شان صرف انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام کی ہے تو لہذا کو ئی بھی نظریہہو یا اسے آپ اصطلاح کہیں یا کشف کہیں یا مشاہدہ کہیں تو بنیاد شریعت مطہرہ ہے اور ارشادات نبوی ﷺاور قرآن اور حدیث ہے اور سنت ہے اس کے اندر اندر اس کی تشریحات اس کی تفصیلات علماء کو اللہ کریم علم کے راستے بتادیتاہے ،علم کے ذریعے سے سمجھا دیتا ہے اور بڑی بڑی بحثیں علماء حضرات نے فرمائی ہیں اور علما ہی کو مشاہدات بھی نصیب ہوتے ہیں ۔جو اس طرف آجائے اس اللہ کریم کشف اور مشاہدے سے سرفراز فرماتے ہیں ان کے کشف سے کوئی نیا حکم جاری نہیں ہو سکتااور شرعی حدود سے باہر بھی نہیں ہو سکتیں ۔اسلام تو ارشادات نبویﷺ کا نام ہے ، اسلام تو اعمال نبوی کا نام ہے ،اسلام تواخلاق نبوی ﷺکا نام ہے ۔جو حضور ﷺ نے سکھادیا وہ اسلام ہے۔ "((بحوالہ ماہنامہ المرشد فروری اور مارچ 2007)​
محترم ریحان بھائی ! دکھ اس بات کا ہے کہ اور حیرانگی بھی ہے کہ ایک آدمی کا علم علم سلوک سے کوئی تعلق ہی نہیں اور پھر وہ صوفیاء کی کفیات ( مثلاً وحدت الوجود ، مکاشفات وغیرہ) پر بحث کرتا ہے ،جن پر ایک عالم بھی اور صوفی بھی ہو تو بات کرنے سے ہچکچاتا ہے ،کیونکہ کفیات کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔​
اب رہی ابن عربیؒ کی بات تو ان کی بات کو جاننے کے لئے قدیم فلسفہ میں مہارت کی ضرورت ہے ،بڑے بڑے صاحب علم لوگوں نے کہا کہ ابن عربی اصطلاحات کی بھر مار کرتے ہیں،اور ان کی بات کو سمجھنا آسان نہیں ،ابو الحسن علوی حفظ اللہ نے فورم پر یہی بات فرمائی ہے۔​
اور آخری بات یہ ہے کہ اس دور میں علم سلوک نا پید ہو چکا ہے ،خال خال کوئی اس کی الف ،ب،جاننے والا ملتا ہے ،اب عام عوام کو تو معلوم بھی نہیں کوئی یہ مسلئہ زیر بحث بھی ہے ،لہذا میرے خیال اب اس پر زیادہ لے دے کی ضرورت بھی نہیں ہے ،اور جو حقیقت ہے وہ بیان کر دیگئی ہے۔علماء اہلحدیث کے فتوی جات کے ھوالے سے پھر سہی۔​
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
عزمی بھائی اگر اس دھاگے کو صرف وحدت الوجود تک رکھا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ آپ کی پوسٹ تصوف کے مختلف ابواب کو احاطہ کئے ہوئے ہے جبکہ یہاں مطلوب صرف وحدت الوجود کی تعریف ہے اور اس پر بحث۔ جزاک اللہ
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
عزمی بھائی اگر اس دھاگے کو صرف وحدت الوجود تک رکھا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ آپ کی پوسٹ تصوف کے مختلف ابواب کو احاطہ کئے ہوئے ہے جبکہ یہاں مطلوب صرف وحدت الوجود کی تعریف ہے اور اس پر بحث۔ جزاک اللہ
محترم ریحان بھائی !میں نے ایک عامی کا ذہن سامنے رکھ کر لکھا ہے ،ممکن ہے میں سیدھی سیدھی بات کرتا تو بہت سارے دوستوں کو سمجھنے میں دشواری پیش آتی۔
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
انتہائی معذرت میں آپ حضرات کی معروضات تو پڑھ نہیں سکا۔ لیکن صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ تصوف کے اساسی طور پر تین نظریات ہیں پہلا وحدت الوجو دوسرا وحدت الشہود اور تیسرا وحد الحلول ان تینوں کے اسی طرح درجات ہیں وجود یہ ہے کہ انسان یہ تصور رکھے کہ کائنات کی ہرچیز خدا کے وجود کا حصہ ہے جبکہ شہود یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ میں خدا کی ذات کا حصہ بن گیا ہوں اور حلول یہ ہے کہ خدا میری ذات کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ یہ تینوں نظریات غیر اسلامی ہیں ۔ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نصوص شرعیہ ان نظریات کی تردید کرتی ہیں ۔ واللہ اعلم۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
عزمی نے اوپر خود اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جو جس فن کا ماہر ہے اس سے ہی اس متعلق پوچھا جانا چاہئے لیکن کیا خیرالقرون میں یہ صوفیا کرام کا کوئی گروہ موجود تھا اسی طرح اس سے پہلے کے ادوار میں ہم تلاش کریں تو شاید اس وقت بھی کوئی نہ ہو اور اگر اس سے پہلے کے دور سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تک جائیں تو ہمیں صوفیت کہیں دکھائی نہیں دیتی الہ کے بنی اسرائیل اھبارھم ورھبانھم اب دیکھیں نا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو عبادت کی غرض سے غار میں جاتے تھے وہاں پر وحی آئی اس کے بعد جو زندگی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے گذاری اس میں کہیں یہ تین اوامر دکھائی دیئے نہیں دیئے تو پھر آج کے دور میں کیونکہ دراصل یہ سارے سلسلے ہیں اور ولایتی ہیں میرا مقصد عقیدہ ولایت کا خمیر اور یہ خمیر کس کا ہے جواب ہے کوفی۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
انتہائی معذرت میں آپ حضرات کی معروضات تو پڑھ نہیں سکا۔ لیکن صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ تصوف کے اساسی طور پر تین نظریات ہیں پہلا وحدت الوجو دوسرا وحدت الشہود اور تیسرا وحد الحلول ان تینوں کے اسی طرح درجات ہیں وجود یہ ہے کہ انسان یہ تصور رکھے کہ کائنات کی ہرچیز خدا کے وجود کا حصہ ہے جبکہ شہود یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ میں خدا کی ذات کا حصہ بن گیا ہوں اور حلول یہ ہے کہ خدا میری ذات کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ یہ تینوں نظریات غیر اسلامی ہیں ۔ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نصوص شرعیہ ان نظریات کی تردید کرتی ہیں ۔ واللہ اعلم۔
کیلانی بھائی اندازوں سے یہ باتیں سمجھ نہیں آتی۔آپ نے جو لکھا ہے ،اگر کوئی ایسا سمجھتا تو میرا آپ کیساتھ اتفاق ہے،مگر تصوف اسلامی میں ایسا ہر گز نہیں،اور جو تین نظریات بیان کیے ہیں ،وہ تصوف کی اساس ہر گز نہیں ۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
محترم یہ اس موضوع پر نہیں ،بلکہ افراط وتفریط سے بھر پور ایک کاوش ہے ،اللہ مولانا کی مغفرت فرمائیں۔

محترم آپ نے یا تو اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا یا اپنی اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا "بلکہ افراط وتفریط سے بھر پور ایک کاوش ہے" اس لیئے آپ اس سے کچھ سمجھ نہ سکے۔۔میری آپ سے درخواست ہے صوفیت کا لبادہ تھوڑا ہٹا کر اس کتاب کا مطالعہ کریں ان شاءاللہ بہت کچھ ملے گا آپ کو اس سے۔
اس کے علاوہ محترم کیلانی صاحب نے جو بات کی اس کا اگر تفصیلی اور بہترین وضاحت چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ مفید ہے۔
http://kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/radd-fitna-inkar-e-hadees/44-hujjiat-e-hadees-o-sunnat/178-shariat-o-tareeqat.html

دین رہبانیت، صوفیت، صوفی ازم، طریقت کے متوالوں کو سنہری شریعت دین اسلام کی طرف راغب کرنے کیلئے لکھی گئی بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں طریقت کے حق میں دیے جانے والے دلائل اور شخصیات کا احترم آمیز انداز میں بہترین اور باحوالہ علمی محاسبہ کیا گیا ہے۔ ایسی کتاب ہے جو صراط مستقیم کے غیر متعصب متلاشی کو واقعی راہِ حق دکھانے کی قوت رکھتی ہے۔ دین طریقت کے مختلف بنیادی نظریات، وحدت الشہور، حلول، وحدت الوجود کا علمی محاسبہ۔ ولایت، کرامت، تصوف، باطنی علوم، قیوم،قطب، ابدال، صوفیاء اور محدثین، اولیاء اللہ اور گستاخی، عشق و مستی، سماع و وجد، جام و مے، تصور شیخ، حضرت خضر علیہ السلام کی شخصیت، رجال الغیب، پیران پیر، شیعیت، خرقہ، لوح محفوظ، آستانے، مزارات، درگاہیں، ولایت یا خدائی، علم غیب، تصرف، توجہ ،بیعت،شفاعت، اولیاء اللہ کے مقابلے، ولی بننے کے طریقے، کرامات اور استدراج،صوفیائے کرام کی تعلیمات، اولیاء اللہ کی کرامات اور انبیاء کرام کے معجزات کا تقابلی جائزہ، تصرف باطنی، مشاہدہ حق، دیدار الٰہی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و وفات، ذکر قلندریہ، ذکر نور اور کشف قبور، محبت الٰہی، صحبت بزرگان، صوفیائے کرام کا تفسیری انداز، موضوع احادیث و واقعات، شریعت و طریقت کا تصادم، توحید، رسالت،قرآن،نکاح سے گریز، جنت اور دوزخ کا مذاق، ارکان اسلام کا مذاق اشرف علی تھانوی کا اعتراف حقیقت، خورشید احمد گیلانی اور روح تصوف، شریعت و طریقت کاتقابلی جائزہ
 
Top