• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عقیدہ وحدت الوجود کیا ہے اور اس کی اصل تعریف کیا ہے؟

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
علامہ علی قاری حنفی نے ابن عربی کے نظریات کا اور جو صوفیاء اس کے کلام کی تاویلیں اور توجیہیں کرتے ہیں ان کا خوب رد لکھا ہے ، چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں '' الرد علی القائلین بوحدتہ والجود '' نامی ایک کتاب لکھی ہے ـ اس کتاب کی تحقیق دورِحاضر کے عظیم محدث علی رضابن عبداللہ بن علی رضا نے کی ہے ـ کتاب 157 صفحات پر مشتمل ہے اور دارالمامون للتراث ، دمشق کی جانب سے طبع ہو کرمنظر عامم پر آچکی ہے ـ
اس کتاب میں علامہ علی قاری حنفی نے ابن عربی کی کتاب '' فصوص الحکم '' سے چوبیس مقامات سے مختلف نظریات ذکر کیے ہیں ، پھر ان کی ترید کی ہے اور ان کی تاویل کرنے والوں کی بھی خوب خبر لی ہے ـ نیز انہوں نے اس وجودی گروہ کی تکفیر پر بہت سے علمائے اسلام کے اقوال نقل کئے ہیں ـ یہ کتاب دراصل ایک سوال کا جواب ہے ـ
ہم مذکورہ کتاب کے چند مقامات ذیل میں نقل کریں گے جن میں علامہ علی قاری حنفی نے پہلے ابن عربی کا باطل عقیدہ نقل کیا پھر اس پر تبصرہ فرمایا ، ملاحظہ فرمائیں :
1- انہوں نے اس کتاب میں وحدتہ الوجود یا اتحاد کو اہل الحاد کا مذہب قرار دیا ہے (ص: 13،س :8)
2-وجودی فرقے کو اسلام فرقوں سے خارج قرار دیا ہے ـ (ص: 15،س:7)
3- تمام اشیائے کائنات باعتبار باطن اللہ تعالٰی کے ساتھ متحد ہیں ـ یہ نظریہ فلاسفہ کا ہے ـ(ص:16،س:1)
4- (الف) ابن عربی کے نزدیک جو شخص الوہیت کا دعویٰ کرے وہ اپنے دعوے میں سچا ہے ـ (ص :31 ،32)
(ب)، یہ عالم جہاں قدیم ہے ـ (ص : 32 ، س :2) اور یہ باجماع علماء کفر ہے ـ ( ص :49 ، س:7،ص :17، س :9)
(ج) ـ ابن ابی کبشہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل توحید پر دنیا کا امرتنگ کردیا ہے (ص:32،س:2،3)
(د)ـ فرعون دنیا سے طاہر و مطہر ہو کر گیا ہے ـ (ص:87،س :5،6)
علامہ علی قاری نے ابن عربی کے اس نظریے (د) کے رد کے لیے ایک مستقل کتاب لکھی جس کا نام '' فرعون ممن یدی ایمان فرعون '' ہے (ص :32 س:4 مع الحاشیہ ـ ص 37 ، س 6)
(ر) ، صاحب ریاضت کا ناسوت اللہ تعالٰی کے لاوت کے ساتھ مخلوط ہو گیا ہے ـ
یہ بعینہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے ـ انہوں نے بھی یہی عقیدہ کرھا ہے کہ عسی علیہ السلام کا ناسوت اللہ تعالٰی کے لاہوت میں مل گیا ہے ـ (س:7 تا 9 ـ ص 38 ، س اخیر ـ ص:45 ، س :6)
5-ابن عربی کی کتب کا مطالعہ حرام ہے (ص:94 آخری سطر) کیونکہ عقائد مسلمین کے خلاف ہیں یعنی ایمان و تصدیق میں بھی مخالف ہیں ـ (ص:38،س 2)
6- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے محل کی چاندی کی ایک اینٹ کی جگہ ہیں ـ اور ابن عربی کہتے ہیں کہ میں دو اینٹوں کی جگہ ہوں اور وہ بھی باطن میں سونے کی اینٹیں ہیں ـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور ابن عربی خاتم الاولیاء (ص :60 ، س:1تا 8-ص:75،76)اور اس میں کفر کی کئی انواع ہیں ـ(ص:76، س:4)
7-

ابن عربی کا کفر تو ان سے بھی بڑا ہے جنہوں نے کہا تھا :
لن نومن حتنی نوتی مثل مااوتی رسل اللہ ـ
بلکہ ابن عربی اور ان جیسے منافقین زندیق اور اتحادی ہیں اور یہ لوگ آگے کے نچلے طبقے میں داخل ہونگے ـ (ص:60 آخری سطر)

8- انسان کی ذات اور صفت اللہ کی ذات اور صفت ہے ، یہ صریح کفر ہے ـ (ص "72 ، س :15)
9- خاتم الرسل والانبیاء اور تماما رسل اور اصفیاء وہ خاص علم جو کہ خواص کے ساتھ مختص ہے خاتم الاولیا کے مشکوتہ (سینے ) سے اخذ کرتے ہیں ـ کیونکہ وہ رسول اور نبی اولیاء بھی ہیں اور یہ صریح کفر ہےـ (ص:138، س:1-ص:78،س:3تا 6)
10- کافر جہنم میں آخرکار جہنم کے عذاب سے اسی لذت اٹھانے لگ جائیں گئے جس طرح کہ اہل جنت جنت کی تعمتوں سے لذت اٹھائیں گئے اور یہ صریح کفر ہے (ص:83 ، س:8)
11- ابن عربی کا قول ہے
سبحان من اوجد الاشیا وھو عینھا ''
پاک ہے وہ اللہ جو اشیاء کا موجد ہے حالانکہ وہ ان اشاء کا عین ہے ''
اور یہ صریح کفر ہے (ص :90 ، س :4)

12: ابن عربی نے نوح علیہ السام پر اعتراض کیا ہے جسے علامہ علی قاری نے کفر ظاہر کیا ہے ـ (ص:107 ، س :4،5)
13: اللہ تعالٰی کی طرف دعوت دینا یہ مدعوین کے ساتھ ایک مکر ہے ـ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت دے کر ان سے مکر کیا تو انہوں نے بھی آگے سے مکر کیا ـ کہنے لگے : اپنے الٰہوں کو نہ چھوڑو کیونکہ اگر وہ اپنے معبودوں کو چھوڑ دیتے تو حق سے جاہل ہو جاتے ـ علامہ علی قاری فرماتے ہیں : اس سے زیادہ صریح کفر اور کوئی نہیں ـ (ص:109 ،س2تا 4)
14- نوح علیہ السلام کی قوم کے متعللق قرآن میں آیاہے کہ وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق کر دیے گئے ، پھر آگ میں داخل کردیے گئے تو انہوں نے اللہ کے علاوہ مددگار نہ پائے ـ (سورہ نوح '25)ابن عربی نے کہا ہے کہ وہ اللہ کی معرفت کے سمندروں میں غرق کیے گئے تھے ـ ان کی اللہ کے علاوہ کسی نے مدد نہ کی تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی تھی تو وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی ذات میں ہلاک ہو گئے(ص:110،س1تا 3)یہ موقف صریحا قرآن کے خلاف ہے
15- و ہ یعنی اللہ میری عبادت کرتا ہے اور میں اس کی عبادت کرتا ہوں ـ یہ ظاہرا کفر ہے جیسا کہ اہل صفا پر محفی نہیں َ (ص :11، س:12)
16- فرعون کا '' انا ربکم الاعلی '' کہنا درست تھا (ص :126)
انہوں نے ابن عربی کے اس کے علاوہ بھی کئی فاسد عقائد و نظریات اس کتاب میں ذکر کیے ہیں پھر فرماتے ہیں :'' وہ یہ ابن عربی کے کفریات کی انواع پر مشتم کلمات پر وارد ہونے والے اعتراضات میں سے آخری اعتراض ہے اور سب سے بڑا اس کا کفر یہ ہے ہ وہ عینیت کا دعویٰ کرتا ہے یعنی خالق اور مخلق ایک دوسرے کے عین ہیں ـ (ص :126 ، س:15- ص :127 ، س:7)
ابن عربی کے متعلق علامہ علی قاری نے لکھا ہے کہ وہ خاتم الاولیاء نہیں بلکہ وہ خاتم الاولیاء من الشیاطین الاغبیاء ہے کیونکہ اس کے مذہب کا نقصان دجال کے نقصان سے بھی زیادہ ہے اور اس کی کتابیں عیسائیوں کی کتابوں سے بھی زیادہ بری ہیں ـ (ص:128 ، آخری سطو)
ابن عربی کی کتاب '' فصوص الحکم '' اور فتوحات مکیہ '' میں یہ کفریات اور بکواسات ہیں (ص:129 ، س :7،8)
بلاشک طائفہ وجودیہ کفر زیادہ ظاہر ہے اور اسلامی فرقوں پر ان کا نقصان بہت زیادہ ہے ـ(ص:133 ، س:11،12)
کسی مسلمان کے لیے حلال ہیں کہ وہ کتاب و سنت کو ترک کر کے اس طائفہ کے کلام کی طرف مائل ہو ـ (ص:134 ، س :11،12)
یہ عقیدہ رکھنا درست نہیں کہ ابن عربی اولیاء میں سہے ہے ـ اس لیے کہ اس سے اس طرح کے (کفریہ کلمات ) صادر ہوئے ہیں ـ
(ص:153 ـ س:3)
حافظ ابن حجر عسقلانی صاحب فتح الباری اور ابن عربی کے کسی عقیدت مند اور محب کے درمیان رمضان المبارک کے مہینے میں مباہلہ ہوا ، اس نے کہا : ائے اللہ ! اگر ابن عربی گمراہ ہے تو مجھ پر اپنی لعنت کردے ـ
حافظ ابن حجر نے کہا : ائے اللہ ! اگر ابن عربی ہدایت پر تھا تو تو مجھ پر اپنی لعنت کردے (ص : 154)
اس کے حاشیے میں ہے کہ ابن عربی کا معتقد ذوالقعدہ 490 ھ میں فوت ہو گیا تھا ـ یعنی مبالہ کے دو ماہ بعد ( دیکھیے تنبیہ الغبی الی تکفیر ابن عربی للبرھان البقاعی )
ملا علی قاری کہتے ہیں :
'' جان رکھو ! جو ابن عربی کے عقیدے کے صحیح ہونے کا قائل و معتقد ہے وہ بالاجماع کافر ہے
، اس میں کوئی نزاع نہیں ـ ہاں ، اس میں نزاع ہے کہ اس کے کلام کی تاویل کر لی جائے ـ''
اور تاویلات کا جواب خود علامہ علی قاری نے دیا ہے ـ
علامہ ابن مقری نے کہا ہے :
'' جو شخص یہود و نصاریٰ اور ابن عربی کے کفر میں شک کرے تو وہ کافر ہے ـ '(ص :154،155،س: 1 تا 5)
ابن عربی کے عقیدے کے حاملین کو سلام کہنا جائز نہیں ـ نہ ہی ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے ـ بلکہ انہیں '' وعلیکم'' کہ کر جواب دینا درست ہے ، کیونکہ یہ یہود و نصاریٰ سے بھی بدتر ہیں ـ ان کا حکم مرتدوں والا ہے ان می کوئی چھینک کے وقت الحمد للہ کہے تو اسے یرحمک اللہ بھی نہیں کہ سکتے ـ ان میں سے کسی کا جنازہ بھی نہیں پڑھ سکتے ـ اگر وہ انہی اعتقادات پر رہیں تو ان کی سابقہ عبادات باطل ہیں ـ حکمران پر ضروری ہے کہ اس طرح کے فاسد نظریات رکھنے والے لوگوں کو جلا دیں ،کیونکہ یہ پلید تر ہیں بلکہ یہ ان لوگوں سے بھی زیادہ نجس ہیں جو علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کہتے ہیں ـ علی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو جلا دیا تھا ، جو رب کہتے تھے ـ اور ان کی کتب کو جلانا بھی واجب ہے ـ اور ہر مسلمان پر ، بالخصوص علماء پر فرض ہے کہ ان کے فاسد عقائد لوگوں پر واضح کریں تاکہ لوگ فتنے میں مبتلا نہ ہوں ـ ہم اللہ تعالٰی سے حسن خاتمہ کا سوال کرتے ہیں ـ (ص :156)
ابن عربی ؒ پر علماء حضرات کا اختلاف ہے ،ہمارے علماء اہلحدیث میں بھی یہ اختلاف موجود ہے۔انکے حق میں بھی جید علماء کی آراء موجود ہیں اور خلاف بھی،شیخ الکلؒ سید نذیر حسین دہلویؒ نے تو ابن عربی ؒ کی حمایت اس حد تک کی کہ لوگوں سے مناظرے کیے۔اور یہاں پر جو بحث وہ وحدت الوجود پر ہے نہ کہ ابن عربی کی ذات ہے۔گو ابن عربی ؒ کو ہم الگ نہیں کر سکتے ہیں ،وحدت الوجود ہے کیا اور بگڑا کیسے وہ میری پہلی پوسٹ میں تفصیل موجود ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
ابن عربی ؒ پر علماء حضرات کا اختلاف ہے ،ہمارے علماء اہلحدیث میں بھی یہ اختلاف موجود ہے۔انکے حق میں بھی جید علماء کی آراء موجود ہیں اور خلاف بھی،شیخ الکلؒ سید نذیر حسین دہلویؒ نے تو ابن عربی ؒ کی حمایت اس حد تک کی کہ لوگوں سے مناظرے کیے۔اور یہاں پر جو بحث وہ وحدت الوجود پر ہے نہ کہ ابن عربی کی ذات ہے۔گو ابن عربی ؒ کو ہم الگ نہیں کر سکتے ہیں ،وحدت الوجود ہے کیا اور بگڑا کیسے وہ میری پہلی پوسٹ میں تفصیل موجود ہے۔


پھر مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
وقاص بھائی :۔
مولانا ثنا ء اللہ امرتسری ؒ فرماتے ہیں:۔
مسئلہ وحدت الوجود

اس صورت میں اس پر بحث کی جائے کہ قرآن وحدیث سے اس کا ثبوت دیا جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین و من بعدہم کے زمانہ میں نہ تھا۔ اس کا مدعا بیان کرنے میں دو قول ہیں۔ ایک موافق شرح دوسرا مخالف شرح 1۔ ساری دنیا کا وجود یعنی ہستی بخشنے والا ایک ہے۔ جس کا نام القیوم ہے۔ 2۔ دوسرے معنی میں موجودات بلحاظ اصل کے سب ایک ہیں۔ (3 مارچ 1933ء؁)
در انجمن فرق نہاں خانہ جمع باللہ ہمہ اوست ثم باللہ ہمہ اوست
شرفیہ

میں کہتا ہوں(مروجہ ) تصوف جو گبوں سادھووں کا فلسفہ ہے۔ ہمہ اوست کا عقیدہ صریح کفر ہے۔ یہ قرآن وحدیث کی تکذیب ہے۔ اس عقیدہ پر نہ اللہ تعالیٰ معبود رہتا ہے۔ نہ خالق نہ رازق نہ مبعبود پھر نہ کچھ حلال نہ حرام۔ اپنے خیالات رکھنے والے اور پھر مسلمانی کا دم بھرنے والے۔ حقیقت میں شیطان کے بندے ہیں۔ بے ایمان ہیں۔ یہ لوگ محض تقیہ اور نفاق کے طور پر شریعت کا دم بھرتے ہیں۔ رسمی طور پر نہ دل سے ۔
وحت الوجود اور اس کی تشریح

رسالہ ''معارف''اعظم گڑھ میں مسئلہ وحدت الوجود لکھتے ہوئے۔ راقم مضمون نے ایک فقرہ یہ بھی لکھ دیا کہ ہم نے ابراہیم سیالکوٹی سے یہ مسئلہ وحدۃ لوجود کے متعلق دریافت کیا تھا۔ وحدت الوجود کے سوا چارہ نہیں۔
یہ جواب جن اصحاب اکی نظر میں اہل حدیث کے مسلک سے اجنبی معلوم ہوا۔ انھوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کی کیا رائے ہے۔ میں اپنے تصور علم اور مسلک تصوف سے علیحدگی کا مقر چوں۔ میں نے مولانا محمود الحسن دیوبندی مرحوم سے سنا تھا کہ یہ مسئلہ مزلۃ الاقدام ہے۔ اس لیے مجھے اس میں دخل دینے کی جرائت نہیں ہوتی مگر احباب کے اصرار سے جو کچھ میں نے سمجھا وہ عرض کرتا ہوں۔ وحدت الوجود کی دو قسمیں ہیں۔ ان دونوں میں وجود کے معنی قابل غور ہیں۔ وجود کے اصل معن ہیں ما بہ الموجودیۃ یعنی جس کی وجہ سے کوئی چیز موجود ہوجائئے۔ اس کی پہلی تشریح یہ ہے کہ جتنی اشیاء نظر آتی ہیں۔ ان سب کا وجود ما بہ الموجودیت صرف ایک ہی چیز ہے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ نے اس کے متعلق ایک پر معنی رباعی لکھی ہے۔
لا آدم فی افلکون ولا ابلیس لا ملک سلیمان ولا بلقیس
فالکل عبادۃ وانت المعنی یامر ھو المقلوب مقناطیس
شیخ ممدوح فرماتے ہیں کہ دنیا میں کسی چیز کی مستقل ہی نہیں ہے۔ یہ سب تیری قدرت کے نشان ہیں۔ اور تیری طرف توجہ دلانے والے ہیں۔ یہی مضمون ایک اردو شاعر نے یوں ادا کیا ہے۔
نظر آتا ہے جو کچھ نور وحدت کی تجلی سےرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ نقش اہل بصیرت کیلئے وجہ تسلی ہے۔​
اس تشریح کے مطابق وحدۃ الوجود کی مثال یہ ہے۔ کہ کسی مکان کی کوٹھڑیوں میں مختلف رنگ کے شیشے لگادیئے جایئں۔ کوئی سفید۔ کوئی سرخ۔ کوئی سبز۔ کوئی سیاہ۔ ان کے پیچھے ایک لیمپ رکھ دیا جائے تو باہر سے دیکھنے والا ان شیشوں کو مختلف رنگوں میں دیکھے گا۔ ہاں ایک نظر لمپ کی وحدت کو ملحوظ رکھے گا۔ قرآن مجید بھی اس تشریح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت۔ ۔ ۔ ۔ اس تشریح کے مطابق وحدۃ الوجود کے معنی وحدۃ الموجد کے ہوں گے۔ جو بالکل ٹھیک ہے مولانا سیالکوٹی کا مطلب غالباً یہی ہوگا۔ وحدت الوجود کی دوسری تشریح میں وحدت الموجودات لئے جاتے ہیں۔ چنانچہ صوفیانہ رباعی اس تشریح کی یوں مظہر ہے۔
در ولق گدا ودر الطلس شاہ ہمہ اوست در منزل جاناںچوتر خویش گزشتی (1)
درانجمن فرق نہاں کانہ جمع باللہ ہمہ اوست خم باللہ ہمہ اوست
اس عقیدے کے صوفیاء کے نزدیک انجمن فرق سے مراد یہ دنیاوی امتیازات ہیں۔ نہاں خانہ سے مراد وہ وحدت بحت ہے جو ان امیتازات سے پہلے تھی۔ شاعر کہتا ہے اس انجمن دنیا میں بھی اور نہاں خانہ میں بھی وہی ایک ہے۔ دوسرا کوئی نہیں۔ غالب مرھوم گو اس فن کے آدمی نہ تھے مگر پھر بھی یہ کہہ گئے ہیں۔ فرماتے ہیں۔
جب کہ تجھ بن یہاں نہیں کوئی پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔​
سکھوں کے گرونانک کا بھی یہی عقیدہ تھا جو کہہ گئے ہیں۔
آپے ٹھاکر آپے سیوک نانک جنت بے چارہ​
یہ تشریح ایسی ہے کہ اس کو کوئی نوکر شرع نہیں مان سکتا۔ بدقسمتی سے یہی تشریح زیادہ مشہور بھی ہوگئی ہے۔
قادیانی کی آواز

مرزا صاھب قادیانی نے بھی ایک ٹریکٹ وحدۃ الوجود کے متعلق لکھا تھا اس میں آپ کہتے ہیں کہ ''وجود ہی ہر زرہ کو خدا مانتا ہے۔ پھر بڑے مزے کی بات لکھتے ہیں کہ وجود سے ہی گفتگو کرتے ہوئے اس کو زور سے کاٹنا چاہیے۔ اگر وہ سی کرے تو کہنا چاہیے کہ کیا خدا بھی سی کرتا ہے۔ کیا ہی عامیانہ طریق گفتگو ہے۔
مقام حیرت

حیدر آباد دکن سے ایک کتاب نکلی تھی جس میں وحدۃ الوجود بہ تشریح ثانی کی تایئد کئ گئی تھی۔ مرزا احمد قادیانی کو اس میں وحدہ الوجود کے قائلین میں لکھا تھا۔ (یا للعجب)
اطلاع

ناضرین کی آگاہی کےلئے میں بتاتا ہوں کہ اس مسئلے کے متعلق حضرت مجدد صاحب سرہندی کا ایک مکتوب اور مولانا اسماعیل شہید کا بھی ایک عربی مکتوب شائع شدہ ہے۔ ناظرین اس سے مزید فائدہ اٹھایئں۔ مولانا حالی نے اس کے متعلق ایک رباعی لکھی ہے۔ جو یہ ہے۔ (2) (اہل حدیث 12 جولائی۔ 1946ء؁)
مسلم نے حرم میں راگ گایا تیرا ہندو نے صنم میں جلوہ پایا تیرا​
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے انکار کسی سے بن نہ آیا تیرا​
با شکریا​




جلد 01 ص 148-150



محدث فتویٰ


آپ کو دو علماء کا نام اور انکی مستقل اس مسئلے پر کتب بتائیں تو چونکہ وہ آپ کے موقف کی کلی کھولنے والی تھیں تو آپ نے کتب کو ساتھ ساتھ ان علماء پر بھی فتوے لگائے۔۔

اب یہاں آپ کو اپنے موقف پر کچھ ملا تو فورا پیسٹ کر دیا حالانکہ یہاں تو مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب اس مسئلے پر جو فرما رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے۔۔۔

باقی آپ نے مطالبہ کیا تھا کہ قابل اعتراض باتیں سامنے لائیں تو وہ اللہ بھلا کرے محمد علی جواد بھائی کا انھوں نے وہ بھی کر دیا۔۔
لیکن ابھی بھی آپ کا کوا سفید کا سفید ہی ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ابن عربی ؒ پر علماء حضرات کا اختلاف ہے ،ہمارے علماء اہلحدیث میں بھی یہ اختلاف موجود ہے۔انکے حق میں بھی جید علماء کی آراء موجود ہیں اور خلاف بھی،شیخ الکلؒ سید نذیر حسین دہلویؒ نے تو ابن عربی ؒ کی حمایت اس حد تک کی کہ لوگوں سے مناظرے کیے۔اور یہاں پر جو بحث وہ وحدت الوجود پر ہے نہ کہ ابن عربی کی ذات ہے۔گو ابن عربی ؒ کو ہم الگ نہیں کر سکتے ہیں ،وحدت الوجود ہے کیا اور بگڑا کیسے وہ میری پہلی پوسٹ میں تفصیل موجود ہے۔
بھیا میں نے اس زمن میں ملا علی قاری کا فتویٰ پیش کر دیا - اگراس کو نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے اس قول کے تناظر میں دیکھا جائے - تو بات بڑی گمبھیر ہوجاتی ہے - جس میں آپ صل الله علیہ وسلم نے فرمایا " کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو بلا دلیل کافر کہے - جس کو کافر کہا گیا ہے اگر وہ حقیقت میں کافر نہیں تو کافر کہنے والے پر کفر واپس پلٹتا ہے" (متفق علیہ) -

اب اگر ملا علی قاری نے دلیل کے ساتھ (جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے) ابن عربی اور ان کے ماننے والوں کو کافر کہا ہے تو اس صوررت میں تو ابن عربی اور ان کے ماننے والے کافر قرار پاتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں اگر ملا علی قاری کا ابن عربی اور ان کا ماننے والوں پر کفر کا فتویٰ بلا دلیل ہے تو اس صورت میں ملا علی قاری خود کافر ہو جاتے ہیں -

اب آپ خود ہی فیصلہ کر لیجیے- آپ کے جید علماء حق پر ہیں یا باطل عقیدے پر ہیں ؟؟
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
اوپر جتنی بھی بحث مسئلہ وحدت الوجود پر ہوئی، یہ سارا کا سارا فلسفہ ہے۔ اور میرے خیال میں یہ سارے افکار (وحدت الوجود، وحدت الشہود وغیرہ) فلسفیانہ بحثوں پر ہی مبنی ہیں۔ جب ہارون الرشید کے دور میں فلسفہ کی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا تو اس کے بعد ایسے افکار اسلام میں پیدا ہونا شروع ہوئے۔ اسی طرح کی فلسفیانہ بہثیں خدا اور اس کی ہستی کے بارے میں قدیم فلاسفہ کے ہاں بھی ملتی ہیں اور یہ فضول قسم کی بحثیں ہیں جن کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور اسی فلسفہ اور منطق کی وجہ سے اسلام میں کافی جگہ بگاڑ پیدا ہو گیا۔ اسلام ایک سادہ اور آسان دین ہے جس کو سمجھنے کے لئے نہ ہی ہمیں فلسفہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی منطق کی۔ بہرحال یہ میری رائے ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اوپر جتنی بھی بحث مسئلہ وحدت الوجود پر ہوئی، یہ سارا کا سارا فلسفہ ہے۔ اور میرے خیال میں یہ سارے افکار (وحدت الوجود، وحدت الشہود وغیرہ) فلسفیانہ بحثوں پر ہی مبنی ہیں۔ جب ہارون الرشید کے دور میں فلسفہ کی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا تو اس کے بعد ایسے افکار اسلام میں پیدا ہونا شروع ہوئے۔ اسی طرح کی فلسفیانہ بہثیں خدا اور اس کی ہستی کے بارے میں قدیم فلاسفہ کے ہاں بھی ملتی ہیں اور یہ فضول قسم کی بحثیں ہیں جن کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور اسی فلسفہ اور منطق کی وجہ سے اسلام میں کافی جگہ بگاڑ پیدا ہو گیا۔ اسلام ایک سادہ اور آسان دین ہے جس کو سمجھنے کے لئے نہ ہی ہمیں فلسفہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی منطق کی۔ بہرحال یہ میری رائے ہے۔
بالکل۔۔
اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک نہ تو وحدت الوجود کی کوئی تعریف سامنے آئی اور نہ ہمیں پتہ چل سکا کہ تصوف اسلامی کیا ہے۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
آپ کو دو علماء کا نام اور انکی مستقل اس مسئلے پر کتب بتائیں تو چونکہ وہ آپ کے موقف کی کلی کھولنے والی تھیں تو آپ نے کتب کو ساتھ ساتھ ان علماء پر بھی فتوے لگائے۔۔

اب یہاں آپ کو اپنے موقف پر کچھ ملا تو فورا پیسٹ کر دیا حالانکہ یہاں تو مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب اس مسئلے پر جو فرما رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے۔۔۔

باقی آپ نے مطالبہ کیا تھا کہ قابل اعتراض باتیں سامنے لائیں تو وہ اللہ بھلا کرے محمد علی جواد بھائی کا انھوں نے وہ بھی کر دیا۔۔
لیکن ابھی بھی آپ کا کوا سفید کا سفید ہی ہے
جی تو نہیں چاہتا تھا کہ کچھ لکھوں ۔وہ اس لئے کہ آپکے مطالعہ و تحقیق کا یہ عالم ہے کہ آپکو اتنا بھی معلوم نہیں کہ علما ء اہلحدیث میں ثنا ء اللہ مدنی کون ہیں ،اورا مرتسری کون ہیں ،اور ان میں کیا فرق ہے ۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
بالکل۔۔
اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک نہ تو وحدت الوجود کی کوئی تعریف سامنے آئی اور نہ ہمیں پتہ چل سکا کہ تصوف اسلامی کیا ہے۔
آپ نے کیلانی صاحب کی شریعیت و طریقت پڑھ لی کبھی امرتسری ؒ کی لکھی ہوئی شریعت وطریقت بھی پڑھ لینا،اور ہاں پڑھنے سے پہلے مولانا ثناء اللہ ؒ کی سوانح حیات بھی پڑھ لینا،تا کہ آپ کو ا تنا تو پتہ چل سکے کہ مولانا کسے رتبے اور شان کے مالک تھے۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
اوپر جتنی بھی بحث مسئلہ وحدت الوجود پر ہوئی، یہ سارا کا سارا فلسفہ ہے۔ اور میرے خیال میں یہ سارے افکار (وحدت الوجود، وحدت الشہود وغیرہ) فلسفیانہ بحثوں پر ہی مبنی ہیں۔ جب ہارون الرشید کے دور میں فلسفہ کی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا تو اس کے بعد ایسے افکار اسلام میں پیدا ہونا شروع ہوئے۔ اسی طرح کی فلسفیانہ بہثیں خدا اور اس کی ہستی کے بارے میں قدیم فلاسفہ کے ہاں بھی ملتی ہیں اور یہ فضول قسم کی بحثیں ہیں جن کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔ اور اسی فلسفہ اور منطق کی وجہ سے اسلام میں کافی جگہ بگاڑ پیدا ہو گیا۔ اسلام ایک سادہ اور آسان دین ہے جس کو سمجھنے کے لئے نہ ہی ہمیں فلسفہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی منطق کی۔ بہرحال یہ میری رائے ہے۔
ریحان بھائی ایک طرف علم سلوک میں وہ لوگ ہیں جو حقیتاً صوفی ہیں ،اور ان کی بڑی خدمات ہیں ،جیسے ہمارے شاہ ولی اللہؒ اور انکا خاندان،علمائے اہلحدیث میں خاندان غزنوی اور لکھویؒ ۔اب جو صوفی ہیں انکو تو یہ مسلئہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔اور جو نہ صوفی ہے اور نہ ہی علم ظواہر میں کوئی دسترس رکھتا ہے ،تو اسکے پاس سوائے فلسفیانہ بحث کے سوا کچھ بھی نہیں۔اور مسلئہ حقیقت میں کیا ہے وہ میں نے پہلی پوسٹ میں لکھ چکا ہوں ۔ رہا ابن عربیؒ کا مسلئہ تو ان پر علماء کا اختلاف ہے،اور خاکسار حسن ظن رکھتا ہے ،جیسا کہ ہمارے مشائخ کا طریقہ بھی ،اور حکم نبوی بھی،ابن عربی ؒ کے دفاع میں بھی بہت کچھ لکھا گیا اور خلاف بھی۔اور دونوں طرف انتہا ہے۔
 
Top