• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامات قيامت شيخ عريفى كى كتاب نهاية العالم سے ماخوذ

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
7.
جنگ صفين كى پيشين گوئى:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا
صحيح بخارى:7121
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
8.
خوارج كا ظہور :
[/arb]فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشْهَدُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَاتَلَهُمْ وَأَنَا مَعَهُ، فَأَمَرَ بِذَلِكَ الرَّجُلِ فَالْتُمِسَ فَأُتِيَ بِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَيْهِ عَلَى نَعْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي نَعَتَهُ[/arb]

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (جنگ حنین کا مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے اتنے میں بنی تمیم کا ایک شخص ذوالخویصره نامی آیا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! انصاف سے کام لیجئے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "افسوس! اگر میں ہی انصاف نہ کروں تو دنیا میں پھر کون انصاف کرے گا۔ اگر میں ظالم ہو جاؤں تب تو میری بھی تباہی اور بربادی ہو جائے۔" عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس کے بارے میں مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ اس کے جوڑ کے کچھ لوگ پیدا ہوں گے کہ تم اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے مقابل ناچیز سمجھو گے۔ وه قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے زور دار تیر جانور سے پار ہو جاتا ہے۔ اس تیر کے پھل کو اگر دیکھا جائے تو اس میں کوئی چیز (خون وغیره) نظر نہ آئے گی پھر اس کے پٹھے کو اگر دیکھا جائے تو چھڑ میں اس کے پھل کے داخل ہونے کی جگہ سے اوپر جو لگایا جاتا ہے تو وہاں بھی کچھ نہ ملے گا۔ اس کے نفی (نفی تیر میں لگائی جانے والی لکڑی کو کہتے ہیں) کو دیکھا جائے تو وہاں بھی کچھ نشان نہیں ملے گا۔ اسی طرح اگر اس کے پر کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ گندگی اور خون سے وه تیر گزرا ہے۔ ان کی علامت ایک کالا شخص ہو گا۔ اس کا ایک بازو عورت کے پستان کی طرح (اٹھا ہوا) ہو گا یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہو گا اور حرکت کر رہا ہو گا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بہترین گروه سے بغاوت کریں گے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی اور میں گواہی دیتا ہوں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی (یعنی خوارج سے) اس وقت میں بھی علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اور انہوں نے اس شخص کو تلاش کرایا (جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروه کی علامت کے طور پر بتلایا تھا) آخر وه لایا گیا۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کا پورا حلیہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کئے ہوئے اوصاف کے مطابق تھا۔
صحيح بخارى: 3610
خوارج سے عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہماکا مناظرہ: (اسی فورم سے لیا گیا)
صفین کےمعرکہ سے کوفہ واپسی کےدوران خوارج کی ایک بڑی جماعت کوفہ سے چند میل کی دوری پر علی رضی کی فوج سے الگ ہوگئی، جن کی تعدادکا اندازہ بعض روایتوں کے مطابق بارہ ہزارسے کیاگیاہے (تاريخ بغداد: 1/160) اورایک روایت کےمطابق چھ ہزار (خصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب / النسائي : ص200) ایک روایت کے مطابق آٹھ ہزار (البداية والنهاية : 7 /280، 281)اورایک روایت کے مطابق چودہ ہزارتھی ۔(مصنف عبد الرزاق 10/157-160)
خوارج کی اس بڑی تعداد کے نکلنے سے علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں اضطراب پیدا ہوگیااورعلی رضی اللہ عنہ بقایا فوج کے ساتھ کوفہ میں داخل ہوئے اورخوارج کے معاملات میں الجھےرہے ، خاص طورسے جب آپ کویہ پتہ چلاکہ ان لوگوں خود کو منظم کرنا شروع کردیاہے ، اورانہوں نے نمازاورلڑائی کے لئے امیر متعین کرلیاہے اوریہ اعلان کردیا ہے کہ بیعت صرف اللہ کے لئے ہونی چاہئےاورامربالمعروف اور نہی عن المنکراداکرنی چاہئے ، ان کے ان نظریات نے ان کو عملی طورپر مسلمانوں کی جماعت سے الگ کردیا۔(فكر الخوارج والشيعة في ميزان أهل السنة والجماعة/ د. علي محمد الصلابي: ص22)
أمیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ نےان کو جماعۃ المسلمین میں واپس لانے کی کوشش و چاہت میں عبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہماکو ان کے پاس مناظرہ کے لئے بھیجا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس دوپہرمیں پہنچے ، ان سے سلام کیا تو وہ گویا ہوئے کہ آپ کس مقصدکے تحت آئے ہیں ؟ توآپ نے کہا:"میں تمہارےپاس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کےدامادکی طرف سےآیاہوں جن کی موجودگی میں قرآن کانزول ہوااوروہ قرآن کے مفاہیم کوتم سےزیادہ سمجھتے اور جانتےہیں ، ان میں کوئی بھی تمہارےساتھ نہیں ہے ، اورمیں تم کو ان کی باتیں پہنچاؤں گااورتم جو کہوگےان تک پہنچاؤں گا، اب تم بتاؤاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اورآپ کے چچازادکے خلاف تمہاراکیااعتراض ہے ؟ " انہوں نے کہا: تین اعتراضات ہیں :
اول : انہوں نے اللہ کے معاملےمیں لوگوں کو حکم بناکر کفرکاارتکاب کیاہے ، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ} [الأنعام: 57] (حکم صرف اللہ کے لئے ہے)
لہذا اللہ کے فیصلےمیں لوگوں کاکیادخل ؟
دوم : انہوں نے لڑائی کی اوراس لڑائی میں کسی کو نہ قیدکیااورنہ ہی مال غنیمت اکٹھا کیا، جبکہ اگر(ان کےمخالف ) کافرتھےتوان کو قیدکرنا چاہئے تھا ، اوراگرمؤمن تھےتو ان سے ان کی لڑائی جائزنہیں تھی ۔
سوم :انہوں نےاپنےنام کے سامنے سے "أمیرالمؤمنین " کا لفظ مٹادیا لہذاوہ کافروں کے امیرہیں ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے ان سے پوچھا کہ اورکچھ یا صرف اتناہی ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمارےلئے اتنا ہی کافی ہے ۔ پھرآپ نے ان سے کہاکہ :
"اگرمیں تمہارے اعتراضات کااللہ کی کتاب اوراس کے نبی کی سنت سےجواب دوں توکیا تم اسے قبول کروگے؟ "
تو انہوں نے کہاکہ ہاں ۔
عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے ان کے اعتراضات کاجواب دیناشروع کیا اورفرمایا کہ :" اللہ کے حکم میں لوگوں کو حکم بنانےکی جہاں تک بات ہے تو میں تمہیں اللہ کافرمان پڑھ کرسناتاہوں جس میں اللہ تعالی نے ایک چوتھائی درہم کی قیمت میں لوگوں کوحکم بنایاہے ، اورانہیں حکم دیا ہے کہ وہ اس میں فیصلہ کریں ، ارشادفرماتا ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا لاَ تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ} (المائدة: 95) (اے ایمان والو! حالت احرام میں وحشی جانوروں کا شکارمت کرواورجس نے جان بوجھ کراس کوقتل کردیا تواس پرفدیہ واجب ہے جوکہ قتل کئے گئے جانورکےمساوی ہوگاجس کا فیصلہ تم میں سے دومعتبرشخص کریں گے)
اب میں تم سے اللہ کی قسم دےکرپوچھتاہوں کہ لوگوں کا خرگوش وغیرہ کے شکارمیں فیصلہ کرنا ا‌فضل ہے یا لوگوں کے خون کو بچانے اوران کی خیروبھلائی میں فیصلہ کرنا ؟ جبکہ تمہیں معلوم ہے کہ اگراللہ تعالی چاہتاتوخود فیصلہ کردیتا او رلوگوں کو اس کاذمہ دارنہیں بناتا ۔ تو ان لوگوں نے کہاکہ : یہ زیادہ بہترہے ۔
پھرآپ نے کہا کہ :اسی طرح اللہ تعالی عورت اوراس کے شوہر کےبارےمیں ارشاد فرماتاہے :
{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا}(النساء: 35)(اگرتمہیں میاں بیوی کی آپسی رنجش کا ڈرہے توایک منصف مردکے گھروالوں میں سے ایک عورت کے گھروالوں میں سے مقررکردو،اگریہ دونوں صلح کراناچاہیں گےتواللہ دونوں میں ملاپ کرادےگا)
میں تمہیں اللہ کی قسم دےکرپوچھتا ہوں :
"لوگوں کی بھلائی کے لئے اوران کی حفاظت کی خاطرلوگوں کے درمیان فیصلہ کرناافضل ہے یاایک عورت کی شرم گاہ کے بارےمیں ؟ " ۔
پھرآپ نے ان کے دوسرے اعتراض کاجواب دیتےہوئے فرمایا : "تم لوگ کہتے ہوکہ علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی تو کیا لیکن نہ تو لوگوں کو قید کیا اورنہ ہی ان کے مال پرقبضہ کیا، تومیں پوچھتاہوں کہ کیاتم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہاکو گرفتارکرکے ان کے ساتھ وہی سلوک کرسکتےہوجودوسری عورتوں کے ساتھ کیاجاتاہے ،جب کہ وہ تمہاری ماں ہیں ؟اگرتم انہیں قیدکرکےدوسری عورتوں جیساسلوک کرنے کو جائز سمجھتےہو تو تم کافرہو‏ئے اور اگرتم کہتے ہو کہ وہ تمہاری ماں نہیں ہیں تو بھی تم کافر ہوئے ، کیونکہ اللہ تعالی کاارشادہے : {النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ} (الأحزاب: 6) اس طرح تم دوہری گمراہی کے پیچ وخم میں پھنسےہوئے ہو ، اگراس سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے توبتاؤ" ۔
ان کے تیسرے اعتراض کاجواب دیتےہو‏ئے آپ نے فرمایا:"تم کہتے ہو کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نام کے سامنے سے " أمیرالمؤمنین " کا لفظ کیوں مٹادیاتو تمہیں بتادوں اورتم نے سناہوگا کہ حدیبیہ کے دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کیااور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لکھو:
" یہ وہ عہدنامہ ہے جس پرمحمدرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اتفاق کیاہے "
تو مشرکین نے کہا :اللہ کی قسم ہرگزنہیں اگرہم جانتے کہ تم اللہ کے رسول ہو تو تمہاری اطاعت کرتے ، اس کی جگہ محمدبن عبداللہ لکھو۔ اس کے بعدآپ نے علی رضی اللہ عنہ سے اسے مٹاکر محمدبن عبداللہ لکھنےکو کہا ۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی اللہ عنہ سے بہترہیں اورآپ نے خوداپنے دست مبارک سے لفظ "رسول اللہ "مٹادیا، اورآپ کے اس مٹانے سے آپ کی نبوت نہیں مٹ گئی " ۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس جواب سے دوہزار خارجی تائب ہوگئے او ر باقی اپنی گمراہی پرقائم کوفہ سے نکل گئے او ر اسی پر ہلاک ہو ئے جن کو انصاراور مہاجرین نے قتل کیا
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
9.
جھوٹے مدعیان نبوت كا ظہور:
لا تقوم الساعة حتى يقتتل فئتان فيكون بينهما مقتلة عظيمة، دعواهما واحدة، ولا تقوم الساعة حتى يبعث دجالون كذابون، قريبا من ثلاثين، كلهم يزعم أنه رسول الله
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا "قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی بھاری جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو لیں۔ ان میں ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وه الله کا نبی ہے
صحيح بخارى:3609
مشهور جھوٹے مدعیان نبوت:
فتح مکہ 8 ھ کے بعد مختلف قبائل نے کثرت سے اپنے وفود رسول الله ﷺ کی خدمت میں بھیجے اور بڑی تیزی سے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ،چنانچہ اسی وجہ سے 9 ھ کو سنۃ الوفود کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ آپ ﷺ کے دور حیات کے آخری حصے میں دو بدباطن افراد مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے جھوٹا دعویٰ نبوت کیا ۔ اسی دوران آپ ﷺ پر مرض الموت طاری ہوا ۔ اسی بیماری کے اثنا میں آپ ﷺ نے ایک خواب دیکھا کہ آپ ﷺ کے دونوں ہاتھوں میں کنگن ہیں ۔ آپ ﷺ کو اس سے نفرت سی محسوس ہوئی ، آپ ﷺ نے ان پر پھونک ماری جس سے وه دونوں اُڑ گئے ،اس کی تعبیر آپ ﷺنے یہ بتائی کہ ان کنگنوں سے یہ دونوں جھوٹے مدعیان نبوت ( مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی ) مراد ہیں اور دونوں عنقریب میرے ہی جانثاروں کے ہاتھوں انجام بد تک پہنچیں گے ( بعد میں یہ پیشن گوئی اسی طرح حرف بہ حرف صادق ہو ئی) ۔
" اسود عنسی " یمن کا باشنده تھا ۔ شعبده بازی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ۔ اس کا لقب ذوالحمار ( گدھے والا ) بھی بتایا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس ایک سدھایاہوا گدھا تھا، یہ جب اس کو کہتا کہ خدا کو سجدہ کرو تو وہ سجده کرتا، بیٹھنے کو کہتا تو وہ بیٹھ جاتا ، کھڑے ہونے کو کہتا تو کھڑا ہوجا تا ۔ اس شعبدے بازی کی وجہ سے وه لوگوں کو بے وقوف بناتا تھا کہ دیکھو ! ایک بے زبان جانوربھی میری تابعداری کرتا ہے ۔ اسی شعبدہ بازی کی وجہ سے لوگ اس سے متاثر ہوئے اور اس کو بہت جلد کامیابی حاصل ہوئی ۔ چند دن میں اس نے ہر طرف آتشِ فسادمشتعل کردیا ۔ اس کی موت رسول الله ﷺ کی حیات میں ہی ہوئی اور اس کو نبی ﷺ کے ایک جانثار صحابی حضرت فیروز ديلمى رضی اللہ عنہ نے قتل کیا ۔
دوسرا مدعئی نبوت مسیلمہ کذاب تھا ۔ اسود عنسی کی کامیابی وپذیرائی ديکھ کر اس کو بھی جرأت ہوئی اور نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہا : " مجھے محمد (ﷺ )نے شریکِ رسالت کرلیا ہے ۔ اس کی خود ساختہ نبوت کافتنہ کافی عرصہ تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا ۔ جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی عمر سو سال سے بھی زیاده ہوچکی تھی ۔ 10 ہجری کے آخر میں اس نے ایک خط آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ،جس کے الفاظ کچھ یوں تھے : " مسیلمہ رسول ( نعوذباللہ ) کی طرف سے محمد رسول (ﷺ) کی طرف ،میں رسالت میں تمہارا شریک کیا گیا ہوں ۔آدھی زمین ہماری ہے اور آدھی قریش کی ، مگر قریش ایسی قوم ہے جو ظلم کرتی ہے "۔ جس کا جواب آپ ﷺ نے ان الفاظ میں دیا " شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ محمد رسول اللہ (ﷺ)کی جانب سے مسیلمہ کذاب کے نام ۔ بعد حمد سلا م ہو اس پر جو راه راست کی پیروی کرے ۔ پھر یہ تحقیق ہے كہ ساری زمین اللہ کی ہے ، اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے بخش دےتا ہے اور عاقبت پرہیزگاروں کے حصے میں ہے "۔
رسول الله ﷺ کی حیات میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا ،مگر آپ ﷺ کے وفات پاتے ہی مسیلمہ کذاب نے اپنے پر پوری طرح کھول دیئے ۔ لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کےلئے دین اسلام میں بہت سی ایسی تبدیلیاں کیں جو لوگوں کی نفسانی خواہشات کے عین مطابق تھیں تاکہ عوام کی اکثریت اس کی خانہ ساز نبوت پر ایمان لے آئے ۔ چنانچہ اس نے شراب حلال کردی ،زنا کو مباح کردیا ، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنے کو حرام کردیا ، ماه رمضان کے روزے ختم کردیئے ،تمام سنتیں ،نوافل وغیره ختم کردیں ، صرف فرض نماز باقی رکھی ۔
مسیلمہ کذاب کی پذیرائی کو دیکھ کردوسرے مزید بد باطن لوگوں کوبھی دعویٰ نبوت کی جرات ہوئی جس میں طلیحہ اسدی بھی تھا ۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فراست ایمانی سے آغاز خلافت ہی میں ان تمام ہنگاموں کی قوت کا پورا اندازہ لگا لیا تھا ۔ چنانچہ سيدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تقرر طلیحہ مدعی نبوت کے مقابلے میں کیا ۔ طلیحہ اسدی کے ساتھ قبیلۂ طئے کا بڑا مجمع بھی تھا ، اس لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ جو قبیلہ طئے ہی سے تعلق رکھتے تھے ،کو اول اپنے قبیلے کی طرف روانہ کیا کہ ان کو سمجھا کر تباہی سے بچائیں ۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو بہت سمجھایا جس کے نتیجے میں انہوں نے جھوٹے نبی کی حمایت ترک کرکے خلیفۂ اسلام کی اطاعت قبول کی ۔ اس طرح یہ مہم بغےر خون ریزی کے طے ہوگئی ۔ اسی طرح حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے سمجھانے سے قبیلۂ جدیلہ نے بھی اطاعت قبول کرلی ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب طلیحہ اسدی کی سرکوبی کےلئے لشکر لے کر آگے بڑھے تو ان کے ساتھ قبیلۂ طئے کے ایک ہزار سوار بھی نصرت اسلام کےلئے کمر بستہ تھے ۔ طلیحہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں شکست کھائی اور ایک طرف بھاگ گیا ،وہاں پہنچ کر دوباره اسلام لایا ۔ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تمام فتنوں کی سرکوبی کےلئے مجموعی طور پر گیارہ لشکر ترتیب دیئے تھے ، اس میں ایک دستہ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابو جہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کےلئے یمامہ کی طرف روانہ کیا اور ان کی مدد کےلئے حضرت شرحبیل رضی اللہ عنہ بن حسنہ کو کچھ فوج کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ کردیا تھا اور عکرمہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جب تک دوسرا لشکر آپ تک نہ پہنچے حملہ نہ کرنا ،شرحبیل رضی اللہ عنہ کی آمد سے پہلے ہی حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کو شکست ہوئی اور پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کوجب ان کی شکست کی خبر ملی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ( جوکہ بنی طئے کی مہم سے فارغ ہوچکے تھے ) مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراءہونے کا حکم دیا پور ایک لشکر ان کےلئے ترتیب دیا جس میں مہاجرین پر حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ (سيدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی ) اور انصار پر حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور حضرت براءبن عازب رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کیا ۔ جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ یمامہ پہنچے تو مسیلمہ کذاب کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ چکی تھی جبکہ مسلمانوں کا لشکر 13 ہزار نفوس پر مشتمل تھا ۔ مسیلمہ کذاب نے جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی آمد کی اطلاع سنی تو آگے بڑھ کر عقر با نامی مقام پر پڑاؤ ڈالا ۔ اسی میدان میں حق وباطل کا مقابلہ ہوا ۔ اس جنگ میں بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے، جن میں ثابت بن قیس ،حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ شامل ہیں ۔
مسیلمہ اس جنگ کے دوران ایک باغ میں قلعہ بند چھپا رہا ۔ آخر کار اپنے خاص دستے کو لے کر میدان میں کود پڑا ۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی رضی اللہ عنہ نے ، جو اب مسلمان ہوچکے تھے اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب فیصلہ کن ثابت ہوئی اور مسیلمہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا ۔ قریب ہی ایک انصاری صحابی کھڑے تھے ، انہوں نے اس کے گرتے ہی اس پر پوری شدت سے تلوار کا وار کیا جس سے مسیلمہ کا سر کٹ کر دور جاگرا ۔ اس سے مسلمانوں کا جذبہ اور بلند ہوگیا اور انہوں نے پورے زور سے دوسرا حملہ کیا یہاں تک کہ مسیلمہ کے چالیس ہزار کے لشکر جرار میں سے تقریباً 21 ہزار افراد موت کے گھاٹ اتاردئے گئے ۔ مسلمانوں میں سے صرف 660 آدمی شہید ہوئے ۔مسیلمہ کذاب کی موت کے بعد اس کا قبیلہ بنی حنیفہ صدق دل سے دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ ) جھوٹے مدعےان نبوت کے خلاف آخری معرکہ تھا جس کے بعد دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں کسی اور شخص کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی.
اسی طرح مختلف ادوار میں مختلف علاقوں میں بہت سے بدبختوں نے نبوت کے جھوٹے دعوے کیے، لیکن مسلمانوں کی غیرت نے ایک لمحے کے لیے بھی ان کے وجود کو اس دھرتی پر گوارا نہ کیا ۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کو غاصبانہ قبضہ جمانے کے بعد ضرورت تھی کہ وہ اپنے قدم مستحکم کرتا او راپنے تسلط کو طول دیتا، جس کے لیے اسے مسلمانوں کو غلام بنانے کی ضرورت تھی، لیکن انگریز پوری کوشش کے باوجود مسلمانوں کو غلام نہ بنا سکا، بڑی سوچ وبچار کے بعد انگریز کے سامنے یہ بات آئی کہ مسلمانوں کو غلام بنانے میں دو بڑی رکاوٹیں درپیش ہیں ، پہلی مسلمانوں کی اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے محبت اور دوسری رکاوٹ مسلمانوں کا جذبہ جہاد ہے۔ انگریز کو ضرورت تھی کہ جہاد کے فریضہ کو منسوخ قرار دیا جائے، تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد ختم ہو جائے جہاد ایک فریضہ ربانی ہے ، چناں چہ اس کام کے لیے انگریز کی نظر انتخاب اس انگریز وفا دار خاندان کے شخص مرزا قادیانی پر پڑی او راس خدمت کے لیے مرزا غلام قادیانی کاانتخاب کیا گیا۔ انگریز نے اپنے اس انگریزی نبی کو ایسی ہی ترقی دی جیسے وہ اپنے دنیاوی ملازمین کو ترقی دیا کرتا تھا، چنانچہ پہلے پہلے تو اسے مبلغ اسلام اور مناظر اسلام کے طور پر متعارف کروایا گیا، پھر اس نے عالم، پھر مصنف، پھر مجدد، مہدی مثیل مسیح، مسیح موعود غیر تشریعی نبی، تشریعی نبی حتی کہ جسارت میں اس قدر بڑھا کہ دعویٰ کیا کہ وہ خود محمد رسول الله ہے، جسے اشاعت اسلام کے لیے دوباره دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔اس طرح سے لوگوں کا تعلق مکہ مدینہ سے کٹوا کر قادیان کی طرف جوڑنے لگا اور چوں کہ مسیحیت کا دعویٰ بھی تھا اور حدیث کے مطابق حضرت مسیح کے زمانے میں کافر باقی نہ بچنے کی وجہ سے جہاد ختم ہو جائے گا اس بدبخت نے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے تنسیخ جہاد اور حرمت جہاد کا اعلان کر دیا اور بڑے فخر سے اپنی کتب میں ذکرکیا کہ میں نے حرمت جہاد کے سلسلہ میں اس قدر کتب او ررسائل تحریر کیے ہیں کہ : " ان سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
10.
مال كى كثرت:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ الْمَالُ وَيَفِيضَ، حَتَّى يَخْرُجَ الرَّجُلُ بِزَكَاةِ مَالِهِ فَلَا يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهَا مِنْهُ، وَحَتَّى تَعُودَ أَرْضُ الْعَرَبِ مُرُوجًا وَأَنْهَارً
سيدنا ابوہریره رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک مال کی کثرت نہ ہو جائے گی اور بہہ نہ پڑے گا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ آدمی اپنے مال کی زکوة لے کر نکلے گا اور وه کسی کو نہ پائے گا جو اس سے صدقہ قبول کر لے یہاں تک کہ عرب کی زمین چراگاہوں اور نہروں کی طرف لوٹ آئے گی
صحيح مسلم: 157-60
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ فَشَكَا إِلَيْهِ الفَاقَةَ، ثُمَّ أَتَاهُ آخَرُ فَشَكَا إِلَيْهِ قَطْعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ: «يَا عَدِيُّ، هَلْ رَأَيْتَ الحِيرَةَ؟» قُلْتُ: لَمْ أَرَهَا، وَقَدْ أُنْبِئْتُ عَنْهَا، قَالَ «فَإِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، لَتَرَيَنَّ الظَّعِينَةَ تَرْتَحِلُ مِنَ الحِيرَةِ، حَتَّى تَطُوفَ بِالكَعْبَةِ لاَ تَخَافُ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ، - قُلْتُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِي فَأَيْنَ دُعَّارُ طَيِّئٍ الَّذِينَ قَدْ سَعَّرُوا البِلاَدَ -، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ لَتُفْتَحَنَّ كُنُوزُ كِسْرَى»، قُلْتُ: كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ؟ قَالَ: " كِسْرَى بْنِ هُرْمُزَ، وَلَئِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، لَتَرَيَنَّ الرَّجُلَ يُخْرِجُ مِلْءَ كَفِّهِ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ فِضَّةٍ، يَطْلُبُ مَنْ يَقْبَلُهُ مِنْهُ فَلاَ يَجِدُ أَحَدًا يَقْبَلُهُ
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک صاحب آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر و فاقہ کی شکایت کی، پھر دوسرے صاحب آئے اور راستوں کی بدامنی کی شکایت کی، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عدی! تم نے مقام حیره دیکھا ہے؟ (جو کوفہ کے پاس ایک بستی ہے) میں نے عرض کیا کہ میں نے دیکھا تو نہیں، البتہ اس کا نام میں نے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری زندگی کچھ اور لمبی ہوئی تو تم دیکھو گے کہ ہودج میں ایک عورت اکیلی حیره سے سفر کرے گی اور (مکہ پہنچ کر) کعبہ کا طواف کرے گی اور اللہ کے سوا اسے کسی کا بھی خوف نہ ہو گا۔ میں نے (حیرت سے) اپنے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوؤں کا کیا ہو گا جنہوں نے شہروں کو تباه کر دیا ہے اور فساد کی آگ سلگا رکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کچھ اور دنوں تک زندہ رہے تو کسریٰ کے خزانے (تم پر) کھولے جائیں گے۔ میں (حیرت میں) بول پڑا کسریٰ بن ہرمز (ایران کا بادشاہ) کسریٰ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں کسریٰ بن ہرمز! اور اگر تم کچھ دنوں تک اور زندہ رہے تو یہ بھی دیکھو گے کہ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلے گا، اسے کسی ایسے آدمی کی تلاش ہو گی (جو اس کی زکوٰۃ) قبول کر لے لیکن اسے کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو اسے قبول کر لے
صحيح بخارئ: 3595
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
10
حجاز سے آگ كا نکلنا:



أَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَخْرُجَ نَارٌ مِنْ أَرْضِ الحِجَازِ تُضِيءُ أَعْنَاقَ الإِبِلِ بِبُصْرَى

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ سر زمین حجاز سے ایک آگ نکلے گی اور بصریٰ میں اونٹوں کی گردنوں کو روشن کر دے گی.
صحيح بخارى:7118
فائده: اس حدیث میں جس آگ کا ذکر آیا ہے اس آگ کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اور دیگر مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس آگ کے نمودار ھونیکا واقعہ پیش آچکا ھے یہ آگ جمادی الثانی 650ھ جمعہ کے دن مدینہ منوره کی بعض وادیوں سے نمودار ھوئ اور تقریبا مہینہ تک چلی. راویوں نے اسکی کیفیت یہ لکھی ہے کہ اچانک حجاز کی جانب سے وه آگ نمودار ہوئ اور ایسا معلوم ھوتا تھا کہ آگ کا پورا ایک شھر ہے اور اس میں قلع یا برج اور کنگورے جیسی چیزیں موجود ھیں اسکی لمبائى چار فرسخ اور چوڑائى چار میل تھی. آگ کا سلسلہ جس پہاڑ تک پہنچتا اسکو شیشے اور موم کیطرح پگھلا دیتا. اسکے شعلوں میں بجلی کی کڑک جیسی آواز اور دریا کی موجوں جیسا جوش تھا اور یہ محسوس ھورھا تھا جیسے اسکے اندر سے سرخ اور نیلے رنگ کے دریا نکل رہے ہوں وه آگ اسی کیفیت کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچی مگرعجیب بات یہ تھی کہ اس کے شعلوں کیطرف سے جو ہوا مدینہ منوره کیطرف آرہی تھی وہ ٹھنڈی تھی. علماء نے لکھا ھے کہ اس آگ کی لپیٹیں مدینہ کے تمام جنگلوں کو روش کیۓ ھوۓ تھیں، یہاں تک کہ حرم نبوی اور مدینہ کے تمام گھروں میں سورج کی طرح روشنی پھیل گئ تھی، لوگ رات کے وقت اسکی روشنی میں اپنے سارے کام کاج کرتے تھے بلکہ ان دنوں میں اس علاقے کے اوپر سورج اور چاند کی روشنی ماند ہوگئ تھی
مکہ مکرمہ کے بعض لوگوں نے یہ شھادت دی کہ وه اس وقت یمامہ اور بصرا میں تھے تو وه آگ انہوں نے وہاں بھی دیکھی.
اس آگ کی عجیب خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ یہ پتھروں کو جلا کرکوئلہ کردیتی تھی لیکن درختوں پر اسکا کوئى اثر نہیں ہوتا تھا. کہتے ہیں جنگل میں ایک بہت بڑا پتھر تھا جسکا آدھا حصہ حرم مدینہ کی حدود میں تھا اور آدھا حصہ حرم مدینہ سے باھر تھا. آگ نے اس آدھے حصے کو جلا کر کوئلہ کردیا جو حرم مدینہ سے باھرتھا لیکن جب آگ اس حصہ تک پہنچی جو حرم میں تھا تو ٹھنڈی پڑ گئ اور پتھر کا وه آدھا حصہ بالکل محفوظ رھا.
بصرا کے لوگوں نے اس بات کی گواھی دی کہ ھم نے اس رات آگ کی روشنی میں جو حجاز سے ظاھر ھورھی تھی بصرا کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن دیکھا (البدایہ والنہایہ ابن کثیر
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
11ترکوں سے جنگ:

قالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا التُّرْكَ، صِغَارَ الأَعْيُنِ، حُمْرَ الوُجُوهِ، ذُلْفَ الأُنُوفِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمُ المَجَانُّ المُطْرَقَةُ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تُقَاتِلُوا قَوْمًا نِعَالُهُمُ الشَّعَرُ
ابو هريره رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک تم ترکوں سے جنگ نہ کر لو گے، جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے، ناک موٹی پھیلی ہوئی ہو گی، ان کے چہرے ایسے ہوں گے جیسے تہ بند چمڑا لگی ہوئی ہوتی ہے اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایک ایسی قوم سے جنگ نہ کر لو گے جن کے جوتے بال کے بنے ہوئے ہوں گے۔
صحيح بخارى:2928
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
12 ظالم حكمران:


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ، لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ، وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا

سيدنا ابوہریره رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا دوزخ والوں کی دو قسمیں ایسی ہیں کہ جنہیں میں نے نہیں دیکھا ایک قسم تو ان لوگوں کی ہے کہ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہیں جس سے وه لوگوں کو مارتے ہیں اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں وه سیدهے راستے سے بہکانے والی اور خود بھی بھٹکی ہوئی ہیں اس عورتوں کے سر بختی اونٹوں کی طرح ایک طرف جهکےہوئے ہیں وه عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو پا سکیں گی جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جا سکتی ہے
صحيح مسلم:2128
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
13 قتل و خونريزى كى كثرت:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَتَلَ، وَلَا يَدْرِي الْمَقْتُولُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ قُتِلَ
سيدنا ابوہریره رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے لوگوں پر ایسا زمانہ ضرور آئے گا کہ قاتل نہیں جان سکے گا کہ اس نے کس وجہ سے قتل کیا اور نہ ہی مقتول جان سکے گا کہ اسے کس وجہ سے قتل کیا گیا۔
صحيح مسلم:2908
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
14
دنیا سے امانت داری کا اٹھ جانا:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا ضُيِّعَتِ الأَمَانَةُ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ» قَالَ: كَيْفَ إِضَاعَتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «إِذَا أُسْنِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ
ابوہریره رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔“ پوچھا: یا رسول اللہ! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ فرمایا ”جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "When honesty is lost, then wait for the Hour." It was asked, "How will honesty be lost, O Allah's Messenger?" He said, "When authority is given to those who do not deserve it, then wait for the Hour
صحيح بخارى:6496
 
Top