• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علامہ محمدمنظورنعمانی اور عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حضرت حرب بن شداد@ صاحب کی فرمائش پر یہ مضمون پیش کیا جارہا ہے
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مولانا محمدمنظورنعمانی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا نور محمد تونسوی
برادرانِ اسلام! حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ علمائے دیوبند کی صفوں میں ایک ممتاز شخصیت کے مالک ہیں حضرت نعمانی دین اسلام کے ہر شعبہ میں نمایاں خدمات ادا کی ہیں اللہ ان کو ہم سب کی طرف سے جزائے خیرعطافرمائے آمین۔حضرت نعمانی رحمہ اللہ علاائے اہل السنۃ والجماعۃ کے ہم مسلک تھے خصوصاً عقیدہ حیات النی صلی اللہ علیہ وسلم ، عقیدہ حیاتِ قبر اور مسئلہ عام موتیٰ کے سااع میں ان کو علمائے دیوبند سے پوراپورا اتفاق تھا لیکن عصر ہذا کے معتزلہ ان کی عبارات میں قطع وبرید کر کے اپنا من بھاتا مطلب کشید کرکے سادہ لوح عوام کو یہ باور کرانے کی سعی مذموم کرتے ہیں کہ حضرت نعمانی رحمہ اللہ ہمارے ہم مسلک اور ہم خیال تھے حالانکہ د ہی دھوکہ اور تلبیس ہے بلکہ تاویل القول بما لایرضیٰ بہ القائل کی شرمناک مثال ہے لہذا ضرورت محسوس کی گئی کہ مسائل ثلاثہ میں مولانا کا موقف تحریر کیا جائے تاکہ کوئی ساتھی ان کے نا م پر کسی دھوکہ میں نہ آئے۔سب سے پہلے عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت نعمانی رحمہ اللہ کے موقف کو معلوم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقتباسات میں غور کیجئے۔ 1 حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر حضرت نعمانی رحمہ اللہ کا ایک مستقل رسالہ ہے جس کا نام "مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت "ہے اس رسالہ میں حضرت نعمانی رحمہ اللہ نے اس عقیدہ کی حقیقت کو سمجھانے کی کوشش ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں: اسی طرح ہمارے بعض بزرگوں کی تحریروں میں مثلا ً:التصد یقات لدفع التلبیسات المہند علی المفند میں انبیاء عمحض السلام کی قبر والی حیات کو جو حیات دنیویہ کہا گیا تو اس کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر ورود موت کے ان کو دفن کیا گیا اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ وہ حیات دنیا کی سی ہے یعنی مع الجسد ہے صرف برزخی روحانی نہیں ہے جو تمام مومنین کو حاصل ہے جن کے اجسام مٹی ہوچکے ہیں ۔التصدیقات کے اردوترجمہ ہی میں غور کرنے سے یہ مطلب خوب واضح ہوجاتاہے علاوہ ازیں ا ن بزرگوں کی ایسی عبارتوں کا یہ مطلب بیان کرنا اورا ن کا یہ مسلک بتانا کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر موت وارد ہی نہیں ہوئی اور قبروں میں بعینہ دنیا والی ناسوتی حیات کے ساتھ دفن کئے گئے ہیں۔ صریحاً ان پر یہ الزام لگانا ہے کہ اس مسئلہ میں ان کی رائے قرآن وحدیث کے صریح نصوص وبینات اوراجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے خلاف ہے میں نہیں یقین کرتا کہ ہمارے علماء میں سے کسی نے ایسی بات کہی ہو، سبحانک ہذا بہتان عظیم۔ مسئلہ حیات النیا صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت ص۱۲ قارئین کرام ! حضرت نعمانی رحمہ اللہ نے وضاحت فرمادی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات قبر مع الجسد ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا والے جسم کے ساتھ باحیات ہیں اور یہی عقیدہ پوری امت محدایہ مع علمائے دیوبند کا ہے جبکہ معتزلہ دنیا والے جسم کی نفی کرکے نیا جسم تجویز کرتے ہیں۔ 2 حضرت نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہں : عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال ؛ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامن احد یسلم علی الارد اللہ علی روحی حتی ارد علیہ السلام ۔رواہ ابوداود والبیہقی ۔ ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب کوئی مجھ پر سلام بھیجے گا تو اللہ تعالی میری روح مجھ پر واپس فرمائے گا تاکہ میں اس کے سلام کا جواب د وں۔ تشریح : حدیث کے ظاہر ی الفاظ الا رد اللہ علی روحی سے یہ شبہ ہوسکتاہے کہ آپ کی روح مبارک جسد اطہر سے الگ رہتی ہے جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالی آپ کے جسد اطہر میں روح مبارک کو لوٹادیتا ہے تاکہ آپ سلام کا جواب دے سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتی ۔اگر اس کو تسلیم کر لیاجائے تو ماننا پڑے گا کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں دفعہ آپ کی روح مبارک جسم اقدس میں ڈالی اور نکالی جاتی ہے کیونکہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کے لاکھوں کروڑوں امتی آپ پر صلوۃ وسلام نہ بھیجتے ہوں روضہ اقدس پر حاضر ہوکر سلام عرض کرنے والوں کا بھی ہر وقت تانتا بندھارہتا ہے اور عام دنوں میں بھی ان کا شمار ہزاروں سے کم نہںب ہوتا۔ علاوہ ازیں انبیاء کرام علمہے السلام کا اپنی قبور میں زندہ ہوناایک مسلم حقیقت ہے اگر چہ اس حیات کی نوعیت کے بارے میں علمائے امت کی رائیں مختلف ہیں لیکن اتنی بات سب کے نزدیک مسلم اور دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ انبیاء علمچہ السلام اور خاص کر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قبور میں حیات حاصل ہے اس لیے حدیث کا یہ ملبن نہیں ہوسکتاکہ آپ کا جسد اطہر روح سے خالی رہتا ہے اور جب کوئی سلام عرض کرتا ہے تو اللہ جواب دلوانے کے لیے اس میں روح ڈال دیتا ہے اس بنا پر اکثر شارحین نے رد ِروح کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قبر مبارک میں آپ کی روح پاک کی تمام تر توجہ دوسرے عالم کی طرف اور اللہ کی جمالی وجلالی تجلا ت کے مشاہدہ میں مصروف رہتی ہے اور یہ بات بالکل قرین قیاس ہے پھر جب کوئی امتی سلام عرض کرتاہےا ور وہ فرشتہ کے ذریعہ یا براہ راست آپ تک پہنچتا ہے تو اللہ تعالی کے اِذن سے آپ کی روح اس طرف بھی متوجہ ہوتی ہے اور سلام کا جواب دیتے ہیں بس اس روحانی توجہ والفاہت کو ردِ روح سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ عاجز راقم سطور عرض کرتاہے کہ اس بات کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو عالم برزخ کے معاملات واحوال سے کچھ مناسبت رکھتے ہوں اللہ ان حقائق کی معرفت نصیب فرمائے اس حدیث کا خاص پیغام یہ ہے کہ جو امیب بھی اخلاص قلب سےآپ پر سلام بھیجتا ہے آپ عارضی اور سرسری طور پر صرف زبان سے نہیں بلکہ روح وقلب سے متوجہ ہوکر اس کے سلام کا جواب عنایت فرماتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ اگر عمر بھر کے صلوۃ وسلام کا کچھ بھی اجر وثواب نہ ملے صرف آپ کا جواب مل جائے تو سب کچھ مل گار۔ السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ الہہ وبرکاتہ ۔ معارف الحدیث ج۵ص۳۷۸ 3 مولانا محمدمنظورنعمانی رحمہ اللہ ایک حدیث نقل کرکے اس کی تشریح فرماتے ہیں:عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال ؛ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی علی عند قبری سمعۃ ومن صلی علی نائیا ابلغتہ ۔۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان۔ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جوآدمی میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجے گا یا سلام عرض کرے گا و ہ میں خود سنوں گا اور جوکہیں دورسے بھیجے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائے گا ۔ تشریح: اس حدیث سے یہ تفصیل معلوم ہوگئی کہ فرشتوں کے ذریعہ آپ کو صرف وہی درود وسلام پہنچتا ہے جو کوئی دور سے بھیجے لیکن اللہ جن کو قبراطہر کے پاس پہنچا دے اور وہ وہاں حاضر ہو کر صلوۃ وسلام عرض کریں تو آپ اس کو بنفسِ نفیس سنتے ہیں اورجیسا کہ ابھی معلوم ہوچکا ہے کہ ہر ایک کو جواب بھی عنایت فرماتے ہیں۔ کتنے خوش نصیب ہیں وہ بندے جو روزانہ سینکڑوں یاہزاروں بار صلوۃ وسلام عرض کرتے ہیں اور آپ کا جواب پاتے ہیں۔حق یہ ہے کہ اگر ساری عمر کے صلوۃ وسلام کا ایک ہی دفعہ جواب مل جائے تو جنہیں محبت کا کوئی ذرہ نصیب ہے ان کے لیے وہ دو جہاں کی دولت سے زیادہ ہے۔ کسی محب نے کہا ہے۔ بہر سلام مکن رنجہ درجواب آں لب کہ صد سلام مرا بس یکے جواب از تو اللھم صل علی سیدنا محمد النبی الامی والہ وبارک وسلم کما تحب وترضیٰ عدد ماتحب وترضیٰ معارف الحدیث ج5ص379۔ قارئین کرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت نعمانی رحمہ اللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ والی قبر مبارک میں بہ تعلق روح زندہ تسلیم فرماتے ہیں، اسی ]ارضیِ قبر [کو قبر کہتے ہیں،آپ کے دنیا والے جسد اطہر کو شامل حیات سمھتے ہیں، روح اقدس کی بدن مبارک سے ایک لحظہ کے لیے مفارقت برداشت نہیں کرتے اور یہ عقدقہ بھی رکھتے ہیں کہ دور سے پڑھا جانے والا درود وسلام بذریعہ ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کاجاتاہے جبکہ قبر شریف کے پاس پڑھا ہوا درودوسلام آپ بنفسِ نفیس سنتے اور جواب مرحمت فرماتے ہیں ۔ 4 حضرت نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ان سب استثنائی اور اختصاصی احکام ومعاملات سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی نوعیت دوسرے تمام لوگوں کی موت سے بہت کچھ مختلف ہے اور مں نہں سمجھتا کہ اتنی بات سے ہمارے حلقے کے کسی صاحب علم کو اختلاف ہوگا اسی طرح بعض احادیث سے جو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزب دیگر انبیاء علیھم السلام کو اپنے مدفو ں مںک ایک خاص قسم کی حیات حاصل ہے جو اس عالم کے مناسب ہے اور بعض حیثیات سے دنیا والی ناسوتی حیات سے بھی اعلیٰ واقویٰ ہے۔ غالباً اس سے بھی کسی صاحب علم کو اختلاف نہ ہو گا ۔ہاں اس کے آگے موت وحیات کی نوعیت کی تعین اور تیلا ت میں کچھ اختلاف ہوسکتاہے اورا س کی گنجائش بھی ہے ایسے اختلافات خود اہل التن۔ میں بلکہ اہل السنت کے ایک ایک حلقے میں بھی ہمیشہ رہے ہیں ان کو اہمیت دنیا اور ان باتوں کا باعث تفرقہ بننا بڑی بدقسمی کی بات ہے ۔ مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت ص۱۵ عقیدہ عذاب قبر اور مولانا نعمانیؒ: حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ عقیدہ عذابِ قبر میں صرف علمائے اہل السنت دیوبندسے متفق نہیں بلکہ اس عقیدہ کے زبر دست حامی اور موید ہیں وہ اس] زمین والی قبر[ کو قبر کہتے ہیں اسی قبر میں اعادہ روح کے قائل ہیں،ارضی قبر میں بہ تعلق روح مع الجسد العنصری دونوں کی جزاء وسزا کو تسلیم کرتے ہیں اور اپیب مایہ ناز کتاب معارف الحدیث میں عقیدہ عذاب قبرکو ایسے پیارے اور خوبصورت اندا ز میں تحریر فرمایا ہے کہ منصف مزاج آدمی اس کو پڑھ کر بآسانی حیا ت قبرکے عقیدہ کو تسلیم کرلیتاہے کیونکہ اس عقیدہ کی اہمیت ، حقیقت اور صحیح صورت اس کے دل میں اتر جاتی ہے اورایسی اترتی ہے کہ پھر نکلنے کانام نہیں لیود۔ بندہ عاجز کو عقیدہ حیات قبر خصوصا ًحیات الانبیاء علیہم السلام کے عیداے سے عہد طالبعلمی سے والہانہ محبت وعقیدت ہے اسی مناسبت سے میں نے اس موضوع پر لکھی ہوئی کثیر التعداد کتابوں اور تحریروں کامطالعہ کیا ہے لیکن جیسے حضرت نعمانی رحمہ اللہ نے قبر والی زندگی کو اذہان کے قریب کر دیا ہے ایسا دلنشین اندا زکہیں نہیں دیکھا۔ اس لیے میں اپنے تمام طلبہ اور نواجوان علماء سے پرزور اپیل کرتا ہوں کہ اگر عذاب قبر کی حقیقت اور صحیح صورت کو سمجھنا ہے تو معارف الحدیث کا ضرورمطالعہ فرمائیں ان شاء اللہ صرف اور صرف ا س ایک کتاب کا مطالعہ شفا ءالعلیل ثابت ہوگا اور ایسی سیرابی ہوگی کہ پھر تادم زیست تینگ محسوس نہ ہوگی بندہ عاجز کا دل تو چاہتا ہے کہ حضرت نعمانی کی یہ پوری تقریر اپنے ا س مقالہ مں شامل کردوں لیکن بخوف طوالت بندہ عاجز ان پر اکارم کرتاہے لہذا شائقین حضرات معارف القراان ج۱ص۱۸۶ تا ۲۰۴کامطالعہ فرمائیں ان شاء اللہ توقع سے زیادہ نفع ہوگا۔ عام موتیٰ کا سماع اور مولانانعمانی : مولانامحمد منظور نعمانی رحمہ اللہ کچھ عرصہ تک عام موتیٰ کے سماع کے قائل نہیں رہے لیکن کئی سالوں کے بعد انہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع فرمالیا اور اکابر علمائے اہل السنت والجماعت دیوبند رحمم اللہ کی طرح وہ عام موتیٰ کے سماع فی الجملہ کے قائل ہوگئے چنانچہ امام اہل السنت حضرت مولانا شیخ الحدیث والتفسیر محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں: حضرت مولانا)محمدمنظور نعمانی رحمہ اللہ ( دورِ حاضر کے محقق عالم ،بلند پایہ مناظر اور علمائے دیوبند کے ترجمان ہیں پہلے آپ بھی سماع موتیٰ کے منکرتھے جیساکہ ان کی کتاب ستہ ضروریہ ص۳۶ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور مولف ندائے حق وغیرہ نے بھی یہ حوالہ دیا ہے دیکھئے ندائے حق ص۱۵۰،واقامۃ البرھان ص۹۱ لیکن تسنتی ۳۳ سال تک سماع موتیٰ کا انکارکرنے کے بعد حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا سید انور شاہ کی تحقیق پر بیاعد رکھ کر اس سے رجوع کرلیا ہے اور اب سماع موتیٰ کے مُقر ہوگئے(ملاحظہ ہو ۔الفرقان لکھنو جمادی الاول ۱۳۸۶ھ بحوالہ سماع الموتیٰ ص۱۹۱( واضح ہوکہ حضرت نعمانی رحمہ اللہ جتنا عرصہ سماع موتیٰ کے انکاری رہے وہ عام موتیٰ کے سماع کا مسئلہ تھا جہاں تک تعلق ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سماع عند القبر الشریف کا تویہ اجماعی اور اتفاقی ہے اس کا انکار نہ حضرت نعمانی نے کیا ہے نہ کسی اور عالم دین نے۔​
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
یہ روافض کیلئے پہلا تحفہ ہے اس لنک کا جواب عنایت فرمائیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
موضوع سے متعلق بھی کچھ ارشاد فرمادیں بڑی نوازش ہوگی
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
محمد یعقوب بھائی اتنے تحائف۔۔۔
ایک ساتھ مسکراہٹ۔۔۔

آپ سے گذارش ہے کہ علامہ محمدمنظورنعمانی صاحب کا رد فرمادیں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو پھر بات بنے گی مسکراہٹ کے ساتھ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آپ سے گذارش ہے کہ علامہ محمدمنظورنعمانی صاحب کا رد فرمادیں عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو پھر بات بنے گی مسکراہٹ کے ساتھ

موضوع سے متعلق بھی کچھ ارشاد فرمادیں بڑی نوازش ہوگی

آپسے کافی شغل رہا ہے اور خصلت کا بھی پتا ہے پس آپ میرے بھائیوں کی پوسٹوں کا تو کیا جواب دیں گے اوپر والی بات میرے ساتھ کر لیں لیکن کچھ شرائط کے ساتھ -
1۔میں اوپر سے ہی حیات النبی کا عقیدہ کشید کر کے نمبر وار لکھ رہا ہوں پہلے آپ اسکی قطع برید کر دیں
2۔جب چند نمبروں کی شکل میں آ جائے تو اس پر لکھ دیں کہ میرا یہ عقیدہ ہے اسکا رد یا اس سے اتفاق ان شاء اللہ لازمی کروں گا مگر جب آپ اسکو اپنا عقیدہ ہی نہ مانیں تو پھر آپسے میں اس عقیدے پر کیوں بحث کروں ہاں آپ اپنا عقیدہ لکھیں تو بفرصت زندگی بات کروں گا


آپ کی پوسٹ سے کشید کیا گیا عقیدہ

1۔انبیاء علیھم السلام کی قبر والی حیات روح مع الجسد ہے روح اقدس کی بدن مبارک سے ایک لحظہ کے لیے مفارقت برداشت نہیں پس صرف برزخی روحانی نہیں ہے جو تمام مومنین کو حاصل ہے جن کے اجسام مٹی ہوچکے ہیں
2۔البتہ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر ورود موت کے ان کو دفن کیا گیا پس یہ مسلک کہ انبیاء کرام علیہم السلام پر موت وارد ہی نہیں ہوئی اور قبروں میں بعینہ دنیا والی ناسوتی حیات کے ساتھ دفن کئے گئے ہیں۔ یہ بات قرآن وحدیث کے صریح نصوص وبینات اوراجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور اجماع امت کے خلاف ہے
3۔البتہ جب موت آئی تو کتنی دیر کے لئے روح جسم سے علیحدہ ہوئی اس پر علماء دیوبند میں اتفاق نہیں اسکو فائنل کرنا بہرام صاحب کے ذمے ہے
4۔سماع موتی کا مسئلہ ایسے ہے کہ عام موتیٰ کہیں بھی نہیں سن سکتے مگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سماع عند القبر الشریف اجماعی اور اتفاقی ہے

آپ مزید اصلاح کر دیں اور اپنا عقیدہ مان لیں تاکہ بات آگے بڑھے
 
Top