• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء اہل حدیث سے چندسوالات

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(۶ ) ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﺎ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ ﯾﺎﻧﮩﯿﮟ؟​
یہ کیا جہالت اگلی جا رہی ہے؟
آپ کو گنبد اور روضہ کا فرق معلوم ہے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس مقام کو
رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ بتلایا ہے۔
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اسی مقام میں ہے، مزید کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یقناً ایک جنت کے باغ کی مانند ہے!
مسئلہ اس روض کا ہے ہی نہیں!
مسئلہ اس پر صدیوں بعد بنائے گئے گنبد کا ہے!
لہٰذا ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر
رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی ایک رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہے۔
احادیث ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے اور انہیں ( ان کے چچا ) عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے اس منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِينَةِ (بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ)
صحیح بخاری: کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت (باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف)

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحی نے، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِينَةِ (بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ)
صحیح بخاری: کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت (باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
عبد اللہ بن ابوبکر نے عباد بن تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید (بن عاصم) مازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"جو(جگہ ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے ،وہ جنت کے باغوں میں ایک سے باغ ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)

وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا بَيْنَ مِنْبَرِي وَبَيْتِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
ابو بکر نے ے عباد تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرما رہے تھے :"جو(جگہ ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے ،وہ جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)

حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (کی جگہ) جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔اور میرا منبر حوض پر ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)

لہٰذا اس مقام کا
رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہونا قطعی بدعت نہیں، بلکہ اسے روضہ ماننا عین ایمان ہے!

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ جاننے سے متعلق اس حدیث کو دیکھیں؛

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ح، وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ, وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: >اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ<- مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا-، زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا وَقَالَ: >وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟<، قَالَ هَنَّادٌ قَالَ: >وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ، وَصَدَّقْتُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ:- فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا}[إبراهيم: 27], الْآيَةُ،- ثُمَّ اتَّفَقَا-: >قَالَ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا، وَطِيبِهَا، قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ<. قَالَ: >وَإِنَّ الْكَافِرَ- فَذَكَرَ مَوْتَهُ، قَالَ-: وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ<. قَالَ: >فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا<، قَالَ: >وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ- قَالَ ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا<، قَالَ: >فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا<. قَالَ: >ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ<.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے ۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں ( نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زمین کرید رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا ” اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو یا تین بار فرمایا ۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے ” جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے ‘ جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے : اے فلاں ! تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیرا نبی کون ہے ؟ ہناد نے کہا : فرمایا ” اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں : تجھے کیسے علم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ‘ میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” یہی ( سوال جواب ہی ) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں ۔ فرمایا ” پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے : تحقیق میرے بندے نے سچ کہا ہے ‘ اسے جنت کا بستر بچھا دو ‘ اور اس کو جنت کا لباس پہنا دو ‘ اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ “ فرمایا ” جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں ‘ راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ ” پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ تو منادی آسمان سے ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ‘ اسے آگ کا بستر بچھا دو ‘ اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ فرمایا کہ پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے ‘ جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے ۔ اگر اسے پہاڑ پر مار جائے تو وہ ( پہاڑ ) مٹی مٹی ہو جائے ۔ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاقہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے ۔ اور پھر وہ مٹی ( ریزہ ریزہ ) ہو جاتا ہے ۔ ” فرمایا : پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: سنتوں کا بیان (باب: قبر میں سوال جواب اور عذاب کا بیان)

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'جب میت کویاتم میں سے کسی کودفنا دیاجاتاہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دوفرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کونکیر کہاجاتاہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیاکہتا تھا۔ وہ (میت) کہتاہے : وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں،اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول وعرض میں سترستر گز کشادہ کردی جاتی ہے ، پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہاجاتاہے : سوجا، وہ کہتاہے : مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچادو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں ، تووہ دونوں کہتے ہیں: توسوجااس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگا تاہے جو اس کے گھروالوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتاہے،یہاں تک کہ اللہ اُسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے،اور اگر وہ منافق ہے،تو کہتاہے: میں لوگوں کوجو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتاتھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تووہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہاجاتاہے: تو اسے دبوچ لے تووہ اسے دبوچ لیتی ہے اورپھراس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتاہے۔یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں علی، زیدبن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب ، انس ، جابر ،ام المومنین عائشہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرمﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ)
جامع ترمذی: كتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: عذابِ قبر کا بیان)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنتی ہونا قطعی ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں مندرجہ ذیل امور کا ہونا ، قطعی ہے!
یہ تو ہوئی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بات!
باقی رہا گنبد ، تو گنبد یہ
رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ نہیں!
ﺍﮔﺮ
ﺑﺪﻋﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﻭﮦ ﺁﯾﺖ ﯾﺎ ﺻﺤﯿﺢ
ﺻﺮﯾﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﯿﺶ ﻓﺮﻣﺎ ﺋﯿﮟ۔ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺿﮧ ﺍﻗﺪﺱ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﮔﺮ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﺮﺍﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ
ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟​
اوپر احادیث پیش کیں ہیں، کہ جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر کا رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ میں ہونا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں جنت کے باغوں کی نعمت کا ہونا موجود ہے!
مسئلہ نبی صلی اللہ کی قبر کا نہیں، مسئلہ اس گنبد کا ہے!
ﺍﻭﺭﺟﻮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺱ ﺑﺪﻋﺖ ﮐﯽ
ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﻮ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﮩﺎﺩ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
اول ؛تو یہ خارجی فکر آپ کی ہوگی کہ محض کسی عملی بدعت کی وجہ سے حکمرانوں کے خلاف خروج کو جہاد کہہ دیا جائے!
دوم؛ مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج صرف اس کی تکفیر پر جائز ہے!
سوم؛ کہ حکومت سعودیہ کا اس گنبد کو منہدم نہ کرنا، شرعی تقاضوں کے موافق ہے!
احادیث ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ، كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الكَعْبَةِ؟ قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ لَوْلاَ قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ - قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ - بِكُفْرٍ، لَنَقَضْتُ الكَعْبَةَ فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا ( ہاں ) مجھ سے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم ( دور جاہلیت کے ساتھ ) قریب نہ ہوتی ( بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی ) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ ( قریب نہ ہوتی ) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، ( بعد میں ) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الِاخْتِيَارِ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ، فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ)

صحیح بخاری: کتاب: علم کے بیان میں (باب: بعض باتوں کو مصلحتاً چھوڑ دینا)


حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے انہیں خبردی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلی اللہ نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بے شک ایسا کردیتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ( اور یقینا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سچی ہیں ) تو میں سمجھتا ہو ںیہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حطیم سے متصل جو دیواروں کے کونے ہیں ان کو نہیں چومتے تھے۔ کیونکہ خانہ کعبہ ابراہیمی بنیادوں پر پورا نہ ہواتھا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أُلْصِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم جعفی نے بیان کیا، ان سے اشعت نے بیان کیا، ان سے اسود بن یزید نے او ران سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھرمیں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں او رجسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کردیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کردیتا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)

حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا يَا عَائِشَةُ لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ فَأَدْخَلْتُ فِيهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ وَأَلْزَقْتُهُ بِالْأَرْضِ وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ فَذَلِكَ الَّذِي حَمَلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى هَدْمِهِ قَالَ يَزِيدُ وَشَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَهُ وَبَنَاهُ وَأَدْخَلَ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ وَقَدْ رَأَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ حِجَارَةً كَأَسْنِمَةِ الْإِبِلِ قَالَ جَرِيرٌ فَقُلْتُ لَهُ أَيْنَ مَوْضِعُهُ قَالَ أُرِيكَهُ الْآنَ فَدَخَلْتُ مَعَهُ الْحِجْرَ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ فَقَالَ هَا هُنَا قَالَ جَرِيرٌ فَحَزَرْتُ مِنْ الْحِجْرِ سِتَّةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہاروں نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت ابھی تازنہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ ( نئی تعمیر میں ) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کردوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اند رکردیاتھا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریربن حاز م نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَاكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أَلْصِقْ بَابَهُ فِي الْأَرْضِ

ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو الاحوص نے بیان کیا‘ کہا ہم سے اشعث نے ‘ ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( خانہ کعبہ کے ) حطیم کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے ؟ فرمایا کہ ہاں ۔ میں نے کہا ‘ پھر کیوں ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی ہوگئی تھی ۔ میں نے کہا کہ یہ خانہ کعبہ کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے ؟ فرمایا کہ یہ اس لیے انہوں نے کیا ہے تا کہ جسے چاہیں اندر داخل کریں اور جسے چاہیں روک دیں ۔ اگر تمہاری قوم ( قریش) کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں میں اس سے انکار پیدا ہوگا تو میں حطیم کو بھی خانہ کعبہ میں شامل کردیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے برابر کردیتا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ التَّمَنِّي (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ)
صحیح بخاری: کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں (باب : لفظ” اگر مگر“ کے استعمال کا جواز)


حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ، ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ - أَوْ قَالَ: بِكُفْرٍ - لَأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالْأَرْضِ، وَلَأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ "
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن ابی بکر ابی قحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث سنارہے تھے انھوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فر ما یا :" اگر تمھا ری قوم جاہلیت ۔۔۔یا فر ما یا زمانہ کفر۔۔۔سے ابھی ابھی نہ نکلی ہو تی تو میں ضرورکعبہ کے خزانے اللہ کی را ہ میں خرچ کر دیتا اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا اور حجر (حطیم ) کو کعبہ میں شامل کر دیتا ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)


وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ مِينَاءَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي، يَعْنِي عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ، فَأَلْزَقْتُهَا بِالْأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابًا شَرْقِيًّا، وَبَابًا غَرْبِيًّا، وَزِدْتُ فِيهَا سِتَّةَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْهَا حَيْثُ بَنَتِ الْكَعْبَةَ "
سعید یعنی ابن بیناء سے روایت ہے کہا میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے ۔مجھ سے میری خالہ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" عائشہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگر تمھاری قوم کا شرک کا زمانہ قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گرا تا اس (کے دروازے ) کو زمین کے ساتھ لگا دیتا اور میں اس کے دو دروازے شرقی دروازہ اور دوسرا غربی دروازہ بنا تا اور حجر (حطیم) اسے چھ ہاتھ (کا حصہ ) اس میں شامل کر دیتا ۔بلا شبہ قریش نے جب کعبہ تعمیر کیا تھا تو اسے چھوٹا کر دیا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)


حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَلِمَ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟ قَالَ: «إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمِ النَّفَقَةُ»، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟ قَالَ: «فَعَلَ ذَلِكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا، وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ، وَأَنْ أُلْزِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ»
ابو حوص نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں اشعت بن ابو شعثاء نے اسود بن یزید سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حطیم کی) دیوار کے بارے میں دریا فت کیا کیا وہ بیت اللہ میں سے ہے ؟آپ ننے فرما یا ہاں ۔"میں نے عرض کی : تو انھوں نے اسے بیت اللہ میں شامل کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے فر ما یا :" تمھا ری قوم کے پاس خرچ کم پڑگیا تھا ۔میں نے عرض کی اس کا دروازہ کیوں اونچا ہے ؟ آپ نے فر ما یا :"یہ کا م تمھا ری قوم نے کیا تا کہ جسے چا ہیں اندر دا خل ہو نے دیں اور جسے چاہیں منع کر دیں اگر تمھا ری قوم کا زمانہ جاہلیت کے قریب کا نہ ہو تا اس وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ ان کے دل اسے ناپسند کریں گے تو میں اس پر غور کرتا کہ (حطیم کی) دیوار کو بیت اللہ میں شامل کردوں اور اس کے دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دوں
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ جَدْرِ الْكَعْبَةِ وَبَابِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ کی دیوار یں اور اس کا دروازہ)

لہٰذا بڑے فتنہ سے بچاؤ کے لئے چھوٹی خرابی کو برداشت کرنا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے، مزید کہ جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، تب اس صدیوں بعد تعمیر کردہ گنبد کو منہدم کر دینے میں کوئی قباحت نہیں!
لیکن فی الوقت اس گنبد کو منہدم نہ کرنے کا شرعی جواز موجود ہے اور سعودی حکومت کا مؤقف بالکل شریعت کے موافق ہے!
ﻧﯿﺰﺍﮔﺮ ﻣﮑﮧ ﻭﻣﺪﯾﻨﮧ ﭘﺮ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺜﻮﮞ ﮐﺎ
ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﻭﺿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ
ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ
ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﮔﺮﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
ہو جائے کیا مطلب؟ اس وقت حرمین شریفین میں اہل الحدیث کی ہی حکومت ہے، اور اہل الحدیث کا مؤقف اوپر بیان کردیا ہے۔
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
( ۷ ) ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﻣﺤﺮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺑﻨﺎ ﻧﮯ
ﮐﺎ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﺍﮔﺮ
ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺣﺪﯾﺚ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﮟ
علم الحدیث میں یتیم ومسکین، پہلے تو اپنی جہالت کہ بنا پر کسی امر حدیث میں وجود نہ پا کر، اس پر اس پر ایک حکم کا گمان گرتے ہیں، اور پھر اس گمان کی بناء پر اعتراض در اعتراض وارد کرتے رہتے ہیں۔
مینار کا ذکر بھی حدیث نبوی صلی علیہ وسلم میں موجود ہے ، اور اس کے جواز کا حکم بھی حدیث میں ہے؛
ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَقَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ مِنْهُ فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنْ النَّاسِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ
ابو خیثمہ زہیر بن حراب اور محمد بن مہران رازی نے مجھے حدیث بیان کی۔الفاظ رازی کے ہیں۔کہا: ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نے یحییٰ بن جابرقاضی حمص سے انھوں نے عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر ہے۔ انھوں نےاپنے والد جبیر بن نفیرسے اور انھوں نے حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا۔ آپ نے اس (کے ذکر کے دوران) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی۔ یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے۔جب شام کو ہم آپ کے پاس (دوبارہ) آئے تو آپ نے ہم میں اس (شدید تاثر)کو بھانپ لیا۔ آپ نے ہم سے پوچھا "تم لوگوں کو کیا ہواہے؟"ہم نے عرض کی اللہ کے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں (ایسا)اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مجھے تم لوگوں (حاضرین )پر دجال کے علاوہ دیگر(جہنم کی طرف بلانے والوں)کا زیادہ خوف ہےاگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے)دلائل دینے والا میں ہوں گااور اگر وہ نکلا اور میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان )ہوگا ۔وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی۔ اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا ۔"ہم نے عرض ۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے فرمایا:"بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو۔وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے۔ تو وہ آسمان (کے بادل )کو حکم دے گا۔وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔شام کے اوقات میں ان کے جانور (چراگاہوں سے) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔پھر ایک (اور) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں (بھی) دعوت دے گا۔وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی۔وہ (دجال)بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس (بنجر زمین )کے خزانے اس طرح (نکل کر) اس کے پیچھےلگ جائیں گے۔جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار ۔مار کر( یکبارگی)دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف (یکدم ٹکڑے ہوگیا)ہو۔ پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ (زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا۔ وہ (دجال )اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو معبوث فرمادے گا۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے۔اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی۔ کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس کی سانس (کی خوشبو)وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی۔آپ علیہ السلام اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد (Lyudia)کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اس (دجال کےدام میں آنے)سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے۔اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے۔وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے (پیدا کیے ہوئے )بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں۔آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا،وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے۔ان کے پہلے لوگ (میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل )بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو(پانی)ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے۔"کبھی اس (بحیرہ )میں (بھی)پانی ہوگا۔ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر (قیمتی)ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان (یاجوج ماجوج )پر ان کی گردنوں میں کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (یکبارگی)اس کا شکار ہوجائیں گے۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اترکر (میدانی)زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی۔جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو۔اس پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح (کی گردنوں والے )پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا (خیمہ )اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا۔وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح (صاف) کر چھوڑےگی۔پھر زمین سے کہاجائے گا۔اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹالاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں (اتنی )برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا۔وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے۔کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی۔اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح (برسرعام)آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ (بَابُ ذِكْرِ الدَّجَّالِ)
صحیح مسلم: کتاب: فتنے اور علامات ِقیامت (باب: مسیح دجال کابیان)

حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ صَالِحٍ الدِّمَشْقِيُّ الْمُؤَذِّنُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: >إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ, فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ, فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ، وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ, فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ, فَإِنَّهَا جِوَارُكُمْ مِنْ فِتْنَتِهِ<. قُلْنَا: وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: >أَرْبَعُونَ يَوْمًا, يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ، وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ<، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ, أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ؟ قَالَ: >لَا, اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ، ثُمَّ يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ, فَيُدْرِكُهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ، فَيَقْتُلُهُ<.
سیدنا نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا ” اگر وہ میرے ہوتے ہوئے تم میں ظاہر ہوا تو میں تمہاری طرف سے اس کا مقابلہ کروں گا ۔ اگر میرے بعد ظاہر ہوا تو پھر ہر شخص خود اپنا دفاع کرنے والا ہے ۔ ہر مسلمان کے لیے اللہ عزوجل ہی میرا خلیفہ ہے ۔ چنانچہ تم میں سے جو کوئی اسے پائے تو اس پر سورۃ الکہف کی ابتدائی آیات پڑھے یہی تمہارے لیے اس کے فتنے سے امان ہوں گی ۔ “ ہم نے پوچھا کہ وہ زمین پر کتنا عرصہ رہے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” چالیس دن ۔ ( ان میں سے ) ایک دن ایک سال کے برابر اور ایک دن ایک مہینے کے برابر اور ایک دن ایک ہفتے کے برابر ہو گا اور باقی دن تمہارے دنوں کے برابر ہوں گے ۔ “ ہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! یہ دن جو ایک سال کے برابر ہو گا کیا ہمیں اس میں ایک دن رات کی نمازیں کافی ہوں گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نہیں ‘ اس کے لیے تم لوگ اندازہ لگا لینا “ پھر دمشق کے مشرق میں سفید منارے کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے ‘ پس وہ اس باب لد کے پاس پائیں گے اور اس کا کام تمام کر دیں گے ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْمَلَاحِمِ (بَابُ خُرُوجِ الدَّجَّالِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں (باب: دجال کا ظہور)


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ دَخَلَ حَدِيثُ أَحَدِهِمَا فِي حَدِيثِ الْآخَرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْكِلَابِيِّ قَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ فَانْصَرَفْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَيْهِ فَعَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُ لِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ شَبِيهٌ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ فَوَاتِحَ سُورَةِ أَصْحَابِ الْكَهْفِ قَالَ يَخْرُجُ مَا بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ اثْبُتُوا قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ الْيَوْمَ الَّذِي كَالسَّنَةِ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ لَا وَلَكِنْ اقْدُرُوا لَهُ قَالَ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا سُرْعَتُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيُكَذِّبُونَهُ وَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَتَتْبَعُهُ أَمْوَالُهُمْ وَيُصْبِحُونَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُصَدِّقُونَهُ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ كَأَطْوَلِ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَمَدِّهِ خَوَاصِرَ وَأَدَرِّهِ ضُرُوعًا قَالَ ثُمَّ يَأْتِي الْخَرِبَةَ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَيَنْصَرِفُ مِنْهَا فَيَتْبَعُهُ كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا شَابًّا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ هَبَطَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بِشَرْقِيِّ دِمَشْقَ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَّانٌ كَاللُّؤْلُؤِ قَالَ وَلَا يَجِدُ رِيحَ نَفْسِهِ يَعْنِي أَحَدًا إِلَّا مَاتَ وَرِيحُ نَفْسِهِ مُنْتَهَى بَصَرِهِ قَالَ فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلَهُ قَالَ فَيَلْبَثُ كَذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ قَالَ ثُمَّ يُوحِي اللَّهُ إِلَيْهِ أَنْ حَوِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ فَإِنِّي قَدْ أَنْزَلْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ قَالَ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ قَالَ فَيَمُرُّ أَوَّلُهُمْ بِبُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُ مَا فِيهَا ثُمَّ يَمُرُّ بِهَا آخِرُهُمْ فَيَقُولُ لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ بَيْتِ مَقْدِسٍ فَيَقُولُونَ لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ فَهَلُمَّ فَلْنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرُدُّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مُحْمَرًّا دَمًا وَيُحَاصَرُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ يَوْمَئِذٍ خَيْرًا لِأَحَدِهِمْ مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى مَوْتَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ قَالَ وَيَهْبِطُ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلَا يَجِدُ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا وَقَدْ مَلَأَتْهُ زَهَمَتُهُمْ وَنَتَنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ قَالَ فَيَرْغَبُ عِيسَى إِلَى اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ قَالَ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ قَالَ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ بِالْمَهْبِلِ وَيَسْتَوْقِدُ الْمُسْلِمُونَ مِنْ قِسِيِّهِمْ وَنُشَّابِهِمْ وَجِعَابِهِمْ سَبْعَ سِنِينَ قَالَ وَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكَنُّ مِنْهُ بَيْتُ وَبَرٍ وَلَا مَدَرٍ قَالَ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ فَيَتْرُكُهَا كَالزَّلَفَةِ قَالَ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَخْرِجِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقَحْفِهَا وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى إِنَّ الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنْ الْإِبِلِ وَإِنَّ الْقَبِيلَةَ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنْ الْبَقَرِ وَإِنَّ الْفَخِذَ لَيَكْتَفُونَ بِاللِّقْحَةِ مِنْ الْغَنَمِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا فَقَبَضَتْ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ
نوّاس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہﷺ نے ایک صبح دجال کاذکرکیا ،تو آپ نے (اس کی حقارت اوراس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دورانِ گفتگو)آواز کو بلند اور پست کیا ۱ ؎ حتی کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے ، پھر ہم رسول اللہﷺ کے پاس سے واپس آگئے،(جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے توآپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اورفرمایا:' کیامعاملہ ہے؟' ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کاذکرکرتے ہوئے (اس کی حقارت اورسنگینی بیان کر تے ہوئے) اپنی آواز کو بلنداورپست کیا یہاں تک کہ ہمیں گمان ہو نے لگا کہ وہ کھجوروں کے درمیان ہے ۔ آپ نے فرمایا:' دجال کے علاوہ دوسری چیزوں سے میں تم پر زیادہ ڈرتا ہوں،اگروہ نکلے اورمیں تمہارے بیچ موجودہوں تومیں تمہاری جگہ خود اس سے نمٹ لوں گا، اوراگروہ نکلے اورمیں تمہارے بیچ موجود نہ رہوں تو ہر آدمی خود اپنے نفس کا دفاع کرے گا ، اوراللہ ہرمسلمان پرمیرا خلیفہ (جانشیں) ہے ۲؎ ، دجال گھنگھریالے بالوں والاجوان ہوگا ، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح ابھری ہوئی ہوگی گویا کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتاہوں ، پس تم میں سے جو شخص اسے پالے اسے چاہئے کہ وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے، وہ شام اورعراق کے درمیان سے نکلے گا اوردائیں بائیں فسادپھیلائے گا ، اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا'۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روئے زمین پر ٹھہرنے کی اس کی مدت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا:' چالیس دن ، ایک دن ایک سال کے برابرہوگا ، ایک دن ایک مہینہ کے برابرہوگا ، ایک دن ہفتہ کے برابرہوگااورباقی دن تمہارے دنوں کی طرح ہوں گے'، ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول! بتائیے وہ ایک دن جو ایک سال کے برابرہوگا کیا اس میں ایک دن کی صلاۃ کافی ہوگی؟ آپ نے فرمایا:' نہیں بلکہ اس کااندازہ کرکے پڑھنا'۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! زمین میں وہ کتنی تیزی سے اپنا کام کرے گا ؟ آپ نے فرمایا:' اس بارش کی طرح کہ جس کے پیچھے ہوا لگی ہوتی ہے (اوروہ بارش کو نہایت تیزی سے پورے علاقے میں پھیلادیتی ہے) ، وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا،انہیں دعوت دے گا تو وہ اس کو جھٹلائیں گے اوراس کی بات ردکردیں گے، لہذا وہ ان کے پاس سے چلاجائے گا مگراس کے پیچھے پیچھے ان (انکار کرنے والوں) کے مال بھی چلے جائیں گے ،ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں رہے، پھروہ کچھ دوسرے لوگوں کے پاس جائے گا ، انہیں دعوت دے گا، اور اس کی دعوت قبول کریں گے اوراس کی تصدیق کریں گے ، تب وہ آسمان کو بارش برسانے کا حکم دے گا ۔ آسمان بارش برسائے گا ،وہ زمین کو غلہ اگانے کا حکم دے گا ، زمین غلہ اُ گائے گی ،ان کے چرنے والے جانور شام کو جب (چراگاہ سے ) واپس آئیں گے ، توان کے کوہان پہلے سے کہیں زیادہ لمبے ہوں گے، ان کی کوکھیں زیادہ کشادہ ہوں گی اور ان کے تھن کامل طورپر(دودھ سے) بھرے ہوں گے، پھروہ کسی ویران جگہ میں آئے گا اور اس سے کہے گا : اپنا خزانہ نکال، پھروہاں سے واپس ہو گا تو اس زمین کے خزانے شہدکی مکھیوں کے سرداروں کی طرح اس کے پیچھے لگ جائیں گے،پھروہ ایک بھرپوراورمکمل جوان کو بلائے گا اور تلوارسے مارکراس کے دوٹکڑے کردے گا۔ پھر اسے بلاے گا اور وہ روشن چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آجائے گا ، پس دجال اسی حالت میں ہوگا کہ اسی دوران عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کی مشرقی جانب سفیدمینار پر زردکپڑوں میں ملبوس دوفرشتوں کے بازوپرہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے ، جب وہ اپناسرجھکائیں گے توپانی ٹپکے گا اورجب اٹھائیں گے تو اس سے موتی کی طرح چاندی کی بوندیں گریں گی ،ان کی سانس کی بھاپ جس کافر کو بھی پہنچے گی وہ مرجائے گا اوران کی سانس کی بھاپ ان کی حدنگاہ تک محسوس کی جائے گی ، وہ دجال کوڈھونڈیں گے یہاں تک کہ اسے باب لُد ۳؎ کے پاس پالیں گے اوراسے قتل کردیں گے۔ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ جتنا چاہے گا عیسیٰ علیہ السلام ٹھہریں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس وحی بھیجے گا کہ میرے بندوں کو طورکی طرف لے جاؤ، اس لیے کہ میں نے کچھ ایسے بندے اتارے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں تاب نہیں ہے،' اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا اوروہ ویسے ہی ہوں گے جیسااللہ تعالیٰ نے کہاہے:{مِّن كُلِّ حَدَبٍ يَنسِلُونَ} (الأنبياء:96) (ہربلندی سے پھیل پڑیں گے) ان کا پہلا گروہ (شام کی )بحیرہ طبریہ ( نامی جھیل) سے گزرے گااوراس کا تمام پانی پی جائے گا، پھر اس سے ان کا دوسراگروہ گزرے گا توکہے گا : اس میں کبھی پانی تھا ہی نہیں،پھروہ لوگ چلتے رہیں گے یہاں تک کہ جبل بیت المقدس تک پہنچیں گے تو کہیں گے: ہم نے زمین والوں کو قتل کردیا اب آؤآسمان والوں کو قتل کریں ، چنانچہ وہ لوگ آسمان کی طرف اپنے تیر چلائیں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو خون سے سرخ کرکے ان کے پاس واپس کردے گا، (اس عرصے میں) عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اوران کے ساتھی گھرے رہیں گے،یہاں تک کہ(شدید قحط سالی کی وجہ سے) اس وقت بیل کی ایک سری ان کے لیے تمہارے سودینار سے بہترمعلوم ہوگی(چیزیں اس قدر مہنگی ہوں گی) ، پھر عیسیٰ بن مریم اوران کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کی گردنوں میں ایک کیڑاپیداکردے گا،جس سے وہ سب دفعتاً ایک جان کی طرح مرجائیں گے، عیسیٰ اوران کے ساتھی (پہاڑسے) اتریں گے تو ایک بالشت بھی ایسی جگہ نہ ہوگی جو ان کی لاشوں کی گندگی ،سخت بدبواورخون سے بھری ہوئی نہ ہو، پھر عیسیٰ علیہ السلام اوران کے ساتھی اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے بڑے پرندوں کوبھیجے گا جن کی گردنیں بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گی ، وہ لاشوں کو اٹھاکر گڈھوں میں پھینک دیں گے، مسلمان ان کے کمان ، تیراورترکش سے سات سال تک ایندھن جلائیں گے ۴ ؎ ۔ پھر اللہ تعالیٰ ان پر ایسی بارش برسائے گا جسے کوئی کچااورپکاگھرنہیں روک پائے گا ، یہ بارش زمین کودھودے گی اور اسے آئینہ کی طرح صاف شفاف کردے گی، پھرزمین سے کہاجائے گا : اپناپھل نکال اوراپنی برکت واپس لا، چنانچہ اس وقت ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہوگا،اس کے چھلکے سے یہ جماعت سایہ حاصل کرے گی ،اور دودھ میں ایسی برکت ہوگی کہ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لیے ایک دودھ دینے والی اونٹنی کافی ہوگی، اور دودھ دینے والی ایک گائے لوگوں کے ایک قبیلے کو کافی ہوگی اور دودھ دینے والی ایک بکری لوگوں میں سے ایک گھرانے کو کافی ہوگی، لوگ اسی حال میں (کئی سالوں تک) رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہوابھیجے گا جو سارے مومنوں کی روح قبض کرلے گی اورباقی لوگ گدھوں کی طرح کھلے عام زناکریں گے ، پھرانہیں لوگوں پر قیامت ہوگی '۵؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف عبدالرحمن یزید بن جابرکی روایت سے جانتے ہیں۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْفِتَنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي فِتْنَةِ الدَّجَّالِ)
جامع ترمذی: كتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں (باب: دجال کے فتنے کابیان)



حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ يَقُولُ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَضَ فِيهِ وَرَفَعَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ فَلَمَّا رُحْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا فَقَالَ مَا شَأْنُكُمْ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ الْغَدَاةَ فَخَفَضْتَ فِيهِ ثُمَّ رَفَعْتَ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ قَالَ غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ قَائِمَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ فَمَنْ رَآهُ مِنْكُمْ فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ خَلَّةٍ بَيْنَ الشَّامِ وَالْعِرَاقِ فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا يَا عِبَادَ اللَّهِ اثْبُتُوا قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا لُبْثُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ تَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ قَالَ فَاقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ قَالَ قُلْنَا فَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ قَالَ كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ قَالَ فَيَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ أَنْ تُمْطِرَ فَتُمْطِرَ وَيَأْمُرُ الْأَرْضَ أَنْ تُنْبِتَ فَتُنْبِتَ وَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًى وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ مَا بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ ثُمَّ يَمُرَّ بِالْخَرِبَةِ فَيَقُولُ لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ فَيَنْطَلِقُ فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ ضَرْبَةً فَيَقْطَعُهُ جِزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ فَيُقْبِلُ يَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ وَإِذَا رَفَعَهُ يَنْحَدِرُ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ وَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرَفُهُ فَيَنْطَلِقُ حَتَّى يُدْرِكَهُ عِنْدَ بَابِ لُدٍّ فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى قَوْمًا قَدْ عَصَمَهُمْ اللَّهُ فَيَمْسَحُ وُجُوهَهُمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ يَا عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ وَأَحْرِزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ كَمَا قَالَ اللَّهُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا ثُمَّ يَمُرُّ آخِرُهُمْ فَيَقُولُونَ لَقَدْ كَانَ فِي هَذَا مَاءٌ مَرَّةً وَيَحْضُرُ نَبِيُّ اللَّهِ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمْ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَيَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَلَا يَجِدُونَ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا قَدْ مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ وَدِمَاؤُهُمْ فَيَرْغَبُونَ إِلَى اللَّهِ فَيُرْسِلُ عَلَيْهِمْ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مَطَرًا لَا يُكِنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُهُ حَتَّى يَتْرُكَهُ كَالزَّلَقَةِ ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنْ الرِّمَّانَةِ فَتُشْبِعُهُمْ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا وَيُبَارِكُ اللَّهُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى إِنَّ اللِّقْحَةَ مِنْ الْإِبِلِ تَكْفِي الْفِئَامَ مِنْ النَّاسِ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْبَقَرِ تَكْفِي الْقَبِيلَةَ وَاللِّقْحَةَ مِنْ الْغَنَمِ تَكْفِي الْفَخِذَ فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ رِيحًا طَيِّبَةً فَتَأْخُذُ تَحْتَ آبَاطِهِمْ فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلَّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى سَائِرُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ كَمَا تَتَهَارَجُ الْحُمُرُ فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ
حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ سے روایتہ ے، ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر فرمایا، اس کی حقارت کا ذکر فرمایا اور اس کا عظیم (بڑا فتنہ) ہونا بیان فرمایا۔ (یا مطلب یہ ہے کہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کبھی معمول کی آواز میں بیان فرمایا، کبھی آواز بلند فرمائی) حتی کہ ہمیں محسوس ہوا کہ وہ کھجور کے پتوں کے کسی جھنڈ می ہے (اور ابھی نکلنے والا ہے)، جب ہم (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہماری یہ (خوفزدگی کی) کیفیت ملاحظہ فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ‘‘تم لوگوں کو کیا ہوا’’؟ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! آج صبح آپ نے دجال کا ذکر فرمایا۔ اس کی پستی اور بلندی کا ذکر فرمایا (یا آہستہ اور بلند آواز سے تنبیہ فرمائی) حتی کہ ہمیں محسوس کہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں ہے۔ اپ نے فرمایا: ‘‘مجھے تمہارے بارے میں دجال سے زیادہ کسی اور چیز سے خطرہ ہے۔ اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب کہ میں تمہارے اندر موجود ہوں تو تم سے پہلے میں اس کا مقابلہ کروں گا لوں گا (دلائل کے ذریعے سے یا اس کے شعبدوں کی حقیقت ظاہر کر کے ہو) اور اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب میں تمہارے اندر نہیں ہوگا تو ہر شخص اپنا دفاع خود کرے گا اور میری عدم موجودگی میں اللہ ہر مسلمان کامددگار ہے ۔ دجال گھنگریالے بالوں والا جوان ہے۔ اس کی آنکھ ابھری ہوئی ہے ۔ وہ ایسا ہے کہ میں اسے عبدالعزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتاہوں ۔ تم میں سے جو کوئی اسے دیکھے اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے۔ وہ شام اور عراق کے درمیان ایک راستے پر ظاہر ہوگا اوردائیں بائیں فساد پھیلائے گا۔ اللہ کے بندو! ثابت قدم رہنا ۔‘‘ہم نے کہا : اللہ کے رسول ! وہ زمین کاکتناعرصہ رہے گا؟ آپ نے فرمایا : ‘‘چالیس دن (جن میں سے ) ایک دن ایک سال کے برابر ہوگا ۔ ایک دن ایک مہینے کے برابر، اور ایک دن ایک جمعہ(سات دن) کے برابر، اور باقی (سینتیس) دن تمہارے (عام )دنوں کی طرح ہوں گے ’’۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول ! وہ دن جو سال کے برابر ہوگا، کیااس دن میں ہمیں ایک دن کی (صرف پانچ )نمازیں کافی ہوں گی ؟ آپ نےفرمایا :‘‘ اس دن میں اس کی مقدار کے مطابق اندازہ کرلینا ’’۔ ہم نےکہا: اللہ کے رسول ! زمین میں اس (کے سفر کرنے) کی رفتار کتنی ہوگی ؟فرمایا :‘‘جیسے بادل، جس کے پیچھے ہوا لگی ہوئی ہو (اور اسے اڑائے لئے جارہی ہو ۔’’)نبی ﷺ نے فرمایا :‘‘ وہ کچھ لوگوں کے پاس آئے گا ، انھیں (اپنی بات تسلیم کرنے کی )دعوت دے گا، وہ اس کی بات مان لیں گے اور (اس کے دعوے کو سچا مان کر) اس پر ایمان لے آئیں گے ۔ وہ آسمان کوحکم دے گا کہ بارش برسائے توبارش ہوجائے گی ۔ زمین کوحکم دے گا کہ فصلیں اگائے تووہ اگا دے گی ۔ ان کے مویشی شام کو(چرچگ کر)واپس آئیں گے توان کی کوہانیں انتہائی اونچی، ان کے تھن انتہائی بڑے(دودھ سے لبریز) اور ان کی کھوکھیں خوب نکلی ہوئی ہوںگی (خوب سیر ہوں گے ۔)پھر وہ کچھ (اور )لوگون کے پاس جائے گا ، انھیں (اپنے دعویٰ پر ایمان لانے کی )دعوت دے گا، وہ اس کی بات ٹھکرا دیں گے ، وہ ان کے پاس سے چلا جائے گا۔ صبح ہوگی تو وہ لوگ قحط کاشکار ہوجائیں گے ، ان کے پاس (مال ، جانور وغیرہ )کچھ نہیں رہے گا ۔ پھر وہ ایک کھنڈر پر سے گزرے گا تو اے کہے گا: اپنے خزانے نکال دے۔ (فوراً زمین میں مدفون )وہ (خزانے)شہد کی مکھیوں کی طرح اس کے پیچھے چل پڑیں گے ۔ پھر وہ یک بھرپور جوانی والے ایک آدمی کو بلائے گا اور اسے تلورا کے ایک وار سے دوٹکڑے کردے گا۔ (ان ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے اتنی دور پھینک دے گا)جتنی دور تیر جاتا ہے ۔ پھر اسے بلائے گاتووہ (زندہ ہوکر)ہنستاہو آجائے گا، اس کاچہرہ (خوشی سے )دمک رہا ہوگا ۔ اسی اثنا میں اللہ تعالی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو (زمین پر)بھیج دے گا۔ وہ دمشق کے مشرق کی طرف سفید مینار کے قریب نازل ہوں گے ، انھوں نے ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے دوکپڑے پہن رکھے ہوں گے ، دو فرشتوں کے پروح پرہاتھ رکھے ہوئے ہوں گے ۔جب سرجھکائیں گے تو(پانی کے )قطرے ٹپکیں گے ، جب سر اٹھائیں گے توموتیوں کی طرح قطرے گریں گے ۔ جس کافر تک انکے سانس کی مہک پہنچے گی ، وہ ضرور مر جائے گا۔ ان کے سانس کی مہک وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی ۔ پھر وہ (دجال کے تعاقب میں )روانہ ہوں گے حتی کے اسے لُد شہر کے دروازے پر جالیں گے اور قتل کردیں گے ۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جنہیں اللہ نے (دجال کے فتنے میں مبتلا ہوکر گمراہ ہونے سے )بچالیا ہوگا۔ ان کے چہروںسے غبار صاف کریں گے اور انھیں جنت میں انکے درجات سے آگاہ کریں گے ۔ اسی اثنامیں اللہ تعالی حضرت عیسیٰ پر وحی نازل فرمائے گا:اے عیسیٰ ! میں نے اپنے کچھ بندے ظاہر کئے ہیں، ان سے جنت کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ، ان (مومنوں )حفاظت کے لئے ‘‘طور ’’ پر لے جائیے۔ تب اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو چھوڑ دے گااوروہ جیساکہ اللہ نے فرمایا :‘‘ہرٹیلے سے (اتر اترکر)بھاگے آرہے ہوں گے ’’۔ ان کے پہلے لوگوں (ہجوم کے شروع کے حصے) کاگزر بحیرہ طبریہ سے ہوگا، وہ اس کاسارا پانی پی جائیں گے۔ جب انکے پچھلے افراد گزریں گے توکہیں گے:کبھی اس مقام پر پانی بھی ہوتا تھا ۔اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی (طور ہی پر)موجود ہوں گے۔(یاجوج ماجوج کی وجہ سے کہیں آجا نہیں سکیں گے اس لئے خوراک کی شدید قلت ہوجائے گی )حتی کہ انھیں ایک بیل کا سر اس سے بہتر معلوم ہوگاجتنا تمہیں آج کل سو اشرفیوں کی رقم اچھی لگتی ہے۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ اللہ کی طرف توجہ فرمائیں گے (اور دعائیں کریں گے ۔) تب اللہ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں کیڑے پیداکردے گا،چنانچہ وہ سارے کے سارے ایک ہی بار مر جائیں گے ۔ اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ (پہاڑ سے )اتریں گے تودیکھیں گے کہ ایک بالشت جگہ بھی ایسی نہیں جو ان کی بدبو، ان کی سڑاند اور ان کے خون سے آلود نہ ہو۔ وہ اللہ کی طرف توجہ فرمائیں گے (اور دعائیں کریں گے )تو اللہ ایسے پرندے بھیج دے گاجو بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح ہوں گے۔ وہ ان (کی لاشوں )کو اٹھا اٹھا کر جہاں اللہ چاہے پھینک دیں گے ۔ پھر اللہ ان پر ایسی بارش نازل فرمائے گا جس سے نہ اینٹوں کے مکان میں بچاؤ ہوگا، نہ خیمے میں ۔ وہ (بارش ) زمین کو دھو کر آئینے کی طرح صاف کردے گی ۔ پھر زمین کوحکم ہوگا: اپنے پھل اگا ، اور برکت دوبارہ ظاہر کردے۔ ان دنوں ایک جماعت ایک انار کھائے گی تو سب افراد سیر ہوجائیں گے اور اس کاچھلکا ان سب کو سایہ کرسکے گا۔ اللہ دودھ والے جانوروں میں اتنی برکت دے گاکہ ایک دودھ دینے والی اونٹنی سے ایک بڑی جماعت کاگزارا ہوجائے گا ۔ اور ایک دودھ دینے والی گائے ایک قبیلے کے لئے کافی ہوگی۔ اور ایک دودھ دینے والی بکری ایک بڑے کنبے کوکافی ہوگی ۔ وہ اسی انداز سے (خوش گوار اور بابرکت ایام گزار رہے ) ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ایک خوش گوار ہوا بھیج دے گا۔ وہ ان کی بغلوں کے نیچے سے گزرے گی اور ہر مسلمان کی روح قبض کرلے گی ۔اور باقی ایسے لوگ رہ جائیں گے جو اس طرح (سرعام) جماع کریں گے جس طرح گدھے جفتی کرتے ہیں ۔ انھی پر قیامت قام ہوگی ۔ (صور پھونکنے پریہی لوگ مریں گے ’’۔)
سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ (بَابُ فِتْنَةِ الدَّجَالِ، وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، وَخُرُوجِ يَأْجُوجَ، وَمَأْجُوجَ)
سنن ابن ماجہ: کتاب: فتنہ و آزمائش سے متعلق احکام و مسائل (باب: دجال کافتنہ‘حضرت عیسی ابن مریم﷩کا نزول اوریاجوج وماجوج کا ظہور)

عیسی علیہ السلام کا مینار پر نازل ہونا، ہی مینار کے جواز کو کافی ہے، مگر اس سے بڑھ کر عیسی علیہ السلام کا اس مسجد میں نماز پڑھنا مینار کے جواز پر حتمی دلیل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ»، قَالَ: " فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا، فَيَقُولُ: لَا، إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ تَكْرِمَةَ اللهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ "
حضرت جابر بن عبد اللہ ﷜ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’ میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر (قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ، وہ قیامت کے دن تک (جس بھی معرکے میں ہو ں گے) غالب رہیں گے، کہا: پھر عیسیٰ ابن مریم ﷤اتریں گے تو اس طائفہ (گروہ) کا امیر کہے گا: آئیں ہمیں نماز پڑھائیں ، اس پر عیسیٰ ﷤ جواب دیں گے : نہیں ، اللہ کی طرف سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔ ‘‘
صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ ﷺ)
صحیح مسلم: کتاب: ایمان کا بیان (باب: حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کا ہمارے نبی محمدﷺ کی شریعت کے مطابق حاکم بن کر نازل ہونا‘)
ﺍﻭﺭ
ﺍﮔﺮﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﯿﺖ ﺍﷲ ﺍﻭﺭ
ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ
ﻧﮩﯿﮟ؟ ﺍﻧﮑﻮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ
ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺪﻋﺖ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ
ﮐﯿﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ؟ ﺍﮔﺮ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ ﻣﮑﮧ ﻭﻣﺪﯾﻨﮧ
ﭘﺮﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﯿﺖ ﺍﷲ
ﺍﻭﺭﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﮐﮯ ﻣﯿﻨﺎﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮐﮭﯿﮟ
ﮔﮯ ﯾﺎ ﮔﺮﺍﺩﯾﮟ ﮔﮯ؟
جب منارہ کا جواز احادیث سے ثابت ہے، تو آپ کے یہ سوالات لا یعنی اور لغو ہو جاتے ہیں۔
رہی بات محراب کی؛
تو فن تعمیر کا ایک طریقہ ہے کہ تعمیر ایسی کی جائے کہ جگہ زیادہ مؤثر استعمال ہو،
اور عمارات کی تعمیر امور معاملات میں سے ہے، یعنی ممنوع وہی ہے جس کی ممانعت قرآن و حدیث میں وارد ہو،
اور محراب کی تعمیر کی ممانعت قرآن و حدیث میں وارد نہیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
( ۸ ) ﻣﮑﮧ ﻭﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺟﻮ
ﺣﻨﻔﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
یہ غلط فہمی آپ کو کیسے لاحق ہوئی کہ مکہ و مدینہ میں نماز جنازہ حنفیوں کی طرح پڑھائی جاتی ہے!
معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کسی حنفی کذاب نے کہہ دیاکہ مکہ مدینہ میں نماز جنازہ حنفیوں کی طرح پڑھائی جاتی ہے، اور آپ نے مان لیا!
حرمین شریفین میں نماز جنازہ حنفی طریقہ سے نہیں پڑھایا جاتا، بلکہ نماز جنازہ کا آغاز و اختتام حنفی طریقہ کے مخالفت میں ہوتا ہے؛
فقہ حنفی میں جنازہ کو مسجد میں رکھ کر نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے، بعض کے نزدیک مکروہ تحریمی اور بعض کے نزدیک مکروہ تنزیہی ، بہر حال مکروہ ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
سوال: (۱) جنازہ کی نماز قبرستان میں پڑھنا کیساہے؟(۲) اگر نماز کے لیے جگہ نہ ہو تو مسجد میں یا قبرستان میں جنازہ کی نماز پڑھنا کیسا ہے؟ اگر قبرستان میں ایک جگہ بنادی جائے تو اس جگہ جنازہ کی پڑھنا کیساہے؟
جواب :
بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) قبرستان میں خالی جگہ ہو کہ جہاں قبور نہ ہوں یا تھی مگر ہموار اور برابر ہوگئیں اور نمازیوں کے آگے قبریں نہ ہوں یا ہوں مگر قبور اور نمازیوں کے مابین کوئی آڑ دیوار وغیرہ ہو تو ایسی جگہ میں قبرستان کی نماز جنازہ پڑھنے کی گنجائش ہے۔
)
مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے، اس کے لیے بجائے مسجد کے کوئی دوسرا مناسب متبادل نظم کرنا چاہیے، حدیث شریف، شروح حدیث، فقہ وفتاویٰ میں مسجد میں نماز جنازہ کے پڑھنے کا مکروہ ہونا بصراحت مذکور ہے، قبرستان میں نماز جنازہ کا حکم (۱) کے تحت لکھ دیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
سوال نمبر # 36876
فتوی(ھ): 438=240-3/1433
Published on: Feb 8, 2012


جبکہ حرمین شریفین میں نماز جنازہ مسجد میں رکھ کر مسجد میں نماز جنازہ ادا کیا جاتا ہے!
اور یہ اہل الحدیث کے مؤقف کے موافق ہے!
حرمیں شریفین میں نماز جنازہ کا اختتام ایک طرف سلام کرکے کیا جاتا ہے، جبکہ حنفی طریقہ میں دونوں طرف سلام لازم ہے!
ملاحظہ فرمائیں:
سوال: جنازہ میں میں ایک سلام ہے یا دو سلام؟
جواب :
بسم الله الرحمن الرحيم
نماز جنازہ میں دو سلام ہیں۔
ثم يكبر الرابعة ويسلم تسليمتين لأنه جاء أوان التحليل وذلك بالسلام (بدائع الصنائع: ۱/۳۱۳، ط: دار الكتب العلمية) ثم يكبر تكبيرةً رابعةً ويسلم سليمتين (مجمع الأنهر: ۱/۱۸۴، ط: دار إحياء التراث العربي)
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
سوال نمبر # 58229
Fatwa ID: 558-558/M=6/1436-U
Published on: Mar 18, 2017


سوال: جب ہم حج یا عمرہ کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں تو تقریباً ہر فرض نماز کے بعد نماز جنازہ ہوتاہے اور ہم بھی جنازہ پڑھتے ہیں اور جب امام سلام پھیرتے ہیں تو صرف دائیں جانب سلام پھیرتے ہیں تو کیا ہم بھی صرف دائیں طرف سلام پھیریں یا دونو ں طرف؟
جواب :
بسم الله الرحمن الرحيم
وہاں کے امام اپنے مسلک کے مطابق ایک سلام پھیرتے ہیں، ہمیں دونوں طرف سلام پھیرنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
سوال نمبر # 12659
فتوی: 777=730/ب
Published on: May 24, 2009


اور ایک طرف سلام کرنا بھی اہل الحدیث کے مؤقف کے موافق ہے!
ﺟﺒﮑﮧ
ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
ﮨﮯ ؟
یہ آپ کی خام خیالی ہے، حرمیں شریفین میں نماز جنازہ اہل الحدیث کے مؤقف کے موافق ہے!
اگر کہا جائے کہ حرمیں شریفین میں نماز جنازہ سراً پڑھی جاتیی ہے، تو معلوم ہونا چاہئے کہ اہل الحدیث کے مطابق دونوں طریق، یعنی سراً اور جہراً مسنون ہیں!
ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﺻﺤﯿﺢ
ﮨﮯ ﮐﻮ ﻧﺴﺎ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ؟
حرمین شریفین میں نماز جنازہ اہل الحدیث کے مؤقف کے مطابق ہی پڑھائی جاتی ہے، اور حنفیوں کا نماز جنازہ کا طریقہ غلط ہے!
ﺁﺋﻤﮧ ﺣﺮﻣﯿﻦ ﺟﻮ
ﺣﻨﻔﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎ ﺭﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﻨﺤﺮﻑ ﮨﻮﺋﮯ
ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ائمہ حرمین حنفیوں کے طریقہ سے نماز جنازہ نہیں پڑھاتے، جس کا ثبوت اوپر دیا جا چکا ہے، اور قرآن و حدیث سے انحراف حنفیوں کا ہی ہے، لہٰذا ائمہ حرمین پر حنفیوں کی طرح نماز جنازہ پڑھانے کی تہمت دہرنے سے باز رہا جائے!
ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﯿﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ
ﮨﮯ؟
ائمہ حرمین شریفین، الحمدللہ مسنون طریقہ سے نماز جنازہ پڑھاتے ہیں، اور حنفی مقلدین مسنون طریقہ کے مخالف ہیں!
ﺍﻭﺭ ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﮑﮧ ﯾﺎﻣﺪﯾﻨﮧ ﻣﯿﮟ
ﻣﻮﺕ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ
ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺣﻨﻔﯽ ﻃﺮﯾﻘﮧ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺁﺋﻤﮧ
ﺣﺮﻣﯿﻦ ﭘﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔
یہ آپ کا جھوٹ ہے کہ ائمہ حرمین شریفین حنفی طریقہ سے نماز جنازہ پڑھاتے ہیں، اوراسے آپ کے جھوٹ ہونے پر اوپر دلیل دی جا چکی ہے!
ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ
ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
جی جن کی نماز جنازہ حرمین شریفین میں ادا کی جاتی ہے، وہ اہل الحدیث کے طریقہ کے موافق ہے، ان کی نماز جنازہ بلکل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ادا کی جاتی ہے! لہٰذا یہ کہنا جہالت ہے کہ وہ بغیر جنازے کے دفن ہوئے!
ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻧﻤﺎﺯﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺋﮯ
ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻨﺪﻭ ﭘﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﺑﻐﯿﺮ
ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﮯ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﺘﻮﯼٰ ﮐﯿﻮﮞ
ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ؟
اول تو ہندو پاک میں بھی اہل الحدیث یہ نہیں کہتے کہ حنفی بغیر جنازے کے دفن ہوتے ہیں، بلکہ وہ یہی کہتے ہیں کہ احناف نماز جنازہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کے قائل ہیں، اور اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ ہر صورت وہ مخالفت ہی کرتے ہیں، کیوں کہ مسجد میں نماز جنازہ ہو، یا مسجد سے باہر، ایک سلام سے ہو یا دو سلام سے،ان امور میں دونوں صورتیں مسنون ہیں، لیکن وہ ایک مسنون کو مسنون نہيں مانتے اور مکروہ قرار دیتے ہیں !
اور اصل مدعا تو احناف کا جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کا انکار ہے، کہ وہ اسے بطور دعا ہی جائز سمجھتے ہیں!
اور اس سے بڑھ کر کے احناف کے نزدیک نماز جنازہ اصل میں نماز ہی نہیں، بلکہ یہ ایک دعا ہے!
دوم کہ جب حرمین شریفین میں نماز جنازہ اہل الحدیث کے مؤقف کے موافق ادا ہوتا ہے، اور حنفیوں کے طریقہ کے برخلاف ادا ہوتا ہے، تو حرمین شریفین میں ادا کئے جانے والی نماز جنازہ کو ہندو پاک میں ادا کیئے جانے والی حنفیوں کی نماز جنازہ کے حکم میں داخل کرنا ہی بیوقوفی ہے!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
( ۹ ) ﻧﻤﺎﺯﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﯾﺎ ﺩﻭ ﺗﮑﺒﯿﺮﯾﮟ
ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻧﻤﺎﺯﺟﻨﺎﺯﮦ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭘﻮﺭﯼ
ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺻﺮﯾﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ۔
اسی طرح جس طرح دیگر نماز میں ارکان نماز رہ جانے پر مسبوق ادا کرتا ہے!
ہم تو نماز جنازہ کو نماز ہی مانتے ہیں، مسئلہ تو ان کا ہے جو نماز جنازہ کو نماز نہیں مانتے، یعنی حنفیوں کا ، کہ وہ دعا کے اعادہ کو کیوں کر واجب ٹھہراتے ہیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
( ۱۰) ﺍﻟﺸﯿﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﷲ ﺍﻟﺴﺒﯿﻞ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﮑﺘﻮﺏ ﻣﯿﮟ ﺻﺎ ﻑ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ
ﺁﺋﻤﮧ ﺣﺮﻣﯿﻦ ﺣﻨﺒﻠﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ
ﻣﮑﺘﻮﺏ ” ﺷﺮﻋﯽ ﻓﯿﺼﻠﮯ“ ﻧﺎﻣﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﻣﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﺱ
ﺳﮯ ﺷﯿﺦ ﻣﻮﺻﻮﻑ ﺍﻭﺭﺩﻭﺳﺮﮮ ﺁﺋﻤﮧ
ﺣﺮﻣﯿﻦ ﻣﺸﺮ ﮎ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﺍﻥ
ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ؟
جی ائمہ حرمین کا خود کو حنبلی کہنے ، اور ہونے سے ان نہ مقلد ہونا لازم آتا ہے اور نہ ہی مشرک و ہونا! کیونکہ وہ نہ وہ ماتریدی عقائد کے حامل ہیں، نہ صوفیانہ عقائد کے!
علمائے حرمین میں سے شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز کا کلام ملاحظہ فرمائیں:
س 1: هل لسماحتكم مذهب فقهي خاص وماهو منهجكم في الفتوی والأدلة؟
ج 1: مذهبي في الفقه هو: مذهب الإمام أحمد بن حنبل – رحمه الله – وليس على سبيل التقليد، ولكن على سبيل الاتباع في الأصول التي سار عليها، أما في مسائل الخلاف فمنهجي فيها هو ترجيح ما يقضي الدليل ترجحيه، والفتوى بذلك، سواء وافق مذهب الحنابلة أم خالفه، لأن الحق أحق بالاتباع، وقد قال الله – عز وجل: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلا﴾

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 جلد 04 مجموع فتاوى ومقالات متنوعة - عبد العزيز بن عبد الله بن باز - دار القاسم للنشر

سوال: کیا آپ کی کسی خاص فقہی مذہب سے وابستگی ہے، فتویٰ اور دلائل کے لئے آپ کا طریق کار کیا ہے؟
جواب: فقہ میں میرا مذہب وہی ہے جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ علیہ کا مذہب ہے لیکن برسبیل تقلید نہیں بلکہہ ان اصولوں کی اتباع کے طور پر جنہیں انہوں نے اختیار فرمایا تھا۔ اختلافی مسائل میں میرا طریق کار یہ ہے کہ میں صرف اسے ترجیح دیتا ہوں جو از روئے دلیل راجح ہو اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہوں خواہ مزہب حنابلہ کے موافق ہو یا مخالف، کیونکہ حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلا﴾ (النساء 59)
''اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو اور جو تم میں صاحب حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں تمہارا آپس میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل (نتیجہ و انجام) بھی اچھا ہے۔''
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 439 مقالات وفتاویٰ ابن باز - عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز - دار السلام، لاہور

تو جناب ائمہ حرمین الحمدللہ مؤحد و اہل الحدیث ہیں، نہ کہ ماتریدیہ صوفی و حنفیہ کی طرح اعمال و عقائد کی بدعت کے مرتکب و قائل اہل البدعت والضلال!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
( ۱۲ ) ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻋﺎﻟﻢ
ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﺠﺪ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ
ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺟﺎﻣﻊ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ ﯾﺎ
ﻣﺤﻤﺪﯼ ﻣﺴﺠﺪ ﮨﻮ؟
اس کا جواب مراسلہ نمبر 10 میں ہو چکا!
( ۱۳) ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺗﯽ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ
ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﺎ ﺑﺎﺏ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ
ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﺟﻮﺗﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﻤﺎﺯﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﺗﮯ
ﺗﮭﮯ ۔ ﺟﺒﮑﮧ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺗﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ
ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮ ﯼ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﻘﻮﻝ
ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺚ ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﮯ
ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﯽ
ﺗﻮ ﺍﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺗﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻧﻤﺎﺯ
ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮨﮯ ﯾﺎ
ﻧﮩﯿﮟ؟ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺗﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ
ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
صحیح بخاری کے جس باب اور حدیث کا آپ نے ذکر کی اہے وہ درج ذیل ہے:
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الأَزْدِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابومسلمہ سعید بن یزید ازدی نے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیاں پہن کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں
صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ الصَّلاَةِ فِي النِّعَالِ)
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل (باب: جوتوں سمیت نماز پڑھنا)
صحیح بخاری کی اس حدیث میں جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا اثبات ہے، اور جوتے اتار کر نماز پڑھنے کی نفی نہیں ہے، لٰہذا وہ احادیث جس میں جوتے اتار کر نماز پڑھنے کا اثبات ہے، جوتے پہن کر نماز پڑھنے کے اثبات والی احادیث کے مخالف نہیں!
لہٰذا دیگر کتب کی بھی وہ احادیث جوتے پہن اتار کر نماز پڑھنے والی احادیث صحیح بخاری کی اس حدیث کے مقابلہ میں نہیں! اور نہ ہی جوتے اتار کر نماز پڑھنا صحیح بخاری کی اس حدیث کے مخالف ہے!

سنن ابو داود سے دو حدیثیں پیش خدمت ہیں:

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَعِيلَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي نَعَامَةَ السَّعْدِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ إِذْ خَلَعَ نَعْلَيْهِ فَوَضَعَهُمَا عَنْ يَسَارِهِ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْقَوْمُ أَلْقَوْا نِعَالَهُمْ فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ قَالَ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى إِلْقَاءِ نِعَالِكُمْ قَالُوا رَأَيْنَاكَ أَلْقَيْتَ نَعْلَيْكَ فَأَلْقَيْنَا نِعَالَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ فِيهِمَا قَذَرًا أَوْ قَالَ أَذًى وَقَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَنْظُرْ فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا أَوْ أَذًى فَلْيَمْسَحْهُ وَلْيُصَلِّ فِيهِمَا
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دوران نماز میں ) اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں جانب رکھ لیے ۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ” تم لوگوں نے اپنے جوتے کیوں اتارے ؟ “ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنے جوتے اتارے ہیں تو ہم نے بھی اتار دیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” بیشک جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کے جوتے میں گندگی لگی ہے ۔ “ ( لفظ «قذر» تھا یا «أذى» ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو اپنے جوتوں کو بغور دیکھ لیا کرے ۔ اگر ان میں کوئی گندگی یا نجاست نظر آئے تو اسے پونچھ ڈالے اور پھر ان میں نماز پڑھ لے ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا مسئلہ)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ وَشُعَيْبُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَخَلَعَ نَعْلَيْهِ فَلَا يُؤْذِ بِهِمَا أَحَدًا لِيَجْعَلْهُمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَوْ لِيُصَلِّ فِيهِمَا
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جب کوئی نماز پڑھنے لگے اور اپنے جوتے اتارے تو ان سے کسی دوسرے کو ایذا نہ دے ۔ ( یعنی اس کے آگے یا دائیں طرف نہ رکھے یا کسی اور طرح سے بھی اذیت کا باعث نہ بنے ۔ ) چاہیئے کہ انہیں اپنے قدموں کے درمیان میں رکھے یا پہنے ہوئے ہی نماز پڑھ لے ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ الْمُصَلِّي إِذَا خَلَعَ نَعْلَيْهِ أَيْنَ يَضَعُهُمَا)
سنن ابو داؤد: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: نمازی اپنے جوتے اتارے‘تو کہاں رکھے؟)

ان دونوں احادیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوتے پہن کر نماز پڑھنے، اور جوتے اتار کر نماز پڑھنے دونوں ک ااثبات ہر ایک حدیث میں ہے، لہٰذا جوتے پہن کر نماز پڑھنے کے اثبات اور جوتے اتار کر نماز پڑھنے کے اثبات کے ایک دوسرے کے مخالف قرار دینا جہالت کے سواء کچھ نہیں!
ایک حدیث اور پیش خدمت ہے:
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي حَافِيًا وَمُنْتَعِلًا
جناب عمرو بن شعیب ( عن ابیہ عن جدہ ) کے واسطے سے مروی ہے وہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوتے اتار کر نماز پڑھتے تھے اور پہن کر بھی ۔
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا مسئلہ)
مزید کہ آپ کا یہ کہنا:
ﺟﺒﮑﮧ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺗﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ
ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ
یہ بھی آپ کی جہالت ہے، صحیح بخاری کی ایک نہیں متعدد احادیث سے بغیر جوتوں کے نماز پڑھنے کا اثبات ہوتا ہے، آپ اس سے اگلا باب ہی بغور دیکھتے اور سمجھتے تو آپ کی یہ جہالت رفع ہو سکتی تھی!
ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ، يُحَدِّثُ عَنْ هَمَّامِ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ «بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى» فَسُئِلَ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا» قَالَ إِبْرَاهِيمُ: «فَكَانَ يُعْجِبُهُمْ لِأَنَّ جَرِيرًا كَانَ مِنْ آخِرِ مَنْ أَسْلَمَ»
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے اعمش کے واسطہ سے، اس نے کہا کہ میں نے ابراہیم نخعی سے سنا۔ وہ ہمام بن حارث سے روایت کرتے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور ( موزوں سمیت ) نماز پڑھی۔ آپ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی نے کہا کہ یہ حدیث لوگوں کی نظر میں بہت پسندیدہ تھی کیونکہ جریر رضی اللہ عنہ آخر میں اسلام لائے تھے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ الصَّلاَةِ فِي الخِفَافِ)
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل (باب: موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا)

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: «وَضَّأْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَصَلَّى»
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا۔ آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الصَّلاَةِ (بَابُ الصَّلاَةِ فِي الخِفَافِ)
صحیح بخاری: کتاب: نماز کے احکام و مسائل (باب: موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا)

صحیح بخاری کی ان احادیث سے بغیر جوتوں کے نماز پڑھنے کا اثبات ہوتا ہے! فتدبر!

ایک بات اور غور طلب ہے وہ یہ کہ؛
جوتے پہن کر نماز پڑھنے کے جواز کی مخالفت کرنے والوں میں در اصل یہودیوں کی صفت ہے؛
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث دیکھیں:

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ عَنْ هِلَالِ بْنِ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيِّ عَنْ يَعْلَى بْنِ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالِفُوا الْيَهُودَ فَإِنَّهُمْ لَا يُصَلُّونَ فِي نِعَالِهِمْ وَلَا خِفَافِهِمْ
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہود کی مخالفت کرو ۔ یہ لوگ اپنے جوتوں یا موزوں میں نماز نہیں پڑھتے ہیں ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ الصَّلَاةِ (بَابُ الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: نماز کے احکام ومسائل (باب: جوتے پہن کر نماز پڑھنے کا مسئلہ)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
(۱۴ ) ﻣﻘﺘﺪﯼ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮐﮩﺘﺎ
ﮨﮯ۔ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﮐﯿﻼ ﻧﻤﺎﺯﯼ ﺑﮭﯽ ﺗﮑﺒﯿﺮ
ﺗﺤﺮﯾﻤﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺻﺤﯿﺢ
ﺻﺮﯾﺢ ﻣﺮﻓﻮﻉ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﯿﺶ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔

پہلے تو آپ کو قرآن سے اس کی دلیل پیش کی جاتی ہے:
اللہ تعالى کا فرمان ہے :

واذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (الأعراف :205)
اور ڈرتے ہوئے , اپنے دل میں , تضرع کے ساتھ , اونچی آواز نکالے بغیر صبح وشام اپنے رب کا ذکر کر, اور غافلوں میں سے نہ ہو جا ۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى نے ذکر کا اصول بتایا ہے کہ اللہ کا ذکر دل میں , اونچی آواز نکالے بغیر کیا جائے ۔ لہذا تمام تر اذکار دل میں ہی کیے جائیں اور اونچی آواز نکالے بغیر کیے جائیں , ہاں جو اذکار جن مواقع پر بآواز بلند کرنا ثابت ہیں وہ ان موقعوں پر اونچی آواز سے کیے جائیں گے ۔ کیونکہ وہ شرعی دلیل کے ذریعہ اس قاعدہ کلیہ سے مستثنى ہو گئے ہیں ۔
اسی طرح دعاء کے بارہ میں بھی اللہ سبحانہ وتعالى نے قانون مقرر فرمایا ہے :

ادْعُواْ رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ [الأعراف : 55]
اپنے رب سے تضرع کے ساتھ چپکے چپکے دعاء مانگو , یقینا وہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالى نے دعاء مانگنے کا اصول ذکر فرمایا ہے کہ دعاء خفیۃ کی جائے یعنی چپکے چپکے ۔ سو کوئی بھی دعاء ہو اسی اصول کے تحت کی جائے گی ۔ ہاں جن ادعیہ کا بآواز بلند کرنا ثابت ہے وہ اس عمومی قاعدہ سے مستثنى ہونگی ۔
اور تکبیر , یعنی اللہ اکبر, تعوذ یعنی اعوذ باللہ , تحمید یعنی ربنا لک الحمد , ثناء , رکوع وسجود کی تسبیحات اور سلام بھی اللہ کا ذکر ہی ہیں ۔ ان پر بھی یہی قانون لاگو ہوگا کہ انہیں بھی دل میں ہی , اونچی آواز نکالے بغیر کیا جائے , امام کا بآواز بلند تکبیرات انتقال , سمع اللہ لمن حمدہ , اور سلام کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے لہذا وہ اس اصول سے مستثنى ہیں ۔
اسی طرح رکوع وسجدہ کی دعائیں , دورد , درود کے بعد کی دعاء , سبھی دعاء ہی ہیں اور انکے لیے قرآنی قاعدہ "خفیۃ" والا ہے ۔ لہذا یہ تمام تر دعائیں امام و مقتدی سبھی سرا پڑھیں گے ۔
اور آمین بھی دعاء کی قبولیت کی دعاء ہی ہے ۔ لیکن جہری نمازوں میں باجماعت نماز کے دوران جہری رکعات میں امام ومقتدی کا اونچی آواز سے آمین کہنا شرعی دلیل سے ثابت ہے ۔ لہذا وہ اس عمومی قاعدہ سے مستثنى ہے ۔

هذا, والله تعالى أعلم, وعلمه أكمل وأتم, ورد العلم إليه أسلم, والشكر والدعاء لمن نبه وأرشد وقوم, وصلى الله على نبينا محمد وآله وسلم
وكتبه أبو عبد الرحمن محمد رفيق الطاهر‘ عفا الله عنه

مصدر: http://www.rafeeqtahir.com/ur/play-453.html

اور حدیث سے بھی جواب پیش خدمت ہے؛
عن جابر، قال: اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلينا وراءه وهو قاعد، وأبو بكر يسمع الناس تكبيره، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ » صحیح مسلم ،۴۱۳
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ہم (یعنی صحابہ )نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ان کی بیماری میں اس طرح نماز پڑھی کہ نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے امامت کروا رہے تھے ،اور جناب ابو بکر رضی اللہ عنہ ان کی تکبیر لوگوں کو سنا رہے تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی سیدنا ابو بکر پیغمبر اکرم ﷺ سے تکبیر سن کر خود بھی بآواز بلند تکبیر کہہ رہے تھے ،اس حدیث میں امام کا بآواز بلند تکبیر کہنا تو ظاہر ہے
اور مقتدیوں کا جہری نہ کہنا یوں ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے علاوہ صرف ابو بکر کا بلند کہنا بیان کیا گیا ہے ،یعنی باقی لوگ جہراً تکبیر نہیں کہہ رہے تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے :
عن انس بن مالك انه قال:‏‏‏‏ خر رسول الله صلى الله عليه وسلم عن فرس فجحش فصلى لنا قاعدا فصلينا معه قعودا ثم انصرف فقال:‏‏‏‏"إنما الإمام او إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا وإذا قال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده فقولوا:‏‏‏‏ ربنا لك الحمد وإذا سجد فاسجدوا"(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 733 )
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر نماز پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو۔انتہی
اس حدیث شریف میں مقتدیوں کو حکم دیا ہے کہ نماز باجماعت میں تم تکبیر اس وقت کہو جب امام تکبیر کہے
اور جب وہ «سمع الله لمن حمده‏» کہے تو تم «ربنا لك الحمد»کہو ،
اور اس حکم پر عمل کی ایک ہی صورت ہے
کہ امام جہراً تکبیر کہے ،
بشکریہ شیخ @اسحاق سلفی
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(۱۵ ) ﺍﮔﺮ ﺛﻨﺎ ﺀﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﮯ
ﺗﻮﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎﺣﮑﻢ ﮨﮯ؟ ﺍﺱ
ﭘﺮ ﺳﺠﺪﮦ ﺳﮩﻮ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺻﺤﯿﺢ ﺻﺮﯾﺢ ﻣﺮﻓﻮﻉ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ
ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﮟ۔
قرآن و حدیث میں ثناء کی جگہ فاتحہ پڑھ لینے پر، یعنی کہ ثناء کو ترک کر کے فاتحہ پڑھ لینے پر سجدہ سهو کا کوئی ثبوت نہیں، اور نہ ہی ثناء کا پڑھنا واجبات و فرائض نماز میں سے ہے!
لہٰذا ایسی صورت میں سجدہ سهو واجب نہیں!
یاد رہے کہ فقہ حنفی میں بھی ثناء نہ پڑھنے پر سجدہ سهو واجب نہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(۱۶ ) ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻋﻮﮮ ﮐﮯ
ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺻﺤﯿﺢ
ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﺿﻌﯿﻒ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﷲ
ﻭ ﺭﺳﻮﻝ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺻﺤﯿﺢ
ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺿﻌﯿﻒ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻣﺘﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﺭﺍﺋﮯ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻭﺭ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ۔
معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے تقلید کے خبط میں مکمل خبطی ہی بنا دیا ہے!
جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں حکم دیتا ہے کہ:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ (سورة الحجرات 6)
اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے لگو ۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
یہاں اللہ تعالیٰ نے بغیر تحقیق و اثبات کے کسی خبر پر عمل کرنے سے منع فرمایا ہے!

اور یہ تحقیق کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو دیا ہے! نہ کہ یہ کہا ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تحقیق کرکے بتلائے گا!
تو اس تحقیق سے ہی کسی حدیث کا صحیح یا ضعیف ہونا قرار پاتا ہے!
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯾﻦ
ﺍﻣﺘﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﺣﺪﯾﺚ
ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺿﻌﯿﻒ ﺣﺪﯾﺚ
ﮐﻮ ﺭﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
معلوم ہوتا ہے کہ جناب کو تقلید کا معلوم ہی نہیں کہ تقلید کس بلا کا نام ہے!
صحیح حدیث کو قبول کرنا اور ضعیف حدیث کو رد کرنا قرآن کا حکم ہے جناب!
اور محدثین کی تحقیق و تحکیم کو قبول کرنا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے موافق ہے؛
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورة النحل 43)
اور ہم نے تجھ سے پہلے بھی تو انسان ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے سو اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو (ترجمہ احمد علی لاہوری)
اور یاد رہے کہ فقہاء سے استفادہ بھی اس کے موافق ہے!
اور یہ تقلید نہیں، تقلید الگ امر ہے!
ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻏﯿﺮﻣﻘﻠﺪﯾﻦ ﮐﮯ
ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺗﻘﻠﯿﺪﺷﺮﮎ ﮨﮯ ۔
یہ بات بھی آپ کی غلط ہے، اہل الحدیث کے نزدیک تقلید ہر صورت کفر نہیں، بلکہ یہ بدعت کبھی چھوٹی ، کبھی بڑی اور کبھی کفر و شرک ہوتی ہے، یہ تقلید کی صورت پر منحصر ہے!
ﻧﯿﺰﺍﻣﺘﯿﻮﮞ ﮐﯽ
ﺭﺍﺋﮯ ﻏﻠﻂ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ
ﻧﮯ ﺟﺲ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ
ﺿﻌﯿﻒ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺿﻌﯿﻒ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺻﺮﻑ
ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
ﺫﺍﺕ ﮨﮯ !
جی بالکل ! محدثین سے بھی غلطی ہو سکتی ہے، اور فقہاء سے بھی، اسی لئے ہم کسی کی تقلید نہیں کرتے بلکہ دلائل کے موافق ان کا مؤقف قبول بھی کرتے ہیں اور دلائل کی بناء پر رد بھی کرتے ہیں!
ﮐﯿﺎ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﷲﻋﻠﯿﮧ
ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻓﻘﮩﺎﺀ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ
ﺷﺮﮎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﮐﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﺷﺮﮎ
ﻧﮩﯿﮟ؟ﻓﻘﮩﺎ ﺀﺳﮯ ﻏﻠﻄﯽ ﮨﻮﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﮨﯿﮟ؟
تقلید کا حکم محدثین ہو یا فقہاء دونوں کے اعتبار سے ایک ہی ہے!
مگر آپ کو تقلید کا معلوم ہونا چاہئے کہ تقلید ہے کس بلا کا نام!
دلائل کی بناء پر کسی کے مؤقف سے موافقت، یا عامی کا مفتی کے فتوی پر عمل تقلید نہیں ہوتا!

(الحمد للہ! جوابات مکمل ہوئے)
 
Top