- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(۶ ) ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﮐﺎ ﺭﻭﺿﮧ ﭘﺎﮎ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ ﯾﺎﻧﮩﯿﮟ؟
یہ کیا جہالت اگلی جا رہی ہے؟
آپ کو گنبد اور روضہ کا فرق معلوم ہے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس مقام کو رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ بتلایا ہے۔
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اسی مقام میں ہے، مزید کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یقناً ایک جنت کے باغ کی مانند ہے!
مسئلہ اس روض کا ہے ہی نہیں!
مسئلہ اس پر صدیوں بعد بنائے گئے گنبد کا ہے!
لہٰذا ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی ایک رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہے۔
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے اور انہیں ( ان کے چچا ) عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے اس منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِينَةِ (بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ)
صحیح بخاری: کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت (باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحی نے، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِينَةِ (بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ)
صحیح بخاری: کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت (باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
عبد اللہ بن ابوبکر نے عباد بن تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید (بن عاصم) مازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"جو(جگہ ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے ،وہ جنت کے باغوں میں ایک سے باغ ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا بَيْنَ مِنْبَرِي وَبَيْتِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
ابو بکر نے ے عباد تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرما رہے تھے :"جو(جگہ ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے ،وہ جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (کی جگہ) جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔اور میرا منبر حوض پر ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)
لہٰذا اس مقام کا رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہونا قطعی بدعت نہیں، بلکہ اسے روضہ ماننا عین ایمان ہے!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ جاننے سے متعلق اس حدیث کو دیکھیں؛
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ح، وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ, وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: >اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ<- مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا-، زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا وَقَالَ: >وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟<، قَالَ هَنَّادٌ قَالَ: >وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ، وَصَدَّقْتُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ:- فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا}[إبراهيم: 27], الْآيَةُ،- ثُمَّ اتَّفَقَا-: >قَالَ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا، وَطِيبِهَا، قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ<. قَالَ: >وَإِنَّ الْكَافِرَ- فَذَكَرَ مَوْتَهُ، قَالَ-: وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ<. قَالَ: >فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا<، قَالَ: >وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ- قَالَ ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا<، قَالَ: >فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا<. قَالَ: >ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ<.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے ۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں ( نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زمین کرید رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا ” اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو یا تین بار فرمایا ۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے ” جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے ‘ جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے : اے فلاں ! تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیرا نبی کون ہے ؟ ہناد نے کہا : فرمایا ” اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں : تجھے کیسے علم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ‘ میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” یہی ( سوال جواب ہی ) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں ۔ فرمایا ” پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے : تحقیق میرے بندے نے سچ کہا ہے ‘ اسے جنت کا بستر بچھا دو ‘ اور اس کو جنت کا لباس پہنا دو ‘ اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ “ فرمایا ” جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں ‘ راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ ” پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ تو منادی آسمان سے ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ‘ اسے آگ کا بستر بچھا دو ‘ اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ فرمایا کہ پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے ‘ جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے ۔ اگر اسے پہاڑ پر مار جائے تو وہ ( پہاڑ ) مٹی مٹی ہو جائے ۔ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاقہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے ۔ اور پھر وہ مٹی ( ریزہ ریزہ ) ہو جاتا ہے ۔ ” فرمایا : پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: سنتوں کا بیان (باب: قبر میں سوال جواب اور عذاب کا بیان)
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'جب میت کویاتم میں سے کسی کودفنا دیاجاتاہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دوفرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کونکیر کہاجاتاہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیاکہتا تھا۔ وہ (میت) کہتاہے : وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں،اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول وعرض میں سترستر گز کشادہ کردی جاتی ہے ، پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہاجاتاہے : سوجا، وہ کہتاہے : مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچادو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں ، تووہ دونوں کہتے ہیں: توسوجااس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگا تاہے جو اس کے گھروالوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتاہے،یہاں تک کہ اللہ اُسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے،اور اگر وہ منافق ہے،تو کہتاہے: میں لوگوں کوجو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتاتھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تووہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہاجاتاہے: تو اسے دبوچ لے تووہ اسے دبوچ لیتی ہے اورپھراس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتاہے۔یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں علی، زیدبن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب ، انس ، جابر ،ام المومنین عائشہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرمﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ)
جامع ترمذی: كتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: عذابِ قبر کا بیان)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنتی ہونا قطعی ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں مندرجہ ذیل امور کا ہونا ، قطعی ہے!
یہ تو ہوئی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بات!
باقی رہا گنبد ، تو گنبد یہ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ نہیں!
آپ کو گنبد اور روضہ کا فرق معلوم ہے؟
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس مقام کو رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ بتلایا ہے۔
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اسی مقام میں ہے، مزید کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یقناً ایک جنت کے باغ کی مانند ہے!
مسئلہ اس روض کا ہے ہی نہیں!
مسئلہ اس پر صدیوں بعد بنائے گئے گنبد کا ہے!
لہٰذا ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ میں ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بھی ایک رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہے۔
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے اور انہیں ( ان کے چچا ) عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے اس منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِينَةِ (بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ)
صحیح بخاری: کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت (باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحی نے، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
صحيح البخاري: کِتَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ مَكَّةَ وَالمَدِينَةِ (بَابُ فَضْلِ مَا بَيْنَ القَبْرِ وَالمِنْبَرِ)
صحیح بخاری: کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت (باب: آنحضرت ﷺ کی قبرشریف)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
عبد اللہ بن ابوبکر نے عباد بن تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید (بن عاصم) مازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :"جو(جگہ ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے ،وہ جنت کے باغوں میں ایک سے باغ ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا بَيْنَ مِنْبَرِي وَبَيْتِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ»
ابو بکر نے ے عباد تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ فرما رہے تھے :"جو(جگہ ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے ،وہ جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (کی جگہ) جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔اور میرا منبر حوض پر ہے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ مَا بَيْنَ الْقَبْرِ وَالْمِنْبَرِ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: آپ ﷺ کی قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت اور منبر کی جگہ کی فضیلت)
لہٰذا اس مقام کا رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہونا قطعی بدعت نہیں، بلکہ اسے روضہ ماننا عین ایمان ہے!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ جاننے سے متعلق اس حدیث کو دیکھیں؛
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ح، وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهَذَا لَفْظُ هَنَّادٍ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنِ الْمِنْهَالِ، عَنْ زَاذَانَ عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمَّا يُلْحَدْ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، كَأَنَّمَا عَلَى رُءُوسِنَا الطَّيْرُ, وَفِي يَدِهِ عُودٌ يَنْكُتُ بِهِ فِي الْأَرْضِ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: >اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ<- مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا-، زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ هَاهُنَا وَقَالَ: >وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ حِينَ يُقَالُ لَهُ: يَا هَذَا مَنْ رَبُّكَ؟ وَمَا دِينُكَ؟ وَمَنْ نَبِيُّكَ؟<، قَالَ هَنَّادٌ قَالَ: >وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: رَبِّيَ اللَّهُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: دِينِيَ الْإِسْلَامُ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ قَالَ: فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولَانِ: وَمَا يُدْرِيكَ؟ فَيَقُولُ: قَرَأْتُ كِتَابَ اللَّهِ، فَآمَنْتُ بِهِ، وَصَدَّقْتُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ:- فَذَلِكَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا}[إبراهيم: 27], الْآيَةُ،- ثُمَّ اتَّفَقَا-: >قَالَ فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ قَدْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا، وَطِيبِهَا، قَالَ: وَيُفْتَحُ لَهُ فِيهَا مَدَّ بَصَرِهِ<. قَالَ: >وَإِنَّ الْكَافِرَ- فَذَكَرَ مَوْتَهُ، قَالَ-: وَتُعَادُ رُوحُهُ فِي جَسَدِهِ، وَيَأْتِيهِ مَلَكَانِ، فَيُجْلِسَانِهِ، فَيَقُولَانِ لَهُ: مَنْ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ لَهُ: مَا دِينُكَ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي! فَيَقُولَانِ: مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ فَيَقُولُ: هَاهْ، هَاهْ، لَا أَدْرِي فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ: أَنْ كَذَبَ، فَأَفْرِشُوهُ مِنَ النَّارِ، وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى النَّارِ<. قَالَ: >فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا<، قَالَ: >وَيُضَيَّقُ عَلَيْهِ قَبْرُهُ حَتَّى تَخْتَلِفَ فِيهِ أَضْلَاعُهُ- زَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ- قَالَ ثُمَّ يُقَيَّضُ لَهُ أَعْمَى أَبْكَمُ مَعَهُ مِرْزَبَّةٌ مِنْ حَدِيدٍ، لَوْ ضُرِبَ بِهَا جَبَلٌ لَصَارَ تُرَابًا<، قَالَ: >فَيَضْرِبُهُ بِهَا ضَرْبَةً يَسْمَعُهَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ فَيَصِيرُ تُرَابًا<. قَالَ: >ثُمَّ تُعَادُ فِيهِ الرُّوحُ<.
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں گئے ۔ ہم قبر کے پاس پہنچے تو ابھی لحد تیار نہیں ہوئی تھی ‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے ۔ گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں ( نہایت پر سکون اور خاموشی سے بیٹھے تھے ۔ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زمین کرید رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا ” اللہ سے قبر کے عذاب کی امان مانگو ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو یا تین بار فرمایا ۔ جریر کی روایت میں یہاں یہ اضافہ ہے ” جب لوگ واپس جاتے ہیں تو میت ان کے قدموں کی آہٹ سنتی ہے ‘ جبکہ اس سے یہ پوچھا جا رہا ہوتا ہے : اے فلاں ! تیرا رب کون ہے ؟ تیرا دین کیا ہے ؟ اور تیرا نبی کون ہے ؟ ہناد نے کہا : فرمایا ” اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے ۔ پھر وہ پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : وہ اللہ کے رسول ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں : تجھے کیسے علم ہوا ؟ وہ کہتا ہے : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی ‘ میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” یہی ( سوال جواب ہی ) مصداق ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان کا «يثبت الله الذين آمنوا بالقول الثابت في الحياة الدنيا وفي الآخرة» پھر وہ دونوں روایت کرنے میں متفق ہیں ۔ فرمایا ” پھر آسمان سے منادی کرنے والا اعلان کرتا ہے : تحقیق میرے بندے نے سچ کہا ہے ‘ اسے جنت کا بستر بچھا دو ‘ اور اس کو جنت کا لباس پہنا دو ‘ اور اس کے لیے جنت کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ “ فرمایا ” جنت کی طرف سے وہاں کی ہوائیں ‘ راحتیں اور خوشبو آنے لگتی ہیں اور اس کی قبر کو انتہائے نظر تک وسیع کر دیا جاتا ہے ۔ ” پھر کافر اور اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا : اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور وہ اس کے پاس آتے ہیں اور اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ پھر وہ اس سے پوچھتے ہیں : یہ آدمی کون ہے جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ تو وہ کہتا ہے : ہاہ ! ہاہ ! مجھے خبر نہیں ۔ تو منادی آسمان سے ندا دیتا ہے کہ اس نے جھوٹ کہا ‘ اسے آگ کا بستر بچھا دو ‘ اسے آگ کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے دوزخ کی طرف سے دروازہ کھول دو ۔ فرمایا کہ پھر اس جہنم کی طرف سے اس کی تپش اور سخت گرم ہوا آنے لگتی ہے اور اس پر قبر کو تنگ کر دیا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں ۔ “ جریر کی روایت میں مزید ہے ” پھر اس پر ایک اندھا گونگا فرشتہ مقرر کر دیا جاتا ہے ‘ جس کے پاس بھاری گرز ہوتا ہے ۔ اگر اسے پہاڑ پر مار جائے تو وہ ( پہاڑ ) مٹی مٹی ہو جائے ۔ پھر وہ اسے اس کے ساتھ ایسی چوٹ مارتا ہے جس کی آواز جنوں اور انسانوں کے علاقہ مشرق و مغرب کے درمیان ساری مخلوق سنتی ہے ۔ اور پھر وہ مٹی ( ریزہ ریزہ ) ہو جاتا ہے ۔ ” فرمایا : پھر اس میں روح لوٹائی جاتی ہے ۔ “
سنن أبي داؤد: كِتَابُ السُّنَّةِ (بَابٌ فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ)
سنن ابو داؤد: کتاب: سنتوں کا بیان (باب: قبر میں سوال جواب اور عذاب کا بیان)
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُكُمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا الْمُنْكَرُ وَالْآخَرُ النَّكِيرُ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ مَا كَانَ يَقُولُ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ هَذَا ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُونَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِينَ ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيهِ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ نَمْ فَيَقُولُ أَرْجِعُ إِلَى أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ فَيَقُولَانِ نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ الَّذِي لَا يُوقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَإِنْ كَانَ مُنَافِقًا قَالَ سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُولَانِ قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُولُ ذَلِكَ فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيهَا مُعَذَّبًا حَتَّى يَبْعَثَهُ اللَّهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأَنَسٍ وَجَابِرٍ وَعَائِشَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ كُلُّهُمْ رَوَوْا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'جب میت کویاتم میں سے کسی کودفنا دیاجاتاہے تو اس کے پاس کالے رنگ کی نیلی آنکھ والے دوفرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کونکیر کہاجاتاہے۔ اور وہ دونوں پوچھتے ہیں: تو اس شخص کے بارے میں کیاکہتا تھا۔ وہ (میت) کہتاہے : وہی جو وہ خود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بندے اور اللہ کے رسول ہیں،اور میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں تو وہ دونوں کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر طول وعرض میں سترستر گز کشادہ کردی جاتی ہے ، پھر اس میں روشنی کردی جاتی ہے۔ پھر اس سے کہاجاتاہے : سوجا، وہ کہتاہے : مجھے میرے گھر والوں کے پاس واپس پہنچادو کہ میں انہیں یہ بتاسکوں ، تووہ دونوں کہتے ہیں: توسوجااس دلہن کی طرح جسے صرف وہی جگا تاہے جو اس کے گھروالوں میں اسے سب سے زیادہ محبوب ہوتاہے،یہاں تک کہ اللہ اُسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے،اور اگر وہ منافق ہے،تو کہتاہے: میں لوگوں کوجو کہتے سنتا تھا، وہی میں بھی کہتاتھا اور مجھے کچھ نہیں معلوم۔ تووہ دونوں اس سے کہتے ہیں: ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر زمین سے کہاجاتاہے: تو اسے دبوچ لے تووہ اسے دبوچ لیتی ہے اورپھراس کی پسلیاں ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہتاہے۔یہاں تک کہ اللہ اسے اس کی اس خواب گاہ سے اٹھائے'۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن غریب ہے،۲- اس باب میں علی، زیدبن ثابت، ابن عباس، براء بن عازب، ابوایوب ، انس ، جابر ،ام المومنین عائشہ اور ابوسفیان رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ان سبھوں نے نبی اکرمﷺ سے عذاب قبر کے متعلق روایت کی ہے۔
جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْجَنَائِزِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ)
جامع ترمذی: كتاب: جنازے کے احکام ومسائل (باب: عذابِ قبر کا بیان)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جنتی ہونا قطعی ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں مندرجہ ذیل امور کا ہونا ، قطعی ہے!
یہ تو ہوئی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی بات!
باقی رہا گنبد ، تو گنبد یہ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ نہیں!
ﺍﮔﺮ
ﺑﺪﻋﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﻭﮦ ﺁﯾﺖ ﯾﺎ ﺻﺤﯿﺢ
ﺻﺮﯾﺢ ﺣﺪﯾﺚ ﭘﯿﺶ ﻓﺮﻣﺎ ﺋﯿﮟ۔ ﺟﺲ
ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺿﮧ ﺍﻗﺪﺱ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺍﮔﺮ ﺑﺪﻋﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﺮﺍﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ ﮨﮯ
ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
اوپر احادیث پیش کیں ہیں، کہ جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر کا رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ میں ہونا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں جنت کے باغوں کی نعمت کا ہونا موجود ہے!
مسئلہ نبی صلی اللہ کی قبر کا نہیں، مسئلہ اس گنبد کا ہے!
مسئلہ نبی صلی اللہ کی قبر کا نہیں، مسئلہ اس گنبد کا ہے!
اول ؛تو یہ خارجی فکر آپ کی ہوگی کہ محض کسی عملی بدعت کی وجہ سے حکمرانوں کے خلاف خروج کو جہاد کہہ دیا جائے!ﺍﻭﺭﺟﻮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﺍﺱ ﺑﺪﻋﺖ ﮐﯽ
ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮮ ﮨﻮ ﺑﺪﻋﺘﯽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺟﮩﺎﺩ ﻓﺮﺽ ﮨﮯ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟
دوم؛ مسلم حکمرانوں کے خلاف خروج صرف اس کی تکفیر پر جائز ہے!
سوم؛ کہ حکومت سعودیہ کا اس گنبد کو منہدم نہ کرنا، شرعی تقاضوں کے موافق ہے!
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ، كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الكَعْبَةِ؟ قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ لَوْلاَ قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ - قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ - بِكُفْرٍ، لَنَقَضْتُ الكَعْبَةَ فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا ( ہاں ) مجھ سے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم ( دور جاہلیت کے ساتھ ) قریب نہ ہوتی ( بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی ) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ ( قریب نہ ہوتی ) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، ( بعد میں ) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الِاخْتِيَارِ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ، فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ)
صحیح بخاری: کتاب: علم کے بیان میں (باب: بعض باتوں کو مصلحتاً چھوڑ دینا)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے انہیں خبردی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلی اللہ نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بے شک ایسا کردیتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ( اور یقینا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سچی ہیں ) تو میں سمجھتا ہو ںیہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حطیم سے متصل جو دیواروں کے کونے ہیں ان کو نہیں چومتے تھے۔ کیونکہ خانہ کعبہ ابراہیمی بنیادوں پر پورا نہ ہواتھا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أُلْصِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم جعفی نے بیان کیا، ان سے اشعت نے بیان کیا، ان سے اسود بن یزید نے او ران سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھرمیں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں او رجسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کردیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کردیتا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)
حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا يَا عَائِشَةُ لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ فَأَدْخَلْتُ فِيهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ وَأَلْزَقْتُهُ بِالْأَرْضِ وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ فَذَلِكَ الَّذِي حَمَلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى هَدْمِهِ قَالَ يَزِيدُ وَشَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَهُ وَبَنَاهُ وَأَدْخَلَ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ وَقَدْ رَأَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ حِجَارَةً كَأَسْنِمَةِ الْإِبِلِ قَالَ جَرِيرٌ فَقُلْتُ لَهُ أَيْنَ مَوْضِعُهُ قَالَ أُرِيكَهُ الْآنَ فَدَخَلْتُ مَعَهُ الْحِجْرَ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ فَقَالَ هَا هُنَا قَالَ جَرِيرٌ فَحَزَرْتُ مِنْ الْحِجْرِ سِتَّةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہاروں نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت ابھی تازنہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ ( نئی تعمیر میں ) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کردوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اند رکردیاتھا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریربن حاز م نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَاكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أَلْصِقْ بَابَهُ فِي الْأَرْضِ
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو الاحوص نے بیان کیا‘ کہا ہم سے اشعث نے ‘ ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( خانہ کعبہ کے ) حطیم کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے ؟ فرمایا کہ ہاں ۔ میں نے کہا ‘ پھر کیوں ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی ہوگئی تھی ۔ میں نے کہا کہ یہ خانہ کعبہ کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے ؟ فرمایا کہ یہ اس لیے انہوں نے کیا ہے تا کہ جسے چاہیں اندر داخل کریں اور جسے چاہیں روک دیں ۔ اگر تمہاری قوم ( قریش) کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں میں اس سے انکار پیدا ہوگا تو میں حطیم کو بھی خانہ کعبہ میں شامل کردیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے برابر کردیتا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ التَّمَنِّي (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ)
صحیح بخاری: کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں (باب : لفظ” اگر مگر“ کے استعمال کا جواز)
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ، ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ - أَوْ قَالَ: بِكُفْرٍ - لَأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالْأَرْضِ، وَلَأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ "
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن ابی بکر ابی قحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث سنارہے تھے انھوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فر ما یا :" اگر تمھا ری قوم جاہلیت ۔۔۔یا فر ما یا زمانہ کفر۔۔۔سے ابھی ابھی نہ نکلی ہو تی تو میں ضرورکعبہ کے خزانے اللہ کی را ہ میں خرچ کر دیتا اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا اور حجر (حطیم ) کو کعبہ میں شامل کر دیتا ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ مِينَاءَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي، يَعْنِي عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ، فَأَلْزَقْتُهَا بِالْأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابًا شَرْقِيًّا، وَبَابًا غَرْبِيًّا، وَزِدْتُ فِيهَا سِتَّةَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْهَا حَيْثُ بَنَتِ الْكَعْبَةَ "
سعید یعنی ابن بیناء سے روایت ہے کہا میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے ۔مجھ سے میری خالہ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" عائشہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگر تمھاری قوم کا شرک کا زمانہ قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گرا تا اس (کے دروازے ) کو زمین کے ساتھ لگا دیتا اور میں اس کے دو دروازے شرقی دروازہ اور دوسرا غربی دروازہ بنا تا اور حجر (حطیم) اسے چھ ہاتھ (کا حصہ ) اس میں شامل کر دیتا ۔بلا شبہ قریش نے جب کعبہ تعمیر کیا تھا تو اسے چھوٹا کر دیا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَلِمَ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟ قَالَ: «إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمِ النَّفَقَةُ»، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟ قَالَ: «فَعَلَ ذَلِكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا، وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ، وَأَنْ أُلْزِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ»
ابو حوص نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں اشعت بن ابو شعثاء نے اسود بن یزید سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حطیم کی) دیوار کے بارے میں دریا فت کیا کیا وہ بیت اللہ میں سے ہے ؟آپ ننے فرما یا ہاں ۔"میں نے عرض کی : تو انھوں نے اسے بیت اللہ میں شامل کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے فر ما یا :" تمھا ری قوم کے پاس خرچ کم پڑگیا تھا ۔میں نے عرض کی اس کا دروازہ کیوں اونچا ہے ؟ آپ نے فر ما یا :"یہ کا م تمھا ری قوم نے کیا تا کہ جسے چا ہیں اندر دا خل ہو نے دیں اور جسے چاہیں منع کر دیں اگر تمھا ری قوم کا زمانہ جاہلیت کے قریب کا نہ ہو تا اس وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ ان کے دل اسے ناپسند کریں گے تو میں اس پر غور کرتا کہ (حطیم کی) دیوار کو بیت اللہ میں شامل کردوں اور اس کے دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دوں
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ جَدْرِ الْكَعْبَةِ وَبَابِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ کی دیوار یں اور اس کا دروازہ)
لہٰذا بڑے فتنہ سے بچاؤ کے لئے چھوٹی خرابی کو برداشت کرنا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے، مزید کہ جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، تب اس صدیوں بعد تعمیر کردہ گنبد کو منہدم کر دینے میں کوئی قباحت نہیں!
لیکن فی الوقت اس گنبد کو منہدم نہ کرنے کا شرعی جواز موجود ہے اور سعودی حکومت کا مؤقف بالکل شریعت کے موافق ہے!
سوم؛ کہ حکومت سعودیہ کا اس گنبد کو منہدم نہ کرنا، شرعی تقاضوں کے موافق ہے!
احادیث ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ، كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الكَعْبَةِ؟ قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ لَوْلاَ قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ - قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ - بِكُفْرٍ، لَنَقَضْتُ الكَعْبَةَ فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے اسرائیل کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے ابواسحاق سے اسود کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا ( ہاں ) مجھ سے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم ( دور جاہلیت کے ساتھ ) قریب نہ ہوتی ( بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی ) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ ( قریب نہ ہوتی ) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، ( بعد میں ) ابن زبیر نے یہ کام کیا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ العِلْمِ (بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الِاخْتِيَارِ، مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ، فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ)
صحیح بخاری: کتاب: علم کے بیان میں (باب: بعض باتوں کو مصلحتاً چھوڑ دینا)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے کہ عبداللہ بن محمد بن ابی بکر نے انہیں خبردی، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ آنحضور صلی اللہ نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بے شک ایسا کردیتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے ( اور یقینا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سچی ہیں ) تو میں سمجھتا ہو ںیہی وجہ تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حطیم سے متصل جو دیواروں کے کونے ہیں ان کو نہیں چومتے تھے۔ کیونکہ خانہ کعبہ ابراہیمی بنیادوں پر پورا نہ ہواتھا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أُلْصِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم جعفی نے بیان کیا، ان سے اشعت نے بیان کیا، ان سے اسود بن یزید نے او ران سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی بیت اللہ میں داخل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی پڑ گئی تھی۔ پھرمیں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں او رجسے چاہیں روک دیں۔ اگر تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کردیتا اور کعبہ کا دروازہ زمین کے برابر کردیتا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)
حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا يَزِيدُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ رُومَانَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا يَا عَائِشَةُ لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ فَأَدْخَلْتُ فِيهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ وَأَلْزَقْتُهُ بِالْأَرْضِ وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ بَابًا شَرْقِيًّا وَبَابًا غَرْبِيًّا فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ فَذَلِكَ الَّذِي حَمَلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى هَدْمِهِ قَالَ يَزِيدُ وَشَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَهُ وَبَنَاهُ وَأَدْخَلَ فِيهِ مِنْ الْحِجْرِ وَقَدْ رَأَيْتُ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ حِجَارَةً كَأَسْنِمَةِ الْإِبِلِ قَالَ جَرِيرٌ فَقُلْتُ لَهُ أَيْنَ مَوْضِعُهُ قَالَ أُرِيكَهُ الْآنَ فَدَخَلْتُ مَعَهُ الْحِجْرَ فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ فَقَالَ هَا هُنَا قَالَ جَرِيرٌ فَحَزَرْتُ مِنْ الْحِجْرِ سِتَّةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہاروں نے بیان کیا، انہو ں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ رضی اللہ عنہ ! اگر تیری قوم کازمانہ جاہلیت ابھی تازنہ ہوتا، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ ( نئی تعمیر میں ) اس حصہ کو بھی داخل کردوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کردوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں۔ اس طرح ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہوجاتی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اند رکردیاتھا۔ میں نے ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے۔ جریربن حاز م نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا، ان کی جگہ کہاں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہوگی یا ایسی ہی کچھ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الحَجِّ (بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا)
صحیح بخاری: کتاب: حج کے مسائل کا بیان (باب: فضائل مکہ اور کعبہ کی بناءکا بیان)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ حَدَّثَنَا أَشْعَثُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ قَالَ نَعَمْ قُلْتُ فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ قَالَ إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمْ النَّفَقَةُ قُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا قَالَ فَعَلَ ذَاكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أَلْصِقْ بَابَهُ فِي الْأَرْضِ
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابو الاحوص نے بیان کیا‘ کہا ہم سے اشعث نے ‘ ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( خانہ کعبہ کے ) حطیم کے بارے میں پوچھا کہ کیا یہ بھی خانہ کعبہ کا حصہ ہے ؟ فرمایا کہ ہاں ۔ میں نے کہا ‘ پھر کیوں ان لوگوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی ہوگئی تھی ۔ میں نے کہا کہ یہ خانہ کعبہ کا دروازہ اونچائی پر کیوں ہے ؟ فرمایا کہ یہ اس لیے انہوں نے کیا ہے تا کہ جسے چاہیں اندر داخل کریں اور جسے چاہیں روک دیں ۔ اگر تمہاری قوم ( قریش) کا زمانہ جاہلیت سے قریب نہ ہوتا اور مجھے خوف نہ ہوتا کہ ان کے دلوں میں اس سے انکار پیدا ہوگا تو میں حطیم کو بھی خانہ کعبہ میں شامل کردیتا اور اس کے دروازے کو زمین کے برابر کردیتا۔
صحيح البخاري: كِتَابُ التَّمَنِّي (بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ اللَّوْ)
صحیح بخاری: کتاب: نیک ترین آرزؤں کے جائز ہونے کے بیان میں (باب : لفظ” اگر مگر“ کے استعمال کا جواز)
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ، ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا، مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ - أَوْ قَالَ: بِكُفْرٍ - لَأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالْأَرْضِ، وَلَأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ "
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن ابی بکر ابی قحانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حدیث سنارہے تھے انھوں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فر ما یا :" اگر تمھا ری قوم جاہلیت ۔۔۔یا فر ما یا زمانہ کفر۔۔۔سے ابھی ابھی نہ نکلی ہو تی تو میں ضرورکعبہ کے خزانے اللہ کی را ہ میں خرچ کر دیتا اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا اور حجر (حطیم ) کو کعبہ میں شامل کر دیتا ۔
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ مِينَاءَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي، يَعْنِي عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ، فَأَلْزَقْتُهَا بِالْأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابًا شَرْقِيًّا، وَبَابًا غَرْبِيًّا، وَزِدْتُ فِيهَا سِتَّةَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْهَا حَيْثُ بَنَتِ الْكَعْبَةَ "
سعید یعنی ابن بیناء سے روایت ہے کہا میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے ۔مجھ سے میری خالہ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :" عائشہ! رضی اللہ تعالیٰ عنہا اگر تمھاری قوم کا شرک کا زمانہ قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گرا تا اس (کے دروازے ) کو زمین کے ساتھ لگا دیتا اور میں اس کے دو دروازے شرقی دروازہ اور دوسرا غربی دروازہ بنا تا اور حجر (حطیم) اسے چھ ہاتھ (کا حصہ ) اس میں شامل کر دیتا ۔بلا شبہ قریش نے جب کعبہ تعمیر کیا تھا تو اسے چھوٹا کر دیا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ (کی عمارت )کو گرا کر (نئی )تعمیر کرنا)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قُلْتُ: فَلِمَ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟ قَالَ: «إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمِ النَّفَقَةُ»، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟ قَالَ: «فَعَلَ ذَلِكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا، وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ، وَأَنْ أُلْزِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ»
ابو حوص نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں اشعت بن ابو شعثاء نے اسود بن یزید سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حطیم کی) دیوار کے بارے میں دریا فت کیا کیا وہ بیت اللہ میں سے ہے ؟آپ ننے فرما یا ہاں ۔"میں نے عرض کی : تو انھوں نے اسے بیت اللہ میں شامل کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے فر ما یا :" تمھا ری قوم کے پاس خرچ کم پڑگیا تھا ۔میں نے عرض کی اس کا دروازہ کیوں اونچا ہے ؟ آپ نے فر ما یا :"یہ کا م تمھا ری قوم نے کیا تا کہ جسے چا ہیں اندر دا خل ہو نے دیں اور جسے چاہیں منع کر دیں اگر تمھا ری قوم کا زمانہ جاہلیت کے قریب کا نہ ہو تا اس وجہ سے میں ڈرتا ہوں کہ ان کے دل اسے ناپسند کریں گے تو میں اس پر غور کرتا کہ (حطیم کی) دیوار کو بیت اللہ میں شامل کردوں اور اس کے دروازے کو زمین کے ساتھ ملا دوں
صحيح مسلم: كِتَابُ الْحَجِّ (بَابُ جَدْرِ الْكَعْبَةِ وَبَابِهَا)
صحیح مسلم: کتاب: حج کے احکام ومسائل (باب: کعبہ کی دیوار یں اور اس کا دروازہ)
لہٰذا بڑے فتنہ سے بچاؤ کے لئے چھوٹی خرابی کو برداشت کرنا ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے، مزید کہ جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، تب اس صدیوں بعد تعمیر کردہ گنبد کو منہدم کر دینے میں کوئی قباحت نہیں!
لیکن فی الوقت اس گنبد کو منہدم نہ کرنے کا شرعی جواز موجود ہے اور سعودی حکومت کا مؤقف بالکل شریعت کے موافق ہے!
ہو جائے کیا مطلب؟ اس وقت حرمین شریفین میں اہل الحدیث کی ہی حکومت ہے، اور اہل الحدیث کا مؤقف اوپر بیان کردیا ہے۔ﻧﯿﺰﺍﮔﺮ ﻣﮑﮧ ﻭﻣﺪﯾﻨﮧ ﭘﺮ ﺍﮨﻠﺤﺪﯾﺜﻮﮞ ﮐﺎ
ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﻭﺿﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ
ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ
ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﯾﺎ ﮔﺮﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ؟
Last edited: