• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علما و حکمرانوں کے تعلقات کی نوعیت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
علما وحکمرانوں کے تعلقات کی نوعیت

علامہ عبد الرحمن ابن الجوزی چھٹی صدی ہجری کے جلیل القدر علما میں سے ہیں، ہر فن مولا تھے، اور اکثر علوم و فنون میں ان کی تصنیفات موجود ہیں، اسلامی وغیر اسلامی تاریخ میں کثرت تالیف کے اعتبار سے ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ابن الجوزی ایک مصنف سے بھی بڑھ کر بلا کے خطیب و واعظ تھے، ماہر نفسیات اور نبض شناس مصلح تھے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی مجالس وعظ و تذکیر میں شرکت کرتے ، عام لوگوں کے علاوہ زمانے کے وی آئی پیز اور حکمران طبقہ بھی ان کے درس و دروس میں حاضری دیا کرتے تھے۔
چند دن پہلے ایک رسالہ نظر سے گزرا، جس کا عنوان یوں تھا:​
’عطف العلماء علے الأمراء والأمراء علے العلماء‘
(علما و حکمرانوں کی ایک دوسرے پر توجہ اور شفقت)
یہ کتابچہ بذات خود بالکل مختصر ہے، آخر میں ذکر ہے کہ اسے ایک ہی دن کے کچھ حصے میں تصنیف کرلیا گیا تھا۔
البتہ محقق کے مقدمے، حالات مصنف، اور فہارس وغیرہ سے یہ تقریبا ساٹھ ستر صفحات تک وسیع ہوگیاہے۔
فرماتے ہیں، اہل علم اور اہل حکومت معاشرے کے دو بنیادی رکن ہیں، علما کے فتاوی نظریاتی خرابیوں سے محفوظ کرتے ہیں، جبکہ حکمران کا ڈنڈا سرکشوں کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔
پھر فرماتے ہیں، اہل علم طبقہ عموما دو قسموں میں بٹا ہواہے:
نیک اور پیرہیز گار لوگ، یہ حکمرانوں سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں، تاکہ فتنے میں مبتلا نہ ہوں.
دوسرا مفاد پرست طبقہ، یہ حکمرانوں کے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں، جس طرح شاہ چاہے، یہ اس کی وفاداری میں دین و شریعت کو بھي اسی انداز سے دکھانا شروع کردیتے ہیں۔
حکمران طبقے کے متعلق لکھتے ہیں، ان کی اکثریت بھی علما سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں سمجھتی.
رسالے کا مقصد اور لب لباب یہی ہے کہ اہل حق علما کو حسب توفیق اور موقعہ بہ موقعہ حکمران طبقہ کی اصلاح کرتے رہنا چاہیے، اور حکمرانوں کو بھی کاسہ لیسوں کی بجائے، ایسے مخلص علما پر توجہ دینی چاہیے۔
علما کو خطاب، حکمرانوں کو خطاب،کتابچہ ان دو حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلے حصے کے شروع میں کچھ مرفوع احادیث اور سلف کے آثار ذکر کیے ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ امراء و سلاطین سے دور رہنا چاہیے۔
مصنف اس کا جواب یوں دیتے ہیں، کہ مرفوع احادیث تو ثابت ہی نہیں ہیں، اور سلف کے جو آثار ہیں، اس کراہت کا سبب یہ ہے کہ عموما لوگ سلاطین کے پاس جاکر فتنے کا شکار ہوجاتے ہیں.
پھر فرماتے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تفصیل کرنی چاہیے ، اس سلسلے میں حکمرانوں کی تین اقسام ہیں:
1) جو اہل علم و تقوی ہیں، اور اہل علم کی قدر کرتے ہیں، امورِ حکم و سیاست میں شرعی رہنمائی کے طالب رہتے ہیں، اہل علم کا ان کے پاس آنا جانا واجب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید السلاطین تھے،اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ کرام اکثر اوقات آپ کے ساتھ رہتے تھے. اسی طرح نیک حکمرانوں میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی مثال بھی پیش کی.
2) وہ حکمران جو نیکیوں بدیوں کا مجموعہ ہیں، اچھے برے دونوں قسم کے کام کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو موقعہ بہ موقعہ حکمت کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے.
3) وہ حکمران ، جن کے نزدیک علما کی کوئی حیثیت نہیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والوں کو نہ صرف وہ ناپسند کرتے ہیں، بلکہ ایسی جرات کرنے والے کو قتل تک کردیتے ہیں، تو ایسے لوگوں کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، ’ جان کی امان پاؤں‘ جیسے سابقے لاحقے لگا کر اگر کوئی نصیحت کرنے کا موقعہ مل جائے، تو کرلینی چاہیے، ورنہ اپنے آپ کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے، إلا کہ کسی عالم دین کی اذیت و مشقت یا اس کی جان کی قربانی دین اسلام کی سربلندی کا ذریعہ بنے، تو پھر یہ اقدام کرلینا چاہیے۔
افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر( صحیح ، مسند احمد وغیرہ) والی حدیث کو انہوں نے اسی ضمن میں ذکر کیا ہے۔​
حکمران اور سلاطین کو نصیحت کے آداب:
1۔ اگر فائدہ محسوس ہو تو جان کی بازی لگادینا جائز تو ہے، لیکن پھر بھی نرمی اختیار کرنا بہتر ہے۔ کہتے ہیں، سختی کرنے سے فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ بڑے لوگ مزید ضد میں آجاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے ساتھ نرم رویے میں بات کرنے کی تلقین کی تھی۔
2۔ حکمرانوں کو نصیحت کرتے ہوئے، ان کے منصب کے فضائل و مناقب بھی بیان کرنے چاہییں کہ امارت و حکومت بہت بڑا شرف اور اللہ کا فضل ہے. وغیرہ
3۔ رعایا کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف کی فضیلت و فوائد بیان کیے جائیں۔
4۔ حکمرانوں کو نصیحت خلوت میں کرنی چاہیے، دیگر لوگوں کے سامنے سمجھانے سے حکمران و سلاطین اسے اپنی توہین اور سبکی سمجھتے ہیں۔
5۔ صریح گفتگو کی بجائے، اشارے کنائے پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تقریر پر تحریر کو ترجیح دینی چاہیے۔​
حکمرانوں کے پاس آنے جانے کا حکم:
اگر نصیحت اور اصلاح مراد ہو، تو مذکورہ تفصیل کے مطابق ان کے پاس جانا چاہیے... لیکن جس کے بارے خدشہ ہو کہ محلات و قصور میں خود خواہشات و فتور کا شکار ہوجائے گا، اسے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔
یہاں انہوں نے ایسی مثالیں بھی پیش کیں، کہ لوگ اصلاح کی غرض سے سلاطین کے پاس گئے، لیکن وہاں خود جاکر دین و دنیا دونوں برباد کربیٹھے، بلکہ سلاطین نے انہیں ملذات و ملہیات میں مبتلا کرکے علی رؤس الاشہاد ذلیل و رسوا کر نے کے بعد آخر میں سرتن سے جدا کروا دیا۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی نیت ابتدا میں درست ہوتی ہے، لیکن جب آہستہ آہستہ شاہی سہولیات کا رسیا ہوجاتا ہے، تو پھر حق بیان کرنے میں تساہل آنا شروع ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ کئی علما امراء و سلاطین کے پاس جانا دور کی بات، ان کے تحفے تحائف تک وصول نہیں کرتے تھے، تاکہ ان سے کچھ ملنے کا لالچ، حق بیان کرنے میں رکاوٹ نہ بن جائے.
بعض علما نے کہا، مجھے سلاطین کی ’سزا‘ سے نہیں، بلکہ ان کی ’ تکریم‘ سے ڈر لگتا ہے۔
امام احمد بن حنبل کہا کرتے تھے، متوکل میرے لیے معتصم سے بھی بڑا فتنہ ہے۔
آخر میں فرماتے ہیں، حکمران طبقے کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اصل چیز دین کی معرفت اور اس کا نفاذ ہے۔
علما معرفت دین میں مدد کرتے ہیں، جبکہ سلطان کا منصب اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا ہے، نہ کہ اہل علم کو چھوڑ کر اپنی طرف سے شریعت سازی کرنا ہے۔
خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز جیسے نیک اور صالح حکمران ہمارے حکمرانوں کے لیے رول ماڈل اور نمونہ ہونا چاہییں. جو اپنی رعایا سے ہر اصلاح اور نصیحت کو کھلے دل سے قبول کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الجوزی کا یہ کتابچہ آج سے آٹھ صدیاں قبل کے حالات و ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا گیاہے، ضرورت ہے کہ اسی رسالے کے پیغام کو مد نظر رکھتے ہوئے ’ علماو حکمرانوں کےمابین تعلقات‘ کی نوعیت پر تفصیل سے لکھا جائے، اور ہر دو طرف حتی الامکان اصلاح کی کوشش کی جائے۔
عالم اسلام کو اس وقت جو مسائل اور پریشانیاں درپیش ہیں، اس صورت حال میں ہمارے علما اور حکمران ہر دو طبقوں پر عالم کفر کی بھی نظریں ہیں.
چند صدیاں قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی عالم دین یا سلطنت کا والی کافروں کا آلہ کار ہوگا. لیکن اس وقت یہ مثالیں بالکل عام اور سب کے سامنے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں کتاب وسنت اور منہج سلف کے متعلق اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرنے کی توفیق دے، اور صرف دفاع پر اکتفا کی بجائے، اقدام کی ہمت و جرات بھی عطا فرمائے۔​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بڑھتی ہوئی بے دینی اور اسلام پسندوں کا المیہ

معاشرے میں پھیلتی برائی اور بے دینی میں ایک بڑی وجہ وقت کے ارباب حل و عقد ہیں۔
جب برے اور اس کی برائیوں پر تنقید ہوگی، تو یہ لوگ بھي اس میں آئیں گے۔
اس ’انکار منکر‘ کے حوالے سے صورت حال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ خود دین پسند طبقے میں ٹھیک ٹھاک اختلاف ہے، دو گروہ بن گئے ہیں، دوسرے گروہ کے نزدیک حکمرانوں پر تنقید کرنا اصلاح نہیں، بلکہ بذات خود ایک فتنہ ہے۔
ان کے نزدیک بہتر طریقہ یہ ہے کہ حکمرانوں سے جاکر ملاقاتیں کریں، انہیں خط و کتابت کرکے سمجھائیں، البتہ منبر و محراب کے ذریعے سے یہ کام سرانجام نہ دیں۔
میں سمجھتا ہوں، ان دونوں گروپوں میں سے آپ جس کو بھی درست سمجھیں، دونوں کا مقصد اگر موجودہ فساد کی اصلاح ہو، تو اپنے من پسند موقف کے مطابق اس اصلاح میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا چاہیے۔
اگر ایک سال مسلسل حکمرانوں سے خط و کتابت ہو، بڑے بڑے علماء و قائدین جاکر حکمران طبقے سے ملیں، دوسری طرف اعلانیہ تنقید کرنے والے بھي تنقید جاری رکھیں، تو سختی و نرمی ہر دو طرح سے نصیحت و خیرخواہی کا حق ادا ہوجائےگا۔ کسی کے مقدر میں اصلاح ہوئی تو یقینا کوئی عذر باقی نہ رہے گا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آئے دن پرچم اسلامیت سرنگوں ہورہا ہے، ہر طلوع ہونے والا سورج اسلام پسندوں کے لیے پابندیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔
اور ’مصلحین‘ اصل ہدف کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کو اصلاح کے طریقے بتارہے ہیں، آسیہ مسیح کیس ہو، یا پارلیمنٹ میں شراب کے خلاف قرارد کی بات، ہر دفعہ بہت سارے لوگ اصل مسئلہ پر رد عمل دینے کی بجائے، ایک دوسرے کی غلطیاں نکالنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
ان کے نزدیک شراب کی حلت و حرمت اصل مسئلہ نہیں، ہاں البتہ شراب خوروں پر تنقید کرتے ہوئے تقریرون کے زیر وبم کو نوٹ کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔
آسیہ مسیح کیس کے خلاف جو سڑکوں پر نکل آئیں، ان کے خلاف فتاوی تیار کروانا ان کے نزدیک ایک اہم پراجیکٹ ہے، البتہ خود اس کیس میں عدالتی و قانونی کاروائی کا انہیں کوئی خیال نہیں۔
بہرصوت فساد کی اصلاح ایک اہم کام ہے، البتہ منہج و اسلوب کے نام پر ایک دوسرے سے ہی الجھتے رہنا کوئی مفید کام نہیں۔​
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
میں سمجھتا ہوں، ان دونوں گروپوں میں سے آپ جس کو بھی درست سمجھیں، دونوں کا مقصد اگر موجودہ فساد کی اصلاح ہو، تو اپنے من پسند موقف کے مطابق اس اصلاح میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا چاہیے۔
اگر ایک سال مسلسل حکمرانوں سے خط و کتابت ہو، بڑے بڑے علماء و قائدین جاکر حکمران طبقے سے ملیں، دوسری طرف اعلانیہ تنقید کرنے والے بھي تنقید جاری رکھیں، تو سختی و نرمی ہر دو طرح سے نصیحت و خیرخواہی کا حق ادا ہوجائےگا۔ کسی کے مقدر میں اصلاح ہوئی تو یقینا کوئی عذر باقی نہ رہے گا۔
بھائی آپ نے حکمرانوں کی اصلاح کے جو دو طریقے بتائیں ہیں ان دونوں طریقوں کے دلائل بھی واضح کریں تاکہ عمل کرنے والے آپ کے مشورے پر دلائل کی روشنی میں عمل کر سکیں۔

نہیں تو بات ایسی ہی ہوگی کہ نماز پڑھیں چاہے طریقہ کیسا بھی ہو۔
قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے اقوال و افعال پیش کریں ان طریقوں کے متعلق۔

جزاک اللہ خیراً
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
میں سمجھتا ہوں، ان دونوں گروپوں میں سے آپ جس کو بھی درست سمجھیں، دونوں کا مقصد اگر موجودہ فساد کی اصلاح ہو، تو اپنے من پسند موقف کے مطابق اس اصلاح میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا چاہیے۔
شیخ دونوں گروہوں کے دلائل بیان کریں پھر لوگوں کو طریقہ اختیار کرنے کا اختیار رہے گا،، اس طرح بغیر دلائل کے مشورے دینے سے علی وجہ البصیرہ عمل کرنا نا ممکن ہے،، امید ہے کہ آپ دونوں طریقوں کے دلائل پیش کریں گے۔

جزاک اللہ خیراً
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بيان و تبيين لبعض ما يجب في الإنكار على السلاطين

الحمد لله عظيم المنن ، دافع النقم و المِحَن ، ذي الفضل و النعماء على من آمن به و تولاه ، و ذي العزة و الجبروت و البأس الشديد على من حادَّه أو عاداه .
و صلى الله و سلم و بارك على نبينا محمد و آله و صحبه و من والاه ، ثم أما بعد .
فإن الله تعالى مذ خلقنا و كرمنا و فضلنا على كثير ممن خلق تفضيلاً لم يتركنا هملاً نهيم على وجوهنا دون أن يبين لنا سبل الرشاد ، بل بعث فينا نبيه المصطفى صلى الله عليه و سلم بما يصلح العباد و البلاد ، و يسوس الدنيا و أهلها إلى يوم المعاد ، فتوفي عليه الصلاة و السلام و ما من خير إلا و دلنا عليه ، و لا شر إلا حذَّرنا منه ، و أخذ بحُجَزِنا يصرفنا عنه ، و لا علم ينفع في دينٍ أو دنيا إلا أوقفنا عليه .
و لحق رسول الله صلى الله عليه و سلم بربه و ما من طائر يقلِّبُ جناحيه ، في السماء إلا و قد ذكر لأصحابه منه علماً ، كما روى الطبراني في معجمه الكبير عن أبي الدرداء و أبي ذرٍّ رضي الله عنهما .
فهل يظن عاقل أن رسول الله صلى الله عليه و سلم و قد عرف ما ستؤول إليه أمور أمته من بعده و أخبر به و بالغ في بيانه ، و ذِكْرِ أشراطه ، و التحذيرِ من أشراره ، يدعنا و شأننا في مجابهة المحن ، و مواجهة الفتن ، دون أن يبين لنا في ذلك سبيلاً رشَداً ، فيأتينا العقلاء منه بقبسٍ أو يجدوا في شرعِه هدى ؟!
كلا و الله ! ما كان الأمر كذلك ، و ما ينبغي له أن يكون ، فقد علَّمنا من لا ينطق عن الهوى كيف نعامل الأمراء في كل حال ، فقال في موعظته التي ذرفت لها العيون و وجلت منها القلوب : ( عليكم بتقوى اللّه ، و السمع و الطاعة ، و إن عبداً حبشياً ) ، رواه ابن ماجة و غيره بإسنادٍ صحيح عن العرباض بن سارية رضي الله عنه .
و روى الشيخان عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه ، أنه قال : دَعَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَبَايَعْنَاهُ ، فكان فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا : أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ ، فِي مَنْشَطِنَا وَ مَكْرَهِنَا ، وَ عُسْرِنَا وَ يُسْرِنَا وَ أَثَرَةٍ عَلَيْنَا ، وَ أَنْ لاَ نُنَازِعَ الأَمْرَ أَهْلَهُ ، إِلا أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً ، عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ ) .
فقيَّد صلى الله عليه و سلَّم منازعة الأمر – الحُكمَ – أهله ، بظهور الكفر البواح من المنازَع .
و ههنا مسائل يحسن التنبيه إليها بين يدي هذا الحديث الشريف :

أُولاها : التفريق بين إنكار المنكر و بين الخروج على الحاكم ، إذ ليس كل من أنكر منكراً على حاكم ذي سلطة ( شرعية أو غير شرعية ) خارجاً عليه بمجرد الإنكار فضلاً عن أن يكون خارجي المنهج و الفكر و المذهب ، كما يصوره البعض ، لأن الأمَّة مازالت تنكر على حكامها و ولاة أمورها سرّاً و جهراً ، بحسب الإمكان ، و ما يقتضيه الحال ، و لم نقف في تاريخنا المديد على من اتُّهم بالخروج ، أو نسب إلى الخروج أصلاً ، فضلاً عن أن ينسب إلى الخوارج ( كطائفة ) لمجرد إنكار المنكر – علانيةً - على الحاكم ، و دعوته إلى العدل و الإنصاف و ردِّ المظالم و إحقاق الحق .
و يشهد لهذا تبويب الإمام مسلم في صحيحه بما يؤكد على التفريق بين الإنكار الواجب و الخروج المحرم بقوله : بَابُ وُجُوبِ الإِنْكَارِ عَلَى الأُمَرَاءِ فِيمَا يُخَالِفُ الشَّرْعَ ، وَ تَرْكِ قِتَالِهِمْ .اهـ .
و ما رواه ابن ماجة في سننه بإسنادٍ صحيح عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : ( أفضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر ) ، و في رواية : ( كلمة حقًّ ) .
و ما صح في سننه أيضاً من حديث أبي أمامة رضي الله عنه ، أنه قال : عرض لرسول الله صلى الله عليه و سلم رجلٌ عند الجمرة الأولى ، فقال : يا رسول الله أيُّ الجهاد أفضل ؟ فسكت عنه . فلما رمى الجمرة الثانية سأله ، فسكت عنه . فلما رمى جمرة العقبة وضَعَ رِجْلَه في الغَرْز ليَركب ، قال : ( أين السائل ؟ ) قال : أنا يا رسول الله . قال : ( كلمة حق عند ذي سلطان جائر ) .
قلتُ : لو كان إنكار المنكر على السلطان الجائر منكَراً ، لما كان القيام به أفضل الجهاد في سبيل الله ! و لما جعل من قُتِل دون ذلك في مقام سيِّد الشهداء ، كما صح بذلك الخبر عن النبي صلى الله عليه و سلَّم إذ قال : ( سيد الشهداء حمزة بن عبد المطلب ، و رجلٌ قام إلى إمام جائر فأمره و نهاه فقتله ) رواه الحاكم في مستدركه عن جابر بإسناد صحَّحه ، و أقرَّه الذهبي .

و ثانيها : أن تقييد الإنكار بالإشهار أو الإسرار أمر تحكمه مقاصد الشريعة ، و يجب ضبطه بضوابطها ، و ينظر إليه من خلال المصالح المترتبة على القيام به ، و المفاسد المترتبة على تركه ، و هذا يختلف بحسب الأمور المنكرة ، و حال المنكِر ، و المنكَر عليه ، و أسلوب الإنكار ، لذلك رأينا أئمة السلف ينكرون المنكر على الحاكم علانية تارةً ، و خفيةً تاراتٍ أُخَر ، فيما بينهم و بين الحاكم ، دون أن يتحجَّر أحدهم واسعاً ، أو يحمل الناس على رأيه مكرَهين .
و قد اشتهر من الإسرار في الإنكار موقف أسامة بن زيد من عثمان بن عفان رضي الله عنهم و عن سائر الصحابة الكرام ، حيث كان يتخوله بالموعظة و النصيحة سراً .
فعَنْ شَقِيقٍ بن سلمة ، عَنْ أُسَامَةَ بن زيد ، قَالَ : قِيلَ لَهُ : أَلا تَدْخُلُ عَلَى هَذَا الرَّجُلِ فَتُكَلِّمَهُ ، يَعْنُونَ عُثْمَانَ ، فَيَقُولُ : أَتَرَوْنَ أَنِّي لا أُكَلِّمُهُ إِلا أُسْمِعُكُمْ ، وَ اللَّهِ لَقَدْ كَلَّمْتُهُ فِيمَا بَيْنِي وَ بَيْنَهُ مَا دُونَ أَنْ أَفْتَتِحَ أَمْرًا لا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ يَفْتَحُهُ ، وَ لا أَقُولُ لأَحَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ أَمِيراً إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ : ( يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ ، فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ فِي الرَّحَى ، فَيَجْتَمِعُ إِلَيْهِ أَهْلُ النَّارِ فَيَقُولُونَ : مَا لَكَ ؟ أَلَمْ تَكُ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ ، وَ تَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ فَيَقُولُ : بَلَى ، كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلا آتِيهِ ، وَ أَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ آتِيهِ ) ، رواه أحمد و أصله في صحيح البخاري .
قال القاضي عياض رحمه الله [ كما في فتح الباري : 13 / 57 ] : ( مراد أسامة أنه لا يفتح باب المجاهرة بالنكير على الإمام لما يخشى من عاقبة ذلك ، بل يتلطف به ، و ينصحه سراً فذلك أجدر بالقبول ) .
و هذا منهج مبرئٌ لذمة من يقدر على الوصول إلى الأمير أو الوقوف بين يديه ليأمره بالمعروف و ينهاه عن المنكر ، و لكن ليت شعري كيف تبرأ ذمة من لا يملك حيلة و لا يستطيع سبيلاً إلى الإنكار إلا من وراء جُدُرٍ ، إن لم يبذل وُسعَه في قول الحق و العمل به و لو عن بُعدٍ ؟
و معاذ الله أن نبرر الإنكار علانية أو ندعو إليه مع إمكانية تحقيق الغاية المرجوة من الإنكار بين العالم و الحاكم .
أخرج الإمام أحمد في مسنده عن سعيد بن جهمان قال : ( أتيت عبد الله بن أبي أوفى ، و هو محجوب بالبصرة ، فسلمت عليه . قال لي : من أنت ؟ فقلت : أنا سعيد بن جهمان . قال : فما فعل والدك ؟ قال : قلت : قتلته الأزارقة . قال : لعن الله الأزارقة لعن الله الأزارقة ، حدثنا رسول الله أنهم كلاب النار . قال : قلت : الأزارقة وحدهم أم الخوارج كلها ؟ قال : بل الخوارج كلها . قال : قلت : فإن السلطان يظلم الناس و يفعل بهم . قال فتناول يدي ، فغمزها بيده غمزةً شديدة ، ثم قال : ويحك يا ابن جهمان ، عليك بالسواد الأعظم ، عليك بالسواد الأعظم ، إن كان السلطان يسمع منك فأته في بيته ، فأخبره بما تعلم ، فإن قبل منك ، و إلا فدعه ؛ فإنك لست بأعلم منه ) .
و هذا مقيد بقول عبد الله بن أبي أوفى صراحةً : إن كان السلطان يسمع منك .
قلتُ : أما إن تترس الأمير بحاشية السوء ، و لم يمكن إيصال الحق إليه ، فلا أقل من تبصير العامة بضررٍ لا يدفع بأقل من العلم به .

و ثالثها : أنَّ حمل معنى الكفر البواح على الخروج من الملة بالكفر الأكبر دون غيره من كبائر المعاصي و فواحش الذنوب ، أمر يسوغ فيه الخلاف ، بل قد وقع الخلاف فيه يقيناً ، بذهاب بعض العلماء إلى تأويل الكفر البواح بالمعاصي ، كما فعل الإمام النووي رحمه الله إذ قال في شرحه لصحيح مسلم [ 12 / 229 ] :
قوله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : ( إِلاَّ أَنْ تَرَوْا كُفْراً بَوَاحاً عِنْدَكُمْ مِنَ اللهِ فِيهِ بُرْهَانٌ ) هكذا هو لمعظم الرُّواة . و في معظم النُّسخ : بواحاً بالواو . و في بعضها : براحاً ، و الباء مفتوحة فيهما . و معناهما: كفراً ظاهراً ، و المراد بالكفر هنا : المعاصي . و معنى ( عندكم من اللهِ فيه برهان ) أي : تعلمونه من دين اللهِ .
و معنى الحديث : لا تنازعوا ولاة الأمور في ولايتهم ، و لا تعترضوا عليهم ؛ إلاَّ أن تروا منهم منكراً محقَّقاً تعلمونه من قواعد الإسلام ، فإذا رأيتم ذلك فأنكروه عليهم ، و قولوا بالحقِّ حيث ما كنتم ، و أمَّا الخروج عليهم و قتالهم فحرام بإجماع المسلمين ، و إن كانوا فسقة ظالمين ، و قد تظاهرت الأحاديث بمعنى ما ذكرته ، و أجمع أهل السُّنَّة أنَّه لا ينعزل السُّلطان بالفسق ) .
فتأمل وفقك الله لهداه كيف ذهب الإمام النووي رحمه الله إلى تأويل الكفر البواح بالمعاصي ، و لم يحمله على الكفر المخرج من الملة ، فضلاً عن أن يقصره عليه ، و لم يرَ بأساً في منازعة ولاة الأمر و الاعتراض عليهم حال وقوعهم في المعاصي و المنكرات المحققة المعروفة بما يُعلَم من قواعد الإسلام ، شريطة أن لا يكون ذلك بالسيف ما لم يُتيقَّن خروج الحاكم من الملة بالكُليَّة .
و مع ذلك فقد نقل [ في شرح صحيح مسلم أيضاً 2 / 26 ] عن إمام الحرمين رحمه الله القول بمشروعية التواطؤ لخلع الإمام الفاسق بما هو أقل من الكفر و إن استلزم ذلك إشهار السلاح في وجهه و محاربته ، حيث قال : ( قال إمام الحرمين رحمه الله: و إذا جار والي الوقت و ظهر ظلمه و غشمه و لم ينزجر حين زُجِرَ عن سوء صنيعه بالقول ، فلأهل الحلِّ و العقد التَّواطؤ على خلعه ، و لو بشهر الأسلحة و نصب الحروب ، هذا كلام إمام الحرمين ، و هذا الَّذي ذكره من خلعه غريب ، و مع هذا فهو محمول على ما إذا لم يخف منه إثارة مفسدة أعظم منه ) .
فاتق الله في يا من يعيب على إخوانه القيام بما هو أدنى مما ذهب إليه إمام الحرمين و أقره عليه النووي بشرطه المذكور ، و ارأف بإخوانك الذين ينكرون منكراً قعدت عن إنكاره ، و لولا ما حملوه عنك من القيام بالواجب الكفائي لكنت من الآثمين ، فادع لهم ، و احفظ ظهورهم ، و لا تكن عوناً للظالمين عليهم .
و حذار من أن تتوهم في كلامنا هذا تحريضاً على ارتكاب أعلى المفسدتين مع إمكانية تحاشيهما أو الاكتفاء بارتكاب أدناهما ، لأن الدعوة إلى إنكار المنكر على الحاكم المسلم علانية خلافُ الأصل الذي ندعو إليه ، و نحتسب الأجر عليه .
إذ إن الإنكار على الحاكم المسلم سراً هو الأصل ما دام ذلك كافياً و كفيلاً لإحقاق الحق و دفع المنكر بأقل منه .
أما إن تعذر ذلك و خُشيَ من تفشي المنكر ، و شيوع الفاحشة في الذين آمنوا فيعدل عن هذا الأصل إلى ما لا يتم الواجب إلا به ، و من ذلك الإنكار علانية علَّ ذلك يبلغ من كان له قلبٌ أو ألقى السمع و هو شهيد ، فيبذل وسعه ، و يبرئ ذمَّته في التصدي للمنكر و أهله قبل فوات الأوان ، و يكون ذلك في حالات منها :

الحالة الأولى : إذا شهد العالم وقوع المنكر أو وافق حضور الوالي المتلبس به ، فيجب الإنكار في الحال ، و لا يسعه تأخيره عن وقت الحاجة لبيانه .
و مثال ذلك ما عرف من إنكار أبي سعيد الخدري رضي الله عنه ، و غيره على مروان بن الحكم تقديم خطبتي العيد على الصلاة ، خلافاً للسنَّة الثابتة عن النبي صلى الله عليه و سلم .
فقد روى مسلم في صحيحه بإسناده عن طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلاَةِ مَرْوانُ ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ : الصَّلاَةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ ؟ فَقَالَ مروان : قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ . فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَقُولُ : ( مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَراً فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ ) الحديث .

الحالة الثانية : إذا غلب على الظن تعالي الحاكم على الحق و أهله ، و تطاوله على من يأمره و ينهاه بسيفه و بطشه ، فعندئذ يجد الداعية مندوحة من المواجهة مع من لا يتورع عن إراقة دماء مخالفيه و معارضيه ( بالحق ) ، فيعدل إلى إنكار المنكر بما تيسر من وسائل أُخَر ، و أقلها تحذير العباد من المنكر الذي يقره الحاكم و لا ينكره .
روى ابن ماجة في سننه بإسناد حسن عن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ( لا ينبغي للمؤمن أن يذل نفسه ) قالوا : و كيف يذل نفسه ؟ قال : ( يتعرض من البلاء لما لا يطيقه ) .
و روى ابن سعدٍ في طبقاته عن عمارة بن مهران ، قال : قيل للحسن : أَلا تَدْخُلُ عَلَى الأمَرَاءِ ، فَتَأْمُرَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ، وَ تَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ قَالَ : ( لَيْسَ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ ، إِنَّ سُيُوفَهُمْ لَتَسْبِقُ أَلْسِنَتَنَا ، إِذَا تَكَلَّمْنَا قَالُوا بِسُيُوفِهِمْ هَكَذَا ، وَ وَصَفَ لَنَا بِيَدِهِ ضَرْباً ) .
و لا يستفاد من هذا أن الحسن ، ترك الأمراء و شأنهم فلم يأمرهم و لم ينهَهم ، و حاشاه من ذلك و هو الغيور على دين الله ، الذي لا يخاف فيه لومة لائم ، و لكنه لم ينكر منكرهم في مجالسهم دفعاً لمفسدة أكبر ، و لم يعدِم وسيلةً أخرى لإحقاق الحق و الأمر به ، و إبطال المنكر و النهي عنه ، كما يبدو ، و الله أعلم .

الحالة الثالثة : إذا كان المنكر الواجب إنكاره يبلغ في ضرره و شرِّه عموم الأمة ، و لا يقتصر في ذلك على الحاكم العاصي أو خاصته ، فهذا لا بد من أن يحذَّر منه كل من قد يقع فيه ، أو يلتبس عليه أمره ، أو يتضرر به ، و من هذا القبيل إسقاط الجهاد حال كونه فرضاً متعيناً على المسلمين كما هو الحال اليوم في بيت المقدس و أكناف بيت المقدس ، فلو قدِّرَ أن حاكماً دعا إلى وضع الحرب مع العدو ، و تنازل عن الحَرَم و الحُرُمات ، و الديار و المقدَّسات ، فقد أتى منكراً جسيماً يجب إنكاره عليه ، و تبصير الأمة بخطره كي لا تموت فيهم الغيرة على الدين ، و العزيمة على مجاهدة المعتدين .
و مثل ذلك التحذيرُ من المنكرات السارية كالتعامل بالربا ، و إشاعة الفواحش ، و سائر ما يعم شره ، و لا يؤمن الوقوع فيه ، و من أخطر ذلك ما تبثه وسائل الإعلام و الإجرام من لوثات العقول و الأفكار و السلوك و الأخلاق ، فهذه و أمثالها أمور يجب على القادر أن ينكرها على الحكام ، و يحذِّر من خطرها المحكومين ، نصيحة لله و لرسوله و لعامة المسلمين و خاصتهم .
و لا تبرأ الذمة في هذه الأحوال بمجرد الهمس في أذن الحاكم بوجود هذه المنكرات ، إن لم يفض ذلك إلى تغييرها ، و يعصم المسلمين من الوقوع في شرورها ، بل لا بد من إنكارها علناً ، و بيان مفاسدها و مخاطرها على رؤوس الأشهاد ، ليهلك من هلك عن بيِّنة و يحيى من حيَّ عن بيِّنة .
روى الحاكم في مستدركه أن أميراً من أمراء الكوفة دعا ساحراً يلعب بين يدي الناس ، فبلغ جندباً ، فأقبل بسيفه و اشتمل عليه ، فلما رآه ضربه بسيفه فتفرق الناس عنه ، فقال : أيها الناس ، لن تُراعوا إنما أردت الساحر ، فأخذه الأمير فحبسه ، فبلغ ذلك سلمان ، فقال : ( بئس ما صنعا لم يكن ينبغي لهذا و هو إمام يؤتم به يدعو ساحراً يلعب بين يديه ، و لا ينبغي لهذا أن يعاتب أميره بالسيف ) .
و يظهر من سياق هذا الخبر أنَّ تغيير المنكر بالسيف كان لعموم شرِّه و خطره ، حيث كان الساحر يلعب بين يدي الناس ، و هذه فتنة ظاهرة يتعين إنكارها و دفعها ، و هذا ما أقدم عليه جندب بعد أن بيَّن للناس أنَّه ما خرج ليريعهم ، بل خرج ليقيهم الفتنة بسيفه ، و هذا اجتهاد منه ، أنكر عليه سلمان خروجه بالسيف فيه ، و لم ينكر عليه مجرد مخالفة الحاكم أو اعتراض سبيل الساحر الفتان ، و الله أعلم .

الحالة الرابعة : إذا بلغه أن الحاكم قضى قضاءً ، أو أمر أمراً يخالف كتاب الله و سنَّة رسوله ، فيجب إنكار المنكر حينما يبلغه ، إذا بلغه من ثقةٍ ، و لا يجوز له الكف عن الإنكار أو التوقف فيه ، أو إرجاؤه إلى حين لقاء الأمير ، لأن تأخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز ، و لو سكت العالم عن المنكر لحظة سماعه به أو بلوغه إيَّاه لأوهم إقراره له ، خاصَّةً إذا كان عالماً يُتَّبَع ، و إماماً قدوةً علَماً .
روى عبد الرزاق في مصنَّفه عن عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ و قد سَأَلَهُ رَجُلٌ ، أَتُحَرِّمُ رَضْعَةٌ أَوْ رَضْعَتَانِ ؟ فَقَالَ : ( مَا نَعْلَمُ الأُخْتَ مِنَ الرَّضَاعَةِ إِلا حَرَامًا ) ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ - يُرِيدُ ابْنَ الزُّبَيْرِ - يَزْعُمُ أَنَّهُ لا تُحَرِّمُ رَضْعَةٌ ، وَ لا رَضْعَتَانِ . فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : ( قَضَاءُ اللَّهِ خَيْرٌ مِنْ قَضَائِكَ وَ قَضَاءِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ) و رواه بنحوه الدارقطني ، و سعيد بن منصور كلٌّ منهما في سننه .

الحالة الخامسة : إذا نهى السلطان عن تبليغ حق ، أو إحياء سنَّةٍ أو إماتة بدعةٍ ، فإن على الداعية الصادق أن يؤثر طاعة الرحمن على طاعة السلطان .
روى عبد الرزاق في مصنَّفه عن الشعبي ، عن عمه قيس بن عبدٍ قال : اختلفتُ إلى عبد الله بن مسعود سنةً فما رأيته مصلياً صلاة الضحى و لا صائماً يوماً من غير رمضان ، قال : فبينا نحن عنده ذات ليلة أُتيَ فقيل له : هذا رسول الوليد ، فقال عبد الله : ( أطفئوا المصباح ) ، فَدَخَلَ ، فقال له : إن الأمير يقول لك : اترك هؤلاء الكلمات التي تقول ، قال : ( و ما هن ؟ ) قال : ( هذه الكلمات ؟ ) قال : فلم يزل يرددهن ، قال : قولَك : كلٌّ مُحدَثَةٍ بدعةٌ ، قال : ( إني لن أتركهن ) ، قال : فإنه يقول لك : فاخرج ، قال : ( فإني خارج ) ، قال : فخرج إلى المدينة .
قلتُ : و غير بعيدٍ عن هذه الصورة ما ( قد ) يعمد إليه بعض ولاة المسلمين اليوم من تغييرٍ لمناهج التعليم ؛ يراد منه التغاضي عن بعض أحكام الشريعة ، أو كتمان بعضها ، أو تضييع بعض حدودها و أحكامها كتلك المتعلقة بباب الولاء و البراء و الإعداد و الاستعداد و الخروج في سبيل الله للجهاد .
و الموفَّق من عرف الطريق فسلَكَها ، و أعرض عن الشُّبَهِ و من عَرَضَها .

الحالة السادسة : إذا وقع الحاكم في منكر ، أو اقترف مظلمة بسبب فتوى حملت على غير وجهها من عالم ثقة ، فالواجب على العالم أن يسعى حثيثاً لتبرئة ذمته ، و رفع الظلم الواقع بسببه .
رواه أبو بكر الخلال في الأمر بالمعروف و النهي عن المنكر عن أَبي بَكْرٍ الْمَروذِيُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ بْنَ شَرِيكٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ يُونُسَ ، يَقُولُ : صَلَّيْتُ عِنْدَ الْمَقَامِ عِشَاءَ الآخِرَةِ ، وَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عِنْدَ الْمَقَامِ ، فَجَاءَتِ امْرَأَةٌ ، فَوَقَفَتْ عَلَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا سُفْيَانُ ، بِأَيِّ شَيْءٍ تَسْتَحِلُّ أَنْ يُحْبَسَ ابْنِي بِسَبَبِكَ ؟ وَ كَانَ أَرَى مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ : فَرَأَيْتُ سُفْيَانَ قَدْ قَامَ إِلَى الْمَقَامِ ، فَإِذَا الْوَالِي بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ : لِمَ تَحْبِسُ رَجُلاً بِسَبَبِي ؟ قَالَ : فَقَالَ لَهُ الأَمِيرُ : أَوْ قَالَ : الْوَالِي - شَكَّ الْمَرْوَزِيُّ - : هَذَا اللَّيْلُ ، وَ بَابُ السِّجْنِ مُغْلَقٌ ، قَالَ سُفْيَانُ : ( لا أَبْرَحُ مِنْ هَذَا الْمَوْضِعِ حَتَّى تُخْرِجَهُ ) ، قَالَ : ( فَأَرْسَلَ وَ جِيءَ بِالْمَفَاتِيحِ ، وَ فَتَحَ بَابَ السِّجْنِ ، وَ جِيءَ بِابْنِهَا ، حَتَّى دُفِعَ إِلَيْهَا ) .
قلتُ : خليق بعلمائنا الأثبات في هذا الزمان أن ينكروا على الحاكم استغلال فتاوى الأئمة للزج بشباب الأمة في غياهب السجون ، و دياهب المعتقلات ، و أجدر بهم أن يكفوا عن الإفتاء بما من شأنه أن يوقع الحاكم في المظالم ، و يولجهم أبواب الجور و الحيف بتبرير من يقذف شباب الأمة بالخروج على الحكام و المروق من الشريعة لمجرد حماسهم و غيرتهم على دينهم و ديارهم و أهليهم الذين يُعمل فيهم الأعداء القتل و التشريد .
و لست إذ أرى مشروعة الإنكار العلني على الحكام في الحالات الست التي أوردتها أقصر الحق على ما ذكرت ، و لكنه استقراء واقع المسلمين ، والنظر حال السلف الصالحين ، و ضبط ذلك بضوابط الشرع المتين ، فإن وفقت في عرضه فالحمد لله ربِّ العالمين ، و إلا فلا حول و لا قوة إلا بالله العلي العظيم .
و ما توفيقي إلا بالله العلي العظيم ، عليه توكلت و إليه أنيب
هذا و الله الهادي إلى سواء السبيل ، و بالله التوفيق .
وكتب
د . أحمد بن عبد الكريم نجيب
Dr.Ahmad Najeeb
alhaisam@msn.com
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حکمرانوں کی برائیوں کی مذمت کے حوالے سے کچھ اہم باتیں
’’بیان و تبیین لبعض ما یجب فی الإنکار علے السلاطین‘‘ کے عنوان سے ایک مفید مقالہ نظر سے گزرا، جس میں حکمرانوں کی منکرات پر انکار کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں، مصنف نے شروع میں بیان کیا کہ حاکم وقت پر تنقید میں اصل یہی ہے کہ وہ سربازار نہ کی جائے، لیکن بوقت ضرورت اس سے ہٹ کر بھی کچھ اہم تفصیلات ہیں، جنہیں مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ پھر انہوں نے کچھ اہم باتیں بیان کی ہیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1) اگر عالم دین اس مجلس میں موجود ہو، جہاں منکرات و برائیوں کا ارتکاب ہورہا ہو، تو پھر وہاں انکار و تنقید کرنا ضروری ہے، جیساکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم پر تنقید کی تھی۔ ہاں البتہ اگر یہ خدشہ ہو کہ حاکم وقت تکبر و تعلی میں بات نہیں مانے گا، بلکہ فورا کوئی ایذا بھی پہنچا سکتا ہے، تو ایسے موقعہ پر خاموشی اختیار کرنا بھی سلف سے منقول ہے، جیساکہ حسن بصری سے کسی نے پوچھا، آپ امرا کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیوں نہیں کرتے؟ کہا: کیسے کریں؟ ان کی تلواریں ہماری زبانوں سے قبل حرکت میں آجاتی ہیں۔ ہاں البتہ ایسی صورت حال میں دیگر ذرائع سے حتی الامکان منکر کی مذمت کرتے رہنا چاہیے۔
(2) اگر حاکم کی برائی اور بے راہ روی اس کی ذات کی حد تک نہ ہو، بلکہ عامۃ الناس بھی اس کے شر سے متاثر ہوں، مثلا: جہاد کا انکار کردینا، شراب و سود کا جائز قرار دینا وغیرہ، تو ایسی صورت حال میں علما کی ذمہ داری ہے کہ اس موقعہ پر اعلانیہ تنقید کریں، اور اس موقف کی شدید مذمت کریں، تاکہ حکمرانوں کی پیروی میں عوام بھی غیرت دینی سے محروم نہ ہوجائے۔
(3) اگر کتاب وسنت کے خلاف کوئی مسئلہ حاکم کی نسبت سے بیان کیا جائے، تو عالم دین کو سنتے ہی اس پر رد عمل دینا چاہیے، تاکہ لوگ اس کے سکوت کو اس کے درست ہونے کی دلیل نہ بنالیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رضاعت کے متعلق ایک مسئلہ پیش ہوا، ابن عمر نے اس کی تغلیط کی، کہا گیا، امیر المؤمنین کا بھی یہی موقف ہے، فرمایا: قضاء اللہ خیر من قضائک و قضاء أمیر المؤمنین۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس امیر شہر کا مسلح ایلچی آیا، اور کہا کہ’ کل محدثۃ بدعۃ‘ والی بات کہنا چھوڑ دو، آپ نے کہا، یہ میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ مدارس و معاہد کے نصاب میں تبدیلی بھی بعض دفعہ ڈنڈے کے زور پر کروائی جاتی ہے، قرآن و حدیث، اور سیرت و صحابہ کو نکالنے کا حکم دیا جاتا ہے، مسلمانوں کو ایسے ناجائز احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہیے۔
(3) اگر حاکم وقت کسی عالم دین کے شرعی فتوی کو بگاڑ کر لوگوں کو پر ظلم و ستم اور زیادتی کی راہ ہموار کرے، تو اس مفتی اور عالم دین کو جس کے فتوی کو استعمال کیا جارہا ہے، اپنا موقف واضح انداز سے بیان کرنا چاہیے، اور عوام اور حکمرانوں ہر دو کے سامنے واضح کرنا چاہیے کہ میرے فتوی میں کسی قسم کی بے راہ روی یا ظلم و ستم کی قطعا حمایت نہیں۔ مسجد حرام میں ایک عورت سفیان ثوری کے پاس آئی، کہا، میرا بیٹا آپ کے سبب قید کرلیا گیاہے، سفیان ثوری فورا والی شہر کے پاس گئے، اور باصرار اس شخص کو حبس بے جا سے نجات دلوائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی مقالہ یہاں سے پڑھیں
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
السنة لابن أبي عاصم
بَابُ: كَيْفَ نَصِيحَةُ الرَّعِيَّةِ لِلْوُلَاةِ؟
١٠٩٦ - حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ عِيَاضُ بْنُ غَنْمٍ لِهِشَامِ بْنِ حَكِيمٍ: أَلَمْ تَسْمَعْ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِذِي سُلْطَانٍ فَلَا يُبْدِهِ عَلَانِيَةً، وَلَكِنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيَخْلُوا بِهِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَاكَ، وَإِلَّا كَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ»
باب: رعایہ ولی الامر کو کس طرح نصیحت کرے۔
ترجمہ: جو شخص سلطان کو نصیحت کرنا چاہتا ہے تو علانیہ طور پر نہ کرے، بلکہ اس کا ہاتھ پکڑے اور اکیلے میں لے جائے، اگر وہ نصیحت قبول کر لے تو ٹھیک، اور اگر قبول نہ کرے تو اس شخص نے اپنا فرض ادا کر دیا۔

اس حدیث کا کیا جواب دیا جائے گا؟
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے حاکم پر علانیہ تنقید کرنے کے متعلق سوال کیا گیا۔

السؤال: يقول بعض العلماء أحسن الله إليكم أن الانكار العلني على الحاكم تراعى فيه المصالح والمفاسد هل هذا يخالف بالنصوص الآمرة بالنصح سرا ومن الذي يحدد المصالح والمفاسد.

الجواب: نحن لسنا بحاجة إلى هذا الكلام وهذه الافتراءات نحن نتبع الأدلة من الكتاب والسنة في مناصحة ولاة الأمور ومناصحة العامة ومناصحة الأفراد نتبع الكتاب والسنة في هذا الأمر نعم.
https://www.alfawzan.af.org.sa/ar/node/14234
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
سئل شيخنا صالح الفوزان حفظه الله ما نصه : هل يجوز انتقاد الدوائر الحكومية والقائمين عليها من وزراء، وذلك من باب الإصلاح وتوضيح الخلل، أمام عامة الناس؟
فأجاب بقوله :
الانتقاد الذي يُقصد به التجريح ويُقصد به تنقُّص المسئولين والتماس عيوبهم، هذا لا يجوز. أما انتقادها الذي يُبلَّغ للمسئولين من أجل أن يُصلِحوها، فلا بأس بذلك؛ أنه يقول: الدائرة الفلانية فيها كذا، فيها خلل، المسئول فيها فيه كذا؛ عند ولي الأمر ما هو عند الناس. يتكلم في الدوائر وفي المسئولين عند الناس؛ هذه غيبة، ومع الغيبة فيها إفساد؛ لأنها قد تسبب مثلًا معصية ولي الأمر واحتقار ولي الأمر أو ما أشبه ذلك، فهذا شأن الخوارج، هذا من صفات الخوارج.
وقال حفظه الله : الخروج على الأئمة يكون بالخروج عليهم بالسيف، وهذا أشد الخروج، ويكون بالكلام: بسبِّهم، وشتمهم، والكلام فيهم في المجالس، وعلى المنابر، هذا يهيِّج الناس ويحثهم على الخروج على ولي الأمر، ويُنَقِّص قدر الولاة عندهم، هذا خروج، فالكلام خروج، نعم.[1]اهـ

[1] ـ محاضرة ألقاها الشيخ بمسجد الملك فهد بالطائف بتاريخ 3-3-1415 هـ، والمادة موجودة على الموقع الرسمي للشيخ، بعنوان: (صور الخروج على الأئمة)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
سئل الشيخ ابن باز رحمه الله مانصه : هل من منهج السلف نقد الولاة من فوق المنابر؟ وما منهج السلف في نصح الولاة؟
فأجاب :ليس من منهج السلف التشهير بعيوب الولاة، وذِكر ذلك على المنابر؛ لأن ذلك يُفضي إلى الفوضى وعدم السمع والطاعة في المعروف، ويفضي إلى الخوض الذي يضر ولا ينفع، ولكن الطريقة المتبعة عند السلف: النصيحة فيما بينهم وبين السلطان، والكتابة إليه، أو الاتصال بالعلماء الذين يتصلون به حتى يُوجَّه إلى الخير.
[مجموع فتاوى ابن باز (8/211)].
 
Top