• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علما و حکمرانوں کے تعلقات کی نوعیت

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
شیخ ابن باز وغیرہ علما نے شام کے سابق حاکم حافظ بشار پر تنقید اور اس کو اعلانیہ نصیحت کی تھی، جو اس وقت جریدوں میں چھپی تھی۔
اگر آپ کے پاس شیخ بن باز رحمہ اللّٰہ کی وہ تقریر یا تحریر ہو تو یہاں بھیجیں۔ (تحریر ہو تو زیادہ بہتر ہے).

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، اور ابو ذر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، کہ آپ لوگوں کےسامنے وقت کے حکمرانوں پر تنقید کیا کرتے تھے، بلکہ اس سلسلے میں ’یا عدو اللہ‘ جیسے سخت ترین الفاظ بھی منقول ہیں۔
شاید صحابہ رضی اللّٰہ عنہم نے حکمران کی موجودگی میں ان کی اصلاح کی تھی۔ آپ ابو سعید خدری اور ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہم کے آثار بھیجیں۔ علماء نے ان کی کیا تشریحات کی ہیں دیکھوں گا۔ ان شاءاللہ

جب مرفوع حدیث موجود ہو تو موقوف یا صحابی کے اثر کو مرفوع پر ترجیح دیا جا سکتی ہے کیا؟ اور کیا جن علماء کے اقوال میں نے پیش کئے ہیں انہوں نے ان آثار کو قابلِ حجت نہیں سمجھا؟؟

ابو بکر صدیق و عمر فاورق رضی اللہ عنہما جیسے صالح حکمران تو بذات خود لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ ہماری اصلاح و تقویم کرتے رہا کرو۔ گو اصلاح سری بھی ہوسکتی ہے، لیکن ان حکمرانوں کو اگر کسی نے بر سر بازار بھی ٹوکا تو انہوں نے نصیحت کو قبول کیا، اور یہ نہیں کہا کہ تم نے قرآن وسنت یا منہج شرعی کی مخالفت کی
دلائل پیش کریں کس نے ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللّٰہ عنہما پر اعلی الاعلان تنقید کی ہے۔


عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں خوارج کا یہی طریقہ تھا کہ وہ عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتے تھے اور کھلے عام آپ رضی اللّٰہ عنہ پر تنقید کرتے تھے، جس کی وجہ سے انہوں نے جاہلوں کا ایک گروہ بنا لیا اور عثمان رضی اللّٰہ عنہ پر خروج کیا۔

ہماری نظر میں یہ مسئلہ مصالح و مفاسد کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اس میں کوئی خاص حکم نافذ کرنا درست نہیں۔
اگر ایسا ہی ہے تو پھر کئی آئمہ کا قول و عمل خاموشی سے اصلاح کرنے کے مطابق کیوں ہے۔ کیا آئمہ کو مصالح و مفاسد سمجھ میں نہیں آئے کیا؟

اپنے قول کے حق میں دلائل یش کریں۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ تو نہیں ہے کہ اس کے متعلق اسلام میں کوئی تعلیمات نہ ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے تو خونریزی ہو سکتی ہے۔ جیسے اخوان المسلمین نے کئی مسلم ممالک میں کیا۔ شام یمن لیبیا ٹیونس وغیرہ کی مثالیں سامنے ہے۔ اور ابھی بھی قرضاوی کے فتاویٰ اور اس جیسے لوگوں کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اخوان یہی کام کر رہے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے فتنے سے محفوظ رکھے۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اگر آپ کے پاس شیخ بن باز رحمہ اللّٰہ کی وہ تقریر یا تحریر ہو تو یہاں بھیجیں۔ (تحریر ہو تو زیادہ بہتر ہے).
نصیحت کا لنک یہ ہے۔
اور یہ تقریر کا لنک ہے، جس میں اس کی تکفیر کی گئی ہے۔
بقیہ باتوں کی آپ خود تحقیق کریں، علما کے اقوال دیکھیں۔ میرے پاس اس بحث و مباحثہ کا وقت نہیں۔
میں نے یہ باتیں اس لیے عرض کی ہیں، تاکہ ہمارا نقطہ نظر واضح ہوجائے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
بھائی ایک بات بتائیں
آپ جو منبروں پر یا علانیہ تنقید کرنے کی باتیں کر رہے ہیں کیا کوئی حکمران آپ کی بات سنتا ہے؟ پاکستان کا حکمران آپ کی تقریر سنتا یا تحریر پڑھتا ہے؟
آپ جو سوشل میڈیا پر لکھتے یا بولتے ہیں کیا کوئی حکمران اسے دیکھتا بھی ہے؟ یا صرف عوام کے لئے لکھتے ہیں آپ؟ عوام کو بھڑکانے اور عوام سے اپنی تعریف کروانے، کہ دیکھو بھائی کیا بھادر بندا ہے؟؟؟
اگر کوئی حکمران نہیں دیکھتا یا سنتا آپ کی بات تو پھر آپ کی باتوں کا فائدہ کیا ہے؟ جو بات آپ حکمرانوں کے سامنے بولنا چاہئے عوام کے سامنے بول رہے ہیں ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نقصان ہے۔ عوام حکمران کے خلاف ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے لوگ اسی طرح عوام کے سامنے حکمرانوں کی برائی کر کے پاکستان میں قتل عام کروا دیں۔
اگر حکمرانوں کو نصیحت کرنے کا شوق ہے تو ان کے سامنے جا کر کرو، سوشل میڈیا میں بولنے سے ان کی اصلاح نہیں ہونے والی۔ یا بارسوخ علماء کو حکمران کے پاس بھیجو تاکہ وہ انہیں نصیحت کر سکیں۔
اور سوشل میڈیا میں عوام کی اصلاح کی باتیں کرو، عوام کو نصیحت کرو۔

بقیہ باتوں کی آپ خود تحقیق کریں، علما کے اقوال دیکھیں۔ میرے پاس اس بحث و مباحثہ کا وقت نہیں۔
میں نے یہ باتیں اس لیے عرض کی ہیں، تاکہ ہمارا نقطہ نظر واضح ہوجائے۔
آپ اپنے دلائل تو پیش کریں بھائی، آپ نے دلائل ہی پیش نہیں کئے تو آپ کا نقطئہ نظر واضح کیسے ہوگا؟
میں نے جنتی ہو سکتی تھی اتنی تحقیق کی ہے لیکن آئمہ سلف میں اور اس دور کے سلفی علماء میں کسی کا قول بھی مجھے آپ کے قول کے موافق نہیں ملا،، بلکہ صحابہ نے تو آپ کا علانیہ نصیحت والے طریقے سے روکا ہے، اور خود بھی روکے ہیں، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اس طریقے سے روکا ہے،، اور سلفی علماء نے بھی روکا ہے۔

اور دلائل ہیں تو بھیجنے میں کیا تکلیف ہے آپ کو؟؟ علم کو نہ چھپائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اور دلائل ہیں تو بھیجنے میں کیا تکلیف ہے آپ کو؟؟ علم کو نہ چھپائیں۔
آپ کافی دفعہ دلائل کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
لوگوں کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ میرے پاس دلائل نہیں ہے۔
لہذا بار بار اس بات کو دہرانے کا فائدہ نہیں۔
میں خود کو آپ کے سوالوں کے جواب کا پابند نہیں سمجھتا۔
بہت بہتر ہوگا کہ یہاں سوشل میڈیا پرعوام کے سامنے الجھنے کی بجائے، حکمرانوں کے پاس جاکر انہیں نصیحت کریں، کیونکہ یہ طریقہ کم ازکم آپ کے نزدیک مدلل و درست ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ، اور ابو ذر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام سے ثابت ہے، کہ آپ لوگوں کےسامنے وقت کے حکمرانوں پر تنقید کیا کرتے تھے، بلکہ اس سلسلے میں ’یا عدو اللہ‘ جیسے سخت ترین الفاظ بھی منقول ہیں۔
ابو بکر صدیق و عمر فاورق رضی اللہ عنہما جیسے صالح حکمران تو بذات خود لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ ہماری اصلاح و تقویم کرتے رہا کرو۔ گو اصلاح سری بھی ہوسکتی ہے، لیکن ان حکمرانوں کو اگر کسی نے بر سر بازار بھی ٹوکا تو انہوں نے نصیحت کو قبول کیا، اور یہ نہیں کہا کہ تم نے قرآن وسنت یا منہج شرعی کی مخالفت کی۔
آپ کافی دفعہ دلائل کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
لوگوں کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ میرے پاس دلائل نہیں ہے۔
لہذا بار بار اس بات کو دہرانے کا فائدہ نہیں۔
آپ نے جو اوپر ابو بکر صدیق، عمر فاروق ،ابو سعید خدری اور ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ عنہم کے متعلق کہا تھا کیا آپ اس کو دلائل نہیں مانتے؟ اگر نہیں مانتے تو پھر پیش کیوں کئے اپنے دلائل کے طور پر؟

بہت بہتر ہوگا کہ یہاں سوشل میڈیا پرعوام کے سامنے الجھنے کی بجائے، حکمرانوں کے پاس جاکر انہیں نصیحت کریں، کیونکہ یہ طریقہ کم ازکم آپ کے نزدیک مدلل و درست ہے۔
آپ کسی بھی ملک کے حکمران نہیں ہیں اس لیے میں آپ سے سوشل میڈیا پر الجھ سکتا ہوں۔

رہی بات حکمرانوں کے پاس جا کر انہیں نصیحت کرنے کی تو یہ مجھ جیسے طالب علموں کا کام نہیں ہے بلکہ کبار علماء کا کام ہے جن کی بات حکمران سننے کے زیادہ امکانات ہیں، اس لیے یہ کام کبار علماء پر چھوڑ دیں۔ شاید میں نے اس کے متعلق شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کا فتویٰ بھی بھیجا تھا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
وسئل الشيخ صالح الفوزان حفظه الله مانصه : ما هو المنهج الصحيح في المناصحة ،وخاصة مناصحة الحكام أهو بالتشهير على المنابر بأفعالهم المنكرة ؟ أم مناصحتهم في السرّ ؟ أرجو توضيح المنهج الصحيح في هذه المسألة ؟

فأجاب حفظه الله بقوله : العصمة ليست لأحد إلا لرسول الله ؛ فالحكام بشر يخطئون ، ولا شك أن عندهم أخطاء وليسوا معصومين ، ولكن لا نتخذ من أخطائهم مجالاً للتشهير بهم ونزع اليد من طاعتهم ، حتى وإن جاروا ، وإن ظلموا، حتى وإن عصوا ، ما لم يرتكبوا كفراً بواحاً – كما أمر بذلك النبي وإن كان عندهم معاصٍ وعندهم جور وظلم ؛ فإن الصبر على طاعتهم جمع للكلمة ووحدة المسلمين وحماية لبلاد المسلمين ، وفي مخالفتهم و منابذتهم مفاسد عظيمة – أعظم من المنكر الذي هم عليه – يحصل ما هو أشد من المنكر الذي يصدر منهم ما دام هذا المنكر دون الكفر و دون الشرك .

ولا نقول : إنه يسكت على ما يصدر من الحكام من أخطاء ، لا .. بل تُعالَج ، ولكن تُعالَج بالطريقة السليمة ، بالمناصحة لهم سراً ، والكتابة لهم سراً .
وليست بالكتابة التي تكتب ويوقع عليها من جمع كثير وتوزع على الناس ، هذا لا يجوز ، بل تكتب كتابة سرية فيها نصيحة وتسلمها لولي الأمر أو تكلمه شفوياً ،

أما الكتابة التي تُكتب وتُصَوَّر وتُوَزَّع على الناس ؛ فهذا لا يجوز ؛ لأنه تشهير ، هذا مثل الكلام على المنابر بل هو أشد ، بل الكلام يمكن أن يُنسى ، ولكن الكتابة تبقى تتداولها الأيدي ؛ فليس هذا من الحق .

قال صلى الله عليه وسلم الدين النصيحة ، الدين النصيحة ، الدين النصيحة ، قلنا لمن يا رسول الله ؟. قال: لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم .

وفي الحديث : إن الله يرضى لكم ثلاثاً : أن تعبدوه ولا تشركوا به شيئاً ، وأن تعتصموا بحبل الله جميعاً ولا تفرقوا ، وأن تناصحوا من ولاه الله أمركم.

وأولى من يقوم بالنصيحة لولاة الأمور هم العلماء وأصحاب الرأي والمشورة وأهل الحل والعقد ، قال تعالى –{وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم}.

فليس كل أحد من الناس يصلح لهذا الأمر ، وليس الترويج للأخطاء والتشهير بها من النصيحة في شيء ، ولا هو من منهج السلف الصالح ، وإن كان قصد صاحبها حسناً وطيباً ، وهو : إنكار المنكر - بزعمه - ، لكن ما فعله أشد منكراً مما أنكره ، وقد يكون إنكار المنكر منكراً إذا كان على غير الطريقة التي شرعها الله تعالى ورسوله صلى الله عليه وسلم ؛ فهو منكر ؛ لأنه لم يتبع طريقة الرسول صلى الله عليه وسلم الشرعية التي رسمها ، حيث قال عليه الصلاة والسلام : من رأى منكم منكراً فليغيره بيده ؛ فإن لم يستطع فبلسانه ؛ فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان.
فجعل الرسول صلى الله عليه وسلم الناس على ثلاثة أقسام ؛ منهم من يستطيع أن يزيل المنكر بيده وهو صاحب السلطة ولي الأمر أو من وُكِل إليه الأمر من الهيئات والأمراء والقادة..

"الأجوبة المفيدة"
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کا یہ فتویٰ اور ایک مرتبہ پڑھ لیں۔

وأولى من يقوم بالنصيحة لولاة الأمور هم العلماء وأصحاب الرأي والمشورة وأهل الحل والعقد
، قال تعالى –{وإذا جاءهم أمر من الأمن أو الخوف أذاعوا به ولو ردوه إلى الرسول وإلى أولي الأمر منهم لعلمه الذين يستنبطونه منهم}.

فليس كل أحد من الناس يصلح لهذا الأمر ، وليس الترويج للأخطاء والتشهير بها من النصيحة في شيء ، ولا هو من منهج السلف الصالح ، وإن كان قصد صاحبها حسناً وطيباً ، وهو : إنكار المنكر - بزعمه - ، لكن ما فعله أشد منكراً مما أنكره ، وقد يكون إنكار المنكر منكراً إذا كان على غير الطريقة التي شرعها الله تعالى ورسوله صلى الله عليه وسلم ؛ فهو منكر ؛ لأنه لم يتبع طريقة الرسول صلى الله عليه وسلم الشرعية التي رسمها۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آپ کسی بھی ملک کے حکمران نہیں ہیں اس لیے میں آپ سے سوشل میڈیا پر الجھ سکتا ہوں۔
میں فورم کے ’ولاۃ الامور‘ میں سے ہوں۔ ( ابتسامہ)
خیر آپ کی نیت اچھی ہے، میں اس کی قدر کرتا ہوں، میرا عذر قبول کیجیے کہ میں اس موضوع پر آپ کے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتا۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
بھائی ایک بات بتائیں
آپ جو منبروں پر یا علانیہ تنقید کرنے کی باتیں کر رہے ہیں کیا کوئی حکمران آپ کی بات سنتا ہے؟ پاکستان کا حکمران آپ کی تقریر سنتا یا تحریر پڑھتا ہے؟
آپ جو سوشل میڈیا پر لکھتے یا بولتے ہیں کیا کوئی حکمران اسے دیکھتا بھی ہے؟ یا صرف عوام کے لئے لکھتے ہیں آپ؟ عوام کو بھڑکانے اور عوام سے اپنی تعریف کروانے، کہ دیکھو بھائی کیا بھادر بندا ہے؟؟؟
اگر کوئی حکمران نہیں دیکھتا یا سنتا آپ کی بات تو پھر آپ کی باتوں کا فائدہ کیا ہے؟ جو بات آپ حکمرانوں کے سامنے بولنا چاہئے عوام کے سامنے بول رہے ہیں ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ نقصان ہے۔ عوام حکمران کے خلاف ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے لوگ اسی طرح عوام کے سامنے حکمرانوں کی برائی کر کے پاکستان میں قتل عام کروا دیں۔
اگر حکمرانوں کو نصیحت کرنے کا شوق ہے تو ان کے سامنے جا کر کرو، سوشل میڈیا میں بولنے سے ان کی اصلاح نہیں ہونے والی۔ یا بارسوخ علماء کو حکمران کے پاس بھیجو تاکہ وہ انہیں نصیحت کر سکیں۔
اور سوشل میڈیا میں عوام کی اصلاح کی باتیں کرو، عوام کو نصیحت کرو۔



آپ اپنے دلائل تو پیش کریں بھائی، آپ نے دلائل ہی پیش نہیں کئے تو آپ کا نقطئہ نظر واضح کیسے ہوگا؟
میں نے جنتی ہو سکتی تھی اتنی تحقیق کی ہے لیکن آئمہ سلف میں اور اس دور کے سلفی علماء میں کسی کا قول بھی مجھے آپ کے قول کے موافق نہیں ملا،، بلکہ صحابہ نے تو آپ کا علانیہ نصیحت والے طریقے سے روکا ہے، اور خود بھی روکے ہیں، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے بھی اس طریقے سے روکا ہے،، اور سلفی علماء نے بھی روکا ہے۔

اور دلائل ہیں تو بھیجنے میں کیا تکلیف ہے آپ کو؟؟ علم کو نہ چھپائیں۔
یہ کیا ہو رھا ہے؟
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
نصیحت کا لنک یہ ہے۔
اور یہ تقریر کا لنک ہے، جس میں اس کی تکفیر کی گئی ہے۔
بقیہ باتوں کی آپ خود تحقیق کریں
متفق


شیخ ابن باز وغیرہ علما نے شام کے سابق حاکم حافظ بشار پر تنقید اور اس کو اعلانیہ نصیحت کی تھی، جو اس وقت جریدوں میں چھپی تھی۔
اہل شام کے ساتھ، مسلم حکمرانوں اور افواج کی بہت زیادتیاں ہیں. انہیں اکیلا بے آسرا چھوڑ دیا گیا.

اوپن ٹاک پر علماء نے بشار الأسد کو واجب القتل بھی قرار دیا.
 
Top