• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علما و حکمرانوں کے تعلقات کی نوعیت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
وقت کے امام سعید بن مسیب کا حکمرانوں سے تعامل

سعید بن مسیب کی جلالت شان کسی اہل علم سے مخفی نہیں، خلافت فاروقی میں ولادت ہوئی، صحابہ کے زمانے میں ہی فتوی لوگ ان سے پوچھنا شروع ہوگئے۔ ’سید الفقہاء‘ ’فقیہ الفقہاء‘ ’سید التابعین‘ جیسے القاب آپ کی خدمت میں نذرانہ عقیدت کے طور پیش کیے جاتے رہے۔
آپ کا زمانہ وہ ہے، جب ملوک و حکمرانوں میں حب دنیا اور عشق ریاست کی بیماری عام ہونا شروع ہوئی، حضرت کو یہ چیزیں ذرا نہیں بھاتی تھیں، جس وجہ سے آپ کو کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا، حافظ ذہبی نے ان کی سیرت میں ان کی آزمائش اور حق گوئی کو مستقل عناوین کے تحت ذکر کیا ہے۔
کسی نے پوچھا: عمرے اور حج پر جانا کیوں چھوڑ چکے ہیں؟ لگتا ہے، آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ جب بھی خانہ کعبہ دیکھوں گا، ابن مروان کے خلاف بدعا ضرور کروں گا، فرمایا: ایسی بات نہیں، ان ظالموں کے لیے بدعا تو میں ہر نماز میں کرتا ہوں.
وَمَا أُصَلِّي صَلاَةً إِلاَّ دَعَوْتُ اللهَ عَلَيْهِم۔
کسی نے کہا بیت المال میں آپ کے ہزاروں رکھے ہوئے ہیں، بلاوا آيا هى جا کر لے آئیں. فرمایا: جب تک اللہ تعالی میرے اور ظالم کے درمیان حق آشکار نہیں کردیتا، میں وہاں نہیں جاؤں گأ.
كَانَ لِسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ فِي بَيْتِ المَالِ بِضْعَةٌ وَثَلاَثُوْنَ أَلْفاً، عَطَاؤُهُ. وَكَانَ يُدْعَى إِلَيْهَا، فَيَأْبَى، وَيَقُوْلُ: لاَ حَاجَةَ لِي فِيْهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنِي وَبَيْنَ بَنِي مَرْوَانَ-
حاکم وقت عبد الملک بن مروان مدینہ میں آیا، مسجد کے ساتھ ہی کہیں آرام کرنے کی کوشش کی، لیکن نیند کوسوں دور، پوچھا: مسجد میں کوئی موجود ہے کہ اس سے گپ شپ کرلی جائے؟ کہا : سعید بن المسیب ہیں.
ملازم بلانے کے لیے آیا، اشارہ کیا، انہوں نے ذرا برابر پرواہ نہیں کی.
آخر تنگ ہو کر پاس آیا، کہا: امیر المؤمنین طلب کرتے ہیں، کہا: کوئی اور ہوگا، کہا آپ کا نام لیا، کہا: وہ کوئی میرا ہم نام ہوگا، مجھے نہیں ملنا.
ایک اور روایت میں ہے کہ ابن مروان مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوئے، اور ملازم کو بھیجا کہ ابن المسیب کو کہو، ملنا چاہتا ہوں. ملازم نے آپ کا بیغام دیا، انکار سن کر طیش میں آکیا اور کہا : امیر المؤمنین کے ہاں تمہاری عزت و تکریم نہ ہوتی تو تمہارا سرا ان کے قدموں میں رکھا ہوتا ، فرمایا: تمہارا آقا مجھے نوازنا چاہتا ہےتو وہ عطیہ تم لے لو، اور اگر اس کے عزائم خطرناک ہیں، تو میں یہاں بیٹھا ہون، جو کرنا ہے کرلے. عبد الملک بن مروان اس درشت جواب کو سن کر واپس لوٹ گیا، اور سعید بن المسیب مسجد نبوی میں علمی مجلس میں مصروف مشغول رہے.
ذہبی ان باتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ابن المسیب وقت کے حکمرانوں کی برائیوں کی وجہ سے ان سے شدید متنفر تھے، ان کے عطیے اور اکرامیے مطلقا قبول نہ کیا کرتے تھے۔
اپنے بھائی عبد العزیز بن مروان امیر مصر کی وفات کے بعد عبد الملک بن مروان نے فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹوں ولید وسلیمان کی ولی عہدی کی بیعت لے لیں، تمام شہروں اور علاقوں میں ہرکارے دوڑا دیے، مدینہ میں اموی گورنر کو جب یہ بات معلوم ہوئی، تو بیعت کے لیے منادی کروا دی گئی، سب بیعت کرنے لگے، لیکن سعید بن المسیب نے انکار کردیا اور فرمایا: میں بیعت نہیں کروں گأ. اموی گورنر نے اس وجہ سے ان پر کافی ظلم و ستم کیا.
ایک اور روایت میں ہے کہ عبد الملک بن مروان کی وفات کے بعد جب ولید و سلیمان کی بیعت کے لیے بھلایا گیا ، تو فرمایا: قیامت تک بھی زندہ رہوں تو دو کی بیعت کبھی نہ کروں گأ، کہا گیا: دکھاوے کے لیے ہی ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاؤ، کہا: کبھی ایسا نہ کروں گا. کہ لوگ میری اقتدا میں یہ کام کرنا شروع ہوجائیں.
اسی سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے، کسی نے ہمدرردی کرتے ہوئے کہا کہ جب بیعت کا سلسلہ شروع ہو، تو تم گورنر کی آنکھوں سے کہیں دور ہی رہنا. فرمایا: چالیس سال سے اسی جگہ اسی طرح رہا ہوں، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی. کہا: چلو عمرے کے لیے مکہ کی طرف رخت سفر باندھ لو، فرمایا: جب عمرے کی نیت ہوگی، تو تب ہی جاؤں گاا جب اپنا ارادہ ہی نہیں تو کیوں عمرے کو چلا جاؤں. کہا: تو پھر بیعت ہی کرلو، غصے میں آکر گویا ہوئے! اگر اللہ نے تم سے بصارت و بصیرت چھین لی ہے، تو تمہارا کوئی عذر ہوگا، لیکن میرے لیے اس غلطی میں کوئی عذر نہ ہوگا.
بہرصورت اس شاہی فرمان کی مخالفت میں مدینہ کی گلیوں میں فقیہ مدینہ کو سر عام ذلیل و رسوا کیا گیا، حکم ہوگیا کہ کوئی اس کی مجلس اور درس حدیث میں نہ بیٹھے، لہذا سعید بن مسیب اکیلے ہی مسجد نبوی میں بیٹھے رہتے.
سعید بن المسیب لوگوں کو بھی نصیحت کیا کرتے تھے: کہ اگر ظالموں کا رعب و دبدبہ تمہاری آنکھوں تک سرایت کرچکا ہے، تو کم از کم اس ظلم کو دل سے برا جانتے رہو، تاکہ تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں.
حاکم وقت نے بہت زور لگایا کہ کسی نہ کسی طرح دلوں پر حکمرانی کرنے والے اس دوریش سے کوئی رشتہ بن جائے، لہذا سعید بن المسیب کو بیغام بھیجا کہ میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ نے انکار کردیا، اور بیٹی کو اپنے ایک فقیر ومسکین شاگرد کے نکاح میں دےدیا.
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وأسکنہ فسیح جناتہ
( حوالہ جات کے لیے دیکھیے، سیر اعلام النبلاء میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا تفصیلی ترجمہ )​
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
حکمرانوں سے کیونکر معاملہ کیا جائے

ابوبکر قدوسی
..........


انتہا پسندی کے عجب عجب رنگ ہیں ایسے جیسے پیاز کی پرتیں ، ایک کے بعد ایک اترتی ہی چلی جاوت ہیں - بندہ کہاں تک اتارے ؟ - اور سوائے آنسوؤں کے اس کار مشقت میں کیا ملے ہے -
یہی معاملہ انتہا پسندی کا ہے ، اس کے بھی اب کتنے ہی پہلو ہیں - کسی کس پر بات کی جائے -
کچھ برس پہلے بات حکمرانوں پر تنقید سے شروع ہوئی اور جانے کتنے موڑ مڑ چکی ہے - اب اس وقت کم ازکم تین صورتیں اس معاملے کی سامنے موجود ہیں -
ایک وہ گروہ ہے کہ حکمرانوں کی غلطیوں کی صورت میں خروج سے کم پہ راضی ہی نہیں ہوتا - اس گروہ کے ہاں جہاد صرف حکمرانوں کے خلاف نہیں بلکہ اسی محنت سے یہ لوگ عقل کے خلاف بھی جہاد کرتے ہیں ، اور عقل کے خلاف جہاد میں یہ گروہ اس حد تک " کامیاب " ہے کہ انہوں نے ہمیشہ عقل کو شکست دی ہے -
دوسرا گروہ دوسری انتہا پر کھڑا ہے ، اس کا موقف ہے کہ حکمران کی شان میں معمولی سے بات بھی خارجیت ہے - ان کے نزدیک تنقید تو سیدھا سا حرام کام ہے ، ہاں نصیحت کرنا آپ کا حق ہے اور یہ حق آپ صرف مخصوص بلکہ انتہائی کڑی اور ناممکن عمل شرائط کے ساتھ استعمال کر سکتے ہیں - اس گروہ کی انتہا پسندی یہ ہے کہ وہ صرف لفظی تنقید کرنے والے کو بھی خارجی سے کم پر مخاطب کرنا پسند نہیں کرتے - یہ گروہ خارجیوں کی نفی کرتا کرتا خود "خارجی " ہوا پھرتا ہے -
میں رانجھا رانجھا کردی
نی میں آپے رانجھا ہوئی
یا یوں کہہ لیجئے کہ من تو شدم تو من شدی والا معاملہ ہے - اس گروہ کی یہ انتہا پسندی بذات خود ان کو خارجی ہی بناے جا رہی ہے - کیونکہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خارجیت انتہا پسندی کا ہی دوسرا نام ہے اور یہ گروہ ٹھیک ٹھاک انتہا پسند ہے -
ایک تیسرا طبقہ فکر ہے کہ ان کا خیال ہے کہ حاکم پر تنقید کی تو جا سکتی ہے لیکن صرف اس کے سامنے جا کے - اس کی عدم موجودگی میں تنقید کو یہ دوست بھی دوسرے گروہ کی طرح غلط اور ناجائز کہتے ہیں -اس گروہ کے افراد کی صورت بھی یہی ہے کہ :
جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے
کیونکہ کثرت افکار و مفکرین نے بہت سے نقطہ ہائے نظر کو خلط ملط کر دیا ہے اور ایسا ماحول بن گیا ہے کہ افکار کی گرد میں کوئی تصویر نظر نہیں آتی -
سو دوستو ! افکار کی اس گنجلک صورت حال سے عام آدمی بری طرح الجھ جاتا ہے اور اس کے لیے حق کی تلاش ایسا آسان کام نہیں رہتا - کیونکہ سوشل میڈیا کو یہ سارے گروہ بہت "کامیابی " سے استعمال کر رہے ہیں سو شکار سب کو مل جاتا ہے -
سوال مگر یہ ہے کہ اس انتہا پسندی کے بیچ میں اعتدال کا راستہ کیا ہے ؟
اس پر بات چلتی رہے گی ان شا اللہ
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
حکمرانوں سے معامله کیونکر کیا جائے :

ابوبکر قدوسی

دوسرا حصہ :

کل ہم نے تین گروہوں کا ذکر کیا ، ایک خروج کے قائل و فاعل ، دوسرے کسی بھی صورت میں عدم تنقید کے داعی اور تیسرے صرف سامنے جا کے تنقید کرنے قائل اور عدم مجلس کے خاموشی اختیار کرنے کی تاکید پر بضد -
ان کے مقابل ایک چوتھا گروہ بھی اہل علم میں موجود ہے اور وہ ہے عدم خروج کا قائل لیکن حکمرانوں پر ان کے افعال کے سبب تنقید کو جائز سمجھنے والا-

اور یہ گروہ صحابہ کرام اور ائمہ عظام سے لے کے آج تک موجود رہا - برصغیر پاک و ہند میں اہل السنہ کے دونوں گروہوں یعنی اہل الرائے اور اہل الحدیث میں علماء کی اکثریت اسی خیال کی حامل ہے - پاکستان بننے کے بعد سے لے کر افغانستان پر امریکی حملے تک اہل حدیث علماء میں فکری لحاظ سے کوئی ایسا قابل ذکر انتشار نہ تھا - جمہوریت کے حوالے سے آوازیں ضرور اٹھتی تھیں ، لیکن حکمرانوں سے معاملات اور ان پر تنقید میں وہ بھی کوئی اختلاف نہ رکھتے تھے جو جمہوریت کو کفر کہتے تھے -یہی وجہ تھی کہ جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی ، جب بنگلہ دیش نامنظور تحریک بپا ہوئی اور جب بھٹو کے خلاف تحریک چلی تو اہل حدیث بالاتفاق اس کا حصہ تھے - بلکہ بہت سے اہل حدیث نوجوانوں نے اس میں جان تک کی قربانی دی

پاکستان میں احناف میں عموما دو ہی گروہ سامنے آئے ہیں ...پہلا "خوارج " کا کہ جو افغانستان کے حالات کے سبب ، اور پاکستان اور افغانستان ، ہر دو مسلم ممالک کے مسلم حکمرانوں کی کفار سے دوستی اور مسلمانوں پر ہی ظلم میں تعاون کے رد عمل میں پیدا ہوۓ - بلاشبہ مسلم حکمران مداہنت اور بزدلی کا شکار ہوۓ لیکن یہ گروہ بھی ردعمل میں گمراہی کا شکار ہو گیا اور پاکستان کے عام عوام کو بھی قابل گردن زدنی قرار دینے لگا اور اس میں انہوں نے پاکستان میں عوامی مقامات پر خود کش حملوں کے ذریعے بہت سی جانوں کا نقصان کیا - جبکہ علمائے احناف کی اکثریت اس خارجیت سے لاتعلق رہی، بلکہ ہمیشہ اس کی مذمت کرتی رہی حالانکہ ان کو اس وجہ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی -

لیکن اس کے مقابل سلفیوں میں فکری انتشار بہت زیادہ بڑھ گیا - جن تین طبقات فکر کی ہم نے بات کی وہ سب ہی کسی نہ کسی درجے میں ان میں آ موجود ہوے - ان میں انتہا پسند بھی آ گھسے ، مداہنت زدہ لوگ بھی ، نیمے دروں نیمے بروں بھی اور ماضی کی حریت فکر کے جھنڈے اٹھائے لوگ تو پہلے سے ہی موجود ہیں -

اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان چاروں میں سے کوئی بھی گروہ اپنے موقف کے حوالے سے بناء دلیل بات نہیں کرتا ، لیکن سب دلائل کے باوجود ایک انصاف پسند قاری کے لیے ، اور ایک صاحب بصیرت انسان کے لیے حق کو سمجھنا کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہوتا -

جاری ........
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,798
پوائنٹ
1,069
حمکرانوں کے ساتھ معاملات کیونکر ہوں ؟


ابوبکر قدوسی .....

تیسرا حصہ :

خرابی سب سے بڑی مگر یہ ہوئی کہ ان باہم متصادم نظریات کو بنیادی عقیدہ سا اہم بنا لیا گیا - لیکن اس میں عوام کا زیادہ قصور نہیں بلکہ اہل علم اس کے ذمے دار ہیں - مگر اسباب سےصرف نظر کرتے ہوۓ آگے چلتے ہیں -

ہم نے چار طبقات فکر کا ذکر کیا تھا ، جس میں پہلے نمبر پر "خارجی " ہیں کوئی ان کو تکفیری بھی کہہ لیتا ہے - ان کے نظریات میں بنیادی خرابی یہ ہے کہ انہوں نے خروج کے احکام کو سمجھا ہی نہیں اور کاندھے پر بندوق لٹکائی اور جہاد کو چل دیے - خروج کی ایک بنیادی شرط ہے کہ دیکھا جائے آپ کی کامیابی کے کتنے امکانات ہیں ،اور کامیابی ، ناکامی سے قطع نظر عوامی جان و مال کے نقصانات کی شرح کیا رہے گی - اس پر غور کیے بغیر اگر باقی شرائط پوری ہوتے ہی خروج کر دیا جائے تو ایسا خروج حرام ہو گا -

یہاں رک کے ایک بات جان لیجئے کہ خروج ضروری نہیں ہمیشہ حرام ہی ہو کبھی کبھی یہ لازم ہو جاتا ہے ، لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ اب یہ لازم ہو گیا ہے ، اور کسی بھی مملکت کی حکومت الله کی نافرمانی ، کفر اور ظلم کے اس درجے کو پہنچ گئی ہے کہ اب بنا خروج کے گزارہ نہیں ؟؟؟

جی ہاں یہ بہت سنجیدہ سوال ہے کہ خروج کا فیصلہ کون کرے گا ؟

بہت معذرت کے ساتھ ہمارے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تو ایسے ایسے خارجی گروپس بھی رہے کہ جن کے امیر ان پڑھ تھے ، دین کے اصولوں کی کوئی خبر تک نہ تھی - حتی کہ ایک گروپ کے رہنماء سابقہ کنڈکٹر تھے اور پھر جہادی لیڈر بن گئے -

ماضی بعید میں عالم اسلام میں بہت سے خروج ہوے ، بہت سی بغاوتیں ہوئیں - اگر آپ بنظر عمیق تاریخ کا جائزہ لیں تو بیشتر بغاوتوں کا مقدر ناکامی ہی ہوا ، اور مزید یہ کے ان بغاوتوں کا عموما مقصد حصول اقتدار ہی ہوتا تھا - تب تلوار کی جنگ تھی ، حوصلہ مندی اور بہادری بسا اوقات حیرت انگیز نتائج پیدا کر جاتی - جیسا کہ ریاض کا قلعہ ابن سعود نے محض چھبیس ساتھوں کے ساتھ فتح کیا ..اور وہ سعودی عرب کا دارلحکومت بنا کھڑا ہے -

لیکن موجودہ حالات میں ، جدید ٹکینالوجی کے دور میں کسی بھی قسم کے خروج کا مقدر محض ناکامی ہو کے رہ گیا ہے - حکومتوں کے پاس بے پناہ طاقت ہوتی ہے ، ان کے پاس ایئر فورس ، ٹینک ، توپیں اور قسم ہا قسم کے اسلحے کے انبار ہوتے ہیں - خزانہ اور وسائل بھی خارجیوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں تو اس دور میں خروج کرنا نری حماقت ہے - یہ تو تھی عقل و فہم اور شعور کی بات - خود اسلامی نکتہ نظر سے بھی ایسا خروج جائز ہی نہیں جس میں ملک تباہ ہو جائیں ، امت برباد ہی جائے زمین فساد سے بھر جائے - یاد رکھیے یہ میں اس صورت میں بات کر رہا ہوں کہ جب حکمرانوں کا حال اتنا برا ہو جائے کہ خروج کی شرعی ضرورت بھی آ موجود ہو - تب بھی اگر خرابی کے امکانات زیادہ ہیں تو خروج حرام ہی ہو گا -

یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام نے خروج کے بارے میں آخر کار یہی نتیجہ اخذ کیا ہے -

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :

"جس کسی نے بھی حکمران کے خلاف خروج کیا ، تو اس کے خروج کے اثرات اور فساد اس کے فائدے سے کہیں زیادہ تھے -"

امام نووی نے خروج کی حرمت کا سبب ہی عام لوگوں کی قتل غارت کو قرار دیا -

یہ اس دور کے حالات ہیں کہ جب انسان انسانوں سے تلواروں سے لڑتے تھے اور فتح کو امکانات بدرجہا زیادہ تھے - اور آج کل کے حالات اور امکانات کا تذکرہ تو آپ اوپر پڑھ چکے - اگر اس کی عملی صورت دیکھنی ہو تو شام ، لیبیا ، یمن کی بربادی کو دیکھ لیجئے - یہ تین ممالک ایسے ہیں کہ جہاں عوام کے ایک مسلح گروہ نے موجود غاصب حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے - اور نتیجہ یہ ہوا کہ سارے کا سارا ملک برباد ہو گیا ، عصمتیں لٹ گئیں - لاکھوں قیمتی نوجوان مارے گئے - بدقماش حکمرانوں سے جان چھڑاتے چھڑاتے ان سے کہیں زیادہ بدترین کفار اور ظالم اب ان ملکوں پر مسلط ہیں ..حالانکہ اس سے پہل ان ممالک کے لوگ بہرحال عبادات میں آزاد تھے عقیدہ و عمل کی بہت حد تک آزادی تھی - لیکن اب بستیاں برباد ہیں اور مکان کھنڈر -

لیبیا کے حکمران قذافی کی گرین بک کے بعد اس حکومت کے نظریات کی گمراہی میں کس کو شک تھا - لیکن اس کے باوجود وہاں امن تھا گو جبر تھا ، ظلم تھا ..لیکن عوام اگر حمران کے اقتدار کو مخاطب اور چیلنج نہ کرتے تو وہ اپنی عبادات اور معمول کی زندگی میں خود مختار اور آزاد تھے - لیکن خروج ہوا اور آج تمام ملک برباد ہو گیا ، امن چین رخصت ہوا اور بربادی نے اپنے ڈیرے ڈالے -

ممکن ہے کوئی دوست ماضی قریب کی چند جہادی تحریکوں اور ان کی کامیابی کی بات کرے ، جیسے افغانستان - تو دو باتیں عرض ہیں - پہلی کہ مسلمانوں میں ایسی اور بھی تحریکیں بپا ہوئیں ، کسی اور کا مقدر ایسی کامیابی کیوں نہ ہوئی .ابھی آپ کے کشمیر میں ، اور فلسطین میں ستر برس سے جنگ جاری ہے لیکن ہنوز دلی دور است -

دوسری بات یہ افغانستان میں ایک طرف اگر روسی استعمار تھا تو دوسری طرف تمام دنیا ، اپنے اسلحے اور فنی رہنمائی سمیت مجاہدین کی پشت پر آ کے کھڑی ہو گئی تھی - خود پاکستان کے دفاعی ادارے اس جنگ کو مکمل ہینڈل کر رہے تھے اور یوں یہ محض ایک باگی گروہ کی اپنی حکومت کے خلاف جنگ نہ رہ گئی تھی بلکہ آدھی دنیا کی جنگ ہو گئی - اس کےعلاوہ افغانستان کے جغرافیائی حالات نے بھی مجاہدین کی غیر معمولی مدد کی - سو یہ ایک استثنائی صورت ہے -اور یہاں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ اگر افغانستان میں مقابل روسی ملحد حکومت کو تصور کیا جائے گا تو پھر یہ خروج نہیں جہاد ہو گا اور جہاد کے احکام الگ ہیں ..لیکن ایک شرط وہاں بھی ضروری ہے کہ جہاد کا آغاز تب ہو گا جب طاقت کا توازن اتنا ضرور ہو کہ فتح کے امکانات ہوں یا لڑائی آپ پر مسلط کر دی جائے - ورنہ جنگ سے اعراض ہی اصل راہ ہے -

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مرتد ، بے نمازی اور ظالم حکمران کے خلاف خروج جائز ہے لیکن جب طے شدہ امر ہے کہ آپ بھی برباد ہوں گے اور ساتھ قوم قبیلہ بھی تباہ ہو گا تو ایسا خروج حرام ہی ہو گا -

قصہ مختصر اس پر شیخ عثیمین نے بہترین بات کر دی :

"لو فرض انہ کافر مثل شمش فی رابعہ النہار فلا الخروج علیہ اذا کان یستلزم اراقہ الدماء و استحلال الاموال "
"سو اگر یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ حاکم کافر ہو گیا ہے یوں جیسے سورج روشن ہو جاتا ہے [اور کسی کو شک نہیں رہتا ] تو بھی خروج جائز نہیں ہو گا اگر اس خروج سے مسلمانوں کا خون بہتا ہے اور ان کے اموال برباد ہوتے ہیں "
...
...................جاری
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
امام مالک اور حاکم وقت سے تعامل

محدث روپڑی کے قلم سے

بعض فقہا نے ایک ایسا فتوی دے دیا کہ امراء و سلاطین کی عیاشی و شہوت رانی کے لیے انتہائی زبردست دلیل اور بہترین حربہ ہونے کے ساتھ نصوص شرعیہ کے بالکل خلاف و منافی تھا، فتوی کے الفاظ یہ تھے:
’ اگر کسی مرد سے زبردستی یاڈرا دھمکا کر (قتل وغیرہ کا خوف دلا کر) اس کی عورت سے طلاق حاصل کرلی جائے تو ایسی طلاق بالکل حق وصواب اور جائز و صحیح ہے۔‘‘
جب یہ فتوی عالم مدینہ کے روبرو پیش ہوا تو آپ نے ’لا طلاق ولا عتاق فی إغلاق والی حدیث کے پیش نظر علی الاعلان اس کی تردید و تکذیب کرتے ہوئے غیر مبہم الفاظ میں فرمایا کہ طلاق المکرہ لیس بشیء یعنی جبر و اکراہ سےحاصل کردہ طلاق بالکل لغو وباطل ہے، ایسی مطلقہ عورت سے نکاح کرنا ویسے ہی حرام و ناجائز ہے جیسا کہ عام منکوحہ عورتوں سے شریعت نے حرام و ناجائز قرار دے دیا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ عالم مدینہ اس حدیث سے یہ فتوی بھی دیتے کہ جس طرح طلاق المکرہ غلط وباطل ہے، ویسے ہی بزور شمشیر بیعتِ خلافت حاصل کرنے والے خلیفہ کی بیعت بھی شرعا جائز و صحیح نہیں ہے۔ اور منصور کی بیعتِ خلافت چونکہ جبر و اکراہ پر مبنی تھی، اس لیے عالم مدینہ کے دونوں اعلانات بظاہر حکومت کو کھلا چیلنج تھے، اور اس طرفہ پر طرہ یہ ہوا کہ ان دنوں مدینہ منورہ کا گورنر جعفر بن سلیمان تھا جو کہ منصور عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔
جب دونوں اعلانات اس نے سنے تو قرابت و حکومت کےنشہ سےسرشار اس نے امام صاحب کو انتباہی نوٹس دیا کہ اپنے فتوی سے رجوع کریں یا کم ازکم آئندہ ایسا فتوی نہ دیں۔
حضرت امام مالک کا وجود ہی فطرتاً کتاب وسنت کی نشر و اشاعت کے لیے مختص تھا، بناء علیہ آپ نے جعفر بن
سلیمان گورنر کے انتباہی نوٹس کی ایک ذرہ پرواہ نہ کی، بلکہ مزید جوش و خروش سے رد و تردید کرتے ہوئے کھلم کھلا اعلان کرتے رہے: طلاق المکرہ لیس بشیء یعنی جبر و اکراہ سے حاصل کردہ طلاق غلط و باطل ہے۔۔۔ جعفر شاہی آرڈ کی توہین دیکھ کر آگ بگولا ہوگیا اور پولیس کو حکم دیا کہ امام صاحب کو اخلاقی مجرم کی حیثیت سے انتہائی ذلیل کن حالت میں پیش کیا جائے، امام صاحب کو لایاگیا، جعفر نے اپنا مطالبہ دہرایا، امام صاحب نے پھر اسی شان سے اسے ٹھکرادیا، اور فرمایا: اگر تمہارے مفتیوں کےپاس کوئی نص قطعی موجود ہے تو پیش کرو، ورنہ ہم فتوی کو واپس لینے یا اس سے باز رہنے کے لیےقطعا تیار نہیں۔
والی مدینہ نے زچ ہو کر امام صاحب کو مار پیٹ کا حکم دے دیا، امام صاحب کوڑوں کی ضرب سے چلانے کی بجائےطلاق المکرہ لیس بشیء کی نعرے بلند کرتے جاتے، اپنی خفت و ندامت کو مٹانے کے لیے ظالم وقت نے حکم دیا کہ اس باغی کا منہ کالا کرکے پورے شہر میں گھمایاجائے، امام صاحب وہاں بھی سر عام یوں فرمانے لگے: مجھے جاننے والے تو خوب جانتےہیں، جو نہیں جانتا وہ سن لے کہ میں مالک بن انس اشجعی انصاری ہوں، اور ڈنکے کی چوٹ کہتاہوں کہ جبرو اکراہ کی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ والی مدینہ کوخبر کی گئی کہ تم نے امام کو ذلیل و رسوا کرنے کا پلان کیا تھا، لیکن امام الٹا حکومت کے ظلم وغصب کی داستان گلی کوچوں میں بیان کر رہے ہیں، تو والی مدینہ نے کہا کہ امام صاحب کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، حکومتی کارندوں سے خلاصی پاتے ہی امام صاحب مسجد نبوی گئے وہاں بطور شکرانہ دوگانہ ادا کیا، خلیفہ منصور کو جب یہ صورت حال پہنچی تو بہت برہم ہوا، اور والی مدینہ کو کہلا بھیجا کہ تمہاری بیوقوفی کی یہ سزا ہے کہ ابھی فورا گدھے پر سوار ہو کردار الخلافۃ بغداد حاضری دو، خلیفہ منصور نے جعفر بن سلیمان کو معزول کردیا اور خود مدینہ حاضری دے کر امام صاحب سے معذرت طلب کی۔
یہ تھا وقت کے امام ہمام مالک بن انس کا وقت کے حکمران سے تعامل، ان کی شجاعت و بہادی اور کلمہ حق سے دین کا سر بلند ہوا، اور وقت کے حکمران کو ذلت وپستی کا سامنا کرنا پڑا۔
( یہ واقعہ محدث روپڑی کی کتاب ’حکومت اور علمائے ربانی (ص 25تا29سے اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔)
 
Top