ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(٢) اَوصاف کے اعتبار سے
بعض کہتے ہیں کہ یہ کثرت لاتعداد ہو اور ذاتی طور پر اس کا جھوٹ پرمتفق ہونا ناممکن ہو۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر کی بجائے اسلام، تقویٰ، عدالت، تباین اماکن، تفرق ھمم اور مختلف طبائع و آراء کی بناء پر جھوٹ پرمتفق ہونا محال ہو، اسی طرح دیگر قرائن موجبہ کی وجہ سے جھوٹ پرمتفق ہونا محال ہو، جن سے قطعیت اور یقین حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اِمام اتقانی نے ’التبیین‘ (۱؍۵۸۲) میں، بزدوی نے ’الاصول‘ (۲؍۶۵۸) میں، خبازی نے ’المغني‘ (ص:۱۹۱) میں، سرخسی نے ’الأصول‘ (۱؍۲۸۲) میں، حسامی نے ’المنتخب‘ (۱؍۴۱۷) اور ابویعلی نے ’العدۃ‘ (۳؍۸۵۶) میں نقل کیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض عوامی کثرت جس پر فلاسفہ کے ہاں تواتر کا مدار ہے وہ اپنی اصلی طبیعت میں کسی قطعی یا یقینی شئ کی تحقیق کے لیے مناسب نہیں ہے، ورنہ یہ لوگ اس کی مقدار اور اَوصاف میں اتنا شدید اِختلاف نہ کرتے کہ اختلافی مسائل میں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
بعض کہتے ہیں کہ یہ کثرت لاتعداد ہو اور ذاتی طور پر اس کا جھوٹ پرمتفق ہونا ناممکن ہو۔ جبکہ بعض کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر کی بجائے اسلام، تقویٰ، عدالت، تباین اماکن، تفرق ھمم اور مختلف طبائع و آراء کی بناء پر جھوٹ پرمتفق ہونا محال ہو، اسی طرح دیگر قرائن موجبہ کی وجہ سے جھوٹ پرمتفق ہونا محال ہو، جن سے قطعیت اور یقین حاصل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اِمام اتقانی نے ’التبیین‘ (۱؍۵۸۲) میں، بزدوی نے ’الاصول‘ (۲؍۶۵۸) میں، خبازی نے ’المغني‘ (ص:۱۹۱) میں، سرخسی نے ’الأصول‘ (۱؍۲۸۲) میں، حسامی نے ’المنتخب‘ (۱؍۴۱۷) اور ابویعلی نے ’العدۃ‘ (۳؍۸۵۶) میں نقل کیا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض عوامی کثرت جس پر فلاسفہ کے ہاں تواتر کا مدار ہے وہ اپنی اصلی طبیعت میں کسی قطعی یا یقینی شئ کی تحقیق کے لیے مناسب نہیں ہے، ورنہ یہ لوگ اس کی مقدار اور اَوصاف میں اتنا شدید اِختلاف نہ کرتے کہ اختلافی مسائل میں جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔