ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
٭ حافظ ابن حجر ’شرح نخبۃ الفکر‘ (ص:۱۰) میں متواتر کی ماہیت کے تحقق کے لئے چار شرائط نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’وقد یقال: إن الشروط الأربعۃ إذا حصلت استلزمت حصول العلم، وھو کذلک في الغالب، وقد یتخلف عن البعض لمانع‘‘
’’بسا اَوقات کہا جاتا ہے کہ جب مذکورہ چاروں شروط پائی جائیں تو علم حاصل ہوجاتا ہے۔ غالباً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن بسا اَوقات کسی مانع کی وجہ سے حصول علم پیچھے رہ جاتا ہے۔‘‘
٭ امام ابن حجرکے قول: ’’وھو کذلک في الغالب‘‘ ’’غالباً ایسا ہی ہوتا ہے۔‘ ‘سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جمیع شروط پائے جانے کے باوجود ضروری نہیں ہے کہ متواتر جمیع احوال میں جمیع لوگوں کے لیے علم قطعی کا فائدہ دے۔
٭ امام أجھوری ’شرح نخبۃ‘ (ورقہ:۱۵) میں الکمال سے نقلا ً فرماتے ہیں:
’’المتواتر قد لا یفید العلم، لکون العلم الذي یحصل بہ حاصل عند السامع، أو لکونہ عالما بنقیضہٖ لامتناع اجتماع النقیضین‘‘
’’متواتر بسااَوقات علم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ کبھی کبھار متواتر سے حاصل ہونے والا علم سامع کو پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے یا سامع اس علم کی نقیض کو جانتا ہوتا ہے۔‘‘
یہ قول اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ متواتر کبھی کبھی اپنی نقیض سے متصادم ہوتا ہے اور جوچیز اپنی نقیض سے مناقض ہو وہ صدق و کذب کے باب میں داخل ہوتی ہے اور صدق محض کے دائرہ سے خارج ہوجاتی ہے۔
’’وقد یقال: إن الشروط الأربعۃ إذا حصلت استلزمت حصول العلم، وھو کذلک في الغالب، وقد یتخلف عن البعض لمانع‘‘
’’بسا اَوقات کہا جاتا ہے کہ جب مذکورہ چاروں شروط پائی جائیں تو علم حاصل ہوجاتا ہے۔ غالباً ایسا ہی ہوتا ہے لیکن بسا اَوقات کسی مانع کی وجہ سے حصول علم پیچھے رہ جاتا ہے۔‘‘
٭ امام ابن حجرکے قول: ’’وھو کذلک في الغالب‘‘ ’’غالباً ایسا ہی ہوتا ہے۔‘ ‘سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک جمیع شروط پائے جانے کے باوجود ضروری نہیں ہے کہ متواتر جمیع احوال میں جمیع لوگوں کے لیے علم قطعی کا فائدہ دے۔
٭ امام أجھوری ’شرح نخبۃ‘ (ورقہ:۱۵) میں الکمال سے نقلا ً فرماتے ہیں:
’’المتواتر قد لا یفید العلم، لکون العلم الذي یحصل بہ حاصل عند السامع، أو لکونہ عالما بنقیضہٖ لامتناع اجتماع النقیضین‘‘
’’متواتر بسااَوقات علم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ کبھی کبھار متواتر سے حاصل ہونے والا علم سامع کو پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے یا سامع اس علم کی نقیض کو جانتا ہوتا ہے۔‘‘
یہ قول اِس اَمر پر دلالت کرتا ہے کہ متواتر کبھی کبھی اپنی نقیض سے متصادم ہوتا ہے اور جوچیز اپنی نقیض سے مناقض ہو وہ صدق و کذب کے باب میں داخل ہوتی ہے اور صدق محض کے دائرہ سے خارج ہوجاتی ہے۔