یہ اللہ تعالیٰ کی چیز ہے ہم اور آپ اس میں کیوں پڑے ہیں
ہمیں تعلیم وتعلّم اور کتاب وسنت میں غور کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ٢٩ ﴾ ۔۔۔ سورة ص
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور وفکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں (
29)
جس کے لیے دوجہاں بناے اور جس کے لیے اپنا وجود ظاہر کر دیا کیا
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ نبی کریمﷺ کیلئے دو جہاں بنائے گئے اور نبی کریمﷺ کیلئے اللہ نے اپنا وجود ظاہر کر دیا؟؟؟
قرآن پاک تو اس سلسلے میں کچھ اور بتاتا ہے۔
کائنات کی وجۂ تخلیق کے متعلّق فرمانِ باری ہے:
﴿ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ١ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ٢ ﴾ ۔۔۔ سورة الملك
بہت بابرکت ہے وه (اللہ) جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور جو ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے (
1)
جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وه غالب (اور) بخشنے واﻻ ہے (
2)
اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں کوئی نہیں دیکھ سکتا، جب سیدنا موسیٰ نے اللہ تعالیٰ نے اس کا تقاضا کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ ١٤٣ ﴾ ۔۔۔ سورة الأعراف
اور جب موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار! اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ
تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وه اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے۔ پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ (علیہ السلام) بےہوش ہوکر گر پڑے۔ پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا، بےشک آپ کی ذات منزه ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں
سب سے پہلے ایمان ﻻنے واﻻ ہوں (
143)
سیدنا موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے سمجھایا تو انہیں سمجھ آگئی اور وہ اس بات کو فوری تسلیم کرنے والے اور اس پر پہلے ایمان لانے والے بن گئے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی درج بالا بات پر فوری ایمان لاتے ہیں یا پھر تاویلوں میں پڑے رہتے ہیں؟!!
اللہ ہماری اصلاح فرمائیں!
جس کے لیے دوجہاں بناے اور جس کے لیے اپنا وجود ظاہر کر دیا کیا اس ذات کو یہ علم نہیں دیا ہوگا. آپ لوگ تو ان کے غلاموں کے علم کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے تو نبی کے علم پر کیا بحث کرتے ہیں.
عقیدے میں قیاس نہیں چلتا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو فلاں فلاں فضیلت دی ہے تو کیا انہیں علم غیب نہیں کیا ہوگا؟؟؟ وغیرہ وغیرہ
قرآن کریم کے مطابق غیب کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ٥٩ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنعام
اور
اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔ اور وه تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہیں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر وه اس کو بھی جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں (
59)
نیز فرمایا:
﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ٦٥ ﴾ ۔۔۔ سورة النمل
کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟ (
65)
آپ لوگ تو ان کے غلاموں کے علم کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے تو نبی کے علم پر کیا بحث کرتے ہیں.
ہمیں صحابہ کرام اور تابعین وائمہ عظام کے علم سے مقابلہ کا کوئی دعویٰ نہیں۔ ہمارے اور ان کے علم میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو بہت زیادہ علم دیا، اور انہیں ایسی ایسی باتیں سکھلائیں جو وہ نہیں جانتے تھے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ لَهَمَّت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ ۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيْءٍ ۚ وَأَنزَلَ اللَّـهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ١١٣ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ورحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراه کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،
اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے (
113)
لیکن ہمیں آپ کے اس موقف سے اختلاف ہے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ یا اولیا اللہ علم غیب جانتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم جگہ جگہ صراحت سے فرما دیا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی علم غیب نہیں جانتا، بلک اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات میں نبی کریمﷺ سے کہلوایا کہ آپ اعلان فرما دیں:
﴿ قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ٥٠ ﴾ ۔۔۔ سورة الأنعام
آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں
اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہوسکتا ہے۔ سو کیا تم غور نہیں کرتے؟ (
50)
درج بالا آیت کریمہ میں موجود عقائد کو جو تسلیم کرتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بینا (دیکھنے والا) ہے اور جو تسلیم نہیں کرتا وہ نا بینا اور اندھا ہے۔
اب یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ آپ بینا ہیں یا نا بینا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیں۔