محمد ناظم سلیم بھائی،
آپ کے سوالات کے تفصیلی جوابات درج ذیل مضمون میں موجود ہیں۔ اگر پھر بھی تشنگی رہ جائے تو یہاں پوچھ لیجئے۔
مختصراً عرض ہے کہ:
1۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ اللہ جن پیغمبروں کو چاہتا ہے، غیب کی خبروں پر مطلع کر دیتا ہے۔ لہٰذا ہم بھی فقط اتنا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، جتنا قرآن نے بیان فرما دیا ہے کہ انبیائے کرام کو غیب کی خبریں مل جاتی ہیں۔ اسے اطلاع علی الغیب یا انباء الغیب کہا جاتا ہے۔
2۔ قرآن ہی میں وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ "علم غیب" کسی کو حاصل نہیں۔ لہٰذا ہم بھی فقط اتنا ہی عقیدہ رکھتے ہیں جتنا قرآن نے بیان فرما دیا ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ "عالم الغیب" دوسرا کوئی نہیں۔
3۔ اہم سوال یہ ہے کہ غیب کی اطلاع مل جانا، اور علم غیب حاصل ہو جانے میں کیا جوہری فرق ہے؟ تو فرق یہ ہے کہ علم غیب حاصل ہونا، خود ہی غیب کی خبریں جان لینے کو مستلزم ہے۔ جبکہ غیب کی خبروں پر اطلاع پانے میں آپ ہی غیب کی باتیں معلوم کر لینے کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ یہ دیکھئے کہ کم یا زیادہ غیب کی خبریں تو بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں تو جیسے غیب کی خبروں پر اطلاع پانے سے (چاہے وہ تعداد میں کم ہی ہوں) ہم عالم الغیب نہیں ہو گئے، ایسے ہی نبی بھی عالم الغیب نہیں ہوئے۔ ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بے شک غیب کی خبریں، ہم تک پہنچنے والی غیب کی خبروں سے بہت زیادہ ہیں۔ لیکن خود قرآن ہی نے بتا دیا ہے (مفہوم) یہ نبی غیب کی خبریں بتانے میں بخیل نہیں۔ [81:24]۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری غیب کی باتیں فقط خود تک ہی محدود رکھیں اور ہم تک نہیں پہنچائیں، تو ایسا عقیدہ درج بالا آیت کے خلاف ہے۔
4۔ ذاتی اور عطائی کا فلسفہ بالکل باطل ہے۔ بھلا دنیا میں ایسی کون سی ذات ہے یا کسی ذات کی وہ کون سی صفت ہے جو اس کی ذاتی ہے اور اللہ کی عطا کردہ نہیں؟ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی عطائی ہے، اور علم غیب کے علاوہ بھی ہر ہر صفت عطائی ہی ہے۔ تو بطور خاص علم غیب کو عطائی کہہ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تسلیم کرنا، نہ صرف ان کی توہین ہے بلکہ خود قرآن کی صریح آیات کا انکار بھی ہے۔ قرآن لاکھ رسول ہی کی زبانی اقرار کروائے کہ میں غیب نہیں جانتا، اور ہم بزور رسول کے ذمے غیب جاننے کا الزام لگاتے رہیں؟ یہ کیسا عقیدہ ہے؟ قرآن نے غیر اللہ سے "علم غیب" کی نفی کی ہے تو ہمیں بھی نفی ہی کرنی چاہئے نا کہ اپنی جانب سے فلسفہ جوڑ کر اسی علم غیب کا غیر اللہ کے لئے اثبات کرنے لگ جائیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر کوئی شخص مرزا قادیانی کو (یا کسی بھی دوسرے شخص کو) نبی مانے اور جب اس کے سامنے خاتم النبیین والی آیت تلاوت کی جائے تو وہ فوراً کہہ دے کہ آیت سے تو ذاتی طور پر یا خود ہی نبی بن جانے کی ممانعت ثابت ہو رہی ہے، ہم تو مرزا قادیانی کو عطائی نبی مانتے ہیں۔ ذاتی طور پر تو اب کوئی نبی نہیں ہو سکتا، لیکن عطائی طور پر مان لینے میں تو کوئی شرک نہیں۔
یا کوئی اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرتا ہو اور جب اسے کہا جائے کہ معبود تو فقط ایک ہی ہے تو وہ جواب میں فلسفہ داغ دے کہ ذاتی طور پر تو اللہ ہی معبود ہے، لیکن اللہ کی عطا سے کوئی دوسرا بھی معبود ہو سکتا ہے۔ عطائی طور پر کسی کو معبود مانا تو یہ شرک تو نہیں ہے۔
جیسے یہ لوگ عطائی نبی یا عطائی طور پر معبود مان کر بھی شرک کے مرتکب ہیں۔ ایسے ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عطائی طور پر علم غیب کا مان لینا بھی شرک ہی ہے۔ کیونکہ جیسے قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کی نفی ہے (ذاتی یا عطائی کی وضاحت کے بغیر)، یا جیسے قرآن میں غیر اللہ کے لئے صفت معبود کی نفی ہے (ذاتی یا عطائی کی وضاحت کے بغیر)، بعینہٖ ویسے ہی قرآن میں غیر اللہ کے لئے "علم غیب" کی نفی بھی ذاتی یا عطائی کی وضاحت کے بغیر موجود ہے۔ لہٰذا جب پہلے دو عقائد کے حاملین کو ان کا عطائی کا فلسفہ شرکیہ عقیدے سے پاک نہیں کر سکتا، تو قائلین علم غیب کا شرک بھی عطائی کی ملاوٹ سے پاک نہیں ہو سکتا۔
یہ عطائی و ذاتی کا فلسفہ اللہ کی صفات کو غیر اللہ میں ثابت کرنے کا ایک ایسا چور دروازہ ہے جو یقیناً سنگین گمراہی اور شدید ضلالت پر منتج ہوتا ہے۔