• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم غیب اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم جناب انس نضر صاحب السلام علیکم،
آپ نے اس تھریڈ کے شروع میں سورہ انعام کی آیت کا ترجمہ کنزالایمان سے پیش کیا ہے۔ اس ترجمہ میں ا " ولا اعلم الغيب " کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے " نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں " آپ فرما دیجیے کہ کیا یہ ترجمہ عربی متن کے مطابق ہے یا نہیں ؟
شکریہ۔ والسلام
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!!
یہ ترجمہ عربی متن کے مطابق نہیں ہے، اس ترجمہ کیلئے عربی متن یہ یا اس جیسا ہونا چاہئے: ولا أعلم الغيب بنفسي

واللہ اعلم!!

اصل میں کسی دوسرے فورم پر ایک ایسے صاحب سے بات ہو رہی تھی جو احمد رضا خان صاحب کو بہت اہمیت دیتے تھے، اس لئے ان کا ترجمہ پیش کیا تھا، پھر یہی پوسٹ یہاں بھی کاپی کر دی۔
 

بابر تنویر

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 02، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
692
پوائنٹ
104
جزاک اللہ خیرا محترم انس نضر صاحب، اگر مین غلط ہوں تو تصیح کر دیجیۓ گا۔
اسی آیت کے بارے مین ایک اور سائٹ پر بحث ہو رہی تھی۔ میں نے ان سے یہی کہا کہ اگر کنز الایمان والا ترجمہ درست مان لیا جاۓ تو " أعلم الغيب" کا ترجمہ تو کچھ ایسے ہونا چاہیۓ۔ " میں آپ غیب جان لیتا ہوں "
اور پھر دیکھیۓ ان کے اپنے ہی ترجمہ کا تضاد۔ سورہ ہود میں
"ولا أعلم الغيب"
کا ترجمہ کچھ اس طرح کرتے ہیں "
اور نہ یہ کہ میں غیب جان جانتا ہوں"
مجھے یہ آج تک نہیں بتا سکے کہ یہ غیب جان کیا ہوتا؟ اگر آپ کو اس بارے میں کچھ معلوم ہو تو براۓ مہرانی یہاں شئر کردیجیۓ۔
شکریہ والسلام
 
شمولیت
اگست 11، 2012
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
5
اسلام علیکم ، کیا کوئی بھائی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ نبی پاک کو علم غیب وحی کے ذریعہ مطلع کیا گیا جتنا اللہ پاک چاہتے ، کیونکہ قران پاک میں ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں ، اور ایک اور جگہ فرمایا کہ اللہ پاک چن لیتے ہیں غیب کے لئے اپنے رسولوں میں سے ، تو کیا غیب پر مطلع ہونا غیب جاننے کی دلیل نہیں ؟ اور اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟؟ کوئی دلیل سے واضح کر سکتا ہے ؟؟ کیونکہ ایک فریق ہے جو نبی پاک کے لئے علم غیب مانتا ہے کہ نبی پاک کو علم غیب پر مطلع کیا جاتا تھا سو معلوم ہوا وہ غیب جانتے ہیں ، مطلع کرنا یا غیب جاننے میں کوئی فرق ہے؟؟ (کیونکہ دونوں طریقوں کو اللہ کی عطا سے ہی ملنا سمجھا جاتا ہے تو شرک وغیرہ کیسے ہوا ؟؟ ) اور اب یہ دلیل مت دیجئے گا کہ غیب نبی پاک پر ظاہر ہوا پھر صحابہ اکرام پر پھر تابعین اور آج ہم تک پہنچا تو کیا ہم بھی غیب جانتے ہیں جبکہ وہ فریق یہ کہتا ہے نبی پاک نے جو جو باتیں صحابہ اکرام کو بتلائیں یا ہم تک پہنچی اس کی مقدار نبی کے پاک کے علوم غیبیہ کا کچھ بھی حصہ نہیں کیونکہ نبی پاک کا علم تو لوح محفوظ پر محیط ہے تو قلیل کو کثیر ، جز کو کل سے کیا واسطہ . اور صحابہ اکرام کا بھی نبی پاک سے بلا ججھک ہر چیز کا پوچھ لینا اور نبی پاک کا جواب دینا یہ دلیل بھی ہے کہ نبی پاک غیب جانتے ہیں ( چاہے اطلاع سے ہی مشروط سمجھ لیں ) غیب تو ملا کہ نہیں؟؟ ، آخر میں غیب کی تعریف ہے بھی یہی ہے کہ چھپی ہوئی بات کو جاننا یا ظاہر کر دینا ، اور قران پاک بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ پاک نبیوں پر غیب ظاہر کر دیتے تھے (مفہوم) سو معلوم ہوا نبیوں پر اللہ کی عطا سے غیب کا ظاہر ہو جانا ہمارے لئے غیب جاننا ہی سمجھا جائے گا کیونکہ ذاتی طور پر تو کوئی اللہ کے علاوہ غیب جان ہی نہیں سکتا مگر عطائی تو پر تو مطلع کیا جا سکتا ہے سو نتیجہ یہ نکلا اللہ پاک ذاتی طور پر عالم الغیب ہیں اور نبی پاک اللہ پاک کی عطا سے عطائی طور پر علم غیب جانتے یا مطلع ہیں ،،، ،،،،،،،،،،،،،،،، یہ کچھ سوالات ہیں جو ایک بریلوی نے مجھ سے پوچھیں ہیں اگر کوئی بھائی جواب دے تو شکریہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
محمد ناظم سلیم بھائی،
آپ کے سوالات کے تفصیلی جوابات درج ذیل مضمون میں موجود ہیں۔ اگر پھر بھی تشنگی رہ جائے تو یہاں پوچھ لیجئے۔

مختصراً عرض ہے کہ:
1۔ قرآن میں وضاحت ہے کہ اللہ جن پیغمبروں کو چاہتا ہے، غیب کی خبروں پر مطلع کر دیتا ہے۔ لہٰذا ہم بھی فقط اتنا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، جتنا قرآن نے بیان فرما دیا ہے کہ انبیائے کرام کو غیب کی خبریں مل جاتی ہیں۔ اسے اطلاع علی الغیب یا انباء الغیب کہا جاتا ہے۔
2۔ قرآن ہی میں وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ "علم غیب" کسی کو حاصل نہیں۔ لہٰذا ہم بھی فقط اتنا ہی عقیدہ رکھتے ہیں جتنا قرآن نے بیان فرما دیا ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ "عالم الغیب" دوسرا کوئی نہیں۔
3۔ اہم سوال یہ ہے کہ غیب کی اطلاع مل جانا، اور علم غیب حاصل ہو جانے میں کیا جوہری فرق ہے؟ تو فرق یہ ہے کہ علم غیب حاصل ہونا، خود ہی غیب کی خبریں جان لینے کو مستلزم ہے۔ جبکہ غیب کی خبروں پر اطلاع پانے میں آپ ہی غیب کی باتیں معلوم کر لینے کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ یہ دیکھئے کہ کم یا زیادہ غیب کی خبریں تو بہرحال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہم تک بھی پہنچ گئی ہیں تو جیسے غیب کی خبروں پر اطلاع پانے سے (چاہے وہ تعداد میں کم ہی ہوں) ہم عالم الغیب نہیں ہو گئے، ایسے ہی نبی بھی عالم الغیب نہیں ہوئے۔ ہاں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بے شک غیب کی خبریں، ہم تک پہنچنے والی غیب کی خبروں سے بہت زیادہ ہیں۔ لیکن خود قرآن ہی نے بتا دیا ہے (مفہوم) یہ نبی غیب کی خبریں بتانے میں بخیل نہیں۔ [81:24]۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ساری غیب کی باتیں فقط خود تک ہی محدود رکھیں اور ہم تک نہیں پہنچائیں، تو ایسا عقیدہ درج بالا آیت کے خلاف ہے۔
4۔ ذاتی اور عطائی کا فلسفہ بالکل باطل ہے۔ بھلا دنیا میں ایسی کون سی ذات ہے یا کسی ذات کی وہ کون سی صفت ہے جو اس کی ذاتی ہے اور اللہ کی عطا کردہ نہیں؟ جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی عطائی ہے، اور علم غیب کے علاوہ بھی ہر ہر صفت عطائی ہی ہے۔ تو بطور خاص علم غیب کو عطائی کہہ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں تسلیم کرنا، نہ صرف ان کی توہین ہے بلکہ خود قرآن کی صریح آیات کا انکار بھی ہے۔ قرآن لاکھ رسول ہی کی زبانی اقرار کروائے کہ میں غیب نہیں جانتا، اور ہم بزور رسول کے ذمے غیب جاننے کا الزام لگاتے رہیں؟ یہ کیسا عقیدہ ہے؟ قرآن نے غیر اللہ سے "علم غیب" کی نفی کی ہے تو ہمیں بھی نفی ہی کرنی چاہئے نا کہ اپنی جانب سے فلسفہ جوڑ کر اسی علم غیب کا غیر اللہ کے لئے اثبات کرنے لگ جائیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر کوئی شخص مرزا قادیانی کو (یا کسی بھی دوسرے شخص کو) نبی مانے اور جب اس کے سامنے خاتم النبیین والی آیت تلاوت کی جائے تو وہ فوراً کہہ دے کہ آیت سے تو ذاتی طور پر یا خود ہی نبی بن جانے کی ممانعت ثابت ہو رہی ہے، ہم تو مرزا قادیانی کو عطائی نبی مانتے ہیں۔ ذاتی طور پر تو اب کوئی نبی نہیں ہو سکتا، لیکن عطائی طور پر مان لینے میں تو کوئی شرک نہیں۔
یا کوئی اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت کرتا ہو اور جب اسے کہا جائے کہ معبود تو فقط ایک ہی ہے تو وہ جواب میں فلسفہ داغ دے کہ ذاتی طور پر تو اللہ ہی معبود ہے، لیکن اللہ کی عطا سے کوئی دوسرا بھی معبود ہو سکتا ہے۔ عطائی طور پر کسی کو معبود مانا تو یہ شرک تو نہیں ہے۔
جیسے یہ لوگ عطائی نبی یا عطائی طور پر معبود مان کر بھی شرک کے مرتکب ہیں۔ ایسے ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عطائی طور پر علم غیب کا مان لینا بھی شرک ہی ہے۔ کیونکہ جیسے قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کی نفی ہے (ذاتی یا عطائی کی وضاحت کے بغیر)، یا جیسے قرآن میں غیر اللہ کے لئے صفت معبود کی نفی ہے (ذاتی یا عطائی کی وضاحت کے بغیر)، بعینہٖ ویسے ہی قرآن میں غیر اللہ کے لئے "علم غیب" کی نفی بھی ذاتی یا عطائی کی وضاحت کے بغیر موجود ہے۔ لہٰذا جب پہلے دو عقائد کے حاملین کو ان کا عطائی کا فلسفہ شرکیہ عقیدے سے پاک نہیں کر سکتا، تو قائلین علم غیب کا شرک بھی عطائی کی ملاوٹ سے پاک نہیں ہو سکتا۔
یہ عطائی و ذاتی کا فلسفہ اللہ کی صفات کو غیر اللہ میں ثابت کرنے کا ایک ایسا چور دروازہ ہے جو یقیناً سنگین گمراہی اور شدید ضلالت پر منتج ہوتا ہے۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
محترم محمد ناظم سلیم نے علم غیب کے متعلق پوچھا ہے-

جبکہ قرآن کریم اور حدیث مین واضح طور پر ، اللہ کے علاوہ ، باقی تمام مخلوق سے علم غیب کی نفی کی گئ ہے-
محترم محمد ناظم نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے ،وہ سورہ جن کی آیت #٢٦-٢٧ ہے- ملاحظہ کیجیے-
(( عالم الغیب فلا یظھر علی غیبیہ احدا ، الا من ارتضی من رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ))
یعنی اللہ تعالی عالم غیب ہے ، اور وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاھر نہین کرتا ، مگر اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے -----

یہ آیت بذات خود ، رسول سے علم غیب کی نفی کرتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے غیب کو کسی پر ظاھر نہین کرتا، مگر اس رسول پر ظاھر کردیتا ہے ، جسے پسند فرماتا ہے- یعنی اللہ تعالی اپنے غیب کو ظاھر کردیتا ہے -
اور جو چیز ظاھر ہوجاے ، وہ غیب کیسے ہوسکتی ہے-
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی ، رسول پر غیب کو ظاھر فرماتے ہین ، اور جو ظاھر ہوجاے ، وہ غیب نہین رہتا-
معلوم ہوا کہ رسول ظاھر جانتے ہین ، غیب نہین جانتے -
آیت کے الفاظ (( فلا یظھر علی غیبہ )) پر غور کرین -
 

khuram

مبتدی
شمولیت
اگست 12، 2012
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
محترم محمد ناظم سلیم نے علم غیب کے متعلق پوچھا ہے-

جبکہ قرآن کریم اور حدیث مین واضح طور پر ، اللہ کے علاوہ ، باقی تمام مخلوق سے علم غیب کی نفی کی گئ ہے-
محترم محمد ناظم نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے ،وہ سورہ جن کی آیت #٢٦-٢٧ ہے- ملاحظہ کیجیے-
(( عالم الغیب فلا یظھر علی غیبیہ احدا ، الا من ارتضی من رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ))
یعنی اللہ تعالی عالم غیب ہے ، اور وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاھر نہین کرتا ، مگر اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کرلے -----

یہ آیت بذات خود ، رسول سے علم غیب کی نفی کرتی ہے ، کیونکہ اللہ اپنے غیب کو کسی پر ظاھر نہین کرتا، مگر اس رسول پر ظاھر کردیتا ہے ، جسے پسند فرماتا ہے- یعنی اللہ تعالی اپنے غیب کو ظاھر کردیتا ہے -
اور جو چیز ظاھر ہوجاے ، وہ غیب کیسے ہوسکتی ہے-
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی ، رسول پر غیب کو ظاھر فرماتے ہین ، اور جو ظاھر ہوجاے ، وہ غیب نہین رہتا-
معلوم ہوا کہ رسول ظاھر جانتے ہین ، غیب نہین جانتے -
آیت کے الفاظ (( فلا یظھر علی غیبہ )) پر غور کرین -
اللہ وہ ہے جو ہرظاہر اور پوشیدہ کو جاننے والا ہے ( مفہوم قرآن)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ظاہر کا جاننا ذاتی طورسے مان چکے تو پھر پوشیدہ کا جاننا اللہ کی عطاء سے ماننے میں کیا قباحت ہے ؟
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
محترم خرم صا حب!
دین اسلام ، قرآن وحدیث کا نام ہے - اگر قرآن وحدیث مین ، رسول کیلے پوشیدہ کا جا ننا ذاتی یا عطائ طور پر ثابت ہو، تو کوی قباحت نہین ہے-
قباحت یہی ہے کہ ایسا ، قرآن و حدیث سے ثابت نہین ہے-
 

khuram

مبتدی
شمولیت
اگست 12، 2012
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
محترم خرم صا حب!
دین اسلام ، قرآن وحدیث کا نام ہے - اگر قرآن وحدیث مین ، رسول کیلے پوشیدہ کا جا ننا ذاتی یا عطائ طور پر ثابت ہو، تو کوی قباحت نہین ہے-
قباحت یہی ہے کہ ایسا ، قرآن و حدیث سے ثابت نہین ہے-
پھر ظاہر کا جاننا بھی تو اللہ ہی کی صفت ہے تو ذاتی طور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر کے جاننے کا جوآپ اقرار کرچکے ہیں کیا وہ بھی قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے "اللہ وہ ہے جو ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے "
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
کچھ صفات،(یعنی خصوصیات) خالق اور مخلوق مین ، نام کی حد تک، ایک جیسی ہین - جیسے اللہ کا " سمیع " اور " بصیر" ہونا -
اسی طرح مخلوق بھی "سمیع" اور "بصیر" ہے-
اللہ کا سمیع اور بصیر ہونا ، اور مخلوق کا سمیع اور بصیر ہونا ، دونون کا تذکرہ قرآن مین موجود ہے - لہذا یہ شرک نہین ہے-
اللہ کا سمیع ہونا اور بندون کا سمیع ہونا ، صرف نام کی حد تک ایک جیسا ہے -
کیونکہ اللہ " ہر چیز " کیلے سمیع ہے - جبکہ مخلوق صرف وہی سنتی ہے ، جسکی اسکو طاقت ہے -
معلوم ہوا اللہ کا سمیع ہونا " اور" ہے ، اور مخلوق کا سمیع ہونا "اور" ہے - لہذا یہ شرک نہین ہے -
لہذا ایسی صفات ، جو خالق اور مخلوق مین نام کی حد ایک جیسی ہین ، وہ شرک نہین ہے -
مگر خالق اور مخلوق مین تمام صفات ایک جیسی نہین ہین-
 

khuram

مبتدی
شمولیت
اگست 12، 2012
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
17
کچھ صفات،(یعنی خصوصیات) خالق اور مخلوق مین ، نام کی حد تک، ایک جیسی ہین - جیسے اللہ کا " سمیع " اور " بصیر" ہونا -
اسی طرح مخلوق بھی "سمیع" اور "بصیر" ہے-
اللہ کا سمیع اور بصیر ہونا ، اور مخلوق کا سمیع اور بصیر ہونا ، دونون کا تذکرہ قرآن مین موجود ہے - لہذا یہ شرک نہین ہے-
اللہ کا سمیع ہونا اور بندون کا سمیع ہونا ، صرف نام کی حد تک ایک جیسا ہے -
کیونکہ اللہ " ہر چیز " کیلے سمیع ہے - جبکہ مخلوق صرف وہی سنتی ہے ، جسکی اسکو طاقت ہے -
معلوم ہوا اللہ کا سمیع ہونا " اور" ہے ، اور مخلوق کا سمیع ہونا "اور" ہے - لہذا یہ شرک نہین ہے -
لہذا ایسی صفات ، جو خالق اور مخلوق مین نام کی حد ایک جیسی ہین ، وہ شرک نہین ہے -
مگر خالق اور مخلوق مین تمام صفات ایک جیسی نہین ہین-
اب ذارا اس اورکی بھی تشریح فرمادیجئے
جس طرح "اللہ کا سمیع ہونا " اور مخلوق کو سمیع ماننا اللہ کی عطاء سے( اور کیسا سمیع کہ کئی میل دور سے ایک معمولی چونٹی کی آواز کو سماعت کرلینا ) سے شرک نہیں ہوتا ۔
ٹھیک ایسی طرح غیب کا علم اللہ کے لئے ماننا اور غیب کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ماننا اللہ کے بتائے سے پھر اس میں کس طرح شرک ہوسکتا ہے ؟؟؟؟؟؟
اس کی دلیل میں یہ حدیث پیش خدمت ہے

صحیح بخاری
کتاب العلم
باب: استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
حدیث نمبر: 92
حدثنا محمد بن العلاء،‏‏‏‏ قال حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن بريد،‏‏‏‏ عن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي موسى،‏‏‏‏ قال سئل النبي صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها،‏‏‏‏ فلما أكثر عليه غضب،‏‏‏‏ ثم قال للناس ‏"‏ سلوني عما شئتم ‏"‏‏.‏ قال رجل من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة ‏"‏‏.‏ فقام آخر فقال من أبي يا رسول الله فقال ‏"‏ أبوك سالم مولى شيبة ‏"‏‏.‏ فلما رأى عمر ما في وجهه قال يا رسول الله،‏‏‏‏ إنا نتوب إلى الله عز وجل‏.‏

ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔

اس حدیث شریف میں میں دو باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی کیا یہ پوشیدہ باتیں تھیں یا ظاہر ؟؟؟؟؟؟
 
Top