- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ تعالی کی نعمتوں کے ذریعے یاددہانی :
تذکیر کا مطلب ہے یاد دلانا اور آلاء اللہ کا معنی ہے اللہ کی نعمتیں۔تذکیر بآلاء اللہ کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ کی نعمتوں کے ذکر کے ساتھ زندگی کا سبق یاد دلانا۔اس علم کے ذریعے اللہ عزوجل نے تمام انسانوں کو مہذب بنانا چاہا۔ اس لئے کہ قرآن مجید سب کی فلاح کے لئے نازل ہوا ہے۔ اس میں اللہ نے صرف ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جنہیں شہری، بدوی اور عرب و عجم یعنی عوام کی اکثریت یکساں طور مستفید ہوتی اور سمجھتی ہے۔نفس کی باطنی نعمتیں جو اولیاء و علماء کے ساتھ مخصوص ہیں یا ارتفاقی نعمتیں جو بادشاہ لوگوں کے ساتھ خاص ہیں۔ ان کا ذکر اللہ نے نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ یہ چند لوگوں کے ساتھ خاص ہوتی ہیں۔ ہاں جن نعمتوں کا ذکرضروری تھا انہیں کردیا ۔ مثلاً:اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت معرفت ربوبیت و الوہیت ہے۔ اس کی پہچان سے ہی روح کی صفائی اور بالیدگی ہوتی ہے۔اور شرک اور خدائی دعوے داروں سے بیزاری الگ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات سے متعلق بھی اہم اور مختصر باتیں قرآن حکیم میں بیان فرمادی ہیں۔ اسی طرح زمین و آسمان کی پیدائش، بادلوں سے پانی برسانا، پانی کے چشمے جاری کرنا، طرح طرح کے پھل اور غلے اگانا، ضروری صفات کا الہام-یہ سب خزانے انسانوں کے لئے وقف کر دیے ہیں۔
مصائب کا ہونا، اور ان کے دور ہونے پر لوگوں کے رویوں کا بدل جانا، اس پر تنبیہ فرمائی ہے، اس لئے کہ یہ مرض نفس میں بکثرت واقع ہوتا ہے۔انعامات، وآلاء کا ذکر اس کثرت سے اس لئے کیا گیا ہے کہ آدمی اللہ کا شکر گزار بن کر رہے اور شکر گزاری یہ ہے اس کے احکام کی پیروی کی جائے۔
تذکیر کا مطلب ہے یاد دلانا اور آلاء اللہ کا معنی ہے اللہ کی نعمتیں۔تذکیر بآلاء اللہ کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ کی نعمتوں کے ذکر کے ساتھ زندگی کا سبق یاد دلانا۔اس علم کے ذریعے اللہ عزوجل نے تمام انسانوں کو مہذب بنانا چاہا۔ اس لئے کہ قرآن مجید سب کی فلاح کے لئے نازل ہوا ہے۔ اس میں اللہ نے صرف ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جنہیں شہری، بدوی اور عرب و عجم یعنی عوام کی اکثریت یکساں طور مستفید ہوتی اور سمجھتی ہے۔نفس کی باطنی نعمتیں جو اولیاء و علماء کے ساتھ مخصوص ہیں یا ارتفاقی نعمتیں جو بادشاہ لوگوں کے ساتھ خاص ہیں۔ ان کا ذکر اللہ نے نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ یہ چند لوگوں کے ساتھ خاص ہوتی ہیں۔ ہاں جن نعمتوں کا ذکرضروری تھا انہیں کردیا ۔ مثلاً:اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت معرفت ربوبیت و الوہیت ہے۔ اس کی پہچان سے ہی روح کی صفائی اور بالیدگی ہوتی ہے۔اور شرک اور خدائی دعوے داروں سے بیزاری الگ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات سے متعلق بھی اہم اور مختصر باتیں قرآن حکیم میں بیان فرمادی ہیں۔ اسی طرح زمین و آسمان کی پیدائش، بادلوں سے پانی برسانا، پانی کے چشمے جاری کرنا، طرح طرح کے پھل اور غلے اگانا، ضروری صفات کا الہام-یہ سب خزانے انسانوں کے لئے وقف کر دیے ہیں۔
مصائب کا ہونا، اور ان کے دور ہونے پر لوگوں کے رویوں کا بدل جانا، اس پر تنبیہ فرمائی ہے، اس لئے کہ یہ مرض نفس میں بکثرت واقع ہوتا ہے۔انعامات، وآلاء کا ذکر اس کثرت سے اس لئے کیا گیا ہے کہ آدمی اللہ کا شکر گزار بن کر رہے اور شکر گزاری یہ ہے اس کے احکام کی پیروی کی جائے۔