بنات خدیجہ
رکن
- شمولیت
- ستمبر 01، 2014
- پیغامات
- 115
- ری ایکشن اسکور
- 57
- پوائنٹ
- 54
اسلام سے پہلے خواتین سخت آزمائشی دور سے گزر رہی تھیں۔ عرب بچیوں کی ولادت کو سخت ناپسند کرتے تھے اور انہیں زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے کہ وہ دب کر دم توڑ دیں۔ اگر لڑکی کسی طرح بچ جاتی تو اسے نہایت اہانت آمیز ذلت بھری زندگی گزارنی پڑتی۔ اس صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟
سورہ النحل : 58، 59
............
جب اسلام آیا تو اس نے عورتوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کی انسانی حیثیت اور مرتبہ کو انہیں واپس دلایا، ارشاد ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے (الحجرات : 13)
اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ انسان ہونے میں عورت مرد کے مساوی درجہ رکھتی ہے اسی طرح اعمال پر جزاء و سزا میں بھی دونوں برابر اور یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے
سورہ النحل :97
.............
اسلام سے پہلے عورت کو اپنے قریبی لوگوں کے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، خواہ اس کے اقرباء کتنے ہی صاحب دولت و ثروت ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ان کے یہاں عورتوں کے بجائے صرف مردوں کو ہی ترکہ ملتا تھا، اور عورتیں خود مال وراثت کی طرح وفات پانے والے شوہر کے ورثاء میں تقسیم کی جاتی تھیں۔پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے عورت کی اس حیثیت کو حرام اور ممنوع قرار دے دیا۔ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا
ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو (النساء : 19)
اللہ تعالیٰ نے خواتین کو انکی اپنی ایک مستقل حیثیت کی ضمانت دی ہے، مال وراثت نہ شمار کرکے انہیں وارث بنایا ہے اور ان کا حصہ متعین کیا ہے۔
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے (النساء: 7)
............
اسلام سے پہلے بیویوں کی تعداد میں کوئی قید نہیں تھی۔ ایک شوہر کی زوجیت میں بیشمار عورتیں ہوا کرتی تھیں۔ اس بناء پر عورتوں کو لاحق ہونے والی پریشانیوں ، تنگیوں اور ظلم و زیادتی کی وہ کوئی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آیا، اللہ تعالیٰ نے چار بیویوں کی آخری حد متعین کردی ہے۔ بشرطیکہ ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا جائے، اور ان کے ساتھ حسن معاشرت (اچھی طرح سے رہنا، اچھا سلوک) کو واجب اور ضروری قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو۔ (سورہ النساء : 19)
..............
اسلام نے مہر کو عورتوں کا حق قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ مگر یہ کہ عورت خوش دلی کے ساتھ از خود معاف کردے۔
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو(سورہ النساء : 4)
..............
اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں ایک ایسے نگہبان کی حیثیت عطا کی ہے جو امر و نہی کی مالک ہوتی ہے اور اپنے بچوں کی مالکن اور سردار ہوتی ہے، ارشاد نبوی ہے:
المراۃ راعیۃ فی بیت زوجھا و مسؤلۃ عن رعیتھا
عورت اپنے شوہر کے گھر اور بال بچوں کی نگران ہے اور اس سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اسی طرح شوہر پر بیوی کے نان و نفقہ اور لباس وغیرہ کے اخراجات کی ذمہ داری عائد ہے۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟
سورہ النحل : 58، 59
............
جب اسلام آیا تو اس نے عورتوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کا خاتمہ کرتے ہوئے ان کی انسانی حیثیت اور مرتبہ کو انہیں واپس دلایا، ارشاد ربانی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد وعورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے (الحجرات : 13)
اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ انسان ہونے میں عورت مرد کے مساوی درجہ رکھتی ہے اسی طرح اعمال پر جزاء و سزا میں بھی دونوں برابر اور یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور ضرور دیں گے
سورہ النحل :97
.............
اسلام سے پہلے عورت کو اپنے قریبی لوگوں کے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، خواہ اس کے اقرباء کتنے ہی صاحب دولت و ثروت ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ ان کے یہاں عورتوں کے بجائے صرف مردوں کو ہی ترکہ ملتا تھا، اور عورتیں خود مال وراثت کی طرح وفات پانے والے شوہر کے ورثاء میں تقسیم کی جاتی تھیں۔پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے عورت کی اس حیثیت کو حرام اور ممنوع قرار دے دیا۔ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا
ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو (النساء : 19)
اللہ تعالیٰ نے خواتین کو انکی اپنی ایک مستقل حیثیت کی ضمانت دی ہے، مال وراثت نہ شمار کرکے انہیں وارث بنایا ہے اور ان کا حصہ متعین کیا ہے۔
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا
ماں باپ اور خویش واقارب کے ترکہ میں مردوں کا حصہ بھی ہے اور عورتوں کا بھی۔ (جو مال ماں باپ اور خویش واقارب چھوڑ مریں) خواه وه مال کم ہو یا زیاده (اس میں) حصہ مقرر کیا ہوا ہے (النساء: 7)
............
اسلام سے پہلے بیویوں کی تعداد میں کوئی قید نہیں تھی۔ ایک شوہر کی زوجیت میں بیشمار عورتیں ہوا کرتی تھیں۔ اس بناء پر عورتوں کو لاحق ہونے والی پریشانیوں ، تنگیوں اور ظلم و زیادتی کی وہ کوئی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آیا، اللہ تعالیٰ نے چار بیویوں کی آخری حد متعین کردی ہے۔ بشرطیکہ ان کے درمیان عدل و انصاف قائم کیا جائے، اور ان کے ساتھ حسن معاشرت (اچھی طرح سے رہنا، اچھا سلوک) کو واجب اور ضروری قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو۔ (سورہ النساء : 19)
..............
اسلام نے مہر کو عورتوں کا حق قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ مگر یہ کہ عورت خوش دلی کے ساتھ از خود معاف کردے۔
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا
اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وه خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھا لو(سورہ النساء : 4)
..............
اللہ تعالیٰ نے عورت کو اپنے شوہر کے گھر میں ایک ایسے نگہبان کی حیثیت عطا کی ہے جو امر و نہی کی مالک ہوتی ہے اور اپنے بچوں کی مالکن اور سردار ہوتی ہے، ارشاد نبوی ہے:
المراۃ راعیۃ فی بیت زوجھا و مسؤلۃ عن رعیتھا
عورت اپنے شوہر کے گھر اور بال بچوں کی نگران ہے اور اس سے ان کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اسی طرح شوہر پر بیوی کے نان و نفقہ اور لباس وغیرہ کے اخراجات کی ذمہ داری عائد ہے۔
ڈاکٹر صالح بن فوزان الفوزان کی کتاب "خواتین کے مخصوص مسائل" سے اخذ کیا گیا۔۔