اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ ہونا تاریخی واقعہ ہے شرعی دلیل نہیں۔
رضیہ سلطانہ کا بادشاہ ہونا تاریخی واقعہ ہے شرعی دلیل نہیں۔
ان دوباتوں کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں ۔
- رضیہ سلطانہ کابادشاہ بننا گرچہ ایک واقعہ ہے مگر رضیا کا ایسا بننا جائز نہیں تھا اس نے ناجائز کام کیا ، کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں؟؟؟؟؟؟
- اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ بننا ایک واقعہ ہے مگر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے ا ایسا بن کر ناجائز کام کیا آپ یہی کہنا چاہتے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
- اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا فقیہہ بننا ناجائز ہے تو پھر ان کے فقیہ بننے کو اماں کی عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجتہادی غلطی بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ اجتہادی غلطی اس کی متصور ہوگی جس کے لئے مجتہد کا جواز موجود ہوگا ، اب جس کے لئے مجتہد بننا ہی جائز نہیں تو اس کی غلطی کو اجتہادی غلطی نہیں کہہ سکتے ، پھر آخر اسے کیا کہیں گے؟؟؟؟؟
جی ہاں ایسی اجازت عورت کے لئے بھی سنت سے ثابت ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے اجتہاد کی بھی تائید کی ہے بلکہ ایک ہی مسئلہ میں مرد اور عورت دونوں کے مختلف اجتہادات میں سے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا جبکہ اسی مسئلہ سے متعلق عورت کے اجتہاد کی تائید کی اوراسے صحیح قرار دیا ، دلیل ملاحظہ ہو:
امام ابویعلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي طَلِيقٍ ، أَنَّ امْرَأَتَهَ ، قَالَتْ لَهُ : وَلَهُ جَمَلٌ وَنَاقَةٌ أَعْطِنِي جَمَلَكَ أَحُجُّ عَلَيْهِ فَقَالَ : هُوَ حَبْسٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تعالى ، قَالَتْ : إِنَّهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِنْ أَحُجَّ عَلَيْهِ ، فَأَبَى ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي النَّاقَةَ ، وَحُجَّ عَلَى جَمَلِكَ ، قَالَ : لا أُوثِرُ عَلَى نَفْسِي أَحَدًا ، قَالَتْ : فَأَعْطِنِي مِنْ نَفَقَتِكَ قَالَ : مَا عِنْدِي فَضْلٌ عَمَّا أَخْرُجُ بِهِ ، وَلَوْ كَانَ مَعِي لأَعْطَيْتُكِ قَالَتْ : فَإِذَا فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ ، فَأَقْرِئْ نَبِيَّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنِّي السَّلامَ إِذَا أَتَيْتَهُ ، وَقُلْ لَهُ الَّذِي قُلْتُ لَكَ فَلَمَّا لَقِيَ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَقْرَأَهُ مِنْهَا السَّلامَ ، وَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي قَالَتْ لَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : صَدَقَتْ أُمُّ طَلِيقٍ ، لَوْ أَعْطَيْتَهَا جَمَلَكَ كَانَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَلَوْ أَعْطَيْتَهَا نَاقَتَكَ كَانَتْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، وَإِنْ أَعْطَيْتَهَا مِنْ نَفَقَتِكَ أَخْلَفَهَا اللَّهُ لَكَ ، فَقُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، وَمَا يَعْدِلُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : عَمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ
[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 1/ 406 قال الالبانی: أخرجه الدولابي في " الكنى والأسماء " ( ١ / ٤١ ) بسند صحيح وقال الحافظ في " الإصابة " بعد أن ساقه من هذا الوجه : " وأخرجه ابن أبي شيبة وابن السكن وابن منده وسنده جيد " . وذكره بنحوه في " المجمع " ( ٣ / ٢٨٠ ) وقال : " رواه الطبراني في الكبير والبزار باختصار : ورجال البزار رجال الصحيح " . وقال المنذري في " الترغيب " ( ٢ / ١١٥ ) : " إسناد الطبراني جيد "(إرواء الغليل ٣/ ٣٧٦)]۔
مذکورہ حدیث میں بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت نے اجتہاد کیا اور اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اجتہاد کی تائید کی ۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ :
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اس عورت نے ایک مرد کے اجتہاد کے برخلاف الگ اجتہاد کیا ، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کے اجتہاد کو غلط قرار دیا اور عورت کے اجتہاد کی تائید کی ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت نہ صرف مجتہد ہوسکتی ہے بلکہ اجتہاد و فقاہت میں مرد سے بڑھ بھی سکتی ہے ۔
اسی لئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو الصحیحہ میں نقل کیا تو یہ حدیث درج کرنے سے پہلے یہ باب قائم کیا:
امرأة أفقه من رجل
یعنی ایک عورت جو مرد سے بڑی فقیہ تھی
علامہ البانی رحمہ اللہ مذکورہ باب قائم کرنے کے بعد اس کی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
(صَدَقت أمُّ طُلَيْقٍ؛ لو أعطيتَها الجمَلَ كان في سبيلِ اللهِ، ولو أعطيتها ناقتكَ كانت وكنتَ في سبيلِ اللهِ، ولو أعطيتها من نفقتِكَ أَخْلَفَكَها اللهُ) .
أخرجه الدولابي في "الأسماء والكنى" (١/ ٤١) : حدثنا إبراهيم بن يعقوب قال: حدثني عمر بن حفص بن غياث قال: ثنا أبي قال: حدثني المختار بن فُلْفُلٍ قال: حدثني طلق بن حبيب البصري أن أبا طليق حدثهم:
أن امرأته أم طليق أتته، فقالت له: حضر الحج يا أبا طليق! وكان له جمل وناقة، يحج على الناقة، ويغزو على الجمل، فسأَلَته أن يعطيها الجمل تحج عليه؟ فقال: ألم تعلمي أني حبسته في سبيل الله؟! قالت: إن الحج من سبيل الله؛ فأعطنيه يرحمك الله! قال: ما أريد أن أعطيَكِ. قالت: فأعطني ناقتك وحج أنت على الجمل. قال: لا أوثركِ بها على نفسي. قالت: فأعطني من نفقتك. قال: ما عندي فضل عني وعن عيالي ما أخرج به وما أترك (الأصل: أنزل) لكم، قالت: إنك لو أعطيتني أخلفكها الله.
قال: فلما أَبَيْتُ عليها، قالت: فإذا أتيت رسول الله- صلى الله عليه وسلم - فأَقْرِئْهُ مني السلام، وأخبره بالذي قلت لك.
قال: فأتيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، فأقرأته منها السلام، وأخبرته بالذي قالت أم طليق، قال ... فذ كره.
قال: وإنها تسألك يا رسول الله! ما يعدل الحج [معك] ؟ قال: " عمرة في رمضان ".
وهذا إسناد جيد؛ كما قال الحافظ في " الإصابة" , وعزاه لابن أبي شيبة أيضاً، والبغوي، وابن السكن، وابن منده.
وعزاه في "المطالب " (١/ ٣٢٠) لأبي يعلى. يعني: في "المسند الكبير". وأخرجه الطبراني في "المعجم الكبير" (٢٢/ ٣٢٤/٨١٦ و٢٥ /١٧٣/٤٢٥) مطولاً ومختصراً بإسناد واحد من طريق عبد الرحيم بن سليمان عن المختار بن فلفل به، والزيادة له.
وأخرجه البزار (٢/٣٨/١١٥١) من طريق محمد بن فضيل عن المختار به مختصراً.
وقد وقع مثل هذه القصة لأم معقل مع زوجها أبي معقل، وهو مخرج في "الإرواء" (٣/٣٧٥) عنها برواية أحمد.
ورواه ابن خزيمة في "صحيحه " (٣٠٧٧) ، والحاكم وغيرهما من حديث ابن عباس نحوه، وفيه الزيادة بلفظ:
".... تعدل حجة معي ".
وهو مخرج في "الإرواء " (٦/٣٢/١٥٨٧) .
وهي في "صحيح البخاري " أيضاً (١٨٦٣) . انظر " مختصر البخاري " (٢٨- جزاء الصيد/٢٥ باب) .
دیکھئے: [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها :٧/ ١٩٢]۔
اس حدیث میں صرف سربراہی کی بات ہے یعنی عورت مردوں کی سربراہ نہیں بن سکتی ، فقہ و اجتہاد سے اس حدیث کا کیا تعلق ؟؟؟؟
فقہ و اجتہاد سے مسائل شرعیہ بیان کے جاتے ہیں نہ کہ کسی پر حکمرانی کی جاتی ہے۔
یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ،
دیکھیں: