سرفراز فیضی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 22، 2011
- پیغامات
- 1,091
- ری ایکشن اسکور
- 3,807
- پوائنٹ
- 376
جنہیں آپ مناصب قرار دیتے ہیں، وہ میرے نزدیک منصب نہیں ہے کیونکہ منصب کا تعلق اتھارٹی سے ہے۔
منصب
وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ( صحیح البخاری ،كِتَابُ الأَذَانِ ،بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ)
2. منصب آپ کس معنی میں استعمال کررہے ہیں نہیں معلوم پر ہم نے منصب مقام اور رفعت کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
والمَنْصبُ، لُغَةً: الحَسَبُ، والمَقَام. ويُسْتَعَارُ للشَّرَفِ
(تاج العروس (4/ 281)
حافظ ابن حجر العسقلانی بھی مذکورہ حدیث کی شرح میں منصب کی وضاحت کرتے ہوں لکھتے ہی:
منصب أَي قدر ورفعة(فتح الباري لابن حجر (1/ 195)
اتھارٹی
2. اور اگر اتھارٹی سے مراد علمی اتھارٹی ہے تو جس بھی شخص اندر مجتہد کے شروط پائے جائیں گے اجتہاد اور افتاء کی اتھارٹی کسی کے دیے بغیر اسے خود حاصل ہوجائے گی ۔
3. اور اگر اتھارٹی سے مراد سیاسی اتھارٹی ہے تو اس کا تعلق قضاء سے ہے نہ کہ اجتہاد سے ۔