السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ!
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
راقم کی باتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
در حقیقت ابو الحسن علوی بھائی کا یہ مطالبہ ہی غلط ہے!! کیونکہ؛
((النساء شقائق الرجال)) هل هذا الحديث صحيح، وما معنى شقائق الرجال؟
نعم هذا حديث صحيح، والمعنى والله أعلم أنهن مثيلات الرجال إلا ما استثناه الشارع؛ كالإرث والشهادة وغيرهما مما جاءت به الأدلة.
مجموع فتاوى ابن باز
البينة على المدعي کے تحت عورت کا فقیہ و مجتہد ہونے کے امر سے مستثنی قرار دینے والے کو ہی دلیل پیش کرنا ہوگی!! اور وحی میں کے امر میں استثنا بھی وحی سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے!!!!
لہذا اگر ابو الحسن علوی بھائی کے پاس عورت کے مجتہدہ یا فقیہ نہ ہونے کی کوئی دلیل ہو تو اسے نقل کر دیں!!!
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
راقم کی اپنی بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ اگر فریٖق مخالف کی ذہنی سطح ایسی ہو کہ راقم کی بات سمجھنے ہی سے قاصر ہو یا سمجھ تو لے لیکن جذباتی مزاج ہونے کے سبب سے لاشعوری طور یا کسی تعصب کے سبب سے شعوری طور پر بات کو الجھانے کی کوشش کرے تو مکالمہ کی طرف دل آمادہ نہیں ہوتا ہے۔
ابوالحسن علوی بھائی کا یہ شکوہ بجا نہیں!! اب ابوالحسن علوی بھائی! مراد کچھ اور لیں ، لکھیں کچھ اور پھر بھی شکوہ فریق مخالف سے کہ فریق مخالف ان کی بات سمجھنے سے ہی قاصر ہے!!!! رفیق طاہر بھائی کے لئے بلا وجہ تنقیدی انداز میں یہ دعا کی گئی :
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
بھائی! آپ کے حق میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو حافظے کے ساتھ ساتھ ایسی تجزیاتی صلاحیت بھی عطا فرمائے کہ آپ فریق مخالف کا موقف سمجھ سکیں۔
جب کہ معاملہ اس کے بر خلاف ہے، اس تھریڈ میں ابو الحسن علوی بھائی اپنا مدعا ہی واضح نہيں کر پا رہے ہیں۔ اب یہ دیکھیں:
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
مجتہد اور فقیہ کا ایک عرفی معنی ہے، جو میں مراد لے رہا ہوں نہ کہ لغوی معنی اور اس کو ایک منصب کے طور پر لے رہا ہوں۔
ابو الحسن علوی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
ابن داود بھائی کے لیے گزارش ہے کہ مجتہدہ اور فقیہ کے عرفی معنی سے مراد اس کا اصولی اور اصطلاحی معنی ہی ہے۔ ہمارے اس مکالمے میں بعض لوگوں نے اسے لغوی معنی میں لیتےہوئے دلائل نقل کر دیے تھے تو میں نے وضاحت مناسب سمجھی۔
اب ابو الحسن علوی بھائی عرفی کہہ کر اصولی اور اصطلاحی معنی مراد لے رہے ہیں!! اس کے بعد بھی گلہ قارئین سے!!!
سرفراز فیضی بھائی کا یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ:
سرفراز فیضی بھائی کی تحریر سے اقتباس:
اس بحث میں میرے لیےیہ بڑا مسئلہ رہا کہ میں اب تک علوی بھائی کا موقف نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ ابتدا میں ایسا لگا کہ وہ سرے سے عورت کے اجتہاد اور فقاہت کے مخالف ہیں ۔ حتی کہ حضرت عائشہ کو بھی مجتہدہ نہیں مانتے ۔پھر ان کی تحریروں سے محسوس ہوا کہ وہ حضرت عائشہ کو مجتہد تو مانتے پر ان کے مجتہد ہونے کو محض ایک استثنائی واقعہ سمجھتے ہیں اور اس سے کسی شرعی مسئلہ کے استنباط کے خلاف ہیں ۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ وہ خواتین کے جزوی اجتہاد اورفقاہت کے بھی قائل ہیں ۔
بہر حال کسی موقف کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ٹھہراو ہو تاکہ اس کی بنیادوں میں کجی کہاں آئی ہے پتہ لگایا جاسکے ۔
مجھے اندیشہ ہے کہ اب یہ بحث فقیہ و مجتہد کے اصطلاحی معنی کے تعین پر ہوگی!!! اس میں یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ سلف صالحین نے اور ائمہ و محدثین نے عورتوں کو جو فقیہ کہا ہے وہ اصطلاہی معنی میں کہا ہے،یا لغوی معنی میں؟ کیونکہ عرفی معنی سے تو ابولحسن بھائی کی جان خلاصی نہیں ہو پائے گی!! وہ تو عرفی معنی سے اصولی و اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں!!!
اب اصطلاحی معنی ابوالحسن بھائی کے بیان کردہ ''منصب '' کا محتاج تسلیم کر لیا جائے ، جو عورت کے لئے جائز نہیں، اس صورت میں سلف الصالحین کا ان عورتوں کو فقیہ کہنا، جن میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں، یا تو غلط قرار پائے گا ، یا ابوالحسن وعلوی بھائی اس کی کوئی تاویل پیش کریں گے!!! خیر دیکھتے ہیں وہ اس کی کیا تاویل پیش کرتے ہیں۔
بات یہ سیدھی ڈگر پر اس صورت جا سکتی ہے کہ ابو الحسن علوی بھائی ، سب سے قبل فقیہ اور مجتہد کی وہ اصطلاحی تعریف نقل کر دیں،جو ''منصب'' کی محتاج ہے!!
'' منصب'' یعنی کہ ابو الحسن علوی بھائی کے مطابق یہ منصب عورت کے لئے جائز نہیں!! اور اس ''منصب'' کا عورت کے لئے ناجائز ہونا بھی دلائل شریعہ سے ثابت کر دیں!!
ابو الحسن علوی بھائی سے میری گذارش ہو گی کہ وہ سقراط اور ارسطو کے اسلوب بحث کو ترک کرتے ہوئے ، اما م النووی اور امام ابن القیم کا اسلوب اختیار کریں ، تا کہ خواہ مخواہ علم الکلام و فلسفہ کی جھنجٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے!!