میرا سوال کلیم حیدر سے ہے اور وہ ابھی تک قائم ہے:
والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع -
آپ نے اس عبارت کا یہ ترجمہ کیا: "ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ،"
کیا اس عبارت کا یہی ترجمہ ہے؟؟؟
عزیزبھائی آپ نےڈاکٹر صاحب کی کتاب کا جو اقتباس نقل کیا ہے۔اس کا لنک یہ ہے۔
(جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَئمہ و محدثین کی نظر میں)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"اور اسی طرح ان امور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں؛ میلاد عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کےلیے۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، ان لوگوں کو جنہوں نے یوم میلاد النبی کو بہ طور عید اپنایا۔"(١)
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اس میں اس کے لیے اجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم کی تعظیم بھی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک امر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔"(٢)
١۔بن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم:٤٠٤
٢۔ایضا،٤٠٦
اس اقتباس میں ایک تو ڈاکٹر صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی عبارت کا مفہوم غلط لیا اور الزام کا مستحق شیخ ابن تیمیہ ؒ کو ٹھہرانے کی ناکام کوشش بھی کی۔اور پھر تیسری بات عبارت بھی پوری پیش نہیں کی(گمان غالب ہے) اس وجہ سے کہ کہیں عبارت کے سیاق و سباق سے حقیقت واضح نہ ہوجائے۔
ڈاکٹرصاحب نے عبارت کا آغاز کیا
’’وکذلک ما يحدثه بعض الناس‘‘ سے اور اس سے ماقبل عبارت
’’وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه ‘‘ جو حقیقت کو واضح کررہی تھی اس کو نقل بھی نہیں کیا۔
یہ تو اس قبیل سے ہوگیا نہ کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں نماز کے قریب جانے سے ہی منع کردیا ہے اور دلیل میں یہ آیت ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ‘‘ پیش کردیتا ہے تو کیا اس کی دلیل کو آپ مان جائیں گے۔؟اگر اس آدمی کی دلیل کو نہیں مانیں گے تو پھر ڈاکٹرصاحب کی بات بھی اس قبیل سے ہے اس کو کیوں مان رہے ہیں ؟
جب شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے شروع میں ہی کہہ دیا کہ
’’وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه ‘‘ تو اب کیا کچھ باقی رہ جاتا ہے؟
آپ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ آپ نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع‘‘یہ کیا ہے۔
’’ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ‘‘
اور آپ نے خود ڈاکٹر صاحب کا جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ یہ ہے
’’اور اللہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر،‘‘
عزیز بھائی جب عبارت کےسیاق و سباق میں یہ الفاظ موجود ہیں
’’وإنما العيد شريعة‘‘ اور پھر ’’وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه‘‘ اور پھر ’’اختلاف الناس في مولده‘‘ اور پھر ’’لم يفعله السلف‘‘ اور پھر ’’لو كان خيرًا‘‘ اور پھر ’’وهم على الخير أحرص‘‘ وغیرہ وغیرہ
جب ان سب الفاظ جو سیاق و سباق میں موجود ہیں کے ہوتے ہیں عبارت کا ترجمہ اگر ایسے کردیا گیا
’’ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ‘‘
تو آپ بار بار پوچھ رہے ہیں کیا یہی ترجمہ ہے؟
عزیز بھائی اس کا صحیح ترجمہ اب آپ پیش فرمادیں ۔اگر درست ہوا تو ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
ایہاں پر ایک سوال پوچھ رہا ہوں وہ یہ کہ یہ جملہ
’’لا على البدع‘‘ کا تعلق کس جملہ سے ہے۔یا دوسرے الفاظ میں یہ جملہ کس طرف اشارہ ہے۔یہ بھی وضاحت فرمادیں ہوسکتا ہے کہ جو عبارت کا اصل مقصود ہے وہ آپ سمجھ ہی نہ رہے ہوں یا سمجھ تو آگئ ہو پر جان بوجھ کر انجانے بننے کی کوشش کررہے ہوں۔یا مجھے سمجھنے میں غلطی ہورہی ہو۔اصل کتاب سے پوری عبارت کے مفہوم کو سامنے رکھیں تک بات سمجھ آئے گی۔ان شاءاللہ
باقی گڈمسلم بھائی نے ایک بات کی طرف اشارہ کیا ہے
آپ یہ ترجمہ پیش کرکے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں کہ ترجمہ غلط ہے یا کوئی اور بات ہےواضح کریں۔
تو اس پر بھی نظر کرنے کی ضرورت کریں۔