• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد النبی ﷺ کا شرعی و تاریخی جائزہ

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323


نمبر شمار موضوع صفحه نمبر
1 بسم اللہ الرحمن الرحیم 4
2 بدعت ۶
3 بدعت کی تعریف ۶
4 بدعت کی مذمت ۶
5 شیخ عبد القادر جیلانی کی نظر میں 9
6 امام الانبیاءﷺ کی تاریخ ولادت ۱۲
7 تاریخ عید میلاد ۱۷
8 برصغیر میں میلاد کا آغاز ۲۷
9 میلاد کے موقع پر شریعت کی خلاف ورزیاں ۳۳
10 اسراف وتبذیر ۳۳
11 چراغاں , اور آتش بازی ۳۶
12 موسیقی ۳۷
13 ہلڑبازی اور شور شرابہ ۳۸
14 بھیک مانگنا ۳۹
15 چند میلادی شبہات کا ازالہ ۴۱
16 ابو لہب نے میلاد منایا ۴۱
17 میلاد منانے کا حکم اللہ نے دیا ہے ۴۴
18 نعمت پر عید منانا انبیاء کا شیوہ ہے ۴۵
۱۹ اخباری حوالہ جات ۴۷
ڈاؤنلوڈ لنک
http://www.deenekhalis.net/play.php?catsmktba=1332
 

محمد شعبان

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 03، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
19
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"اور اسی طرح ان امور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں؛ میلاد عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کےلیے۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، ان لوگوں کو جنہوں نے یوم میلاد النبی کو بہ طور عید اپنایا۔"(١)
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اس میں اس کے لیے اجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم کی تعظیم بھی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک امر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔"(٢)

١۔بن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم:٤٠٤
٢۔ایضا،٤٠٦
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"اور اسی طرح ان امور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں؛ میلاد عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کےلیے۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، ان لوگوں کو جنہوں نے یوم میلاد النبی کو بہ طور عید اپنایا۔"(١)
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اس میں اس کے لیے اجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم کی تعظیم بھی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک امر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔"(٢)
١۔بن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم:٤٠٤
٢۔ایضا،٤٠٦
ذیل میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اصل عربی عبارت اور اس کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔دونوں تحریروں کا موازنہ کر کے دیکھیے کہ "شیخ الاسلام" نے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کو بالکل ہی الٹ کر کیسے ایک ناجائز کام کو جائز ثابت کرنے کی علمی سعی فرمائی ہے، اور کس طرح وہ صدق و دیانت کے اس معیار سے بھی نیچے چلے گئے ہیں جو ایک عام مسلمان سے مطلوب ہے چہ جائیکہ کسی دینی راہنما کا یہ مقام ہو۔ ان کے پیروکاروں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ جو شخص سادہ لوح پیروکاروں کو دھوکہ دینے کےلیےعلمی بددیانتی کی اس سطح تک گر سکتا ہو اسے "شیخ الاسلام" کے نام سے پکارنا کیا معنی رکھتا ہے۔
وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه . وكذلك ما يحدثه بعض الناس ، إما مضاهاة للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام ، وإما محبة للنبي صلى الله عليه وسلم ، وتعظيمًا . والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع - من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا . مع اختلاف الناس في مولده . فإن هذا لم يفعله السلف ، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان خيرًا . ولو كان هذا خيرًا محضا ، أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا ، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا له منا ، وهم على الخير أحرص .
عید شریعت کا حصہ ہے۔ تو جس (عید کو) اللہ نے مشروع کیا ہے اس پر چلو اور جسے مشروع نہیں کیا تو پھر دین میں وہ چیزیں ایجاد نہ کی جائیں جو اس میں سے نہیں ہیں۔ یہی معاملہ ان امور کا ہے جنہیں بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں چاہے وہ نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد منانا ہو یا پھر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کا تقاضا سمجھ کران کے یوم ولادت کو عید بنا لینا، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ولادت کے دن کا تعین بجائے خود لوگوں کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ، میلاد النبی منانا ایسا کام ہے جس کا سلف ( صحابہ و تابعین ) سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر یہ کوئی اچھا یا خیر کا کام ہوتا تو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین اس کو ضرور بجا لاتے جبکہ اس کی ضرورت بھی تھی ۔(1) اور اسے کرنے میں کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں حائل نہ تھی (2) اور وہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور خیر کے کام کرنےکے لیے (بھی ہم سے بڑھ کر ) کر خواہش مند اور پھرتیلے تھے پھر بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا
وضاحت:
(1 ) یعنی یہ کہ وہ اپنی محبت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مزید اظہار کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پیدائش کے دن پر خوشیاں مناتے ، اور مخلتف قوموں اور بالخصوص عیسائیوں کی رغبت حاصل کرنے کے لیے اُن کی رسموں جیسی کوئی رسم بنا تے ، لیکن اُن کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ،اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھی ، من مانی تاویلات کر کے دین میں نئے کام ایجاد کرنااور ان کو نشر کرنا نہیں ۔
(2 ) کہ کہیں معاشرتی طور پر انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا اور نہ ہی شرعی طور پر ان پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی تھی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجتماعی عمل دین کے احکام جاننے اور سیکھنے میں سے ایک ہے لہذا خودصحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہی کوئی انہیں منع کرتا تو کرتا کوئی غیر صحابی ایسا نہ کر سکتا تھا کیونکہ صحابہ تو اس کے لیے دین سمجھنے کا ذریعہ اور حجت تھے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نےیہ کام نہیں کیا کیونکہ اس بات کی خوب سمجھ تھی اور بالکل درست سمجھ تھی کہ یہ کام بدعت ہے۔
 

محمد شعبان

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 03، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
19
ذیل میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی اصل عربی عبارت اور اس کا ترجمہ دیا جاتا ہے۔دونوں تحریروں کا موازنہ کر کے دیکھیے کہ "شیخ الاسلام" نے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کو بالکل ہی الٹ کر کیسے ایک ناجائز کام کو جائز ثابت کرنے کی علمی سعی فرمائی ہے، اور کس طرح وہ صدق و دیانت کے اس معیار سے بھی نیچے چلے گئے ہیں جو ایک عام مسلمان سے مطلوب ہے چہ جائیکہ کسی دینی راہنما کا یہ مقام ہو۔ ان کے پیروکاروں کے لیے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ جو شخص سادہ لوح پیروکاروں کو دھوکہ دینے کےلیےعلمی بددیانتی کی اس سطح تک گر سکتا ہو اسے "شیخ الاسلام" کے نام سے پکارنا کیا معنی رکھتا ہے۔
عید شریعت کا حصہ ہے۔ تو جس (عید کو) اللہ نے مشروع کیا ہے اس پر چلو اور جسے مشروع نہیں کیا تو پھر دین میں وہ چیزیں ایجاد نہ کی جائیں جو اس میں سے نہیں ہیں۔ یہی معاملہ ان امور کا ہے جنہیں بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں چاہے وہ نصاریٰ کی مشابہت کرتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کا میلاد منانا ہو یا پھر نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کا تقاضا سمجھ کران کے یوم ولادت کو عید بنا لینا، جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ولادت کے دن کا تعین بجائے خود لوگوں کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ، میلاد النبی منانا ایسا کام ہے جس کا سلف ( صحابہ و تابعین ) سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگر یہ کوئی اچھا یا خیر کا کام ہوتا تو صحابہ و تابعین اور تبع تابعین اس کو ضرور بجا لاتے جبکہ اس کی ضرورت بھی تھی ۔(1) اور اسے کرنے میں کوئی رکاوٹ ان کی راہ میں حائل نہ تھی (2) اور وہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت اور تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور خیر کے کام کرنےکے لیے (بھی ہم سے بڑھ کر ) کر خواہش مند اور پھرتیلے تھے پھر بھی انہوں نے ایسا نہیں کیا
وضاحت:
حضرت اتنا آگ بگولا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور اپنے آپ پر کنٹرول رکھتے ہوئے اخلاقیات کی حد میں ہی رہیں تو بہتر ہے وگرنہ میں بھی آپ کے اسلاف کے ایسے بہت قصے یہاں بیان کر سکتا ہوں۔ لیکن پھر آپ میں اور مجھ میں فرق کیا رہ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔

والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع -

آپ نے اس عبارت کا یہ ترجمہ کیا:

"ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ،"

آپ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
آگے جو تحریر آپ نے پیش کی اس پر بعد میں بات کروں گا۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہو سکے تو اپنے ڈیٹا کو سورس بتا دیں تاکہ میں یہ کتاب اصل عربی متن کے ساتھ وہاں پڑھ سکوں،۔
شکریہ!

ڈاکٹر طاہر القادری سے میں خود کئی معاملات میں اختلاف کرتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اخلاقیات کی حدوں کو بھی توڑ دوں۔
اچھے اخلاق اپنانے کی تو تلقین حضور نبی اکرم ﷺ نے کی تھی اور صحابہ نے بھی اس پر عمل کیا تھا کم از کم اسی پر آپ عمل کر لیں!!!!!
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
تفصیلی جواب تو کلیم بھائی ہی دیں گے۔پر کچھ گزارشات پیش کرنے کی جراءت کررہا ہوں
برادر محمد شعبان۔!
آگ بگولا تو آپ ہورہےہیں۔کلیم بھائی نے تو ایک آدمی کو جتنا مقام دینا چاہیے تھا اتنا ہی مقام دیا ہے۔بلکہ میں سمجھتا ہوں کچھ زیادہ ہی دیا ہے۔کلیم بھائی کی ’’شیخ الاسلام‘‘ سے مراد اگر شیخ فی الاسلام ہے تب درست ہے۔اور اگر اس کے علاوہ معنی ہے تو اس بات پر کلیم بھائی بھی غلطی پر ہیں۔ انزلوالناس منازلہم کے تحت مقام و عزت کلیم بھائی نےزیادہ ہی دے دی ہے۔مقام دینے کے باوجود بھی آپ ناراضی کا اظہار کررہےہیں۔واہ جناب واہ
حضرت اتنا آگ بگولا ہونے کی ضرورت نہیں۔
حضرت محمد شعبان صاحب حقیقت واضح کی اس وجہ سے یہ الزام۔
اور اپنے آپ پر کنٹرول رکھتے ہوئے اخلاقیات کی حد میں ہی رہیں تو بہتر ہے
ایک ناجائز کام کی پرورش کرنےوالے کا پردہ فاش کرنے پر آپ کنٹرول کنٹرول کی نصیحت کررہے ہیں۔اور حدوں میں رہنے کی تلقین۔جو بدعتی امور کو پھیلانےمیں دن رات مگن ہے۔ذریت بریلویت خاموشائی تماشا کیوں ہے؟
وگرنہ میں بھی آپ کے اسلاف کے ایسے بہت قصے یہاں بیان کر سکتا ہوں۔ لیکن پھر آپ میں اور مجھ میں فرق کیا رہ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔
کیا اور کس قسم کے قصے۔؟ مقام عالی ذی شان آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم اساسیات دین کو ماننےوالے ہیں آپ کی طرح قصوں،خوابوں، واقعات سے دین اخذ نہیں کرتے۔اگر ہمارے بھی کسی عالم نے کوئی اس طرح کا واقعہ بیان کیا ہے جو قرآن وحدیث کےخلاف ہےتو ہم اس کونہیں مانتے۔اور عجیب اینڈ حیرت شدہ بات یہ ہے کہ کلیم بھائی نے کوئی قصہ تو سنایا نہیں۔آپ کی طرف سے بنایا ہوا اصول ’’میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا تھوہ تھوہ ‘‘ کو واضح کیا ہے۔کہ جناب محترم مطلب کی عبارت اور مطلب کا معنی لینا یہودیوں کا فعل ہے۔
والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع -
آپ نے اس عبارت کا یہ ترجمہ کیا: "ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ،"
آپ یہ ترجمہ پیش کرکے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں کہ ترجمہ غلط ہے یا کوئی اور بات ہےواضح کریں۔
آپ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
ہم تو اللہ کے فضل سے جھانکتے ہیں اور اس امرکی تلقین بھی کرتے ہیں۔آپ لوگ خود تونہیں جھانکتے لیکن آگےتلقین کرنے کی بہت جلد بازی دکھاتے ہو۔
آگے جو تحریر آپ نے پیش کی اس پر بعد میں بات کروں گا۔۔۔۔۔۔۔
جی محترم جب بات کریں گےتو پھر بات سنیں گے بھی
اگر ہو سکے تو اپنے ڈیٹا کو سورس بتا دیں تاکہ میں یہ کتاب اصل عربی متن کے ساتھ وہاں پڑھ سکوں،۔ شکریہ!
فرسٹ آپ نے ہی کتاب کا حوالہ دیا تھا۔آپ کا حق تھا کہ آپ ساتھ کتاب کا اسکین صفحہ بھی پیش کرتے۔آپ نے یہ کام کیوں نہیں کیا۔؟ اور پھر مطالبہ کررہے ہیں دوسروں سے۔؟
ڈاکٹر طاہر القادری سے میں خود کئی معاملات میں اختلاف کرتا ہوں
اچھا جی
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اخلاقیات کی حدوں کو بھی توڑ دوں۔
نہیں اختلاف کرو دلائل سے۔ایسی بات نہ ہو کہ اختلاف بھی ہو اور پلے دلیل بھی نہ ہو ۔جیسا کہ اس مسئلے میں آپ کررہےہیں۔
اچھے اخلاق اپنانے کی تو تلقین حضور نبی اکرم ﷺ نے کی تھی اور صحابہ نے بھی اس پر عمل کیا تھا کم از کم اسی پر آپ عمل کر لیں!!!!!
جناب محمد شعبان صاحب
آپ نے ایک ناقص عبارت پیش کرکے اور اس سے ایک بدعت کے جواز پر دلیل پکڑتے ہوئے اس کا الزام شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے سر ڈال دیا۔نعوذباللہ
اور پھر تعاقب میں کلیم بھائی نےکچھ سخت اور مناسب الفاظ کہے تو آپ میں گرمی آگئی ۔؟ اناللہ وانا الیہ راجعون
اور اس طرح کا انداز آپ کے انداز کو دیکھتے ہوئے اپنایا گیا ہے۔آئندہ بات کرتے ہوئے انداز درست ہونا چاہیے۔جزاکم اللہ
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
حضرت اتنا آگ بگولا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اور اپنے آپ پر کنٹرول رکھتے ہوئے اخلاقیات کی حد میں ہی رہیں تو بہتر ہے وگرنہ میں بھی آپ کے اسلاف کے ایسے بہت قصے یہاں بیان کر سکتا ہوں۔ لیکن پھر آپ میں اور مجھ میں فرق کیا رہ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔

والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع -

آپ نے اس عبارت کا یہ ترجمہ کیا:

"ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ،"

آپ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
آگے جو تحریر آپ نے پیش کی اس پر بعد میں بات کروں گا۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہو سکے تو اپنے ڈیٹا کو سورس بتا دیں تاکہ میں یہ کتاب اصل عربی متن کے ساتھ وہاں پڑھ سکوں،۔
شکریہ!

ڈاکٹر طاہر القادری سے میں خود کئی معاملات میں اختلاف کرتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اخلاقیات کی حدوں کو بھی توڑ دوں۔
اچھے اخلاق اپنانے کی تو تلقین حضور نبی اکرم ﷺ نے کی تھی اور صحابہ نے بھی اس پر عمل کیا تھا کم از کم اسی پر آپ عمل کر لیں!!!!!
ہم جو کہنا چاہتے تھے وہ گڈمسلم بھائی نے کہ دیا
پھر بھی ہم آپ سے اتنا کہینگے کے موحترم محمد شعبان بھائی، کلیم بھائی نے کہاں غیر اخلاقی بات کہی اور کہاں آگ بگولا ہویے ہیں ؟
اور یہ کنٹرول کی بات آپ خود سے تو نہیں کہ رہے ؟ اگر ایسا ہے تو آپکو کہنا چاہیے کیوں کے آپکو کنٹرول کی ضرورت بھی ہے

الله ہمیں دین کی صحیح سمجھ عتا فرماے آمین
 

محمد شعبان

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 03، 2011
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
19
گڈ مسلم اور حافظ نوید آپ سے سوال میں نے کیا ہی نہیں تھا آپ تو ویسے ہی آپے سے باہر ہو رہے ہیں!!!!!
باقی رہ گئی بات شیخ فی الاسلام والی تو یہ گڈ مسلم مجھے تو آپ شیخ فی الاسلام لگ رہے ہیں!!

میرا سوال کلیم حیدر سے ہے اور وہ ابھی تک قائم ہے:

والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع -

آپ نے اس عبارت کا یہ ترجمہ کیا: "ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ،"

کیا اس عبارت کا یہی ترجمہ ہے؟؟؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
میرا سوال کلیم حیدر سے ہے اور وہ ابھی تک قائم ہے:
والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع -
آپ نے اس عبارت کا یہ ترجمہ کیا: "ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ،"
کیا اس عبارت کا یہی ترجمہ ہے؟؟؟
عزیزبھائی آپ نےڈاکٹر صاحب کی کتاب کا جو اقتباس نقل کیا ہے۔اس کا لنک یہ ہے۔(جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَئمہ و محدثین کی نظر میں)
علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن تیمیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
"اور اسی طرح ان امور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کر لیتے ہیں؛ میلاد عیسیٰ علیہ السلام میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی محبت اور تعظیم کےلیے۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، ان لوگوں کو جنہوں نے یوم میلاد النبی کو بہ طور عید اپنایا۔"(١)
اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اس میں اس کے لیے اجر عظیم بھی ہے کیوں کہ اس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم کی تعظیم بھی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک امر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔"(٢)
١۔بن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم:٤٠٤
٢۔ایضا،٤٠٦
اس اقتباس میں ایک تو ڈاکٹر صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی عبارت کا مفہوم غلط لیا اور الزام کا مستحق شیخ ابن تیمیہ ؒ کو ٹھہرانے کی ناکام کوشش بھی کی۔اور پھر تیسری بات عبارت بھی پوری پیش نہیں کی(گمان غالب ہے) اس وجہ سے کہ کہیں عبارت کے سیاق و سباق سے حقیقت واضح نہ ہوجائے۔
ڈاکٹرصاحب نے عبارت کا آغاز کیا ’’وکذلک ما يحدثه بعض الناس‘‘ سے اور اس سے ماقبل عبارت ’’وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه ‘‘ جو حقیقت کو واضح کررہی تھی اس کو نقل بھی نہیں کیا۔
یہ تو اس قبیل سے ہوگیا نہ کہ ایک آدمی کہتا ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں نماز کے قریب جانے سے ہی منع کردیا ہے اور دلیل میں یہ آیت ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَ‌بُوا الصَّلَاةَ‘‘ پیش کردیتا ہے تو کیا اس کی دلیل کو آپ مان جائیں گے۔؟اگر اس آدمی کی دلیل کو نہیں مانیں گے تو پھر ڈاکٹرصاحب کی بات بھی اس قبیل سے ہے اس کو کیوں مان رہے ہیں ؟
جب شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے شروع میں ہی کہہ دیا کہ ’’وإنما العيد شريعة ، فما شرعه الله اتبع . وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه ‘‘ تو اب کیا کچھ باقی رہ جاتا ہے؟
آپ نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ آپ نے ان الفاظ کا ترجمہ ’’والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد ، لا على البدع‘‘یہ کیا ہے۔
’’ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ‘‘
اور آپ نے خود ڈاکٹر صاحب کا جو ترجمہ نقل کیا ہے وہ یہ ہے
’’اور اللہ تعالیٰ انہیں اس محبت اور اجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر،‘‘
عزیز بھائی جب عبارت کےسیاق و سباق میں یہ الفاظ موجود ہیں
’’وإنما العيد شريعة‘‘ اور پھر ’’وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه‘‘ اور پھر ’’اختلاف الناس في مولده‘‘ اور پھر ’’لم يفعله السلف‘‘ اور پھر ’’لو كان خيرًا‘‘ اور پھر ’’وهم على الخير أحرص‘‘ وغیرہ وغیرہ
جب ان سب الفاظ جو سیاق و سباق میں موجود ہیں کے ہوتے ہیں عبارت کا ترجمہ اگر ایسے کردیا گیا
’’ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا کرنے والوں کو اِس محبت اور محنت پر ثواب دے ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی پیدائش والے دِن کو منانے کی بدعت کو اپنانے پر ثواب نہیں دے گا ‘‘
تو آپ بار بار پوچھ رہے ہیں کیا یہی ترجمہ ہے؟
عزیز بھائی اس کا صحیح ترجمہ اب آپ پیش فرمادیں ۔اگر درست ہوا تو ماننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
ایہاں پر ایک سوال پوچھ رہا ہوں وہ یہ کہ یہ جملہ ’’لا على البدع‘‘ کا تعلق کس جملہ سے ہے۔یا دوسرے الفاظ میں یہ جملہ کس طرف اشارہ ہے۔یہ بھی وضاحت فرمادیں ہوسکتا ہے کہ جو عبارت کا اصل مقصود ہے وہ آپ سمجھ ہی نہ رہے ہوں یا سمجھ تو آگئ ہو پر جان بوجھ کر انجانے بننے کی کوشش کررہے ہوں۔یا مجھے سمجھنے میں غلطی ہورہی ہو۔اصل کتاب سے پوری عبارت کے مفہوم کو سامنے رکھیں تک بات سمجھ آئے گی۔ان شاءاللہ
باقی گڈمسلم بھائی نے ایک بات کی طرف اشارہ کیا ہے
آپ یہ ترجمہ پیش کرکے ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں کہ ترجمہ غلط ہے یا کوئی اور بات ہےواضح کریں۔
تو اس پر بھی نظر کرنے کی ضرورت کریں۔
 
Top