• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد

شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ممانعت پر دلیل دو
آیات قرآنی
جب یہودو نصاری نے یہ دعوی کیا کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گاتو اللہ نے رسول اللہ ﷺ سے فرمایا
قل ھاتو بر ھانا کم ان کنتم صادقین(البقرہ۱۱۱)
محبوب ان کو فرماو کہ اپنی (بات کی) دلیل لاو اگر تم سچے ہو
یعنی جب یہوودنصاری نے اپنے سوا سب کے جنت جا نے کی نفی کی تو خدا تعالی نے ان کے نفی دعوی پر ثبوت مانگا۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا
قل من حرم زینۃاللہ التی اخرج لعبادۃوالطیبات من الرزق(الاعراف۳۲)
فرمائیے اللہ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے اور (کسنے حرام کئے )لذیذاور پاکیزہ کھانے
یہاں بھی کسی چیز کو غلط ،ناجائز،حرام اور اس کے متعلق منفی دعوی کرنے والے سے ثبوت مانگا
احادیث مبارکہ
احادیث بھی اس امر پر گواہ ہیں کہ جب تک کسی کام روکا نہ جائے تب تک اس کو ممنوع اور ناجائز نہیں سمجھنا چاہیے۔
۱۔حضورﷺ نے ارشاد فرمایا :
حلال ہے وہ جسکو اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جس کو اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کیا ۔
وما سکت عنہ فھو مما عفی عنہ
اور جس کا ذکر نہیں کیا وہ سب معاف ہیں (ابن ماجہ ۲۴۹)
ایک اور مقام پر حضورﷺنے ارشاد فرمایا:
ذرنی ماترکنکم
اس کا ترجمہ وہابیوں کے شیخ اسلام نے یوں کیا ہے
جب تک منع نہ کرو منع مت سمجھو(فتاوی ثنائیہ ج ۱ ص ۵۲۲)
اکابرین امت کے اقوال
فتح الباری میں ہے
ان کانت مما تندرج تحت مستحن فی الشرع فھی حسنۃ وان کانت مما تندرج تندرج تحت مستقبح فی لاشرع فھی من قسم المباح(ج ۳ ص ۲۹۳)
در مختار میں ہے
لا یلزم منہ ان یکون مکروھاالابنہی خاص،لا ن الکراھۃحکم شرعی فلا بد لہ من دلیل(ج۱ص۶۵۳)

وہابی اکابر کے اقوال
وہابی مولوی ثنا اللہ الکھتا ہے
جواز کے بر خلا ف دعوی کرنے والا مدعی ہے اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت شرع شریف سے دیکھاوے(فتاوی ثنائیہ ج ۱ ص ۱۱۶)
دوسرے مقام پر ایک مصلے پر دوبارہ نماز پڑھنے کے متعلق سوال کے جواب میں لکھتا ہے
جائز ہے منع کی کوئی دلیل نہیں (ایضا ج ۱ص ۵۲۲)
اسی طرح فتاوی اہل حدیث میں ہے
برات ضروری نہیں مگر کسی روایت میں منع بھی نہیں۔(ج ۲ س۴۰۰)
اسی کے صفحہ ۴۲۶پر لکھتے ہیں
حرام نہیں کہہ سکتے حرمت کی کوئی دلیل نہیں
اسی طرح وہابی حضرات کے مولوی ابو البرکات سے جب گردوں اور کپوروں کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے جواب دیا کہ
ان دونوں کے حلال ہونے کی دلیل یہی ہے کہ قرآن و حدیث نے ان سے منع نہیں کیا ۔ہر چیز کی اصل حلت ہے اگر قرآن و حدیث میں کسی چیز کی حرمت نہ بیان کی گئی ہو(فتاوی برکاتیہ صفحہ ۲۰۸)
ایسے ہی وحید الزماں لکھتے ہیں
کل شی ی لک مطلق حتی یرد فیہ نھی
ہر چیز کا کرنا تجھ کو روا ہے یہاں تک کے اس کی ممانعت میں کچھ وارد نہ ہوجائے(لغات الحدیث ج۳ ص ۳۸)

Back to Conversion Tool
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
۔میلاد بشر کا ہوتا ہے۔
جواب:
وہابی دیوبندی حضرات عام طور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جی میلاد تو بشر کا ہوتا ہے اور تم نبی کو بشر نہیں مانتے۔تو جوابا عرض ہے کہ جھوٹھو ں پر اللہ کی لعنت الحمد اللہ ہم نبی اکرم کو بے مثل بشر مانتے ہیں ۔اور جو اس کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے۔لہذا یہ اعتراض ہم پر فٹ نہیں ہوتا۔پھر خود وہابی ابو ایوب لکھتا ہے
ظاہر بریلوی حضرات نبی اکرم کی بشریت کا میلاد مناتے ہیں (۵۰۰ با ادب سوالات صفحہ ۵۳)اس کو کہتے اپنے منہ اپنا تھپڑ۔اسی طرح مفتی مختار الدین لکھتا ہے
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ بریلوی بھی نبی اکرم ﷺ کی بشریت کے قائل ہیں۔(راہ محبت ص ۳۴)
آگے لکھتے ہیں
اس طرح بعض بریلوی علما نبی اکرم کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تو ایسے الزامات لگانا ان کے ساتھ بہت زیادتی اورظلم ہے(ص ۴۰)
اسی طر ح وہابیوں کے مولوی لکھتے ہیں
قائدین بریلویہ کے فتو ی و فیصلہ اوررعقیدہ کہ رسول بشر ہوتے ہیں۔(مقیاس حقیقت ص ۱۲۶)
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا کہ ہم نبی اکرم کو بشر تسلیم کرتے ہیں
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش کے دِن کو کِسی طور پر بھی "تہوار، عید "بنانا دِین میں نیا کام ہے کیونکہ ایسا کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سُنّت میں، نہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی سُنّت میں، بلکہ یہ کام سراسر خِلافِ سُنّت ہے اور جو بھی عقیدہ، عِبادت، دِین سے متعلقہ کام، سُنّت کے خِلاف ہو، سُنّت میں اُس کی کوئی دلیل نہ ملتی ہو، اُسے ہی بدعت کہا جاتا ہے، اور ہر بدعت گُمراہی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں جانے والی ہے، کِسی بدعت کو اچھا اور کِسی بدعت کو بُرا کہنے کی کوئی گنجائش نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فیصلہ ہے: [FONT=Noor_e_Quran]فَاِنَّ مَن یَعِیشُ مِنکُم فَسیَری اِختلافاًً کثیراً، فَعَلِیکُم بِسُنّتِی وَ سُنَّۃ الخُلفاء الراشدینَ المھدیَّینَ، عضُّوا علیھا بالنَواجذِ، وَ اِیَّاکُم وَ مُحدَثاتِ الاَمُور، فَاِنَّ کلَّ بِدَعَۃٍ ضَلالَۃٌ، وَ کلَّ ضَلالۃٍ فِی النَّارِ[/FONT]: پس تُم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، تو تُم پر میری اور ہدایت یافتہ، ہدایت دینے والے خلفاء کی سُنّت فرض ہے اُسے دانتوں سے پکڑے رکھو، اور نئے کاموں سے خبردار، بے شک ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی آگ میں ہے صحیح ابن حبان /کتاب الرقاق، صحیح ابن خُزیمہ /حدیث ١٧٨٥/کتاب الجمعہ /باب٥١،سُنن ابن ماجہ /حدیث ٤٢/باب ٦، مُستدرک الحاکم حدیث ٣٢٩، ٣٣١
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : [FONT=Noor_e_Quran] مَن عَمِلَ عملاً لَیس عَلیہِ امرُنا فَھُو ردٌ[/FONT]: جِس نے ایسا کام کیا جو ہمارے معاملے کے مُطابق نہیں ہے وہ رد ہے صحیح البُخاری /کتاب بد ء الوحی / باب ٢٠، صحیح مُسلم /حدیث ١٧١٨۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکے تھے اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل۔
مصنف مذکورہ کے اس اعتراض کے دو جز ہیں
۱۔عیدیں دو ہیں۔
۲۔عید میلاد کی اصل نہیں۔
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔
۱۔ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)
پھر مفتی شفیع، اشرف غلی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن
کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔
۲۔دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضورﷺ بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔
۳۔آزادی ملنے پر عید۔
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضورﷺ کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ
رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار ﷺنے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔
۴۔عید کا روزہ۔
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور ﷺ نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضورﷺ نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)۵۔عید میلاد کا فقہ میں ذکر
ایک مولوی صاحب نے یہ اعتراض کیا کہ جی کیا فقہ میں یا حدیث کی کسی کتاب میں عید میلاد کا ذکر ہے؟؟
میں کہتا ہوں وہابیوں کے پاس دماغ نہیں بھوسہ ہے جب ہم یہ بتا چکے ہیں کہ یہ صرف ایک عرفی عید ہے تو پھر اس قسم کے
سوالات پوچھنا نبی اکرم ﷺ سے بغض کا اظہار ہے کہ نہیں۔باقی تسلی کے لیے ریاض صالحین کے شرعہ کے یہ الفاظ بھی ملاحظہ کرتے جائے ۔مفصل گفتگو اوپر کی جا چکی ہے۔
و نضرب لھذا مثلا با ولئیک الذین ابتدعو ا عید میلاد الرسول علیہ الصلاۃ والسلام

Back to Conversion Tool
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
یہاں اب ہم غیر مقلدوں کو بھی آئینہ دیکھاتے ہیں کہ یہ جو کہتے ہیں کہ جی صحابہ نے منایا کہ نہیں تو ان گزارش ہے کہ جب تمہارے نزدیک فعل صحابی حجت نہیں پھر کس منہ سے دلیل مانگتے ہو۔
وھابیوں کا شیخ اکل نذیر حسین لکھتا ہے
فہم صحابی حجت نہیں (فتاوی نذیریہ ج۱ ص ۶۲۲)
ایسے ہی لکھا کہ صحابی کے قول سے حجت نہیں لی جا سکتی (فتاوینذیریہ ج ۱ ص ۳۴۰)
نواب صدیق کا بیٹا لکھتا ہے
اقوال صحابہ حجت نیست(عرف الجادی ص ۴۴)
اسی طرح فتاوی سلفیہ میں مولوی اسماعیل لکھتا ہے کہ صحاب کرام کا فعل سنت صحیحہ کے خلاف ہے (۱۰۷)
تو ہمارا سوال ہے جب تم لوگوں کے نزدیک صحابہ کا فہم قول و فعل حجت نہیں وہ سنت کے خلاف کام کر سکتے ہیں تو بد بختوں دلیل کس لیے مانگتے ہو۔
حضور کا قول حجت نہیں ۔
وھابی مولوی چونا گڑھی لکھتا ہے
جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو ،اس دین والے اآج ایک امتی کی رائے کو دلیل سمجھنے لگے(طریق محمدی ص ۵۹)
جب تمہارے نزدیک حضورﷺ تک قول حجت نہیں۔تو دلیل کس منہ سے مانگتے ہو۔

Back to Conversion Tool
 
Top