• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عید میلاد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جشن عیدمیلاد کے نقصانات !
۱) دین اسلام میں ایک نئی چیز یعنی بدعت جاری کی گئی۔
۲) نبیﷺ کے یوم وفات کو یوم ولادت سمجھ کر جشن منانے کی رسم شروع کی گئی۔
۳) جشن میلاد نہ منانے والوں پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔
۴) جشن میلاد پرہر سال لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کئے جاتے ہیں۔
۵) خانۂ کعبہ اور روضۂ نبویﷺ کے ماڈل بنا کر ان کے طواف کئے جاتے ہیں۔
۶) گلی، کوچوں میں پہاڑیاں بنا کر میلے لگائے جاتے ہیں۔
۷) میلا دکے جلوس میں بھنگڑے ، لڈیاں اور ناچ گانے جیسے بیہودہ کام کئے جاتے ہیں۔
۸) بینڈ باجوں اور اخلاق سوز گانوں کے ساتھ رسولِ اکرمﷺ کا یومِ ولادت منایا جاتاہے۔
۹) فلمی گانوں کی دھن و طرز پر نعتیں اور شرکیہ قوالیاں گائی جاتی ہیں۔
۱۰) ملحد و بے دین فنکاروں اور اداکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔
۱۱) جشن میلاد کے نام پر جہالت اور فحاشی کوبھی عروج دیا جاتا ہے۔
۱۲) میلاد کی رات قمقمے روشن کرکے بلا ضرورت لائٹنگ کی جاتی ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
عیدمیلاد منانے والوں سے چند سوالات !
۱) عید میلاد فرض (واجب) ہے، سنت ہے یا مستحب؟
۲) جو جشن میلاد نہیں مناتا، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
۳) اللہ کے رسولﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ، ائمہ کرام نے یہ جشن کیوں نہ منایا؟ (ضرورت نہ سمجھی یا کوئی رکاوٹ تھی یاسستی اور لاپرواہی کی یا خلافِ شرع سمجھا یا علم نہ تھا یا ترغیب نہیں دی گئی، یا دل حب ِرسول سے خالی تھا ؟ نعوذ باللہ)
۴) گذشتہ چودہ صدیوں میں صحابہ و تابعین سمیت جن مسلمانوں نے یہ جشن نہیں منایا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
۵) بارہ ربیع الاول یوم وفات بھی ہے جہاں پیدائش اور وفات (یعنی خوشی اور غم) جمع ہوجائیں، وہاں خوشی کو ترجیح دی جاتی ہے یا غم کو؟
۶) یومِ ولادت کی خوشی منانا ضروری ہے تو یومِ وفات کا رنج و غم منانا کیوں ضروری نہیں؟ جبکہ بقولِ دونوں کی تاریخ بھی ایک ہی ہے؟
۷) اگر رسولِ اکرمﷺ کے یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا جائز ہے تو شیعوں کا اہل بیت کے رنج و غم میں ماتم نکالنا کیوں جائز نہیں؟
۸) اللہ کے رسولﷺ نے دو عیدیں مقرر فرمائی تھیں مگر یہ تیسری 'عید' کہاں سے آئی؟
۹) اگر یہ عید ہے تو اس دن اللہ کے رسولﷺ روزہ کیوں رکھتے تھے؟ عید کے روز تو روزہ رکھنا حرام ہے؟
۱۰) اگر یہ عید ہے تو باقی دو عیدوں کی طرح اس روز نمازِ عید کا اہتمام کیوں نہیں کیاجاتا؟​
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین

محترم @ابوالمریم بھائی! تحریر کا حوالہ بھی درکار ہے۔ جزاک اللہ خیرا۔
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
جب آپ لوگوں کے نزدیک صحابہ کا فعل حجت نہیں تو ہمارے لیے جہلا کا فعل کیسے حجت ہو گیا؟؟؟
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
ابو المریم صاحب کے ًضمون کا جواب حاضر ہے۔
عید میلاد النبیﷺ​
اعتراض نمبر ۵:​
اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکے تھے اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل۔​
مصنف مذکورہ کے اس اعتراض کے دو جز ہیں​
۱۔عیدیں دو ہیں۔​
۲۔عید میلاد کی اصل نہیں۔​
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔​
۱۔ہر خوشی والا دن عید ہے​
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں​
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)​
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)​
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)​
پھر مفتی شفیع، اشرف غلی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔​
۲۔دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔​
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ​
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا​
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔​
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔​
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضورﷺ بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔​
۳۔آزادی ملنے پر عید۔​
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔​
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :​
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)​
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔​
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا​
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)​
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضورﷺ کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔​
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔​
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے​
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار ﷺنے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔​
۴۔عید کا روزہ۔​
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور ﷺ نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔​
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضورﷺ نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔​
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔​
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)​
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔​
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو​
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو​
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے​
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔​
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)​
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)​
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)​
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جب آپ لوگوں کے نزدیک صحابہ کا فعل حجت نہیں تو ہمارے لیے جہلا کا فعل کیسے حجت ہو گیا؟؟؟
آپ اس بات پر بہت زور دے رہے ہیں کہ صحابہ کا فعل اہلحدیث کے نزدیک حجت نہیں۔ جبکہ یہ اس دھاگے کا موضوع نہیں۔ اگر آپ کے نزدیک صحابہ کا فعل حجت ہے تو پھر بتائیے کہ کن کن صحابہ نے عید میلاد کا جشن منایا ہے؟

رہی صحابہ کے اقوال کی حجیت کی بات تو اس اشکال کا ازالہ ایک اور دھاگے میں محترم خضر حیات بھائی نے عمدگی سے کر دیا ہے:

لنک

تو اس میں غلط کیا ہے ؟ صحابہ کامتفقہ فہم قابل حجت ہے ۔ باقی جہاں صحابہ کرام کا اختلاف ہوجائے پھر جس قول کی قرآن وسنت سے تائید ہو اس کو اخذ کیاجائے گا ۔ حافظ ابن حزم علیہ الرحمہ نے اس حوالے بڑی شاندار بحث کی ہے فرماتے ہیں :

أما قوله صلى الله عليه وسلم عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين فقد علمنا أنه صلى الله عليه وسلم لا يأمر بما لا يقدر عليه ووجدنا الخلفاء الراشدين بعده صلى الله عليه وسلم قد اختلفوا اختلافا شديدا فلا بد من أحد ثلاثة أوجه لا رابع لها :
( الوجہ الأول )
إما أن نأخذ بكل ما اختلفوا فيه وهذا ما لا سبيل إليه ولا يقدر عليه إذ فيه الشيء وضده ولا سبيل إلى أن يورث أحد الجد دون الإخوة بقول أبي بكر وعائشة ويورثه الثلث فقط وباقي ذلك للإخوة على قول عمر ويورثه السدس وباقيه للإخوة على مذهب علي وهكذا في كل ما اختلفوا فيه فبطل هذا الوجه لأنه ليس في استطاعة الناس أن يفعلوه فهذا وجه
( الوجہ الثانی )
أو يكون مباحا لنا بأن نأخذ بأي ذلك شيئا وهذا خروج عن الإسلام لأنه يوجب أن يكون دين الله تعالى موكولا إلى اختيارنا فيحرم كل واحد منا ما يشاء ويحل ما يشاء ويحرم أحدنا ما يحله الآخر وقول الله تعالى {حرمت عليكم لميتة ولدم ولحم لخنزير ومآ أهل لغير لله به ولمنخنقة ولموقوذة ولمتردية ولنطيحة ومآ أكل لسبع إلا ما ذكيتم وما ذبح على لنصب وأن تستقسموا بلأزلام ذلكم فسق ليوم يئس لذين كفروا من دينكم فلا تخشوهم وخشون ليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم لأسلام دينا فمن ضطر في مخمصة غير متجانف لإثم فإن لله غفور رحيم} وقوله تعالى {لطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان ولا يحل لكم أن تأخذوا ممآ آتيتموهن شيئا إلا أن يخافآ ألا يقيما حدود لله فإن خفتم ألا يقيما حدود لله فلا جناح عليهما فيما فتدت به تلك حدود لله فلا تعتدوها ومن يتعد حدود لله فأولئك هم لظالمون} وقوله تعالى {وأطيعوا لله ورسوله ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم وصبروا إن لله مع لصابرين} يبطل هذا الوجه الفاسد ويوجب أن ما كان حراما حينئذ فهو حرام إلى يوم القيامة وما كان واجبا يومئذ فهو واجب إلى يوم القيامة وما كان حلالا يومئذ فهو حلال إلى يوم القيامة
وأيضا فلو كان هذا لكنا إذا أخذنا بقول الواحد منهم فقد تركنا قول الآخر منهم ولا بد من ذلك فلسنا حينئذ متبعين لسنتهم فقد حصلنا في خلاف الحديث المذكور وحصلوا فيه شاؤوا أو أبوا ۔۔۔
فإذ قد بطل هذان الوجهان فلم يبق إلا
الوجه الثالث
وهو أخذ ما أجمعوا عليه وليس ذلك إلا فيما أجمع عليه سائر الصحابة رضوان الله عليهم معهم وفي تتبعهم سنن النبي صلى الله عليه وسلم والقول بها وأيضا فإن الرسول صلى الله عليه وسلم إذا أمر باتباع سنن الخلفاء الراشدين لا يخلو ضرورة من أحد وجهين إما أن يكون صلى الله عليه وسلم أباح أن يسنوا سننا غير سننه فهذا ما لا يقوله مسلم ومن أجاز هذا فقد كفر وارتد وحل دمه وماله لأن الدين كله إما واجب أو غير واجب وإما حرام وإما حلال لا قسم في الديانة غير هذه الأقسام أصلا فمن أباح أن يكون للخلفاء الراشدين سنة لم يسنها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقد أباح أن يحرموا شيئا كان حلالا على عهده صلى الله عليه وسلم إلى أن مات أو أن يحلوا شيئا حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أن يوجبوا فريضة لم يوجبها رسول الله صلى الله عليه وسلم أو أن يسقطوا فريضة فرضها رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يسقطها إلى أن مات وكل هذه الوجوه من جوز منها شيئا فهو كافر مشرك بإجماع الأمة كلها بلا خلاف وبالله تعالى التوفيق فهذا الوجه قد بطل ولله الحمد وأما أن يكون أمر باتباعهم في اقتدائهم بسنته صلى الله عليه وسلم فهكذا نقول ليس يحتمل هذا الحديث وجها غير هذا أصلا وقال بعضهم إنما نتبعهم فيما لا سنة فيه قال أبو محمد وإذ لم يبق إلا هذا فقد سقط شغبهم وليس في العالم شيء إلا وفيه سنة منصوصة وقد بينا هذا في باب إبطال القياس من كتابنا هذا وبالله تعالى التوفيق


( الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم ج 6 ص 76 وما بعدہا)
اس عبارت کا خلاصہ یوں ہے :
صحابہ کے ما بین اختلاف ہو تو اب یہاں تین میں سے کوئی ایک صورت ہوسکتی ہے
اول : سب کی پیروی کی جائے ۔ اور یہ عقلا محال ہے ۔
ثانی : جس کی دل چاہے مان لی جائے باقی کو چھوڑ دیا جائے ۔ یہ شرعا محال ہے کیونکہ دین کسی کے مرضی پر مبنی نہیں ہے ۔ ویسے بھی کسی ایک کی بات کو مان لینا اور باقی سب کو چھوڑ دینا یہ ان کی سنت کی پیروی نہیں کہلائے گا ۔
ثالث : اب صرف تیسری صورت بچتی ہے کہ جن مسائل پر ان کا اتفاق ہے اس کی اتباع کی جائے ۔
اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی سنت کی پیروی کا حکم دیا ہے تو اس کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں :
اول : یا تو وہ سنت رسول کے خلاف کریں گے ۔ اس بات کا ان کے بارے میں مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
ثانی : یا سنت رسول کے مطابق افعا ل سر انجامدیں گے ۔ اور یہی صورت مطلوب و مقصود ہے اور اصلا یہ اتباع سنت رسول ہی ہے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
ابو المریم صاحب کے ًضمون کا جواب حاضر ہے۔
عید میلاد النبیﷺ
اعتراض نمبر ۵:
اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکے تھے اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل۔
مصنف مذکورہ کے اس اعتراض کے دو جز ہیں
۱۔عیدیں دو ہیں۔
۲۔عید میلاد کی اصل نہیں۔
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔
۱۔ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)
پھر مفتی شفیع، اشرف غلی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔
۲۔دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضورﷺ بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔
۳۔آزادی ملنے پر عید۔
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضورﷺ کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار ﷺنے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔
۴۔عید کا روزہ۔
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور ﷺ نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضورﷺ نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)
آپ یہ پوسٹ پہلے بھی کر چکے ہیں۔ بار بار کاپی پیسٹ مت کیجئے، بلکہ گزشتہ پوسٹ کا ریفرنس دے دیا کریں۔

اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر آپ کے نزدیک یہ لغوی اور عرفی عید ہے اور اس کے فقہی احکام تک نہیں۔ تو اس کو دین کا مسئلہ کیوں بنایا ہوا ہے؟ جو یہ عید نہ منائے اس پر کیوں حکم لگاتے ہیں؟
آپ دلیل دے رہے ہیں کہ جمعہ کو عید کہا گیا ہے ۔ تو اگر آپ کو اس دلیل کے حساب سے لغوی اور عرفی عید ہی منانی تھی تو پیر کو عید کا دن قرار دیتے ۔ کسی کو اختلاف نہ ہوتا۔ اگر پیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر اپنا میلاد منایا ہے تو آپ بھی پیر کے دن روزہ رکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی بھی ہو جاتی، محبت کا اظہار بھی اور اختلاف بھی کچھ نہ ہوتا۔

اگر آپ کے نزدیک یہ لغوی اور عرفی عید ہی ہے اور اسلام کا دیا گیا تہوار نہیں۔ تو اس کو تیسری عید کیونکر کہا جاتا ہے؟ کیا اسے تیسری عید کہنا خودبخود اسے دیگر دو عیدوں کی صف میں لا کھڑا نہیں کرتا؟

اگر یہ عید منانا آپ کے نزدیک مستحب ہے تو پھر یہ بتائیے کہ ایک مستحب پر اس قدر اصرار کیوں؟ اشراق کی نماز پڑھنا بھی مستحب ہے۔ کوئی پڑھے پڑھے، نا پڑھے ناپڑھے۔ لیکن اگر کوئی گروہ نماز اشراق پر سختی سے عمل درآمد شروع کر دے۔ بلکہ اسے اپنا گروہی شعار بنا لے۔ جو یہ نماز نہ پڑھے اس پر منکر نماز وغیرہ کے فتوے چسپاں کر دے۔ کوئی اس کو سمجھائے تو نماز اشراق کے دلائل پیش کرنے لگ جائے۔ تو کیا یہ عمل درست ہوگا؟ جبکہ اشراق تو وہ عمل ہے جو صحابہ کرام اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ کہاں خود سے گھڑ کر ایک دن کو عید قرار دینا، اور اسے دیگر دو عیدوں سے بڑی اور بہتر عید سمجھنا۔ عملاً سارے کام وہی کرنا جو ایک شرعی عید کے ساتھ کئے جاتے ہیں۔ اور دلائل کی باری آئے تو اتنے تہی دامن کہ عرفی و لغوی عید کے دلائل شروع۔
 
شمولیت
مارچ 07، 2014
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
38
ابو المریم صاحب کے ًضمون کا جواب حاضر ہے۔
عید میلاد النبیﷺ
اعتراض نمبر ۵:
اس کے بعد معترض مذکورہ نے پھر چلاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی باتیں دہرائیں جو وہ پہلے کر چکے تھے اس کے بعد یہ اعتراض کیا کہ عیدیں صرف دو ہیں اس عید کا نہ تو ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی اصل۔
مصنف مذکورہ کے اس اعتراض کے دو جز ہیں
۱۔عیدیں دو ہیں۔
۲۔عید میلاد کی اصل نہیں۔
پہلے کا جواب تو یہ کہ غیر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیں اسلام نے دو تہوار دیے ہیں ۔جنہیں عید الفطر اور عید الاضحی کہا جاتا ہے۔جبکہ کسی خوشی ،فرط مسرت کے موقع کو لفط عید سے تعبیر کرنا اور منانا شرعی طور پر ممنوع نہیں۔
۱۔ہر خوشی والا دن عید ہے
عید کے معنی ہیں ہر خوشی والا دن۔امام راغب اصفہانی کہتے ہیں
یستعمل العید فی کل یوم فیہ مسرۃ(المفرادات۳۹۳)
خوشی والے دن کو عید کہتے ہیں (تفسیر مظہری ج۲)
والعید یوم السرور(تفسیر خاذن ج۱)
پھر مفتی شفیع، اشرف غلی نے عید کا معنی ایک خوشی کی بات لکھاہے۔اسی طرح عبد الماجد دریاباری نے بھی اس کا ترجمہ ایک جشن کیا ہے۔صلاح الدین یوسف نے بھی اس کا ترجمہ ایک خوشی کی بات کیا ہے ۔
۲۔دستر خوان کے نازل ہونے پر عید۔
قرآن مجید فرقان حمید میں موجود ہے کہ
قال عیسی ابن مریم اللہماربنا انزل مائدۃمن السماء تکون عید الالنا واٰخرنا
ترجمہ:عرض کیا عیسی ابن مریم نے کہ اے اللہ اے پالنے والے اتار تو ہمارے اوپر دستر خوان تاکہ ہوجائے عید ہمارے اگلوں کے لیے اور پچھلوں کے لیے۔
آیت مذکورہ سے یہ معلوم ہوا کہ جس دن کوئی نعمت ملے اس دن کو عید قرار دینا جائز ہے۔
یہاں پر وہابی دیوبندی حضرات استدلال کو سمجھے بغیر لمبی چوڑی گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔اس آیت سے استدلال صرف اتنا ہے کہ جس دن نعمت ملے اس دن کو عید کہنا جائز ہے ۔ اسی طرح حضورﷺ بھی نعمت ہیں لہذا آپکی ولادت کے دن کو عید کہنا جائز ہے۔
۳۔آزادی ملنے پر عید۔
عاشورآء کا دن یہودیوں کیلئے آزادی کا ن تھا ،اسے انہوں نے عید بنایا تھا۔
حضرت ابو موسی نے بیان کیا :
کان یوم عاشورآء تعدہ الیھود عیدا(صحیح بخاری ج ۱ص ۲۶۸)
عاشورآء کے دن یہودی عید مناتے تھے۔
حضرت امیر معاویہ نے بر سر منبر فرمایا
ان یوم عاشورآء یوم عید(مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۹۱)
یوم عاشوراء میں موسی علیہ اسلام کی قوم دشمن سے آزاد ہوئی تو اس دن کو عید قرار دیا گیا اور حضورﷺ کی ولادت سے تو پورا عالم اسلام آزاد ہوا لہذا یہ بدرجہ اولی عید ہو گا۔
بہرحال اس مختصر وضاحت سے ثابت ہو گیا کہ خوشی کے دن کو عید کہتے ہیں۔
اور ہم اشرف علی کا قول نقل کرآئے کہ ولادت پر فرح جائز ہے تو یہ خوشی کا دن ہے اور عید ہے۔ایک بات اور ذہن میں رکھے
ہم اس کو فقہی عید نہیں بلکہ لغوی اور عرفی عید قرار دیتے ہیں۔پھر اس کی ایک اصل یہ بھی ہے کہ حضورﷺ نے سوموار کا رو زہ رکھا(صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۷۵۰) اور ملاں اشرف علی نے یہ اقرار کیا کہ آپ نے یہ رو زہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھا ۔(خطبات میلادالنبی)لہذا سرکار ﷺنے بھی اس دن خوشی منائی تو اس اعتبار سے یہ دن بھی عید ہے۔
۴۔عید کا روزہ۔
وہابی حضرات یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اگر میلاد نبوی کا دن عید ہے تو اس دن روزہ نہ رکھو۔مگر حضور ﷺ نے رکھا تو ا س کو عید نہ کہو کیوں عید کا روزہ نہیں ہوتا ۔
جواب۔جواب اس کا یہ جمعہ کو حضورﷺ نے عید قرار دیا ہے جس کا خود وہابیوں کو بھی اقرار ہے ملاحظہ ہو کتاب ہم میلاد کیوں نہیں مناتے ص ۶۲اسی طرح اشرف علی نے بھی اس کو عید تسلیم کیا بہشتی زیور ص۶۶۸اور ظاہری بات ہے جمعے کو روزہ رکھنا جائز ہے ۔اب ہم وہابیوں سے یہی اعتراض کرتے ہیں ہیں یا تو جمعہ کا روزہ ناجائز قرار دو یا جمع کوعید کا دن نہ کہو۔
اس کا تحقیقی جواب یہ کہ جس طرح جمعہ و یوم عرفہ عرفی عیدیں ہیں ایسے ہی میلاد بھی عرفی عید ہے۔اس کے فقہی احکامات نہیں۔
دیکھو اشرف علی تھانوی کہتا ہے جس دن سورت کہف کی تفسیر مکمل ہوئی وہ دن عید ہے(بیان القرآن ج ۲ ص ۲۵۹)
تقی عثمانی لکھتا ہے اس سے بڑھ کر روز عید کوئی نہ ہوتا جب وہ کراچی آتے (نقوش رفتگاں ص ۳۱)اب ہمیں دیوبندیوں سے پوچھنے دیں جب تفسیر مکمل ہو اوربڑا بھائی آئے تو وہ دن عید قرار دیے جا سکتے ہیں تو حضورﷺ کی ولادت کا دن کیوں نہیں عید قرار دیا جاسکتا ۔ایسے ہی وہابی مناظر مناظر نے بھی مومن کی پانچ عیدیں گنوائی ۔
ا۔جس بندہ گناہ سے محفوظ ہو
۲۔جس دن خاتمہ بالخیر ہو
۳۔جس دن پل سے سلامتی سے گزرے
۴۔جس دن جنت میں داخل ہو۔
۵۔جب پر وردگار کے دیدار سے بہرہ یاب ہو۔(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث بحوالہ کیا جشن عید میلاد النبی غلو فی الدین ہے۔)
صادق سیالکوٹی نے لکھا کہ جناب عمر نے دو عیدیں ثابت کیں(جمعہ اور عرفہ کا دن )(جمال مصطفی ص ۱۴)
اب ذارا دل تھام کر سنو ۔شورش کاشمیری نے ولادت والے دن کو عید کہنا اور جلوس وغیرہ نکالنا جائز قرار دیا(چٹان)ایسے ہی سلیم یوسف چشتی نہ صرف خود عید میلاد کو تسلیم کیا بلکہ ہندوں تک کے قائل ہونے کا اقرار کیا(ندائے حق ص ۱۵ ،۱۶)اس طرح وہابی مولوی مخلص نے میلاد شریف کو عید تسلیم کیا (توحیدی نعتیں ص۱۱)
محترم قادری رانا صاحب ! پہلے تو آپ یہ بتادیں کے یہ خوشی کا دن ہے یا غمگین بعد میں عید لفظ کی تعریف پر بحث کرلیں گے اور یاد رکھیں الحمدلللہ اہل حدیث کے لیے کسی امام یا کسی مولوی کی دلیل حجت نہیں.

اور عید کا مفہوم خوشی کا دن ہے تو کیوں نہیں الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن بلکہ ہر وو دن جس میں دین اسلام کی سر بلندی ہوئی فتح مکہ - حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا اور دیگر غزوات کا دن یہ سب دن خوشی کے دن ہیں اس کے باوجود الله کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو عیدیں منانے کا حکم دیا. میرے بھی دین اسلام کے نام پر خوشی کے وہ دن منانا جو ثابت نہیں وہ دین میں ایجاد اور اللہ کی شریعت میں اضافہ ہیں اور شریعت سازی الله کے ساتھ شرک ہے. اور شرک کی معافی نہیں میرے بھائی .

ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًا

اب ہم نہ کچھ گھٹا سکتے ہیں اور نہ کچھ بڑھا سکتے ہیں. عید کے لفظی معنی ضرور خوشی کا دن ہے آپ سے ایک سوال ہے ولادت کے دن کو عید کہتے ہیں جیسا کے آپ نے اوپر لکھا تو آپ پر یہ قرض ہے کے آپ مجھے یہ قرآن و حدیث سے ثابت کریں کے برتھڈے منانا دین اسلام میں جائز ہے.
۴) گذشتہ چودہ صدیوں میں صحابہ و تابعین سمیت جن مسلمانوں نے یہ جشن نہیں منایا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟​
۵) بارہ ربیع الاول یوم وفات بھی ہے جہاں پیدائش اور وفات (یعنی خوشی اور غم) جمع ہوجائیں، وہاں خوشی کو ترجیح دی جاتی ہے یا غم کو؟​
۶) یومِ ولادت کی خوشی منانا ضروری ہے تو یومِ وفات کا رنج و غم منانا کیوں ضروری نہیں؟ جبکہ بقولِ دونوں کی تاریخ بھی ایک ہی ہے؟​

اشرف علی تھانوی، رضا خا ن اور تقی عثمانی کیا کہتا ہے اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہم نے کلمہ پڑھا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا.
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
عید میلاد کے موضوع پر بہت ہی عمدہ اور جاندار خطاب . ضرور سنیں بارہ وفات یا بارہ میلاد ؟


لنک


 
Top