شیخ فیض صاحب اور محترم ابن داود صاحب نے جیسے فرمایا ، معاملہ واضح نہیں ہے ۔ البتہ جو کچھ لکھا گیا ہے ، اگر درست ہے تو پھر یہ نکاح فاسد ہے :
1۔ ولی نہ ہونے کی وجہ سے ۔
2۔ عورت کی رضا مندی مفقود ہے ۔
3۔ گواہی کے تقاضے پورے نہیں تھے ۔ (
ایک تو عورتیں تھیں ، دوسرا :
ان میں بھی غیر مسلم)
رہی بات عیسائی عورت کے پاس نکاح کے لیے جانا ، تو اس كا براه راست امور نکاح سے کوئی تعلق تو نہیں نظر آتا ، لیکن ایک مسلمان کا غیر مسلم کے پاس اپنا شرعی معاملہ لے کر جانا ، یہ سخت سے سخت گناہ سے لے کر ’ ارتداد ‘ بھی ہوسکتا ہے ۔
ہمارے مولوی صاحب نکاح کے وقت عقیدہ توحید ، اتباع سنت کی باتیں کرتے ہیں ، عیسائی اس وقت کیا کرتے ہیں ؟ عیسی ابن اللہ کہتے ہوں گے ؟ وغیرہ ۔ پھر ممکن ہے اس پر اقرار بھی کرواتے ہوں ، ایسی صورت حال میں یہ معاملہ انتہائی خطرناک ہے ۔
البتہ نکاح درست نہیں ہوا ، اس کا حل یہ نہیں دوبارہ نکاح کسی اور سے پڑھایا جائے ، اس کا حل یہ ہے کہ انہیں کے درمیاں شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق تجدید نکاح کیا جائے ۔ اگر ممکن نہ ہو تو پھر دوسری طرف جایا جائے ۔
ایسے مسائل کا صحیح اور قابل عمل حل ہے کہ فریقین معاملہ لے کر کسی مستند عالم دین کے پاس جائیں ، انہیں ساری صورت حال بتائیں ، ان کے سوالوں کے جواب دیں ، پھر قرآن وسنت کی روشنی میں وہ جوحل بتائیں ، اس پر عمل کریں ۔
بہر صورت خلاصہ یہ ہے کہ یہ نکاح درست نہیں ، یعنی ہوا ہی نہیں ، البتہ چونکہ رسمی کاروائی کی بنا پر فریقین کو صحت نکاح کا شبہہ تھا ، اس لیے دونوں کے تعلقات میاں بیوی والے ہی تصور ہوں گے ، یعنی زنا وغیرہ کی حد نہیں لگے گی ، اگر عورت کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہے تو پہلے شوہر سے تعلقات ختم کرے ، جس رسمی کاروائی کے ذریعے یہ تعلق قائم ہوا ، اس کے ذریعے اس کو ختم کروائے اور عدت گزارے وغیرہ ۔
اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔