الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہُ
یہ تو نصیحت ہے جو چاہے اسے یاد کرے۔
غزنوی خاندان
تألیف: عبدالرشید عراقی
ناشر:
امام شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ پبلشرز کراچی
پوسٹ بکس نمبر 18130کراچی 74700
جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں۔
نام کتاب : غزنوی خاندان
مصنف : عبدالرشید عراقی
تقدیم : پروفیسر حکیم راحت نسیم سوہدروی/محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
کمپوزنگ : ابوعبداللہ محمد آصف فون 0300-2248783
طبع اول : 2003ء مطابق 1423ھ
تعداد : ایک ہزار
{کتاب ملنے کے پتے}
اسلامی اکادمی اردو بازار لاہور
فاران اکیڈمی اردو بازار لاہور
دارالکتب السلفیہ شیش محل روڈ لاہور
مکتبہ قدوسیہ غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور
نعمانی کتب خانہ حق اسٹریٹ اردو بازار لاہور
مکتبہ ایوبیہ محمدی مسجد محمد بن قاسم روڈ (برنس روڈ) کراچی
مکتبہ اہلحدیث ٹرسٹ کورٹ روڈ کراچی فون 2635935
مکتبہ نورِ حرم 60نعمان سینٹر بلاک 5 گلشن اقبال، کراچی۔ فون 4965124
الدار الراشدیہ نزد جامع مسجد الراشدی، موسیٰ لین، لیاری، کراچی۔ فون 7542251
علمائے غزنویہ میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلویؒ کے شاگرد
مولانا سید عبداللہ غزنوی
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالجبار بن سید عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالواحد بن سید عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالقدوس بن سید عبداللہ غزنوی
مولانا سید عبدالاول بن محمد بن عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالغفور بن محمد بن عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالاعلی بن عبدالعزیز بن عبداللہ غزنوی
(الحیاۃ بعد المماۃص352)
برصغیر (پاک وہند ) میں تالیفات شیخ الاسلام ابن تیمیہ
رحمۃ اللہ علیہ علمائے غزنویہ (امر تسر) کے ذریعہ آئیں ۔
مشہور اہلحدیث عالم اور محقق شہیر
مولانا محمد عطا ء اللہ حنیف بھوجیانی لکھتے ہیں کہ :
قریب قریب ان ہی ایام میں بمبئی کے بعض علم دوست عرب تاجروں کے ذریعہ حضرات علمائے غزنویہ (امر تسر) کا امراء و علمائے نجد سے تعلق پیدا ہوگیا جس کے نتیجہ میں ہمارے معارف ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا مزید ورود ہوا۔ جب کہ نواب صاحب کا ذریعہ علمائے حدیث یمن تھے بزرگان غزنویہ مولانا محمد صاحب محشی تفسیر جامع البیان، مولانا عبدالجبار ، مولانا عبدالرحیم ، مولانا عبدالواحد رحمہم اللہ تعالیٰ کی توجہ سے شیخ الاسلام کی بعض تصانیف طبع ہوئیں اور تدریسی طریقے سے آپ کی دعوت توحید اور ذکر فکر عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔(حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ص 8)
عنوان
نقش آغاز
مقدمہ
تقریظ (پروفیسر حکیم راحت نسیم ہوہدروی )
سخن ہائے گفتنی (محمد تنزیل الصدیقی الحسینی )
مولانا سید عبداللہ غزنوی
نام نسب اور خاندان
ولادت
ابتدائی تعلیم
علامہ حبیب اللہ قندھاری کی خدمت میں
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں
دہلی کا سفر
دہلی سے وطن واپسی، کتاب و سنت کی دعوت، شرک و بدعت کی تردید، مخالفت اور جلا وطنی
وطن واپسی اور دوبارہ جلا وطنی
پشاور جلاوطنی اور امرتسر مستقل سکونت
خدمات
درس و تدریس
دعوت و تبلیغ
اشاعت کتب
تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد و عبادت اور
روحانیت کا درس کمالات
اخلاق و عادات
وفات
اعتراف عظمت
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلویؒ
مولانا سید نواب صدیق حسن خان
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی
مولانا سید عبدالجبار غزنوی
مولانا سید عبدالحئ الحسنی
قاضی غلام قندھاری
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے دو خاص رفیق
مولانا غلام رسولقلعوی
مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی
تلامذہ
مولانا حافظ ابراہیم آروی
مولانا رفیع الدین شکرانوی بہاری
مولانا قاضی طلاء محمد خان پشاوری
مولانا قاضی عبدالواحد خان پوری
مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی
مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی
مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی
مولانا حافظ محمد رمضان پشاوری
مولانا عبدالوہاب دہلوی
مولانا قاضی ابو عبداللہ محمد خان پوری
مولانا سید عبداللہ غزنوی کی اولاد
مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالجبار غزنوی
مولانا محمد حسین ہزاروی خویش مولانا عبدالجبار غزنوی
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی
مولانا عبدالواحد غزنوی
مولانا عبدالرحیم غزنوی
مولانا سید عبدالاول غزنوی
مولانا سید عبدالغفور غزنوی
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی
مولانا سید محمد داؤد غزنوی
ولادت
ابتدائی تعلیم
فراغت تعلیم کے بعد
سیاسی زندگی
اخبار توحید کا اجراء
چند اہم واقعات
تحریک ختم نبوت
آئین کمیشن کے سوالنامے کا جواب
دستور نہ اسلامی ہے نہ جمہوری
سعودی حکومت سے غزنوی خاندان کے مراسم
مسلک
حدیث نبوی سے محبت و شغف
مولانا ابوالکلام آزاد سے تعلقات
علماء کی صحبت اور ان کا احترام
کتب خانہ
فتویٰ لکھنے کا طریق کار
قادیانت کی تردید
جماعت اہلحدیث کی تنظیم
انجمن اہلحدیث پنجاب
مغربی پاکستان میں جمعیۃ اہلحدیث کا قیام
جامعہ سلفیہ کا قیام
جامعہ سلفیہ کی کمیٹی
لاہور میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام کا اجراء
تصانیف
ادبی ذوق
مولانا ظفر علی خان اور مولانا داؤد غزنوی
داؤد غزنوی اور محمود غزنوی
اخلاق و عادات
وفات
اولاد
مولانا داؤد غزنوی مشاہیر کی نظر میں
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
مولانا غلام رسول مہر
مولانا محمد حنیف ندوی
ڈاکٹر سید عبداللہ
شورش کاشمیری
رئیس احمد جعفری
محمد اسحق بھٹی
مولانا عبدالعظیم انصاری
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف
ابو یحییٰ امام خان نوشہروی
ابوالمحمود ہدائت اللہ سوہدروی
حکیم مولوی عبداللہ خاں نصرؔسوہدروی
حکیم عنائت اللہ نسیم سوہدروی
سید عمر فاروق غزنوی
سید ابوبکر غزنوی
حافظ محمد ذکریا غزنوی
مراجع و مصادر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نقش آغاز
برصغیر (پاک و ہند)کے علمی و دینی خاندانوں میں خاندان غزنویہ (امرتسر) ایک عظیم الشان خاندان ہے۔ اس خاندان کی علمی و دینی اور سیاسی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس خاندان کی علمی و دینی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔اور سیاسی خدمات بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ تحریک آزادئ وطن میں اس خاندان کے افراد نے عظیم کارنامے سرانجام دیئے۔
غزنوی خاندان کے سربراہ مولانا سید عبداللہ غزنوی (م 1298ھ) کی خدمات جلیلہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب و سنت کی اشاعت و تبلیغ اور شرک و بدعت کی تردید میں انہیں مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑا۔ انہیں بیشمار اذیتیں اور تکلیفیں دی گئیں اور ملک بدر کیا گیا۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی ولی کامل تھے۔ ان کی تدریسی و تبلیغی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔ اسی طرح مولانا سید عبداللہ کے دوسرے صاحبزادگان عالی مقام مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہ اللہ اجمعین کی تدریسی، دینی و علمی خدمات ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی خاندان کے چشم و چراغ اور گل سرسبد تھے۔ مولانا داؤد غزنوی جہاںکتاب و سنت کے علمبردار تھے وہاں انگریز سے نفرت اور بیزاری کا جذبہ بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ مولانا داؤد غزنوی ساری زندگی فرنگی سامراج کے خلاف سینہ سپر رہے۔ قید و بند سے بھی دوچار ہوئے مگر ان کے پائے ثبات و استقلال میں لغزش نہ آئی۔ سیاسیات میں آپ دبستان ابوالکلام کے گل سرسبد تھے، لیکن بعد میں اپنی راہ علیحدہ متعین کر لی۔ کانگریس سے استعفیٰ دے کر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی شعلہ نوا خطیب تھے۔ تقریر کرتے تو معلوم ہوتا کہ آگ کے گولے برس رہے ہیں۔ بڑے فصیح البیان مقرر تھے۔ جرأت، بیباکی، حق گوئی اور انگریز دشمنی میں پیش پیش تھے۔ علم و فضل کے اعتبار سے جید عالم دین تھے علوم اسلامیہ کے بحر ذخائر تھے۔
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی کی خدمات جلیلہ قدر کے قابل ہیں۔ جلالۃ الملک سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمن والئ سعودی عرب سے ان کے گہرے تعلقات تھے انہوں نے ان کو حاجیوں کی خدمت پر مامور فرمایا۔ ان کا درجہ ایک وزیر کے برابر تھا ساری زندگی حاجیوں کی خدمت پر مامور رہے۔
مولانا سید ابوبکر غزنوی کی خدمات بھی قدر کے قابل ہیں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر ہو گئے۔ عمر تھوڑی پائی زندہ رہتے تو نام پیدا کرتے۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے حالات زندگی نزہۃ الخواطر کی ساتویں جلد میں مولانا سید عبدالحئ الحسنی نے لکھے ہیں، آپ کے فرزند ارجمند مولانا سید عبد الجبار غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی نے سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمائی۔ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے تاریخ اہلحدیث میں ان کے مختصر حالات لکھے ہیں مولانا سید ابوبکر غزنوی نے بھی سیدی و ابی کے نام سے ایک کتاب مرتب فرمائی جس میں مولانا سید داؤد غزنوی پر 24 اہل قلم کے مقالات درج کئے ہیں اور خود بھی مولانا غزنوی کے حالات زندگی اور ان کی علمی و دینی اور سیاسی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے شروع میں مولانا سید عبداللہ غزنوی کے تفصیل سے حالات لکھے ہیں۔
مولوی بدرالزمان محمد شفیع نیپالی نے ’’الشیخ عبداللہ غزنوی‘‘ کے نام سے 168 صفحات پر ایک کتاب مرتب فرمائی جو 1984ء میں محترم ضیاء اللہ کھوکھر (گوجرانوالہ) نے شائع کی اس میں سید عبداللہ غزنوی کے حالات زندگی اور ان کے علمی حالت کا تذکرہ ہے علاوہ ازیں آپ کے اساتذہ معاصرین اور مشہور تلامذہ کا بھی ذکر کیا ہے۔
میں نے اپنی اس کتاب میں مولانا سید عبداللہ غزنوی کے حالات کے علاوہ ان کے صاحبزادگان عالی مقام ’’مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا سید عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور پوتوں میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا عبدالاول غزنوی، مولانا عبدالغفور غزنوی، مولانا سید اسمٰعیل غزنوی اور مولانا حافظ محمد زکریا غزنوی اور پڑپوتوں میں مولانا سید ابوبکر غزنوی کا تذکرہ کیا ہے۔ اور ان حضرات کی علمی و دینی و سیاسی خدمات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
میں حکیم راحت نسیم سوہدروی کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود تقریظ لکھی ہے جس میں انہوں نے اپنے والد محترم پروفیسر حکیم عنائت اللہ سوہدروی مرحوم کے حوالہ سے مولانا سید داؤد غزنوی کی علمی و سیاسی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔
میں محترم محمد تنزیل الصدیقی الحسینی صاحب کا شگر گزار ہوں کہ ان کے زیر اہتمام میری یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری اس محنت کو قبول فرمائے اور نجات کا ذریعہ بنائے۔
عبدالرشید عراقی
16مئی 2000/ 11۔ صفر 1421ھ
ضلع گوجرانوالہ
مقدمہ
1145ھ میں امام شاہ ولی اللہ دھلوی سفر حجاز سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی زندگی برصغیر (پاک و ہند) میں اشاعت حدیث اور ترویج سنت میں صرف کر دی۔ درس و تدریس وعظ و تبلیغ اور تصنیف و تألیف کی طرف پوری توجہ کی آپ نے حدیث کی اول الکتب ’’موطا‘‘ امام مالک کی دو شرحیں بنام المسوی (عربی) اور المصفی (فارسی لکھیں اور تراجم البخاری کے نام سے صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب کی شرح لکھی علم اسفار حدیث میں مسلسلات (عربی) اور الارشاد الی مہمات الاسناد (عربی) مرتب فرمائی۔
اس کے ساتھ مسلک اہل حدیث کی وضاحت اور تائید کے لئے انہوں نے الانصاف فی بیان سبب الاختلاف (عربی) اور احکام الاجتہاد (عربی) لکھیں اور اس کے ساتھ ایک بے نظر کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ (عربی) تصنیف فرمائی جس میں حکمت تشریح، حدیث، فقہ، تصوف، اخلاق اور فلسفہ جملہ علوم پر سیر حاصل بحث کی۔
امام شاہ ولی اللہ کی وفات 1176ھ کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ان کے جانشین ہوئے اور اپنی ساری زندگی حدیث کی تدریس اور اس کی نشر و اشاعت میں بسر کر دی۔ انہوں نے اپنی تفسیر فتح العزیز (فارسی) میں صاف طور پر تقلید کی تردید کرتے ہوئے عمل بالحدیث کی طرف توجہ دلائی ہے۔
شاہ عبدالعزیز کے انتقال 1239ھ کے بعد ان کے نواسہ مولانا شاہ محمد اسحق بن مولانا محمد افضل فاروقی ان کی مسند تدریس پر فائز ہوئے۔ شاہ محمد اسحق نے 20سال تک دہلی میں حدیث کی تدریس فرمائی۔ 1258ھ میں شاہ محمد اسحق نے حرمین شریفین ہجرت کی تو ان کی مسند تدریس پر شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی جنہوں نے 13 سال مولانا شاہ محمد اسحق کی خدمت میں گزارے تھے فائز ہوئے
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی نے دہلی کی مسجد واقعہ پھاٹک حبش خان میں کتاب و سنت کی تدریس و تعلیم میں یکسوئی کے ساتھ مشغول رہے۔ اس 62 سالہ دور میں کتنے لوگ آپ سے مستفید ہوئے، ان کا شمار مشکل ہے۔
لا یعلم جنود ربک الا ھو
مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ نے سارے برصغیر میں پھیل کر اپنی زندگیاں اشاعت کتاب و سنت میں صرف کر دیں اور وہ سب اپنی محنت اور کوششوں میں کامیاب ہوئے۔ حدیث کی نشر و اشاعت عام ہوئی لوگ عامل بالحدیث ہو گئے اور جو ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا وہ دور ہوا اور روشنی پھیل گئی۔
مولانا سید سلیمان ندوی تراجم علمائے حدیث ہند مؤلفہ مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’اس تحریک (اہلحدیث) کا ایک اورفائدہ یہ ہوا کہ مدت کا زنگ طبیعتوں سے دور ہوا۔ یہ جو خیال ہو گیا تھا کہ اب تحقیق کا دروازہ بند اور نئے اجتہاد کا راستہ مسدود ہو چکا ہے رفع ہو گیا اور لوگ از سر نو تحقیق و کاوش کے عادی ہونے لگے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ سے دلائل کی خو پیدا ہوئی اور قیل و قال کے مکدر گڑھوں کی بجائے ہدایت کے اصلی سرچشمہ مصفا کی طرف واپسی ہوئی‘‘۔ـ(ص37)
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ نے درس و تدریس وعظ و تبلیغ اور تصنیف و تألیف کے ذریعہ حدیث کی جو خدمت کی وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک سنہری باب ہے مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی لکھتے ہیں کہ
’’شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریک تجدید و احیائے سنت کو جماعت اہلحدیث نے علماً و عملاً سرگرمی سے جاری رکھا اس آفتاب سے دنیائے اسلام کے دور دراز گوشے روشن ہو گئے‘‘۔
برصغیر (پاک و ہند) میں علم حدیث کی نشر واشاعت (بذریعہ تدریس و تصنیف) کا علمائے عرب نے بھی اعتراف کیا ہے ۔
علامہ سید رشید رضا مصری صاحب تفسیر المنار (م4 135ھ) علمائے اہلحدیث (ہند) کی خدمات حدیث کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ ولولا عنایۃ اخواننا علماء الھند بعلوم الحدیث فی ھذا العصر لقضی علیہ بالزوال من امصار الشرق فقد ضعفت فی مصر والشام والعراق والحجاز منذ القرن العاشر حتی بلغت منتھی الضعف فی اوائل ھذا القرن الرابع عشر‘‘۔
ہندوستان کے علمائے اہلحدیث نے علوم حدیث کی طرف خصوصی توجہ دی اگر وہ ایسا نہ کرتے توشاید یہ علم مشرق کے ممالک سے مٹ جاتا ہم دیکھتے ہیں کہ مصر ،شام ،عراق، اور حجاز میں دسویں صدی ہجری سے یہ زوال پذیر تھا اور چودھویں صدی ہجری کے آغاز میں تو ضعف کی انتہا تک پہنچ چکا تھا‘‘۔
حضرت مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی کے تلامذہ میں سے جن علماء کرام نے درس و تدریس کے ساتھ خدمت حدیث میں قابل قدر خدمات انجام دیں ان میں مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی (م1334ھ) مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م1337ھ) مولانا محمد بشیر سہسوانی (م1326ھ) مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی (م1351ھ) مولانا عبدالجبار عمر پوری (م1344ھ) مولانا احمد اللہ محدث پرتاپ گڑھی (م1362ھ) وغیرہم تھے انہوں نے ساری عمر حدیث پڑھنا اور پڑھانا مشغلہ رکھا۔
دعوت و تبلیغ میں حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں مولانا حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ) مولانا سلامت اللہ حیراج پوری (م1322ھ)مولانا عبدالصمد اوگانوی (م1318ھ) مولانا عبدالغفار مہدانوی (م1315ھ) اور مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م1326ھ) سر فہرست تھے۔
تصنیف و تالیف میں مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے تلامذہ میں مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م1329ھ)مولانا عبدالرحمان محدث مبارکپوری (م1353ھ) مولانا عبدالتواب محدث ملتانی (م1362ھ) مولانا احمد حسن دہلوی (م1338ھ)مولانا حافظ ابوالحسن سیالکوٹی (م1325ھ) مولانا عبدالسلام مبارک پوری (م1342ھ)اور مولانا وحید الزمان حیدر آبادی(م1338ھ) وغیرہم تھے۔
جنہوں نے علم حدیث کی طرف توجہ دی اور گرانقدر لٹریچر عربی ، فارسی اور اردو میں فراہم کیا۔
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ میں علمائے غزنویہ (امرتسر) منفرد حیثیت کے حامل تھے ان علمائے کرام نے درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ ، تصنیف و تالیف کے ذریعہ اشاعت دین اسلام، کتاب و سنت کی نشرو اشاعت ، شرک و بدعت کی تردید کا فریضہ انجام دیا۔ اس کے علاوہ علمائے غزنویہ نے تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید کرتے ہوئے صحیح اسلامی زہد و عبادت اور روحانیت کادرس دیا۔
علمائے غزنویہ میں حضرت عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی نے تدریس بھی فرمائی، لسانی تبلیغ بھی کی ،اور روحانی تربیت بھی کی ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی نے تدریس بھی فرمائی اور روحانی تربیت بھی کی ۔ مولانا عبدالواحد غزنوی نے زیادہ تر روحانی تربیت کی اور وعظ و تبلیغ بھی کی، مولانا عبدالرحیم غزنوی ، مولانا عبدالاول غزنوی اور مولانا عبدالغفور غزنوی رحمہم اللہ اجمعین نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ حدیث میں نمایاںخدمات انجام دیں ۔
برصغیر (پاک و ہند) میں حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے تصنیف و تالیف کے ذریعہ حدیث کی جو خدمت کی اس پر شام کے ایک محقق عالم محمد منیر دمشقی(م1369ھ) تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وھی نھضۃ عظمیۃ اثرت علی باقی البلاد الاسلامیۃ فاقتدی بہا غالب البلاد الاسلامیۃ فی طبع کتب الحدیث والتفسیر‘‘۔
’’یہ وہ عظیم الشان تحریک ہے جس نے دوسرے اسلامی ممالک پر بھی اثر ڈالا ہے چنانچہ بلاد اسلامیہ میں ان ہی کی اقتداء کرتے ہوئے حدیث و تفسیر کی کتابیں شائع کی جارہی ہیں ‘‘۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید کرنے میں صحیح اسلامی زہدو عبادت اور روحانیت کا درس دیا یہ آپ کا بہت بڑا علمی کارنامہ ہے آپ کے اس کارنامہ میں آپ کے معاصرین میں مولانا غلام رسول قلعوی (م1291ھ) اور مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی (م1313ھ)بھی شامل ہیں۔ اور آپ کے تلامذہ میں مولانا عبدالجبار غزنوی (م1331ھ) مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی (م1348ھ) نے بھی عوام و خواص کی روحانی تربیت کی۔
علمائے کرام کے حالات پڑھنا اور ان کی خدمت سے آگاہ ہونا ہر مسلمان کے لئے بہت ضروری ہے استاد عبدالعزیز لکھتے ہیں :
’’ لوگ اپنے علماء کے بغیر ایسے جاہل ہیں کہ انہیں انسانوں اور جنوں کے شیطان اچک لیں۔ علماء دین زمین کے لئے اللہ کی نعمت ہیں۔ وہ اندھیروں میں چراغ ، ہدایت کی طرف راہبر ، اور اللہ کی زمین پر اللہ کی حجت ہیں۔ ان سے عقائد و افکار کی گمراہی ختم ہوتی ہے۔ اور قلوب و نفوس سے شک کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ وہ شیطان کے لئے باعث غیظ و غضب ، ایمان کے مخزن اور امّت کے ستون ہوتے ہیں ۔ زمین میں انکی مثال ایسے ہے جیسے آسمان پر ستاروں کی مثال ہے۔ خشکی و تری میں زندگی کے اندھیروں میں ان سے ہدایت حاصل ہوتی ہے‘‘۔
حضرت مولانا سید عبداللہ غزنوی جب غزنی سے ہجر ت کرکے مستقل طور پر امرتسر میں قیام پذیر ہوئے ۔ تو درس وتدریس ، وعظ و تبلیغ اور روحانی تربیت کیساتھ ساتھ توحید، اتبائے سنت ، اورعقائد صحیحہ پر بہت سی کتابوں اور رسالوں کا فارسی اور اردو میں ترجمہ کرواتے رہے اور لوگوں میں مفت تقسیم کئے۔
علمائے غزنویہ کوشیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن القیم کی تصانیف سے عشق تھا۔ مولانا سید عبداللہ غزنوی کے صاحبزادگان عالی مقام مولانا محمد بن عبداللہ ، مولانا سید عبدالجبار غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی ، اور مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہم اللہ اجمعین کی توجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تصانیف طبع ہوئیں اور تدریسی طریقے سے آپ کی دعوت توحید اور ذکر و فکر کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔
بہرحال یہ حقیقت ہے اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ حضرت سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے صاحبزادگان عالی مقام نے برصغیر (پاک و ہند) خصوصاً پنجاب میں توحید و سنت کی اشاعت ، اور شرک و بدعت کی تردید و توبیخ میں جو کارنامے نمایاں سر انجام دیئے۔وہ برصغیر کی اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں۔
عبدالرشید عراقی
تقریظ
پروفیسر حکیم راحت نسیم سوہدروی
برصغیر(پاک و ہند)خصوصاً پنجاب میں علمائے غزنویہ (امرتسر) نے دین اسلام کی اشاعت ، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج ، اور شرک و بدعت کی تردید و توبیخ میں جو کوششیں کیں وہ برصغیر کی اسلامی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
خاندان غزنویہ کے سربراہ حضرت مولانا سید عبداللہ غزنوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتا ہے ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے افغانستان میں توحید و سنت کی تبلیغ کی اور شرک و بدعت کی تردید شروع کی ۔تو علاقہ کے علماء اور عوام آپ کے مخالف ہوگئے اور حکومت تک آپ کے خلاف غلط اور جھوٹی رپورٹیں پہنچائیں چنانچہ حکومت کی طرف سے آپ کو ملک چھوڑنے کا حکم ملا ۔ اور آپ کو مصائب و آلام سے بھی دوچار کیاگیا۔کوڑے بھی مارے گئے ۔ ذلیل و رسوا بھی کیاگیا لیکن آپ کے پائے ثبات و استقلال میں لغزش نہ آئی۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے امرتسر کو اپنا مسکن بنایا۔جہاں آپ نے درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ کے ذریعہ کتاب و سنت کی اشاعت کی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو 12فرزند عطا کئے ۔ جو سب کے سب موّحد تھے۔ وہ آپ کے قوت بازو بنے۔ اور اسلام کی اشاعت ، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج اور شرک و بدعت کی تردید اور توبیخ میں گرانقدر خدمات سر انجام دیں۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے صاحبزادگان میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی ، مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا عبدالواحد غزنوی رحمہم اللہ اجمعین کی خدمات جلیلہ بہت زیادہ ہیں ۔
مولانا عبدالواحد مدتوں مسجد چینانوالی لاہور میں خطیب رہے۔ والد مرحوم پروفیسر حکیم عنائیت اللہ نسیم سوہدروی سے میں نے کئی بار سنا کہ میں نے 1929ء میں مولانا ظفر علی خاں کے ہمراہ مولانا عبدالواحد غزنوی کی زیارت کی تھی۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی خاندان غزنویہ کے گل سرسبد تھے ان کی اپنی عملی اور سیاسی خدمات کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا والد مرحوم ان کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ :
’’مولانا سید داؤد غزنوی اپنے دور کے سب سے بڑے علمی دینی روحانی اور بہادر خاندان کے چشم و چراغ تھے بڑے وسیع العلم تھے صاحب فکر وتدبر تھے ان کی اصابت رائے اور علم و فضل کاتمام مکاتب فکر کے علماء اور سیاسی قائدین احترام کرتے تھے‘‘۔
مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا:
’’قائم ہے ان سے ملت بیضاء کی آبرو
اسلام کا وقار ہیں داؤد غزنوی
رجعت پسند کہنے لگے ان کو دیکھ کر
آیا ہے سومنات میں محمود غزنوی ‘‘
مولانا سید داؤدغزنوی کا تعلق کانگرس سے بھی رہا مجلس احرار انہی کی کوششوں سے قائم ہوئی اور اس کے ناظم اعلی رہے۔ جمیعۃ العلماء ہند کے قیام میں بھی ان کا ہاتھ تھا۔ اور اس کے نائب صدر رہے۔ بعد میں کانگرس سے علیحدہ ہوگئے۔ او رمسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور تحریک پاکستان میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں علمائے اہلحدیث میں تحریک پاکستان کے سلسلہ میں جن علمائے کرام نے قریہ قریہ جاکر عوام کو آگاہ کیا ان میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی سر فہرست تھے۔
مولانا سید داؤد غزنوی کے فرزند مولانا سید ابو بکر غزنوی تھے جو پہلے اسلامیہ کالج میں عربی کے پروفیسر رہے۔ بعد میں انجینرنگ یونیورسٹی میں چلے گئے۔ اور آخر میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر بنا دیئے گئے۔ پروفیسر ابو بکر غزنوی کی میں نے تقریریں سنی ہیں اور ان سے ملاقاتوں کا شرف بھی حاصل ہے پروفیسر ابوبکر غزنوی بڑے ذہین ، طباع اور بڑے صاحب فکر و تدبر تھے عالم باعمل تھے ۔ جوانی میں ہی اللہ کے حضورپہنچ گئے زندہ رہتے تو مزید نام پیدا کرتے۔
ایک دفعہ حکیم محمد سعید شہید نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ :
’’ مولانا سید ابوبکر غزنوی میرے خاص دوستوں میں سے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا جوانی کی عمر او ربہت زیادہ عبادت گزار اور ذکر و اذکار کرتے تھے لندن میں ایک حادثہ میں زخمی ہوئے اور ہسپتال میں داخل ہوگئے اخبار میں پڑھا تو میں دوسرے دن ان کی عیادت کے لئے لندن گیا ملاقات ہوئی تو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمانے لگے حکیم صاحب اب صرف دعا کی ضرورت ہے میرے لئے دعا کریں اور میں لندن ہی میں تھا کہ وہ وہاں انتقال کرگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘‘۔
جناب عبدالرشید عراقی صاحب نے ’’ غزنوی خاندان ‘‘کے نام سے یہ کتاب لکھی ہے اس میں حضرت سید عبداللہ غزنوی کے حالات زندگی اور دین حق کی اشاعت کے سلسلہ میں انہوں نے جو اذیتیں اور تکلیفیں اٹھائیں ان کا تفصیل سے ذکر کیاہے ۔ان کے علاوہ ان کے صاحبزادگان عالی مقام میں مولانا محمد غزنوی ، مولانا عبدالجبار غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا عبدالواحد غزنوی کے حالات زندگی اور ان کی علمی و دینی خدمات کا تذکرہ کیا ہے او ر پوتوں میں مولانا عبداللہ غزنوی ، مولانا عبدالغفور غزنوی،مولانا سید داؤد غزنوی اور مولانا حافظ محمد ذکریا غزنوی کا تذکرہ کیا ہے مولانا سید محمد داؤد غزنوی کا تذکرہ عراقی صاحب نے تفصیل سے کیا ہے۔ اور آخر میں مولانا سید ابو بکر غزنوی جو مولانا سید داؤد غزنوی کے فرزند ارجمند تھے اور مولانا سید عبداللہ غزنوی کے پڑپوتے تھے ان کے حالات اور ان کی خدمات کا ذکر کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ مؤلف کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے علمائے غزنویہ (امرتسر) کے حالاتِ زندگی اور ان کے علمی ودینی اور سیاسی کارناموں پر روشنی ڈالی ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی محنت کو قبول فرمائے۔
حکیم راحت نسیم سوہدروی
ہمدرد دواخانہ سکیم موڑ اقبال ٹاؤن لاہور
13مئی 2000ء/8صفر1421ھ
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
سخن ہائے گفتنی
اللہ رب العزت نے اپنے بعض بندوں پر اپنی نعمتوں کا اتمام اس طرح کیا کہ انہیں علم و عمل سے بہرہ وافر دیا اورا نکے بعد ان کے خاندان میں علم کی تخم ریزی ہوئی اور دو تین پشتوں تک مسلسل اس خاندان کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
قارئہ ہند کے متعدد خانوادے اس نعمت بیکراں سے بہرئہ یاب ہوئے اسی سلسلہ طلائے ناب میں غزنی کے ایک مبارک خاندان کا شمار بھی ہے جسکی نسبت حضرت عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے ۔
سید عبداللہ غزنوی اللہ کے ولی، اسلام کے خادم اور اپنے زمانے کے بڑے صاحب عزیمت بزرگ تھے۔ جب غزنی سے امیر ریاست نے علماء سوء کے بہکاوے میں آکر جلاوطن کیا تو آپ نے امرتسر کو اپنا جائے سکونت قرار دیا ، آپ کی سیرت کی سب سے بڑی خوبی نفس امّارہ کو زیر کرناتھا حتی کہ آپ نفس لوامہ کے مرحلے سے گزر کر نفس مطمئنہ کے مقام پر پہنچ گئے۔
مشہور محدّث اور سنن ابی داؤد کے شارح الامام ابو الطیب محمد شمس الحق الصدیقی الدیانوی العظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف ’’غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد‘‘ کے مقدمہ میں سید عبداللہ غزنوی کا ذکر دلّی عقیدت و احترام کے ساتھ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ آپ ہیں شیخ ، علامہ، سید، سند ، مقدس کمالات والے، آخری زمانہ میں جو عزیز الوجود ہیں ۔ مولانا اور فضل کے اعتبار سے ہم سے بہتر محمد اعظم بن محمد بن محمد بن محمدشریف معروف بہ عبداللہ غزنوی امرتسری ۔آپ تھے اللہ کو پہچاننے والے، اس کی رضا کیلئے سب کچھ کرنیوالے، کثرت ذکر کرنیوالے عابد، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے متذلل ، خاشع ، خاضع ، پرہیز گار ، متواضع ، حنیف ، کامل ، بارع، ملہم، مخلص صدیق کریم کہہ کر مخاطب کئے گئے۔ سخاوت کرنیوالے، رجوع کرنیوالے، حلیم ، متوکل ،متین ، صابر، قناعت کرنیوالے، انہیں اللہ کی راہ میں کسی کے ملامت کی پرواہ کبھی نہ ہوئی ، اللہ کی خوشنودی کو اپنے اہل وطن ، اپنے مال و دولت ، اپنے اہل و عیال اور خود اپنے نفس پر ترجیح دینے والے، مشہور احوال و مقامات والے، بڑے بڑے معرکوں والے ۔آپ اللہ کے دین کی مدد کیلئے صابر محتسب بن کر اٹھے، توحید و سنت کا باغ لگانے والے، میدان اخلاص کے شہسوار ، زاہدوں کے پیشوا، بندوں میں یکتا، زمانے کے امام ، رحمن کے ولی، قرآن کے خادم ، اللہ کاتقرب حاصل کرنیوالے ، آپ تمام احوال میں اللہ عزوجل کے ذکر میں مستغرق رہتے ، حتی کہ آپکا گوشت ، آپکی ہڈیاں ، آپکے اعصاب ، آپکے بال اور آپکا پورابدن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور اسکے ذکر میں فنا ہونے والا تھا‘‘۔ (غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ج1/12۔13ط مطبع انصاری دہلی1305ھ/1888ء)
سید عبداللہ غزنوی کی بدولت امرتسر ایک روحانی مرکز بن گیا جہاں دور دور سے تشنگان علم ومعرفت اس ’’چشمئہ خورشید‘‘ کی انوار و تجلیات سے فیضاب ہونے کے لئے امڈتے چلے آتے تھے۔ پھر اس ’’چشمہء خورشید‘‘ سے جو لوگ فیضاب ہوئے، ان میں بھی کیسے کیسے باکمال و اصحاب دانش موجود ہیں ۔
مجمع فضائل ومناقب حافظ ابو محمد ابراہیم آروی بانی مدرسہ احمدیہ آرہ، شیخ الحدیث استاذ پنجاب حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی ، جامع العلوم علامہ رفیع الدین محدث شکرانوی ، ادیب شہیر قاضی طلا محمد پشاوری ، شرف العلماء مولانا محی الدین لکھوی ، عالم جلیل القدر مولانا ابو عبدالرحمن عبداللہ پنجابی گیلانی، عالم کبیر مولانا غلام نبی سوہدروی ،(مولانا مسعود عالم ندوی کے نانا بزرگوار مولانا عبدالصمد اوگانوی کے استاذ علم و معرفت )شاہ ممتاز الحق بہاری رحمۃ اللہ علیہم نے اس دانش گاہ علم و عرفان سے استفادہ کیا۔
منقول ہے کہ جب مولانا رفیع الدین شکرانوی، حضرت عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا
’’شمادر اثناء راہ بودی کہ مراالہام شد کہ
مژدہ باد کہ مسیحا نفسے می آید ‘‘
اور اس کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ ’’از دست شما اشاعت توحید وسنت بسیار خواہد گشت انشاء اللہ تعالیٰ‘‘ اور پھر دنیا نے مولانا رفیع الدین کی خدمت دین و سنت کو ملاحظہ بھی کیا 1۔
سید عبداللہ غزنوی کثیر الاولاد تھے ، تمام صاحبزادے علم دینی کی دولت سے مالامال ، فرزند اکبر مولانا محمد غزنوی نے انکی حیات ہی میں جان جانِ آفریںکے سپرد کی ۔ علامہ اقبال اپنے مکتوب گرامی بنام محمد دین فوقؔ19دسمبر1922ء میں رقمطراز ہیں :
’’مولوی عبداللہ غزنوی درس حدیث دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کئے جانے کی خبر ملی ۔(2)ایک منٹ تامل کیا، پھر طلباء کو مخاطب کرکے کہا ’’برضائے او راضی ہستیم بیائید کہ کا رخود کیم ‘‘(ہم اس کی رضا پر راضی ہیں آؤ ہم اپنا کام کریں) ۔یہ کہہ کر پھر درس میں مشغول ہوگئے‘‘۔(انوار اقبال :71-72)
سبحان اللہ کیا پاک روحیں تھیں۔
سید عبداللہ غزنوی کے بارہ صاحبزادوں کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہوتی ہے ، جن کے نام کتاب ہذا میں بھی اپنے محل پر فاضل مصنف نے رقم کئے ہیں ، مگر مکتوب گرامی سید نذیر حسین محدث دہلوی بنام امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی میں انکے ایک صاحبزادے ’’عطا اللہ ‘‘کا ذکر آیا ہے او ریہ نام سید عبداللہ غزنوی کے سلسلہ اولاد کے ضمن میں انکے کسی سوانح نگار نے رقم نہیں کیا ہے ۔’’ مکاتیب نذیریہ ‘‘ تو ہماری نگاہ سے نہیں گزری ، یہ مکتوب گرامی مولانا محمد عزیر سلفی نے ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘ (ص:44) میں معرب نقل کی ہے ، ضروری ہے کہ اس تحریر کو یہاں درج کر دیا جائے۔وھو ھذا۔
1۔ مولانا رفیع الدین شکرانوی ؒ کی پاکیزہ سیرت کے جلوے راقم نے اپنی کتاب ’’آسمان علم و فضل کے درخشاں ستارے ‘‘ میں رقم کیے ہیں یہ کتاب ابھی غیر مطبوعہ ہے۔
2۔قتل نہیں بلکہ وفات کی خبر ملی ۔
’’اعلم ان الشیخ عطاء اللہ (1) الذی یذھب بھذا المکتوب الیک ھو ابن اخی الشیخ عبداللہ الغزنوی المرحوم (1298ھـ)، یحضر عندک لبعض الحوائج الدنیویۃ (أی حوائج النکاح )۔فالمر جومنک أن تسد
حاجاتہ تنال الثواب عنداللّٰہ ‘‘۔
سید عبداللہ غزنوی کے ایک صاحبزادے مولانا عبدالجبار الملقب بہ امام صاحب ہیں ۔ جو اپنے والد کے مرحلہ دعوت وعزیمت میں شریک کار بھی ہیں علامہ شبلی نعمانی امرتسر میں مولانا عبدالجبار کی مجلس وعظ میں شریک ہوئے ۔ فرماتے تھے کہ :
’’ یہ شخص جب اللہ کہتا تھا تو دل چاہتا تھا کہ سر اسکے قدموں پر رکھ دوں ‘‘۔
امام شمس الحق ڈیانوی اور امام عبدالجبار غزنوی کے درمیان بڑا ربط تھا ۔ دونوں خلوص وللّٰہیت کے رشتے سے منسلک تھے بقول مولانا فقیر اللہ پنجابی ’’ولی راولی می شناسد‘‘(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ:11)
امام عبدالجبار اپنے مکتوب گرامی بنام امام شمس الحق رقمطراز ہیں کہ :
’’ معدن محاسن اخلاق و شیم ، مجمع مکارم ، اعمال و کرم اخ مکرم حب محترم مکرمی مولوی محمد شمس الحق صاحب موفق خیرات و حسنات بودہ معزز دارین و مکرم کونین باشند‘‘۔(یادگار گوہری :40-41)
ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :
’’اخی فی اللہ وحبی لوجہ اللہ ورفیقی فی سبیل اللہ عالی مراتب مکرمی مولوی شمس الحق صاحب‘‘۔(ایضاً:143)
جبکہ امام ابو الطیب شمس الحق، امام عبدالجبار کے نام اپنے نامہ گرامی میں لکھتے ہیں ۔
1۔ عین ممکن ہے کہ یہ ’’مکاتیب نذیریہ‘‘ یا ’’حیاۃ المحدث‘‘ کے کاتب کی غلطی ہو اور نام عطا ء اللہ کی بجائے عبداللہ ہو۔واللہ اعلم ۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محمد و آلہ واصحابہ اجمعین۔ از عاجز فقیر حقیر محمد شمس الحق عفی عنہ۔ بگرامی خدمت ذی درجت جامع الفضائل و الکمالات ذوالمناقب الجلیلہ اخی مکرمی مخدومی مولانا عبدالجبار صاحب متع اللہ تعالی المسلمین بطول بقانکم و یمن علینا بشرف لقاتکم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ورضوانہ للہ الحمد والمنۃ کہ ہم مع الخیر ہیں اور صحت آپ کی حق تعالی سے چاہتے ہیں۔ دو ہفتہ سے زیادہ ہوا کہ گرامی نامہ آپ کا پاکر ممنون و مشکور ہوئے۔ جزاکم اللہ تعالی خیراً۔ آپ کے مکاتیب جس وقت آتے ہیں ان کے مطالعہ سے اس قدر حظ و افر حاصل ہوتا ہے کہ ہم اس کو بیان نہیں کرسکتے مکرر سہ کرر اس کو دیکھتے ہیں تاہم تسکین نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے میرے دل میں آپ کی محبت و مودت و عظمت اس قدر بھر دی ہے کہ جسکی حالت خود ہی رب العزت جانتا اور جو جملہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے بحق علی بن المدینی رحمتہ اللہ تعالی کے کہا تھا کہ ما استصغرت نفسی الا عندا بن المدینی ویساہی ہم آپ کی شان میں کہتے ہیں کہ ما استصغرت نفسی الا عند عبدالجبار۔ فہم معنی کتاب اللہ تعالی و سنت رسول اللہ ﷺ جو آپ کو حق تعالی کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ فہم حضرت شیخ دہلوی رحمۃ اللہ تعالی کے کسی تلامذہ کو عطا نہیں ہوا ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء اور اس امر کو ہم نے اپنے متعدد تحریر میں بیان کیاہے‘‘۔(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ ص 10-11مطبوعہ مطبع شوکت الاسلام بنگلور)
اس مکتوب گرامی کو نقل کرنے کے بعد امام عبدالجبار غزنوی کے تلمیذ رشید مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی لکھتے ہیں ۔
’’یہ مولانا شمس الحق صاحب وہی حضرت معروف و مشہور بہ نزدیک و دور لا عند علماء الہند فقط بل عند علماء النجد والیمن و مصر و مکۃ المعظمہ وغیر باہیں …و مسلم عندالکل ہیں اور جو ان سے تعارف رکھتا ہے وہ ان کو صادق و صالح و موصوف بصفات عدیدہ جانتا ہے۔ پس ایسے موصوف شارح و خادم کتاب و سنت کی شہادت صادق بہ نسبت مولانا موصوف غزنوی کے کس درجہ کی وقعت رکھتی ہے اور آپ کو یہ اعتقاد اس درجہ کا مولانا موصوف غزنوی کی نسبت اس وجہ سے ہوا کہ آپ شارح حدیث و محقق ہیں، آپ کے مزاج میں تعلی و تفوق و کبر کا رائحہ تک نہیں ہے۔ بہت سادہ سیدھے سچے مسلمان ہیں … پس یہ مدح سچی صرف ایک دو شخص کی نہ رہی بلکہ کل علماء عرب و عجم کی ہوئی جو مولانا عظیم آبادی کو صادق جانتے ہیں ‘‘۔(حوالہ مذکور ص11)
امام عبدالجبار غزنوی سے جن کبار علمائے ذی اکرام نے استفادہ علمی کیا ان میں بالخصوص درج ذیل لائق تذکرہ ہیں ۔
مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی ، مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا فضل اللہ مدراسی (م1361ھ)، مفتی محمد حسین (حنفی) امرتسری، قاضی محمد خان پوری، مولانا محمد حسین ہزاروی ، مولانا حکیم عبیدالرحمان عمر پوری رحمۃ اللہ علیہم ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے حالات پر مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی نے مستقل کتاب تالیف فرمائی تھی، مگر افسوس کہ زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی(1)
سید عبداللہ غزنوی کے پانچ صاحبزادے اور تین پوتوں نے حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بارگاہ علم سے استفادہ کیا ۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ان اخلاف سعید کو نعمت خداوندی کے طور پر ملا۔ محدث شمس الحق ڈیانوی نے ’’غایۃ المقصود‘‘ میں سید عبداللہ غزنوی اور ان کے چار صاحبزادوں کا شمار سید نذیر حسین کے طبقہ اولی کے تلامذہ میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
1۔ حضرت موصوف کے قدرے تفصیلی حالات راقم الحروف نے قلمبند کئے ہیں جو کہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور بابت 2اگست ، 9اگست 2002ء ، جلد 54شمارہ30۔31میں اشاعت پذیر ہوچکا ہے شائقین اس طرف مراجعت فرماسکتے ہیں ۔
’’الشیخ الاجل العارف مولانا عبداللہ الغزنوی (رحمہ اﷲ) ومن بنیہ الاتقیاء الصالحین اولی الفضل و الکمال اربعۃ اخوۃ: محمد المتوفی سنۃ ست و تسعین بعد الالف والمائتین۔ و عبدالجبار و عبدالواحد عبداﷲ‘‘ (غایۃ المقصود)۔
سید عبداللہ غزنوی کے ایک حفید سعید مولانا عبدالاول بن محمد غزنوی ہیں، جن کی خدمت حدیث و سنت لائق قدر و ستائش ہے ایک اور حفید سعید مشہور انام سید محمد داؤد غزنوی ہیں جو ہندوستان کے بلند پایہ زعیم و رہنما، عالی مرتبت فقیہ و محدث، صاحب کمال خطیب اور وسیع المشرب عالم دین تھے۔ ان کے روابط ہر طبقہ علم و فکر کے سربرآوردہ علماء و افاضل سے استوار تھے اور ہر طبقے میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بقول مولانا ابو الاعلی مودودی:
’’وہ بہرحال ایک عالم و فاضل آدمی تھے انکے علم و فضل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جو شخص ان سے ملتا تھا وہ انکے علم و فضیلت اور شریفانہ طرز سے متاثر ہوتا تھا‘‘۔
والئ سعودی عرب ملک ابن سعود رحمہ اللہ بھی ممدوح کے معتقد و مداح تھے۔ مولانا سید داؤد غزنوی کے ایک صاحبزادے سید ابوبکر غزنوی ہیں جو اپنے زہد و ورع اور علم و فضل کی بناء پر علمی حلقوں میں مشہور و معروف تھے اخلاص و للّٰہیت میں بھی کمال حاصل تھا۔ ہمارے عصر کے مشہور فاضل و مبلغ ڈاکٹرملک غلام مرتضی خان(1) صاحب کو موصوف سے رشتہ بیعت و عقیدت حاصل تھا۔سید ابوبکر غزنوی نے چمنستان حیات کی صرف 49 بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ 16۔ اپریل 1976ء کو لندن میں ایک حادثے میں وفات پائی۔
غزنی کے اس مبارک خانوادے کی بدولت ارض ہند پر عمدہ اثرات مرتب ہوئے، مجموعی طور پر اس خاندان کے اراکین نے علم حدیث کی نشر و اشاعت کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ صلاح و تقویٰ
1۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب موصوف اس سال اغیار کی چشم بد کاشکار ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔
سے پیراستہ اس خانوادہ کے افراد نے عوام الناس کی اصلاح کیلئے انتھک محنت کی۔ صریرخامہ کو بھی جنبش دے کر اچھا دینی لٹریچر مہیا کیا، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے جلیل القدر تلمیذ رشید امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی تصانیف پہلی مرتبہ اسی خانوادے کی بدولت منصہ شہود پر آئیں۔
برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حلقہ اس خانوادئہ عالی قدر کی خدمت گوناگوں سے فیضاب ہوا، یادش بخیر ناموس رسالت ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے والے شہید اسلام غازی علم الدین کا خانوادہ بھی اسی خاندان کا عقیدت کیش تھا۔
زیر نظر کتاب علمائے غزنویہ کے مبارک تذکرے پر مبنی ہے، جس میں اس خاندان کے افراد علم کا
حسین مرقع پیش کیا گیا ہے، اس تذکرے کے فاضل مؤلف ہمارے محترم ملک عبدالرشید عراقی صاحب ہیں، جن سے مخلصانہ روابط کی ابتداء ان کے نامے مرقومہ 27۔ اگست 1999ء سے ہوئی اور ان مخلصانہ روابط کی شدتوں کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ آج 15۔ اپریل 2001ء تک راقم کے نام ان کے گرامی ناموں کی تعداد 28ہو چکی ہے۔ الحمد للہ یہ تعلق الفت و محبت اور رشتہ انس و عقیدت ہمارے مابین قائم ہے اور دعا ہے کہ ہمیشہ قائم رہے۔(آمین )۔
فاضل مؤلف کا اصل موضوع علمائے اہلحدیث کی تگ و تاز حیات اور ان کی خدمات بوقلموں کا تذکرہ ہے اس ضمن میں انہوں نے ایک کثیر مواد جمع کر دیا ہے جس سے افراد علم آئندہ استفادہ کریں گے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی کی جائے گی۔
ان سطور کے گناہگار راقم کیلئے یہ امر بڑے فرحت و انبساط کا باعث ہے کہ موصوف کی یہ گراں قدر علمی تألیف ’’غزنوی خاندان‘‘ ’’امام شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ پبلشرز‘‘ کے تحت شائع ہو رہی ہے۔
دعا ہے کہ میزان الٰہی میں اس جہد و سعی کو سند قبولیت مل سکے۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی
نام و نسب اور خاندان
مولانا سید عبداللہ غزنوی کا نام ’’محمد اعظم‘‘ تھا مگر آپ نے اپنا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھ لیا۔ شجرئہ نسب یہ ہے۔ عبداللہ بن محمد بن محمد شریف غزنوی۔
آپ فرماتے تھے۔’’محمد کہ اعظم افضل از مخلوقات است ہماں رسول اللہ ہست تسمیہ بعبد اللہ خوب است‘‘۔ (اہل حدیث امرتسر 6۔ دسمبر 1918ء)۔
’’محمد کا اسم گرامی رسول اللہ ﷺ کو ہی زیبا ہے جو ساری کائنات سے زیادہ عظمت رکھنے والے اور تمام مخلوقات سے افضل ہیں میر انام عبداللہ بہتر ہے‘‘۔
افغان قوم کی ایک مشہور نسل ’’ککے زئی ‘‘کے نام سے موسوم ہے اور ’’ککے زئی‘‘نسل کے جد اعلیٰ میں عبدالرشید تھے۔کی اولاد میں تین شجرے ہیں ۔(1)عمر(2)عمر زئی (3)عمر خیل دری زئی۔مولانا عبداللہ غزنوی کی نسبت عمر زئی قبیلہ کی طرف ہے ۔
ولادت: آپ 1230ھ /1811ء میں افغانستان کے شہر غزنی کے موضع بہادر خیل میں پیدا ہوئے
ابتدائی تعلیم: مولانا سید عبداللہ غزنوی نے ابتدائی تعلیم کن اساتذہ کرام سے حاصل کی اس کی تفصیل سوانح نگاروں نے نہیں بتائی ۔مولانا سید ابوبکر غزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’آپ بچپن میں غزنی کے علماء سے پڑھتے رہے علوم کی تعلیم آپ نے وہیں کی‘‘(داؤد غزنوی:220)
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ : ’’گمان غالب یہ ہے کہ آپ کو ابتداً والدہ نے تعلیم دی ہوگی کیونکہ وہ کافی پڑھی لکھی تھیں‘‘(الشیخ عبداللہ غزنوی160)