الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
علامہ حبیب اللہ قندھاری کی خدمت میں
علامہ حبیب اللہ قندھاری اس وقت اپنے علاقہ کے جید عالم اور صاحب کمالات تھے ۔ 1213ھ میں قندھار میں پیدا ہوئے علمائے قندھار ، ایران، اور عرب سے استفادہ کیا 25سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے اور قندھارمیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا 1241ھ میں جب حضرت سید احمد شہید اور مولانا شاہ محمد اسمعیل شہید دہلوی اپنے قافلہ کے ہمراہ قندھار پہنچے تو علامہ حبیب اللہ قندھاری نے حضرت شاہ اسمعیل شہید کی صحبت اختیارکی اور ان سے مستفیض ہوئے ۔
علامہ حبیب اللہ قندھاری بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔آپ نے مختلف موضوعات پر پشتو، عربی اور فارسی میں 35کتابیں لکھیں۔آپ نے 52سال کی عمر میں رمضان 1265ھ میں وفات پائی ۔(1)
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے بعض علوم اسلامیہ میں علامہ حبیب اللہ قندھاری سے استفادہ کیا اور اسی سلسلہ میں آپ نے غزنی سے قندھار کا سفر کیا اور علامہ قندھاری کی صحبت اختیار کی۔
مولانا سید ابوبکر غزوی لکھتے ہیں کہ :
’’شیخ حبیب اللہ قندھاری کے چشمہ علم سے پیاس بجھانے کی خاطر آپ سفر کی سختیاں جھیلتے ہوئے قندھار پہنچے کچھ مدت ان سے استفادہ کیا او روطن لوٹ آئے اس کے بعد جب کچھ مشکل مسئلہ پیش آتا آپ انہی کو لکھ بھیجتے حضرت شیخ کا جواب ہمیشہ محققانہ ہوتا۔اس کے کچھ مدت کے بعد مولانا عبداللہ غزنوی نے دوبارہ قندھار کا سفر کیا اور بعض مشکل کے حل کیلئے اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو محقق قندھاری نے علماء کی محفل میں فرمایا :
1۔ ملاحظہ ہو : اردو معارف اسلامیہ :7/890-888
’’مسائل دینیہ راچنا نکہ ایں شخص می فہم من خود نمی فہم ‘‘
(دینی مسائل کو جس طرح یہ شخص سمجھتا ہے میں بھی نہیں سمجھتا )(داؤد غزنوی :221)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں کہ :
’’محقق قندھاری کے علم و فضل کی شہرت ان کے شاگردوں اوران کی تالیفات کے ذریعہ ہندوستان تک پہنچی چنانچہ ان کے شاگرد مولوی عبداللہ غزنوی تھے جنہوں نے پنجاب اور ہندوستان کے علمی حلقوں میں بہت عزت پائی اور لوگ اس شاگرد کے علم وافر سے استاد کی عظمت کا اندازہ لگاتے تھے‘‘۔(سیر ت سید احمد شہید :39)
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں
شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی ذات محتاج تعریف نہیں آپ اپنے وقت کے عالم باعمل جلیل القدر محدث فقیہہ اور متبع سنت تھے۔ شاہ محمد اسحق دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے 1258ھ میں شاہ محمد اسحق کے جانشین ہوئے اور 62سال تک دہلی میں تفسیر ، حدیث اور فقہ کادرس دیا۔ اور اس 62سال میں بے شمار حضرات آپ سے مستفید ہوئے جن کا شمار ناممکن ہے۔
لا یعلم جنود ربک الا ہو
دہلی کا سفر
مولانا سید عبداللہ غزنوی حدیث کی تحصیل کیلئے عازم دہلی ہوئے آپ کے شریک سفر مولانا غلام رسول قلعوی اور مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی تھے۔
مولانا محی الدین احمد قصوری نے ان کے اس سفر دہلی کی تفصیل اپنے ایک مضمون میں اس طرح بیان کی ہے کہ :
’’ جس وقت یہ تینوں بزرگ دہلی گاڑیوں کے اڈے پر پہنچے تو ایک بزرگ آدمی کو وہاں موجود پایا جس نے ان سے پوچھ کر کہ کہاں قصد ہے ان کا اسباب اٹھالیا اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو وہاں پہنچا دونگا وہ بزرگ ان تینوں بزرگوں کا سامان اٹھا کر میاں نذیر حسین کی مسجد میں لے گیا ان کا اسباب وہاں رکھا اور خود غائب ہوگیا وہ حیران کہ اس مزدور نے پیسے بھی نہیں لئے اور کہاں چلا گیا ہے جب کافی وقت گزر گیا تو انہوں نے کسی صاحب سے دریافت کیا کہ میاں صاحب کہاں ہیں اور کب آئیں گے تو اس نے جواب دیا کہ یہ میاں صاحب ہی تو تھے جو آپ کا سامان لائے ہیں اب وہ غالباً گھر آپ کے کھانے کا کہنے گئے ہیں ۔ یہ تینوں بزرگ دل ہی دل میں بڑے نادم ہوئے چنانچہ جب میاں صاحب واپس تشریف لائے اور کھانا بھی لے آئے تو انہوں نے بہت ہی معذرت شروع کی تو میاں صاحب نے فرمایا آپ تحصیل حدیث کے لئے تشریف لائے ہیں تو حدیث بجز اس کے کیا ہے کہ خدمت خلق یہی حدیث کا پہلا سبق ہے‘‘۔(داؤد غزنوی :13)
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے میاں صاحب سے مع اپنے شریک سفر ساتھیوں صحاح ستہ کا درس لیا صحیح بخاری ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ 1857ء کا ہنگامہ ہوگیا او ریہ ہنگامہ 16رمضان 1273ھ بمطابق1857ء کو ہوا۔
دوران جنگ آپ پانچوں وقت مسجد میں تشریف لاتے اور نماز باجماعت ادا کرتے ہر طرف گولیاں چل رہی تھیں قتل و غارت کا سلسلہ جاری تھا مگر آپ بغیر کسی خوف کے مسجد میں تشریف لاتے ۔
آغا شورش کاشمیری مرحوم اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’دہلی میں تھے تو 1857ء کی ساڑھ مستی کا زمانہ تھا گورا فوج نے چاروں طرف گولیوں سے ہلاکت کا طوفان اٹھا رکھاتھا مسجدیں اور انکے گرد و نواح کا علاقہ خصوصیت سے اس قتل عام کا مرکز تھا ۔ ظہر کی نماز کا وقت ہواتوآپ مسجد کے حو ض پر آگئے گولیاں چلتی رہیں رائی برابر کھٹکا نہ کیا اس معجز نما جرأت کو دیکھ کر مقتدیوں نے بھی حوصلہ کیا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں وضو کرکے نماز میں لگ گئے‘‘۔(داؤد غزنوی :65)
میاں صاحب فرمایا کرتے تھے :
’’ میرے درس میں دوعبداللہ آئے ایک عبداللہ غزنوی اور دوسرے عبداللہ غازی پوری‘‘۔ (تراجم علمائے حدیث ہند:455)
دہلی سے وطن واپسی ، کتاب و سنت کی دعوت ،
شرک و بدعت کی تردید ، مخالفت اور جلا وطنی
1857ء کے ہنگامہ میں مولانا سید عبداللہ غزنوی واپس اپنے وطن غزنی تشریف لے گئے اور توحید و سنت کی تبلیغ اور شرک و بدعت کی تردید شروع کر دی اس وقت افغانستان میں شرک و بدعت اور جاہلانہ رسوم کا عام رواج ہوچکا تھا۔ بعض علمائے حق شرک و بدعت اور جاہلانہ رسوم کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔ لیکن علمائے سوء کے خلاف صف آراء ہونے کی قوت نہیں رکھتے تھے علامہ حبیب اللہ قندھاری جو حضرت عبداللہ غزنوی کے مربّی استاد تھے اس زمرے میں شامل تھے مولانا سید عبداللہ غزنوی جب وطن پہنچے تو آپ نے شرک و بدعت اور جاہلانہ رسوم کے خلاف آوازحق بلند کیا اور کتاب و سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دی چنانچہ لوگ آپ کے سخت مخالف ہوگئے ۔ علمائے سوء نے ان کی پشت پنا ہی کی اور حکومت کو بھی آپ کے خلاف اکسایا مگر آپ نے ہمت نہ ہاری آپ نے اتباع سنت پر کمر باندھی بدعتوں اور مشرکانہ رسموں کے خلاف آواز بلند کی اور لوگوں کو علوم کتاب و سنت کی طرف دعوت دی۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’ جب آپ نے خالص توحید اور اتباع سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور بدعات اور مشرکانہ رسوم کے خلاف آواز اٹھائی تو خواص و عوام سے بہت سے لوگ علماء اور عوام جو آپ کے ارادت مند تھے آپ کے خلاف ہوگئے اور ایذا رسانی پر اتر آئے‘‘۔(داؤد غزنوی:226)
علمائے سوء میں جنہوں نے شیخ عبداللہ غزنوی کے خلاف محاذ قائم کیا ان میں ملا درّانی ، ملا مشکی اور ملا نصر اللہ لوہانی پیش پیش تھے۔ ان حضرات نے حکومت کو آپ کے خلاف کیا اس وقت امیر دوست محمد خاں امیر کابل تھے ۔ انہوں نے علمائے سوء کی دل جوئی کی خاطر مولانا سیدعبداللہ کو ایک طرف ایذ اپہنچائی اور اس کے بعد جلا وطنی کا حکم صادر کردیا۔ مولانا غلام رسول مہر اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ مولانا سید عبداللہ غزنوی نے حق و صداقت کی راہ میں جو مشقتیں اور اذییتں اٹھائیں ان کا تصور بھی دل پر لرزہ طاری کر دیتا ہے ۔ وہ تنہا ایک طرف اور پوری حکومت دوسری طرف تھی۔ مگر مولانا سید عبداللہ غزنوی مرحوم و مغفور کے پائے ثبات و استقلال میں خفیف سے لرزش بھی رونما نہ ہوئی ۔ گھر بار چھوڑ دیا۔ وطن سے نکل آئے عزیزوں اور خویشوں سے مفارقت گوارا کر لی لیکن جن باتوں کو وہ حق سمجھتے تھے ان سے تمسک برابر قائم رکھا‘‘۔(داؤد غزنوی :31)
چنانچہ امیر دوست محمد خان نے آپکو جلاوطن کریا۔ آپ غزنی سے سوات اور وہاں سے ہزارہ تشریف لائے اور اسکے بعد پنجاب آگئے اور لوگوں کو کتاب و سنت کی دعوت دی اور اسکے ساتھ کتاب و سنت پر عمل کرنے کی ترغیب بھی دیتے کچھ عرصہ بعد آپ پنجاب سے ڈیرہ اسمعیل خان تشریف لے گئے ۔ اور وہاں کچھ عرصہ قیام کے بعد اپنے وطن غزنی تشریف لے گئے آپکا خیال تھا کہ اب کافی عرصہ گزر گیا ہے امیر دوست محمد خان کے حالات بدل گئے ہونگے لیکن آپکو گئے ہوئے ابھی ایک ماہ کا عرصہ گزرا کہ امیر دوست خان نے دوبارہ آپکی جلاوطنی کا حکم صادر کرایا۔لیکن آپ افغانستان کے باہر نہیں نکلے بلکہ ملک نادرہ چلے گئے اور وہاں اقامت اختیار کر لی امیر دوست محمد خان نے وہاں بھی ٹکنے نہ دیا ۔ تو آپ نے اپنے اہل و عیال سمیت یاغستان میں رہائش کرلی۔
علمائے سوء نے آپکے خلاف محاذ قائم کیا ہوا تھا چنانچہ انہوں نے آپ پر حملہ کرا دیا ۔ آپ کے بعض مرید اور عقیدت مند آپکے ساتھ تھے انمیں سے کئی ایک زخمی ہوئے لیکن آپ اور آپکے اہل وعیال کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنا فضل و کرم کیا اور اس جنگل بیابان میں اپنی نعمتوں سے نوازا آپکے فرزند ارجمند امام مولانا سید عبدالجبار غزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’سبحان اللہ ! ان آزمائشوں کے دور میں اور جلا وطنی اور تمام جہان کی دشمنی کے زمانہ میں وہ اس قدر خوشحال تھے کہ کسی امیر کو میں نے آپ سے بڑھ کر خوشحال نہیں دیکھا۔گویا غیب سے رنگا رنگ کی نعمتیں آپ کے سرپر برستی تھیں وہ کونسی نعمت تھی جو ان پہاڑوں میں آپ کے پاس نہیں پہنچی تھی‘‘۔(داؤ د غزنوی :228)
وطن واپسی اور دوبارہ جلا وطنی
آپ یاغستان میں مقیم تھے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ امیر دوست محمد خان کا ہرات میں انتقال ہوگیا ہے اور امیر شیر علی خان امیر کابل مقرر ہوا ہے تو آپ یاغستان سے واپس اپنے وطن غزنی تشریف لے آئے ۔ علمائے سوء نے امیر شیر علی خان کو بھی آپ کے خلاف بھڑکایا جب آپ کو اطلاع ملی کہ علمائے سوء میرے خلاف محاذ قائم کر رہے ہیں تو آپ نے امیر شیر علی کو ایک خط لکھا کہ
’’ میں مظلوم ہوں حاسدوں نے مجھ پر جھوٹی تہمتیں باندھی ہیں تمہارے باپ نے مجھے ملک بدر کر دیا تم اپنے باپ کی پیروی نہ کرنا‘‘۔
امیر شیر علی خان نے جواب میں آپ کو لکھا کہ
’’میں تمام رعایا کے خلاف ایک شخص کی رعایت نہیں کرسکتا۔ تم فوراً ہمارے ملک سے باہر ہو جاؤ‘‘۔
چنانچہ جب اخراج کا حکم آپکے پاس پہنچا تو آپ حیران ہوئے کہ اب کس طرف جاؤں چنانچہ آپ ایک غار میں چھپ گئے اور ایک مدت تک اس غار میں پوشیدہ رہے انہی دنوں آپ کو الہام ہوا ۔
فَقُطِعَ دَابِرَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالِمِیْنَ۔(الانعام :45)
’’پس جن لوگوں نے ظلم ڈھایا تھا ان کی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور حمد و ستائش اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔
اس الہام پر امیر شیر علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی بشارت تھی چنانچہ چند ہی دنوں میں اسکا تختہ الٹ دیا گیا ہے اس نے ہرات جاکر پناہ لی اور میر افضل خان امارت کے منصب پر فائز ہوا۔
علمائے سوء نے میر افضل خان کو بھی آپ کے خلاف اکسایا۔ اور اس نے آپ کی گرفتاری کا حکم صادر کردیا۔چنانچہ آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور آپ کے ساتھ آپ کے تین صاحبزادگان عالی مقام مولانا عبداللہ بن عبداللہ ، مولانا محمد بن عبداللہ اور مولانا عبدالجبار بن عبداللہ گرفتار ہوئے آپ کو معہ اپنے صاحبزادگان سردار محمد عمر خان امیر ’’ مقر‘‘کے سامنے پیش کیاگیا تووہ آپ کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی نرم پڑ گیا او رآپ سے کہنے لگا۔
’’آپ کیوں اس راستے کو چھوڑ نہیں دیتے جو کچھ وقت کے مولوی کرتے ہیں آپ بھی ان کے ساتھ شریک ہوجائیں‘‘۔
آپ نے جواب میں فرمایا:
’’مجھ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں کتاب و سنت کو جاری کروں۔اور مجھے یہ الہام ہوا ہے :
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَائَ ھُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَائَ کَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرِ۔(البقرۃ:120)
’’اگر تو نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس علم کے بعد جو تیرے پاس آچکا ہے تو کوئی حامی ومددگار تجھے اللہ کی سرزنش سے نہیں بچا سکے گا‘‘۔
لیکن ان لوگوں پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اور علمائے سوء نے امیر افضل خان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ یہ شخص راہِ راست پر نہیں آسکتا ا سکا کفر ثابت ہوچکا ہے اس لئے اس کو قتل کر دیا جائے۔اب دوبارہ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے سب علمائے سوء نے آپ کے قتل کے فتویٰ پر دستخط کر دیئے۔لیکن ملا مشکی نے دستخط نہ کئے۔ تو ا سکے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ آپ کو درّے مارے جائیں سر اور داڑھی مونڈھ دی جائے اور گدھے پر سوار کرکے تشہیر کی جائے۔
تاریخ ’’اہل حدیث ‘‘میں مرقوم ہے کہ
’’امیر افضل خان کی مرضی سے سب نے متفق ہو کر درّے مارنے اور گدھے پر سوار کرکے شہر میں پھرانے کا فتویٰ صادر کیا۔ چنانچہ آپکو اور آپکے تینوں بیٹوں (مولانا عبداللہ ، مولانا محمد،مولانا عبدالجبار) کو شہر میں پھرایا گیا۔اور درّے مارنے شروع کئے او رجب وہ ظالم اس تشہیر اور زدو کوب سے فارغ ہوئے تو آپکو بیٹوں سمیت قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔اور دوسال تک قید رہے‘‘۔(تاریخ اہل حدیث :436)
دوسال کے بعد آپ رہا ہوئے تو امیر افضل خان نے وفات پائی تو اسکے بعد امیر اعظم خان تخت پر بیٹھا تو اس نے آپکی جلاوطنی کا حکم صادر کر دیا ۔ تو آپ غزنی سے پشاور تشریف لے آئے۔
پشاور جلا وطنی اور امر تسر میں مستقل سکونت
جب امیر محمد اعظم خان کا حکم جلا وطنی آپ کو ملا تو آپ مع اہل و عیال غزنی سے پشاور پہنچے چنانچہ پشاور میں آپ نے کچھ دن قیام کیا او راس کے بعد آپ مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر تشریف لے گئے۔ اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی 15سال تک مصائب و آلام کا شکار رہے اب امرتسر میں کافی سکون ملا اور مصیبتوں اور تکلیفوں سے نجات ملی ۔
خدمات
امرتسر میں قیام کے بعد آپ درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ ، توحید و سنت کی اشاعت اور شرک و بدعت کی تردید میں مشغول ہوئے ۔ امر تسر کو آپ نے روحانی مرکز قرار دیا۔ اور دوسرے تین مراکز جو درس و تدریس ، تصنیف وتالیف اور جہاد سے متعلق تھے دہلی، بھوپال او رپٹنہ تھے۔(1 )
درس و تدریس
مولانا سید عبداللہ غزنوی جب غزنی سے آکر امرتسر میں قیام پذیر ہوئے تو آپ کے دل میں توحید و سنت کی اشاعت اور بدعات اور مشرکانہ رسوم سے پاک اسلام کی تبلیغ کا بے پناہ جذبہ موجزن تھا۔ چنانچہ آپ نے مدرسہ غزنویہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی جس میں آپ اور آپ کے صاحبزادگان عالی مقام مولانا عبداللہ بن عبداللہ، مولانامحمد بن عبداللہ ، مولانا عبدالجبار بن عبداللہ اور
1۔ ان چاروں مراکز کی تفصیل مصنف نے اپنی کتاب ’’اہل حدیث کے چار مراکز‘‘میں لکھی ہے۔(ناشر)
مولانا محمد حسین بٹالوی نے درس و تدریس کاسلسلہ شروع کیا چنانچہ آپ سے بہت سے لوگوں نے استفادہ کیا اور آپ کے درس کی شہرت پورے ہندوستان میں ہوگئی ۔ آپ کے تلامذہ نے ہندوستان میںمسلک اہل حدیث کے فروغ میں نمایاں کارنامے سر انجام دیئے۔
دعوت و تبلیغ
درس و تدریس کے علاوہ تبلیغ کے ذریعہ بھی آپ نے دینِ اسلام کی خدمت انجام دی۔ کتاب و سنت سے لوگوں کو روشناس کرایا ۔ بدعت او رمشرکانہ رسوم سے بچنے کی ترغیب دیتے رہے اور اپنے تلامذہ اور معتقدین کو بھی تبلیغ دین کی خدمت میں ترغیب دیتے تھے۔ چنانچہ اپنے ایک معتقد اور مرید محمد حسین کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ :
’’ حقیر کو خوابوں سے جو بات معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تمہارے لئے اسی میں ہے کہ تم دین کی اشاعت کرو اسلئے دین کی اشاعت میں پوری کوشش کرنی چاہیئے اور تحمل کے ساتھ اذیتیں برداشت کرنی چاہیئں اللہ تعالیٰ کے احکام خصوصاً توحید اور وحدانیت باری تعالیٰ کی تبلیغ اور نشرواشاعت مناسب طریقہ پر کیجئے‘‘۔(سوانح عمری :107)
اشاعت کتب
دین اسلام کی اشاعت کا ایک ذریعہ دینی وعلمی کتابوں کی اشاعت بھی ہے چنانچہ مولانا سید عبداللہ غزنوی نے اسطرف بھی توجہ خاص کی اور کئی دینی رسائل اور کتابیں جو توحید ، اتباع سنت اور عقائد صحیحہ سے متعلق تھیں فارسی اور اردو میں ترجمہ کراکے شائع کیں اور لوگوں میں مفت تقسیم کیں۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’توحید اور اتباع سنت اور عقائد کی بہت سی کتابیں اوررسالے عام لوگوں کے نفع کے واسطے فارسی اور اردو زبان میں ترجمہ کراکے چھپوائے اور مفت تقسیم کرائے‘‘۔(سوانح عمری:22)
تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی
تردیدصحیح اسلامی زہدو عبادت اور روحانیت کا درس
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی سختی سے تردید کی اور صحیح اسلامی زہدو عبادت اور روحانیت کا درس دیا اور اسی سلسلہ میں اپنے تلامذہ اور معتقدین کو ہدایت فرماتے رہتے تھے مولانا عبدالجبار غزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’ آپ ارباب ذوق کو فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری پیشانی کھیتی ہے خبردار ایسا نہ ہوکہ برے عالموں کی صحبت میں رہ کر اپنے دل کو خراب کر لو‘‘۔(سوانح عمری :3)
کمالات
شیخ عبداللہ غزنوی صاحب کمالات تھے ۔ قرآن و حدیث سے بہت زیادہ شغف تھا ۔ مولانا غلام رسولقلعوی فرماتے ہیں کہ :
’’مولانا عبداللہ غزنوی دو چیزوں کے بارے میں بہت کوشش فرماتے تھے۔پہلی چیز نماز کے اندر خشوع و خضوع دوسری چیز کلام اللہ میں تدبر اور غورو فکر اور فرماتے تھے کہ:’’الحمد للہ ! میرا بال بال قرآن مجید کی محبت سے بھرا ہوا ہے ‘‘۔حدیث نبوی ﷺ سے بہت محبت اور عشق تھا اتباع سنت اور احیائے سنت میں اپنی ساری زندگی گزار دی ‘‘۔
آپ کے پیش نظر نبی ﷺ کی درج ذیل احادیث تھیں۔
(1) جس نے میری سنت میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جس کو میرے بعد چھوڑ دیاگیا ہو زندہ کیا تو اسے اتنا اجر ملے گا جتنا اس کے کرنے والے کو ملے گا اور کسی کے اجر میں سے کچھ کمی نہیں ہوگی۔(مسلم)
(2) جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھے زندہ کیا او رجس نے مجھے زندہ کیا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔(ترمذی)
مولانا سید عبداللہ غزنوی مستجاب الدعوات تھے۔ مولانا محی الدین احمد قصوری ان کے مستجاب الدعوات ہونے کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ :
’’میرے والد مولانا عبدالقادر قصوری کے پھوپھا مولوی غلام قادر کو مولانا سید عبداللہ غزنوی سے ملنے کا بہت شوق تھا ایک دن نماز عصر کے بعد شیخ کی خدمت میں امرتسر حاضر ہوئے ۔ اور سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں عرض کی کہ حضرت میرے لئے دعا فرمائیں پوچھا کیادعا کروں عرض کیا کہ مجھے درد سر کا ایسا شدید دورہ پڑتا ہے کہ میں بے حال ہوجاتا ہوں اور میری نمازیں قضا ہوجاتی ہیں دعا فرمائیں کہ یہ شکایت دور ہوجائے۔ میری نماز باجماعت قضا نہ ہوچند منٹ ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور فرمایا :’’قبول شد انشاء اللہ ‘‘۔دعا کے بعد میرے پھوپھا 45سال زندہ رہے اس مدت میں نہ درد سر کی شکایت ہوئی اور نہ ہی کوئی نماز باجماعت قضا ہوئی ‘‘۔(داؤد غزنوی:15)
مولانا سید عبداللہ غزنوی ذکر الہیٰ بڑی توجہ سے کرتے تھے اور ان کے ذکر سے درو دیوار بھی ان کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ مولانا محی الدین احمد قصوری لکھتے ہیں کہ :
’’ایک دن میاں غلام رسول قلعوی کی کسی بات پر خفا ہوکر کہنے لگے ’’مولوی غلام رسول تو مولوی شدی، محدث شدی، عالم شدی، واعظ شدی واللہ ہنوز مسلمان نہ شدی‘‘یہ کہنا تھا کہ مولوی غلام رسول فرش پر گر گئے اور تڑپنے لگے ۔ پھر فرمایا ’’بگو لا الہ الا اللہ ‘‘۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی کا بیان ہے کہ :
’’اس وقت مسجد کے درودیوار سے لا الہ الا اللہ کی آواز آرہی تھی ۔(داؤد غزنوی :16)
مولانا سید عبداللہ غزنوی کی زندگی ایک عجیب صبرو استقامت اور اعتماد اور توکل علی اللہ کی نمونہ تھی دنیوی خواہشات سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کا پورا نمونہ تھی شیخ صبر و استقامت کا پہاڑ تھے 15سال تک افغان حکومت کے مصائب و آلام کا شکار رہے لیکن پائے ثبات و استقلال میں لغزش نہیں آسکی اعلائے کلمۃ الحق میںاپنی مثال آپ تھے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ اجر عظیم عطا فرمایا تھا کہ
’’ایک دن حدیث کی کتاب ’’ریاض الصالحین‘‘آپ کے سامنے پڑھی جارہی تھی جب یہ حدیث آئی کہ :
’’شہید کو قتل سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے ‘‘(ترمذی)تو آپ نے فرمایا :میں باوجودیکہ شہید نہیں ہواتھا شہر کابل میں وہ پہلوان جو مجھے نہایت زور سے ماررہا تھا مجھے یہ بھی خبر نہ تھی کہ مجھے مار رہا ہے یا کسی اور کو‘‘۔(الشیخ عبداللہ غزنوی :46-45)
اخلاق و عادات
اخلاق وعادات کے اعتبار سے مولانا عبداللہ غزنوی بلند مرتبہ تھے عفو و درگزر اور سخاوت میں ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ۔ مولانا سید عبدالجبار غزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’مولوی عبدالاحد خان پوری نے ایک دن عرض کیا کہ میرے حق میں دعا کریں اللہ تعالیٰ ایمان میں استقامت دے ۔ فرمایا میں تو اس شخص کے حق میں بھی دعا کرتا ہوں جو کابل میں مجھ کو نہایت سختی سے مارتا تھا کہ یااللہ ا سکو معاف کر اور اس کو بہشت میں داخل کر ، کیونکہ وہ جاہل تھا جانتا نہ تھاتمہارے واسطے کیوں نہ دعا کروں گا۔میرے دل سے تو بے اختیار ان تمام مسلمانوں کے لئے دعا نکلتی ہے جو آدم سے لے کر اس وقت تک پیدا ہوئے ہیں اور اس وقت کے ان کافروں کے واسطے بھی ہدایت کی دعا کرتا ہوں جو زندہ ہیں کئی دفعہ میں نے آپ کی زبان سے سنا فرمایا کرتے تھے جن لوگوں سے میں نے قسم قسم کی تکلیفیں اور گوناگوں ضرر اٹھائے ہیں میں نے سب کو معاف کر دیا قیامت میں اللہ تعالیٰ میرے لئے کسی کو نہ پکڑے‘‘۔(سوانح عمری :20)
مولانا سید عبداللہ غزنوی سخاوت کے وصف سے بہت زیادہ متصف تھے جب بھی روپے آتے اسی وقت غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیتے تھے اور اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔
وفات
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے سہ شنبہ15ربیع الاوّل 1298ھ مطابق 1879ء امرتسر میں انتقال کیا اور دروازہ سلطن ونڈ کے باہر عبدالصمد کشمیری کے تالاب کے کنارے سپرد خاک ہوئے ۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
اعترافِ عظمت
مولانا سید عبداللہ غزنوی بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی ، فقیہ بھی تھے اور مجتہد بھی راست باز صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ سے پنجاب اور اسکے گرد و نواح میںعلوم و معارف کے دریا بہا دیئے انکی علمی فیاضیوں اور عظمت و جلالت کے باعث برصغیر(پاک وہند) کے شہروں سے شائقین علوم و معارف انکے حلقہ درس میں شامل ہوکر علمی برکتیں سمیٹنے کیلئے آتے یہاں تک کہ علوم کتاب و سنت کے اسی دریا سے بے شمار نہریں کٹ کٹ کرہندوستان کے گوشے گوشے کو سیراب کرنے لگیں ۔
برصغیر (پاک و ہند) کے ممتاز اہل علم و قلم نے مولانا سید عبداللہ غزنوی کے علم وفضل کا اعتراف کیا ہے جن میں چند ایک اہل علم کے تاثرات یہاں درج کئے جاتے ہیں ۔
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی
جب مولانا سید عبداللہ غزنوی کا انتقال ہوا تو مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی نے ایک تعزیتی مکتوب بنام مولانا عبداللہ بن عبداللہ و مولانا سید عبدالجبار لکھا۔ میاں صاحب لکھتے ہیں ۔
’’از عاجز محمد نذیر حسین بمطالعہ گرامی مولوی عبداللہ ومولوی عبدالجبار رحمہم اللہ تعالیٰ بالخیر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
واضح ہوکہ خیر و برکت کے جامع کے انتقال کی خبر سے بہت زیادہ رنج اور افسوس ہوا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔اللہ انہیں بخش دے ان پر رحم کرے اور انہیں جنت الفردوس میں داخل کرے۔
واہ عبداللہ فنا فی اللہ شد
از جناب باریش تسلیم باد
چشمہ فیض کرامت شانِ او
رونق افزا چشمہ تکریم باد
ارحم الراحمین ۔ ان لوگوں کو باپ کی وراثت کے طور پر جادہ شریعت پر گامزن رکھے۔ یہ عاجز اللہ تعالیٰ کے دربار میں آپ لوگوں کیلئے دعا اور دونوں جہانوں میں خیر وخوبی کے لئے استدعا کرتا ہے ۔ قبول فرمائیں ۔
زیادہ سلام خیرالخاتم‘‘۔(الحیاۃ بعد المماۃ:176)
مولانا سید نواب صدیق حسن خان
مولانا سید نواب صدیق حسن خان مرحوم فرماتے ہیں ۔
’’چراغ اگر ہزار چرخ زند مشکل کہ چین ذات جامع کمالات برروئے ظہور آرد‘‘۔(تقصار من تذکار جیود الاحرار:192)
’’آسمان اگر ہزار بار بھی گردش کرے تو مشکل ہے کہ اب ایسی جامع کمالات ہستی معرض وجود میں آئے‘‘۔
دوسری جگہ نواب صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ :
’’سید عبداللہ غزنوی کیا ہی خوب بزرگ تھے وہ حدیث نبوی اور مسنون راہ باطن کے علم کے جامع تھے لوگوں کو راہ حق دکھانے میں وطن کے اندر بدعتیوں سے بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں ۔ عبادت و ریاضت میں بڑی مشغولیت رکھتے تھے۔ علم حدیث کی اشاعت اور اتباع سنت کے سلسلہ میں انہوں نے بڑا کام کیا۔معاصرین کے اندر اس باب میں کوئی ان جیسا دکھائی نہیں دیتا۔آپ اشاعت حدیث کا ایک آلہ اور بدعات و محدثات کے میٹ دینے کا ایک ذریعہ تھے اصول اور فروع دونوں میں سلف صالحین کے طریقہ پر چلتے تھے مذہبوں اور اماموں کی تقلید کو دین مبین اور شرح متین کے مضبوط قلعہ میں ایک دراڑ سمجھتے تھے‘‘۔(تقصار من تذکار جیود الاحرار:194)
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی
مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی غایۃ المقصود شرح سنن ابی داؤد کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’انہ کان فی جمیع احوالہ مستغرقا فی ذکر اللّٰہ عزو جل حتی ان لحمہ وعظامہ و اعصابہ واشعارہ و جمیع بدنہ کان متوجہا الی اللّٰہ تعالی فانیا فی ذکرہ عزوجل ‘‘(غایۃ المقصود :1/12)
’’وہ ہر وقت اور ہر حالت میں خدائے بزرگ و برتر کے ذکر میں ڈوبے رہتے تھے حتی کہ ان کا گوشت ، انکی ہڈیاں ، ان کے پٹھے اور ان کا ہر ہر بدن اللہ کی طرف متوجہ تھا، وہ اللہ عزوجل کے ذکر میں فنا ہوگئے تھے‘‘۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی
آ پ کے فرزند ارجمند مولاناسید عبدالجبار غزنوی فرماتے ہیں کہ :
’’وہ عبادت گزار ، بہت زیادہ ذکر کرنے والے، اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے اس کے سامنے بہت جھکنے والے اور خشوع و خضوع کرنے والے تھے گناہوں سے بچنے والے اللہ کے حضور عاجزی کرنے والے سب سے کٹ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونے والے اور اسی سے دعا و التجاء کرنے والے تھے مر دکامل اور یکتائے روزگار تھے اللہ کی طرف الہام اور خطاب سے نوازے جاتے تھے وہ اللہ کے لئے خاص کر دیئے گئے تھے بہت سچے بزرگ اور سخی تھی بڑے درد مند بردبار اللہ پر بھروسہ کرنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے مصیبتوں پر صبر کرنے والے اور اللہ کے اطاعت گزار تھے ۔ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت انہیں اللہ کی راہ سے قطعاً نہ روک سکتی تھی‘‘۔(داؤد غزنوی :219)
علامہ حبیب اللہ قندھاری
علامہ حبیب اللہ نے ایک دفعہ آپ سے مخاطب ہوکر فرمایا :
’’مجھ کو معلوم ہے کہ تمہارا تربیت کرنے والا اللہ عزوجل ہے ۔ تم کو میری حاجت نہیں ہے۔ اللہ عزوجل کبھی تم کو ضائع نہیں کرے گا۔اور کبھی کوئی مشکل اور عقدہ پیش آئے گا تو مجھ کو یقین ہے کہ اللہ عزوجل کسی دیوار یا درخت کو آپ کیلئے گویا کر دے گاجس سے آپکا عقدہ حل ہوجائے گا ‘‘۔(اہل حدیث امرتسر 6دسمبر1918ء)
مولانا سید عبدالحی الحسنی
مولانا حکیم سید عبدالحی الحسنی لکھتے ہیں
’’الشیخ الامام العالم المحدث عبداللّٰہ بن محمد بن محمد شریف الغزنوی الشیخ محمد اعظم الزاھد والمجاھد الساعی فی مرضاۃ اللّٰہ الموثر لرضوانہ علی نفسہ و اھلہ و مالہ و اوطانہ صاحب المقامات الشھیرۃ المعارف العظیمۃ الکبیرۃ‘‘۔(نزہۃ الخواطر:7/303-302)
’’ عبداللہ بن محمد بن محمد شریف غزنوی شیخ تھے امام تھے عالم تھے زاہد تھے مجاہد تھے رضائے الہی کے حصول میں کوشاں تھے اللہ کی رضاکے لئے اپنی جان ، اپنا گھر بار، اپنا وطن سب کچھ لٹا دینے والے تھے علماء سوء کے خلاف ان کے معرکے مشہور ہیں ‘‘۔
آخر میں مولانا عبدالحی لکھتے ہیں کہ :
’’ورع ، حسن سمت، تواضع اور روحانیت ہی میں اشتغال رکھنے کا آپ پر خاتمہ ہوگیا تمام لوگ آپ کی تعریف اور آپ کے خصائل و عادات سے متعلق مدح سرائی پر متفق ہیں اس سلسلہ میں آپ ہی کا نام لیا جانے لگا تھا‘‘۔
قاضی غلام قندھاری
قاضی غلام قندھاری اپنے مکتوب بنام ملا سعد الدین مقری مولانا سید عبداللہ غزنوی کوان القاب سے یاد کرتے ہیں ۔
’’حقائق و معارف آگاہ، الموفق من عنداللہ قائد الخلق الی صراط اللہ محی السنۃ و قامع البدعۃ۔میاں محمد اعظم صاحب صاحبزادہ کی نسبت جس کے حق میں یہ کہنا بجا اور درست ہے کہ ’’رجل مملؤمن السنۃ من الفرق الی القدم ‘‘۔(سوانح عمری:9)
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے دو خاص رفیق
شیخ عبداللہ غزنوی جب تحصیل حدیث کے لئے شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے ۔ تو آپ کے رفیق سفر مولانا غلام رسول قلعوی اور مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی تھے ان تینوں علمائے کرام نے ایک ساتھ شیخ الکل محدث دہلوی سے حدیث کی تحصیل کی مولانا غلام رسول قلعوی اور مولانا حافظ محمدلکھوی سید عبداللہ غزنوی کے رفیق خاص تھے۔
مولانا غلام رسول قلعوی
مولانا غلام رسول بن مولوی رحیم بخش بن مولوی نظام الدین 1228ھ میں ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ کوٹ بھوانی داس میں پیدا ہوئے ۔
پانچ سال کی عمر میں قرآن مجید سے تعلیم کا آغاز ہوا ۔ا سکے بعد مولانا نظام الدین لکھوی سے علوم اسلامیہ کی تحصیل کی ۔ اور حدیث کی تحصیل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی ۔ حدیث میں آپ کے شریک درس سید عبداللہ غزنوی تھے 20سال کی عمر میں علوم اسلامیہ سے فراغت پائی ۔ جب آپ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ میں شاہ عبدالغنی مجددی سے بھی حدیث کی سند و اجازت حاصل کی۔
فراغت تعلیم کے بعد اپنے وطن قلعہ میہان سنگھ آکر دین اسلام کی خدمت اور اشاعت میں مشغول ہوئے ۔ آپ بہت بڑے مبلغ تھے ۔ آپ کا وعظ بہت مؤثر ہوتا تھا ۔آپ کے وعظ سے ہزاروں غیر مسلم مسلمان ہوئے۔
1857ء کے ہنگامہ جنگ آزادی میں آپ دہلی میں تھے ۔واپس آکر وعظ و تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا ہزاروں آدمی آپ کے مرید ہوگئے ۔ توحید وسنت کی اشاعت میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں پنجاب میں آپ نے توحید کا بیج بویا۔ شرک و بدعت کی بیخ کنی کی آپ پنجاب میں بانی اشاعت توحید و سنت تھے ، صاحب کرامات بزرگ تھے ۔ حق گوئی اور بیباکی میں بھی آپ کی مثال نہیں ملتی۔
1857ء کی تحریک آزادی میں آپ کو گرفتار کیاگیا اور لاہور میں سیشن جج لارڈ منٹگمری کی عدالت میں پیش کیاگیا اسی دوران یہ مشہور ہوگیا کہ مولانا غلام رسول کو پھانسی کا حکم ہوجائے گا چنانچہ ہزاروں آدمی عدالت کے باہر جمع ہوگئے لارڈ منٹگمری نے جب ہزاروں آدمی کو عدالت کے باہر دیکھاتو ان کے جمع ہونے کی وجہ معلوم کی تو اسکو بتایا گیا کہ مولوی غلام رسول پنجاب بھر کا استاد اور پیر ہے او ریہ لوگ اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے پیر کو پھانسی ہوگئی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے یہ سن کر منٹگمری گھبرا گیا اور اس نے مولانا غلام رسول کو پھانسی کی سزاد دینے کی بجائے نظر بند کر دیا اور کچھ عرصہ بعد آپ رہا کر دیئے گئے ۔(تاریخ اہل حدیث :438)
رہائی کے بعد ساری زندگی وعظ و تبلیغ اور درس و تدریس میں بسر کر دی ۔ علوم اسلامیہ کے متبحر عالم تھے ۔ تفسیر ، حدیث ، فقہ، فلسفہ اور تاریخ میں کامل استاد تھے ان کی پوری زندگی سنت نبوی ﷺ کے مطابق گزری ۔
تصنیف میں آپ کی درج ذیل کتابیں ہیں ۔
(1) ایک رسالہ نماز میں تشہد کے وقت شہادت کی انگلی اٹھانے کے سلسلہ میں ہے ۔
(2)دوسری کتاب رمضان کے آخری جمعہ کو چار رکعات قضائے عمر سمجھ کر پڑھنے کے ابطال میں ہے۔
(3)تیسری کتاب ’’پکی روٹی‘‘پنجابی نظم ہے۔
(4)چوتھی کتاب سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی ہے۔
آپ کے دو صاحبزادے تھے مولانا عبدالقادر اور مولانا عبدالعزیز ۔مولانا غلام رسول نے 63سال کی عمر میں 1291ھ میں قلعہ میہان سنگھ میں انتقال کیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
مولانا عبدالحی الحسنی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’الشیخ العالم المحدث غلام رسول قلعوی کان من العلماء راسخین فی العلم ۔(نزہۃ الخواطر:8/247)
مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی
مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی بھی شیخ عبداللہ غزنوی کے رفیق خاص تھے اور دہلی میں سید محمد نذیر حسین دہلوی سے ایک ساتھ حدیث پڑھی تھی۔
مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی 1221ھ میں مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے قصبہ لکھوکے میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم حافظ بارک اللہ سے کیا ۔ پہلے بھی قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد صرف ، نحو ،فارسی ، منطق ، فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں بھی اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اس کے بعد لدھیانہ جاکر مختلف علماء سے مختلف علوم میں استفادہ کیا بعد ازاں مولانا عبداللہ غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔
دہلی سے واپس آکر وطن موضع لکھوکے میں 1272ھ/1856ء میں ’’مدرسہ محمدیہ ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی اس درسگاہ سے ہزاروں علمائے کرام مستفیض ہوئے ۔آپ کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے تاہم چند مشہور تلامذہ یہ تھے۔
(1)مولانا عبدالرحمن محی الدین لکھوی (آپ کے صاحبزادہ)
(2)مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی
(3)مولانا رحیم بخش لاہوری
(4)مولانا عبدالوہاب دہلوی
(5)مولانا عبدالقادر بن محمد شریف لکھوی
مولانا حافظ محمد لکھوی علم وفضل کے اعتبار سے بلند مرتبہ کے حامل تھے ۔اللہ تعالی نے آپ کو بے پناہ قوت حافظہ سے نوازاتھا۔ جو کتاب ایک بار دیکھ لی وہ پوری کی پوری حافظہ میں نقش ہوجاتی تھی ان کی ساری زندگی درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ میں بسر ہوئی ان کی دینی خدمات کا اعتراف ان کے استاد شیخ الکل مولاناسید محمد نذیر حسین محدث دہلوی نے بھی کیا ہے۔
1319ھ میں مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی دہلی تشریف لے گئے۔ اس وقت مولانا میاں سید نذیر حسین دہلوی کی بینائی کمزور ہو چکی تھی حافظ عبدالمنان صاحب نے میاں صاحب کی خدمت میں عرض کی مجھے پہچان لیا ہے تو شیخ الکل نے فرمایا ہاں میں نے تمہیں پہچان لیا ہے تم عبدالمنان وزیر آبادی ہو تم نے اور عبدالجبار غزنوی اور حافظ محمد لکھوی نے پنجاب میں توحید و سنت کی اشاعت کر کے میرے دل کو ٹھنڈک پہنچائی ہے۔(الاعتصام لاہور12اپریل1974ء)
مولانا حافظ محمد لکھوی کے علم و فضل کا عتراف جید علمائے کرام نے کیا ہے۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں:
العالم الکامل الصالح بن الصالح محمد بن بارک اﷲ لکھوی الفنجابی(غایۃ المقصود:1/13)حافظ محمد بن بارک اﷲ لکھوی عالم تھے کامل تھے۔ صالح تھے اور ان کے والد بھی صالح تھے۔
حافظ صاحب فیاضی و ایثار میں بھی بہت آگے تھے نادار طلباء کی بھی امداد فرماتے تھے اور ان کے علاوہ دوسرے غریب اور مساکین کی بھی امداد کرتے بے شمار یتیم لڑکیوں کی شادیاں بھی کیں۔ اخلاق و عادات کے اعتبار سے ان کی زندگی اسوئہ نبی ﷺ کی مظہر تھی اور ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے اور اخلاق حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہمیشہ فکر آخرت کا تصور دامن گیر رہتا۔ کوئی صدمہ پہنچتا تو صرف انا للہ وانا علیہ راجعون پڑھتے۔ حافظ محمد لکھوی صاحب کرامات بزرگ تھے۔
حافظ صاحب نے تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ کی آپ کی زیادہ تصانیف پنجابی نظم میںہیں آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں ۔
(1) نصاب الفقہ (انواع بارک اللہ )(2)شیرطریقت(3)حواشی انواع علم اللہ لاہوری (4)سیف السنۃ(5) احوال الاخرت(6)زینت الاسلام (7)تفسیر محمدی (8)انواع محمدی(9)دین محمدی
مذکورہ کتابیں پنجابی نظم میں ہیں ۔
(10)ابواب الصرف (فارسی )(11)سبیل الرشاد (فارسی) (12)علم النحو(فارسی) (13)علم الصرف (فارسی) (14)علم المعانی (فارسی) (15)قوانین الصرف(فارسی نظم) (16)حواشی سنن ابی داؤد (عربی) (17) التعلیقات علی مشکوۃ المصابیح (عربی)
مولانا حافظ محمد لکھوی نے 27اگست 1893ء مطابق 13صفر 1311ھ 90سال کی عمر میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں وفات پائی ۔انا للہ و اناالیہ راجعون۔
تلامذہ
مولانا سید عبداللہ غزنوی کی امرتسر کی زندگی درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ میں بسر ہوئی آپ کے تلامذہ اور مستفیدین کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں آپکے چند مشہور تلامذہ کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ تلامذہ میں آپ کے صاحبزادگان عالی مقام اور پوتے بھی شامل ہیں ۔ لیکن انکا ذکر علیحدہ باب میں آئے گا۔آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں
(1)مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آروی
(2)مولانا رفیع الدین شکرانوی بہاری
(3)مولانا قاضی طلاء محمد خان پشاوری
(4)مولانا قاضی عبدالواحد خان پوری
(5)مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی
(6)مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی
(7)مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی
(8)مولانا حافظ محمد رمضان پشاوری
(9)مولا عبدالوہاب صدری دہلوی
(10)مولانا قاضی ابو عبداللہ محمد خان پوری
مولانا حافظ ابراہیم آروی٭
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبدالعلی آروی کا شمار برصغیر کے مشہور علماء واعظین میں ہوتا ہے آپ 1264ھ میں ’’آرہ ‘‘ صوبہ بہار میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے کیا اور ابتدائی کتابیں مقامی علماء سے پڑھیں اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے دیو بند اور علی گڑھ کا سفر کیا اور مولانا یعقوب بن ملوک علی اور مولانا لطف اللہ سے استفادہ کیا اسکے بعد واپس وطن آئے اور مولانا سعادت علی بہاری سے بقیہ کتابیں پڑھ کر سند فراغ حاصل کی۔ حدیث کی تحصیل کے لئے سہارن پور کا سفر کیا اور مولانا احمدعلی محدث سہارن پوری سے صحاح ستہ پڑھا اس کے بعد آپ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔ اور حجاز میں شیخ احمد بن زینی دہلان ، شیخ احمد بن اسعد دہان مکی اور شیخ عبداللہ بن حمید سے سند و قرأت و اجازت حاصل کی۔
اس کے بعد آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ میں آپ نے شیخعبدالغنی مجددی سے حدیث کی سند و اجازت حاصل کی۔ حرمین شریفین سے واپس آکر مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی ، مولاناشیخ قاضی محمد مچھلی شہری اور علامہ حسین بن محسن الیمانی سے بھی حدیث کی سند واجازت حاصل کی ۔ دہلی سے آپ امرتسر آئے اور مولانا سید عبداللہ غزنوی کی صحبت اختیار کی ۔ اور ان سے اکتساب فیض کیا۔
٭۔ مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم آرویؒ کے تفصیلی حالات ’’تاریخ علم و عمل کے چند غیر فانی نقوش ‘‘از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی (زیر طبع امام شمس الحق ڈیانوی ؒ پبلشرز کراچی) میں شامل ہیں ۔
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی ۔ مدرسہ احمدیہ اپنے عہد کا ایک منفرد دینی مدرسہ تھا ۔ اس مدرسہ میں ایک طرف انگریزی تعلیم پر توجہ کی جاتی تھی اور دوسری طرف جہاد کی ابتدائی تیاریوں کی طرف بھی توجہ کی جاتی تھی۔
اس مدرسہ میں بڑے بڑے جلیل القدر علمائے حدیث نے تدریسی خدمات انجام دیں ۔ مثلاً مولانا حافظ عبداللہ محد ث غازی پوری اور مولانا محمدسعید محدث بنارسی اور اس مدرسہ سے نامی گرامی علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے ۔ مثلاً مولانا عبدالرحمان محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی فی شرح جامع الترمذی اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب سیرۃ البخاری ۔
مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی مرحوم اس مدرسہ کے بارے میں لکھتے ہیں
’’مدرسہ احمدیہ آرہ اپنے عہد میں اہلحدیث بہار کی یونیورسٹی تھی جس میں تمام ملک کے طلباء حاضر رہے ۔ افسوس آج ہماری یہ یونیورسٹی برباد ہوگئی ہے۔(ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات :149)
مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم لکھتے ہیں کہ
’’مولوی نذیر حسین کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم آروی خاص حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوش گوار اور پر درد واعظ تھے وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔نئی باتوں میں سے اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے ۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن علماء اور عربی مدرسہ اور اس میں دار الاقامۃ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا۔ اور انہی نے 1890ء میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لئے جلسہ مذاکرہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بسال جلسہ آرہ میں ہوتا تھا۔ اسمیں انگریزی بھی پڑھائی جاتی تھی ندوہ کے قیام کے بعد 1313ھ مطابق1896ء میں اس کا سب سے پہلا جلسہ آرہ سے باہر در بھنگہ میں ہوا۔ اور وہاں بحث پیش آئی کہ ندوہ کے رہتے ہوئے اسکے قیام کی ضرورت ہے یا نہیں ۔ بہرحال وہ قائم رہا اور مدتوں خوش اسلوبی کیساتھ چلتا رہا۔1900ء میں میرے والد مرحوم مجھے اس مدرسہ میں بھیجنا چاہتے تھے مگر تقدیر کچھ اور تھی یہ تجویز عمل میں نہ آئی مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری (م1337ھ) سالہا سال تک اس میں پڑھاتے رہے مولانا عبدالسلام مبارکپوری ، مولانا عبدالرحمان مبارکپوری اور ہمارے دوست مولانا ابوبکر محمد شیث جون پوری اور بہت سے علماء یہاں کے شاگرد ہیں ۔ حافظ صاحب کے بعد مدرسہ پر زوال آیا۔ابھی چند سال ہوئے ہیں کہ مدرسہ آرہ سے در بھنگہ منتقل ہوگیا اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ کے نام سے مشہور ہے۔(حیات شبلی:3۔8)
مولانا سید سلیمان ندوی مقدمہ تراجم علمائے حدیث ہند میں لکھتے ہیں کہ
’’مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کی درسگاہ سے جو نامور اٹھے ان میں ایک مولانا ابراہیم صاحب آروی تھے جنہوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا۔ اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی‘‘۔ (ص36)
مولانا حافظ ابراہیم آروی بہت بڑے واعظ اور مبلغ تھے آپ نے اودھ، مدراس ، بمبئی ، بنگال ، پنجاب اور دکن کی سیر وسیاحت بذریعہ اشاعت اسلام کرکے مردہ دلوں کو زندہ کیا آپ کے وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں مخلوق خدا راہِ مستقیم پر آگئی ۔ اور سارے ہندوستان میں ایک نئی روح پھونک دی حافظ صاحب قوت تحریر اور وضاحت تقریر میں یگانہ روزگار تھے۔
مولانا حافظ ابراہیم آروی بہت عمدہ مدرس، ماہر تعلیم ، مجاہد، اور علوم اسلامیہ کے مقبول عالم تھے۔ اور اس کے ساتھ اعلی پایہ کے منصف بھی تھے۔آپ کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد 23ہے مشہور تصانیف یہ ہیں ۔
(1)تفسیر خلیلی 4جلد (2)طریق النجاۃ فی ترجمۃ الصحاح من المشکوۃ (3)فقہ محمدی ترجمہ و شرح الدر البہیۃ للشوکانی (4)ارکان اسلام(5) القول المزید فی احکام التقلید (6)تلخیص الصر ف (7)تلخیص النحو۔
مولانا حافظ ابراہیم آروی بخیال ہجرت 1900ء مطابق 1318ھ مکہ معظمہ روانہ ہوئے کچھ عرصہ طائف میں گزارا۔ اسکے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے مدینہ میں آپکا قیام ایک برس رہا ۔اور درود و سلام پڑھنا شغل تھا۔
ذی قعدہ 1309ھ بقصد چوتھے حج کیلئے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ آئے۔ 6ذی الحجہ 1319ء بحالت احرام ہیضہ کی بیماری سے انتقال کیااور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے ۔ مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں کہ
’’افسوس کہ ان کی بے وقت موت سے مسلمانوں میں نہ صرف ایک عدد کی کمی ہوگئی بلکہ قوم کو من حیث القوم سخت نقصان پہنچا کیونکہ آدمی غایت ہی بااخلاص نیک نیت ، سچے اور جوشیلے تھے۔ جس وقت جو امر حق ان کے ذہن میں ثابت ہوگیا ایک منٹ کے لئے بھی اس پر عمل کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے اور نہ اسکی پرواہ کرتے کہ لوگ مضحکہ اڑائیں گے ۔ یا متلون المزاج کہیں گے اسی لئے ان کی نماز اور ان کا وعظ ایسا پراثر تھا کہ اب انکو نہ صرف آنکھیں بلکہ دل ڈھونڈتا ہے آخر میں طبیعت کا رجحان تصوف کی طرف اور زیادہ ہوگیا تھاعن قریب تبلیغ اسلام کیلئے یورپ و،افریقہ اور امریکہ جانیوالے تھے اور تبلیغ احکام کیلئے مصر، شام ، روم او رعراق کا سفر کرنیوالے تھے اس نقصان کی تلافی اب اللہ کے ہاتھ ہے۔(الحیاۃ بعد المماۃ:242 )
مولانا رفیع الدین شکرانوی بہاری ٭
مولانا رفیع الدین بن بہادر علی بن نعمت اللہ صدیقی مشہور عالم اور محدث تھے1261ھ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم مولانا محمد احسن گیلانی سے حاصل کی اس کے بعد دہلی کا سفر کیا اور مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے صحاح ستہ ، موطا امام مالک اور تفسیر جلالین پڑھیں آپ کے شریک درس مولانا
٭ مولانا رفیع الدین شکرانوی ؒ کے تفصیلی حالات ’’آسمان علم و فضل کے درخشاں ستارے‘‘ از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی (زیر طبع امام شمس الحق ڈیانوی ؒ پبلشرز کراچی) میں شامل ہیں ۔
سید شریف حسین بن مولانا سید محمد نذیر حسین تھے۔ دہلی سے فراغت کے بعد آپ امرتسر تشریف لے گئے اور مولانا سید عبداللہ غزنوی کی صحبت میں 8ماہ گزارے اور ان سے اکتساب فیض کیا۔ اور اس کے بعد حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے ۔
آپ بڑے اچھے اور خوش اخلاق آدمی تھے، کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا ۔اور کتابوں کے حصول کیلئے بڑی رقم خرچ کرتے تھے عراق و عرب سے بہت سی کتابیں لائے ائمہ میں سے کسی کی تقلید نہیں کرتے تھے اور دلیل کی بنیاد پر فتویٰ دیتے تھے تفسیر القرآن بالقرآن میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا روزانہ درس قرآن و حدیث دیتے تھے۔
تصنیف میں ان کی ایک ہی کتاب ’’رحمت الودود علی رجال سنن ابی داؤد (عربی) ہے 1338ھ میں انتقال کیا۔
مولانا قاضی طلاء محمد خان پشاوری ٭
مولانا قاضی طلاء محمد خان بن قاضی محمد حسین بن محمد اکبر خان برصغیر(پاک و ہند) کے مبتحر عالم دین تھے ۔ علوم اسلامیہ میں یگانہ روزگار تھے آپ کا تعلق پشاور کے ایک علمی خاندان سے تھا انکے بھائی مولانا عبدالکریم قاضی القضاۃ افغانستان تھے اور انکے بھتیجے عبدالقادر والی کابل شیر علی خان کے وزیر تھے۔
مولانا قاضی طلاء محمد خان نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی بعد ازاں آپ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے تفسیر ، حدیث ، اور فقہ کی تعلیم حاصل کی دہلی سے فراغت کے بعد مولانا سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی صحبت اختیار کی اور ان سے اکتساب فیض کیا۔
مولانا قاضی طلاء محمد خان پشاوری بڑے ادیب ، فاضل اور صاحب علم وفضل تھے مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں کہ :
٭ قاضی طلا محمد خاں پشاوری ؒ کے حالات ’’آسمان علم و فضل کے درخشاں ستارے‘‘ از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی (زیر طبع امام شمس الحق ڈیانوی ؒ پبلشرز کراچی) میں شامل ہیں ۔
’’ مولانا قاضی طلاء محمد خان پشاوری علاوہ فاضل ، فقیہہ اور محدث ہونے کے بڑے فصیح و بلیغ شاعر عربی و فارسی کے تھے‘‘(الحیاۃ بعد المماۃ:353)
آپ کا یہ شعر عوام و خاص کی زبان پر ہے جسے مولانا ثناء اللہ امرتسری اپنے اخبار اہلحدیث کے سرورق پر لکھاکرتے تھے ۔
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن
آپ کا یہ شعر بھی کافی شہرت رکھتا ہے
ما اہل حدیثم وادغارانہ شناسیم
باب الحیل ایں فقہاء رانہ شناسیم
آپ نے اپنے استاد شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی مدح میں چار قصیدے لکھے جن میں2عربی میں اور 2فارسی میں ہیں ۔
تصنیف میں آپ کی دو کتابوں کے نام معلوم ہوسکے ہیں ۔
1 ۔ نشاط الطرب فی اشواق العرب (عربی)
2۔قصائد غراء فی نصر السنۃ(عربی )
مولانا قاضی طلاء محمد خان نے 1310ھ میں مکہ معظمہ میں وفات پائی اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے ۔
مولانا قاضی عبدالاحد خان پوری
مولانا قاضی عبدالاحد بن مولانا قاضی محمد حسن خان پوری کا شمار علمائے فحول میں ہوتا ہے آپ تمام علوم اسلامیہ میں یکتائے روز گار تھے ۔ تفسیر ، حدیث، فقہ اور تاریخ میں ید طولیٰ حاصل تھا فن مناظرہ میں بھی ان کا کافی مہارت حاصل تھی ۔ تحریر اور تقریر میں اپنی مثال آپ تھے۔
14جمادی الثانی 1268ھ/4اپریل1852ء خان پور میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے بھائی مولانا قاضی محمد مرحوم سے حاصل کی ۔ اس کے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے تفسیر، حدیث اور فقہ میں تحصیل کی دہلی سے فراغت تعلیم کے بعد امرتسر آئے اور مولانا سید عبداللہ غزنوی کی صحبت میں رہ کر ان سے مستفیض ہوئے ۔
مولانا قاضی عبدالاحد بڑے فاضل جری اور بیباک تھے حق گوئی اور بیباکی میں ان کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی ان کی حق گوئی کا ایک واقعہ مولانا قاضی محمد عبداللہ خان پوری نے اپنی کتاب ’’تذکرہ علمائے خان پور‘‘ میں درج کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ قاضی صاحب حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے آپ نے بمعہ اپنی اہلیہ محترمہ کے حج کیا اس وقت کے سلطان ابن سعود مرحوم سے بھی بحیثیت دیگر علماء ملاقات ہوئی سلطان موصوف نے بدوران گفتگو کہاکہ میں نے ایک مسئلہ میں استفتاء علماء حرمین سے کیا اس کے متعلق جو فتویٰ علمائے نجد نے دیا مجھے پسند نہیں آیا لیکن جو فتویٰ میرے اپنے قاضی نے دیا وہ مجھے پسند آیا ہے چونکہ پہلی ملاقات تھی اس وقت تو آپ چپ رہے لیکن دوسرے روز جب سلطان موصوف سے پھر ملاقاات ہوئی تو آپ نے سلطان سے کہاکہ میں آج تک کبھی کسی سے نہیں ڈرا اور آپ سے غالباً یہ آخری ملاقات ہے اسلئے میں آپ پر یہ الزام نہیں چھوڑتا چاہتا کہ لوگ کہیں کہ عبدالاحد سلطان ابن سعود سے ڈر گیا تھا اس لئے گزارش ہے کہ کل جس فتویٰ کو آپ نے ناپسند کیا ہے اس کے دلائل یہ ہیں یہ کہہ کر آپ کھڑے ہوگئے ایک گھنٹہ تک پرجوش تقریر عربی میں کی اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے اعتقادات کا ذکر اس ضمن میں آگیا۔ سلطان آپ کی تقریر حیرانی سے سن رہا تھا اور تعجب کر رہا تھا کہ یہ شخص کیسا جری ہے جو مجھ سے اس طرح خطاب کر رہا ہے جس طرح ایک معمولی آدمی سے کیا جاتا ہے میرا رعب ا س پر بالکل نہیں پڑا حالانکہ بڑی بڑی سلطنتوں کے سفراء جب میرے سامنے آتے ہیں تو میرا رعب ان پر نمایاں ہوتا ہے سلطان نے آپ کی تقریر سننے کے بعد آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
عقیدتنا عقیدتک:یعنی میں آپ سے اس بارہ میں متفق ہوں اور میرا عقیدہ وہی ہے جو آپ کا ہے ۔
اسکے بعد جب آپ کی دلیری کا ذکر انھیں ہندوستانی اصحاب سے کیاگیا اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہندوستان میں (جو انگریزوں کے قبضہ میں ہے)بھی ایسے علماء موجود ہیں جو اس قدر نڈر اور بہادرہوں تو آپکو بتایا گیا کہ قاضی صاحب ہندوستان میں بھی باطل کے مقابلے میں اور اسی طرح حق کی حمایت میں ہمیشہ نڈر ار بیباک رہے ہیں ۔ واپسی کے وقت سلطان موصوف نے آپکو خلعت پیش کیا اور آپکی اہلیہ کیلئے ایک سونے کی گھڑی بطور تحفہ عنائت کی اور اپنی موٹر میں سوار کرکے جدہ تک پہنچانے کا حکم دیا ۔(تذکرہ علمائے خان پور:113-114)
قاضی صاحب حمیت دینی میں بڑے جری واقع ہوئے تھے اور دین اسلام کے مقابلہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے ۔
مولانا قاضی عبدالاحد سید عبداللہ غزنوی کے صحبت یافتہ تھے جس طرح سید عبداللہ غزنوی بڑے جری نڈر اور بیباک تھے اور ان کی ساری زندگی جابر حکومت سے مقابلہ کرتے ہوئے گزری اسی طرح قاضی صاحب بڑے جری اور بیباک تھے دین اسلام کی خدمت میں ان کی بھی ساری زندگی بسر ہوئی بدعات و محدثات کی تردید ، قادیانیت کی تردید اور بیخ کنی میں ان کی خدمات قابل قدر ہیں ۔
مولانا قاضی عبدالاحد خان پوری طب میں حکیم نور الدین قادیانی کے شاگرد تھے ایک دفعہ حکیم نور الدین قادیانی راولپنڈی آئے تو قاضی صاحب نے اپنے بھائی مولانا قاضی محمد صاحب کے ساتھ حکیم نور الدین سے ملنے کے لئے چلے گئے دوران گفتگو حکیم نور الدین نے قاضی صاحب سے کہا:
قاضی صاحب آپ نے مرزا صاحب کی تکفیر کیوں کی آپ کو آسمان سے آواز آتی ہے یا زمین سے کہ مرزا صاحب کافر ہیں ۔
قاضی صاحب نے کہا دونوں طرف سے ۔
حکیم نور الدین نے کہا وہ کیسے۔
قاضی صاحب نے فرمایا ۔
آسمان کی طرف سے آوازیں نہیں آیا کرتیں لیکن جو احکام بذریعہ وحی آسمان کی طرف سے آئے ہیں ان کی رو سے مرزا صاحب کافر ہیں باقی رہی زمین توآپ دیکھ رہے ہیں کہ کل دنیا انہیں کافر کہتی ہے یہ ہوئی زمینی آواز۔
حکیم نورالدین قاضی صاحب کا یہ جواب سن کر خاموش ہوگئے ۔
حکیم نور الدین نے اپنی جماعت کو خاص ہدایت کی تھی کہ :
’’ا س شخص کو نہ چھیڑنا وہ تمہیں مرتے دم تک نہ چھوڑے گا میں اس کا طالب علمی کے زمانہ سے واقف ہوں یہ میری نصیحت یاد رکھنا اور جس سے چاہو مقابلہ کرو لیکن اسے (قاضی عبدالاحد) مد مقابل نہ بنانا‘‘۔(تذکرہ علمائے خان پور:66)
قاضی صاحب ایک جید عالم دین تھے اور اس کے ساتھ بلند پایہ طبیب حازق بھی تھے محمد ایوب خان شاہ افغانستان کے شاہی طبیب رہے آپ نے معرکہ آراء معالجات کے ذریعہ اپنے طبی کمالات کی دھاک بٹھائی ۔
قاضی صاحب جہاں تفسیر ، حدیث ، فقہ میں مہارت رکھتے تھے وہاں آپ کو فن مناظرہ میں بھی ید طولیٰ حاصل تھا پیر مہر علی شاہ گولڑوی سے کئی ایک تحریری مناظرے کیے۔
قاضی صاحب بلند پایہ مصنف بھی تھے آپ نے مختلف موضوعات پر 32کتابیں تصنیف کیں۔مولانا قاضی عبدالاحد خان پوری نے 25جمادی الثانی 111347ھ مطابق 8دسمبر 1928ء بروز شنبہ انتقال کیا انا للہ و انا الیہ راجعون۔
انتقال سے پہلے آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرا کتب خانہ حرمین شریفین پہنچا دیا جائے چنانچہ آپ کا تمام کتب خانہ مولانا سید اسمعیل غزنوی کے ذریعہ حرمین شریفین پہنچا دیاگیا۔
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی لکھتے ہیں کہ :
’’آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے برادر بزرگ قاضی محمد اور قاضی یوسف حسین سے پائی پھر دہلی چلے گئے اور حدیث میاں صاحب سے پڑھی عبداللہ صاحب غزنوی کے مرید تھے اس لئے خاندان غزنویہ کی حمایت میں مولوی ثناء اللہ صاحب کی مخالفت کرتے رہے اور بہت سے کتابیں لکھیں صاحب قلم اور علم و فضل تھے اسلام کی تبلیغ اور جماعت اہل حدیث کی خدمت میں عمر بسر کر دی ‘‘۔(سیرت ثنائی :373)
مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی
مولانا محی الدین بن حافظ محمد بن حافظ بارک اللہ لکھوی مشاہر علماء میں سے تھے ۔ بڑے عبادت گزار اور صوفی منش بزرگ تھے مولانا سید عبداللہ غزنوی نے بوقت بیعت آپ کا نام عبدالرحمان تجویز کیا اور آپ محی الدین عبدالرحمان کے نام سے مشہور ہوئے۔
1252ھ میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے کیا 8سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیااس کے بعد 9سال تک اپنے والد بزرگوار سے مختلف علوم اسلامیہ میں تحصیل کی 17سال کی عمر میں دہلی تشریف لے گئے دہلی میں آپ نے مولانا بشیر الدین قنوجی اور مفتی صدر الدین دہلوی سے استفادہ کیا۔
فراغت تعلیم کے بعد وطن واپس آئے اور اپنے والد بزرگوار کے قائم کردہ مدرسہ محمدیہ میں تدریس شروع کی اسی اثناء میں آپ کو علم آخرت کا شوق پیدا ہوا تین سال کے بعد اپنے ایک خادم کے ہمراہ مولانا سید عبداللہ غزنوی سے ملاقات کے لئے غزنی پاپیادہ روانہ ہوئے غزنی میں آپ کی ملاقات سید عبداللہ غزنوی سے ہوئی ۔ آپ کے خادم نے سید عبداللہ غزنوی سے کہا:
پدر ایں در پنجاب چراغ است
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے فرمایا :
انشا ء اللہ آفتاب خواہد شد
آپ نے سید عبداللہ غزنوی کی صحبت میں کافی وقت گزارا ۔اور ان سے اکتساب فیض کیا ۔ جب مولانا سید عبداللہ غزنوی کے خلاف اہل بدعت نے ہنگامہ آرائی کی اور آپکے خلاف شؤرش بپا کی اور آپ کو گرفتار کرادیا۔ تو مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی وطن واپس آگئے اور دعوت تبلیغ میں مشغول ہوئے اور بڑے بڑے علماء آپکی خدمت میں اصلاح باطن کیلئے حاضر ہوتے مولانا محی الدین عبدالرحمان لکھوی بہت بڑے متبع سنت تھے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تمام عمر کسی کی غیبت نہیں کی صاحب کمالات بزرگ تھے آسیب زدہ مریض آپکے پاس حاضر ہوتے اور فوراً شفا یاب ہوجاتے تصنیف و تالیف میں آپکی تین کتابوں کے نام معلوم ہوسکے ہیں ۔
(1)ترجمہ اربعین نووی(پنجابی نظم )
(2)نماز مترجم (اردو)
(3)حاشیہ مسلم الثبوت(عربی)
مولانامحی الدین عبدالرحمان لکھوی نے 12 ذی قعدہ 1312ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی ۔
مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی
استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی کا شمار ان جلیل القدر علمائے کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے درس و تدریس کے ذریعہ خدمت اسلام میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔آپ 1267ھ میں قصبہ قرولی تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم میں پیدا ہوئے 9سال کی عمر میں نزول الماء کے عارضے سے آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ۔
تعلیم کاآغاز حفظ قرآن مجید سے کیا آپ نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم و فنون میں تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں ۔
مولوی برہان الدین ہتاروی
مولوی قل احمد چکوی
مولوی محمد مظہرنانوتوی
شیخ عبدالجبار ناگپوری
مولانا حکیم محمد احسن حاجی پوری بہاری ’’افسر الاطباء ‘‘ بھوپال ٭
ان علمائے کرام سے استفادہ کے بعد حافظ عبدالمنان دہلی چلے گئے اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے تفسیر حدیث اور فقہ کی تحصیل کی اور شیخ عبدالحق بن فضل اللہ نیوتنی سے بھی استفادہ کیا۔اس کے بعد آپ سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں دو سال رہ کر کافی فیض حاصل کیا۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ حافظ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ :
’’میری عمر بیس سال کی تھی جب جناب عبداللہ صاحب غزنوی نے مجھے امرتسر میں درس حدیث کی مسند پر بٹھایا۔(تاریخ اہل حدیث :437)
امر تسر میں کچھ مدت تدریس فرمائی اور اس کے بعد 1292ھ میں وزیر آباد کو اپنا مسکن بنایا اور ’’دارالحدیث ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی اس درسگاہ سے بے شمار حضرات مستفیض ہوئے اور ان میں سے بعض ایسے حضرات بھی شامل ہیں جو خو دبعد میں مسند تدریس کے وارث بنے آپ نے اپنی زندگی میں 40مرتبہ سے زیادہ صحاح ستہ پڑھایا۔آپ کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے تاہم چند مشہور تلامذہ یہ ہیں ۔
1۔ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری
2۔مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی
3۔مولانا ابو القاسم سیف بنارسی
4۔ مولانا فقیر اللہ مدراسی
5۔مولانا عبدالحمید سوہدروی
6۔ مولانا عبدالقادر لکھوی
٭ ان کے حالات ’’ دیار ہند کے گمنام اکابر‘‘از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی (زیر طبع امام شمس الحق ڈیانوی پبلشرز کراچی) میں شامل ہیں ۔
7۔ مولانا محمد علی لکھوی
8۔مولانا حافظ محمد گوندلوی
9۔مولانا محمد اسمعیل السّلفی
10۔مولوی حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی
مولانا حافظ عبدالمنان کی ساری زندگی تدریس میں بسر ہوئی ۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں :
’’لااعلم احد فی تلامذۃ السید نذیر حسین المحدث اکثر تلامذۃ منہ قد ملاء پنجاب بتلامذتہ ، ھو کانہ حافظ الصحاح فی ھذا العصر۔(نزہۃ الخواطر:8/312)
’’میں نے میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں کسی کے شاگرد ان سے زیادہ نہیں دیکھے آپ نے پنجاب کو شاگردوں سے بھر دیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس زمانے میں صحاح ستہ کے حافظ ہیں‘‘ ۔ حافظ صاحب دینی مسائل میں تنگ نظر اور مستشدد نہیں تھے ۔
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں :
’’آپ ائمہ دین کا بہت احترام کرتے تھے چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ائمہ دین اور خصوصاً امام ابو حنیفہ کی بے ادبی کرتا ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا۔
شمس العلماء مولانا سید میر حسن سیالکوٹی جو میرے اور ڈاکٹر سر محمد اقبال کے استاد تھے ان کو حافظ صاحب سے بہت عقیدت تھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ حافظ صاحب میں ایک خاص کمال ہے۔کہ مسائل میں آپ تنگ نظر اور مستشدد نہیں ہیں اگر سوال و جواب کے سلسلہ میں اپنی بات سے رجوع بھی کرنا پڑے تو ہچکچاتے نہیں ‘‘۔(تاریخ اہل حدیث:429-428)
حافظ صاحب کو لغت اور نحو میں کامل دستگاہ تھی رجال کی جرح و تعدیل اور اس کے طبقات اور تمام فنون حدیث پر کامل دسترس تھی آپ کو حدیث کے اقسام کے علاوہ قرآن و حدیث کی متن بھی ازبر تھی۔
مولانا حافظ عبدالمنان نے 16رمضان 1334ھ/16جولائی 1916ء وزیر آباد میں انتقال کیا۔ مولانا ابو عبداللہ عبیدا للہ غلام حسن سیالکوٹی نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان پرانی چونگی سیالکوٹ روڈ میں سپرد خاک کئے گئے۔ سخت گرمی کا موسم تھا جب تک نماز جنازہ ہوتی رہی ابرِ رحمت نے سایہ کر رکھا تھا آپ کے جنازہ پر مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم نے فرمایا کہ :
’’آج اس زمانہ کا امام بخاری فوت ہوگیا ہے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وارفع درجاتہ۔(تاریخ اہل حدیث :430)
مولانا غلام نبی الربّانی سوہدروی
مولانا غلام نبی الربّانی بن مولوی محبوب عالم بن حافظ غلام حسین کا شمار مشہور علمائے حدیث میں ہوتا ہے آپ کا شجرہ نسب 29ویں پشت پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے 23رمضان 1263ھ کو سوہدرہ میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولوی محبوب عالم سے حاصل کی بعد ازاں مولانا قادر بخش فقیہ وزیر آبادی سے صرف ، نحو، منطق ، فقہ ، اصول فقہ ، اور علم کلام میں استفادہ کیا۔اس کے بعد جلال پور چلے گئے اور مولانا عبدالباقی جلالپوری سے اکتساب فیض کیا جلال پور سے آپ سیالکوٹ چلے گئے اور مولانا غلام مرتضیٰ سیالکوٹی سے حاشیہ خیالی، توضیح والتلویح، تفسیر بخاری اور حدیث کے کچھ اسباق پڑھے۔
اس کے بعد آپ مولانا حافظ محمد لکھوی صاحب تفسیر محمدی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے حدیث کی تحصیل کی اس کے بعد آپ مولانا سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کی خدمت میں تین ماہ رہ کر فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے شیخ الکل مولانا محمد نذیر حسین دہلوی سے بھی سند واجازت حاصل کی۔
تکمیل تعلیم کے بعد اپنے وطن سوہدرہ تشریف لائے اور خدمت اسلام میں مصروف ہوئے سوہدرہ میں توحید و سنت کی اشاعت اور ترویج میں آپ نے کافی محنت کی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔سوہدرہ میں اہل بدعت نے آپ کی بہت مخالفت کی اور آپ مصائب و آلام سے دوچار بھی ہوئے۔
صاحب نزہۃ الخواطر لکھتے ہیں :
’’ آپ بڑے متشرع ، متوکل اور باہمت تھے اللہ سے بہت زیادہ مدد طلب کرتے تھے آپ کسی مخصوص فقہی مذہب کاالتزام نہیں کرتے تھے بلکہ جس بات پر ٹھوس دلیل مل جاتی اس کے مطابق فتوی دیتے تھے آپ کو اس سلسلہ میں بڑی بڑی اذیتیں بھی احناف کی طرف سے اٹھانی پڑیں ان بزرگوں نے آپ کے خلاف ایسا محاذ قائم کیا تھا اس سے بڑا کوئی کیا محاذ بنائے گا۔ان کو بدعتی قرار دیا گیا ۔ مناظرہ کیااور ہٹ دھرمیاں بھی کیں لیکن وہ ثابت قدم رہے انھوں نے نہ تو مداہنت برتی اور نہ کسی چیز کی پرواہ کی۔(نزہۃ الخواطر: 8/351) آپ کی ساری زندگی درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ میں بسر ہوئی آپ کے تلامذہ درج ذیل ہیں اور یہ سب حضرات سوہدرہ کے رہنے والے تھے۔
1۔مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی مؤلف تراجم علمائے حدیث ہند
2۔مولوی ابو المحمود ہدائت اللہ سوہدروی مؤلف تاریخ ککے زئی
3۔مولوی ابو البشیر مرا دعلی کٹھوروی مترجم کتاب الوسیلہ ابن تیمیہ
4۔مولوی نظام الدین کٹھوروی
5۔حافظ محمد حیات سوہدروی
مولانا غلام نبی الربّانی علم وفضل ، زہدو ورع اور تقوی و طہارت کا نمونہ تھے آپ مرجع خلائق اور عالم باعمل تھے آپ کا شمار اہل اللہ میں ہوتا ہے صاحب کرامات تھے اور نیک سیرت انسان تھے۔ آپ تصانیف سے بھی شغل رکھتے تھے پنجابی نظم میں درج ذیل کتابیں لکھیں۔
1۔تحفۃ المعجزات فی تاکید الصلوۃ
2۔ تحفۃ الوالدین
3۔ تحفۃ العجلاء المعروف بہ نصیحۃ النساء
4۔ ترجمہ العلماء المعروف نصیحۃ المسلمین
مولانا غلام نبی الربّانی نے 4ذی الحجہ 1348ھ مطابق3مئی 1930ء سوہدرہ میں انتقال کیا اور اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے اولاد میں دو صاحبزادے حافظ عبدالحکیم اور مولوی عبدالحمید تھے ان دونوں کو خود اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا ۔
حافظ عبدالحکیم نے 1320ھ/1902ء میں وفات پائی ۔اور مولوی عبدالحمید نے 7جمادی الثانی 24مئی 1912کو انتقال کیا ۔پنجاب کے مشہور واعظ اور مبلغ مولانا عبدالمجید سوہدروی مرحوم مولوی عبدالحمید سوہدروی کے صاحبزادے اور مولانا غلام نبی الربّانی کے پوتے اور استاد پنجاب مولانا حافظ عبدالمنان وزیر آبادی کے نواسے تھے۔
حافظ محمد رمضان پشاوریؒ
مولانا حافظ محمد رمضان کا تعلق پشاور سے تھا غالباً پیدائشی نابینا تھے ۔ جب ہوش سنبھالا تو بغرض حفظ قرآن و دینی تعلیم پشاور سے امرتسر مولانا سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے امرتسر میں آپ نے عارف باللہ عبداللہ غزنوی سے حفظ قرآن مجید، ترجمہقرآن مجید اور صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں اور اس کے بعد مولانا سید عبداللہ غزنوی نے آپ کو شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں دہلی بھیج دیاان سے تفسیر ، حدیث ، فقہ اور دوسرے علوم میں تعلیم حاصل کی اور فارغ التحصیل ہوکر واپس وطن تشریف لائے۔
وطن واپس آکر توحیدو سنت کی اشاعت اور شرک و بدعت کی تردید شروع کی تو لو گ آپ کے مخالف ہوگئے اور آپ کو ایذاد ینے کے در پے ہوئے مگر آپ نے اسکی پرواہ نہیں کی اوربلا خوف و خطر کتاب و سنت کی تبلیغ اور شرک و بدعت کی تردید میں مصروف رہے پشاور میں آپ ہی کی کوششوں سے مسلک اہل حدیث کی اشاعت ہوئی حافظ محمد رمضان پشاور میں سب سے پہلے اہلحدیث تھے۔
اللہ تعالی نے آپ کو حافظہ کی غیر معمولی نعمت سے نوازا تھا ۔ مکمل صحاح ستہ زبانی یاد تھا چنانچہ ایک بار مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی بطور آزمائش بحیثیت طالب علم حافظ صاحب کے پاس تشریف لے گئے اور صحیح بخاری پڑھنے کی خواہش کی پہلے دیباچہ پڑھا اور عملاً ایک لفظ حذف کر گئے حافظ صاحب مرحوم نے اصلاح کی دوسری بار، تیسری بارا سی طرح کوئی غلطی کرتے حافظ صاحب نے فرمایا اندھا تو میں ہوں تم تو اندھے نہیں اس کے بعد ان کا تعارف ہوا حافظہ کایہ عالم تھا کہ کوئی کتاب سنتے تو ان کو حرف بحرف یاد ہوجاتی ۔
فن مناظرہ میں بھی آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا ایک بار ایک قادیانی سے پشاور میں ’’حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت‘‘ پر مناظرہ ہوا آپ نے ایک گھنٹہ چالیس منٹ تک تقریر کی اور اپنے دلائل کے ثبوت میں صحاح ستہ سے مستند احادیث پیش کیں ۔ قادیانی مناظر آپ کے سامنے ٹھہر نہ سکا اور اپنی شکست کا اعتراف کیا۔
حافظ صاحب زہد و ورع اور تقوی و طہارت کا پیکر تھے عشرہ میں پورا قرآن مجید تہجد کی نما زمیں ختم کرتے قرآن پاک بڑی عمدگی سے پڑھتے کہ اکثر صبح کی نماز میںاکثر ہندو سکھ اور راہ گزر آپ کا قرآن مجید سننے کے لئے ٹھہر جاتے ۔
حافظ صاحب نہایت حلیم الطبع تھے دینی معامالت میں نہایت سخت گیر تھے اشداء علی الکفار رحماء بینہم کی جیتی جاگتی تصویر تھے تعبیر خواب کا آپ کو اللہ تعالی نے خاص ملکہ عطا فرمایا تھا پشاور کے ایک متقی عالم آغا محمد شاہ مرحوم نے آپ سے اپنی بیوی کا خواب بیان فرمایا کہ وہ دو پتنگ اڑا رہی ہیں اور دونوں پتنگوں کی ڈوری کا دھاگہ ٹوٹ گیا ہے اور نظر سے اوجھل ہوگئے ہیں حافظ صاحب نے فرمایا انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ لو آغا صاحب کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے انتقال کر گئیں یہی خواب کی تعبیر تھی ۔
حافظ صاحب نے 11صفر 1339ھ/25اکتوبر 1920ء کو 63سال کی عمر میں پشاور میں انتقال کیا۔( الاعتصام لاہور 21/25جنوری و4فروری 1977ء )
مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی
مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی بن میاں خوشحال خان کا شمار نامو رعلماء اہلحدیث میں ہوتا ہے آپ ضلع جھنگ کے قصبہ والو آستانہ میں پیداہوئے ان کے والد بعد میں ضلع ملتان کے قصبہ مبارک آباد میں آکر آباد ہوئے ۔
6سال کی عمر میں قرآن مجید سے تعلیم کا آغاز ہوا کچھ دنوں بعد مدرسہ محمدیہ لکھوکے ضلع فیروز پور میں داخل ہوئے اور مولانا حافظ محمد لکھوی سے حفظ قرآن مجید اور صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں اس کے بعد سید عبداللہ غزنوی کی خدمت میں امرتسر حاضر ہوئے ۔ اور حضرت غزنوی سے حدیث کی کتاب بلوغ المرام اور ریاض الصالحین پڑھی اس کے بعد 15سال کی عمر شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں دہلی پہنچے اور ان کی خدمت میں 5سال رہ کر علوم اسلامیہ کی تکمیل کی 20سال کی عمر میں آپ فارغ التحصیل ہوگئے ۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1300ھ میں محلّہ کشن گنج دہلی کی مسجد میں تدریس شروع کی اور کچھ عرصہ اس مسجد میں تدریس فرماتے رہے اس کے بعد صدر بازاردہلی کی مسجد کلاں میں تدریس شروع کی اور 1325ھ تک اس مسجد میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔
1325ھ میں اپنا علیحدہ مدرسہ بنام دارالکتاب والسنۃ کے نام سے صدر بازار دہلی میں قائم کیا اور اس مدرسہ میں اپنے انتقال 1351ھ تک تدریس فرماتے رہے آپکی ساری زندگی صدر بازار دہلی میں بسر ہوئی اسلئے صدری کے نام سے مشہور ہوئے آپکے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں ۔
1۔مولانا عبدالعزیز میمن راجکوٹی
2۔مولانا محمد بن یوسف سورتی
3۔مولانا محمد بن ابراہیم میمن جونا گڑھی
4۔ مولانا عبدالجلیل سامرودی
5۔مولانا عبدالستار صدری دہلوی(آپ کے صاحبزادے)
6۔مولانا عبدالجبار محدث کھنڈیلوی
مولانا عبدالوہاب نے 1338ھ میں ’’اہلحدیث ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا لیکن مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تجویز سے اسکا نام ہمدرد اہلحدیث کر دیاگیا اور 1340ھ میں اسکا نام صحیفہ اہلحدیث قرار پایا۔یہ رسالہ آج تک جاری ہے اور جماعت اہلحدیث کا سب سے قدیم رسالہ ہے اسوقت اس رسالہ کی عمر 83 سال ہے۔
مولانا عبدالوہاب نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تألیف کی طرف بھی توجہ کی۔ آپ کی تصانیف حسبِ ذیل ہیں:
1۔ مسنون قراء ۃ والا قرآن مجید
2۔ حواشی مشکوٰۃ المصابیح (عربی)۔
3۔ اقامۃ الحجہ علی ان لا فرق بین الصلوٰۃ المراء والمرء ۃ (اردو)۔
4۔ مناظرہ محقق و مقلد و روئت ہلال (اردو)۔
5۔ الدلائل الواثقہ فی مسائل الثلاثہ (اردو)۔
مولونا عبدالوہاب سات بار حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے اور مختلف اوقات میں دس نکاح کئے۔ آپ کثیر الاولاد تھے۔ آپ نے 8-7 ۔ رجب 1351ھ کی درمیانی شب دہلی میں انتقال کیا۔
مولانا قاضی ابو عبداللہ محمد خانپوری رحمہ اللہ
مولانا قاضی ابو عبداللہ محمد بن محمد حسن خانپوری علمائے فحول میں سے تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ اور صرف و نحو کے جید عالم تھے۔ 4 شعبان 1270ھ مطابق 3مئی 1854ء چہار شنبہ خانپور میں پیدا ہوئے، تعلیم کا آغاز اپنے والد مولانا قاضی محمد حسن سے کیا۔ اسکے بعد جن علمائے کرام سے آپ نے مختلف علوم و فنون میں استفادہ یا ان کے نام یہ ہیں:
1۔ مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی۔
2۔ مولانا سید عبدالجبار غزنوی۔
3۔ مولانا سید عبداللہ غزنوی۔
4۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی۔
5۔ مولانا مفتی عبداللہ ٹونکی۔
دہلی میں شیخ الکل کی درسگاہ میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی صاحب ’’حسن البیان فیما فی سیرۃ النعمان‘‘ آپ کے ہم سبق تھے۔
تکمیل تعلیم کے بعد مولانا محمد اپنے وطن خانپور میں تعلیم دیتے رہے اور وعظ و تبلیغ اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1895-1894ء میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے حکم پر مسجد مولوی عبدالمجید مرحوم پشاور صدر میں خطابت کا عہدہ قبول کیا۔ اور 1908ء تک اس مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ جب تک قاضی محمد پشاور میں مقیم رہے کئی آدمیوں نے آپ سے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔
1908ء میں مولانا قاضی محمد پشاور سے واپس آگئے اور دوسال تک خانپور ہی میں رہے ۔ 1910ء میں جامع مسجد اہلحدیث راولپنڈی کے خطیب مقرر ہوئے ۔ اور 1916ء تک اس مسجد میں خطابت کے فرائض سر انجام دیئے راولپنڈی میں بھی خطابت کے علاوہ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولانا قاضی محمد حد درجہ مستغنی المزاج اور قانع تھے درس و تدریس کاسلسلہ ساری عمر جاری رکھا تصانیف و تالیف کی طرف توجہ نہیں کی لیکن بعض فتاوی تحریری لکھے۔ قاضی محمد صاحب نے 6جمادی الثانی 1348ھ/9نومبر1929ء کو خان پور میں انتقال کیااور اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے ۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی کی اولاد و احفاد
مولانا سید عبداللہ غزنوی نے ایک صالحہ خاتون سے شادی کی تھی جن سے 27 اولاد ہوئی۔ 12لڑکے 15لڑکیاں۔
آپ کے صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :
1۔ مولانا عبداللہ ۔
2۔مولانا احمد۔
3۔مولانا عبدالجبار۔
4۔مولانا محمد۔
5۔مولانا عبدالاحد۔
6۔مولانا عبدالرحمان ۔
7۔مولانا عبدالستار۔
8۔ مولانا عبدالقیوم۔
9۔مولانا عبدالرحیم۔
10۔ مولانا عبدالحی ۔
11۔ مولانا عبدالقدوس۔
12۔مولانا عبدالعزیز۔
اللہ تعالی کا ان پر فضل و کرم تھا سب کے سب محدث اور عالم تھے۔
1۔ مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی (امام اوّل)
ان کے صاحبزادے حافظ عبداللہ تھے جو اسلامیہ کالج پشاور میں پروفیسر تھے حافظ عبداللہ کے صاحبزادے احمد غزنوی تھے جو سیشن جج ریٹائر ہوئے۔
2۔ مولانا احمد بن عبداللہ غزنوی
انکے دو صاحبزادے تھے حکیم عبدالشافی اور مولانا عبدالوارث ۔
3۔ مولانا عبدالجبار غزنوی (امام ثانی)
انکی اولاد میں مولانا احمد علی، مولانا داؤد غزنوی ، حافظ سلیمان غزنوی ، مولانا عبدالغفار اور مولانا عبدالستار تھے۔
مولانا داؤد غزنوی کی اولاد میں عمر فاروق غزنوی ، سید ابوبکر غزنوی ، محمد یحییٰ غزنوی اور احمد غزالی ہیں ۔
4۔ مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی
ان کی اولاد میں مولانا سید عبداللہ الا ول غزنوی اور مولانا عبدالغفور غزنوی تھے۔
5۔ مولانا عبدالواحد غزنوی ( امام ثالث)
آپ کے صاحبزادے مولانا اسمٰعیل ، مولانا عبدالحمید ، مولانا ابراہیم اور مولانا عبدالولی تھے ۔ مولانا سید اسمٰعیل غزنوی کے صاحبزادے ڈاکٹر خالد غزنوی ہیں ۔
6۔مولانا عبدالرحمان غزنوی ۔ لاولد تھے۔
7۔مولانا عبدالستار غزنوی ۔ لا ولد تھے۔
8۔مولانا عبدالقیوم غزنوی
9۔مولانا عبدالرحیم غزنوی
انکے صاحبزادے مولانا یحییٰ ، مولانا عیسیٰ ، حافظ ذکریا، مولانا احمد،مولانا موسیٰ اور مولانا نوح تھے۔
10۔مولانا عبدالحی ۔ لاولد تھے۔
11۔مولانا عبدالقدوس ۔لا ولد تھے۔
12۔مولانا عبدالعزیز غزنوی ۔
ان کے صاحبزادے مولانا عبدالاعلیٰ تھے۔(1)
۔ تاریخ اہل حدیث:437-4381۔
مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی
مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی (امام اوّل) مولانا سید عبداللہ غزنوی کے انتقال کے بعد ان کے جانشین اور خلیفہ ہوئے مولانا عبداللہ بن عبداللہ نے حدیث کی تعلیم شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے حاصل کی تھی ۔
فراغت تعلیم کے بعد اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا بڑے صالح اور نیک سیر ت انسان تھے ۔اپنے والد بزرگوار کے انتقال کے بعد صرف دو سال زندہ رہے ، 1300ھ میں امرتسر میں وفات پائی ۔