محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
مولانا عبدالجبار غزنوی
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی ان کے خلیفہ اور جانشین مقر ر ہوئے لیکن دو سال کے بعد انہوں نے سفر آخرت اختیار کیا تو مولانا سید عبدالجبار غزنوی (امام ثانی) ان کے جانشین ہوئے۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی 1268ھ میں غزنی میں ایک مقام ’’صاحبزادہ ‘‘ میں پیدا ہوئے تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا اپنے بھائی مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی ، مولانا احمد بن عبداللہ غزنوی سے دینی علوم کی تحصیل کی اور اپنے والد سید عبداللہ غزنوی سے روحانی اور علمی فیض حاصل کیا۔
حدیث کی تحصیل شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی تکمیل تعلیم کے بعد اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں درس و تدریس کاسلسلہ شروع کیا مولانا سید عبداللہ غزنوی جب امرتسر آکر آباد ہوئے تھے اور ایک دینی درسگاہ قائم کرکے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے درسگاہ کانام ’’مدرسہ غزنویہ ‘‘رکھاتھا مولانا سید محمد داؤدغزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’امام اہل توحید ، منبع آثار سلف صالحین ، عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ جب غزنی سے پنجاب تشریف لائے اور امرتسر میں سکونت پذیر ہوئے تو توحید و سنت کی اشاعت اور بدعات اور مشرکانہ رسوم سے پاک اسلام کی تبلیغ کا بے پناہ جذبہ جو آپ کے دل میں موجزن تھا اس نے چند دنوں میں ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ امرتسر مرجع عوام و خواص بن گیا آپ کے حلقہ پندو نصائح میں شریک ہوکے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے او رکیفیت خشوع حاصل کرنے اور آپ کے فیضان محبت سے مستفیض ہونے کے لئے صلحاء اور علماء دور دور سے حاضر ہوکر اس چشمہ ہدایت و معرفت سے اپنی روح کی تسکین اور قلب کی تطہیر حاصل کرتے آپ کے صاحبزادگان میں سے مولانا عبداللہ ، مولانا محمد، اور والد بزرگوار مولانا سید عبدالجبار غزنوی قرآن و حدیث کا درس دیتے اس طرح مسجد غزنویہ ایسی تربیت گاہ بن گئی تھی جہاں علم کے ساتھ عمل ، قال کے ساتھ حال کی کیفیت اور علم و بصیرت کے ساتھ معرفت کا زر حاصل ہوتا تھا عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی کے واصل بحق ہونے کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ ان کے خلیفہ مقرر ہوئے آپ تھوڑا عرصہ زندہ رہے ان کی وفات کے بعد والد بزرگوار مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ منصب خلافت و امامت پر فائز ہوئے آپ کے عہد مبارک میں روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا ۔ آپ کے علم وفضل کے چرچے پنجاب سے گزر کر ہندوستان بلکہ بلاد عرب تک جاپہنچے اور اس طرح آپ کے شاگرد تمام ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پھیل گئے آپ نے اپنے عہد مبارک میں مسجد غزنویہ کی درسگاہ کو باقاعدہ دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا اوراس کے لئے ایک نظام قائم کر دیا۔ امام صاحب نے اپنی فراست ایمانی اور بصیرت قلبی کی برکت سے وقت کی اہم ترین ضرورت کو محسوس کیا علوم کتاب و سنت اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم کیلئے دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے نام سے ایک ایسی درسگاہ قائم کی جو پنجاب میں علمی اور روحانی فیو ض کے لحاظ سے عدیم النظر اور بے مثال تھی ۔(داؤد غزنوی:450)
دارالعلوم تقویۃ الاسلام 1902ء/1319ھ میں قائم ہوا اور 1947ء تک امرتسر میں دین اسلام کی خدمت ، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج ، او رشرک و بدعت کی تردید و توبیخ میں کوشاں رہا ۔ اس مدرسہ(تقویۃ الاسلام )میںمختلف ادوار میں جلیل القدر علمائے کرام نے تدریسی خدمات سر انجام دیں۔مثلاً:
مولانا سید عبدالجبار غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی ، مولانا صوفی عبدالحق غزنوی ، مولانا معصوم علی ہزاروی ، مولانا محمد حسین ہزاروی ، مولانا عبدالغفور غزنوی ، مولانا ابو اسحاق نیک محمد، مولاناسید محمد داؤد غزنوی ، مولانا عبداللہ بھوجیانی وغیرہم دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے بے شمار علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے اور ان میں بعض علمائے کرام بعد میں خود مسند تدریس پر فائز ہوئے اور خدمت اسلام میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ مثلاً
مولانا حافظ عبداللہ روپڑی امرتسری ، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی ، مولانا عبدالکریم فیروز پوری (امین خاندان غزنویہ )مولانا فقیر اللہ مدراسی ، مولانا حکیم عبیدا لرحمان دہلوی ، مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ، مولانا حکیم عبدالرحمان پروفیسر طیبہ کالج دہلی ، اور مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی وغیرہم ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے انتقال 1331ھ کے بعد مولانا عبدالواحد غزنوی دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ناظم اور اس کے ساتھ منصب خلافت پر فائز ہوئے آپ امام و محدث تھے ۔1930ء میں مولانا عبدالواحد غزنوی نے وفات پائی تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی تقویۃ الاسلام کے ناظم ومہتمم مقرر ہوئے ۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا عبدالواحد غزنوی کے انتقال کے بعد جماعت کے مخلصین او رتمام خاندان نے اس عاجز کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ مولانا مرحوم کی جگہ میں کام کروںمیں نے اپنے بے بضاعتی اور نااہلیت کے عذرات پیش کئے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ میں کسی لحاظ سے بھی بزرگوں کی مسند پر تمکن ہونے کا اپنے کو اہل نہ سمجھتا تھا میرے پاس اپنی کوتاہیوں کے اعتراف اپنے ذنوب و خطا پاکی ندامت و انفعال کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جماعت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا میں نے اس ذمّہ داری کو قبول کر لیا کہ شاید یہی خدمت میرے لئے کفار ہ ذنوب کا سبب اور ذریعہ بن جائے ‘‘۔(داؤد غزنوی :452)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی علم وفضل کے اعتبار سے بہت ارفع و اعلی تھے ۔
مولانا سید عبدالحی الحسنی لکھتے ہیں کہ :
’’آپ بڑے عالم او رمحدث تھے آپ کی جلالت شان اور ولایت کے اوپر تمام لوگوں کا اتفاق ہے آپ کی عمر 20سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ علم متداولہ سے فارغ ہوچکے تھے بہت ذہین تھے مطالعہ بہت کرتے تھے فہم وفراست سے انہیں وافر حصہ ملا تھا امرتسر میں قرآن و حدیث کی تدریس کے شغل ہی میں منہمک رہتے تھے دنیا و اہل دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے اور مخلوق کو اللہ کی طرف بلانے میں مشغول رہتے اللہ کا ذکر بڑی باقاعدگی اور یکسوئی سے کرتے اور ذکر کے دوران ان پر بڑی کیفیت طاری ہوتی تھی میں نے امرتسر میں کئی بار ان کی زیارت کی ہے میں نے انہیں سلف صالحین کے مسلک پر پایا۔وہ علمائے ربانی میں سے تھے فتوی دیتے وقت وہ کسی معین مسلک کا التزام تو نہ کرتے تھے لیکن ائمہ مجتہدین سے سوئے ظن نہ فرماتے تھے ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں کرتے ۔‘‘( نزہۃ الخواطر :8/219۔218)
مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’مولوی عبدالجبار صاحب حدیث وتفسیر میں بے بدل تھے اپنے ظاہری و باطنی اصلاح و تقوی کی وجہ سے (خود نہیں )دوسروں نے آپ کو امام صاحب کا خطاب کیا اور بجا طو پر‘‘ (ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات :174)
سید ابو الحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’ بچپن سے جن صادق العقیدہ متبع سنت بزرگوں اور خاصان خدا کا نام عظمت و عقیدت کے ساتھ کان میں پڑا ان میں مولانا سید عبداللہ غزنوی اور ان کے خلف الرشید مولانا سید عبدالجبار غزنوی تھے یہ حضرات غزنی (افغانستان ) کے رہنے والے تھے لیکن اپنے خالص عقیدہ توحید و کامل پیروی سنت وا تباع سلف کے جرم میں ان کو افضل خان امیر کابل کے عہد حکومت میں اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا اور انہوں نے الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ۔(جو ناحق محض اس تصور میں اپنے وطن سے نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پالنے والا اللہ ہے )کا مصداق بن کر ہجرت کی اور اپنے خاندان کے ساتھ امرتسر میں سکونت اختیار کی وہ بڑے پایہ کے بزرگ ، داعی الی اللہ ، توحید و سنت کے مبلغ اور ناشر قرآن و حدیث تھے ان کی ولایت و بزرگی پر اس نواح کے لوگ اور اہل نظر معاصرین کا اتفاق ہے صاحب نزہۃ الخواطر نے ان کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے ‘‘۔
’’صاحب المقامات الشھیرۃ والمعارف العظیمۃ الکبیرۃ ‘‘
ان کو زمانہ کیلئے باعث برکت اور ہندوستان کیلئے باعث زینت لکھا ہے ۔13ویں صدی کے آخر (1298ھ) میں انہوں نے وفات پائی ۔ انکے صاحبزادے مولانا سید عبدالجبار غزنوی اپنے والد نامدار کے قدم بہ قدم تھے وہی توحید و سنت کا غلبہ ، وہی ترک و تجوید ، وہی زہد و توکل، وہی قرآن و حدیث کی اشاعت و تبلیغ کا جذبہ ، مصنف نزہۃ الخواطر نے انکا تذکرہ کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’’ان کی ولایت اور جلالت شان پر اہل زمانہ کااتفاق ہے‘‘۔1331ھ میں انہوں نے امرتسر میں وفات پائی وہ اپنے خاص رنگ میں قرآن مجید کادرس دیتے تھے ’’ہرچہ ازدل خیز دبردی ایزد‘‘ کے بمصداق سننے والوں کے دلوں پر وہ اثر پڑتا تھاجو بڑے بڑے عالمانہ و محققانہ درسوں ، علمی موشگافیوں وقتی نکتہ آفرینیوں کا نہیں پڑتا ۔ رجب 1320ھ/اکتوبر1902ء میں ندوۃ العلماء کا امرتسر میں سالانہ اجلاس تھا ہندوستان کے چوٹی کے علماء اور مشاہیر شریک تھے نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمان خان شروانی راوی ہیں کہ علامہ شبلی بھی ایک دن اس درس میں شریک ہوئے وہاں سے آکر اپنا تاثر بیان کیا اور فرمایا کہ :
’’ جس وقت وہ شخص اپنی زبان سے اللہ کا نام لیتا تھا تو بے اختیار جی چاہتا تھا کہ سر اس کے قدموں پر رکھ دیجئے ‘‘۔
انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ را ت کوکھانے پر جلسہ کے سب مہمان جو ملک کے گوشہ گوشہ سے آئے تھے اور مقامی علماء او رمعززین بھی شریک تھے جس کمرہ میں کھانا کھلایا گیا تھااس میں بیچ کے ہال کے علاوہ بغل میں دائیں بائیں کمرے تھے دسترخوان ایک تھا لیکن کمروں کے الگ ہونے کی وجہ سے ایک طرف کا آدمی دوسری طرف کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتا تھا میری نشست جہاں تھی وہاں مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی بھی رونق افروز تھے مولانا سید محمد علی ناظم ندوۃ العلماء دوسری طرف کے کمرہ میں تھے کھانے سے فراغت کے بعد مجھ سے کہا کہ’’ مولوی حبیب الرحمان !تمہارے پاس اور کون کون بیٹھا ہوا تھا ‘‘۔ میں نے چند مشاہیر علماء کے نام بتائے مولانا برابر پوچھتے رہے کہ اور کون تھا ؟آخر میں میں نے مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی کا نام لیا کہنے لگے کہ ہاں اب میں سمجھا میرا دل بے اختیار اس طرح کھنچ رہا تھا ا سکی یہی وجہ تھی ۔(پرانے چراغ:2/275-276)
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا سید عبدالجبار غزنوی المقلب بہ امام صاحب بڑے عالم فاضل جامع معقول و منقول ، خاندان غزنویہ کے روشن چراغ اور مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام کے بانی اول صاحب نسبت صاحب دل اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے اپنے والد عبداللہ صاحب غزنوی کے جانشین تھے غزنی سے ان کے ساتھ ہجرت کرنے میں ان کے شریک رہے صرف امرتسری ہی نہیں پنجاب بھر میں توحیدو سنت کا بول بالا انہی کی ذات گرامی سے ہوا اور مدرسہ کا فیض تو دور دور ملکوں کو پہنچا ۔آپ کی وفات 25رمضان المبارک 1331ھ کوہوئی ‘‘۔ (سیرت ثنائی :368)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی صاحب کمالات و کرامات تھے مولانا محمد اسحق بھٹی نے اپنے مضمون ’’مولانا سید محمد داؤد غزنوی واقعات و تاثرات ‘‘میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے دو کرامات کا ذکر کیا ہے ۔ مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
فیروز وٹواں کے ملک احمد نمبردار نے مجھ سے بیان کیاکہ :
’’میں 18سال کی عمر کا تھا مجھے گنٹھیا کا مرض لاحق ہوگیا ۔ والد نے بہت علاج کرائے آرام نہیں آیا۔کسی نے بتایا کہ امرتسر میں ایک بزرگ مولانا عبدالجبار غزنوی رہتے ہیں وہ دعا کرتے ہیں اورلوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اسی زمانہ میں گھوڑی کے سوا اس گاؤں میں امرتسر جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا چنانچہ گٹھری کی شکل میں والد نے مجھے گھوڑی پر لادا۔ ہم امرتسر مسجد غزنویہ میں پہنچے تو فجر کی نماز ہورہی تھی والد نے مجھے اٹھایا اور مسجد کے صحن میں رکھ دیا گھوڑی باہر باندھی اور خود وضو کرکے جماعت میں شریک ہوئے جو بزرگ امامت کرارہے تھے وہ اس درد و سوز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ دل انکی طرف کھنچا جاتا تھا نماز کے بعد انھوں نے میری طرف دیکھا ادھر والد صاحب نے آگے بڑھ کر دعا کی درخواست کی انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے جیسے جیسے وہ دعا مانگ رہے تھے یوں احساس ہوتا تھا جیسے میرے جوڑوں کی بندش کھل رہی ہے تین دن ہم وہاں رہے اور اللہ کے فضل سے میں تندرست ہوکر واپس آیا اب جسمانی حالت کیساتھ ساتھ ہماری روحانی دنیا بھی بدل چکی تھی اس لئے کہ ہم انکے مرید تھے اور وہ ہمارے مرشد ‘‘۔
دوسرا واقعہ مولانابھٹی صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ :
’’ الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قبولیت دعا کے سلسلے کے بہت سے واقعات عوام اوران کے عقیدت مندوں میں مشہور ہیں اس ضمن میں ایک عجیب و غریب واقعہ مولانا داؤد غزنوی بھی اور ایک مدراسی بزرگ عزیز اللہ (گھڑی ساز) نے بھی بیان کیا ۔عزیز اللہ صاحب 1958ء میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے مدراس سے کراچی آئے۔ کراچی سے لاہور آئے اس سفر کا مقصد محض مولانا داؤد غزنوی اور ارکان جماعت سے ملاقات تھا وہ الاعتصام کے خریدار تھے سیدھے دفترمیں آئے اور اپنانام او ر پتہ بتایا۔میں ان کے نام سے واقف تھا بحیثیت مدیر الاعتصام وہ مجھ سے آشنا تھے ۔ میں نے ان کواعزاز سے بٹھایا اور مدراسی ہونے کی وجہ سے کھانے کے لئے مچھلی پیش کی مولانا اس روز لاہور سے باہر تشریف لے گئے تھے میں نے مولانا کے ساتھ ان کی عقیدت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایک عرصہ ہوا مدراس سے دو آدمی چمڑے کی تجارت کے لئے امرتسر آئے ان کے ساتھ ایک مدراسی ملازم بھی تھا جس کانام اسمٰعیل تھا اسمٰعیل فجر کی نماز روزانہ الامام مولانا عبدالجبار غزنوی کی اقتداء و امامت میں ادا کرتا ایک روز انہوں نے پوچھا تم کون ہو کہاں کے رہنے والے ہواور یہاں کیاکام کرتے ہو اس نے جواب دیا میرا نام اسمٰعیل ہے مدراس کا رہنے والا ہوں اور دو مدراسی سیٹھوں کے ساتھ ملازم کی حیثیت سے یہاں آیاہوں اس کی یہ بات سن کر امام صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے عزیز اللہ نے اور اس کے بعد مولانا داؤد غزنوی نے بتایا کہ اسمعیل کہاکرتا تھا امام صاحب دعا مانگ رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ گویا دولت میری جھولی میں گر رہی ہے نماز و دعا کے بعد وہ واپس گھر گیا تو سیٹھوں نے کہااسمٰعیل تم بہت عرصے سے ہمارے ساتھ ہو ہم نے تم کو دیانتدار محنتی اور امین پایا ہے لہذا آج سے ہم نے تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لیا ہے اور تمہارا خاص حصہ مقرر کر دیا ہے اپنے حصے کی رقم تم نقد ادا نہیں کروگے بلکہ تمہارے حصے کے منافع سے وضع ہوتی رہے گی اس کے بعد چند مہینوں میں وہ اس درجہ امیر ہوگیا کہ اسمٰعیل سے کاکا اسمٰعیل بن گیا کاکا مدراس کی زبان میں سیٹھ کوکہتے ہیں ۔ کاکا اسمٰعیل نہایت نیک آدمی تھے انہوں نے صوبہ مدراس کے ضلع اوکاٹ میں کئی ایکڑ زمین خریدی اس کو آباد کیا اور اس کا نام محمد آباد رکھا وہاں ایک بہت بڑا اسلامی دارالعلوم قائم کیا جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور ہندوستان کے مشہور اسلامی مدراس میں سے ہے مولانا نے بتایا کہ اس دارالعلوم کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں مجھے باقاعدہ شرکت کی دعوت دی جاتی تھی میں جاتا تو کاکا اسمٰعیل اور ان کے خاندان کے لوگ انتہائی احترام سے پیش آتے۔اور یہ واقعہ ضرور بیان کرتے‘‘۔ ( داؤد غزنوی : 134- 132)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی کی ساری زندگی درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ اور تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہدو عبادت اور روحانیت کا درس دینے میں گزری تاہم تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ کی آپ نے درج ذیل رسائل تصانیف کئے ۔
1۔ سبیل النجاۃ فی مباینۃ الرب عن المخلوقات (اردو)
2۔عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی مسئلۃ الاستواء والمیانۃ(عربی)
3۔فتاوی غزنویہ (اردو)
4المجموعۃ الفتویٰ (اردو)
5۔الاربعین فی ان ثناء اللہ لیس علی مذہب المحدثین (اردو)ـ(1)
6۔سوانح عمری مولانا سید عبداللہ غزنوی (اردو)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی نے 25 رمضان المبارک (جمعۃا لوداع )1331ھ امرتسر میں انتقال کیا۔
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی ان کے خلیفہ اور جانشین مقر ر ہوئے لیکن دو سال کے بعد انہوں نے سفر آخرت اختیار کیا تو مولانا سید عبدالجبار غزنوی (امام ثانی) ان کے جانشین ہوئے۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی 1268ھ میں غزنی میں ایک مقام ’’صاحبزادہ ‘‘ میں پیدا ہوئے تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا اپنے بھائی مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی ، مولانا احمد بن عبداللہ غزنوی سے دینی علوم کی تحصیل کی اور اپنے والد سید عبداللہ غزنوی سے روحانی اور علمی فیض حاصل کیا۔
حدیث کی تحصیل شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی تکمیل تعلیم کے بعد اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں درس و تدریس کاسلسلہ شروع کیا مولانا سید عبداللہ غزنوی جب امرتسر آکر آباد ہوئے تھے اور ایک دینی درسگاہ قائم کرکے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے درسگاہ کانام ’’مدرسہ غزنویہ ‘‘رکھاتھا مولانا سید محمد داؤدغزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’امام اہل توحید ، منبع آثار سلف صالحین ، عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ جب غزنی سے پنجاب تشریف لائے اور امرتسر میں سکونت پذیر ہوئے تو توحید و سنت کی اشاعت اور بدعات اور مشرکانہ رسوم سے پاک اسلام کی تبلیغ کا بے پناہ جذبہ جو آپ کے دل میں موجزن تھا اس نے چند دنوں میں ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ امرتسر مرجع عوام و خواص بن گیا آپ کے حلقہ پندو نصائح میں شریک ہوکے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے او رکیفیت خشوع حاصل کرنے اور آپ کے فیضان محبت سے مستفیض ہونے کے لئے صلحاء اور علماء دور دور سے حاضر ہوکر اس چشمہ ہدایت و معرفت سے اپنی روح کی تسکین اور قلب کی تطہیر حاصل کرتے آپ کے صاحبزادگان میں سے مولانا عبداللہ ، مولانا محمد، اور والد بزرگوار مولانا سید عبدالجبار غزنوی قرآن و حدیث کا درس دیتے اس طرح مسجد غزنویہ ایسی تربیت گاہ بن گئی تھی جہاں علم کے ساتھ عمل ، قال کے ساتھ حال کی کیفیت اور علم و بصیرت کے ساتھ معرفت کا زر حاصل ہوتا تھا عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی کے واصل بحق ہونے کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ ان کے خلیفہ مقرر ہوئے آپ تھوڑا عرصہ زندہ رہے ان کی وفات کے بعد والد بزرگوار مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ منصب خلافت و امامت پر فائز ہوئے آپ کے عہد مبارک میں روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا ۔ آپ کے علم وفضل کے چرچے پنجاب سے گزر کر ہندوستان بلکہ بلاد عرب تک جاپہنچے اور اس طرح آپ کے شاگرد تمام ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پھیل گئے آپ نے اپنے عہد مبارک میں مسجد غزنویہ کی درسگاہ کو باقاعدہ دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا اوراس کے لئے ایک نظام قائم کر دیا۔ امام صاحب نے اپنی فراست ایمانی اور بصیرت قلبی کی برکت سے وقت کی اہم ترین ضرورت کو محسوس کیا علوم کتاب و سنت اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم کیلئے دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے نام سے ایک ایسی درسگاہ قائم کی جو پنجاب میں علمی اور روحانی فیو ض کے لحاظ سے عدیم النظر اور بے مثال تھی ۔(داؤد غزنوی:450)
دارالعلوم تقویۃ الاسلام 1902ء/1319ھ میں قائم ہوا اور 1947ء تک امرتسر میں دین اسلام کی خدمت ، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج ، او رشرک و بدعت کی تردید و توبیخ میں کوشاں رہا ۔ اس مدرسہ(تقویۃ الاسلام )میںمختلف ادوار میں جلیل القدر علمائے کرام نے تدریسی خدمات سر انجام دیں۔مثلاً:
مولانا سید عبدالجبار غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی ، مولانا صوفی عبدالحق غزنوی ، مولانا معصوم علی ہزاروی ، مولانا محمد حسین ہزاروی ، مولانا عبدالغفور غزنوی ، مولانا ابو اسحاق نیک محمد، مولاناسید محمد داؤد غزنوی ، مولانا عبداللہ بھوجیانی وغیرہم دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے بے شمار علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے اور ان میں بعض علمائے کرام بعد میں خود مسند تدریس پر فائز ہوئے اور خدمت اسلام میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ مثلاً
مولانا حافظ عبداللہ روپڑی امرتسری ، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی ، مولانا عبدالکریم فیروز پوری (امین خاندان غزنویہ )مولانا فقیر اللہ مدراسی ، مولانا حکیم عبیدا لرحمان دہلوی ، مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ، مولانا حکیم عبدالرحمان پروفیسر طیبہ کالج دہلی ، اور مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی وغیرہم ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے انتقال 1331ھ کے بعد مولانا عبدالواحد غزنوی دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ناظم اور اس کے ساتھ منصب خلافت پر فائز ہوئے آپ امام و محدث تھے ۔1930ء میں مولانا عبدالواحد غزنوی نے وفات پائی تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی تقویۃ الاسلام کے ناظم ومہتمم مقرر ہوئے ۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا عبدالواحد غزنوی کے انتقال کے بعد جماعت کے مخلصین او رتمام خاندان نے اس عاجز کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ مولانا مرحوم کی جگہ میں کام کروںمیں نے اپنے بے بضاعتی اور نااہلیت کے عذرات پیش کئے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ میں کسی لحاظ سے بھی بزرگوں کی مسند پر تمکن ہونے کا اپنے کو اہل نہ سمجھتا تھا میرے پاس اپنی کوتاہیوں کے اعتراف اپنے ذنوب و خطا پاکی ندامت و انفعال کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جماعت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا میں نے اس ذمّہ داری کو قبول کر لیا کہ شاید یہی خدمت میرے لئے کفار ہ ذنوب کا سبب اور ذریعہ بن جائے ‘‘۔(داؤد غزنوی :452)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی علم وفضل کے اعتبار سے بہت ارفع و اعلی تھے ۔
مولانا سید عبدالحی الحسنی لکھتے ہیں کہ :
’’آپ بڑے عالم او رمحدث تھے آپ کی جلالت شان اور ولایت کے اوپر تمام لوگوں کا اتفاق ہے آپ کی عمر 20سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ علم متداولہ سے فارغ ہوچکے تھے بہت ذہین تھے مطالعہ بہت کرتے تھے فہم وفراست سے انہیں وافر حصہ ملا تھا امرتسر میں قرآن و حدیث کی تدریس کے شغل ہی میں منہمک رہتے تھے دنیا و اہل دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے اور مخلوق کو اللہ کی طرف بلانے میں مشغول رہتے اللہ کا ذکر بڑی باقاعدگی اور یکسوئی سے کرتے اور ذکر کے دوران ان پر بڑی کیفیت طاری ہوتی تھی میں نے امرتسر میں کئی بار ان کی زیارت کی ہے میں نے انہیں سلف صالحین کے مسلک پر پایا۔وہ علمائے ربانی میں سے تھے فتوی دیتے وقت وہ کسی معین مسلک کا التزام تو نہ کرتے تھے لیکن ائمہ مجتہدین سے سوئے ظن نہ فرماتے تھے ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں کرتے ۔‘‘( نزہۃ الخواطر :8/219۔218)
مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’مولوی عبدالجبار صاحب حدیث وتفسیر میں بے بدل تھے اپنے ظاہری و باطنی اصلاح و تقوی کی وجہ سے (خود نہیں )دوسروں نے آپ کو امام صاحب کا خطاب کیا اور بجا طو پر‘‘ (ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات :174)
سید ابو الحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’ بچپن سے جن صادق العقیدہ متبع سنت بزرگوں اور خاصان خدا کا نام عظمت و عقیدت کے ساتھ کان میں پڑا ان میں مولانا سید عبداللہ غزنوی اور ان کے خلف الرشید مولانا سید عبدالجبار غزنوی تھے یہ حضرات غزنی (افغانستان ) کے رہنے والے تھے لیکن اپنے خالص عقیدہ توحید و کامل پیروی سنت وا تباع سلف کے جرم میں ان کو افضل خان امیر کابل کے عہد حکومت میں اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا اور انہوں نے الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ۔(جو ناحق محض اس تصور میں اپنے وطن سے نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پالنے والا اللہ ہے )کا مصداق بن کر ہجرت کی اور اپنے خاندان کے ساتھ امرتسر میں سکونت اختیار کی وہ بڑے پایہ کے بزرگ ، داعی الی اللہ ، توحید و سنت کے مبلغ اور ناشر قرآن و حدیث تھے ان کی ولایت و بزرگی پر اس نواح کے لوگ اور اہل نظر معاصرین کا اتفاق ہے صاحب نزہۃ الخواطر نے ان کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے ‘‘۔
’’صاحب المقامات الشھیرۃ والمعارف العظیمۃ الکبیرۃ ‘‘
ان کو زمانہ کیلئے باعث برکت اور ہندوستان کیلئے باعث زینت لکھا ہے ۔13ویں صدی کے آخر (1298ھ) میں انہوں نے وفات پائی ۔ انکے صاحبزادے مولانا سید عبدالجبار غزنوی اپنے والد نامدار کے قدم بہ قدم تھے وہی توحید و سنت کا غلبہ ، وہی ترک و تجوید ، وہی زہد و توکل، وہی قرآن و حدیث کی اشاعت و تبلیغ کا جذبہ ، مصنف نزہۃ الخواطر نے انکا تذکرہ کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’’ان کی ولایت اور جلالت شان پر اہل زمانہ کااتفاق ہے‘‘۔1331ھ میں انہوں نے امرتسر میں وفات پائی وہ اپنے خاص رنگ میں قرآن مجید کادرس دیتے تھے ’’ہرچہ ازدل خیز دبردی ایزد‘‘ کے بمصداق سننے والوں کے دلوں پر وہ اثر پڑتا تھاجو بڑے بڑے عالمانہ و محققانہ درسوں ، علمی موشگافیوں وقتی نکتہ آفرینیوں کا نہیں پڑتا ۔ رجب 1320ھ/اکتوبر1902ء میں ندوۃ العلماء کا امرتسر میں سالانہ اجلاس تھا ہندوستان کے چوٹی کے علماء اور مشاہیر شریک تھے نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمان خان شروانی راوی ہیں کہ علامہ شبلی بھی ایک دن اس درس میں شریک ہوئے وہاں سے آکر اپنا تاثر بیان کیا اور فرمایا کہ :
’’ جس وقت وہ شخص اپنی زبان سے اللہ کا نام لیتا تھا تو بے اختیار جی چاہتا تھا کہ سر اس کے قدموں پر رکھ دیجئے ‘‘۔
انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ را ت کوکھانے پر جلسہ کے سب مہمان جو ملک کے گوشہ گوشہ سے آئے تھے اور مقامی علماء او رمعززین بھی شریک تھے جس کمرہ میں کھانا کھلایا گیا تھااس میں بیچ کے ہال کے علاوہ بغل میں دائیں بائیں کمرے تھے دسترخوان ایک تھا لیکن کمروں کے الگ ہونے کی وجہ سے ایک طرف کا آدمی دوسری طرف کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتا تھا میری نشست جہاں تھی وہاں مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی بھی رونق افروز تھے مولانا سید محمد علی ناظم ندوۃ العلماء دوسری طرف کے کمرہ میں تھے کھانے سے فراغت کے بعد مجھ سے کہا کہ’’ مولوی حبیب الرحمان !تمہارے پاس اور کون کون بیٹھا ہوا تھا ‘‘۔ میں نے چند مشاہیر علماء کے نام بتائے مولانا برابر پوچھتے رہے کہ اور کون تھا ؟آخر میں میں نے مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی کا نام لیا کہنے لگے کہ ہاں اب میں سمجھا میرا دل بے اختیار اس طرح کھنچ رہا تھا ا سکی یہی وجہ تھی ۔(پرانے چراغ:2/275-276)
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا سید عبدالجبار غزنوی المقلب بہ امام صاحب بڑے عالم فاضل جامع معقول و منقول ، خاندان غزنویہ کے روشن چراغ اور مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام کے بانی اول صاحب نسبت صاحب دل اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے اپنے والد عبداللہ صاحب غزنوی کے جانشین تھے غزنی سے ان کے ساتھ ہجرت کرنے میں ان کے شریک رہے صرف امرتسری ہی نہیں پنجاب بھر میں توحیدو سنت کا بول بالا انہی کی ذات گرامی سے ہوا اور مدرسہ کا فیض تو دور دور ملکوں کو پہنچا ۔آپ کی وفات 25رمضان المبارک 1331ھ کوہوئی ‘‘۔ (سیرت ثنائی :368)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی صاحب کمالات و کرامات تھے مولانا محمد اسحق بھٹی نے اپنے مضمون ’’مولانا سید محمد داؤد غزنوی واقعات و تاثرات ‘‘میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے دو کرامات کا ذکر کیا ہے ۔ مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
فیروز وٹواں کے ملک احمد نمبردار نے مجھ سے بیان کیاکہ :
’’میں 18سال کی عمر کا تھا مجھے گنٹھیا کا مرض لاحق ہوگیا ۔ والد نے بہت علاج کرائے آرام نہیں آیا۔کسی نے بتایا کہ امرتسر میں ایک بزرگ مولانا عبدالجبار غزنوی رہتے ہیں وہ دعا کرتے ہیں اورلوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اسی زمانہ میں گھوڑی کے سوا اس گاؤں میں امرتسر جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا چنانچہ گٹھری کی شکل میں والد نے مجھے گھوڑی پر لادا۔ ہم امرتسر مسجد غزنویہ میں پہنچے تو فجر کی نماز ہورہی تھی والد نے مجھے اٹھایا اور مسجد کے صحن میں رکھ دیا گھوڑی باہر باندھی اور خود وضو کرکے جماعت میں شریک ہوئے جو بزرگ امامت کرارہے تھے وہ اس درد و سوز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ دل انکی طرف کھنچا جاتا تھا نماز کے بعد انھوں نے میری طرف دیکھا ادھر والد صاحب نے آگے بڑھ کر دعا کی درخواست کی انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے جیسے جیسے وہ دعا مانگ رہے تھے یوں احساس ہوتا تھا جیسے میرے جوڑوں کی بندش کھل رہی ہے تین دن ہم وہاں رہے اور اللہ کے فضل سے میں تندرست ہوکر واپس آیا اب جسمانی حالت کیساتھ ساتھ ہماری روحانی دنیا بھی بدل چکی تھی اس لئے کہ ہم انکے مرید تھے اور وہ ہمارے مرشد ‘‘۔
دوسرا واقعہ مولانابھٹی صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ :
’’ الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قبولیت دعا کے سلسلے کے بہت سے واقعات عوام اوران کے عقیدت مندوں میں مشہور ہیں اس ضمن میں ایک عجیب و غریب واقعہ مولانا داؤد غزنوی بھی اور ایک مدراسی بزرگ عزیز اللہ (گھڑی ساز) نے بھی بیان کیا ۔عزیز اللہ صاحب 1958ء میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے مدراس سے کراچی آئے۔ کراچی سے لاہور آئے اس سفر کا مقصد محض مولانا داؤد غزنوی اور ارکان جماعت سے ملاقات تھا وہ الاعتصام کے خریدار تھے سیدھے دفترمیں آئے اور اپنانام او ر پتہ بتایا۔میں ان کے نام سے واقف تھا بحیثیت مدیر الاعتصام وہ مجھ سے آشنا تھے ۔ میں نے ان کواعزاز سے بٹھایا اور مدراسی ہونے کی وجہ سے کھانے کے لئے مچھلی پیش کی مولانا اس روز لاہور سے باہر تشریف لے گئے تھے میں نے مولانا کے ساتھ ان کی عقیدت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایک عرصہ ہوا مدراس سے دو آدمی چمڑے کی تجارت کے لئے امرتسر آئے ان کے ساتھ ایک مدراسی ملازم بھی تھا جس کانام اسمٰعیل تھا اسمٰعیل فجر کی نماز روزانہ الامام مولانا عبدالجبار غزنوی کی اقتداء و امامت میں ادا کرتا ایک روز انہوں نے پوچھا تم کون ہو کہاں کے رہنے والے ہواور یہاں کیاکام کرتے ہو اس نے جواب دیا میرا نام اسمٰعیل ہے مدراس کا رہنے والا ہوں اور دو مدراسی سیٹھوں کے ساتھ ملازم کی حیثیت سے یہاں آیاہوں اس کی یہ بات سن کر امام صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے عزیز اللہ نے اور اس کے بعد مولانا داؤد غزنوی نے بتایا کہ اسمعیل کہاکرتا تھا امام صاحب دعا مانگ رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ گویا دولت میری جھولی میں گر رہی ہے نماز و دعا کے بعد وہ واپس گھر گیا تو سیٹھوں نے کہااسمٰعیل تم بہت عرصے سے ہمارے ساتھ ہو ہم نے تم کو دیانتدار محنتی اور امین پایا ہے لہذا آج سے ہم نے تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لیا ہے اور تمہارا خاص حصہ مقرر کر دیا ہے اپنے حصے کی رقم تم نقد ادا نہیں کروگے بلکہ تمہارے حصے کے منافع سے وضع ہوتی رہے گی اس کے بعد چند مہینوں میں وہ اس درجہ امیر ہوگیا کہ اسمٰعیل سے کاکا اسمٰعیل بن گیا کاکا مدراس کی زبان میں سیٹھ کوکہتے ہیں ۔ کاکا اسمٰعیل نہایت نیک آدمی تھے انہوں نے صوبہ مدراس کے ضلع اوکاٹ میں کئی ایکڑ زمین خریدی اس کو آباد کیا اور اس کا نام محمد آباد رکھا وہاں ایک بہت بڑا اسلامی دارالعلوم قائم کیا جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور ہندوستان کے مشہور اسلامی مدراس میں سے ہے مولانا نے بتایا کہ اس دارالعلوم کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں مجھے باقاعدہ شرکت کی دعوت دی جاتی تھی میں جاتا تو کاکا اسمٰعیل اور ان کے خاندان کے لوگ انتہائی احترام سے پیش آتے۔اور یہ واقعہ ضرور بیان کرتے‘‘۔ ( داؤد غزنوی : 134- 132)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی کی ساری زندگی درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ اور تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہدو عبادت اور روحانیت کا درس دینے میں گزری تاہم تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ کی آپ نے درج ذیل رسائل تصانیف کئے ۔
1۔ سبیل النجاۃ فی مباینۃ الرب عن المخلوقات (اردو)
2۔عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی مسئلۃ الاستواء والمیانۃ(عربی)
3۔فتاوی غزنویہ (اردو)
4المجموعۃ الفتویٰ (اردو)
5۔الاربعین فی ان ثناء اللہ لیس علی مذہب المحدثین (اردو)ـ(1)
6۔سوانح عمری مولانا سید عبداللہ غزنوی (اردو)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی نے 25 رمضان المبارک (جمعۃا لوداع )1331ھ امرتسر میں انتقال کیا۔