• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزنوی خاندان عبدالرشید عراقی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا عبدالجبار غزنوی
مولانا سید عبداللہ غزنوی کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی ان کے خلیفہ اور جانشین مقر ر ہوئے لیکن دو سال کے بعد انہوں نے سفر آخرت اختیار کیا تو مولانا سید عبدالجبار غزنوی (امام ثانی) ان کے جانشین ہوئے۔
مولانا سید عبدالجبار غزنوی 1268ھ میں غزنی میں ایک مقام ’’صاحبزادہ ‘‘ میں پیدا ہوئے تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا اپنے بھائی مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی ، مولانا احمد بن عبداللہ غزنوی سے دینی علوم کی تحصیل کی اور اپنے والد سید عبداللہ غزنوی سے روحانی اور علمی فیض حاصل کیا۔
حدیث کی تحصیل شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی تکمیل تعلیم کے بعد اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں درس و تدریس کاسلسلہ شروع کیا مولانا سید عبداللہ غزنوی جب امرتسر آکر آباد ہوئے تھے اور ایک دینی درسگاہ قائم کرکے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا تو انہوں نے درسگاہ کانام ’’مدرسہ غزنویہ ‘‘رکھاتھا مولانا سید محمد داؤدغزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’امام اہل توحید ، منبع آثار سلف صالحین ، عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ جب غزنی سے پنجاب تشریف لائے اور امرتسر میں سکونت پذیر ہوئے تو توحید و سنت کی اشاعت اور بدعات اور مشرکانہ رسوم سے پاک اسلام کی تبلیغ کا بے پناہ جذبہ جو آپ کے دل میں موجزن تھا اس نے چند دنوں میں ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی کہ امرتسر مرجع عوام و خواص بن گیا آپ کے حلقہ پندو نصائح میں شریک ہوکے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے او رکیفیت خشوع حاصل کرنے اور آپ کے فیضان محبت سے مستفیض ہونے کے لئے صلحاء اور علماء دور دور سے حاضر ہوکر اس چشمہ ہدایت و معرفت سے اپنی روح کی تسکین اور قلب کی تطہیر حاصل کرتے آپ کے صاحبزادگان میں سے مولانا عبداللہ ، مولانا محمد، اور والد بزرگوار مولانا سید عبدالجبار غزنوی قرآن و حدیث کا درس دیتے اس طرح مسجد غزنویہ ایسی تربیت گاہ بن گئی تھی جہاں علم کے ساتھ عمل ، قال کے ساتھ حال کی کیفیت اور علم و بصیرت کے ساتھ معرفت کا زر حاصل ہوتا تھا عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی کے واصل بحق ہونے کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا عبداللہ بن عبداللہ ان کے خلیفہ مقرر ہوئے آپ تھوڑا عرصہ زندہ رہے ان کی وفات کے بعد والد بزرگوار مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ منصب خلافت و امامت پر فائز ہوئے آپ کے عہد مبارک میں روحانی فیوض و برکات حاصل کرنے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہوگیا ۔ آپ کے علم وفضل کے چرچے پنجاب سے گزر کر ہندوستان بلکہ بلاد عرب تک جاپہنچے اور اس طرح آپ کے شاگرد تمام ملک بلکہ بیرونی ممالک میں بھی پھیل گئے آپ نے اپنے عہد مبارک میں مسجد غزنویہ کی درسگاہ کو باقاعدہ دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا اوراس کے لئے ایک نظام قائم کر دیا۔ امام صاحب نے اپنی فراست ایمانی اور بصیرت قلبی کی برکت سے وقت کی اہم ترین ضرورت کو محسوس کیا علوم کتاب و سنت اور دیگر علوم دینیہ کی تعلیم کیلئے دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے نام سے ایک ایسی درسگاہ قائم کی جو پنجاب میں علمی اور روحانی فیو ض کے لحاظ سے عدیم النظر اور بے مثال تھی ۔(داؤد غزنوی:450)
دارالعلوم تقویۃ الاسلام 1902ء/1319ھ میں قائم ہوا اور 1947ء تک امرتسر میں دین اسلام کی خدمت ، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج ، او رشرک و بدعت کی تردید و توبیخ میں کوشاں رہا ۔ اس مدرسہ(تقویۃ الاسلام )میںمختلف ادوار میں جلیل القدر علمائے کرام نے تدریسی خدمات سر انجام دیں۔مثلاً:
مولانا سید عبدالجبار غزنوی ، مولانا عبدالرحیم غزنوی ، مولانا صوفی عبدالحق غزنوی ، مولانا معصوم علی ہزاروی ، مولانا محمد حسین ہزاروی ، مولانا عبدالغفور غزنوی ، مولانا ابو اسحاق نیک محمد، مولاناسید محمد داؤد غزنوی ، مولانا عبداللہ بھوجیانی وغیرہم دارالعلوم تقویۃ الاسلام سے بے شمار علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے اور ان میں بعض علمائے کرام بعد میں خود مسند تدریس پر فائز ہوئے اور خدمت اسلام میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جن کا تذکرہ انشاء اللہ العزیز رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ مثلاً
مولانا حافظ عبداللہ روپڑی امرتسری ، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی ، مولانا عبدالکریم فیروز پوری (امین خاندان غزنویہ )مولانا فقیر اللہ مدراسی ، مولانا حکیم عبیدا لرحمان دہلوی ، مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ، مولانا حکیم عبدالرحمان پروفیسر طیبہ کالج دہلی ، اور مولوی ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی وغیرہم ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے انتقال 1331ھ کے بعد مولانا عبدالواحد غزنوی دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ناظم اور اس کے ساتھ منصب خلافت پر فائز ہوئے آپ امام و محدث تھے ۔1930ء میں مولانا عبدالواحد غزنوی نے وفات پائی تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی تقویۃ الاسلام کے ناظم ومہتمم مقرر ہوئے ۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی لکھتے ہیں کہ
’’ مولانا عبدالواحد غزنوی کے انتقال کے بعد جماعت کے مخلصین او رتمام خاندان نے اس عاجز کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ مولانا مرحوم کی جگہ میں کام کروںمیں نے اپنے بے بضاعتی اور نااہلیت کے عذرات پیش کئے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ میں کسی لحاظ سے بھی بزرگوں کی مسند پر تمکن ہونے کا اپنے کو اہل نہ سمجھتا تھا میرے پاس اپنی کوتاہیوں کے اعتراف اپنے ذنوب و خطا پاکی ندامت و انفعال کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جماعت کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا میں نے اس ذمّہ داری کو قبول کر لیا کہ شاید یہی خدمت میرے لئے کفار ہ ذنوب کا سبب اور ذریعہ بن جائے ‘‘۔(داؤد غزنوی :452)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی علم وفضل کے اعتبار سے بہت ارفع و اعلی تھے ۔
مولانا سید عبدالحی الحسنی لکھتے ہیں کہ :
’’آپ بڑے عالم او رمحدث تھے آپ کی جلالت شان اور ولایت کے اوپر تمام لوگوں کا اتفاق ہے آپ کی عمر 20سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ علم متداولہ سے فارغ ہوچکے تھے بہت ذہین تھے مطالعہ بہت کرتے تھے فہم وفراست سے انہیں وافر حصہ ملا تھا امرتسر میں قرآن و حدیث کی تدریس کے شغل ہی میں منہمک رہتے تھے دنیا و اہل دنیا سے الگ تھلگ رہتے تھے اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے اور مخلوق کو اللہ کی طرف بلانے میں مشغول رہتے اللہ کا ذکر بڑی باقاعدگی اور یکسوئی سے کرتے اور ذکر کے دوران ان پر بڑی کیفیت طاری ہوتی تھی میں نے امرتسر میں کئی بار ان کی زیارت کی ہے میں نے انہیں سلف صالحین کے مسلک پر پایا۔وہ علمائے ربانی میں سے تھے فتوی دیتے وقت وہ کسی معین مسلک کا التزام تو نہ کرتے تھے لیکن ائمہ مجتہدین سے سوئے ظن نہ فرماتے تھے ان کا ذکر ہمیشہ اچھے الفاظ میں کرتے ۔‘‘( نزہۃ الخواطر :8/219۔218)
مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’مولوی عبدالجبار صاحب حدیث وتفسیر میں بے بدل تھے اپنے ظاہری و باطنی اصلاح و تقوی کی وجہ سے (خود نہیں )دوسروں نے آپ کو امام صاحب کا خطاب کیا اور بجا طو پر‘‘ (ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات :174)
سید ابو الحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں کہ :
’’ بچپن سے جن صادق العقیدہ متبع سنت بزرگوں اور خاصان خدا کا نام عظمت و عقیدت کے ساتھ کان میں پڑا ان میں مولانا سید عبداللہ غزنوی اور ان کے خلف الرشید مولانا سید عبدالجبار غزنوی تھے یہ حضرات غزنی (افغانستان ) کے رہنے والے تھے لیکن اپنے خالص عقیدہ توحید و کامل پیروی سنت وا تباع سلف کے جرم میں ان کو افضل خان امیر کابل کے عہد حکومت میں اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا اور انہوں نے الذین اخرجوا من دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ۔(جو ناحق محض اس تصور میں اپنے وطن سے نکالے گئے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا پالنے والا اللہ ہے )کا مصداق بن کر ہجرت کی اور اپنے خاندان کے ساتھ امرتسر میں سکونت اختیار کی وہ بڑے پایہ کے بزرگ ، داعی الی اللہ ، توحید و سنت کے مبلغ اور ناشر قرآن و حدیث تھے ان کی ولایت و بزرگی پر اس نواح کے لوگ اور اہل نظر معاصرین کا اتفاق ہے صاحب نزہۃ الخواطر نے ان کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے ‘‘۔
’’صاحب المقامات الشھیرۃ والمعارف العظیمۃ الکبیرۃ ‘‘
ان کو زمانہ کیلئے باعث برکت اور ہندوستان کیلئے باعث زینت لکھا ہے ۔13ویں صدی کے آخر (1298ھ) میں انہوں نے وفات پائی ۔ انکے صاحبزادے مولانا سید عبدالجبار غزنوی اپنے والد نامدار کے قدم بہ قدم تھے وہی توحید و سنت کا غلبہ ، وہی ترک و تجوید ، وہی زہد و توکل، وہی قرآن و حدیث کی اشاعت و تبلیغ کا جذبہ ، مصنف نزہۃ الخواطر نے انکا تذکرہ کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں کہ ’’ان کی ولایت اور جلالت شان پر اہل زمانہ کااتفاق ہے‘‘۔1331ھ میں انہوں نے امرتسر میں وفات پائی وہ اپنے خاص رنگ میں قرآن مجید کادرس دیتے تھے ’’ہرچہ ازدل خیز دبردی ایزد‘‘ کے بمصداق سننے والوں کے دلوں پر وہ اثر پڑتا تھاجو بڑے بڑے عالمانہ و محققانہ درسوں ، علمی موشگافیوں وقتی نکتہ آفرینیوں کا نہیں پڑتا ۔ رجب 1320ھ/اکتوبر1902ء میں ندوۃ العلماء کا امرتسر میں سالانہ اجلاس تھا ہندوستان کے چوٹی کے علماء اور مشاہیر شریک تھے نواب صدر یارجنگ مولانا حبیب الرحمان خان شروانی راوی ہیں کہ علامہ شبلی بھی ایک دن اس درس میں شریک ہوئے وہاں سے آکر اپنا تاثر بیان کیا اور فرمایا کہ :
’’ جس وقت وہ شخص اپنی زبان سے اللہ کا نام لیتا تھا تو بے اختیار جی چاہتا تھا کہ سر اس کے قدموں پر رکھ دیجئے ‘‘۔
انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ را ت کوکھانے پر جلسہ کے سب مہمان جو ملک کے گوشہ گوشہ سے آئے تھے اور مقامی علماء او رمعززین بھی شریک تھے جس کمرہ میں کھانا کھلایا گیا تھااس میں بیچ کے ہال کے علاوہ بغل میں دائیں بائیں کمرے تھے دسترخوان ایک تھا لیکن کمروں کے الگ ہونے کی وجہ سے ایک طرف کا آدمی دوسری طرف کے آدمی کو دیکھ نہیں سکتا تھا میری نشست جہاں تھی وہاں مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی بھی رونق افروز تھے مولانا سید محمد علی ناظم ندوۃ العلماء دوسری طرف کے کمرہ میں تھے کھانے سے فراغت کے بعد مجھ سے کہا کہ’’ مولوی حبیب الرحمان !تمہارے پاس اور کون کون بیٹھا ہوا تھا ‘‘۔ میں نے چند مشاہیر علماء کے نام بتائے مولانا برابر پوچھتے رہے کہ اور کون تھا ؟آخر میں میں نے مولانا عبدالجبار صاحب غزنوی کا نام لیا کہنے لگے کہ ہاں اب میں سمجھا میرا دل بے اختیار اس طرح کھنچ رہا تھا ا سکی یہی وجہ تھی ۔(پرانے چراغ:2/275-276)
مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا سید عبدالجبار غزنوی المقلب بہ امام صاحب بڑے عالم فاضل جامع معقول و منقول ، خاندان غزنویہ کے روشن چراغ اور مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام کے بانی اول صاحب نسبت صاحب دل اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے اپنے والد عبداللہ صاحب غزنوی کے جانشین تھے غزنی سے ان کے ساتھ ہجرت کرنے میں ان کے شریک رہے صرف امرتسری ہی نہیں پنجاب بھر میں توحیدو سنت کا بول بالا انہی کی ذات گرامی سے ہوا اور مدرسہ کا فیض تو دور دور ملکوں کو پہنچا ۔آپ کی وفات 25رمضان المبارک 1331ھ کوہوئی ‘‘۔ (سیرت ثنائی :368)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی صاحب کمالات و کرامات تھے مولانا محمد اسحق بھٹی نے اپنے مضمون ’’مولانا سید محمد داؤد غزنوی واقعات و تاثرات ‘‘میں مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے دو کرامات کا ذکر کیا ہے ۔ مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
فیروز وٹواں کے ملک احمد نمبردار نے مجھ سے بیان کیاکہ :
’’میں 18سال کی عمر کا تھا مجھے گنٹھیا کا مرض لاحق ہوگیا ۔ والد نے بہت علاج کرائے آرام نہیں آیا۔کسی نے بتایا کہ امرتسر میں ایک بزرگ مولانا عبدالجبار غزنوی رہتے ہیں وہ دعا کرتے ہیں اورلوگ صحت یاب ہوجاتے ہیں اسی زمانہ میں گھوڑی کے سوا اس گاؤں میں امرتسر جانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا چنانچہ گٹھری کی شکل میں والد نے مجھے گھوڑی پر لادا۔ ہم امرتسر مسجد غزنویہ میں پہنچے تو فجر کی نماز ہورہی تھی والد نے مجھے اٹھایا اور مسجد کے صحن میں رکھ دیا گھوڑی باہر باندھی اور خود وضو کرکے جماعت میں شریک ہوئے جو بزرگ امامت کرارہے تھے وہ اس درد و سوز سے قرآن مجید پڑھ رہے تھے کہ دل انکی طرف کھنچا جاتا تھا نماز کے بعد انھوں نے میری طرف دیکھا ادھر والد صاحب نے آگے بڑھ کر دعا کی درخواست کی انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے جیسے جیسے وہ دعا مانگ رہے تھے یوں احساس ہوتا تھا جیسے میرے جوڑوں کی بندش کھل رہی ہے تین دن ہم وہاں رہے اور اللہ کے فضل سے میں تندرست ہوکر واپس آیا اب جسمانی حالت کیساتھ ساتھ ہماری روحانی دنیا بھی بدل چکی تھی اس لئے کہ ہم انکے مرید تھے اور وہ ہمارے مرشد ‘‘۔
دوسرا واقعہ مولانابھٹی صاحب نے اس طرح لکھا ہے کہ :
’’ الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قبولیت دعا کے سلسلے کے بہت سے واقعات عوام اوران کے عقیدت مندوں میں مشہور ہیں اس ضمن میں ایک عجیب و غریب واقعہ مولانا داؤد غزنوی بھی اور ایک مدراسی بزرگ عزیز اللہ (گھڑی ساز) نے بھی بیان کیا ۔عزیز اللہ صاحب 1958ء میں اپنے عزیزوں سے ملاقات کے لئے مدراس سے کراچی آئے۔ کراچی سے لاہور آئے اس سفر کا مقصد محض مولانا داؤد غزنوی اور ارکان جماعت سے ملاقات تھا وہ الاعتصام کے خریدار تھے سیدھے دفترمیں آئے اور اپنانام او ر پتہ بتایا۔میں ان کے نام سے واقف تھا بحیثیت مدیر الاعتصام وہ مجھ سے آشنا تھے ۔ میں نے ان کواعزاز سے بٹھایا اور مدراسی ہونے کی وجہ سے کھانے کے لئے مچھلی پیش کی مولانا اس روز لاہور سے باہر تشریف لے گئے تھے میں نے مولانا کے ساتھ ان کی عقیدت کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ایک عرصہ ہوا مدراس سے دو آدمی چمڑے کی تجارت کے لئے امرتسر آئے ان کے ساتھ ایک مدراسی ملازم بھی تھا جس کانام اسمٰعیل تھا اسمٰعیل فجر کی نماز روزانہ الامام مولانا عبدالجبار غزنوی کی اقتداء و امامت میں ادا کرتا ایک روز انہوں نے پوچھا تم کون ہو کہاں کے رہنے والے ہواور یہاں کیاکام کرتے ہو اس نے جواب دیا میرا نام اسمٰعیل ہے مدراس کا رہنے والا ہوں اور دو مدراسی سیٹھوں کے ساتھ ملازم کی حیثیت سے یہاں آیاہوں اس کی یہ بات سن کر امام صاحب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے عزیز اللہ نے اور اس کے بعد مولانا داؤد غزنوی نے بتایا کہ اسمعیل کہاکرتا تھا امام صاحب دعا مانگ رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ گویا دولت میری جھولی میں گر رہی ہے نماز و دعا کے بعد وہ واپس گھر گیا تو سیٹھوں نے کہااسمٰعیل تم بہت عرصے سے ہمارے ساتھ ہو ہم نے تم کو دیانتدار محنتی اور امین پایا ہے لہذا آج سے ہم نے تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لیا ہے اور تمہارا خاص حصہ مقرر کر دیا ہے اپنے حصے کی رقم تم نقد ادا نہیں کروگے بلکہ تمہارے حصے کے منافع سے وضع ہوتی رہے گی اس کے بعد چند مہینوں میں وہ اس درجہ امیر ہوگیا کہ اسمٰعیل سے کاکا اسمٰعیل بن گیا کاکا مدراس کی زبان میں سیٹھ کوکہتے ہیں ۔ کاکا اسمٰعیل نہایت نیک آدمی تھے انہوں نے صوبہ مدراس کے ضلع اوکاٹ میں کئی ایکڑ زمین خریدی اس کو آباد کیا اور اس کا نام محمد آباد رکھا وہاں ایک بہت بڑا اسلامی دارالعلوم قائم کیا جو اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور ہندوستان کے مشہور اسلامی مدراس میں سے ہے مولانا نے بتایا کہ اس دارالعلوم کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں مجھے باقاعدہ شرکت کی دعوت دی جاتی تھی میں جاتا تو کاکا اسمٰعیل اور ان کے خاندان کے لوگ انتہائی احترام سے پیش آتے۔اور یہ واقعہ ضرور بیان کرتے‘‘۔ ( داؤد غزنوی : 134- 132)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی کی ساری زندگی درس و تدریس ، وعظ و تبلیغ اور تصوف و سلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہدو عبادت اور روحانیت کا درس دینے میں گزری تاہم تصنیف و تالیف کی طرف بھی توجہ کی آپ نے درج ذیل رسائل تصانیف کئے ۔
1۔ سبیل النجاۃ فی مباینۃ الرب عن المخلوقات (اردو)
2۔عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ فی مسئلۃ الاستواء والمیانۃ(عربی)
3۔فتاوی غزنویہ (اردو)
4المجموعۃ الفتویٰ (اردو)
5۔الاربعین فی ان ثناء اللہ لیس علی مذہب المحدثین (اردو)
ـ(1)
6۔سوانح عمری مولانا سید عبداللہ غزنوی (اردو)
مولانا سید عبدالجبار غزنوی نے 25 رمضان المبارک (جمعۃا لوداع )1331ھ امرتسر میں انتقال کیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا محمد حسین ہزاروی ؒ
مولانا محمد حسین کاتعلق ہزارہ سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے علماء سے حاصل کی۔ جب انہیں امام مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے زہد و ورع، للہیت، تقویٰ و طہارت اور تبحر علمی کاپتہ چلا۔ اور اس کے ساتھ مدرسہ غزنویہ کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں تو آپ نے امرتسر کارخ کیا۔ اور الامام غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور مدرسہ غزنویہ میں داخلہ لے لیا آپ نے الامام مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مولانا سید عبداللہ بن عبداللہ غزنوی مولانا سید عبدالاول غزنوی اور مولانا سید عبدالرحیم غزنوی رحمہم اللہ اجمعین سے بھی علوم اسلامیہ میں اکتساب فیض کیا۔
مولانا محمد حسین ہزاروی بلاشبہ ایک ذہین اور نیک سیرت، درویش صنف انسان تھے بہت زیادہ عبادت کرنے والے تھے ان کی خوش خصالی دیکھ کر حضرت الامام نے ان کو اپنی دامادی میں لے لیا۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد مدرسہ غزنویہ میں ہی مسند تدریس پر متمکن ہوئے۔ اور ساری زندگی درس و تدریس میں گزار دی۔ بے شمار حضرات نے ان سے حصول علم کیا۔ تفسیر ، حدیث، فقہ او ر دیگر علوم
1۔ یہ کتاب غلط طور پر الامام عبدالجبار سے منتسب ہوگئی ہے، اس کے مرتب مولانا حکیم عبدالحق امرتسری ہیں، حقیقت حال ہے کے لئے کتاب مذکور کو ’’ داالدعوۃ السلفیہ ‘‘ شیش محل روڈ لاہور کی لائبریری میں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے (محمد تنزیل الصدیقی الحسینی)
اسلامی میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی مہارت عطافرمائی تھی۔
درس وتدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ مولوی محمد مستقیم سلفی نے اپنی کتاب ’’جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات‘‘ میں ان کے درج ذیل تصانیف کا ذکر کیاہے۔
1۔تحفہ الباقی علی الفیہ العراقی
2۔شرح نخبتہ الفکر لابن حجر
3۔ تحفہ اہلحدیث
4۔ ہدایۃ البلید فی رد التقلید
5۔ تقلید النسیان فی ابطال الاعیان
مولانا محمد حسین کے سن ولادت اور سن وفات کا پتہ نہیں چل سکا۔ تاہم آپ نے قیام پاکستان سے قبل امرتسر میں وفات پائی۔(1)
1۔ مولانا محمد حسین ہزاروی کاتعلق ہری پور ضلع ہزارہ کے غیر مشہور انام گاؤں موضع نوتن سے تھا ۔ والد کا نام عبدالستار تھا ۔ دہلی میں شیخ الکل سید نذیر حسین سے بھی حدیث پڑھی۔ امرتسر کی مسجد واقع شریف پورہ میں خطابت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ شعبان 1343ھ میں وفات پائی۔(مختصراً ماخوذ’’ دیار ہند کے گمنام اکابر‘‘ از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی )
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی شیخ عبداللہ غزنوی کے دوسرے صاحبزادے تھے سید عبداللہ غزنوی جب علمائے سوء اور حکومت کی طرف سے مصائب و آلام کا شکار ہوئے تو آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ برابر کے شریک تھے۔
مولانا سید عبدالحی الحسنی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’آپ کے فضل و تقوی، دینداری اور شرافت پر تمام لوگوں کااتفاق ہے اس کا انکار وہی کرے گا جس کے دل میں ان کے بارے میں کچھ ہو‘‘۔(نزہۃ الخواطر:7/417)
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی غزنی کے ایک مقام صاحبزادہ میں پیدا ہوئے دینی علوم کی تحصیل اپنے والد بزرگوار السید عبداللہ غزنوی سے کی اسکے بعد دہلی جاکر حدیث کی تعلیم مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی سے حاصل کی ۔ دہلی سے مراجعت کے بعد اپنے والد کے قائم کردہ مدرسہ امرتسر میں تدریس پر مامور ہوئے ۔
صاحب نزہۃ الخواطر لکھتے ہیں :
’’آپ ان میں سے ایک ہیں جنہیں راہِ خدا میں بڑی بڑی اذیتیں پہنچائی گئیں آپ کو صرف سنت رسول کی تائید و حمایت کے جرم میں دہشت زدہ کیاگیا‘‘۔(نزہۃ الخواطر:7/417)
مولانامحمد بن عبداللہ نے تفسیر جامع البیان کا عربی زبان میں حاشیہ لکھا اس کے بارے میں مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی لکھتے ہیں کہ :
’’یہ حاشیہ تفسیر جامع البیان پر عبداللہ صاحب غزنوی کے ایماء پر میاں فیروز دین (ساکن جمّوں) نے چھپوایا اور کتاب مفت تقسیم ہوئی‘‘ ۔( ہندوستا ن میں اہل حدیث کی علمی خدمات :39)
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ :
’’آپ نے شاہ ولی اللہ کی تالیف ’’المسویّٰ‘‘ کو دہلی سے 1293ھ میں طبع کرایا یہ مسویّٰ کی سب سے پہلی طباعت تھی اسکے علاوہ بہت سے تراجم قرآن و حدیث اور حدیث سے متعلق کتابیں نیز دینیات کی کتابیں شائع کیں‘‘ ۔(الشیخ عبداللہ غزنوی :127)
مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی کا انتقال اپنے والد مولانا سید عبداللہ کی زندگی میں 1296ھ میں ہوا۔ ان کے بارے میں علامہ اقبال اپنے ایک مکتوب 19دسمبر1922ء بنام منشی محمد الدین فوقی لکھتے ہیں کہ :
’’مولوی عبداللہ غزنوی حدیث کا درس دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کئے جانے کی خبر ملی آپ نے ایک منٹ تامل کیا پھر طلباء کو مخاطب کرکے کہا
ما برضائے او راضی ہستیم بیائید کہ کارے خود بکنیم
یہ کہ کردرس میں مشغول ہوگئے ۔(نقوش مکاتیب نمبر:303)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا عبدالواحد غزنوی
مولانا عبدالواحد غزنوی (امام ثالث) مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے انتقال کے بعد منصب خلافت پر فائز ہوئے آپ نے دینی علوم کی تعلیم اپنے برادر مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی ، مولاناعبدالجبار غزنوی سے حاصل کی ،علمی اور روحانی فیض اپنے والد سید عبداللہ غزنوی سے حاصل کیا حدیث کی تحصیل شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی ۔
تکمیل تعلیم کے بعد کچھ مدت اپنے آبائی مدرسہ میں تدریس فرمائی ا س کے بعد مسجد چینانوالی تشریف لے آئے اور زندگی کا بیشتر حصہ اسی مسجد میں گزارا۔
مولانا عبدالواحد غزنوی نہایت صالح اور مخلص و متقی اور دیندار انسان تھے نماز بڑے خشوع و خضوع سے پڑھا کرتے تھے جس سے خشیت الہی طاری ہوجاتی دعا میںتضرع وزاری ہوا کرتی تھی جس کا حاضرین پر بھی خاص اثر ہوتا تھا۔1926ء میں سلطان ابن سعودوالئ سعودی عرب نے موتمرعالم اسلامی کا اجلاس مکہ معظمہ میں طلب کیا ۔ تو اس میںآ ل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تو اس اجلاس میں مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری کی قیادت میں جو چار رکنی وفد شرکت کے لئے مکہ معظمہ گیا اس میں مولانا عبدالواحد غزنوی شامل تھے دوسرے دو ارکان آپ کے صاحبزادے مولانا سید اسمٰعیل غزنوی اور حافظ حمید اللہ دہلوی تھے ۔
مولانا عبدالواحد غزنوی کا درس قرآن بڑ ا پراثر اور جامع ہوتا تھا مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروز پوری لکھتے ہیں کہ :
مولانا عبدالواحد غزنوی نیکی ، خلوص، للہیت،ذکر وفکر، عبادت اور ریاضت اور وظائف ، دعوت وار شار، تزکیہ قلب ، طہارت نفس، اصلاح باطن میں اپنے باپ کے نقش قدم پر تھے۔
مولانا عبدالواحد غزنوی کی عبادت میں جذبہ تھا، گفتگو میں سوز تھا ،خطبات جمعہ میں کشش تھی ،دور دور سے لوگ آکر ان کے خطبات جمعہ سے فیوض و برکات حاصل کرتے۔ لاہور کے دو ردراز محلّوں سے مولانا عبدالواحد غزنوی کا درس قرآن سننے کے لئے لوگ تشریف لاتے اور ان سے روحانی فیوض و برکات سے جیب دامان بھر کر واپس جاتے ۔ اللہ تعالی نے مولانا کی طبیعت میں بڑا گداز پیدا کیاتھا۔
مولانا عبدالواحد غزنوی کا درس قرآن نہ صرف لاہور میں مشہور تھا بلکہ پنجاب بھر میں انکے چرچے عام تھے ۔ مولانا احمد علی مرحوم (حنفی) نماز فجر پڑھا کر مسجد چینانوالی میں انکے درس میں شامل ہوتے تھے اور بسا اوقات نماز فجر بھی مولانا عبدالواحد غزنوی کی اقتداء میں پڑھتے۔
مولانا احمد علی فرمایا کرتے تھے کہ :
جب تک میں فجر کی نماز مولانا عبدالواحد غزنوی کی اقتداء میں نہ پڑھ لوں اور آپ کا درس قرآن نہ سن لوں مجھے سکون اور چین نہیں ملتا۔
مولانا احمد علی جب تک حیات رہے عیدین کی نماز ہمیشہ غزنوی علماء کی اقتداء میں ادا کیں۔ پہلے مولانا عبدالواحد غزنوی کی اقتداء میں ، پھر مولانا احمد علی غزنوی کی اقتداء میں اور آخر میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی اقتداء میں ۔ مولانا احمد علی غزنوی فروری 1962ء میں انتقال کر گئے دسمبر 1963ء میں مولانا داؤد غزنوی نے انتقال کیا تو مولانا عبداللہ انور مرحوم نے فرمایا ۔
اگر کوئی غزنوی عالم عید کی نماز پڑھائے گا تو ہم اسکی اقتداء میں نماز عید ادا کرینگے‘‘۔ (تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں :342)
دارالعلوم تقویۃ الاسلام امرتسر کی خدمت میں مولانا عبدالواحد غزنوی نے تمام خدمات انجام دیں مولانا سید محمد داؤ دغزنوی لکھتے ہیں کہ :
’’والد بزرگوار (مولانا عبدالجبار غزنوی ) کے دور برکت کے بعد ان کے بھائی مولانا عبدالواحد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ جنہیں اللہ تعالی نے فصل خطاب و حسن بیان اور فہم القرآن میں وافر حصہ عطا فرمایا تھا مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور تمام اہتمام مدرسہ انکے دست مبارک میں آئی انہوں نے اسی طرح علوم دینیہ کی خدمت اور توحیدوسنت کی اشاعت کی جسطرح انکے اسلاف کرتے آئے فجزاہم اللہ احسن الجزاء ‘‘(داؤد غزنوی :452)مولانا عبدالواحد غزنوی نے 1930ء میں امرتسر میں انتقال کیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا عبدالرحیم غزنوی
مولانا عبدالرحیم غزنوی نے دینی تعلیم اپنے برادر بزرگ مولانا سید عبدالجبار غزنوی اور مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی سے حاصل کی اور اپنے والد بزرگوار سید عبداللہ غزنوی سے بھی استفادہ کیا تکمیل تعلیم کے بعد کافی عرصہ اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ امرتسر میں تدریس فرمائی ۔ اس کے بعد دہلی کے مختلف مدارس میں بھی تدریس فرماتے رہے ۔مولانا عبدالرحیم غزنوی تفسیر، حدیث اور فقہ میں عبور رکھتے تھے بڑے ذہین اور مطالعہ کے شوقین تھے اور طلباء کو بڑی محنت سے پڑھاتے تھے ان کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی ۔
’’تاریخ اہل حدیث ‘‘ میں ہے کہ :
مولانا عبدالرحیم اور مولانا عبدالواحد تجارت کے سلسلہ میں عرب کے علاقہ نجد ریاض گئے دونوں حضرات سے سلطان ابن سعود نجد و حجاز کے بزرگوار سلطان عبدالرحمان نے کہا کہ آپ ہمارے ہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیں چنانچہ پانچ سال تک سلطان موصوف کے خاندان کو علم دین پڑھایا اور دیگر اہل نجد بھی آپ کے علم سے فیض یاب ہوئے۔(تاریخ اہل حدیث :438)
مولانا عبدالرحیم غزنوی نے 1342ھ میں امرتسر میں انتقال کیا مولانا عبدالرحیم غزنوی نے بہاولپور کے شاہی مسجد کے خطیب رہے آپ نے اس علاقہ میں توحید وسنت کی شمع روشن کی اور قرآن و حدیث کی تعلیم کا غلغہ بلند کیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا سید عبدالاوّل غزنوی
مولانا سید عبدالاوّل بن محمد بن عبداللہ غزنوی علمائے فحول میں سے تھے آپ نے دینی علوم کی تحصیل مدرسہ محمدیہ لکھوکے اور اس کے بعد مدرسہ غزنویہ امرتسر میں حاصل کی ۔
آپ کے اساتذہ میں مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی ، مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی اور مولانا عبدالجبار غزنوی رحمہم اللہ اجمعین شامل ہیں ۔ حدیث کی تحصیل شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی فراغت تعلیم کے بعد مدرسہ غزنویہ امرتسر میں تدریس پر مامور ہوئے اور ساری زندگی حدیث کی تدریس میں بسر کر دی درس وتدریس کے ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں ۔
1۔نصرۃ الباری فی ترجمہ صحیح بخاری (6جلد)
2۔انعا م المنعم بترجمہ الصحیح مسلم
3۔الرحمۃ المہد اۃ الی من یرید ترجمۃ المشکوۃ(4جلد)
4۔ترجمہ ریاض الصالحین۔
1313ھ میں امرتسر میں انتقال کیا۔
مولانا سید محمد داؤدغزنوی کی پہلی شادی آپ کی صاحبزادی سے ہوئی تھی عمر فاروق غزنوی اور پروفیسر سید ابوبکر غزنوی آپ کے نواسے تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا عبدالغفور غزنوی
مولانا عبدالغفور غزنوی مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی کے چھوٹے صاحبزادے تھے آپ نے دینی تعلیم اپنے آبائی مدرسہ غزنویہ میں مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی ، مولانا عبدالجبار غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی سے حاصل کی ۔ حدیث کی تحصیل شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے کی تکمیل کے بعد دارالعلوم تقویۃ الاسلام امرتسر میں تدریس فرماتے رہے مولانا حافظ محمد گوندلوی اور مولانا محمد اسمٰعیل السّلفی آپ کے تلامذہ میں تھے۔1337ھ میں آپ نے تقویۃ الاسلام سے علیحدگی اختیار کرکے اپنا علیحدہ مدرسہ بنام مدرسہ سلفیہ غزنویہ جاری کیا بقول مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی اس مدرسہ میں طلباء کی تعداد 40کے قریب تھی۔( ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات:175)
مولوی سید رفیع الدین بخاری سوہدروی مسلکاً حنفی دیوبندی تھے مولانا مفتی محمد حسن امرتسری کے شاگرد تھے مگر حدیث کی تحصیل آپ نے مولانا عبدالغفور غزنوی سے کی راقم سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد اور صحیح مسلم مولانا عبدالغفور غزنوی سے پڑھی تھیں علاوہ ازیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی بعض کتابیں بھی پڑھی تھیں۔
مولانا عبدالغفور غزنوی تصنیف وتالیف کا عمدہ ذوق رکھتے تھے تفسیر قرآن پر ان کو مکمل عبور تھا اور حدیث پر ان کی نظر وسیع تھی۔ آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں ۔
1۔حمائل غزنویہ(قرآن مجید کے حواشی سلفی طرز پر)
2۔مشکوۃ الانوار تسہیل مشارق الانوار۔ اس کتاب میں فقہی ترتیب پر احادیث کوجمع کردیا گیا ہے۔
3۔ریاض الصالحین مترجم و محشی (اردو مع متن عربی)
4۔بلوغ المرام مترجم و محشی(اردو مع متن عربی)
5۔الحزب الاعظم
مدرسہ سلفیہ غزنویہ مولانا عبدالغفور غزنوی کی زندگی تک قائم رہاان کی رحلت کے بعد اپنے منبع یعنی مدرسہ تقویۃ الاسلام میںمدغم ہوگیا بمصداق منہما خلقنا کم فیہا نعیدکم ۔
مولانا عبدالغفور غزنوی نے جولائی 1935ء میں امرتسر میں وفات پائی ۔ مولانا عبدالغفور غزنوی نے دینی کتب کی اشاعت کے لئے ایک مطبع بنام انوار الاسلام امرتسر میں قائم کیاتھا۔
مولانا قاضی محمد اسلم سیف فیروز پوری لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا عبدالغفور غزنوی نے مطبع انوار الاسلام کیا تھا آپ نے اس مطبع سے بڑی بڑی کتابیں شائع کیں جس سے مسلک اہل حدیث کو بہت فروغ حاصل ہوا قرآن پاک کتب احادیث کے بعض تراجم شائع کئے حسب ضرورت دیگر کتب بھی شائع کیں مشکوۃ المصابیح ، ریاض الصالحین اور قرآن پاک کے تراجم شائع کئے اور انکے حاشیے پر توضیحی نوٹ لکھے مشکوۃ غزنوی اور حمائل غزنوی ابتک اہل علم کو یاد ہیں ‘‘ ۔(تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں :550-551)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی بن مولانا عبدالواحد غزنوی مشاہیر علماء میں سے تھے امرتسر میں پیدا ہوئے مدرسہ غزنویہ امرتسر میں مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا عبدالرحیم غزنوی اور مولانا سید عبدالاوّل غزنوی سے تعلیم حاصل کی ۔
جب مولانا عبدالواحد غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی کا تعلق سلطان ابن سعودوالئ نجد و حجاز سے ہوا تو مولانا سید اسمٰعیل غزنوی بھی اپنے والد مولانا عبدالواحد غزنوی کے ہمراہ حجاز گئے اور 1926ء میں جب سلطان ابن سعود نے موتمرعالم اسلامی کا اجلاس مکہ معظمہ میں طلب فرمایااور اس اجلاس میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی چنانچہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سربراہی میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا چار رکنی وفد مکہ معظمہ گیا تھا اسی وفد کے ایک رکن مولانا سید اسمعیل غزنوی بھی تھے۔ بعد میں سلطان ابن سعود نے آپ کوحاجیوں کی خدمت پر مامور فرمایا۔آپ کا عہدہ ایک وزیر کے برابر تھا اور اس منصب پر آپ مدت تک فائز رہے۔(تاریخ اہل حدیث :437)
مولانا اسمٰعیل غزنوی ایک بلند پایہ عالم دین تھے آپ کو مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری مصنف ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ کاجنازہ پڑھانے کا شرف بھی حاصل ہواقاضی صاحب کا 1930ء میں حج سے واپسی پر بحری جہاز میں انتقال ہوا تھا اور مولانا اسمٰعیل غزنوی بھی اسی جہاز میں واپس آرہے تھے۔
3-4اپریل 1900ء لائل پور(موجودہ فیصل آباد) مغربی پاکستان جمعیۃ اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی اس کانفرنس کے صدر مولانا اسمٰعیل غزنوی اور صدر استقبالیہ مولانا محمد صدیق تھے۔راقم اس کانفرنس میں شریک ہوا جب مولانا اسمٰعیل غزنوی نے اپنا خطبہ صدارت پڑھنا شروع کیا تو خطبہ میں علمائے اہلحدیث کی علمی و دینی خدمات کا تذکرہ کیاتو اس میں مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری کا نام درج نہیں تھا۔ تو مجمع میں شو رہوگیا اور آوازیں آنی شروع ہوگئیں کہ یہ زیادتی ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کانام نہیں لیا جارہا ۔مولانا امرتسری کی خدمات بہت زیادہ ہیں اس لئے انکا نام شامل کیاجائے چنانچہ لوگوں کے اصرار پر خطبہ میں مولاناثناء اللہ امرتسری کا نام شامل کیاگیا ۔
مولانا اسمٰعیل غزنوی نے غالباً اسلئے مولانا امرتسری کانام شامل نہیں کیاتھا کہ مولانا امرتسری کی عربی تفسیر ’’تفسیر القرآن بکلام الرحمان‘‘ سے متعلق ثنائی غزنوی نزاع ہواتھا اور مولانا سید عبدالجار غزنوی نے اس سلسلہ میں ایک رسالہ بنام الکلام المبین بھی لکھا تھا ۔(1)
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی مصنف بھی تھے آپ کی تصانیف حسب ذیل ہیں :
1۔استقلال حج :
اس کتاب میں حج کے فضائل بتائے ہوئے ارکان حج کی وضاحت کی گئی ہے ساتھ ہی اس کی دعائیں درج کرکے ان کاترجمہ بھی کیاگیا ہے (صفحات 20طبع اوّل امرتسر 1928ء )
2۔ تحفہ وہابیہ:
یہ کتاب علامہ سلیمان بن سبحان نجدی کی کتاب ’’الہدیۃ السنیہ ‘‘ کاترجمہ ہے اس میں رجب 1211ھ شیخ احمد بن ناصر بن عثمان نجدی کا مناظرہ مکہ اور محرم الحرام 1218ھ کو امام عبدالعزیز اوّل کے ہمراہ مکہ مرکمہ کے اندر فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوتے وقت شیخ عبداللہ بن الشیخ محمد بن عبدالوہاب کی پہلی تقریر اور 1329ھ میں علامہ نجد الشیخ عبداللطیف کی تقریر درج ہے۔ (صفحات 120طبع امرتسر سن اشاعت ندارد)
3۔ جلالۃالملک ابن سعود:
اس کتاب میں ملک عبدالعزیز بن سعود کی ان خدمات کو اجاگر کیاگیا ہے ۔ جو انھوں نے حرمین شریفین سے متعلق مختلف شہروں اورجگہوں میں کی ہیں (صفحات 28طبع امرتسر 1936ء)
4۔استقلال حجاز:
1925ء میں جب شریف حسین کو اپنی اسلام فروشیوں کی پاداش میں قبرص کی جلا وطنی مل گئی اور سلطان عبدالعزیز بن سعود کا حجاز پر قبضہ ہوگیا تو اہل بدعت نے مختلف انجمن قائم کرکے ابن سعود پر مختلف قسم کے الزامات لگائے یہ کتاب انہیں الزامات کے جواب میں ہے (صفحات20طبع امرتسر 1928ء)
1۔ اس کی صحیح کیفیت گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے ۔(ناشر)
5۔ اصلاحات حجاز:
سعودی حکومت نے حجاز میں قبضہ حاصل کرنے کے بعد پھر جو اصلاحات کیں ان کو اختصار و ایجاز کے ساتھ اس کتاب میں جمع کردیاگیا ہے ،تاکہ لوگ اہل بدعت کی فریب کاریوں سے محفوظ رہ سکیں۔(صفحات24طبع امرتسر1928ء)
مولانا محمد اسمٰعیل غزنوی کے 9صاحبزادے ہیں ۔
ڈاکٹر خالدغزنوی ، طارق، قاسم ، عبدالواحد، ابراہیم ، احمد، محمد، محمود، حسن ۔
ڈاکٹر خالد غزنوی معروف معالج ہیں اور اسکے ساتھ اہل قلم بھی ہیں انکے قلم سے کئی ایک کتابیں نکل چکی ہیں طب نبوی ان کی معروف تصنیف ہے۔
مولانا سید اسمٰعیل غزنوی نے 1960ء میں لاہور میں انتقال کیا اور میانی صاحب کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا سید محمد داؤد غزنوی
مولانا سید محمد داؤ د غزنوی بن مولانا سید عبدالجبار غزنوی بن مولانا سید عبداللہ غزنوی کا شمار برصغیر(پاک وہند) کے ممتاز علمائے کرام میں ہوتا ہے آپ بلند پایہ مقرر ، شعلہ نوا خطیب ، جید عالم دین ، بیباک صحافی، دانشور، مبصر، نقاد، ادیب، معلم ، متکلم ، مصنف اور بہت بڑے سیاستدان تھے۔
ولادت:
مولانا سید محمد داؤد غزنوی 1895ء میں امرتسر میں پیداہوئے۔
ابتدائی تعلیم :
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار مولانا سید عبدالجبار غزنوی اور اپنے چچا زاد بھائی مولانا سید عبدالاوّل غزنوی سے حاصل کی اسکے بعد آپ دہلی تشریف لے گئے دہلی میں آپ نے علوم عقلیہ ، نقلیہ کی تعلیم مولانا سیف الرحمان کابلی سے حاصل کی مولانا سیف الرحمان مدرسہ فتح پوری میں مدرس تھے اور مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا کی تحریک کے خاص رکن تھے علم حدیث کی تعلیم آپ نے استاذ استاتذہ مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری سے حاصل کی ۔
مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری
مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری شیخ الکل مولاناسید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے اور شیخ الکل فرمایا کرتے تھے ۔میرے پاس دو عبداللہ آئے ایک عبداللہ غزنوی او ردوسرے عبداللہ غازی پوری ۔
مولانا حافظ عبداللہ بن عبدالرحیم بن دانیال مشاہیر علماء میں تھے ۔ 1261ھ میں مئوضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے 12سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا اور اس کے بعد دینی تعلیم کا آغاز مولوی محمد قاسم مئوی سے کیا ابھی چند عربی اور فارسی کی کتابیں پڑھی تھیں کہ 1857ء کا ہنگامہ تحریک آزادی (جس کو انگریزوں نے غدر کے نام سے موسوم کیا)برپا ہوگیا جس کی لپیٹ میں مئو بھی آگیااور آپ کے والد عبدالرحیم ترک وطن پر مجبور ہو گئے چنانچہ حافظ صاحب کے والد مع اپنے خاندان کے مئو سے نقل مکانی کرکے غازی پور آگئے جب کچھ سکون ہواتو جناب عبدالرحیم نے حافظ عبداللہ کو مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں داخل کرادیا۔ حافظ صاحب اس مدرسہ میں مولانارحمت علی بانی مدرسہ چشمہ رحمت اور مولانا محمد فاروق چڑیا کوئی سے درسیات کی اکثر کتابیں پڑھیں اس کے بعد حافظ عبداللہ جون پور تشریف لے گئے اور مدرسہ حنفیہ کے صدر مدرس مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی سے بقیہ نصاب کی تکمیل کی۔(۔ تذکرہ علمائے اعظم گڑھ:197)
جون پور کتابوں کی تکمیل کے بعد حافظ عبداللہ دہلی پہنچے اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی سے تفسیر و حدیث اور فقہ کی تحصیل کی اور سند فراغت حاصل کی ۔
1297ھ میں حافظ صاحب حج بیت اللہ کے لئے حرمین شریفین تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے امام شوکانی کے تلمیذ رشید شیخ عباس یمنی سے حدیث کی سند حاصل کی حج بیت اللہ سے واپسی کے بعد آپ نے مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور جہاں سے آپ نے دینی تعلیم کا آغاز کیاتھا تدریس پر مامور ہوئے اور سات سال تک اس مدرسہ میں آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں ۔
1304ھ مطابق1886ء آپ مولانا حافظ ابراہیم آروی کے مدرسہ آرہ میں تشریف لے گئے اس مدرسہ میں آپ نے 1320ھ مطابق1906ء تک یعنی بیس سال تک تدریس فرمائی ۔ اس 20سال کے دوران بڑے بڑے جید علمائے کرام آپ سے فیض یاب ہوئے مثلاً مولانا عبدالغفور حاجی پوری، مولانا محمد سعید محدث بنارسی، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبدالرحمان محدث مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری صاحب سیرۃ البخاری ۔
مولانا حافظ ابراہیم آروی کے انتقال کے بعد حافظ عبداللہ صاحب نے احمدیہ آرہ سے علیحدگی اختیار کرلی اور دہلی کو اپنا مسکن بنالیا دہلی میں آپ کا قیام 8سال تک رہا اس 8سال میں سینکڑوں طلباء آپ سے مستفیض ہوئے اور دہلی کے قیام میں آپ نے زیادہ توجہ درس قرآن پر دی اس زمانہ میں آپکے
ایک قریبی عزیز لکھنؤمیں چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر انتقال کر گئے حافظ صاحب ان یتیموں کی نگہداشت کیلئے دہلی سے چلے گئے۔یہاں آپ چند ہفتہ پر21 صفر 1237ھ26 نومبر1918ء انتقال کرگئے ۔ اور عیش باغ کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔
مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری جملہ علوم اسلامیہ مہارت رکھے تھے اور سربرآورہ فقیہہ تھے علمی تبحرکے ساتھ زہدو تقوی کی صفت سے بھی متصف تھے ترک تقلید میں بڑا غلو رکھتے تھے تمام علوم میں ان کو تبحرعلمی حاصل تھا۔
صاحب ’’تراجم علماء حدیث ہند ‘‘ نے مولانا شمس الحق عظیم آبادی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ :
’’میرے کتب خانہ میں ایک بہت پرانی کتاب منطق کی تھی عبارت کی پیچیدگی کے ساتھ مسائل منطقیہ کا بیان کچھ اس طرز سے تھا کہ بظاہر کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا جناب حافظ صاحب اتفاق سے ڈیانواں تشریف لائے میں نے وہ کتاب دکھا کر کہا یہ تو چیستاں معلوم ہوتی ہے حافظ صاحب نے کتاب کے چند ورق الٹنے کے بعد فرمایا کچھ نہیں مسائل وہی ہیں عبارت ذرا پیچیدہ ہے اس کے ساتھ ہی آپ نے بعض مضامین کا مطلب عام فہم الفاظ میں بیان فرمادیا ‘‘۔(تراجم علمائے حدیث ہند:461)
مولانا حافظ عبداللہ کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی تاہم تصنیف و تالیف سے بھی غافل نہیں رہے آپ نے جو چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں ان کی تفصیل یہ ہے ۔
1۔ ابراء اہلحدیث والقرآن۔2۔البحر المواج فی شرح مقدمہ الصحیح المسلم بن الحجاج (عربی) 3۔علم غیب۔4۔رکعات التراویح ۔5۔کتاب الزکاۃ ۔6۔الحجہ السامعہ فی بیان البحیرۃ و السائب (اردو) 7۔قانون مسجد۔8۔فتوی مال زانیہ بعد توبہ ۔9۔ فتاوی غازی پوری۔10۔جواب المہتدین لرد المعتدین ۔11۔سیرۃ النبی ﷺ ۔12۔فصوی احمدی۔ 13۔منطق ۔14۔ النحو۔ 15۔تسہل الفرائض۔
حافظ صاحب کا ایک نایاب کتب خانہ تھا جو نوادر پر مشتمل تھا ان کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ
جامعہ سلفیہ بنارس میں منتقل ہوگیا۔(1)
فراغت تعلیم کے بعد :
مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری سے جملہ علوم اسلامیہ کی تحصیل کے بعد واپس امرتسر تشریف لائے اور دارالعلوم تقویۃ الاسلام امرتسر میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے جس دور میں آپ تقویۃ الاسلام امرتسر میں تدریس پر مامور ہوئے وہ دور رابع کہلاتا ہے اسی دور میں آپ کے ساتھ مولانا عبدالغفور غزنوی ، مولانا ابو اسحق نیک محمد اور مولوی غلام رسول پوٹھواری مدرس تھے درس وتدریس کیساتھ ساتھ تبلیغ اشاعت اسلام اور تحریک آزادی وطن سے بھی دلچسپی رکھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے امرتسر میںا پنا ایک مقام پیدا کر لیاتھا۔
سیاسی زندگی :
1919ء کا سال ہندوستان کے لوگوں کے لئے بڑا کٹھن سال تھا اور یہ دور انگریز کے جبرو استبداد کادور تھا ملک میں مارشل نافذ تھا 1919ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر میں جنرل ڈائز نے ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ جلسے میں گولی چلادی جس میں سینکڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ مولانا داؤد غزنوی اپنے چچا زاد بھائی مولانا اسمٰعیل غزنوی کے ہمراہ اس جلسے میں شریک ہونے کے لئے گھر سے نکلے۔ راستہ میں آپ ایک پان فروش کی دکان پر پان کھانے کے لئے رک گئے اسی اثناء میں جنرل ڈائز اپنی گوراراج کے ہمراہ جلیانوالہ باغ کی طرف جاتے ہوئے ان کے قریب سے گزرا۔ مولانا داؤد غزنوی اور مولانا اسمٰعیل غزنوی پان کھاکر ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ جنرل ڈائز گولی چلاکر سینکڑوں آدمیوں کو موت کی نیند سلاکر واپس آرہا تھا۔
اس حادثہ نے مولانا داؤد غزنوی کو سیاست میں قدم رکھنے پر مجبور کیا۔ چنانچہ آپ نے انگریز کے
1۔عالم کبیر حافظ عبداللہ غازی پوری کے تفصیلی حالات ’’تاریخ علم و عمل کے چند غیر فانی نقوش‘‘ از محمد تنزیل الصدیقی الحسینی (زیر طبع امام شمس الحق ڈیانوی پبلشرز کراچی) میں شامل ہیں ۔
خلاف آواز اٹھائی اور آپ حق گوئی و بیباکی کا پیکر بن گئے آپ نے انگریزوں کے خلاف تقاریر کاسلسلہ شروع کیا آپ ایک شعلہ نوا خطیب و مقرر تھے آپ کی تقریر بڑی جامع اور مؤثر ہوتی تھی جب تقریر کرتے تو سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا اور لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوتا تھا آپ تقریر کرتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آگ کے شعلے برس رہے ہیں چنانچہ آپ کی تقریر سے لوگوں کے دلوںمیں انگریزوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور تحریک آزادی کا جذبہ ابھرنے لگا۔
اسی دور میں 1919ء میں مجلس خلافت کی تاسیس ہوئی تو مولانا نے تحریک خلافت سے تعاون کیا اور آپ اس کے سرگرم رکن تھے ۔ 1921ء میں جمعیۃ العلماء ہند قائم ہوئی تو مولانا غزنوی نے اس کی تاسیس و تشکیل میں مؤثر کردار ادا کیا ابتداً آپ مجلس عاملہ کے رکن تھے پھر مدتوں نائب صدر رہے ۔
انگریز کے خلاف تقریروں کاسلسلہ جاری تھا او رکوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ آپ انگریز اور برطانوی حکومت کے خلاف تقریر نہ کرتے ہوں چنانچہ 1921ء میں آپکو گرفتار کر کے تین سال کیلئے میانوالی جیل میں نظر بند کر دیاگیا رہا ہوئے تو آپ پہلے سے بھی زیادہ گرم جوشی سے آوا ز حق بلند کرنے لگے ۔
1925ء میں آپ کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور 2سال تک جیل میں رہے 1927ء میں سائمن کمیشن کے بائیکاٹ تحریک میں حصہ لیا تو تیسری بار قید و بند کی آزمائش سے دو چار ہوئے اور دو سال بعد رہا ہوئے۔
1929ء میں مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے تعاون و اشتراک سے مجلس احرار اسلام کی بنیاد ڈالی اور مولانا داؤد غزنوی اس کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ اور دو ڈھائی برس مین اسے منظم اور جاندار تحریک بنادیا۔ 1932ء میں تحریک کشمیر شروع ہوئی تو مجلس نے اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور اس کے ہزاروں رضاکاروں نے جیلیں بھر دیں تو مولانا داؤد غزنوی کوگرفتار کرلیا گیا1942ء میں جب کانگرس نے ہندوستان چھوڑ دو تحریک شروع کی تو مولانا داؤد غزنوی کانگرس میں شامل ہوگئے ۔
ابوبکر غزنوی لکھتے ہیں کہ میں نے آپ سے کانگرس میں شمولیت کی وجہ دریافت کی تو آپ نے
فرمایا کہ :
’’انگریز مجلس کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور کانگرس ہی ایک ایسی جماعت تھی جسے برطانوی حکومت در خود اعتنا سمجھتی تھی اور وہی ایک واضح اور لائحہ عمل پیش نظر کر برطانوی سامراج سے برسرپیکار تھی اسی بنا پر میں کانگرس میں شامل ہوا تھا‘‘۔(داؤد غزنوی :247)
کانگرس میں شمولیت کے بعد آپ کو پنجاب کانگرس کاصدر مقرر کیاگیااور اس جماعت کے ٹکٹ پر آپ پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے مقابل لیگی امیدوار تھا جو بھاری اکثریت سے شکست کھاگیا اور مولانا غزنوی کی کامیابی عوام میں ان کے اثر ورسوخ اور ہر دلعزیزی کا واضح ثبوت تھا۔ کانگرس میں مولانا چار سال رہے اور 2اگست 1946ء کو علیحدہ ہوئے ۔کانگرس سے علیحدگی کاسبب ہندوؤں کی تعصبی تنگ نظری اور ہندو مسلم اتحاد میں رخنہ اندازی تھی مولانا نے کانگرس سے استعفیٰ دیتے وقت اپنے ایک اخبار بیان میں فرمایا تھا کہ :
’’ہر قسم کی مساوات کی مخالفت کرکے کانگرس نے مسلمانوں کیلئے فکر وتدبر کاسامان بہم پہنچا دیا ہے اگر آج کانگرس کا مفہوم اور مقصد صرف اسی قدر رہ گیا ہے کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے ہندوؤں کی سیاسی اور اقتصادی بہبود اور ترقی کیلئے کوشاں رہے توان مسلمانوں کیلئے اسمیں ٹھہرنے کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے جو اسمیں اسلئے شامل ہوئے تھے کہ یہ آزادی کیلئے انگریز سے لڑ رہی ہے ‘‘۔( داؤد غزنوی:247)
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے مولانا ابو الکلام آزاد کے ساتھ تعلقات کادائرہ وسیع تھا مولانا محمد اسحق لکھتے ہیں کہ میں نے ایک دن مولانا داؤدغزنوی سے دریافت کیا کہ آپ نے کانگرس سے علیحدگی اور مسلم لیگ میں شامل ہونے سے متعلق مولانا ابو الکلام آزاد سے مشورہ کیاتھا تو مولانا غزنوی نے فرمایا کہ :
’’جب میں نے کانگرس سے استعفا دیا اور مسلم لیگ میں شامل ہونے کا اعلان کیاتو اس وقت میں دہلی میں تھا اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں کیساتھ یہ خبر شائع ہوئی اور بی بی سی
(لندن) نے بھی اسے نشر کیا۔جب مین استعفیٰ کے بعد مولانا سے ملا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر آپ مجھ سے مشورہ کرلیتے تو میں آپ کو کانگرس چھوڑنے اور مسلم لیگ میں جانے کاایسا راستہ بتاتا کہ آپ کا مقصد بھی پورا ہوجاتا اور کوئی شخص اعتراض بھی نہ کر سکتا۔
مولانا داؤد غزنوی نے فرمایا :
مجھے یہ خیال تھا کہ اگر میں نے مولانا آزاد کو سیاسی تبدیلی کے بارے میں کچھ بتایا تووہ اصرار کریں گے کہ میں کانگرس سے نہ نکلوں۔
اس کے بعد مولانا غزنوی نے فرمایا کہ :
کانگرس کو چھوڑ کر میں نے سب سے بڑی قربانی یہ دی ہے کہ مولانا آزاد کی رفاقت ختم ہوگئی جس کا مجھے بہت احساس ہے ‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ :68-69)
کانگرس سے علیحدگی اور مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد مولانا سید داؤد غزنوی نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کا دورہ کیا اور مسلمانوں کے سامنے ہندو اور انگریز دونوں کے عزائم بے نقاب کیے اور ان کے خلاف آگ لگا دی مولانا غزنوی نے قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی بقول مولانا سید ابوبکر غزنوی جب آپ قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کرکے واپس آئے تو ان کی ذہانت ،فراست اور سیاسی تدبر سے متاثر نظر آتے تھے۔(داؤد غزنوی :249)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا سید محمد داؤد غزنوی مختلف اوقات میں جن سیاسی ، دینی جماعتوں سے تعلق رہا اس کی تفصیل یہ ہے ۔
1۔ پنجاب خلافت کمیٹی کے ناظم اعلیٰ
2۔ مجلس احرار ہند کے ناظم اعلیٰ
3۔ جمیعۃ العلماء ہند کے نائب صدر
4۔کانگرس کمیٹی پنجاب کے صدر
5۔خضر وزارت میںمسلم لیگ تحریک کے ڈکٹیٹر
6۔ 1953ء کی قادیانی تحریک کے سلسلہ میں قائم کردہ مجلس عمل کے ناظم اعلیٰ
7۔مرکزی جمیعۃ اہلحدیث کے صدر
مولانا غزنوی نے حصول آزادی کی تمام تحریکوں میں حصہ لیا اور ان کا شمار ملک کے صف اوّل کے سیاسی اور دینی رہنماؤں میں ہوتا تھا قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں آپ کی جیل کی زندگی کم وبیش دس سال ہے آپ نے ہر اس سیاسی و دینی جماعت کے ساتھ تعاون کیا جو انگریزی حکومت کے خلاف نعرہ بلند کرتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد انھوں نے سیاسیات میں بہت کم حصہ لیا ابتداء میں کچھ عرصہ مسلم لیگ سے تعلق رہا اور 1951ء میں پنجاب اسمبلی کاالیکشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر چونیاں کے حلقہ سے لڑا اور کامیاب ہوئے۔
اخبار توحید کا اجراء
علمائے اہلحدیث نے میدان صحافت میں بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے یکم اپریل 1927ء کو امرتسر سے ہفتہ وار’’توحید‘‘ جاری کیا ان سے پہلے مولانا ثناء اللہ امرتسری کا ہفت روزہ ’’اہلحدیث ‘‘مولانا محمد بن ابراہیم جوناگڑھی کا پندرہ روزہ ’’محمدی‘‘مولانا عبدالمجید سوہدروی کا ہفت روزہ ’’مسلمان ‘‘ سوہدرہ کے علاوہ کئی اور رسائل اشاعت اسلام ، اور مسلک اہلحدیث کی ترقی و ترویج میں سرگرم عمل تھے۔
مولانا داؤدغزنوی نے یکم اپریل 1927ء کو ہفتہ وار’’توحید‘‘ جاری کیا اس اخبار کا اولین مقصد دعوت الی اللہ تھا آپ نے اس اخبار میں بلند پایہ علمی ودینی ، تحقیقی و تاریخی مقالات لکھے مولانا سید داؤد غزنوی نے اسوقت کے مشہور اہل قلم کو بھی اس اخبار میں مضامین لکھنے کی دعوت دی ۔جن معتقد علمائے کرام کو آپ نے مضامین لکھنے کی دعوت دی ان میں مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا قاضی سلیمان منصور پوری، مولانا محی الدین احمدقصوری ،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالواحد غزنوی ، مولانا محمد علی قصوری اور مولانا سید اسمٰعیل غزنوی شامل تھے اور ان سب علمائے کرام کے مضامین توحید میں شائع ہوئے ۔
توحید صرف تین سال جاری رہا اور یکم مئی 1929ء کواس کا آخری شمارہ شائع ہوا اس کے بعد نامساعد حالات کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا۔
چند اہم واقعات:
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی زندگی بڑی مصروف گزری ان کی دینی و ملّی و سیاسی خدمات کا احاطہ نہیں کیاجاسکتا مولانا غزنوی بین الاقوامی شخصیت تھے۔
تحریک ختم نبوت:
1953ء کے آخر میں تحریک ختم نبوت شروع ہوئی ۔ جس میں پاکستان کی تمام دینی و مذہبی جماعتوں نے حصہ لیا ان جماعتوں نے متفقہ طور پر ایک مجلس عمل تشکیل کی مولانا سید داؤد غزنوی کواس مجلس کاناظم اعلیٰ بنایا گیا جب حکومت نے اس کے رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دیا تو تحقیقات کیلئے ایک جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر ایک عدالت قائم کی گئی مجلس کے وکیل حسین شہید سہروردی تھے اور مولانا غزنوی نے سہروردی کو مسئلے کے اہم نکات سمجھائے تھے لیکن سہروردی صاحب عدالت میں صحیح طور پر کیس پیش نہ کر سکے اس سے معذرت چاہی چنانچہ خود مولاناغزنوی نے مقدمہ کی پیروی کی ۔ ایک دن دوران بیان جسٹس منیر نے مولانا سے سوال کیا۔
کیا آپ کے دادا مولانا سید عبداللہ غزنوی کو افغانستان سے ا سلئے ملک بدر کیاگیا تھا کہ وہ اہلحدیث تھے اور احناف ان کو برداشت نہیں کرتے تھے مولانا غزنوی نے جواب میں فرمایا ۔
نہیں ۔ یہ بات نہیں ہے ان کو اس لئے ملک سے نکالاگیا تھا کہ وہ اپنے دور کے بہت بڑے ولی اللہ تھے اور ان کا حلقہ ارادت اس قدر وسعت اختیار کر گیا تھا کہ حکومت کوخطرہ لاحق ہوگیا کہ وہ حکومت پر قابض ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد جسٹس منیر نے یہ سوال کیا ۔ کیا آپ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئااللہ کہنے والے کو مشرک قرار دیتے ہیں ۔ مولانا غزنوی نے فرمایا ۔
اس کا انحصارکہنے والے کی نیت پر ہے ہر اس شخص کو جو یہ الفاظ زبان سے نکالتا ہے مشرک نہیں قرار دیاجاسکتا ابھی آپ نے یہ الفاظ زبان سے نکالے مگر آپ کو مشرک نہیں کہاجائیگا۔
اس کے بعد جسٹس منیر نے آپ سے یہ سوال کیا۔
کیا آپ عبدالوہاب کو اپنا مذہبی رہنما مانتے ہیں ۔
مولانا نے جواب دیا ۔
عبدالوہاب نام کا کوئی شخص ہمارا مذہبی رہنما نہیںہے۔
منیر صاحب نے کہا عبدالوہاب آپ کا مذہبی رہنما ہے ۔
مولانا نے فرمایا قطعاً نہیں ۔
منیر صاحب نے اپنی بات پر زیادہ اصرار کیا مولانا غزنوی نے سختی سے انکارکیا کہ نہیں ہے۔جب دونوں کے درمیان دو تین دفعہ ’’ہے‘‘اور ’’نہیں‘‘ کی تکرار ہوئی تو جسٹس منیر بوکھلا گئے اور ادھر ادھر سینہ پر ہاتھ مار کر کاغذات تلاش کرنے لگے جن پر انھوں نے سوالات وغیرہ لکھے تھے مولانا غزنوی اس کی بوکھلاہٹ دیکھ رہے تھے تو مولانا نے فرمایا ۔
کیا آپ کی مراد محمد بن عبدالوہاب ہے۔
جسٹس منیر نے کہا ہاں میری مرادہے۔
مولانا نے فرمایا عبدالوہاب نہیں محمد بن عبدالوہاب ہیں ۔
جسٹس منیر نے کہا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔
مولانا نے فرمایا۔
کیاآپ کے نزدیک باپ اور بیٹے کا فرق کوئی فرق نہیں ہے۔
اس کے بعد منیر صاحب خاموش ہوگئے اور جسٹس ایم آر کیانی کہنے لگے۔
مولانا اگر میرے بس میں ہوتا تو میں آپ کو وکالت کالائسنس دے دیتا میں آپ کے دلائل اور بحث سے بہت مستفید ہوتا ہوں۔ ( نقوش عظمت رفتہ :56۔58)
آئین کمیشن کے سوالنامے کاجواب
فروری 1960ء جنرل محمد ایوب خان نے دستور بنانے کے لئے ایک کمیشن مقرر کیاتھا اس کمیشن کی طرف سے 40سوالات پر مشتمل سوالنامہ مرتب کیاگیا تھا اوریہ سوالنامہ ملک کی مشہور شخصیتوں کو بھیجا گیا تھا حکومت کا مقصد یہ تھا کہ اس کامناسب جواب دیاجائے تاکہ آئندہ دستور اس کی روشنی میں مرتب کیاجاسکے۔
اس ضمن میں مولانا داؤد غزنوی نے مولانا مودودی اور دوسرے علمائے کرام سے رابطہ کیا اور 5-6مئی 1960ء جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد میں تمام مسالک کے علمائے کرام کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں متفقہ طور پر طے کیاگیا کہ اس سوالنامہ کاجواب مولانا داؤد غزنوی اور مولانا مودودی مرتب کریں چنانچہ دونوں علمائے کرام نے سوالنامہ کا جواب مرتب کیا جس میں مکمل جمہوریت کے نقاط اور پارلیمانی نظام حکومت کے قیام کی واضح اور غیر مبہم لفظوں میں تائید کی گئی تھی۔( داؤد غزنوی :268)
یہ آئین نہ اسلامی ہے نہ جمہوری :
9مارچ1962ء صدر ایوب خان لاہور آئے اور انہوں نے مولانا داؤد غزنوی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا اس وقت لاہور کے کمشنر حماد رضا تھے انہوں نے رات ایک بجے مولانا غزنوی کو ٹیلی فون کیا کہ کیا کل صبح 8بجے صدر ایوب خان آپ اور آپ کے رفقاء سے ملنے کے خواہاں ہیں آپ 8بجے اپنے رفقاء کے ساتھ گورنر ہاؤس پہنچ جائیں۔
چنانچہ مولانا غزنوی نے ایک وفد ترتیب دیا جس میں مولانا غزنوی خود اور ان کے علاوہ مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا مہدی زماں، میاں عبدالمجید مالوڈہ ، سید ابوبکر غزنوی اور مولانا محمد اسحق بھٹی جو اس وقت الاعتصام کے ایڈیٹر تھے گورنر ہاؤس لاہور پہنچے اور صدر ایوب خان سے ملاقات کی مولانا کی پہلے گورنر مغربی پاکستان ملک محمد امیر خاں سے ملاقات ہوئی اور مولانا نے ارکان وفد کا تعارف کرایا اس کے بعد صدر ایوب خان سے ملاقات ہوئی مولانا سے پہلے صدر صاحب نے صحت کے بارے میں دریافت کیااور پھر کہا ۔
مولانا میں نے آپ کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ ہم نے جو آئین تیار کیاہے وہ آپ نے پڑھا ہوگا آپ سے یہ دریافت کرناہے کہ اس آئین کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
مولاناغزنوی نے تفصیل سے آئین کے تمام پہلوؤں کی وضاحت کی اور آخر میں واضح الفاظ میں فرمایا کہ :
آپ کا یہ آئین نہ اسلامی ہے نہ جمہوری
مولانا کا یہ جواب سن کر صدر ایوب خان خاموش ہوگئے اور گفتگو کا موضوع بدل دیا۔(نقوش عظمت رفتہ :65-66)
 
Top