• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزنوی خاندان عبدالرشید عراقی

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سعودی حکومت سے غزنوی خاندان کے مراسم
سعودی حکومت سے غزنوی خاندان کے مراسم او ر تعلقات بہت پرانے چلے آرہے تھے سعودی عرب کے موجودہ فرمانبردار خادم الحرمین شریفین کے دادا عبدالرحمان اور والد ملک عبدالعزیز کویت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کررہے تھے اس زمانے میں مولانا داؤد غزنوی کے چچا مولانا عبدالواحد غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی تجارت کے لئے امرتسر سے کویت گئے تو ان کی ملاقات عبدالرحمان اور سلطان عبدالعزیز سے ہوئی تو انہوں نے ان دونوں بھائیوں سے کہاکہ آپ ہمارے ہاں درس وتدریس کاسلسلہ شروع کریں چنانچہ مولانا عبدالواحد غزنوی اور مولانا عبدالرحیم غزنوی نے پانچ سال تک سعودی خاندان کو علم دین پڑھایا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ تعلقات مستحکم ہوتے گئے۔
1926ء میں علمائے ہند کا ایک وفد سلطان عبدالعزیز کی دعوت پر بعض معاملات میں گفتگو کے لئے حجاز گیا اور مولانا سید داؤد غزنوی اس وفد میں شامل تھے اور سلطان عبدالعزیز ان سے بہت اعزا ز و احترام سے پیش آئے۔
1954ء میں سلطان عبدالعزیز کے بڑے بیٹے سلطان سعود بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے
پر تشریف لائے تو مولانا داؤد غزنوی انکے استقبال کے لئے کراچی تشریف لے گئے اور جب سلطان سعود کراچی سے لاہور آئے تو مولانا غزنوی سے ملاقات کی اور دیر تک مصروف گفتگو رہے ۔
مئی 1962ء میں شاہ سعود بن عبدالعزیز نے اپنے سفیر پاکستان کی وساطت سے مولانا داؤد غزنوی کویہ اطلاع دی کہ انہوں نے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے انہیں یونیورسٹی کی مشاورتی کونسل کارکن منتخب کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ پیغام بھی بھجوایا کہ 20ذی الحجہ 1381ھ 25مئی 1926ء کو مدینہ یونیورسٹی کاافتتاح ہورہا ہے اس لئے ایسے وقت میں تشریف لائیں کہ حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کر سکیں چنانچہ مولانا غزنوی 7مئی 1962ء کولاہور سے روانہ ہوئے اور 9مئی 1926ء کو عازم حجاز ہوئے او ر 15جون 1962ء کو واپس لاہور تشریف لائے۔(نقوش عظمت رفتہ:67)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مسلک
مولانا سید محمد داؤد غزنوی خالصتاً سلفی المسلک تھے کتاب وسنت پر سختی سے عامل اسمیں کسی قسم کی مداہنت کے قائل نہ تھے تاہم ائمہ دین کا بہت احترام کرتے تھے اور انکی دینی و علمی خدمات کے معتر ف تھے۔اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ :
‘‘ائمہ دین نے جو دین کی خدمت کی ہے امت قیامت تک ان کے احسان سے عہدہ برا نہیں ہوسکتی ہمارے نزدیک ائمہ دین کیلئے جو شخص دل میں سوء ظن رکھتا ہے یازبان سے ان کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کے الفاظ استعمال کرتا ہے یہ اس کی شقاوت قلبی کی علامت ہے اور میرے نزدیک اسکے سوء خاتمہ کا خوف ہے ہمارے نزدیک ائمہ دین کی ہدایت و درایت پر امت کا اجماع ہے‘‘۔(داؤد غزنوی:273)
حدیث نبوی سے محبت اور شغف
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو حدیث نبوی ﷺ سے بہت زیادہ شغف اور عشق تھا اور حدیث کے معاملہ میں کسی قسم کی معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے جب بھی کسی منکرین حدیث اہل قلم یا نئی روشنی اور جدید رجحانات سے متاثر کسی عالم نے حدیث نبوی سے متعلق ایسے خیالات کااظہار کیا جو عقیدہ سلف صالحین کے منافی ہوتا تو مولانا سید محمد داؤد غزنوی فوراً اس کا نوٹس لیتے اپنے خطبات جمعہ میں دلائل سے ان کی خرافات کا جواب دیتے اور تحریری طور پر بھی اس کا جواب لکھتے۔
مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
’’1959ء1378ھ میں عیدالاضحی کا خطبہ دیتے ہوئے مولانا غلام رشید (حنفی دیوبندی) خطیب شاہی مسجد لاہور نے اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ پاکستان کے ارباب اقتدار کو قربانی کے جانوروں کی ایک تعداد مقرر کرنی چاہیئے اور حکم جاری کر دینا چاہیئے کہ اس سے زیادہ جانور ذبح نہ کئے جائیں انہوں نے کہا کہ فقہائے کرام کا ارشاد ہے کہ اگر قربانی کے جانوروں کی قیمت کسی قومی فنڈ میں ادا کرنے دیجائے تو اس رقم کو مذہبی اعتبار سے قربانی تصور کیا جائے گا۔
مولانا سید داؤد غزنوی نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور الاعتصام میں قربانی کی شرعی حیثیت سے کے ایک مضمون لکھا جس میں حدیث نبوی آثار صحابہ اور اقوال فقہاء سے مولانا غلام مرشد کے نقطہ نظر کی تردید کی اور ثابت کیا کہ قربانی سنت ابراہیمی ہے یہ اسی طرح جاری رہے گی اور اسمیں کسی قسم کی ترمیم یاردّو بدل نہیں کیاجاسکتا‘‘۔( نقوش عظمت رفتہ:67)
مولانا سید داؤد غزنوی بڑے نڈر اور بیباک تھے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرماتے تھے اور اس سلسلہ میں کسی حاکم یا عالم کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ تحریک پاکستان کے نامور راہنما سردار عبدالرب نشتر کاکراچی میں انتقال ہوگیا تو لاہور موچی دروازہ کے باغ میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیاگیا جنازہ مولانا غلام مرشد نے پڑھایا مولانا سید داؤ د غزنوی بھی جنازہ پڑھنے کے لئے تشریف لے گئے۔
مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
’’میں نے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد مولانا غلام مرشد سے عرض کی کہ آپ کے فقہی مسلک میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں تو پھر آپ نے یہ ناجائز کام کیوں کیا۔
مولانا غلام مرشد نے تو کوئی جواب نہ دیا۔ مولانا غزنوی مرحوم ساتھ ہی کھڑے تھے آپ نے فرمایا۔
جنازہ دو قسم کاہوتا ہے مذہبی او ر سیاسی
مذہبی جنازہ تو ان (احناف) کے نزدیک جائز نہیں ۔
لیکن سیاسی جنازہ نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے ۔ اوریہ جنازہ سیاسی ہے ‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ:50-51)
کتب حدیث میں موطا امام مالک سے انہیں خصوصی لگاؤ اور عشق تھا دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور میں خود اس کادرس دیتے تھے اور اس کے اہم مسائل طلباء کو ذہن نشین کراتے۔
14تا16مارچ 1958ء مغربی پاکستان جمعیۃ اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس سرگودھا میں مولانا سید داؤد غزنوی کی صدارت میں منعقد ہوئی اس کانفرنس میں آپ نے جو خطبہ صدارت ارشاد فرمایا وہ آپ کے علمی ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا آئینہ دار تھا۔
اس خطبہ میں آپ نے مختلف علمی امور پر اظہار خیال کیا حدیث نبوی ﷺ کی حقیقت اور صحابہ کرام ؓ نے اس کی تدوین اور حفاظت میں جو کوششیں کیں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اور خطبہ کا اختتام شاہ ولی اللہ دہلوی کی درج ذیل تحریر پر کیا جو انہوں نے اپنی کی کتاب’’قرۃ العنین فی تفضیل الشیخین‘‘(فارسی) صفحہ 55پردرج ہے۔
ترجمہ ’’یعنی قرآن کریم کے بعد اصل دین اور سرمایہ یقین علم حدیث ہے اور آج جو علم حدیث کا ذخیرہ لوگوں کے پاس موجود ہے یہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ اور سیدنا عمر ؓ کا ہی توساختہ پرداختہ ہے بات یہ ہے کہ اکثر صحیح احادیث ان ہر دو حضرات ہی کی مروی ہیں اور یہ خیال نہ کرنا کہ حضرات شیخین سے صرف وہی احادیث مروی ہیں جو کتب حدیث میں ان کی طرف منسوب ہیں بلکہ بہت سی مرفوع احادیث جو کتب حدیث میں بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہیں حقیقت میں حضرات شیخین ہی کی روایات ہیں عبداللہ بن عمر ؓ ، عبداللہ بن عباس ؓ ، اور ابوہریرہؓ ان روایات کو مرسلاً روایت کرکے مرفوع حدیث ذکر کردیتے ہیں اور کتب حدیث کے مصنفین ان روایات کی ظاہری صورت کا اعتبار کرکے اپنی اپنی کتابوں میں انہی صحابہ کی روایات درج کر دیتے ہیں‘‘۔(مولانا ابو الکلام آزاد سے تعلقات ) باقی ہے:
علماء کی محبت اور انکا احترام
مولانا داؤد غزنوی ان علمائے کرام جو مقام طریقت و سلوک سے آشنا تھے ان کی صحبت میں بیٹھنے میں اپنی سعادت سمجھتے تھے بالخصوص مولانا عبدالقادر رائے پوری،مولانا مفتی محمد حسن امرتسری ، مولانااحمد علی لاہوری،مولانا محمد علی مدنی لکھوی ، مولانا حافظ محمدگوندلوی ، صوفی عبداللہ (ماموں کانجن) اور میاں محمد باقر رحیم اللہ اجمعین۔
مولانا سید داؤد غزنوی کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا ، آپ مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے فرزند، مولانا سید عبدالواحد غزنوی کے بھتیجے ، اور مولانا سید عبداللہ غزنوی کے پوتے تھے اس لئے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
مولانا غزنوی خود بھی علمائے کرام کا بہت احترام کرتے تھے اور اپنے سامنے کسی عالم خواہ وہ کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے اس سلسلہ میں مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا غزنوی علمائے دین کا بے حد احترام کرتے تھے اگر کوئی شخص کسی عالم کا ناقدانہ یا مخالفانہ انداز میں ذکر کرتا تو انہیں بڑی تکلیف ہوتی ایک مرتبہ وہ بیمار تھے اور جامعہ سلفیہ کی انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگ ان کے کمرے میں ہورہی تھی مولانا محمد اسمٰعیل سلفی بھی اس میں شامل تھے ایک شخص نے جو دراصل گوجرانوالہ سے تعلق رکھتے تھے اور فیصل آباد میں ان کا کاروبار تھا مولانا حافظ محمد گوندلوی مرحوم و مغفور کا ذکر توہین آمیز الفاظ میں کیا اور کہا کہ وہ ہمارے ملازم ہیں لیکن ہماری بات نہیں مانتے مولانا غزنوی کو یہ الفاظ سن کر سخت غصہ آیا فرمایا نہایت افسوس کی بات ہے کہ آپ حافظ صاحب کے متعلق ملازم کا لفظ استعمال کرتے ہیں آپ ان کے علم وفضل سے واقف نہیں ؟پھر مولانا محمد اسمٰعیل صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ نے ان کو جامعہ سلفیہ کمیٹی کارکن مقرر کیا ہے جنہیں یہ معلوم نہیں کہ علماء کے لئے کس قسم کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں مجھے ان کے الفاظ اور لہجے سے سخت صدمہ ہوا ہے مولانا اسمٰعیل کوان صاحب کی طرف سے مولانا غزنوی سے معذرت کرنا پڑی‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ:58)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کتب خانہ :
مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے امرتسر میں اپنا ایک بہترین کتب خانہ بنایا تھا جس میں تفسیر ، حدیث، فقہ ، اصول فقہ،شرح و حدیث، اصول حدیث ، تاریخ و سیر ، فلسفہ اور منطق اور ادبیات وغیرہ پر بہترین عمدہ و نایاب کتابوں کا ذخیرہ جمع کیا تھا ۔ مولانا ہر کتاب کی بہترین جلد بنواتے اور الماریوں میں فن کے لحا ظ سے بڑے اچھے سلیقے سے اس کو رکھتے تھے مولانا کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ جو کتاب مطالعہ کرتے اس پر دوران مطالعہ اہم مقامات پر ضرور حواشی اور نوٹس رقم فرماتے۔
مولانا غزنوی بلاد و عرب سے بڑی اچھی اور نایاب کتابیں منگواتے رہتے تھے مولانا اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
’’ فقہائے حنابلہ کے حالات میں مصر سے طبقات الحنابلہ(جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے ) مولانا غزنوی نے سب سے پہلے مصر سے منگوائی ایک دفعہ مولانا ابو الکلام آزاد نے آپ کا کتب خانہ دیکھا تو اس میں طبقات الحنابلہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا میں یہ کتاب لے جانا چاہتا ہوں مولانا غزنوی نے کتاب دے دی اورپھر یہ واپس نہ آئی اور مولانا غزنوی نے دوبارہ اپنے کتب خانہ کیلئے منگوائی‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ: 25-26)
امرتسر میں آپ کاکتب خانہ سکھوں نے تباہ وبرباد کردیامولانا غزنوی مرحوم کو تمام زندگی اس کا صدمہ و افسوس رہا۔ پاکستان آکر مولانا غزنوی نے نئے سرے سے کتابیں جمع کیں اور ایک بہترین کتب خانہ بنایا آپ کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ مولانا سید ابوبکر غزنوی کی تحویل میں رہا اور مولانا ابوبکر غزنوی کے انتقال کے بعد اب اس کتب خانہ کے انچارج مولانا غزنوی کے دوسرے صاحبزادے مولوی یحییٰ غزنوی ہیں۔
فتوی لکھنے کا طریق کار:
مولانا سید محمد داؤد غزنوی ایک جید عالم دین تھے علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اپنے ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کی بنا پر تفسیر ، حدیث فقہ ائمہ اربعہ پر کامل عبور تھا اس لئے آپ فتوی بڑی تحقیقی اور ٹھوس دلائل کی روشنی میں رقم فرماتے تھے مولانا محمد اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
’’مولانا سید داؤد غزنوی فتوی بڑی تحقیق سے لکھتے تھے مسئلہ طلاق کے بارے میں مولانا احمد علی صاحب لاہوری سے اگر کوئی شخص فتوی لینے آتا تو وہ اسے مولانا غزنوی کے پاس جانے اور ان سے فتوی لینے کی ہدایت فرماتے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں اہلحدیث کا نقطہ نظر احناف سے مختلف ہے احناف کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں اور طلاق واقع ہوجاتی ہے جسے طلاق مخلفہ کہتے ہیں کہ لیکن اہلحدیث کے نزدیک ایک مجلس میں بے شک کتنی ہی مرتبہ طلاق طلاق کا لفظ بولا جائے تو اسے ایک ہی طلاق سمجھاجائے گا ۔ اور وہ طلاق رجعی ہوگی جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ: 26-27)
قادیانیت کی تردید
قادیانیت کی تردید میں برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کی خدمات قدر کے قابل ہیں اس فرقہ باطلہ کی تردید سب سے علمائے اہلحدیث نے کی اور ان کے خلاف تقریری و تحریری جہاد کیا اور ان کو
ہر محاذ پر ذلیل و خوار کیا قادیانیوں سے تحریری و تقریری مناظرے کئے اور ان کے خلاف سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں بھی لکھیں۔
قادیانیت کی تردید میں جن علمائے اہلحدیث نے نمایاں خدمات سرانجام دیں ان میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا محمد بشیر سہسوانی، مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری ، مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، مولانا ابو القاسم سیف بنارسی، مولانا عبداللہ امرتسری ، مولانا عبداللہ ثانی امرتسری ، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی ، مولانا احمد الدین گگھڑوی ، مولانا نور حسین گھر جاگھی ، مولانا حافظ ابراہیم کمیرپوری، مولانا اسمٰعیل السلفی، مولانا عبدالمجید سوہدروی ، مولانا محمد حنیف ندوی، اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے اس فرقہ باطلہ کے خلاف تقریر و تحریر سے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیئے وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک درخشندہ باب ہے۔1936ء میں مولانا ظفر علی خان مرحوم نے اخبار زمیندار کا مرزائی نمبر شائع کیا جس میں مولانا سید داؤد غزنوی کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا۔اسلام اور قادیانیت۔
مرزائی مسلمانوں سے الگ فرقہ ہے مرزا غلام احمد اور مرزا محمود کی تحریروں کی روشنی میں اس مضمون میں مولانا غزنوی مرحوم نے جن عنوانات سے اس فرقہ باطلہ کے عقائد کی وضاحت کی وہ یہ ہیں۔
اسلام اور قادیانیت۔نئی امت کی تشریح۔ دعوی نبوت بدرجہ کمال ۔نبوت کی تشریح ۔ صاحب شریعت ہونے کا دعوی ۔ فتوی کفر کی تدریجی رفتار۔ قادیانی ’’کلام اللہ ‘‘ ۔ نئی امت کا اعلان ۔قادیانی دین ۔ مسلمانوں سے قطع تعلقی۔ اسلامی اداروں سے بے تعلقی۔ نماز عید علیحدہ پڑھو۔ حکیم نور الدین کا فتوی ۔ مسلمانوں کا جنازہ نہ پڑھو۔ مسلمانوں سے نکاح حرام ۔ حکیم نور الدین کا مسلم مقاطعہ ۔ اقتصادی مقاطعہ ۔ مرزائیوں کا اقتصادی اقرار نامہ۔ مرزائیوں کے مسلم ہمدرد۔ اسلامی سلطنت کی تباہی پر خوشی۔
مولانا غزنوی مرحوم نے اس مضمون کااختتام ان الفاظ پر کیا ہے کہ :
’’ ان تمام تفصیلات کے بعد کون سنگدل مسلمان ہے جو مرزائیوں کے رویہ سے متاثر نہ ہو
اور خود انہی کی تعلیمات اوران کے طرز عمل کی بناپر اس مطالبہ کی ہمنوائی میں تامل کرے کہ مرزائی جماعت مسلمانوں سے بالکل الگ ایک جماعت ہے اور اپنی ہی تحریروں کی بناپر اسکی مستحق ہے کہ اسے مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیاجائے‘‘۔(داؤد غزنوی :402)
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی اس تحریر کے 38سال بعد حکومت پاکستان نے 1974ء میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دے دیا۔ اگر اس وقت مولانا غزنوی زندہ ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ ان کے مطالبہ کو 38سال بعد منظور کر لیاگیا۔
جماعت اہل حدیث کی تنظیم:
دسمبر1906ء میں مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری کی تجویز پرآل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے متحدہ ہندوستان کی جماعت اہلحدیث کی ایک تنظیم قائم ہوئی اور اس سلسلہ میں آرہ(بہار) میں جماعت اہلحدیث کے علمائے کرام جمع ہوئے اور متفقہ طور پر صرف دو عہدے دار منتخب کئے گئے۔ ایک صدر اور ناظم اعلیٰ۔
صدر، مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری(م22نومبر1918ء)ناظم اعلیٰ مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ ا مرتسری (م15مارچ1948ء) کانفرنس کا ملک میں تعارف کروانے کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی بنائی گئی جس میں درج ذیل حضرات شامل تھے۔
1۔ مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م اپریل1919ء)
2۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (م15مارچ1948ء)
3 ۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی(م 12جنوری 1956ء)
ان علمائے کرام نے پورے ملک ہندوستان میں جماعت اہلحدیث کو متعارف کرایا ۔ آل انڈیا اہلحدیث کے مختلف شہروں مثلاً امرتسر، ملتان ، گوجرانوالہ ، بنارس، آرہ، آگرہ، اور مئونا بھجن وغیرہ میں سالانہ جلسے ہوئے ان میں اکثر جلسوں کی صدارت مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری نے فرمائی ۔
پنجاب سے مولانا ثناء اللہ امرتسری کے علاوہ مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی ،مولانا سید داؤد غزنوی، مولانا محمد اسمعیل السلفی ،مولانا عبدالمجید سوہدروی اور مولانا محمد حنیف ندوی او ر دیگر کئی علمائے کرام شرکت فرماتے رہے۔
کانفرنس کے اختتام کے بہت سال بعد اسکی باقاعدہ مجلس عاملہ بنائی گئی پنجاب سے جو علمائے کرام مجلس عاملہ کے رکن بنائے گئے وہ حسب ذیل حضرات تھے۔
مولانا حافظ محمد سلیمان منصور پوری (وفات جون 1930ء)
مولانا حافظ محمد ابراہیم سیالکوٹی (وفات 12جنوری1956ء)
مولانا سید محمد داؤدغزنوی (وفات 16دسمبر1963ء)
مولانا محمد اسمعیل السلفی (وفات 20فروری 1968)
مولانا محمد حنیف ندوی (وفات 13جولائی 1987ء)
ان حضرات میں مولانا قاضی محمد سلیمان عملی سیاست میں حصہ نہیں لیتے تھے وہ ریاست بٹالہ میں سیشن جج تھے ۔ ملازمت کے دوران تو حصہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ عملی سیاست سے کنارہ کش رہے۔
مولانا حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی ہمدردیاں مسلم لیگ کیساتھ تھیں جب کہ مولانا محمد اسمعیل، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد حنیف ندوی جمیعۃ علمائے ہند اور کانگرس سے وابستہ تھے ۔( میاں فضل حق اور انکی خدمات:115)
انجمن اہل حدیث پنجاب:
1920ء میں ’’انجمن اہلحدیث پنجاب ‘‘ کا قیام عمل میں آیا اسکے پہلے صدر مولانا عبدالقادر قصوری ، اور ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ امرتسری منتخب ہوئے مجلس عامہ میں درج ذیل علمائے کرام شامل تھے۔
مولانا سید محمدداؤد غزنوی
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی
مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری
مولانا سید محمد داؤد غزنوی
مولانا محمد اسمعیل السلفی
مولانا قاضی عبدالرحیم
مولانا محمد علی لکھوی مدنی
حکیم نور الدین لائل پوری
1928ء میں انجمن اہلحدیث کا پہلا الیکشن ہواتومولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری کو صدر اور مولانا عبدالمجید سوہدروی کو ناظم اعلیٰ منتخب کیاگیا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مرکزی جمیعۃ اہلحدیث مغربی پاکستان کا قیام :
1947ء میں تقسیم ملک سے جماعت اہل حدیث کا شیرازہ بکھر گیا مولانا سید محمد داؤد غزنوی جماعت اہلحدیث کو از سر نو منظم کرنے کا عزم کیا چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں 24جولائی 1948کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں علمائے اہلحدیث کا ایک اجلاس بلایا۔ جس میں درج ذیل علمائے اہلحدیث کو شرکت کی دعوت دی گئی۔
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد علی قصوری، مولانا محمد اسمعیل السلفی، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا محی الدین قصوری، مولانا ظفر اقبال ، مولانا محمد یونس دہلوی، مولانا عبدالمجید سوہدروی ، مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی، مولانا سید اسمٰعیل غزنوی، مولانا محمد حنیف ندوی اور مولانا معین الدین لکھوی۔
اجلاس کی صدارت مولانا حافظ محمد ابرہیم میر سیالکوٹی نے کی اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ اس تنظیم کا نام مرکزی جمیعۃ اہلحدیث مغربی پاکستان ہوگا۔ اور اسوقت صرف تین عہدے دار منتخب کئے گئے ۔
صدر:مولانا سید محمدداؤدغزنوی
ناظم اعلیٰ:پروفیسر عبدالقیوم صاحب
ناظم مالیات:میاں عبدالمجید مالواڈہ۔
جلسہ میں 21ارکان کی مجلس عاملہ کی تشکیل کی گئی صدر ناظم اعلی اور ناظم مالیات بحیثیت عہدہ مجلس عاملہ کے رکن تھے ارکان میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، مولانا حافظ محمد گوندلوی ، مولانا محمد اسمٰعیل السلفی، مولانا عبدالمجید سوہدروی ، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا محمد علی قصوری ، مولانا محی الدین قصوری،مولانا معین الدین لکھوی ، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی اور حاجی محمد اسحق حنیف وغیرہم شامل تھے۔
لیکن مولانا حافظ عبداللہ روپڑی نے جمیعۃ کے کسی اجلاس میں کبھی بھی شرکت نہیں فرمائی ( میاں فضل حق اور ا نکی خدمات:184-185)
جامعہ سلفیہ کا قیام
3۔4اپریل 1955ء کو جمیعۃ اہلحدیث کی سالانہ کانفرنس لائل پور میں مولانا سید اسمعیل غزنوی کی صدارت میں منعقد ہوئی جس میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ ایک دارالعلوم قائم کیا جائے او ریہ قرار دار متفقہ طور پر منظور ہوئی کہ ایک دارالعلوم قائم ہونا چاہیئے اور جب اس کانام زیر غور آیا تو مولانا حنیف ندوی نے’’ جامعہ سلفیہ ‘‘ نام تجویز کیا اور فرمایا یہ نام آسان بھی ہے اور ہمارے ملک کے ہم آہنگ ہے جس طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے فارغ التحصیل ’’علیگ‘‘ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ’’ندوی‘‘ جامعہ اسلامیہ دہلی کے دہلوی اور مظاہر العلوم سہارن پور کے’’ مظاہری ‘‘کہلاتے ہیں اسی طرح جامعہ سلفیہ کے فارغ التحصیل ’’سلفی‘‘ کہلائیں گے چنانچہ متفقہ طور پر دارالعلوم کانام جامعہ سلفیہ منظور کر لیا گیا۔
آپ نے فرمایا :
’’مرکزی دارالعلوم کی تجویز سے ارباب مدارس محسوس کرتے ہیں کہ شاید اس کے بعد ہمارے مدارس موجودہ حالت میں نہ رہ سکیں آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ میں خود ایک مدرسے کا مہتمم ہوں لیکن مجھے کبھی یہ فکر دامن گیر نہیں ہوئی کہ یہ مدرسہ ختم ہوجائے گا اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ مرکزی دارالعلوم کا مقصد موجودہ مدارس کو ختم کرنا نہیں بلکہ ان کوخوبصورتی سے چلانا ہے مجوزہ دارالعلوم کی حیثیت ایک یونیورسٹی کی ہوگی اور یونیورسٹیاں اجزاء ہوتے ہیں ہمارادارالعلوم ان مدارس کاسرپرست ہوگا۔انہیں معقول نصاب دے گاان کے لئے قابل اساتذہ مہیاکرتے گا ان کے سالانہ امتحانات کاانتظام کرے گا اور فارغ التحصیل علماء کو نہ صرف سند دے گا بلکہ ملک اور بیرون ملک سے اس سند کا شایان شان احترام کرائے گا آپ دارالعلوم کی اس پوزیشن اور اس کے بعد جماعت کے وقار کا تصور فرمائیے اور اندازہ کیجئے کہ پھر ہمارے فارغ التحصیل علماء کو کس قدر احترام اور وقار حاصل ہوگا‘‘۔(میاں فضل حق اور انکی خدمات:190)
اس وقت جامعہ سلفیہ کے قیام کااعلان ہوا اور قرار داد بھی متفقہ طور پر منظور ہوگئی ۔ لیکن یہ فیصلہ نہ ہوسکا کہ جامعہ سلفیہ کس شہر میں بنایا جائے گا تقریباً ایک سال بعد یہ فیصلہ ہوا کہ جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا آغاز کر دیا جائے اور ا سکی کلاسیں تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور کی بلڈنگ میں شروع کی جائیں۔ اس کے لئے جو نصاب ترتیب دیاگیا وہ یکم جون 1956ء کے الاعتصام میں شائع ہوا اور اس کے مطابق طے پایا کہ :
1۔مولانا سید محمد داؤد غزنوی علوم قرآن پڑھائیں گے ۔
2۔مولانا محمد اسمعیل السلفی علوم اصول حدیث کا درس دیا کریں گے ۔
3۔مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے سپرد یہ خدمت کی گئی کہ جو طلباء تعلیم مکمل نہیں کرپائے یا تعلیم مکمل کر لی ہے لیکن اس میں مزید بصارت حاصل کرنے کے متمنی ہیں مولانا اس سلسلے میں انہیں مستفید فرمائیں گے ۔
4۔مولانا محمد حنیف ندوی عربی ادبیات نظم ونثر پڑھائیں گے ۔
5۔مولانا شریف اللہ خان علوم فقیہہ و کلامیہ وغیرہ کی تعلیم دیں گے۔ (میاں فضل حق اور ان کی خدمات:190)
چنانچہ 21جون1956ء کو دارالعلوم تقویۃ الاسلام کے ہال میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کاا فتتاح ہوا جس میں علمائے کرام کے علاوہ معززین لاہور نے بھی شرکت کی تلاوت قرآن مجید سے تقریب کا آغاز ہوا اور اسکے بعد مولانا سید محمد داؤدغزنوی نے افتتاحی تقریر میں ارشاد فرمایا کہ :
’’ میں نے مناسب سمجھا کہ اس اہم مقصد کیلئے اپنے تمام وسائل پیش کر دوں چنانچہ میں نے جامعہ سلفیہ کیلئے مدرسہ تقویۃ الاسلام کی بلڈنگ ، اس کا کتب خانہ اور مدرسہ کے قابل قدر استاد سابق صدر مدرس دارالعلوم فتح پوری دہلی کو جامعہ کے حوالے کر دیا ہے مولانا شریف اللہ خاں کے علاوہ مولانا عطاء اللہ صاحب نے حدیث مولانا محمد اسمعیل صاحب نے اصول حدیث ، مولانا محمد حنیف ندوی صاحب نے ادب عربی اور اس عاجزنے علوم قرآن کی تعلیم کی ذمہ داری قبول کی ہے میں ان حضرات کا شکر ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنے گونامشاغل کے باوجود جامعہ سلفیہ کی تعلیمی ذمے داری قبول کرکے انتہائی ایثار کاثبوت دیا ہے‘‘۔(میاں فضل حق اور انکی خدمات :198)
جامعہ سلفیہ کمیٹی:
جامعہ سلفیہ کے قیام کے بعد اس کے انتظام و انصرام کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی اس کمیٹی کے صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے ارکان کمیٹی یہ تھے۔ مولانا محمد اسمعیل السلفی، حاجی محمد اسحق حنیف، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف، مولانا محمد اسحق چیمہ، مولانا عبید اللہ احرار، مولانا محمد صدیق ، مولانا محمد حنیف ندوی، میاں فضل حق ، میاں عبدالمجید مالواڈہ وغیرہم۔
1961ء میں جامعہ سلفیہ کمیٹی کااجلاس جامعہ سلفیہ کی بلڈنگ میں ہورہا تھا مولانا سید محمد داؤد غزنوی اجلاس کی صدارت فرمارہے تھے دوران اجلاس ان کی طبیعت کچھ خراب ہوگئی تو وہ آرام کے لئے اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے ان کی غیر موجودگی میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ مولانا غزنوی اب بیماررہتے ہیں اور جامعہ سلفیہ کیلئے زیادہ وقت نہیں دے سکتے اس لئے ان کی جگہ کسی اور کو صدر بنالیا جائے چنانچہ مولانا محمد اسمعیل السلفی کی تجویز پر میاں فضل حق مرحوم کو جامعہ سلفیہ کمیٹی کاصدر منتخب کر لیا گیا۔
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز مہتمم جامعہ ابراہیمہ سیالکوٹ اس وقت جامعہ سلفیہ میں تدریس پر مامور تھے وہ اس اجلاس کی کاروائی کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ :
’’ صبح کی نماز کے بعد جب مولانا غزنوی نے اس اجلاس کے متعلق دریافت فرمایا تو مولانا سلفی نے انہیں بتایا کہ ہم نے ایجنڈے کی دوسری شق(انتخاب کی شق )بھی نپٹادی ہے اور میں نے فضل حق کو جامعہ سلفیہ کمیٹی کا منتخب صدر قرار دے دیا ہے اس پر مولانا غزنوی ، مولانا سلفی پر سخت برہم ہوئے اور فرمایا کہ :
جامعہ سلفیہ کمیٹی کا میں صدر موجود تھا فارغ العقل بھی نہیں ہواتھا ملک بھی نہیں چھوڑ گیا اور زندہ بھی ہوں تو مجھے اس طرح میری عدم موجودگی میں برطرف کردینا کسی طور پر روا نہ تھا اس پر مولانا سلفی بالکل خاموش کھڑے رہے اور قطعاً کوئی جواب نہ دیا۔
مولاناغزنوی صدر کمیٹی تھے اور انہیں کی کامیابی سے جامعہ سلفیہ کا نظم ونسق چل رہا تھا مولانا غزنوی نے اس کی صدارت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن آپ کو انتہائی مجبور کرکے صدر بنایاگیا تھا اب صدارت سے علیحدگی پر بھی آپ کبیدہ خاطر نہ ہوئے اور نہ ہی اپنی انا کا مسئلہ بنایا البتہ اہل علم حضرات نے مولانا سلفی اور ان کے چند ساتھیوں کے اس فیصلے پر ناپسنددیگی کا اظہار کیا‘‘۔(تذکرہ علمائے اہل حدیث: 79-80)
میاں فضل حق مرحوم ومغفور پابند صوم و صلوۃ تھے اللہ کی راہ میں بہت زیادہ خرچ کرتے تھے تعمیر مساجد میں بہت زیادہ حصہ لیتے تھے لیکن جمعیۃ اہلحدیث کے ناظم اعلی اور ایک دینی دارالعلوم کا سربراہ بن جانا جماعت اہلحدیث کی بدقسمتی تھی۔
میاں فضل حق نے صدر جامعہ سلفیہ کمیٹی منتخب ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ مولانا محمد صدیق فیصل آبادی اور مولانا محمد اسحق چیمہ سے کہا کہ آپ دونوں حضرات انتظامی کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوجائیں اگر مستعفی نہیں ہونگے تو میں بحیثیت صدر کمیٹی آپ دونوں کو برطرف کر دوں گا۔
جامعہ سلفیہ کے جملہ حسابات میری تحویل میں ہیں جب تک میرے حسابات کاآڈٹ نہ ہوجائے مستعفی نہ ہوں گا۔
فضل حق صاحب نے کہا اگر آپ مستعفی نہ ہوئے تو میں آپ کو برطرف کرتا ہوں مولانا محمد علی جانباز لکھتے ہیں کہ :
'' میاں فضل حق کے اس فیصلے پر کچھ جید علمائے کرام نے سخت اظہار ناراضگی کیا۔ اور مولانا سید محمدداؤد غزنوی کے نوٹس پر دارالعلوم تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں مجلس عاملہ کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا تمام ارکان مجلس عاملہ نے میاں صاحب کے فیصلہ پر شدید احتجاج کیا چنانچہ مجلس عاملہ کے اسی اجلاس میں میاں صاحب کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا مگر مولانا محمد اسحق چیمہ صاحب دلبرداشتہ ہوچکے تھے اس لئے انہوں نے ارکان مجلس کے اصرار بالتکرار کے باوجود اپنااستعفی پیش کر دیا۔
اس باہمی آمیزش کی وجہ سے جامعہ سلفیہ ایک قابل قدر مدبر، بلند پایہ منتظم اور شفیق استاد سے محروم ہوگیا جس کا تمام طلباء اور اساتذہ متعلقین مدرسہ کو شدید صدمہ ہوا‘‘ ۔(تذکرہ علمائے اہل حدیث :2/80-81)
مولانا سید ابوبکر غزنوی مرحوم جماعت اہل حدیث کی تنظیم کے سلسلہ میں مولانا سید داؤد غزنوی کی سعی و کوشش کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’1947ء میں تقسیم ملک کے بعد جماعت اہلحدیث کی از سر نو تنظیم پر انہوں نے اپنی توجہ مرکوز کر دی اور بڑی محنت اور جانفشانی سے مغربی پاکستان کے تمام علاقوں کا دورہ کیا قریہ قریہ بستی بستی تشریف لے گئے اور جماعت کو منظم کیاجماعت میں رکن سازی کاشعور پیدا کیاابتدائی شہری اور ضلعی جماعتوں کا قیام عمل میں لایاگیا مجلس شوری قائم کی گئی جماعت اہلحدیث کی تاریخ میں یہ شرف انہی کو حاصل ہوا کہ جماعت کے نئے باضابطہ دستور مرتب کیا اور اسے جماعت میں نافذ کیا مختلف علاقوں کے اہلحدیث عوام میں باہم تعلق اور رابطہ پیدا کرنے کیلئے اور تبلیغ و اشاعت دین کی غرض سے سالانہ کانفرنسوں کااہتمام کیا‘‘ - (داؤد غزنوی:264)
لاہور میں دارالعلوم تقویۃ الاسلام کااجراء
قیام پاکستان کے بعد لاہور میں شیش محل روڈ لاہور پر دوبارہ تقویۃ الاسلام کااجراء کیا درس
وتدریس کے لئے ایک کتاب بھی نہ تھی مولانا غزنوی نے پہلے درسی کتابیں خریدیں اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے دارالعلوم کااجراء عمل میںآیا یہ دارالعلوم بحمد للہ آج تک جاری ہے اور دین اسلام کی اشاعت اور کتاب و سنت کی ترقی میں کوشاں ہے مولانا غزنوی پہلے اس کے مہتمم رہے آپ کے انتقال کے بعد سید ابوبکر غزنوی مہتمم رہے اور سید ابوبکر کے انتقال کے بعد آج کل مولوی محمد یحییٰ غزنوی اس کے مہتمم ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تصانیف
مولاناسید محمد داؤد غزنوی کی زندگی بڑی مصروف گزری ابتداً درس وتدریس فرماتے رہے اس کے بعد جب ملکی سیاست میں قدم رکھا توان کی زندگی ہنگامہ خیز رہی کبھی جلسوں سے خطاب کررہے ہیں اور کبھی جیل چلے گئے ہیں تاہم تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ 1927ء میں امرتسر سے اخبار توحید جاری کیا جو 1929ء تک تین سال جاری رہا اس تین سالہ دور میں کئی ایک علمی و تحقیقی ، دینی اور مذہبی اور تاریخی مقالات لکھے اور ان کے یہ مقالات ان کے ذوق مطالعہ اوروسعت معلومات کا آئینہ دار ہیں ۔
مولوی محمد حنیف یزدانی مرحوم نے 1979ء میں اخبار توحید سے 24مقالات کتابی صورت میں شائع کئے ان میں ایک مقالہ آپ کا خطبہ صدارت مغربی پاکستان اہلحدیث کانفرنس سرگودھا مارچ 1958ء ہے اور دوسرا مقالہ مسلم فیملی لا آرڈ ینس 1961ء پر تبصرہ ہے تیسرا مقالہ اسلام اور قادیانیت ہے جو 1936ء میں زمیندار کے مرزائی نمبر میں شائع ہوا تھا ۔بقیہ مقالات اخبارتوحید سے لئے گئے ۔ جن کی تفصیل یہ ہے۔
1۔اسلامی معاشرہ کے تین اجزاء
2۔علوم و معاف القرآن
3۔احترام ائمہ
4۔رویت ہلال
5۔رمضان المبارک ۔نزول قرآن مجید کی یادگار
6۔کیا آٹھ رکعت تراویح بدعت ہے
7۔صدقہ الفطر کے مسائل
8۔عالمگیر تحریک اسلام کامرکز
9۔قربانی کی روح
10۔قربانی ادوار سلف میں
11۔قربانی کے احکام و مسائل
12۔اسوئہ حسین
13۔جماعت اہلحدیث کا عقیدہ اور نصب العین
14۔قبر پرستی دنیا میں کیونکر پھیلی
15۔شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی سیرت حیات کا ایک اہم باب
16۔شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی اور تحریک اصلاح عرب
17۔1857ء جنگ آزادی یا غدر
18۔مولود مروج کی شرعی حیثیت
19۔جہاد فی سبیل اللہ
20۔کیا نذر ماننا جائز ہے/کیانذر پوری کرنا ضروری ہے
21۔تاریخ جمع و حدیث احادیث رسول کریم ﷺ
دوسری تصانیف
1۔نخبۃ الاحادیث
اس کتاب میں شرک کی مذمت ، نماز کی فضیلت ، سورۃ فاتحہ کی فرضیت غیبت اور چغلی سے پرہیز کی احادیث جمع کرکے ان کی مختصر تشریح کی گئی ہے۔
2۔نماز مترجم مع ادعیہ مسنونہ
3۔کیا آٹھ رکعت تراویح بدعت ہے
4۔عیدالاضحی اور اس کے مسائل
5۔مسئلہ توحید
6۔اسوئہ حسین
7۔قربانی کی شرعی حیثیت
ادبی ذوق:
مولانا سید محمد داؤد غزنوی شعر و ادب سے بھی ذوق رکھتے تھے عربی ، فارسی اور اردو کے بہت سے اشعار زبانی یادتھے اپنی تقریروں اور خطبات جمعہ و عیدین میں بر محل اشعار پڑھتے تھے جن سے ان کے ادبی ذوق اور وسعت معلومات کااندازہ ہوتا تھا مولانا سید ابوبکر غزنوی نے اپنی کتاب ’’داؤد غزنوی‘‘ اور مولانا محمد اسحق بھٹی نے اپنی کتاب ’’نقوش عظمت رفتہ‘‘ میں مولانا سید داؤد غزنوی کی ذاتی ڈائری سے منتخب اشعار درج کئے ہیں ۔
مولانا غزنوی مرحوم نے اپنی بیاض میں سب سے زیادہ شعر ’’ میر تقی میر‘‘ کے درج کئے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
میرؔ
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے کام کیا
جی میں تھا اس سے ملئے تو کیاکیا نہ کہئے میرؔ
پھر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر
کیا بودو باش پوچھو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کر پکار کرش
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اسکو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
نظام رامپوری
کس کس طرح ستاتے ہیں یہ بت ہمیں نظامؔ
ہم ایسے ہیں کہ جیسے کسی کا خدا نہ ہو
داغ دہلوی
داغؔ کی شکل کو دیکھ کر بولے
ایسی صورت کو پیار کون کرے
بہادرشاہ ظفر
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لئے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں
ظفر علی خان
ہے جن کے دل میں آزادی کی دھن ان نوجوانوں کو
وطن کے عشق کی پاداش میں سولی پر لٹکانا
بہادینا کسی کی راکھ کو ستلج کی موجوں میں
کسی کی لاش اٹک کے پار خاک و خوں میں تڑپانا
اقبال
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتاہے
مزاتوجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
حفیظ جالندھری
آنے والے کسی طوفان کارونا روکر
ناخدا نے مجھے ساحل پرڈبونا چاہا
غالب
نظر نہ لگے کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوںمیرے زخم جگر کو دیکتھے ہیں
درد
اے درد ؔ کہوں کس سے بتا راز محبت
عالم میں سخن چینی ہے یاطعنہ زنی ہے
حالی
ہوعیب کی خویا کہ ہنر کی عادت
مشکل سے بدلتی ہے بشر کی عادت
چھٹتے ہی چھٹے گا اس گلی میں جانا
عادت اور وہ بھی عمر بھر کی عادت
حسرت
دل کو خیال یار نے معمور کر دیا
ساغر کو رنگ بادہ نے پرنور کر دیا
گستاخ دستیوں کا نہ تھا مجھ میں حوصلہ
لیکن ہجوم شوق نے مجبور کر دیا
ناصر حسن پوری
مظلوم کی فریاد پہ طیش آتاہے ان کو
کہتے ہیں زبان کاٹ کے حال اپنا سنا اور
فارسی کے منتخب اشعار
حافظ شیرازی
وداع وصل جاگانہ لذتے دارد
ہزار بار بروصد ہزار بیا
فیضی
فیضیؔگماں ہر کہ تخم دل نگفتہ ماند
مصراء عشق آنچہ نواں گفت گفتہ ایم
مولانا ظفر علی خان اور مولانا داؤد غزنوی
1929ء میں مجلس احرار کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم ہوئی اس کے بانی ارکان میں چوہدری افضل حق، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی ، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، شیخ حسام الدین، مولانا ظفر علی خان اور مولانا سید داؤد غزنوی شامل تھے مولانا سید داؤد غزنوی کو اس تنظیم کاناظم اعلی منتخب کیاگیا۔
مولانا ظفر علی خان اور مولانا سید داؤد غزنوی کابرسوں ایک ساتھ تعلق رہااور مولانا ظفر علی خاں قادر الکلام شاعر تھے ۔ اللہ تعالی نے ان کو اس وصف سے نوازا تھا کہ کوئی واقعہ پیش آجاتا تو فوراً اس کے متعلق اشعار ان کی زبان پر آجاتے ۔
ایک مرتبہ حکومت برطانیہ نے مولانا ظفر علی خان ، شیخ حسام الدین ، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، اورمولانا سید داؤد غزنوی کو ایک ہی وقت گرفتار کرکے جیل میں بند کردیا۔
تیسرے دن ان سب کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم ملااور پولیس انہیں عدالت میں حاضری کے لئے لینے آئی تو مولانا سید داؤد غزنوی نے عدالت میں جانے سے انکار کردیا۔ پولیس نے بازوں سے پکڑ کر انہیں گاڑی میں بٹھانا چاہا تو مولانا زمین پر لیٹ گئے چنانچہ پولیس نے مولانا غزنوی کو کندھوں پر اٹھایا اور گاڑی میں بٹھاکر عدالت میں لے گئے جب عدالت میں پہنچے تو گاڑی سے اترنے سے انکار کر دیا تو پولیس نے مولانا کو گاڑی سے اٹھا کر عدالت میں پیش کیا مولانا ظفر علی خاں یہ منظر دیکھ
رہے تھے اسی وقت یہ شعر موزوں ہوگئے۔
دی مولوی داؤد کو چڈی جو پولیس نے
احباب نے پوچھا بہ تعجب کہ یہ کیاہے
کیوں لدکے چلے دوش حکومت پہ حضور آج
حضرت کی سواری کاطریقہ یہ نیاہے
فرمانے لگے نہیں کے کہ میں عالم دیں ہوں
اور مرتبہ سرکار میں عالم کا بڑاہے
اس واسطے مرکب کے عوض فرط ادب سے
خود اپنے تئیں پیش عدالت نے کیاہے
ہے فخر یہ مجھ کو میری ران کے نیچے
خود حضرت عیسیٰ کی سواری گدھاہے۔(1)
کلکتہ میں مولانا سید داؤد غزنوی نے ایک جلسہ عام میں تقریر کی مولانا سید داؤد غزنوی خطابت اور تقریر میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے فصیح البیان خطیب اور مقرر تھے تقریر کے بعد مولانا ظفر علی خان جو اس جلسہ میں شریک تھے مولانا غزنوی کو خوب داد دی اوراس وقت یہ شعر کہے :
قائم ہے ان سے ملت بیضاء کی آبرو
اسلام کاوقار ہے داؤد غزنوی
رجعت پسند کہنے لگے ان کو دیکھ کر
آیا ہے سومنات میں محمود غزنوی
کلکتہ میں اک اور بھی ہیں ان کے ہم لقب
یہ ہست غزنوی ہیں وہ بود غزنوی
1۔ ظفر علی خاںاور ان کا عہد ص:58
کلکتہ میں ان کے ہم لقب سے مراد سر عبدالحلیم غزنوی تھے جو انگریزی حکومت کے حامی اور تحریک آزادی
کے مخالف تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
داؤد غزنوی اور محمود غزنوی
مولانا ابو الکلام آزاد 1940ء میں آل انڈیا نیشنل کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے اور 1946ء تک آپ صدر رہے مولانا سید داؤد غزنوی 1945ء میں پنجاب کانگرس کے صدر منتخب ہوئے اوریہ دونوں بڑے زور دار لیڈر تھے۔
اسی دوران ماسٹر تارا سنگھ نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ :
’’محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17حملے کئے اور یہاں کے غیر مسلموں کو مختلف اذیتوں میں مبتلا کر دیاتھا اب اس ملک کی کانگرس کی سیاست پر دو مولانا قابض ہیں ایک نے پورے ہندوستان کی کانگرس پر قبضہ کررکھا ہے اور دوسرے نے پنجاب کی کانگرس پر محمود غزنوی کا تعلق بھی افغانستان سے تھا اور داؤد غزنوی کا تعلق بھی افغانستان سے ہے ان کے آباء و اجداد اسی ملک سے پنجاب آکر آباد ہوئے تھے محمود غزنوی نے پورے ہندوستان کو فتح کر لیاتھا اب داؤد غزنوی نے سیاسی طور پرہندو سکھ سب کو اپنا مطیع بنالیا ہے‘‘۔(داؤد غزنوی:143)
اخلاق و عادات:
مولانا سید محمد داؤد غزنوی اخلاق و عادات کے اعتبار سے بہت بلند تھے ذکر الہی بڑی کثرت سے کرتے تھے تہجد کی نماز تمام زندگی نہیں چھوڑی نماز باجماعت ادا کرتے تھے نماز میں انتہائی خشوع و خضوع کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ہر نماز کے بعد وظائف پڑھتے اور ہاتھ اٹھا کر بڑی دیرتک دعا کرتے تھے نماز فجر ، نماز مغرب اور نمازعشاء کے بعد دیر تک وظائف میں مشغول رہتے۔
حقوق العباد کابہت زیادہ خیال رکھتے تھے جب کوئی عالم یا انکے کسی دوست کاانتقال ہوجاتا تو انکے لواحقین سے گھر جاکر تعزیت کرتے تھے مروت اور رواداری کے وصف سے بہت زیادہ متصف تھے۔
سید ابوبکر غزنوی مرحوم لکھتے ہیںکہ :
’’وہ ایک واضح مسلک رکھتے تھے اور زندگی بھر پورے یقین اور اذعان کے ساتھ اس مسلک کاپرچار کرتے رہے مگر دوسروں کے عقائد و افکار کی تضحیک نہیں کرتے تھے تمام جماعتوں کے علماء کے ساتھ بڑی عزت و احترام کیساتھ پیش آتے‘‘۔(داؤد غزنوی :289)
حق گوئی اور بیباکی میں ان کی مثال نہیں پیش کی جاسکتی اس وصف میں برصغیر میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا جس بات کو حق سمجھتے اسکا برملا اظہار کرتے اور اس سلسلہ میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
مولانا داؤد غزنوی بہت زیادہ نفاست پسند تھے خوش اخلاق ، خوش گفتار ، خوش لباس اور خوش خوراک تھے اللہ تعالی نے بہترین صورت و سیرت سے نوازا تھا۔مولانا اسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ :
’’سرخ و سفید رنگ ، باوقار پرجلال چہرہ، کشادہ پیشانی ، فکروتدبر کی لکیروں سے مزین، ستواں ناک، تیز آنکھیں، ان کی ذہانت وفطانت کی غماز ، سفید براق سی خوبصورت داڑھی، معتدل جسم، میانہ قد، گرجدار بارعب آواز، گفتار و کردار میں جلال و جمال کا حسین امتزاج ، متانت و سنجیدگی کاپیکرو انداز ، چال میں تمکنت گفتگو میں اعتدال ، رائے میں توازن ، صاف ستھرے لباس میں ملبوس ، وقت کے پابند، قاعدے اور ضابطے میں بندھے ہوئے ، تکلفات سے پاک، تصنع سے نفوذ، دوستوں کے ہمدرد ، ساتھیوں کے خیر خواہ، چھوٹوں پر دست شفقت رکھنے والے ، علماء کے قدر دان ، بزرگان دین سے محبت اور تعلق خاطرمیں بے مثل ، علم وفضل میں یکتا، فکرو دانش میں بے نظیر،تحقیق و کاوش میں منفرد، فہم و مسائل میں یگانہ ، اور ان کی تعبیر میں درجہ ممتاز پر فائز ، وظائف و اوراد کے خوگر، آزادی وطن کے قائد، رفتار سیاست کے نباض اور اس کے نشیب و فراز پر عمیق نگاہ رکھنے والے ، عالمانہ وقار، صوفیانہ عادات، بزرگانہ اطوار ، شاہانہ مزاج ، بہادرانہ خصال، مجاہدانہ کردار، شجاعانہ یلغار۔یہ تھے مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘۔(نقوش عظمت رفتہ:22)
وفات
مولانا سید داؤد غزنوی 1961ء سے بیمار چلے آرہے تھے دل کاعارضہ تھا علاج و معالجہ ہوتا رہتا تھا جس سے افاقہ ہوجاتا تھا 1962ء میں جب شاہ سعود کی دعوت پر حجاز گئے تو مدینہ منورہ میں ان کودل کا شدید دورہ ہوا تاہم بروقت طبی امداد پہنچنے سے کچھ افاقہ ہوا اور طبیعت سنبھل گئی اور مولانا بخیروعافیت واپس لاہور آگئے یہاں آکر دوبارہ تکلیف ہوئی تو ڈاکٹر بلیغ الرحمان کے زیر علاج رہے اور انکی طبیعت سنبھل گئی تاہم کمزوری بہت زیادہ ہوگئی تھی اور کمزوری میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا تھا۔آخری دنوں میں بات بہت کم کرتے تھے۔ رب اغفر و ارحم و انت خیر الراحمین اکثر پڑھتے رہتے تھے ایک رات شدت کادرداٹھاصبح کے قریب کچھ افاقہ ہواتو نیند آگئی صبح کی نماز فوت ہوگئی آپ روتے تھے اور بار بار فرماتے تھے ۔ربنا لا تواخذنا ان نسینا اواخطانا ، ربنا لا تحمل علینا اصراً کما حملتہ علی الذین من قبلنا ، ربنا ولا تحملنا مالا طاقۃ لنا بہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولانا فانصرنا علی القوم الکافرین۔
اور اس کے بعد حسرت سے فرمایا ۔ آہ یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے۔
آخری دن صبح کی نماز پڑھی ناشتہ کیا ساڑھے نوبجے دل کاشدید دورہ پڑا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ تاریخ 16دسمبر1963ء اور پیر کا دن تھا۔
17دسمبر1963ء بروز منگل یونیورسٹی گراؤنڈ دس بجے صبح نماز جنازہ اداکی گئی جنازہ پر بڑاہجوم تھا نماز جنازہ ان کے رفیق خاص مولانا محمد اسمٰعیل السلفی نے پڑھائی جنازہ میں تمام مذہبی ، سیاسی، اور سماجی تنظیموں کے اکابر و اعیان شامل تھے۔
مولانا غزنوی کو قبرستان میانی صاحب ان کے چھوٹے بھائی حافظ محمد سلیمان غزنوی کے پہلو میں دفن کیاگیا۔ جنہوں نے مولانا سے تین سال پہلے 29دسمبر1960ء کو انتقال کیا تھا۔
اولاد
مولانا سید داؤد غزنوی نے دو نکاح کئے ان کا پہلا نکاح مولانا سید عبدالاوّل غزنوی کی صاحبزادی سے ہواتھا جن سے دو صاحبزادے عمر فاروق غزنوی اور ابوبکر غزنوی اور ایک صاحبزادی پیدا ہوئی ۔ صاحبزادی کانکاح ان کے چچا مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی کے پوتے احمد غزنوی سے ہواتھا جوسیشن جج تھے مولانا غزنوی کی پہلی بیوی کاانتقال 1938ء میں ہواتھا۔
1945ء میں مولانا داؤد غزنوی نے دوسرا نکاح دہلی کے ایک معزز گھرانے میں کیا دوسری بیوی سے مولاناکی 6اولادیں ہوئیں دو صاحبزادے یحییٰ غزنوی اور احمدغزالی اور چار صاحبزادیاں ۔ چاروں صاحبزادیوں کی شادیاں ہوچکی ہیں اور اپنے اپنے گھر میں خوش وخرم آباد ہیں ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مولانا سید داؤد غزنوی مشاہیر کی نظر میں
مولاناسید داؤد غزنوی مرحوم و مغفور ایک بلند پایہ عالم دین ، فصیح البیان خطیب و مقرر ، صاحب فکر ونظر، مورخ ، محقق، ادیب ، مدبر، مذہبی و سیاسی رہنما،صحافی، دانشور، محدث اور متکلم و معلم تھے ۔ برصغیر پاک و ہند کے ممتاز اہل علم و قلم اور تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام ان کے علمی تبحر و تدبر و بصیرت کے معترف تھے ذیل میں برصغیر کے چند اہل قلم کے تاثرات درج کئے جاتے ہیں جو انہوں نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمائے۔
فصل اوّل
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی
’’مولانا سید داؤد غزنوی کی وفات سے نہ صرف خاندان غزنوی اور نہ صرف جماعت اہلحدیث بلکہ اس براعظم (پاکستان وہند) کے دینی،علمی حلقے میں اور علماء کی صف اول میں ایک باوقار کرسی خالی ہوگئی جس کا پر ہونا آسان معلوم نہیں ہوتا مولانا کی دل آویز شخصیت ، ان کا فکری توازن اور ان کے وسیع روابط ان کی مجاہدانہ سرگرمیاں ، ان کا علمی ذوق، عقائد اور اپنے مسلک میں پختگی اور استقامت کے ساتھ سلف کا مجموعی احترام ، خاندانی ذوق اور روحانی چاشنی ، یہ سب خصوصیات ہیں جنکے حامل بہت کم نظر آتے ہیں انہوں نے اپنے خاندان و اخلاف کیلئے بالخصوص اورجماعت کیلئے بالعموم ایک ایسی مثال اور ایک ایسا نمونہ چھوڑا ہے جس کی پیروی اگرچہ مشکل ہے لیکن نہایت ضروری ۔اللہ تعالی ان کے جان نشینوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے ‘‘۔(داؤد غزنوی:27)
مولانا غلام رسول مہر
''مولانا سید محمد داؤد غزنوی مرحوم و مغفور نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی تھی جس کے نزدیک علم و فضل سب سے بڑی دولت ، زہدوتقوی سب سے بڑا سرمایہ اور عشق کتاب و سنت گراں بہاتوشہ تھا ۔ اوراسی فضا میں انہوں نے تربیت پائی اور یہی فضا آخر دم تک ان کے قلب و روح کیلئے بہترین آرام گاہ بنی رہی ۔ ان کے جد امجد مولاناسید عبداللہ غزنوی نے حق و صداقت کی راہ میں جو مشقتیں اور اذیتیں اٹھائیں ان کاتصور بھی دل پر لرزہ طاری کردیتا ہے وہ تنہا ایک طرف اور پوری مملکت دوسری طرف تھی مگر مولانا سید عبداللہ مرحوم ومغفور کے پائے ثبات و استقلال میں خفیف سی لرزش بھی رونما نہ ہوئی ۔گھر بار چھوڑ دیا وطن سے نکل آئے عزیزوں اور خویشوں سے مفارقت گوارا کرلی۔لیکن جن باتوں کو وہ حق سمجھتے تھے ان سے تمتک برابر قائم رہا۔
مولانا سید داؤد غزنوی نے اسلامی زندگی کے جس مقدس ماحول میں تربیت پائی تھی وہ آج ناپید ہے ان کا علم وفضل ، ان کی متانت ثقاہت ان کا تدبر ان کی فقاہت تحریر و تقریر میں یکساں شان دلاویزی ، پھر ہر معاملے میں دین کو مقدم رکھنا،اور ہر دینی فرض کو انتہائی اخلاص سے انجام دینا۔ یہ اور ایسے محاسن و فضائل آج ایک شخصیت میں کیونکر جمع ہوسکتے ہیں وہ ایک فرد نہیں بلکہ ایک مجلس ایک انجمن اور ایک جماعت تھے۔
مولاناداؤد غزنوی اس دور کی ایک بہت بڑی شخصیت تھے دور دورتک نظر جاتی ہے مگر ایسا جامع اوصاف وجود کہیں نظر نہیں آتا وہ فطرتاً متوازن اور مستقیم تھے اختلاف رائے کے وقت بھی سب کے ساتھ محبت، بہی خواہی، اور خیر سگالی کا برتاؤ جاری رکھا۔ عداوت کو ان کے دلی خلوص کی منزل میں کبھی بارنہیں ملا۔ وہ اس اسلامی قافلہ کے آخری افراد میں سے تھے جن کی خدمات کے نقوش دور حاضر کی تاریخ کا ایک بیش بہا سرمایا ہیں‘‘۔
ـ(داؤد غزنوی: 36-35-32-31۔)
مولانا محمد حنیف ندوی
’’اوّل میں جب ان سے ملا تو ان کے بارہ میں میرا یہی تاثر تھا کہ میدان خطابت میں ان کی شعلہ افشانیاں مسلم، لیکن حدود مطالعہ کے اعتبار سے یہ دوسرے سیاسی لیڈروں سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہوں گے۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت انگیز تعجب ہوا کہ قرآن و حدیث اور فقہ میں یہ ان تمام مقامات و وفود سے آگاہ ہیں جو فہم و ادراک کے لئے اچھی خاصی مجتہدانہ کاوشوں کے طالب ہیں۔ مجھے ان کی لائبریری کا جائزہ لینے کا بارہا اتفاق ہوا۔ میں نے دیکھا کہ کوئی اہم کتاب ایسی نہیں اور کسی کتاب کا کوئی اہم باب ایسا نہیں جس پر ان کے حواشی و تعلیقات کی چھاپ نہ ہو خصوصیت سے فقہ و تفسیر کے مسائل پر ان کی نظر بہت گہری تھی‘‘۔(داؤد غزنوی:41)
ڈاکٹر سید عبداللہ
’’تحریک خلافت و احرار کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے بڑے بڑے خطیب پیدا کئے، مولانا ابوالکلام آزاد، علی برادران (مولانا محمد علی، شوکت علی) ڈاکٹر انصاری، حکیم اجمل خان اور مولانا ظفر علی خان تو خلافت سے قبل ہی روشناس خلق ہو چکے تھے اب ان کے مقابلے میں نسبتاً جوان اور نوجوان خطیب چمکے تھے ان میں سید عبداللہ شاہ بخاری کی خطابت کا تذکرہ تو صدیوں کے پیمانے سے ناپا جا سکتا ہے اور ن کے ساتھ افضل خطیب مولانا داؤد غزنوی بھی تھے۔
غزنوی صاحب جیسی مکمل خطابت کسی اور کو میسر نہ تھی ایک بلند قامت وجیہہ شخصیت اپنی گونج دار آواز کے ساتھ، فقروں کے زیر و بم میں عالمانہ رعب و داب کے ساتھ جب محو تکلم ہوتے تھے تو شاعرانہ محاورے کے مطابق عنادل بھی ٹھٹھک کر رہ جاتی تھیں۔
ان کے خاندان کے بزرگوں نے جو کچھ کیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ مولانا داؤد غزنوی نے تحریک خلافت اور اس کے بعد آزادی وطن اور قیام پاکستان تک تمام تحریکوں میں اس روایت کو رکھا۔ بارہا قید ہوئے، نظر بند ہوئے،مصائب برداشت کئے، مگر جس راستے کو اسلام اور مسلمانوں کیلئے مفید خیال کیا اس پر قائم رہے‘‘۔(داؤد غزنوی :49-48۔)
شورش کاشمیری
’’اس حقیقت سے شاید کم لوگ واقف ہوں گے پنجاب کے علماء میں سے وہ پہلے عالم دین تھے جنہوں نے تحریک خلافت کے زمانہ میں انگریزی حکومت کے خلاف اپنا پرچم کھولا۔ پہلے شخص تھے جنہوں نے امرتسر میں انگریزی حکومت کے خلاف وعظ و ارشاد کا سلسلہ شروع کیا اور یہ شرف تاریخ نے ان کے سپرد کر دیا وہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کو منبر و محراب کے جمود سے کھینچ کر جہاد و غزا کے میدان میں اٹھا لائے خود شاہ جی بھی اعتراف فرماتے تھے یہ واقعہ ہے کہ امرتسر کی دینی زندگی میں سیاسی ہلچل ڈالنے کا آغاز انہی کی بدولت ہوا۔ انہیں پنجاب میں علماء کی جنگ آزادی کا پہلا سالار کہا جاتا ہے‘‘۔ (داؤد غزنوی:64)
رئیس احمد جعفری
''مولانا داؤد غزنوی نے جس جماعت کو بھی شرف قبولیت بخشا پورے خلوص کے ساتھ اس کی خدمت کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مکتب فکر میں وہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ان کی ذہانت فکر ہر طرح کے اختلافات کے باوجود اصول موضوعہ کی طرح اپنی جگہ مسلم تھی۔ اس زمانے میں کسی شخص کا یہ مقام حاصل کر لینا بہت بڑی بات ہے اور یہ بات اس شخص میں پیدا ہو سکتی ہے جو واقعی بڑا ہو اور کوئی شبہ نہیں آپ ہر اعتبار
سے عظیم و جلیل تھے۔
صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تو نے اے باد صبا
یادگار شمع تھی محفل میں پروانے کی خاک‘‘
(داؤد غزنوی:73)
محمد اسحق بھٹی
’’مولانا داؤد غزنوی کی عظیم خصوصیت یہ تھی کہ ان کا ظرف بہت وسیع تھا انہتائی وسعت قلب کے مالک تھے۔ ایک خاص مسلک و فقہ کے پابند ہونے کے باوجود تعصبات سے ان کا دل صاف تھا۔مولانا احمد علی سے ان کے تعلقات بہت گہرے تھے ان کی وفات پر فرمایا: آج دین کا ایک ستون گر گیا ہے اور میرے قریب رفقاء میں ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہ ہو سکے گا۔مولانا داؤد کو مفتی محمد حسن امرتسری سے خاص لگاؤ تھا ہفتہ عشرہ بعد نماز عصر کے بعد مفتی صاحب کے ہاں تشریف لے جاتے اور ان سے مسائل تصوف اور دیگر مسائل پر گفتگو فرماتے۔مولانا غزنوی مولانا سید مودودی کا بہت احترام کرتے اور مجموعی اعتبار سے ان کی خدمات کو سراہتے اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے‘‘۔ (داؤد غزنوی: 145-144)
مولانا عبدالعظیم انصاری
مولانا سید محمد داؤد غزنوی علم و فضل، زہد و اتقا، اور فہم و فراست میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے آپ کا تبحر علمی اور سیاسی بصیرت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ذہانت، فطانت اور فہم و فراست آپ کی مسلم تھی تمام علوم متداولہمیں گہرا ادراک اور بصیرت حاصل تھی۔ آپ کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ ( تحریک پاکستان اور اہل حدیث:31)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل ثانی
مولانا سید ابوالحسن علی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا محمد حنیف ندوی، ڈاکٹر سید عبداللہ شورش کاشمیری، سید رئیس احمد جعفری، مولانا محمد اسحق بھٹی اور مولانا عبدالعظیم انصاری نے مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے جو تاثرات بیان کئے ہیں وہ ان کی تحریروں سے ماخوذ ہیں جن کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے۔
درج ذیل مشاہیر کے جو تاثرات ذیل میں نقل کئے جا رہے ہیں یہ راقم نے وقتاً فوقتاً ان سے مولانا غزنوی کے بارے میں میرے استفسار پر بیان فرمائے اور راقم آثم کے ذہن میں محفوظ تھے۔
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کا تعلق اس علمی خاندان سے تھا جنہوں نے حق و صداقت کی خاطر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔ مصائب و آلام سے دوچار ہوئے، مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کی، وطن سے بے وطن ہوئے لیکن ان کے پائے ثبات استقلال میں لغزش نہیں آئی۔
مولانا غزنوی کے والد بزرگوار امام مولانا سید عبدالجبار کو میں نے نہیں دیکھا ان کے انتقال کے وقت تو میری عمر چار سال کی ہو گی۔ مولانا عبدالواحد غزنوی کی زیارت کی ہے،بڑے نیک سیرت، مخلص اور متقی و پرہیزگار تھے اللہ تعالیٰ انکی دعائیں قبول کرتا تھا۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کو پہلی بار امرتسر میں دیکھا اور ان سے شرف نیاز حاصل ہو بعد میں دہلی میں بھی ان سے کئی بار ملا۔ امرتسر میں میں نے انکا کتب خانہ دیکھا تھا جو بہترین تفاسیر، کتب حدیث، فقہ، اصول فقہ، اسماء الرجال، تاریخ و سیر، وغیرہ پر مشتمل تھا طبقات الحنابلہ میں نے پہلی بار وہاں دیکھی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا مرحوم سے بہت زیادہ قرب رہا۔ میں نے ان جیسا پرہیزگار، متقی اور صاحب علم و بصیرت عالم نہیں دیکھا مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا اتنی مصروف اور بھر پور زندگی گزارنے والا اور مطالعہ کا شوقین اور ان کی وسعت معلومات پر حیرانی ہوتی تھی۔ امرتسر میں کا کتب خانہ سکھوں نے جلا دیا تھا جس کا مرحوم کو زندگی بھر افسوس رہا جب کبھی اس کتب خانہ کا ذکر کرتے تو رو پڑتے اور مجھ سے کئی بار فرمایا کہ میں نے بڑی محنت سے یہ کتابیں جمع کیں آپ اندازہ نہیں کر سکتے بڑی مشکل سے روپے جمع کرتا اور کتابیں خریدتا۔
مولانا داؤد غزنوی بڑے وسیع المطالعہ تھے کوئی ایسی کتاب ان کے کتب خانہ میں نہ ہو گی جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو مجھے جب بھی کسی کتاب کی ضرورت ہوئی تو میرے طلب کرنے پر فوراً الماری سے نکال کر دے دیتے۔ جب میں اس کو پڑھنے لگتا تو جا بجا انکے حواشی لکھے نظر آتے۔
پاکستان میں جمعیۃ اہل حدیث کو منظم اور فعال بنانے میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں مولانا اسمٰعیل صاحب مولانا حنیف ندوی اور خاکستار نے ان کے ساتھ پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں کا دورہ کیا اور جماعت اہلحدیث کو روشناس کرایا۔
مولانا غزنوی وقت کے بڑے پابند تھے ہر کام پروگرام کے تحت کرتے اور اس میں ایک منٹ کی تاخیر بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ جمعیۃ اہل حدیث کی مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا اور جو وقت طے کیا اس کے مطابق اجلاس کی کارروائی پورے وقت پر شروع کر دی جو ممبر وقت سے بعد آتا تو اظہار ناپسندیدگی فرماتے اور اس سے جواب طلبی کرتے کہ آپ وقت پر کیوں نہیں پہنچے اتنے منٹ دیر سے آئے ہیں۔
مولانا غزنوی کی مسائل دینیہ پر وسیع نظر تھی چاروں ائمہ فقہ کی کتابیں ان کی نظر سے گزری تھیں جب بھی کوئی فتویٰ لکھتے تو اس میں قرآن و حدیث اور آثار صحابہ کے بعد ائمہ فقہ میں سے بھی کسی ایک امام کا قول فتویٰ کی تائید میں درج کرتے تھے۔ علمائے کرام کے بڑے قدردان تھے اس لئے ہر مکتب فکر کے علماء سے ان کے تعلقات تھے اور وہ ان کا احترام کرتے تھے مولانا داؤد غزنوی بڑی خوبیوں کے مالک تھے اللہ تعالیٰ ان کی بال بال مغفرت فرمائے۔ غالب نے صحیح کہا ہے:
مقدور ہوں تو خاک سے پوچھوں اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیئے
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی
مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی کا تعلق سوہدرہ سے تھا اور میرے پڑوسی بھی تھے عزیز داری بھی تھی۔ جب کبھی لاہور سے سویدرہ آتے تھے میں ان سے ضرور ملتا۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ مولانا سید داؤد غزنوی خاندان غزنویہ کے گل سر سید تھے ان کے دادا مولانا سید عبداللہ غزنوی اور والد مولانا سید عبدالجبار غزنوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔
مولانا سید داؤد غزنوی کی مذہبی و سیاسی خدمات سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ تحریک خلافت، مجلس احرار، جمعیۃ العلماء ہند، کانگرس، اور مسلم لیگ ان کے کارنامے تاریخ کا ایک حصہ ہیں اور جماعت اہلحدیث کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں ان کی خدمات ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
مولانا غزنوی وسیع المطالعہ عالم تھے ٹھوس اور قیمتی کتابیں مطالعہ کرتے تھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کی تصانیف کے شیدائی تھے اور ان دونوں ائمہ کرام کی تصانیف کا بالتزام مطالعہ کرتے تھے۔
میں جب بھی ان سے ملا بڑی خندہ پیشانی اور محبت سے ملتے اور سب سے پہلے یہ دریافت کرتے کہ آپ آج کل کیا علمی کام انجام دے رہے ہیں؟ اور میں جب ان کو کام کی نوعیت کے بارے میں بتاتا تو بہترین مشوروں سے نوازتے اور یہ بھی فرماتے کہ اس کام کے لئے فلاں فلاں کتاب سے رہنمائی حاصل کریں۔ اگر آپ کے پاس کتاب نہیں ہے تو میرے کتب خانہ سے لے جائیں۔ ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد کے ترجمہ کا مشورہ مولانا غزنوی ہی نے مجھے دیا تھا (ترجمہ مولوی امام خان صاحب نے مکمل کر لیا تھا اب معلوم نہیں اس کا مسودہ کہا گیاہے آیا ان کے صاحبزادہ عبدالباقی ایڈووکیٹ کے پاس ہے یا کہیں ضائع ہو گیا ہے)۔
مولوی ابو یحییٰ مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مولانا داؤد غزنوی جیسا نڈر، بیباک، حق گو اور شجاع عالم جماعت اہلحدیث میں پیدا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔
مولوی ابو المحمود ہدایت اللہ سوہدروی
مولانا سید محمد داؤد غزنوی ایک جید عالم اور ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ میری ان سے شناسائی غالباً 1931ء میں ہوئی اخبار اہلحدیث امرتسر میں میرے مضامین شائع ہوتے رہتے تھے اور ان کی نظر سے گزرتے تھے سویدرہ کے نام سے بھی واقف تھے۔ پہلی ملاقات میں مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ نے فرمایا تھا کہ سوہدرہ کے مولانا غلام نبی الربانی (جد امجد مولانا عبدالمجید سویدروی) میرے دادا مولانا سید عبداللہ غزنوی کے مرید خاص تھے۔
قیام پاکستان سے قبل بہت کم ان سے ملاقات ہوئی لیکن پاکستان کے قیام کے بعد ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں ہوئیں۔ 1960ء میں جمعیۃ اہلحدیث گوجرانوالہ کا ایک اجلاس ان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں خاکسار کو خصوصی دعوت دی گئی میں اس اجلاس میں شریک ہوا اس اجلاس میں طے پایا کہ عیسائی مشنری آجکل بڑی سرگرم ہے اور اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ بیشمار مسلمان عیسائی مذہب قبول کر رہے ہیں اس کی روک تھام ہونی چاہیئے اور عیسائیت کی تردید میں پمفلٹ اور کتابیں شائع کرنی چاہیئں۔
مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے میرا نام تجویز کیا کہ آپ اس سلسلہ میں ’’اسلام اور عیسائیت‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھیں جو کم از کم ایک سو صفحات پرمشتمل ہو جمعیۃ اہلحدیث گوجرانوالہ اس کو شائع کرے گی۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے اس کی تائید کی اور فرمایا جتنی جلدی ہو سکے آپ کتاب لکھ کر مولانا اسمٰعیل صاحب کے حوالہ کریں تاکہ جتنی جلدی ہو سکے یہ کتاب چھپ جائے۔ چنانچہ میں نے اسلام اور عیسائیت کے نام سے 96 صفحات پر مشتمل کتاب لکھی جو ستمبر 1961ء میں جمعیۃ اہلحدیث گوجرانوالہ کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی مطالعہ بہت کرتے تھے کوئی ایسی کتاب ہو گی جو ان کے مطالعہ میں نہ آئی ہو۔ اجلاس ختم ہوا کھانا کھایا گیا اور اس کے بعد ظہر کی نماز ادا کی گئی۔ نماز ظہر کے بعد میں نے اجازت چاہی تو مولانا داؤد غزنوی نے مجھ سے فرمایا کہ آپ کے پاس کتاب ہے (کتاب کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہے اتنا یاد ہے کہ وہ کتاب چار جلدوںمیں تھی) میں نے اثبات میں جواب دیا تو مولانا غزنوی نے فرمایا:’’کتاب مجھے بھیج دینا مطالعہ کے بعد واپس کر دوں گا‘‘۔ چنانچہ میں نے وہ کتاب مولوی امام خان نوشہروی کے ذریعہ مولانا غزنوی کو بھجوا دی تقریباً تین چار ماہ بعد مولانا غزنوی سے لاہور میںملاقات ہوئی تو آپ نے گلہ کیا کہ آپ نے کتاب نہیں بھجوائی میں نے عرض کی کہ میں نے اسی وقت مولوی امام خان نوشہروی کے ذریعہ کتاب بھجوا دی تھی۔ مولانا نے فرمایا میرے پاس نہیں پہنچی اس کے بعد میں نے مولوی امام خان نوشہروی کو لکھا کہ کتاب مولانا غزنوی کو جلد پہنچا دی جائے لیکن کتاب ان کے پاس نہ پہنچی اور نہ ہی مجھے واپس ملی۔ مولانا غزنوی نے بھی جنوری 1963ء میں سفر آخرت اختیار کیا اور مولوی امام خان نوشہروی بھی جنوری 1966ء میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی زندگی بڑی مصروف گزری ان کے مذہبی و سیاسی کارنامے تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ 1919ء تا 1947ء تک کا دور ان خیز دور تھا۔ حکومت برطانہ کے خلاف ان کی تقریریں بڑے شوق سے سنی جاتی تھیں تقریر کرتے تو معلوم ہوتا کہ آگ کے گولے برس رہے ہیں۔ بڑے حق گو عالم تھے اور بڑے ٹھوس دلائل سے حکومت پر تنقید کیا کرتے تھے۔ حدیث نبوی ﷺ سے انہیں بڑا شغف تھا۔ حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ غلام احمد پرویز نے طلوع اسلام میں حدیث کے خلاف زہر اگلنا شروع کیا تو میں نے پروفیسر صاحب کے مضامین کے جواب میں الاعتصام لاہور میں کئی ایک مضامین لکھے تو مولانا غزنوی نے مجھے لکھا کہ آپ کے مضامین حدیث نبوی کی حمایت اور پروفیسر صاحب کی خرافات کے بارے میں الاعتصام میں پڑھ رہا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے حدیث کی تائید اور حمایت میں قلم اٹھایا ہے۔
مولانا داؤد غزنوی صحیح معنوں میں ایک جید عالم دین تھے۔ ہر مکتب فکر کے علماء ان کے علمی تبحر کے معترف تھے اور ہر مکتب فکر کے علماء ان کا احترام کرتے تھے اور اس احترام کی وجہ ان کی اعتدال پسندی تھی اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین‘‘۔

پروفیسر حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی
مولانا سید محمد داؤد غزنوی تحریک آزادی کے بلند مرتبہ رہنما اور جید عالم دین تھے ان کا تعلق ایک ایسے علمی خاندان سے تھا جس نے حق و صداقت کی خاطر اتنی تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کیں کہ اس کی تاریخ میںمثال ملنی مشکل ہے۔
میں نے ان کا نام 1921ء میں مولانا محمد اسمٰعیل السلفی سے سنا کہ میں ان دنوںمولانا اسمٰعیل کے پاس گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھا۔ 1919ء میں مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا کفایت اللہ دہلوی، علی برادران (محمد علی، شوکت علی) حکیم اجمل خان اور دوسرے علماء و سیاسی زعماء کی کوشش سے مجلس خلافت قائم ہو چکی تھی اور 1921ء میں مفتی کفایت اللہ، مولانا احمد سعید، مولانا عبدالباری، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالماجد بدایونی، مولانا آزاد سبحانی، مولانا سید سلیمان ندوی، اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سعی و کوشش سے جمعیۃ العلماء ہند بھی قائم ہو چکی تھی۔
1921ء میں برطانوی حکومت کے خلاف علمائے کرام اور سیاسی زعماء نے آوازہ بلند کیا میں نوجوان تھا۔ میں نے بھی حکومت کے خلاف جلسوں میں تقریریں کرنی شروع کیں۔ مولانا داؤد غزنوی بھی بڑی پرجوش تقریریں کرتے تھے اور اخباروں میں ان کی تقریروں کے اقتباس شائع ہوتے تھے چنانچہ مولانا غزنوی کو گرفتار کر کے تین سال کے لئے میانوالی جیل میں نظر بند کر دیا گیا اور میں بھی دو سال کے لئے میانوالی جیل پہنچ گیا۔ جیل میںمیری پہلی ملاقت مولانا سید داؤد غزنوی سے ہوئی اور دو سال تک رفاقت رہی۔
مولانا سید داؤد غزنوی جید عالم دین تھے ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا تمام علومِ اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی دو سال تک میں میانوالی جیل میںان کے درس قرآن سے مستفیض ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے میں انہیں اپنا استاذ تسلیم کرتا ہوں۔رہائی کے بعد میں طیبہ کالج دہلی میں داخل ہو گیا اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد طیبہ کالج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پروفیسر ہو گیا۔ مولانا داؤد غزنوی سیاسی میدان میں اپنا ایک خاص مقام بنا چکے تھے۔ ان کی تقریروں کی سارے ہندوستان میں دھوم تھی مدت بعد ان سے لاہور میں جب کہ میں موسم گرما کی تعطیلات گزارنے پنجاب آتا تھا ملاقات ہوتی تھی تو مل کر بہت خوش ہوتے اور جیل کے بیتے دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد مولانا مستقل طور پر لاہور ہی میں رہتے تھے اور میں نے اپنے وطن سوہدرہ میں ڈیرے ڈال دیئے تھے جب کبھی اتفاق سے لاہور جانا ہوتا تو کبھی کبھی ان سے ملنے ان کی رہائش گاہ شیش محل روڈ چلا جاتا بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اچھی مہمان نوازی کرتے اور فرماتے حکیم صاحب! آپ نے سوہدرہ میں کیوں ڈیرے ڈال دیئے آپ کو لاہور میں آباد ہونا چاہیئے تھا میں جواب دیتا کہ میں نے سوہدرہ اس لئے رہائش اختیار کی کہ میں اپنے عزیزوں اور اہل قصبہ کی خدمت کر سکوں لیکن مجھے اس میں کامیابی نہ ہوئی۔
جب بھی مولانا سید داؤد غزنوی سے ملاقات ہوتی تھی حالات حاضرہ پر تبصرہ ہوتا تھا مسیح الملک حکیم اجمل خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور ڈاکٹر انصاری رحمہم اللہ اجمعین کی شخصیت ضرور زیر بحث آتی۔ مولانا غزنوی ان حضرات کی ملی و سیاسی خدمات کا اعتراف کرتے۔ موقع کے لحاظ سے میں مولانا ظفر علی خان کے اشعار سناتا تو بہت محظوظ ہوتے تھے۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانا غزنوی سحر طراز مقرر اور انقلاب خیز خطیب تھے ان کی زبان میں دریا کی روانی پائی جاتی تھی وہ ایک سیاسی رہنما ہونے کے علاوہ ایک پختہ کار عالم دین تھے۔ تفسیر، حدیث، فقہ و تاریخ پر ان کو کامل دستگاہ تھی۔
قیام پاکستان کے بعد ایک طرح سے ملکی سیاست میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اب ان کی زیادہ توجہ جامعات اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے کی طرف تھی۔ غالباً 1962ء میں میری ان سے آخری ملاقات ہوئی تو مجھے ان کا چہرہ دیکھ کر محسوس ہوا کہ اب ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ میں نے عرض کی مولانا اب آپ کو زیادہ کام نہیں کرنا چاہیئے، آرام زیادہ کریں۔ میں نے نبض دیکھی تو مجھے محسوس ہوا کہ اب ان کی صحت مشکل سے ہی بحال ہو گی۔ میں نے پرہیز اور آرام کا مشورہ دیا فرمانے لگے حکیم صاحب بہت کم کھاتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں لیکن زیادہ آرام نہیںکر سکتا کوئی نہ کوئی آدمی آ جاتا ہے اور اس کا کام کرنا پڑتا ہے بہر حال میں نے یہی مشورہ دیا کہ آرام کی زیادہ ضرورت ہے اس کے بعد ملاقات نہ ہوئی یہاں تک کہ وہ دسمبر 1962ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
پروفیسر حکیم عنائت اللہ نسیم ؔ سوہدروی
مولانا سید محمد داؤد غزنوی جامع الصفات تھے وہ بیک وقت علوم قرآن کے ماہر تھے اور حدیث نبوی ﷺ کے پورے عالم بھی۔ وہ بیک وقت مورخ بھی تھے اور محقق بھی، متکلم بھی تھے اور معلم بھی فقیہ بھی تھے اور ادیب بھی شعلہ نوا خطیب اور مقرر بھی، بلند پایہ صحافی، نقاد اور مجاہد بھی تھے۔
حق گوئی اور بیباکی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے بہت بڑے سیاسی، مذہبی اور ملی رہنما تھے میں نے ان کا نام سن رکھا تھا مولانا ظفر علی خان ان کو بڑے اچھے پیرایہ میںیاد کرتے تھے اور ان کی ملی و سیاسی خدمات کے معترف تھے مجلس احرار میں دونوں اکٹھے رہے اس لئے ان کی خدمات کے بہت معترف تھے میں نے ان کو پہلی بار دہلی میں دیکھا تھا اور ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا مولانا غزنوی بڑے بے مثال خطیب تھے تقریر کرتے تو محسوس ہوتا کہ آگ کے شعلے برس رہے ہیں بڑی روانی سے بولتے تھے ان کی تقریر بڑی مؤثر ہوتی تھی سامعین بڑی توجہ سے ان کی تقریر سنتے تھے۔ میری ان سے ملاقات پہلی بار دہلی میں ہوئی اور اپنا تعارف کروایا کہ میرا تعلق سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ سے ہے۔ مولانا غزنوی نے فرمایا:
سوہدرہ کو اچھی طرح جانتا ہوں وہاں ایک عالم دین مولانا غلام نبی الربانی (جد امجد مولانا عبدالمجید سوہدروی) تھے جو میرے دادا عارف باﷲ سید عبداللہ غزنوی مرحوم و مغفور کے مرید خاص تھے۔
میں نے عرض کی کہ مولانا غلام نبی الربانی میرے استاذ تھے اور میں نے ان سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا بہت ولی اللہ تھے صاحب کرامات تھے سوہدرہ میں توحید و سنت کی اشاعت ان ہی کی وجہ سے ہوئی اور خاص کر ہماری ککے زئی برادری انہی کی تبلیغ و دعوت سے توحید و سنت کی راہ پر گامزن ہوئی۔
قیام پاکستان سے پہے جتنی بھی بار مولانا غزنوی سے ملاقات ہوئی دہلی میں ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ مستقل طور پر لاہور رہائش رکھتے تھے اس لئے گاہے بگاہے ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ بڑی محبت اور خندہ پیشانی سے ملتے تھے میرا مولانا ظفر علی خان سے جو تعلق تھا اس سے بخوبی واقف تھے جب بھی ملاقات ہوتی تھی حالات حاضرہ پر گفتگو ہوتی اور مولانا ظفر علی خان کے اشعار سننے کی فرمائش کرتے تھے میں شعر سناتا تو بہت محظوظ ہوتے۔تقریباً ہر ملاقات میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ظفر علی خان کا تذکرہ ہوتا میں نے ایک ملاقات میں مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر سنایا:
جہاں اجتہاد میں سلف کی رہ گم ہو گئی
ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے
تو مولانا غزنوی نے سن کر فرمایا اس میں کیا شک ہے مولانا ابوالکلام مجتہد اور امام تھے ان کی علمی و فقہی بصیرت سے کون انکار کر سکتا ہے نثر کے بادشاہ تھے۔ حسرت نے سچ کہا ہے:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میںکچھ مزہ نہ رہا
مولانا ظفر علی خان کے بارے میں مولانا داؤد غزنوی فرمایا کرتے تھے کہ ان جیسا نڈر، مجاہد اور حق گو، بیباک لیڈر سارے ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا۔ مولانا ظفر علی خان اور ان کے اخبار زمیندار نے لوگوں میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کیا یہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور ہمدرد نے برصغیر کی تحریک آزادی میں جو خدمات انجام دیں اس سے انکار نہیں لیکن عوام تک آزادی کی آواز مولانا ظفر علی خان اور ان کے اخبار زمیندار نے پہنچائی۔ داغ دہلوی نے سچ کہا تھا کہ پنجاب نے ظفر علی خان اور اقبال پیدا کر کے اپنے ماضی کی تلافی کر دی ہے۔
حکیم صاحب نے ایک دن راقم سے فرمایا کہ:
عراقی صاحب کل میں لاہور گیا تھا مولانا عطاء اللہ حنیف سے ملنے گیا انھوں نے آپ کو سلام کہا ہے اتفاق سے عصر کی نماز کا وقت ہو گیا مولانا عطاء اللہ حنیف نے فرمایا میاں اندر مدر سہ میں نماز پڑھ لو مولانا غزنوی سے بھی ملاقات ہو جائے گی چنانچہ میں مولاناعطاء اللہ حنیف صاحب کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے چلا گیا نماز کے بعد مولانا عطاء اللہ صاحب مکتبہ پر تشریف لے آئے اور میں مولانا سید داؤد غزنوی کے پاس بیٹھ گیا بڑی محبت اور خندہ پیشانی سے ملے فرمانے لگے چلو اندر دفتر میں بیٹھتے ہیں چنانچہ میں مولانا کے ساتھ ان کے دفتر میں چلا گیا حال احوال دریافت کیا چائے منگوائی کچھ دیر حالات حاضرہ پر گفتگو ہوئی دوران گفتگو یہ ذکر آ گیا کہ آجکل آپ کی مسجد (سوہدرہ) میں کون خطیب ہیں میں نے بتایا مولوی علم الدین صاحب ہیں بڑے نیک سیرت انسان ہیں مولانا عطاء اللہ حنیف کے بڑے گہرے دوست ہیں اور مولانا عطاء اللہ ہر دو تین ماہ بعد ان سے ملنے سوہدرہ تشریف لے جاتے ہیں۔ مولانا داؤد غزنوی نے فرمایا:
حکیم صاحب میں مولوی علم الدین صاحب کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں کبھی کبھی یہاں تشریف لاتے ہیں اور مجھ سے مل کر جاتے ہیں آپ ملک صاحبان آف سوہدرہ کے بارے میں سن رکھا ہے کہ آپ کسی علم دین کو اپنی مسجد میں زیادہ دیر ٹھہرنے نہیں دیتے مولوی علم الدین ولی اللہ ہیں ان کی خدمت کرنا ان سے فیض حاصل کرو ان کی بددعا سے بچنا بڑے خدا رسیدہ عالم دین ہیں۔
میں نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ نے مولوی علم الدین صاحب کو بتایا ہے حکیم صاحب نے کہا ہاں میں نے مولوی صاحب کو ساری بات بتائی ہے مولوی صاحب سن کر رونے لگ گئے۔حکیم صاحب اکثر مجھ سے کہا کرتے تھے کہ مولانا داؤد غزنوی جیسا صاحب کمال عالم پورے ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا اور ظفر علی خان نے سچ فرمایا تھا:
قائم ہے ان سے ملت بیضا کی آبرو
اسلام کا وقار ہیں داؤد غزنوی
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی علم و فضل کے سمندر تھے وہ ایک عظیم مقرر اور خطیب تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت سے بھی نوازا تھا اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور علیین میں مقام کرے۔ آمین۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سید عمر فاروق غزنوی
مولوی سید عمر فاروق غزنوی مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے بڑے صاحبزادے تھے بڑے نیک اور صالح نوجوان تھے کچھ عرصہ شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ کی جماعت مجاہدین چمر قند میں شامل رہے اور انگریزوں کے خلاف کئی معرکوںمیں شریک جہاد ہوئے۔
مولانا محمداسحق بھٹی لکھتے ہیں کہ:
’’مولوی عمر فاروق غزنوی مولانا کے بڑے صاحبزادے تھے نیک اور وظائف وغیرہ کے پابند، میرے مخلص دوست تھے ان کی اپنی خریدی ہوئی شیخوپورہ روڈر پر آٹھ نو مربعے زرعی زمین تھی وہاں ان کا باقاعدہ ڈیرہ تھا جسے ’’شاہ ڈیر‘‘ کہا جاتا تھا۔ ٹیوب ویل، ٹریکٹر سب کچھ تھا والد یا بھائی کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا وہ زمینوں پر اپنے ڈیرے پر رہتے تھے پانچ چھ روز کے بعد گھر آتے تھے گھر میں ہوتے تو عام طور پر نیچے مولانا کے دفتر میں آ کر اخبار پڑھتے اور اگر کوئی ضروری بات کرنا ہوتی تو کرتے ایک دن میںمولانا کے پاس گیا تو مولوی عمر فاروق بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے مولانا نے مجھ سے کہا:
مولوی اسحق (مولوی عمر فاروق کی طرف اشارہ کر کے) آپ ہیں مولانا عمر فاروق غزنوی آٹھ نو مربعے آپ کی زرعی زمین ہے۔ اچھی خاصی رقم بینک میں جمع ہے ٹیوب ویل ٹریکٹر سب اللہ نے دیا ہے آپ ایک ہفتے بعد کپڑے بدلتے ہیں اور دو سال کے بعد ٹوپی خریدتے ہیں۔
میں بھی ہنس پڑا اور مولوی عمر فاروق بھی ہنس پڑے اور بولے:
نہیں ابا جی ہفتے کے بعد تو نہیں چار دن کے بعد کپڑے بدلتا ہوں مولانا مسکرائے اور فرمایا دوسرے دن بدلنے کی ہمت نہیں پڑتی‘‘۔ (نقوش عظمت رفتہ:70)
مولوی عمر فاروق نے 22جون 1978ء کو لاہور میں انتقال کیا اور اپنے والد مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے پہلو میں قبرستان میانی میں دفن ہوئے۔
سید ابوبکر غزنوی
مولانا سید ابوبکر غزنوی 1927ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے دینی تعلیم کا آغاز اپنے والد بزرگوار مولانا سید محمد داؤد غزنوی سے کیا دنیوی تعلیم میں ایم اے اسلامیات ۔ ایم اے عربی اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ دینی تعلیم میں اپنے والد کے علاوہ مولانا شریف اللہ خان، مولانا محمد عبدہ اور مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی سے استفادہ کیا۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے بعد میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں شعبہ اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے وہاںکچھ مدت تدریسی خدمات انجام دیں اس کے بعد آپ کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
مولانا سید ابوبکر غزنوی بڑے عبادت گزار، صوفی منش اور وسیع المطالعہ انسان تھے بڑے وسیع الاخلاق، بردبار ذہین طباع اور وسیع المعلومات عالم دین تھے۔
16دسمبر 1963ء کو مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے انتقال کیا مولانا غزنوی جمعیۃ اہلحدیث مغربی پاکستان کے امیر تھے چنانچہ ان کی جگہ مولانا محمد اسمٰعیل السلفی کو امیر مقرر کیا گیا مولانا محمد اسمٰعیل السلفی پہلے ناظم اعلیٰ تھے اور مولانا سید ابوبکر غزنوی کو مولانا سلفی کی جگہ جمعیۃ اہلحدیث کا ناظم اعلی مقرر کیا گیا مگر آپ زیادہ دیر تک اس عہدے پر نہ رہ سکے اور مولانا محمد اسمٰعیل نے انہیں ناظم اعلیٰ کے عہدے سے برطرف کر دیا جس سے جماعت اہلحدیث انتشار کا شکار ہو گئی۔ مولانا سلفی مرحوم نے ان کی جگہ میاں فضل حق مرحوم جو اس سے پہلے مدرسہ جامعہ سلفی کمیٹی ہو گئے تھے اب جمعیۃ اہلحدیث مغربی پاکستان کے ناظم اعلیٰ بن گئے جمعیۃ اہلحدیث ایک دینی و مذہبی جماعت تھی سیاسی نہ تھی اس اہم عہدہ پر ایک جید عالم دین کا ہونا ضروری تھا میاں فضل حق مرحوم پابند صوم و صلوٰۃ تھے مگر عالم دین نہ تھے اس کے بعد مولانا سید ابوبکر غزنوی ایک طرح سے جمعیۃ اہلحدیث سے علیحدہ ہو گئے اور جمعیۃ اہلحدیث سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھا۔ مولانا محمد علی جانباز لکھتے ہیں:
’’میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی وجہ تھی کہ سید ابوبکر صاحب نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’سیدی و ابی‘‘ میں اپنے والد محترم مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے ’’اہلحدیث‘‘ ہونے کا کہیں اس انداز سے ذکر نہیں کیا جتنا کہ وہ اہلحدیث ہی کے حوالے سے معروف تھے اور جتنی انہوں نے امیر جمعیۃ اہلحدیث پاکستان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دی تھیں۔ بہر حال یہ بھی
ایک جماعتی سانحہ تھا‘‘۔(تذکرہ علماء اہلحدیث:81/2)
لاہور میں حکیم محمد سعید شہید نے سیرت کانفرس کا انعقاد کیا اس کے ایک اجلاس میں راقم محترم حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم کے ساتھ شریک اجلاس ہوا اجلاس کی اس نشست میں مقررین میں امام کعبہ شیخ عبداللہ بن سبیل رحمہ اللہ، جسٹس محمود الرحمن سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور مولانا سید ابوبکر غزنوی شامل تھے۔
امام کعبہ نے سب سے پہلے عربی میں تقریر کی اور ان کی تقریر کا اردو ترجمہ ایک صاحب نے کیا ان کا نام اس وقت ذہن میں نہیں رہا۔ دوسرے نمبر پر جسٹس محمود الرحمن نے تقریر کی جسٹس صاحب نے انگریزی زبان میں تقریر کی جس کا ترجمہ نہیں سنایا گیا تھا تیسرے نمبر پر مولانا سید ابوبکر غزنوی کی تقریر تھی آپ کی تقریر کا عنوان تھا اسلام کا مالیاتی نظام اور سید صاحب نے بھی انگریزی میں تقریر کی آپ کی تقریر میں ایسی روانی تھی کہ سامعین میں جو انگریزی زبان پر عبور رکھتے تھے تالیاں بجا بجا کر سید صاحب کو داد دی۔
تقریر ختم ہونے کے بعد راقم اور حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم سید صاحب کو ملے بڑی محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آئے میں نے عرض کی کہ آپ نے جمعیۃ اہلحدیث سے علیحدگی کیوں اختیار کی جس جماعت کی آبیاری اور اس کو فعال اور منظم بنانے میں آپ کے والد بزرگوار مولانا محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی محنت کی۔
سید صاحب نے فرمایا:
’’میں خود علیحدہ نہیں ہوا بلکہ علیحدہ کیا گیا ہوں اور میں نے اب جماعت اہلحدیث سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی ہے میرا ایک اصول ہے کہ میں نے جو کام کرنا ہے اس کو کرنا ہے اور جماعت اہلحدیث سے جو علیحدہ ہوا ہوں اب میرا ان سے کسی قسم کا تعاون نہیں ہے اور اس میں ذرہ برابر لچک نہیں ہے‘‘۔
مولانا سید ابوبکر غزنوی قدرت کی طرف سے اچھا دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے روشن فکر اور سلجھا ہوا دماغ پایا تھا۔ حافظ بہت قوی تھا ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ تفسیر، حدیث، تاریخ پر ان کا مطالعہ بہت زیادہ تھا ادب عربی کا بہت اعلی اور ستھرا انداز رکھتے تھے ان کی تقریر بڑی شستہ ہوتی تھی وہ فطری انشا پرداز تھے تحریر میں برجستگی ملائمت اور روانی ہوتی تھی۔
مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے انتقال کے بعد ان کی مسند تحدیث و تدریس کے وارث ہوئے اور دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور کے مہتمم مقرر ہوئے خود لکھتے ہیں کہ:
’’والد علیہ الرحمۃ کا انتقال 16دسمبر 1963ء کو ہوا اور اس کے بعد دارالعلوم کی ذمہ داری اس بندہ عاجز کو سونپی گئی۔ راقم الحروف اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی کی وجہ سے سید عبداللہ غزنوی اور امام عبدالجبار غزنوی کی مسند پر بیٹھنے کا اپنے آپ کو کسی طرح بھی اہل نہیں سمجھتا تھے لیکن اس بات کے پیش نظر کہ بزرگوں نے کتاب و سنت کا جو فیض جاری کیا ہے اور مدتوں سے جاری ہے کہیں بند نہ ہو جائے اس ذمہ داری کو قبول کیا۔
فتشبہوا ان لم تکونوا مثلھم
ان التشبہ بالکرام کرام
اگر تم ان جیسے نہ ہو سکو تو ان کا روپ ہی دھار و بزرگوں کا روپ دھارنا بھی ایک سعادت اور شرف کی بات ہے۔‘‘ (داؤد غزنوی:456)
مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے یکم اپریل 1927ء کو امرتسر سے ہفت روزہ توحید جاری کیا جو یکم مئی 1929ء تک جاری رہا۔ مولانا سید ابوبکر غزنوی نے جولائی 1965ء میں لاہور سے ہفت روزہ توحید جاری کیا اس کے ناشر مولوی عمر فاروق غزنوی تھے اور نگران پروفیسر سید ابوبکر غزنوی اور اس کے ایڈیٹر مولانا محمد اسحق بھٹی تھے لیکن یہ اخبار صرف سات ماہ تک جاری رہا۔
مولانا سید ابوبکر غزنوی بڑے علم و دوست عالم دین تھے ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین بین الاقوامی شہرت کے مالک مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مرحوم و مغفور سے آپ کے دوستانہ تعلقات تھے مولانا ابوالحسن علی ندوی سید صاحب مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’تقسیم ملک کے بعد ایک مرتبہ میں لاہور میں حاضر ہوا تو ہمارے فاضل مولانا عطاء اللہ حنیف صاحب اور ان کے رفقاء نے ازراہِ محبت جامعہ سلفیہ میں میرے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی اور اپنی جماعت کے ممتاز لوگوں اور فضلاء ندوہ کو مدعو کیا میں حاضر ہوا تو میری حیرت و ندامت کی انتہا نہیں رہی کہ مجھے وہاں ایک سپاسنامہ پیش کیا گیا اور مولانا داؤد غزنوی صاحب جو میرے استاد اور بزرگوں کی صف میں تھے خود پڑھا۔ یہ ان کی بے نفسی اور تواضع کی انتہا تھی اور اس سے اس تعلق کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جو ان کو سید صاحب اور ان کے خاندان اور مسلک سے تھا۔ 1962ء میں جس سال رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد پڑی وہ حج کرنے آئے تھے رابطہ کیلئے اجلاس میں بھی وہ شریک ہوئے اور اس کے رکن منتخب ہوئے مدینہ طیبہ کے ہوٹل میں ان کی خدمت میں کئی بار حاضری ہوئی اور وہاں ان کو قلبی دورہ پڑا طبی امداد بروقت پہنچی اللہ نے فضل فرمایا اور وہ بخیریت لاہور واپس ہوئے یہ ان کی آخری زیارت و ملاقات تھی جو نصیب ہوئی۔
لاہور کے قیام کے زمانہ میں ان کے صاحبزادے مولانا سید ابوبکر غزنوی سے تعارف ہوا وہ اس وقت غالباً اسلامیہ کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر تھے معلوم ہواکہ ان کو عربی ادب کا بڑا اچھا ذوق ہے خاندانی اثرات ان میں آئے ہیں طبیعت میں بڑی صلاحیت، دین کا ذوق اور مردان خداکی تلاش اور اصلاح حال اور ترقی باطن کی فکر رہتی ہے میں نے براہِ راست یا کسی واسطہ سے اپنی عربی کی بعض تصنیفات پیش کی بڑی مسرت کا اظہار کیا اور اندازہ ہوا کہ عربی کا صحیح ذوق رکھتے ہیں جو اس وقت یونیورسٹیوں کے فضلاء تو الگ رہے عربی مدارس کے اساتذہ میں بھی کمیاب ہے اس کے بعد وہ برابر اپنے عہدے پر ترقی کرتے رہے۔ وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے
صدر ہو گئے۔ میں برگ سبزست تحفہ درویش کے طور پر اپنی عربی اردو تصنیفات کسی ذریعہ سے پہنچاتا رہا کہ ان کو اہل نظر اور اہل ذوق بھی سمجھتا تھا اور مصنفین اور اہل قلم کی یہ جماعتی اور شاید عالمی کمزوری ہے کہ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی تحریریں اور نقوش قلم اہل نظر اور اہل ذوق کی نظر سے گزریں میں نے مولانا اسمٰعیل شہید کی تقویۃ الایمان کا ترجمہ رسالۃ التوحید کے نام سے عربی میں کیا تو ان کی خدمت میں بھیجا کہ وہ خود اس مسلک کے حامل اور داعی ہیں اور ان کی کتاب اپنے والد ماجد کے تذکرہ میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے از راہ محبت میری بھی ایک تحریر شامل کی تھی اس کتاب کے ساتھ جو خط آیا وہ درج کیا جاتا ہے افسوس ہے کہ خط پر کوئی تاریخ نہیں ہے لیکن وہ دارالعلوم تقویۃ الاسلام لاہور معروف بہ مدرسہ غزنویہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور سے لکھا گیا:
کئی برسوں سے روح آپ کی متلاشی اور جی آپ سے ملنے کا آرزو مند ہے ایک یا دو خط بھی شاید رابطہ عالم اسلامی کے پتہ پر آپ کو بھیجے تھے۔ آپ کی خدمت اقدس میں کچھ وقت علمی اور روحانی استفادہ کے لئے رہنا چاہتا ہوں اور آپ سے ملاقات کی کیا تدبیر کروں؟ مستقبل قریب میں پاکستان آنے کا کوئی پروگرام آپ کا ہے؟
البعث الاسلامی رابطہ عالم اسلامی کے اخبارات اور مجلات بندہ عاجز کو نہیں ملتے اور انہیں دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ والد علیہ الرحمۃ پر ایک کتاب حال ہی میں راقم نے مرتب کی ہے جس میں آپ کی بھی ایک تحریر شامل ہے آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں قبول فرمائیے۔
اگر مناسب خیال فرمائیں تو البعث الاسلامی میں تبصرہ میں فرما دیجئے آپ کی کتاب رسالۃ التوحید مل گئی تھی ترجمہ بہت حسین اور معیاری ہے کرم فرمائی کے لئے ممنون ہوں۔
نیاز مند، سید ابوبکر غزنوی
مولانا ابوبکر غزنوی اس کے بعد دینیات یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر منتخب ہوئے جس کے وہ ہر طرح سے اہل تھے۔ 1976ء میںرباط میں جامعات اسلامیہ (اسلامک اسٹڈیز) کے وفاق جمعیۃ الجامعات الاسلامیہ کا جلسہ تھا جس کا نام اب رابطہ الجامعات الاسلامیہ ہے میں بھی ناظم ندوۃ العلماء کی حیثیت سے اس کا رکن اور جلسہ میں شریک تھا وہاں پاکستان سے جو مندوب آئے تھے ان سے میںنے پوچھا کہ اور کن مندوبین کے آنے کی توقع ہے اس لئے کہ اب پاکستان احباب و فضلاء سے ملاقات کے یہی مواقع رہ گئے ہیں کہ ہندوستان و پاکستان سے باہر کسی علمی انجمن میںملاقت ہو جائے انہوں نے کہا کہ دینیات یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر مولانا ابوبکر غزنوی بھی شرکت کے لئے آ رہے ہیں میں بڑا خوش ہوا کہ ہم دونوں دوست ایک دوسرے سے ملیں گے اور عہد کہن کو تازہ کریں گے اچانک ایک دن یہ خبر سنی کہ وہ لندن میں ایک موٹر کے حادثہ میں دوچار ہوئے اور اس سے جانبر نہ ہو کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔
وما ندری نفس بأی ارض نموت۔
نعش پاکستان لے جائی گئی اور غالباً وہیں اپنے خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔ ان کی باطنی صلاحیتوں، علمی کمالات اور خاندانی اثرت اور طلب و جستجو کو دیکھ کر تاہی کایہ مشہور مصرع پڑھنا پڑتا ہے: خوش درخشیدوے دولت مستعجل بود‘‘۔ (پرانے چراغ:282,280,279/2)۔
مولانا سید ابوبکر غزنوی نے 16۔ اپریل 1976ء کو ایک حادثے سے لندن میں وفات پائی۔ چار دن بعد 20۔ اپریل کو نعش لاہور پہنچی اور میانی صاحب کے قبرستان میں اپنے والد مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے پہلو میں دفن ہوئے۔
تصانیف
مولانا سید ابوبکر غزنوی ایک کامیاب مصنف بھی تھے آپ کی تصانیف درج ذیل ہیںآپ کی تمام تصانیف مکتبہ غزنویہ شیش محل روڈ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوئیں۔
1۔ حقیقت ذکر الٰہی
2۔ اسلام اور آداب معاشرت
3۔ اسلام میں گردش دولت
4۔ عصر حاضر میں استاذ اور شاگرد کا رشتہ
5۔ اسلامی ریاست کے چند ناگزیر تقاضے۔
6۔ کتابت حدیث عہد نبوی ﷺ میں
7۔ خطبات جہاد
8۔ واقعہ کربلا
9۔ اس دنیا میں اللہ کا قانون جزا و سزا
10۔ قرآن مجید کے صوری اور معنوی محاسن (ایک اجمالی جائزہ)۔
11۔ محمدی انقلاب کے چند خد و خال
12۔ سیدی و ابی (مولانا سید محمد داؤد غزنوی رحمہ اللہ)۔
یہ کتاب 464صفحات پر مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے حالات اور ان کے علمی و سیاسی کمالات پر مشتمل ہے۔ 214صفحات میں 22مشہور اہل علم و قلم کے تاثراتی مقالات شامل ہیں جن میں مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا غلام رسول مہر، مولانا محمد حنیف ندوی، ڈاکٹر سید عبداللہ، شورش کاشمیری، رئیس احمد جعفری، اور مولانا محمد اسحق بھٹی جیسے اساطین علم و فن اور صاحب قلم شامل ہیں۔
215 تا 464 صفحات میں مولانا سید ابوبکر غزنوی نے سیدی و ابی کے عنوان سے مولانا سید داؤد غزنوی کے حالات زندگی اور ان کے علمی کمالات پر روشنی ڈالی ہے۔ شروع میںاپنے جد امجد مولانا سید عبداللہ غزنوی اور اپنے دادا امام مولانا سید عبدالجبار غزنوی کے حالات بھی قلمبند کئے ہیں۔ یہ کتاب پہلی بار دسمبر 1974ء میں شائع ہوئی۔

حافظ محمد زکریا غزنوی
مولانا حافظ محمد زکریا بن مولانا عبدالرحیم بن مولانا سید عبداللہ غزنوی علمائے فحول میں سے تھے مولانا عبدالعظیم انصاری ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’مولانا حافظ زکریا غزنوی علم و فضل میں یگانہ تھے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سے حاصل کی اور اپنے آباؤ اجداد کے مدرسہ غزنویہ امرتسر میں بھی اپنے خاندان کے بزرگوں سے فیضیاب ہوئے۔
آپ کے والد گرامی مولانا عبدالرحیم غزنوی نے مولانا فیض اللہ بھوجیانی سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے صاحبزادے حافظ زکریا کو دامادی کا شرف بخشیں چنانچہ مولانا فیض اللہ مرحوم نے بخوشی یہ رشتہ دینا قبول فرما لیا۔ اس طرح غزنوی اور بھوجیانی خاندانوں کا تعلق استوار ہو گیا۔ علم و فضل اور تقویٰ و عبادت کے میدان میں ان دونوں خاندانوں کی برتری اور تفوق عیاں ہے۔ حافظ زکریا غزنوی اپنے والد گرامی مولانا عبدالرحیم غزنوی کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے۔ صادق گنج کی جامع مسجد کی خطابت بھی آپ کے سپرد تھی آپ نے ایک دینی مدرسہ بھی جاری کیا جس میں قرآن و حدیث اور درس نظامی کی تعلیم دی جاتی تھی خود بھی بساط تعلیم پر فائز رہے آپ نامور عالم دین تھے فقہ و اصول اور علوم عربیہ میں یدطولیٰ رکھتے تھے رفیع المرتبت بزرگ، عبادت گزار، متدین، متقی، اور صاحب فضل و کمال تھے۔ آپ کی وفات 30دسمبر 1980ء کو صادق گنج میں ہوئی۔ (تذکرہ علمائے بھوجیاں:263, 262)
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
سخن ہائے گفتنی
اللہ رب العزت نے اپنے بعض بندوں پر اپنی نعمتوں کا اتمام اس طرح کیا کہ انہیں علم و عمل سے بہرہ وافر دیا اورا نکے بعد ان کے خاندان میں علم کی تخم ریزی ہوئی اور دو تین پشتوں تک مسلسل اس خاندان کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
قارئہ ہند کے متعدد خانوادے اس نعمت بیکراں سے بہرئہ یاب ہوئے اسی سلسلہ طلائے ناب میں غزنی کے ایک مبارک خاندان کا شمار بھی ہے جسکی نسبت حضرت عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے ۔
سید عبداللہ غزنوی اللہ کے ولی، اسلام کے خادم اور اپنے زمانے کے بڑے صاحب عزیمت بزرگ تھے۔ جب غزنی سے امیر ریاست نے علماء سوء کے بہکاوے میں آکر جلاوطن کیا تو آپ نے امرتسر کو اپنا جائے سکونت قرار دیا ، آپ کی سیرت کی سب سے بڑی خوبی نفس امّارہ کو زیر کرناتھا حتی کہ آپ نفس لوامہ کے مرحلے سے گزر کر نفس مطمئنہ کے مقام پر پہنچ گئے۔
مشہور محدّث اور سنن ابی داؤد کے شارح الامام ابو الطیب محمد شمس الحق الصدیقی الدیانوی العظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف ’’غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد‘‘ کے مقدمہ میں سید عبداللہ غزنوی کا ذکر دلّی عقیدت و احترام کے ساتھ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ آپ ہیں شیخ ، علامہ، سید، سند ، مقدس کمالات والے، آخری زمانہ میں جو عزیز الوجود ہیں ۔ مولانا اور فضل کے اعتبار سے ہم سے بہتر محمد اعظم بن محمد بن محمد بن محمدشریف معروف بہ عبداللہ غزنوی امرتسری ۔آپ تھے اللہ کو پہچاننے والے، اس کی رضا کیلئے سب کچھ کرنیوالے، کثرت ذکر کرنیوالے عابد، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے متذلل ، خاشع ، خاضع ، پرہیز گار ، متواضع ، حنیف ، کامل ، بارع، ملہم، مخلص صدیق کریم کہہ کر مخاطب کئے گئے۔ سخاوت کرنیوالے، رجوع کرنیوالے، حلیم ، متوکل ،متین ، صابر، قناعت کرنیوالے، انہیں اللہ کی راہ میں کسی کے ملامت کی پرواہ کبھی نہ ہوئی ، اللہ کی خوشنودی کو اپنے اہل وطن ، اپنے مال و دولت ، اپنے اہل و عیال اور خود اپنے نفس پر ترجیح دینے والے، مشہور احوال و مقامات والے، بڑے بڑے معرکوں والے ۔آپ اللہ کے دین کی مدد کیلئے صابر محتسب بن کر اٹھے، توحید و سنت کا باغ لگانے والے، میدان اخلاص کے شہسوار ، زاہدوں کے پیشوا، بندوں میں یکتا، زمانے کے امام ، رحمن کے ولی، قرآن کے خادم ، اللہ کاتقرب حاصل کرنیوالے ، آپ تمام احوال میں اللہ عزوجل کے ذکر میں مستغرق رہتے ، حتی کہ آپکا گوشت ، آپکی ہڈیاں ، آپکے اعصاب ، آپکے بال اور آپکا پورابدن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور اسکے ذکر میں فنا ہونے والا تھا‘‘۔ (غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ج1/12۔13ط مطبع انصاری دہلی1305ھ/1888ء)
سید عبداللہ غزنوی کی بدولت امرتسر ایک روحانی مرکز بن گیا جہاں دور دور سے تشنگان علم ومعرفت اس ’’چشمئہ خورشید‘‘ کی انوار و تجلیات سے فیضاب ہونے کے لئے امڈتے چلے آتے تھے۔ پھر اس ’’چشمہء خورشید‘‘ سے جو لوگ فیضاب ہوئے، ان میں بھی کیسے کیسے باکمال و اصحاب دانش موجود ہیں ۔
مجمع فضائل ومناقب حافظ ابو محمد ابراہیم آروی بانی مدرسہ احمدیہ آرہ، شیخ الحدیث استاذ پنجاب حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی ، جامع العلوم علامہ رفیع الدین محدث شکرانوی ، ادیب شہیر قاضی طلا محمد پشاوری ، شرف العلماء مولانا محی الدین لکھوی ، عالم جلیل القدر مولانا ابو عبدالرحمن عبداللہ پنجابی گیلانی، عالم کبیر مولانا غلام نبی سوہدروی ،(مولانا مسعود عالم ندوی کے نانا بزرگوار مولانا عبدالصمد اوگانوی کے استاذ علم و معرفت )شاہ ممتاز الحق بہاری رحمۃ اللہ علیہم نے اس دانش گاہ علم و عرفان سے استفادہ کیا۔
منقول ہے کہ جب مولانا رفیع الدین شکرانوی، حضرت عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا
’’شمادر اثناء راہ بودی کہ مراالہام شد کہ
مژدہ باد کہ مسیحا نفسے می آید ‘‘
اور اس کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ ’’از دست شما اشاعت توحید وسنت بسیار خواہد گشت انشاء اللہ تعالیٰ‘‘ اور پھر دنیا نے مولانا رفیع الدین کی خدمت دین و سنت کو ملاحظہ بھی کیا 1۔
سید عبداللہ غزنوی کثیر الاولاد تھے ، تمام صاحبزادے علم دینی کی دولت سے مالامال ، فرزند اکبر مولانا محمد غزنوی نے انکی حیات ہی میں جان جانِ آفریںکے سپرد کی ۔ علامہ اقبال اپنے مکتوب گرامی بنام محمد دین فوقؔ19دسمبر1922ء میں رقمطراز ہیں :
’’مولوی عبداللہ غزنوی درس حدیث دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کئے جانے کی خبر ملی ۔(2)ایک منٹ تامل کیا، پھر طلباء کو مخاطب کرکے کہا ’’برضائے او راضی ہستیم بیائید کہ کا رخود کیم ‘‘(ہم اس کی رضا پر راضی ہیں آؤ ہم اپنا کام کریں) ۔یہ کہہ کر پھر درس میں مشغول ہوگئے‘‘۔(انوار اقبال :71-72)
سبحان اللہ کیا پاک روحیں تھیں۔
سید عبداللہ غزنوی کے بارہ صاحبزادوں کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہوتی ہے ، جن کے نام کتاب ہذا میں بھی اپنے محل پر فاضل مصنف نے رقم کئے ہیں ، مگر مکتوب گرامی سید نذیر حسین محدث دہلوی بنام امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی میں انکے ایک صاحبزادے ’’عطا اللہ ‘‘کا ذکر آیا ہے او ریہ نام سید عبداللہ غزنوی کے سلسلہ اولاد کے ضمن میں انکے کسی سوانح نگار نے رقم نہیں کیا ہے ۔’’ مکاتیب نذیریہ ‘‘ تو ہماری نگاہ سے نہیں گزری ، یہ مکتوب گرامی مولانا محمد عزیر سلفی نے ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘ (ص:44) میں معرب نقل کی ہے ، ضروری ہے کہ اس تحریر کو یہاں درج کر دیا جائے۔وھو ھذا۔
1۔ مولانا رفیع الدین شکرانوی ؒ کی پاکیزہ سیرت کے جلوے راقم نے اپنی کتاب ’’آسمان علم و فضل کے درخشاں ستارے ‘‘ میں رقم کیے ہیں یہ کتاب ابھی غیر مطبوعہ ہے۔
2۔قتل نہیں بلکہ وفات کی خبر ملی ۔
’’اعلم ان الشیخ عطاء اللہ (1) الذی یذھب بھذا المکتوب الیک ھو ابن اخی الشیخ عبداللہ الغزنوی المرحوم (1298ھ
ـ)، یحضر عندک لبعض الحوائج الدنیویۃ (أی حوائج النکاح )۔فالمر جومنک أن تسد
حاجاتہ تنال الثواب عنداللّٰہ ‘‘۔
سید عبداللہ غزنوی کے ایک صاحبزادے مولانا عبدالجبار الملقب بہ امام صاحب ہیں ۔ جو اپنے والد کے مرحلہ دعوت وعزیمت میں شریک کار بھی ہیں علامہ شبلی نعمانی امرتسر میں مولانا عبدالجبار کی مجلس وعظ میں شریک ہوئے ۔ فرماتے تھے کہ :
’’ یہ شخص جب اللہ کہتا تھا تو دل چاہتا تھا کہ سر اسکے قدموں پر رکھ دوں ‘‘۔
امام شمس الحق ڈیانوی اور امام عبدالجبار غزنوی کے درمیان بڑا ربط تھا ۔ دونوں خلوص وللّٰہیت کے رشتے سے منسلک تھے بقول مولانا فقیر اللہ پنجابی ’’ولی راولی می شناسد‘‘(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ:11)
امام عبدالجبار اپنے مکتوب گرامی بنام امام شمس الحق رقمطراز ہیں کہ :
’’ معدن محاسن اخلاق و شیم ، مجمع مکارم ، اعمال و کرم اخ مکرم حب محترم مکرمی مولوی محمد شمس الحق صاحب موفق خیرات و حسنات بودہ معزز دارین و مکرم کونین باشند‘‘۔(یادگار گوہری :40-41)
ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :
’’اخی فی اللہ وحبی لوجہ اللہ ورفیقی فی سبیل اللہ عالی مراتب مکرمی مولوی شمس الحق صاحب‘‘۔(ایضاً:143)
جبکہ امام ابو الطیب شمس الحق، امام عبدالجبار کے نام اپنے نامہ گرامی میں لکھتے ہیں ۔
1۔ عین ممکن ہے کہ یہ ’’مکاتیب نذیریہ‘‘ یا ’’حیاۃ المحدث‘‘ کے کاتب کی غلطی ہو اور نام عطا ء اللہ کی بجائے عبداللہ ہو۔واللہ اعلم ۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محمد و آلہ واصحابہ اجمعین۔ از عاجز فقیر حقیر محمد شمس الحق عفی عنہ۔ بگرامی خدمت ذی درجت جامع الفضائل و الکمالات ذوالمناقب الجلیلہ اخی مکرمی مخدومی مولانا عبدالجبار صاحب متع اللہ تعالی المسلمین بطول بقانکم و یمن علینا بشرف لقاتکم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ورضوانہ للہ الحمد والمنۃ کہ ہم مع الخیر ہیں اور صحت آپ کی حق تعالی سے چاہتے ہیں۔ دو ہفتہ سے زیادہ ہوا کہ گرامی نامہ آپ کا پاکر ممنون و مشکور ہوئے۔ جزاکم اللہ تعالی خیراً۔ آپ کے مکاتیب جس وقت آتے ہیں ان کے مطالعہ سے اس قدر حظ و افر حاصل ہوتا ہے کہ ہم اس کو بیان نہیں کرسکتے مکرر سہ کرر اس کو دیکھتے ہیں تاہم تسکین نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے میرے دل میں آپ کی محبت و مودت و عظمت اس قدر بھر دی ہے کہ جسکی حالت خود ہی رب العزت جانتا اور جو جملہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے بحق علی بن المدینی رحمتہ اللہ تعالی کے کہا تھا کہ ما استصغرت نفسی الا عندا بن المدینی ویساہی ہم آپ کی شان میں کہتے ہیں کہ ما استصغرت نفسی الا عند عبدالجبار۔ فہم معنی کتاب اللہ تعالی و سنت رسول اللہ ﷺ جو آپ کو حق تعالی کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ فہم حضرت شیخ دہلوی رحمۃ اللہ تعالی کے کسی تلامذہ کو عطا نہیں ہوا ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء اور اس امر کو ہم نے اپنے متعدد تحریر میں بیان کیاہے‘‘۔(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ ص 10-11مطبوعہ مطبع شوکت الاسلام بنگلور)
اس مکتوب گرامی کو نقل کرنے کے بعد امام عبدالجبار غزنوی کے تلمیذ رشید مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی لکھتے ہیں ۔
’’یہ مولانا شمس الحق صاحب وہی حضرت معروف و مشہور بہ نزدیک و دور لا عند علماء الہند فقط بل عند علماء النجد والیمن و مصر و مکۃ المعظمہ وغیر باہیں …و مسلم عندالکل ہیں اور جو ان سے تعارف رکھتا ہے وہ ان کو صادق و صالح و موصوف بصفات عدیدہ جانتا ہے۔ پس ایسے موصوف شارح و خادم کتاب و سنت کی شہادت صادق بہ نسبت مولانا موصوف غزنوی کے کس درجہ کی وقعت رکھتی ہے اور آپ کو یہ اعتقاد اس درجہ کا مولانا موصوف غزنوی کی نسبت اس وجہ سے ہوا کہ آپ شارح حدیث و محقق ہیں، آپ کے مزاج میں تعلی و تفوق و کبر کا رائحہ تک نہیں ہے۔ بہت سادہ سیدھے سچے مسلمان ہیں … پس یہ مدح سچی صرف ایک دو شخص کی نہ رہی بلکہ کل علماء عرب و عجم کی ہوئی جو مولانا عظیم آبادی کو صادق جانتے ہیں ‘‘۔(حوالہ مذکور ص11)
امام عبدالجبار غزنوی سے جن کبار علمائے ذی اکرام نے استفادہ علمی کیا ان میں بالخصوص درج ذیل لائق تذکرہ ہیں ۔
مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی ، مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا فضل اللہ مدراسی (م1361ھ)، مفتی محمد حسین (حنفی) امرتسری، قاضی محمد خان پوری، مولانا محمد حسین ہزاروی ، مولانا حکیم عبیدالرحمان عمر پوری رحمۃ اللہ علیہم ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے حالات پر مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی نے مستقل کتاب تالیف فرمائی تھی، مگر افسوس کہ زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی(1)
سید عبداللہ غزنوی کے پانچ صاحبزادے اور تین پوتوں نے حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بارگاہ علم سے استفادہ کیا ۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ان اخلاف سعید کو نعمت خداوندی کے طور پر ملا۔ محدث شمس الحق ڈیانوی نے ’’غایۃ المقصود‘‘ میں سید عبداللہ غزنوی اور ان کے چار صاحبزادوں کا شمار سید نذیر حسین کے طبقہ اولی کے تلامذہ میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
1۔ حضرت موصوف کے قدرے تفصیلی حالات راقم الحروف نے قلمبند کئے ہیں جو کہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور بابت 2اگست ، 9اگست 2002ء ، جلد 54شمارہ30۔31میں اشاعت پذیر ہوچکا ہے شائقین اس طرف مراجعت فرماسکتے ہیں ۔
’’الشیخ الاجل العارف مولانا عبداللہ الغزنوی (رحمہ اﷲ) ومن بنیہ الاتقیاء الصالحین اولی الفضل و الکمال اربعۃ اخوۃ: محمد المتوفی سنۃ ست و تسعین بعد الالف والمائتین۔ و عبدالجبار و عبدالواحد عبداﷲ‘‘ (غایۃ المقصود)۔
سید عبداللہ غزنوی کے ایک حفید سعید مولانا عبدالاول بن محمد غزنوی ہیں، جن کی خدمت حدیث و سنت لائق قدر و ستائش ہے ایک اور حفید سعید مشہور انام سید محمد داؤد غزنوی ہیں جو ہندوستان کے بلند پایہ زعیم و رہنما، عالی مرتبت فقیہ و محدث، صاحب کمال خطیب اور وسیع المشرب عالم دین تھے۔ ان کے روابط ہر طبقہ علم و فکر کے سربرآوردہ علماء و افاضل سے استوار تھے اور ہر طبقے میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بقول مولانا ابو الاعلی مودودی:
’’وہ بہرحال ایک عالم و فاضل آدمی تھے انکے علم و فضل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جو شخص ان سے ملتا تھا وہ انکے علم و فضیلت اور شریفانہ طرز سے متاثر ہوتا تھا‘‘۔
والئ سعودی عرب ملک ابن سعود رحمہ اللہ بھی ممدوح کے معتقد و مداح تھے۔ مولانا سید داؤد غزنوی کے ایک صاحبزادے سید ابوبکر غزنوی ہیں جو اپنے زہد و ورع اور علم و فضل کی بناء پر علمی حلقوں میں مشہور و معروف تھے اخلاص و للّٰہیت میں بھی کمال حاصل تھا۔ ہمارے عصر کے مشہور فاضل و مبلغ ڈاکٹرملک غلام مرتضی خان(1) صاحب کو موصوف سے رشتہ بیعت و عقیدت حاصل تھا۔سید ابوبکر غزنوی نے چمنستان حیات کی صرف 49 بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ 16۔ اپریل 1976ء کو لندن میں ایک حادثے میں وفات پائی۔
غزنی کے اس مبارک خانوادے کی بدولت ارض ہند پر عمدہ اثرات مرتب ہوئے، مجموعی طور پر اس خاندان کے اراکین نے علم حدیث کی نشر و اشاعت کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ صلاح و تقویٰ
1۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب موصوف اس سال اغیار کی چشم بد کاشکار ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔
سے پیراستہ اس خانوادہ کے افراد نے عوام الناس کی اصلاح کیلئے انتھک محنت کی۔ صریرخامہ کو بھی جنبش دے کر اچھا دینی لٹریچر مہیا کیا، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے جلیل القدر تلمیذ رشید امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی تصانیف پہلی مرتبہ اسی خانوادے کی بدولت منصہ شہود پر آئیں۔
برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حلقہ اس خانوادئہ عالی قدر کی خدمت گوناگوں سے فیضاب ہوا، یادش بخیر ناموس رسالت ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے والے شہید اسلام غازی علم الدین کا خانوادہ بھی اسی خاندان کا عقیدت کیش تھا۔
زیر نظر کتاب علمائے غزنویہ کے مبارک تذکرے پر مبنی ہے، جس میں اس خاندان کے افراد علم کا
حسین مرقع پیش کیا گیا ہے، اس تذکرے کے فاضل مؤلف ہمارے محترم ملک عبدالرشید عراقی صاحب ہیں، جن سے مخلصانہ روابط کی ابتداء ان کے نامے مرقومہ 27۔ اگست 1999ء سے ہوئی اور ان مخلصانہ روابط کی شدتوں کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ آج 15۔ اپریل 2001ء تک راقم کے نام ان کے گرامی ناموں کی تعداد 28ہو چکی ہے۔ الحمد للہ یہ تعلق الفت و محبت اور رشتہ انس و عقیدت ہمارے مابین قائم ہے اور دعا ہے کہ ہمیشہ قائم رہے۔(آمین )۔
فاضل مؤلف کا اصل موضوع علمائے اہلحدیث کی تگ و تاز حیات اور ان کی خدمات بوقلموں کا تذکرہ ہے اس ضمن میں انہوں نے ایک کثیر مواد جمع کر دیا ہے جس سے افراد علم آئندہ استفادہ کریں گے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی کی جائے گی۔
ان سطور کے گناہگار راقم کیلئے یہ امر بڑے فرحت و انبساط کا باعث ہے کہ موصوف کی یہ گراں قدر علمی تألیف ’’غزنوی خاندان‘‘ ’’امام شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ پبلشرز‘‘ کے تحت شائع ہو رہی ہے۔
دعا ہے کہ میزان الٰہی میں اس جہد و سعی کو سند قبولیت مل سکے۔ آمین یا رب العالمین۔

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
اس مضمون میں شیخ عطاء اللہ کو مولانا عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کا بیٹا شمار کیا گیا ہے حالانکہ مکاتیب نذیریہ میں صاف لکھا ہوا ہے بھتیجہ ، مذکورہ مضمون میں تعریب شدہ عبارت میں بھی لکھا ہوا ابن اخی عبداللہ غزنوی ۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شیخ عطاء اللہ شیخ عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کے بھتیجے تھے نہ کہ بیٹے ۔واللہ اعلم بالصواب
 
Top