محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
سخن ہائے گفتنی
اللہ رب العزت نے اپنے بعض بندوں پر اپنی نعمتوں کا اتمام اس طرح کیا کہ انہیں علم و عمل سے بہرہ وافر دیا اورا نکے بعد ان کے خاندان میں علم کی تخم ریزی ہوئی اور دو تین پشتوں تک مسلسل اس خاندان کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
قارئہ ہند کے متعدد خانوادے اس نعمت بیکراں سے بہرئہ یاب ہوئے اسی سلسلہ طلائے ناب میں غزنی کے ایک مبارک خاندان کا شمار بھی ہے جسکی نسبت حضرت عارف باللہ سید عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ہے ۔
سید عبداللہ غزنوی اللہ کے ولی، اسلام کے خادم اور اپنے زمانے کے بڑے صاحب عزیمت بزرگ تھے۔ جب غزنی سے امیر ریاست نے علماء سوء کے بہکاوے میں آکر جلاوطن کیا تو آپ نے امرتسر کو اپنا جائے سکونت قرار دیا ، آپ کی سیرت کی سب سے بڑی خوبی نفس امّارہ کو زیر کرناتھا حتی کہ آپ نفس لوامہ کے مرحلے سے گزر کر نفس مطمئنہ کے مقام پر پہنچ گئے۔
مشہور محدّث اور سنن ابی داؤد کے شارح الامام ابو الطیب محمد شمس الحق الصدیقی الدیانوی العظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور تصنیف ’’غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد‘‘ کے مقدمہ میں سید عبداللہ غزنوی کا ذکر دلّی عقیدت و احترام کے ساتھ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’ آپ ہیں شیخ ، علامہ، سید، سند ، مقدس کمالات والے، آخری زمانہ میں جو عزیز الوجود ہیں ۔ مولانا اور فضل کے اعتبار سے ہم سے بہتر محمد اعظم بن محمد بن محمد بن محمدشریف معروف بہ عبداللہ غزنوی امرتسری ۔آپ تھے اللہ کو پہچاننے والے، اس کی رضا کیلئے سب کچھ کرنیوالے، کثرت ذکر کرنیوالے عابد، اللہ کی طرف رجوع کرنے والے متذلل ، خاشع ، خاضع ، پرہیز گار ، متواضع ، حنیف ، کامل ، بارع، ملہم، مخلص صدیق کریم کہہ کر مخاطب کئے گئے۔ سخاوت کرنیوالے، رجوع کرنیوالے، حلیم ، متوکل ،متین ، صابر، قناعت کرنیوالے، انہیں اللہ کی راہ میں کسی کے ملامت کی پرواہ کبھی نہ ہوئی ، اللہ کی خوشنودی کو اپنے اہل وطن ، اپنے مال و دولت ، اپنے اہل و عیال اور خود اپنے نفس پر ترجیح دینے والے، مشہور احوال و مقامات والے، بڑے بڑے معرکوں والے ۔آپ اللہ کے دین کی مدد کیلئے صابر محتسب بن کر اٹھے، توحید و سنت کا باغ لگانے والے، میدان اخلاص کے شہسوار ، زاہدوں کے پیشوا، بندوں میں یکتا، زمانے کے امام ، رحمن کے ولی، قرآن کے خادم ، اللہ کاتقرب حاصل کرنیوالے ، آپ تمام احوال میں اللہ عزوجل کے ذکر میں مستغرق رہتے ، حتی کہ آپکا گوشت ، آپکی ہڈیاں ، آپکے اعصاب ، آپکے بال اور آپکا پورابدن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ اور اسکے ذکر میں فنا ہونے والا تھا‘‘۔ (غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ج1/12۔13ط مطبع انصاری دہلی1305ھ/1888ء)
سید عبداللہ غزنوی کی بدولت امرتسر ایک روحانی مرکز بن گیا جہاں دور دور سے تشنگان علم ومعرفت اس ’’چشمئہ خورشید‘‘ کی انوار و تجلیات سے فیضاب ہونے کے لئے امڈتے چلے آتے تھے۔ پھر اس ’’چشمہء خورشید‘‘ سے جو لوگ فیضاب ہوئے، ان میں بھی کیسے کیسے باکمال و اصحاب دانش موجود ہیں ۔
مجمع فضائل ومناقب حافظ ابو محمد ابراہیم آروی بانی مدرسہ احمدیہ آرہ، شیخ الحدیث استاذ پنجاب حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی ، جامع العلوم علامہ رفیع الدین محدث شکرانوی ، ادیب شہیر قاضی طلا محمد پشاوری ، شرف العلماء مولانا محی الدین لکھوی ، عالم جلیل القدر مولانا ابو عبدالرحمن عبداللہ پنجابی گیلانی، عالم کبیر مولانا غلام نبی سوہدروی ،(مولانا مسعود عالم ندوی کے نانا بزرگوار مولانا عبدالصمد اوگانوی کے استاذ علم و معرفت )شاہ ممتاز الحق بہاری رحمۃ اللہ علیہم نے اس دانش گاہ علم و عرفان سے استفادہ کیا۔
منقول ہے کہ جب مولانا رفیع الدین شکرانوی، حضرت عبداللہ غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت نے فرمایا
’’شمادر اثناء راہ بودی کہ مراالہام شد کہ
مژدہ باد کہ مسیحا نفسے می آید ‘‘
اور اس کی تعبیر یہ بیان فرمائی کہ ’’از دست شما اشاعت توحید وسنت بسیار خواہد گشت انشاء اللہ تعالیٰ‘‘ اور پھر دنیا نے مولانا رفیع الدین کی خدمت دین و سنت کو ملاحظہ بھی کیا 1۔
سید عبداللہ غزنوی کثیر الاولاد تھے ، تمام صاحبزادے علم دینی کی دولت سے مالامال ، فرزند اکبر مولانا محمد غزنوی نے انکی حیات ہی میں جان جانِ آفریںکے سپرد کی ۔ علامہ اقبال اپنے مکتوب گرامی بنام محمد دین فوقؔ19دسمبر1922ء میں رقمطراز ہیں :
’’مولوی عبداللہ غزنوی درس حدیث دے رہے تھے کہ ان کو اپنے بیٹے کے قتل کئے جانے کی خبر ملی ۔(2)ایک منٹ تامل کیا، پھر طلباء کو مخاطب کرکے کہا ’’برضائے او راضی ہستیم بیائید کہ کا رخود کیم ‘‘(ہم اس کی رضا پر راضی ہیں آؤ ہم اپنا کام کریں) ۔یہ کہہ کر پھر درس میں مشغول ہوگئے‘‘۔(انوار اقبال :71-72)
سبحان اللہ کیا پاک روحیں تھیں۔
سید عبداللہ غزنوی کے بارہ صاحبزادوں کے اسمائے گرامی سے آگاہی ہوتی ہے ، جن کے نام کتاب ہذا میں بھی اپنے محل پر فاضل مصنف نے رقم کئے ہیں ، مگر مکتوب گرامی سید نذیر حسین محدث دہلوی بنام امام ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی میں انکے ایک صاحبزادے ’’عطا اللہ ‘‘کا ذکر آیا ہے او ریہ نام سید عبداللہ غزنوی کے سلسلہ اولاد کے ضمن میں انکے کسی سوانح نگار نے رقم نہیں کیا ہے ۔’’ مکاتیب نذیریہ ‘‘ تو ہماری نگاہ سے نہیں گزری ، یہ مکتوب گرامی مولانا محمد عزیر سلفی نے ’’حیاۃ المحدث شمس الحق و اعمالہ‘‘ (ص:44) میں معرب نقل کی ہے ، ضروری ہے کہ اس تحریر کو یہاں درج کر دیا جائے۔وھو ھذا۔
1۔ مولانا رفیع الدین شکرانوی ؒ کی پاکیزہ سیرت کے جلوے راقم نے اپنی کتاب ’’آسمان علم و فضل کے درخشاں ستارے ‘‘ میں رقم کیے ہیں یہ کتاب ابھی غیر مطبوعہ ہے۔
2۔قتل نہیں بلکہ وفات کی خبر ملی ۔
’’اعلم ان الشیخ عطاء اللہ (1) الذی یذھب بھذا المکتوب الیک ھو ابن اخی الشیخ عبداللہ الغزنوی المرحوم (1298ھـ)، یحضر عندک لبعض الحوائج الدنیویۃ (أی حوائج النکاح )۔فالمر جومنک أن تسد
حاجاتہ تنال الثواب عنداللّٰہ ‘‘۔
سید عبداللہ غزنوی کے ایک صاحبزادے مولانا عبدالجبار الملقب بہ امام صاحب ہیں ۔ جو اپنے والد کے مرحلہ دعوت وعزیمت میں شریک کار بھی ہیں علامہ شبلی نعمانی امرتسر میں مولانا عبدالجبار کی مجلس وعظ میں شریک ہوئے ۔ فرماتے تھے کہ :
’’ یہ شخص جب اللہ کہتا تھا تو دل چاہتا تھا کہ سر اسکے قدموں پر رکھ دوں ‘‘۔
امام شمس الحق ڈیانوی اور امام عبدالجبار غزنوی کے درمیان بڑا ربط تھا ۔ دونوں خلوص وللّٰہیت کے رشتے سے منسلک تھے بقول مولانا فقیر اللہ پنجابی ’’ولی راولی می شناسد‘‘(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ:11)
امام عبدالجبار اپنے مکتوب گرامی بنام امام شمس الحق رقمطراز ہیں کہ :
’’ معدن محاسن اخلاق و شیم ، مجمع مکارم ، اعمال و کرم اخ مکرم حب محترم مکرمی مولوی محمد شمس الحق صاحب موفق خیرات و حسنات بودہ معزز دارین و مکرم کونین باشند‘‘۔(یادگار گوہری :40-41)
ایک دوسرے مکتوب میں لکھتے ہیں :
’’اخی فی اللہ وحبی لوجہ اللہ ورفیقی فی سبیل اللہ عالی مراتب مکرمی مولوی شمس الحق صاحب‘‘۔(ایضاً:143)
جبکہ امام ابو الطیب شمس الحق، امام عبدالجبار کے نام اپنے نامہ گرامی میں لکھتے ہیں ۔
1۔ عین ممکن ہے کہ یہ ’’مکاتیب نذیریہ‘‘ یا ’’حیاۃ المحدث‘‘ کے کاتب کی غلطی ہو اور نام عطا ء اللہ کی بجائے عبداللہ ہو۔واللہ اعلم ۔
’’بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم محمد و آلہ واصحابہ اجمعین۔ از عاجز فقیر حقیر محمد شمس الحق عفی عنہ۔ بگرامی خدمت ذی درجت جامع الفضائل و الکمالات ذوالمناقب الجلیلہ اخی مکرمی مخدومی مولانا عبدالجبار صاحب متع اللہ تعالی المسلمین بطول بقانکم و یمن علینا بشرف لقاتکم ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ورضوانہ للہ الحمد والمنۃ کہ ہم مع الخیر ہیں اور صحت آپ کی حق تعالی سے چاہتے ہیں۔ دو ہفتہ سے زیادہ ہوا کہ گرامی نامہ آپ کا پاکر ممنون و مشکور ہوئے۔ جزاکم اللہ تعالی خیراً۔ آپ کے مکاتیب جس وقت آتے ہیں ان کے مطالعہ سے اس قدر حظ و افر حاصل ہوتا ہے کہ ہم اس کو بیان نہیں کرسکتے مکرر سہ کرر اس کو دیکھتے ہیں تاہم تسکین نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالی نے میرے دل میں آپ کی محبت و مودت و عظمت اس قدر بھر دی ہے کہ جسکی حالت خود ہی رب العزت جانتا اور جو جملہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے بحق علی بن المدینی رحمتہ اللہ تعالی کے کہا تھا کہ ما استصغرت نفسی الا عندا بن المدینی ویساہی ہم آپ کی شان میں کہتے ہیں کہ ما استصغرت نفسی الا عند عبدالجبار۔ فہم معنی کتاب اللہ تعالی و سنت رسول اللہ ﷺ جو آپ کو حق تعالی کی طرف سے عطا ہوا ہے وہ فہم حضرت شیخ دہلوی رحمۃ اللہ تعالی کے کسی تلامذہ کو عطا نہیں ہوا ہے۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء اور اس امر کو ہم نے اپنے متعدد تحریر میں بیان کیاہے‘‘۔(تفسیر السلف امام من صنف ملقب بہ اتباع السلف علی من خلفہ ص 10-11مطبوعہ مطبع شوکت الاسلام بنگلور)
اس مکتوب گرامی کو نقل کرنے کے بعد امام عبدالجبار غزنوی کے تلمیذ رشید مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی لکھتے ہیں ۔
’’یہ مولانا شمس الحق صاحب وہی حضرت معروف و مشہور بہ نزدیک و دور لا عند علماء الہند فقط بل عند علماء النجد والیمن و مصر و مکۃ المعظمہ وغیر باہیں …و مسلم عندالکل ہیں اور جو ان سے تعارف رکھتا ہے وہ ان کو صادق و صالح و موصوف بصفات عدیدہ جانتا ہے۔ پس ایسے موصوف شارح و خادم کتاب و سنت کی شہادت صادق بہ نسبت مولانا موصوف غزنوی کے کس درجہ کی وقعت رکھتی ہے اور آپ کو یہ اعتقاد اس درجہ کا مولانا موصوف غزنوی کی نسبت اس وجہ سے ہوا کہ آپ شارح حدیث و محقق ہیں، آپ کے مزاج میں تعلی و تفوق و کبر کا رائحہ تک نہیں ہے۔ بہت سادہ سیدھے سچے مسلمان ہیں … پس یہ مدح سچی صرف ایک دو شخص کی نہ رہی بلکہ کل علماء عرب و عجم کی ہوئی جو مولانا عظیم آبادی کو صادق جانتے ہیں ‘‘۔(حوالہ مذکور ص11)
امام عبدالجبار غزنوی سے جن کبار علمائے ذی اکرام نے استفادہ علمی کیا ان میں بالخصوص درج ذیل لائق تذکرہ ہیں ۔
مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی ، مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا فضل اللہ مدراسی (م1361ھ)، مفتی محمد حسین (حنفی) امرتسری، قاضی محمد خان پوری، مولانا محمد حسین ہزاروی ، مولانا حکیم عبیدالرحمان عمر پوری رحمۃ اللہ علیہم ۔
مولانا عبدالجبار غزنوی کے حالات پر مولانا فقیر اللہ پنجابی مدراسی نے مستقل کتاب تالیف فرمائی تھی، مگر افسوس کہ زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکی(1)
سید عبداللہ غزنوی کے پانچ صاحبزادے اور تین پوتوں نے حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بارگاہ علم سے استفادہ کیا ۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ان اخلاف سعید کو نعمت خداوندی کے طور پر ملا۔ محدث شمس الحق ڈیانوی نے ’’غایۃ المقصود‘‘ میں سید عبداللہ غزنوی اور ان کے چار صاحبزادوں کا شمار سید نذیر حسین کے طبقہ اولی کے تلامذہ میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
1۔ حضرت موصوف کے قدرے تفصیلی حالات راقم الحروف نے قلمبند کئے ہیں جو کہ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور بابت 2اگست ، 9اگست 2002ء ، جلد 54شمارہ30۔31میں اشاعت پذیر ہوچکا ہے شائقین اس طرف مراجعت فرماسکتے ہیں ۔
’’الشیخ الاجل العارف مولانا عبداللہ الغزنوی (رحمہ اﷲ) ومن بنیہ الاتقیاء الصالحین اولی الفضل و الکمال اربعۃ اخوۃ: محمد المتوفی سنۃ ست و تسعین بعد الالف والمائتین۔ و عبدالجبار و عبدالواحد عبداﷲ‘‘ (غایۃ المقصود)۔
سید عبداللہ غزنوی کے ایک حفید سعید مولانا عبدالاول بن محمد غزنوی ہیں، جن کی خدمت حدیث و سنت لائق قدر و ستائش ہے ایک اور حفید سعید مشہور انام سید محمد داؤد غزنوی ہیں جو ہندوستان کے بلند پایہ زعیم و رہنما، عالی مرتبت فقیہ و محدث، صاحب کمال خطیب اور وسیع المشرب عالم دین تھے۔ ان کے روابط ہر طبقہ علم و فکر کے سربرآوردہ علماء و افاضل سے استوار تھے اور ہر طبقے میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ بقول مولانا ابو الاعلی مودودی:
’’وہ بہرحال ایک عالم و فاضل آدمی تھے انکے علم و فضل میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جو شخص ان سے ملتا تھا وہ انکے علم و فضیلت اور شریفانہ طرز سے متاثر ہوتا تھا‘‘۔
والئ سعودی عرب ملک ابن سعود رحمہ اللہ بھی ممدوح کے معتقد و مداح تھے۔ مولانا سید داؤد غزنوی کے ایک صاحبزادے سید ابوبکر غزنوی ہیں جو اپنے زہد و ورع اور علم و فضل کی بناء پر علمی حلقوں میں مشہور و معروف تھے اخلاص و للّٰہیت میں بھی کمال حاصل تھا۔ ہمارے عصر کے مشہور فاضل و مبلغ ڈاکٹرملک غلام مرتضی خان(1) صاحب کو موصوف سے رشتہ بیعت و عقیدت حاصل تھا۔سید ابوبکر غزنوی نے چمنستان حیات کی صرف 49 بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ 16۔ اپریل 1976ء کو لندن میں ایک حادثے میں وفات پائی۔
غزنی کے اس مبارک خانوادے کی بدولت ارض ہند پر عمدہ اثرات مرتب ہوئے، مجموعی طور پر اس خاندان کے اراکین نے علم حدیث کی نشر و اشاعت کیلئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ صلاح و تقویٰ
1۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب موصوف اس سال اغیار کی چشم بد کاشکار ہوکر درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ ۔
سے پیراستہ اس خانوادہ کے افراد نے عوام الناس کی اصلاح کیلئے انتھک محنت کی۔ صریرخامہ کو بھی جنبش دے کر اچھا دینی لٹریچر مہیا کیا، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے جلیل القدر تلمیذ رشید امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی تصانیف پہلی مرتبہ اسی خانوادے کی بدولت منصہ شہود پر آئیں۔
برصغیر پاک و ہند کا ایک بڑا حلقہ اس خانوادئہ عالی قدر کی خدمت گوناگوں سے فیضاب ہوا، یادش بخیر ناموس رسالت ﷺ پر اپنی جان قربان کرنے والے شہید اسلام غازی علم الدین کا خانوادہ بھی اسی خاندان کا عقیدت کیش تھا۔
زیر نظر کتاب علمائے غزنویہ کے مبارک تذکرے پر مبنی ہے، جس میں اس خاندان کے افراد علم کا
حسین مرقع پیش کیا گیا ہے، اس تذکرے کے فاضل مؤلف ہمارے محترم ملک عبدالرشید عراقی صاحب ہیں، جن سے مخلصانہ روابط کی ابتداء ان کے نامے مرقومہ 27۔ اگست 1999ء سے ہوئی اور ان مخلصانہ روابط کی شدتوں کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ آج 15۔ اپریل 2001ء تک راقم کے نام ان کے گرامی ناموں کی تعداد 28ہو چکی ہے۔ الحمد للہ یہ تعلق الفت و محبت اور رشتہ انس و عقیدت ہمارے مابین قائم ہے اور دعا ہے کہ ہمیشہ قائم رہے۔(آمین )۔
فاضل مؤلف کا اصل موضوع علمائے اہلحدیث کی تگ و تاز حیات اور ان کی خدمات بوقلموں کا تذکرہ ہے اس ضمن میں انہوں نے ایک کثیر مواد جمع کر دیا ہے جس سے افراد علم آئندہ استفادہ کریں گے۔ امید ہے کہ علمی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی کی جائے گی۔
ان سطور کے گناہگار راقم کیلئے یہ امر بڑے فرحت و انبساط کا باعث ہے کہ موصوف کی یہ گراں قدر علمی تألیف ’’غزنوی خاندان‘‘ ’’امام شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ پبلشرز‘‘ کے تحت شائع ہو رہی ہے۔
دعا ہے کہ میزان الٰہی میں اس جہد و سعی کو سند قبولیت مل سکے۔ آمین یا رب العالمین۔
محمد تنزیل الصدیقی الحسینی