یہ بھی کہا گیا کہ "مشکور" صحیح لفظ نہیں ؛ اس کے بجائے "متشکر" یا "شاکر" کہنا چاہیے۔ مولفین قاموس نے لکھا ہے کہ مشکور بہ معنی ممنون نہیں۔ اور اس پر اظہار تعجب کیا ہے کہ مولانا شبلی نے ایک شعر میں یوں کیسے لکھ دیا۔
آپ کے لطف و کرم سے مجھے انکار نہیں
حلقہ در گوش ہوں ممنون ہوں مشکور ہوں میں
مولفین آصفیہ و نور بھی اس لفظ سے کچھ خوش نہیں:
اگر ممنون و مشکور کے بجا ئے ، ممنون و شاکر کہیں تو بجا ہے۔ (آصفیہ)
اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ مشکور، صفت اس شخص کی ہوگی جس نے احسان کیا ہے، نہ اس شخص کی جس پر احسان کیا گیا ہے۔ (نور)
عربی قواعد کے لحاظ سے لغت نویسوں کا فیصلہ بالکل صحیح ہے ، لیکن ایک دوسری زبان ان قواعد کی پا بند کیوں ہو! مشکور، بہ معنی شکرگزار، آج بھی برابر استعمال ہوتا ہے اور پہلے بھی بے تکلف استعمال کیا گیا ہے۔ مولف نور نے لکھا ہے کہ تاہم اہل علم اس معنی میں استعمال نہیں کرتے؛
مولانا سید سلیمان ندوی (نقوش سلیمانی، ص98) پنڈت وتاتریہ کیفی نے لکھا ہے:
جب "مشکور" مدتوں سے "احسان مند" کے معنی میں استعمال ہورہے ہیں اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انھی معنی کی طرف جاتا ہے، تو اب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر ، ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟ (منثورات، ص 164)
چند مزید مثالیں:
جو کچھ ہو سکے وہ لکھا کرو اور ممنون و مشکور کیا کرو۔
امیر مینائی(مکاتیب امیر مینائی، مرتبہ احسن اللہ خاں ثاقب، طبع دوم، ص 170)
ان کے سبب سے میں آپ کا نہایت ممنون و مشکور ہوں۔
سرسید (مکاتیب سرسید، مرتبہ مشتاق حسین ، ص 274)
آپ کا خط پہنچا، میں ممنون و مشکور ہوں۔
سید حسن بلگرامی (تاریخ نثر اردو، ص 598)
خادم آپ کی عنایت بے غایت کا حد درجہ ممنون و مشکور ہوا۔
ابوالکلام آزاد (مرقع ادب، ص 45)
گو لفظ ’’ممنون‘‘ تو اردو زبان میں متفقہ طور پر ’’شکر گذار‘‘ یعنی اسم فاعل کے طور پر ہی استعمال ہورہا ہے۔ (دیکھئے مختلف اردو لغات) لیکن ’’مشکور‘‘ کو بھی بہت سے علمائے ادب نے بطور اسم فاعل استعمال کیا ہے۔ تاہم اس بارے میں ایک دوسری رائے بھی موجود ہے۔ اور میں ذاتی طور پراُس مکتبہ فکر کا حامی ہوں جو ’’مشکور‘‘ کو بطور اسم فاعل استعمال کرنے کے مخالف ہیں۔