ﷲ کے سوا کسی دْوسرے سے مدد ما نگنا :
سوال :
کسی بزرگ کے مزار پر جا کر یہ کہنا کہ اے فلاں بزرگ ہماری یہ حاجت پوری کردو۔ یا بزرگ کی قبر پر جا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے یہ دْعا فرمائیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کرکے عند ﷲ ماجور ہوں۔
جواب :
الله کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
تمہارا رب کہتا ہے ''مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ (سورة غافر ، آیت 60)
اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک رستہ پائیں (سورة البقرة , آیت 186)
ﷲتعالیٰ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ ایسی اشیاء کے حصول کے لیے جو مخلوق کے اِختیار میں نہیں ہیں' مخلوق کے کسی فرد کو پکارنا شرک ہے اور پھر مْردے کو جو نہ سْن سکتا ہے اور نہ جواب دے سکتا ہے۔
ﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
'' اور ﷲ کے سوا کسی مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا اور نہ نقصان ۔اگر تْونے یہ کام کیا توظالموںمیں شمار ہوگا ۔''(یونس : ۱۰۶)
اِس آیت میں ﷲتعالیٰ نے منع فر مایا ہے کوئی (غیر ﷲ ) کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارے اور ﷲتعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ ﷲ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔
ﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
'' اگر اﷲ تعا لیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کردے تو اْس مصیبت کو دور کرنے والا ﷲ کے سوا کوئی نہیں۔''(یونس : ۱۰۷)
صحیح حدیث ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہہ کو کہا :
''جان لو کہ اگر ساری اْمت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے اور اگر اﷲنہ چاہے تو نفع نہیں پہنچا سکتی۔''(متفق علیہ)
قرآ ن میں ایک جگہ ہے :
'' بے شک جن لوگوں کی تم ﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو 'وہ تمہارے لیے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ پس تم ﷲ کے ہاں رزق مانگو اور اْس کی عبادت کرو۔''(العنکبوت : ۱۷)
ایک اور جگہ پر ﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
''اور ایسے لوگوں سے کون زیادہ گمراہ ہیں جو ﷲتعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک اْن کی دْعا قبول نہ کر سکیں بلکہ اْن کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ اْن کے دشمن ہو جائیں گے اور اْن کی عبادت سے انکار کر دیں گے۔''(الاحقاف ۵ : ۶)
اِس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ غیر ﷲ کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اْن کی عبادت ہے حالانکہ انسان صرف ﷲ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔
قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
''کہ مضطر (بے بس)شخص کی دْعا قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا ﷲکے سوا کون ہے۔''(النمل : ۶۲)
یہ چند دلیلیں ہیں ورنہ اِس کے بیان کے لیے قرآن میں کئی ایک نصوص موجود ہیں جن کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل ﷲ کے سوا کسی کو حاجت روا اورمشکل کشا نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے کہ مشرکینِ مَکّہ بھی اِس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر ﷲ تعالیٰ نے اْن کے اِس اعتراف کا ذکر کیا ہے ۔ اگر کسی بزرگ کی قبر پر جا کر حاجت روائی کے لیے پکارنا درست ہوتا تو ﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بزرگ دْنیا میں کون ہوسکتا تھا؟ حال یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قبر جا کر کسی حاجت کے لیے کبھی نہیں پکارا اگر یہ کام جائز ہوتا تو صحابہ خصوصاً خلفائے راشدین رضی اللہ عنہما کو اپنے دور میں بڑی بڑی ضرورتوں اور مصائب کا سامنا وہ ضرور ﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آتے۔بالکل اِسی طرح دْعا کا مسئلہ ہے ۔ ان جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی نے بھی ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آکر یہ نہیں کہا کہ آ پؐ ہمارے لیے دْعا کر دیں ۔ ہاں ! زندگی میں جو واقعتا بزرگ ہو اْس سے دْعا کروانی درست ہے اور میں بھی بزرگ سے نہیں مانگا جاتا بلکہ اْس سے عرض کی جاتی ہے کہ وہ ﷲسے ہماری بہتری کے لیے دعْا کرے ۔
**********************************************