سمجھو !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ سوره یوسف ٣٩
اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے؟؟
سمجھو !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ سوره یوسف ٣٩
اے قید خانہ کے رفیقو کیا کئی جدا جدا معبود بہتر ہیں یا اکیلا الله جو زبردست ہے؟؟
پہلے یہ بتاو کیا آپ ان چاروں کو جنتی مانتے ہیںلیکن کیا کبھی آپ نے ابو بکر کو صدیق اکبر
عمر کو فاروق ا عظم
اور عثمان کو غنی کہے یا لکھنے پر اعتراض کیا ہے ؟؟؟
تخت لانے کا کہنا مافوق الاسباب مدد مانگنے کے مترادف ہے؟ جن الفاظ میں دورِ حاضر کے مشرکین مافوق الاسباب مدد مانگتے ہیں غیراللہ سے، کیا سلمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کا تخت لانے کی بات کر رہے بعینہ مافوق الاسباب مدد طلب کی ہے، کیا آپ اس پر غوروفکر کرنا پسند کریں گے؟قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
سورہ نمل آیت 38
سلیمان نے کہا کہ اے دربار والو! کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر ہمارے پاس آئیں ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے
کہا جارہا ہے مافوق الاسباب طریقے سے مدد مانگنا عبادت میں شامل ہے تو کیا اس آیت مبارکہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے درباریوں کی عبادت کر رہے ہیں نعوذباللہ کہ ایک مافوق الاسباب مدد مانگ رہیں کہ ملکہ بلقیس کا تخت جو کہ سباء کی سرزمین پر ہے اسے اپنے دربار میں ملکہ بلقیس کے مسلمان ہوکر حاضر ہونے سے پہلے پیش کرنے کے لئے اپنے درباریوں سے مافوق الاسباب مدد مانگ رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا میں نے احمد رضا کو مشرک کہا ہے ؟؟؟اور جناب عامر یونس صاح ب آپ نے مولوی اسماعیل صاحب کو ابھی تک مشرک نہیں کہا؟؟
میرے بھائی میں انکو ان ناموں سے جانتا ہو -
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
نیز پہلے بھی آپ سے "بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف" والے تھریڈ میں اِس پوائنٹ پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی تفسیر کا یہ اقتباس پیش کیا تھا جس میں اس واقعے کی معتدلانہ وضاحت موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
سورہ نمل آیت 38
سلیمان نے کہا کہ اے دربار والو! کوئی تم میں ایسا ہے کہ قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر ہمارے پاس آئیں ملکہ کا تخت میرے پاس لے آئے
کہا جارہا ہے مافوق الاسباب طریقے سے مدد مانگنا عبادت میں شامل ہے تو کیا اس آیت مبارکہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے درباریوں کی عبادت کر رہے ہیں نعوذباللہ کہ ایک مافوق الاسباب مدد مانگ رہیں کہ ملکہ بلقیس کا تخت جو کہ سباء کی سرزمین پر ہے اسے اپنے دربار میں ملکہ بلقیس کے مسلمان ہوکر حاضر ہونے سے پہلے پیش کرنے کے لئے اپنے درباریوں سے مافوق الاسباب مدد مانگ رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اس سلسے میں @اسحاق سلفی بھائی سے بھی وضاحت پونچھ لیتے ہیںنیز پہلے بھی آپ سے "بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف" والے تھریڈ میں اِس پوائنٹ پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی تفسیر کا یہ اقتباس پیش کیا تھا جس میں اس واقعے کی معتدلانہ وضاحت موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
"یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الہی کا علم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کرامت اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک چھپکتے میں وہ تخت لے آیا ۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الہی ہی کی کارفرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئےجب انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا"
نوٹ: آپ کی طرف سے مافوق الاسباب مدد طلب کرنے کی نفی کے نظریے کے بیان پر یہی پوائنٹ بار بار دھرایا جاتا ہے، میں مزید اس موضوع پر اس واقعے کی تحقیق کروں گا، کیونکہ آپ کے پاس یہی ایک پوائنٹ ہے جس پر آپ عوام کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا من مانی مفہوم نکالتے ہیں۔ تحقیق سے مزید بات کھل کر سامنے آئے گی۔ ان شاءاللہ
پہلی یہ جو کام تصوریر میں دیکھائے گئے ہیں یہ غیر شرعی ضرور ہیں حرام کے درجہ میں تو ہیں مگر عبادت نہیں۔اور رہ گئی پکارنے کی بات تو اگر پکارنا عبادت ہے تو اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والوں رسول اللہ کو ایسے مت پکارو جیسے ایک دوسرے کو پکارتے ہو تو اگر ترجمہ آپ کے مطابق کیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ رسول اللہ کی عبادت ایسے مت کرو جیسے ایک دوسرے کی کرتی ہو