شیخ جیلانی کی آڑ میں ایک نیا دین
1. شیخ جیلانی ؒ کو' غوثِ اعظم' کہنا
نفس مسئلہ پربحث سے پہلے ضروری ہے کہ لفظ 'غوثِ اعظم' کے معنی و مفہوم پر ذرا غور کرلیا جائے۔ 'غوث' عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے 'مدد'۔ اگر اسے مصدر کے طور پر استعمال کیا جائے تو پھر اس کا معنی ہے 'مدد کرنا' البتہ مدد کرنے والے کو 'غائث' (بروزن فاعل) کہا جائے گا اور مدد مانگنے والے کو 'مستغیث'۔لیکن اگر مصدر کوبطورِ اسم فاعل استعال کیا جائے تو پھر 'غوث' مددگار کا معنی ادا کرے گا اور شیخ جیلانی کو غو ث کہنے والے اس کا یہی مفہوم مراد لیتے ہیں۔ اسی طرح لفظ 'اعظم' بھی عربی زبان میں بطورِ اسم تفضیل استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہے 'سب سے بڑا'۔ گویا 'غوثِ اعظم' کا معنی ہوا... 'سب سے بڑا مددگار'
سب سے بڑا مددگار کون ہے؟ یہ سوال اگر آپ ایک عام مسلمان سے بھی کریں گے تو وہ جواباً یہی کہے گا کہ 'اللہ تعالیٰ'... کیونکہ دین اسلام نے عقیدئہ توحید کے حوالہ سے یہی تعلیم دی ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی مددگار نہیں، نفع و نقصان صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، صرف وہی مشکل کشا، حاجت روا ہے۔ وہی خالق ، رازق (داتا)اور مالک الملک ہے۔ بطورِ مثال چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
1. ﴿وَمَا النَّصرُ إِلّا مِن عِندِ اللَّهِ العَزيزِ الحَكيمِ ﴿١٢٦﴾... سورة آل عمران
'' اور مدد تو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے۔''
2. ﴿وَلا يَجِدونَ لَهُم مِن دونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلا نَصيرًا ﴿١٧﴾... سورة الاحزاب
'' اور وہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد گار اور حمایتی نہیں پائیں گے۔''
3. ﴿وَما لَكُم مِن دونِ اللَّهِ مِن وَلِىٍّ وَلا نَصيرٍ ﴿١٠٧﴾... سورة البقرة
''اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور مدد گار نہیں۔''
4. ﴿وَما كانَ لَهُم مِن أَولِياءَ يَنصُرونَهُم مِن دونِ اللَّهِ...٤٦﴾... سورة الشورى
''ان کے کوئی مدد گار نہیں جو اللہ تعالیٰ سے الگ ان کی امداد کر سکیں۔''
5. ﴿وَإِن يَمسَسكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا كاشِفَ لَهُ إِلّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدكَ بِخَيرٍ فَلا رادَّ لِفَضلِهِ...١٠٧﴾... سورة يونس
'' اور اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کوئی تکلیف پہنچائے تو بجز اس کے اور کوئی اس تکلیف کو دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو بھی کوئی ہٹانے والا نہیں۔''
مندرجہ بالا آیات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقی مددگار ہے جبکہ دیگر بہت سی آیات میں نہ صرف غیر اللہ کو پکارنے، اسے مددگار سمجھنے کی نفی کی گئی ہے بلکہ ایسا کرنے والے کو مشرک، ظالم اور عذاب کامستوجب قرار دیا گیاہے، مثلاً
1.
﴿وَلا تَدعُ مِن دونِ اللَّهِ ما لا يَنفَعُكَ وَلا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظّـٰلِمينَ ﴿١٠٦﴾... سورة يونس
'' اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو نہ پکارنا جو تمہیں نہ کوئی فائدہ پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان پھر اگر تم نے ایسے کیا(غیر اللہ کو پکارا) تو تم اس حالت میںظالموں میں سے ہو جائوگے۔''
2.
﴿وَمَن أَضَلُّ مِمَّن يَدعوا مِن دونِ اللَّهِ مَن لا يَستَجيبُ لَهُ إِلىٰ يَومِ القِيـٰمَةِ وَهُم عَن دُعائِهِم غـٰفِلونَ ﴿٥﴾... سورة الاحقاف
'' اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا؟ جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو تا قیامت اس کی پکار کاجواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ تو ان (پکارنے والوں) کی پکار سے بھی بے خبر ہیں!''
3.
﴿لا تَدعُ مَعَ اللَّهِ إِلـٰهًا ءاخَرَ فَتَكونَ مِنَ المُعَذَّبينَ ﴿٢١٣﴾... سورة الشعراء
''پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی (ایسا کر کے)سزا پانے والوں میں سے ہو جائے۔''
ایک شبہ کا ازالہ:کئی سادہ لوح یہاں یہ اعتراض اٹھا دیتے ہیں کہ اگر غیر اللہ(انبیاء و رسل، اولیاء و مشائخ وغیرہ) سے مانگنا شرک ہے تو پھر اولاد، اپنے والدین سے، خاوند اپنی بیوی یا بیوی اپنے خاوند سے، مزدور اپنے مالک، دوست اپنے دوستوں سے اشیاے ضرورت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ اور دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے سے مدد وتعاون کا مطالبہ نہ کرتا ہو اور اس طرح تو یہ تمام لوگ مشرک ہوئے...؟
یہاں دراصل ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کو مختلط کرکے خلط ِمبحث کیا گیا ہے حالانکہ جن کاموں کا تعلق ظاہری اسباب سے ہے، انہیں خود قرآن مجید کی رو سے شرک قرار نہیں دیا جاسکتا اور مذکورہ بالا تمام مثالوں کا تعلق ظاہری اسباب سے ہیجسے دوسرے لفظوں میں ماتحت الاسباب بھی کہا جاسکتا ہے جبکہ غیر اللہ سے استمداد اس وقت شرک کے زمرے میں داخل ہے جب ظاہری اسباب کی عدم موجودگی میں ان سے مدد مانگی جائے، اسے ہی مافوق الاسباب میں شمار کیاجاتا ہے۔ مثلاً کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ سے اگر کوئی اولاد مانگے تو یہ صریح شرک ہے، اس لئے کہ اس کے پاس اولاد عطا کرنے کے ظاہری اسباب موجود نہیں مگر اولیاو مشائخ اور بالخصوص شیخ جیلانی کو غوثِ اعظم کہنے والے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کے اختیارات سونپ رکھے ہیں حتیٰ کہ کائنات کی تقدیر بھی انہی کے ہاتھ میں تھما رکھی ہے اور انہیں کُنْ فَیَکُوْنَ کی قدرت سے نواز رکھا ہے! ہمارے اس دعوی پریقین نہ آئے تو پھر شیخ کی طرف منسوب درج ذیل واقعات کا کیا جواب ہے ...
1.''شیخ شہاب الدین سہروردیؒ جو سلسلہ سہروردیہ کے امام ہیں، کی والدہ ماجدہ حضور غوث الثقلین کے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ حضور دعا فرمائیں میرے لڑکا پیدا ہو۔ آپ نے لوحِ محفوظ میںدیکھا اور اس میں لڑکی مرقوم تھی۔ آپ نے فرما دیا کہ تیری تقدیر میں لڑکی ہے۔ وہ بی بی یہ سن کر واپس ہوئیں۔ راستہ میں حضور غوثِ اعظم ملے۔ آپ کے استفسار پر انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا۔ حضورنے ارشاد فرمایا: جا تیرے لڑکا ہوگا مگر وضع حمل کے وقت لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بی بی بارگاہِ غوثیت میں اس مولود کو لے کر آئیں اور کہنے لگیں: حضور لڑکا مانگوں اور لڑکی ملے؟ فرمایا یہاں تو لاؤ اور کپڑا ہٹا کر ارشاد فرمایا یہ دیکھو تو، یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ دیکھا تو لڑکا تھا اور وہ یہی شہاب الدین سہروردی تھے۔ آپ کے حلیہ مبارک میں ہے کہ آپ کی پستان مثل عورتوں کے تھیں۔'' (باغِ فردوس معروف بہ گلزارِ رضوی: ص۲۶ نیز دیکھئے کراماتِ غوث اعظم: ص۸۱)
اسی واقعہ کے اوپر شیخ جیلانی کے بارے میں یہ شعر لکھا ہے ؎
لوحِ محفوظ میں تثبیت کا حق ہے حاصل مرد عورت سے بنا دیتے ہیں غوث الاغواث
2.''ایک روز ایک عورت حضرت محبوب سبحانی غوث صمدانی شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہِ غوثیت کی پناہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اولاد عطا فرمائے۔ آپ نے مراقبہ فرما کر لوحِ محفوظ کا مشاہدہ فرمایا تو پتہ چلا کہ اس عورت کی قسمت میں اولاد نہیں لکھی ہوئی تھی۔ پھر آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دو بیٹوں کے لئے دعا کی۔ بارگاہِ الٰہی سے ندا آئی کہ اس کے لئے تو لوحِ محفوظ میں ایک بھی بیٹا نہیں لکھا ہوا۔ آپ نے دو بیٹوں کا سوال کردیا۔ پھر آپ نے تین بیٹوں کے لئے سوال کیا تو پہلے جیسا جواب ملا پھر آپ نے سات بیٹوں کا سوال کیا تو ندا آئی: اے غوث! اتنا ہی کافی ہے، یہ بھی بشارت ملی کہ اللہ تعالیٰ اس عورت کو سات لڑکے عطا فرمائے گا۔''
(کراماتِ غوثِ اعظم از محمد شریف نقشبندی:ص۸۰،۸۱)
3.''حضرت محبوبِ سبحانی قطب ِربانی غوث صمدانی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا ایک خادم انتقال کرگیا۔ اس کی بیوی آہ و زاری کرتی ہوئی آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگی کہ حضور میرا خاوند زندہ ہونا چاہئے۔ آپ نے مراقبہ فرمایا اور علم باطن سے دیکھا کہ عزرائیل علیہ السلام اس دن کی تمام ارواح قبضہ میںلے کر آسمان کی طرف جارہا ہے تو آپ نے عزرائیل علیہ السلام سے کہا ٹھہر جائیں اور مجھے میرے فلاںخادم کی روح واپس کردیں توعزرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں ارواح کو حکم الٰہی سے قبض کرکے اس کی بارگاہِ الٰہیہ میں پیش کرتا ہوں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس شخص کی روح تجھے دے دوں جس کو بحکم الٰہی قبض کرچکا ہوں۔ آپ نے اصرار کیا مگر ملک الموت نہ مانے۔ ان کے ایک ہاتھ میں ٹوکری تھی جس میں اس دن کی ارواح مقبوضہ تھیں۔ پس قوتِ محبوبیت سے ٹوکری ان کے ہاتھ سے چھین لی تو ارواح متفرق ہوکر اپنے اپنے بدنوں میںچلی گئیں۔ عزرائیل علیہ السلام نے اپنے ربّ سے مناجات کی اور عرض کیا: الٰہی تو جانتا ہے جو میرے اور تیرے محبوب کے درمیان گزری، اس نے مجھ سے آج کی تمام مقبوضہ ارواح چھین لیں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا: اے عزرائیل! بے شک غوثِ اعظم میرا محبوب و مطلوب ہے تو نے اسے اس کے خادم کی روح واپس کیوں نہ دے دی۔ اگر ایک روح واپس دے دیتے تو اتنی روحیں ایک روح کے سبب کیوں واپس جاتیں۔'' (ایضاً:ص۹۲،۹۳)
یاد رہے کہ مندرجہ واقعات بھی اسی نوعیت کے ہیں جن کے بارے میں 'ہم شیخ کی کرامات' کے ضمن میں واضح کرآئے ہیں کہ ان کی استنادی حیثیت سخت مجروح اورناقابل اعتماد ہے۔ اس لئے ان کی عدمِ اثبات پر دلائل کا طومار باندھنے کی بجائے شیخ کے عقیدت مندوں سے صرف اتنی گزارش کرنا مقصود ہے کہ شیخ جیلانی یا کسی بھی ولی، نبی اور رسول کے بارے میں تصرف واختیار کے ایسے عقیدہ کی قرآن و سنت کی مؤحدانہ سچی تعلیمات قطعاً اجازت نہیںدیتیں مگر افسوس ہے کہ ان اندھے عقیدت مندوں پر جو ایسی جھوٹی کرامتوں کی آڑ میں سادہ لوح مسلمانوں کی نہ صرف جیبوں پر بلکہ ان کے دین وایمان پر بھی ڈاکے ڈال رہے ہیں اور پھر ہمیں اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ خود شیخ جیلانی کی تعلیمات بھی ایسے غلط نظریات کی نفی کرتی ہیں جنہیں انکے عقیدت مندوں نے ان کی طرف منسوب کرکے عملاً اپنا رکھا ہے۔
شیخ جیلانی ؒ 'غوث' نہیں ہیں!
گذشتہ سطور میں ہم ثابت کرچکے ہیں کہ شیخ جیلانی کو 'غوثِ اعظم' سمجھنا نہ صرف قرآن و سنت کے خلاف ہے بلکہ خود شیخ کی موحدانہ تعلیمات کے بھی منافی ہے مگر اس کے باوجود آپ کے غالی عقیدت مند آپ کو غوث کہنے ہی پر مصر ہیں بلکہ ان عقیدت مندوںنے غوث،قطب،ابدال کے پس منظرمیں دین اسلام کے متوازی ایک الگ دین وضع کر رکھا ہے۔مثلا کہا جاتا ہے کہ دنیا میں چار ولی ایسے ہیں جنہیں 'اوتاد' کہا جاتا ہے۔ انہوں نے دنیا کے چاروں کناروں کو تھام رکھا ہے۔ (اصطلاحات الصوفیہ للکاشانی: ص۵۸) علاوہ ازیں سات اور ایسے اولیا ہیں جنہوں نے سات آسمانوں میںسے ایک ایک آسمان کا نظام سنبھالا ہوا ہے انہیں 'ابدال' کہا جاتا ہے۔ ('معجم الفاظ الصوفیہ' از ڈاکٹر شرقاوی: ص۲۲)
چالیس ولی ایسے ہیں جنہوں نے مخلوق کا بوجھ اٹھا رکھا ہے انہیں 'نجبا' کہا جاتا ہے۔ (اصطلاحاتِ کاشانی: ص۱۱۴) تین سو ولی ایسے ہیں جولوگوں کے ساتھ شہروں میں رہتے ہیں۔ (ایضاً:۱۱۶) ان سب پر ایک بڑا ولی ہوتا ہے جسے قطب ِاکبر یا غوثِ اعظم کہا جاتا ہے اور یہ ہمیشہ مکہ مکرمہ میں رہتا ہے۔ جبکہ دنیا میںجو آفت و مصیبت بھی پہنچتی ہے وہ ان سب اولیا سے ہوکر غوث اعظم تک پہنچتی ہے اور وہ اسے دور فرماتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ذلك
مندرجہ بالا گمراہانہ عقائد و نظریات اسلام میںکیسے آئے اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے اس کی تفصیل کے لئے مجموع الفتاویٰ (۱۱؍۱۶۷، ۴۳۳،۴۳۸ اور ۲۷؍۱۰۳) وغیرہ کوملاحظہ کیا جائے جہاں اس عقیدے کو شیخ ابن تیمیہ ؒ نے کفر و شرک سے تعبیر کیا ہے۔ علاوہ ازیں راقم بھی اپنے ایک مضمون التوسل والوسیلۃ مطبوعہ 'محدث' لاہور (ج۳۴؍ عدد ۱۲: ص ۲۴ تا ۳۶) میں غوث و ابدال والی روایات کی کمزوری واضح کرچکا ہے۔ تاہم اس وقت صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ شیخ جیلانی جنہیں غوثِ اعظم کہا جاتاہے ، نے ساری زندگی بغداد ہی میں گزار دی، ان کا مولد و مدفن بھی بغداد ہی ہے تو پھر جب غوث کی شرائط ان پر منطبق نہیں ہوتیں تو انہیں غوثِ اعظم کہنا چہ معنی دارد؟ علاوہ ازیں یہاں یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ شیخ جیلانی کے بعد آج تک کون کون سے غوث دنیا میں گزرے ہیں؟ اور اس وقت مکہ میں کون صاحب غوث کے مقام پرفائز ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب اس عقیدہ کا پرچار کرنے والوں کے پاس بھی نہیں ہے...!
یہاں ہم ایک اور دلخراش حقیت کی بھی نشاندہی کرنا چاہیں گے کہ شیخ جیلانی جن کے بارے میں یہ جھوٹے دعوے کئے جاتے ہیں کہ وہ زندگی ہی میں نہیںبلکہ وفات کے بعد بھی اپنے مریدوں کی دستگیری فرماتے اور دنیا سے مصائب و آفات رفع کرتے ہیں، کی اپنی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ آپ کی وفات کے چند ہی سال بعد ناصر الدین کے وزیر ابوالمظفر جلال الدین عبداللہ بن یونس بغدادی نے آپ کے مکان (روضہ) کو مسمار کرکے آپ کی اولاد کو دربدر کردیا حتیٰ کہ آپ کی قبر تک کھود ڈالی اور آپ کی ہڈیاں دریائے دجلہ کی لہروں میں پھینک دیں اور کہا کہ'' یہ وقف کی زمین ہے، اس میں کسی کا بھی دفن کیا جانا جائز نہیں۔'' تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو شذرات الذہب (۴؍۳۱۳،۳۱۴)، النجوم الزاہرۃ (۶؍۱۴۲) الزبل علی الروضتین لابی شامہ (ص۱۲) خود شیخ کے عقیدت مندوں نے بھی اس واقعہ کونقل کرکے اس کی صحت کوتسلیم کیاہے۔ دیکھئے: قلائد الجواہر (ص۲۶۰) اور غوث الثقلین (ص۲۰۳)۔
اس واقعہ سے چند اہم باتیں معلوم ہوئیں :
1. ایک تو یہ کہ شیخ جیلانی ؒ کو کائنات میں تصرف کی قدرت نہیں تھی۔ ورنہ آپ اپنی قبر اور لاش کی اس طرح بے حرمتی کو برداشت نہ کرتے ہوئے بروقت اس کا انسداد کرتے۔
2. آپ قبر میں زندہ نہیں تھے۔
3. آپ کی بوسیدہ ہڈیاں دریائے دجلہ میں بہا دی گئیں، اس لئے اب بغداد میں آپ کے نام کا جو مزار ہے وہ محض فرضی قبر ہے۔
لیکن افسوس ان اندھے عقیدت مندوں پر جنہوں نے اس سے نصیحت حاصل کرنے کے برعکس شیخ کی قبر پر آج بھی یہ شرکیہ شعر رقم کر رکھے ہیں کہ
با دو شاہی ہار دو عالم
شیخ عبد القادر ہست
سرورِ اولاد آدم
شیخ عبد القادر ہست
آف تاب و باہ تاب و
عرش و کرسی و قلم
زیر پائی شیخ
عبد القادر ہست
'' دونوں جہانوں کے بادشاہ شیخ عبد القادر ہیں، بنی آدم کے سردارشیخ عبد القادر ہیں، شمس وقمر، عرش، کرسی اور قلم (یہ سب) شیخ عبدالقادر کے پاؤں تلے ہیں''۔ نعوذ باﷲ من ذلک
علاوہ ازیں اگر شیخ جیلانی واقعی غوث تھے تو پھر انہوں نے سقوطِ بغداد کے موقع پر امریکی فوج کے خلاف مظلوم عراقی مسلمانوں کی مدد کیوں نہ کی۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی بمباری سے شیخ خود اپنے فرضی مزار کو بھی نہ بچا سکے توپھر آپ دوسروں کی مدد کے لئے کیسے آسکتے ہیں؟
2. یا عبد القادر شیئا ﷲ اور صلاۃِ غوثیہ کی حقیقت
یہاں اس غلط فہمی کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو بعض عقیدت مندوں نے پیدا کر رکھی ہے کہ خود شیخ جیلانی نے یہ تعلیم دی تھی کہ مشکلات کے وقت مجھے پکارا کرو میں زندگی میں بھی اور بعد از حیات بھی تاقیامت تمہاری سنتا اور مدد کرتا رہوں گا۔ اس سلسلہ میں آپ کی طرف جو جھوٹی باتیں منسوب کی جاتی ہیں، ان میں سے بطورِ نمونہ ایک جھوٹ ملاحظہ فرمائیں:
''شیخ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنی مصیبت میں مجھ سے مدد چاہے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کروں گا اور جو کوئی میرے توسل سے خدائے تعالیٰ سے اپنی حاجت روائی چاہے گا تو خدا تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرے گا۔ جو کوئی دو رکعت نماز پڑھے اور ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد گیارہ دفعہ سورۃ اخلاص یعنی 'قل ہو اللہ احد' پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے اور مجھ پر بھی سلام بھیجے اور اس وقت اپنی حاجت کا نام بھی لے تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری ہوگی۔ بعض نے بیان کیا ہے کہ دس پانچ قدم جانب مشرق میرے مزار کی طرف چل کر میرا نام لے اور اپنی حاجت کو بیان کرے اور بعض کہتے ہیںکہ مندرجہ ذیل دو شعروں کو بھی پڑھے :
(ترجمہ اشعار: ''کیا مجھ کو کچھ تنگدستی پہنچ سکتی ہے جبکہ آپ میرا ذخیرہ ہیں اور کیا دنیا میں مجھ پر ظلم ہوسکتا ہے جبکہ آپ میرے مددگار ہیں۔ بھیڑ کے محاذ پر خصوصاً جبکہ وہ میرا مدد گار ہو، ننگ و ناموس کی بات ہے کہ بیابان میں میرے اونٹ کی رسی گم ہوجائے۔) '' (قلائد الجواہر، مترجم:ص۱۹۲)، بہجۃ الأسرار میں ہے کہ
''پھر عراق (بغداد) کی سمت میرا نام لیتاہوا گیارہ قدم چلے۔'' (ص۱۰۲)
نقد وتبصرہ
1. اوّل تو یہ واقعہ ان کتابوں سے ماخوذ ہے جن کی استنادی حیثیت کے حوالہ سے ہم یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔
2. اگر بالفرض شیخ نے یہ بات خود فرمائی بھی ہو تو تب بھی اس پرعمل اس لئے نہیں کیاجاسکتا کہ یہ قرآن و سنت کے صریح خلاف ہے۔
3. فی الحقیقت یہ بات خود شیخ کی مؤحدانہ تعلیمات کے منافی ہے کیونکہ شیخ تو یہ فرماتے ہیں کہ
''اَخلصوا ولا تشرکوا وَحِّدوا الحق وعن بابه لا تبرحوا سلوہ ولا تسئلوا غیرہ استعینوا به ولا تستیعنوا بغیرہ توکلوا علیه ولا تتوکلوا علی غیرہ''
''اخلاص پیدا کرو اورشرک نہ کرو، حق تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرو اور اس کے دروازے سے منہ نہ موڑو۔ اسی خدا سے سوال کرو ، کسی اور سے سوال نہ کرو ،اسی سے مدد مانگو، کسی اور سے مد د نہ مانگو، اسی پر توکل واعتماد کرو اور کسی پر توکل نہ کرو۔'' ( الفتح الربانی:مجلس۴۸؍ص۱۵۱)
3. شیخ جیلانی ؒ کے نام کی گیارہویں
گیارہویں کی حقیقت و اصلیت واضح کرنے سے پہلے سردست یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ 'گیارہویں' کسے کہتے ہیں؟ ضیاء اللہ قادری لکھتے ہیں کہ
''گیارہویں شریف درحقیقت حضرت سرکار محبوب سبحانی، قطب ِربانی غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کی روح پرفتوح کو ایصالِ ثواب کرنا ہے۔'' (غوث الثقلین: ص۲۱۷)
اسی طرح خلیل احمد رانا 'گیارہویں کیا ہے؟' میں لکھتے ہیں کہ
''موجودہ دور میں ایصالِ ثواب کے پروگرام مختلف ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جن میں ایک نام 'گیارہویں شریف' کا بھی آتا ہے۔ حضور غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ سے عقیدت و محبت کی وجہ سے ہر اسلامی مہینے کی گیارہویں تاریخ کو مسلمان اکیلے یا اکٹھے ہوکر آپ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔ گیارہ تاریخ کو ایصالِ ثواب کرنے کی وجہ سے اس ایصالِ ثواب کا نام 'گیارہویں' مشہور ہوگیا ہے۔'' (ص:۴)
اس کے علاوہ بھی اس کے کئی پس منظر بیان کیے جاتے ہیں بہر حالمذکورہ اقتباسات سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ گیارہویں شیخ جیلانی کی روح کو ایصالِ ثواب کے لئے منائی جاتی ہے۔ تاہم عوام اسے محض ایصالِ ثواب ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بھی آگے شیخ کو غوثِ اعظم، مختارِ کل، مشکل کشا، حاجت روا اور بگڑی بنانے والا سمجھتے ہوئے آپ کے نام کی نذر و نیاز کے لئے اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ ہر سال اس کا اہتمام کیا جاتاہے بلکہ وقتاً فوقتاً اور بالخصوص ہر ماہ چاند کی گیارہ تاریخ کو بھی ایک عرصہ سے اب اس کا اہتمام کیا جارہا ہے اور اسے چھوٹی گیارہویں سے جبکہ سالانہ گیارہویں کو بڑی گیارہویں سے موسوم کیا جاتاہے۔
گیارہویں خواہ ایصالِ ثواب کے لئے ہو یا نذر و نیاز کے لئے بہردو صورت شرعی اعتبار سے اس کے جواز کی کوئی دلیل نہیں،
محدث میگزین (
شمارہ:271۔۔۔اگست۔200۳۔۔جمادی الثانی۔۔1424 ،،جلد:35عدد:8 )