جبریل اور نیک مومن بھی مددگارہیں( التحریم)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
مدد اور استعانت
کی دوقسمیں ہیں:
(1) مافوق الاسباب اور (2) ما تحت الاسباب
(1) ما فوق االاسباب مدد جو صرف اللہ رب العزت سے مانگی جاسکتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد دیکھئے :
(عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: «يا غلام إني أعلمك كلمات، احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف» هذا حديث حسن صحيح ") (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 ،مسند الامام احمدؒ 2669 )
قال الشيخ شعيب الارناؤط : إسناده قوي،
وأخرجه ابن أبي عاصم في "السنة" معلقاً (316) ، والترمذي (2516) ، والطبراني (12988) ، وابن السني في "عمل اليوم والليلة" (425) ، والبيهقي في "شعب الإيمان" (195) من طرق عن الليث بن سعد، به. قال الترمذي: حسن صحيح.
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا:' اے لڑکے! میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں "
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
یعنی انسان کو جب ایسی کسی چیز کی حاجت ہو جو ظاہری اسباب سے پوری ہونے والی نہ ہو یا اس کی دسترس میں نہ ہو تو انسان وہ چیز صرف اللہ سے مانگے، اسی سے دعا و التجا کرے۔ اس لئے کہ مافوق الاسباب طریقے سے دعاؤں کا سننے والا اور اسباب کے بغیر کسی کی حاجت پوری کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کے سوا کسی کے اندر یہ قوت و طاقت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدد طلب کرنے کی دوسری قسم
(2) اور اسباب کے ماتحت تو انسان ایک دوسرے کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لئے اسباب کی حد تک ان سے سوال کرنا بھی جائز ہے جیسے کسی زندہ انسان سے ایک شخص کوئی چیز مانگے، تو وہ سننے پر بھی اور اس کی حاجت پوری کرنے پر بھی قادر ہے،
اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو:
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) (المائدہ : 2)
"نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو "
یہی مدد انبیاء علیھم السلام نے بھی اللہ کے بندوں سے مانگی، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا :
(مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ) "اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں کون میری مدد کرنے والا ہے؟
"حواریوں نے کہا،
(نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ) (آل عمران: 52) "ہم اللہ کے مددگار ہیں" (یعنی اللہ کی طرف بلانے میں آپ کی مدد کرنے والے ہیں)
خود ہمارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بھی ثابت ہے کہ دس سالہ مکی دور میں جب کہ تبلیغ اسلام میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مخالفتیں تھیں، حج کے موسم میں آپ مختلف قبائل عرب پر اسلام پیش کرتے اور ان سے اپنی قوم (قریش) کے ظلم و ستم سے بچاؤ کے لئے مدد بھی طلب فرماتے اور یہ استدعا کرتے کہ کوئی ایسا ہے جو مجھے پناہ دے اور میری مدد کرے تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ مسند میں صحیح اسناد سےحدیث بیان فرماتے ہیں:
حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن خثيم، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: مكث رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة عشر سنين، يتبع الناس في منازلهم بعكاظ ومجنة، وفي المواسم بمنى، يقول: " من يؤويني؟ من ينصرني حتى أبلغ رسالة ربي، وله الجنة؟ " (مسند الامام احمد 14454 )
قال الشيخ شعيب الارناؤط في خاشية المسند : إسناده صحيح على شرط مسلم، وأبو الزبير قد صرح بالتحديث عند المصنف في الحديث الآتي برقم (14653) .
وأخرجه البزار (1756- كشف الأستار) ، وابن حبان (6274) ، والبيهقي 8/146 من طريق عبد الرزاق، بهذا الإسناد. ورواية البيهقي مختصرة
"یعنی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ رواایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے دس سالہ دورِ قیام میں موسم حج میں، بمقام منیٰ لوگوں کی قیام گاہوں، عکاظ اور مجنہ میں لوگوں کے پیچھے جاتے اور فرماتے : کون ہے جو مجھے جگہ (پناہ) دے؟ کون ہے جو میری مدد کرے؟ تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، اس کے بدلے اس کے لئے جنت ہے۔"
ایک موقعہ پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح فرما رہے تھے:
(( كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس بالموقف فيقول هل من رجل يحملنى الى قومه فان قريشا قد منعونى أن ابلغ كلام ربى عز وجل، فاتاه رجل من همدان فقال ممن أنت فقال الرجل من همدان، قال فهل عند قومك من منعة؟ قال نعم ۔۔۔))
کون ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے کیونکہ قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں؟ تو ہمدان قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے پوچھا، (هل عند قومك من منعة) کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ (الفتح الربانی: 20 / 267)
کون ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے کیونکہ قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں؟ تو ہمدان قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے پوچھا، (هل عند قومك من منعة) کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ (الفتح الربانی: 20 / 267)
مکمل حدیث یوں ہے :
حدثنا أسود بن عامر، أخبرنا إسرائيل، عن عثمان يعني ابن المغيرة، عن سالم بن أبي الجعد، عن جابر بن عبد الله، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس بالموقف فيقول: " هل من رجل يحملني إلى قومه، فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي "، فأتاه رجل من همدان فقال: " ممن أنت؟ " فقال الرجل: من همدان قال: " فهل عند قومك من منعة؟ " قال: نعم، ثم إن الرجل خشي أن يخفره قومه، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: آتيهم، فأخبرهم، ثم آتيك من عام قابل، قال: " نعم "، فانطلق وجاء وفد الأنصار في رجب ))
ترجمہ "
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ اور عرفات کے میدانوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش فرماتے اور ان سے فرماتے کہ کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے کیونکہ قریش نے مجھے اس بات سے روک رکھا ہے کہ میں اپنے رب کا کلام اور پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں اس دوران ہمدان کا ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے اس نے کہا ہمدان سے تو پیارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا
کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں پھر اس کے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ کہیں اس کی قوم اسے ذلیل ہی نہ کردے اس لئے اس نے جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا پہلے میں اپنی قوم میں جا کر انہیں مطلع کرتا ہوں پھر آئندہ سال میں آپ کے پاس آؤں گا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اس پر وہ چلا گیا اور اگلے سال سے پہلے رجب ہی میں انصار کا وفد پہنچ گیا۔
التخريج : أخرجه أبو داود (4734)، والترمذي (2925) واللفظ له، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (7727)، وابن ماجه (201)، وأحمد (15192) اور دیکھئے :انیس الساری ،حدیث 4057 )
اور سنن الترمذی میں حدیث ہے :
قال الامام الترمذي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ المُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ يَعْرِضُ نَفْسَهُ بِالْمَوْقِفِ، فَقَالَ: «أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلْنِي إِلَى قَوْمِهِ؟ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» (سنن الترمذي 2925 )
قال الالبانى: صحيح، ابن ماجة (201)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (حج کے موقع پر )منیٰ اور عرفات کے میدانوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش فرماتے اور ان سے فرماتے کہ کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے کیونکہ قریش نے مجھے اس بات سے روک رکھا ہے کہ میں اپنے رب کا کلام اور پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں "
بیعت عقبہ ثانیہ، جس میں 72 پاکیزہ نفوس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، اس بیعت میں دیگر باتوں کے ساتھ ایک عہد یہ تھا:
(وعلي ان تنصروني فتمنعوني اذا قدمت عليكم ما تمنعون منه انفسكم وازواجكم وابناءكم) (الفتح الرباني: 20/270)
"اور یہ کہ جب میں تمہارے پاس آؤں گا تو تم میری مدد کرو گے اور میری طرف سے اسی طرح مفادعت کرو گے، جیسے تم اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔"
اس تفصیل سے مقصد اس پہلو کی وضاحت کرنا ہے کہ انبیاء علیھم السلام سمیت تمام انسان ظاہری اسباب کی حد تک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔ اس لئے اسباب کے ماتحت ایک دوسرے سے سوال کرنا، ایک دوسرے سے مدد مانگنا اور چیز ہے اور ماورائے اسباب طریقے سے سوال کرنا اور مدد مانگنا اور چیز ہے۔
پہلی صورت نہ صرف جائز ہے بلکہ ناگزیر ہے، جب کہ دوسری صورت صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ کوئی انسان بھی ماورائے اسباب طریقے سے نہ کسی کی بات سن سکتا ہے اور نہ مدد کر سکتا ہے۔ یہ صفات صرف اللہ کی ہیں، اللہ کے سوا کوئی ان صفات کا حامل نہیں، حدیث مذکور الصدر میں پہلی صورت کا نہیں، بلکہ دوسری صورت کا ذکر ہے۔ یعنی ماورائے اسباب طریق سے سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے کرو، مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مانگو، کیونکہ دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد وہی سن سکتا ہے اور وہی ہر ایک کی مدد کر سکتا ہے،
اور فوت شدہ افراد کسی کی فریاد سن سکتے ہیں نہ مدد کر سکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــ