• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیراللہ سے مدد

شمولیت
جولائی 23، 2017
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
36
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
علماء کرام سے درخواست ہے کہ درج ذیل بریلوی تلبیس کا فوری جواب دینے کی زحمت فرمائیں

✳ مسلمانوں کامدد گار اللہ ہے (سورۃ محمد آیت 11)

جبریل اور نیک مومن بھی مددگارہیں( التحریم)

دونوں آیتوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کی پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مددگار اللہ ہے اور ان کی عطاء سے اولیاء اللہ بھی مدد کرتے ہیں
شرک اس وقت ہوگا جب برابری تصورکریں گے
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
90
جبریل اور نیک مومن بھی مددگارہیں
سورۃ التحريم : آیت 4

إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ۖ وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ (4)

اگر تم دونوں الله کی جناب میں توبہ کرو تو (بہتر) ورنہ تمہارے دل تو مائل ہو ہی چکے ہیں اوراگر تم آپ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو بے شک الله آپ کا مددگار ہے اور جبرائیل اور نیک بخت ایمان والے بھی اور سب فرشتے اس کے بعد آپ کے حامی ہیں

تفسیر مکہ :

٤۔ ١ یا تمہاری توبہ قبول کرلی جائے گی یہ شرط ان تتوبا کا جواب محذوف ہے ۔
٤۔ ٢ یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں اور وہ ہے ان کا ایسی چیز پسند کرنا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ناگوار تھی (فتح القدیر)
٤۔ ٣ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں تم جتھہ بندی کروگی تو نبی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گی، اس لئے کہ نبی کا مددگار تو اللہ بھی ہے اور مومنین اور ملائکہ بھی۔


دونوں آیتوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کی پہلی آیت کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی مددگار اللہ ہے اور ان کی عطاء سے اولیاء اللہ بھی مدد کرتے ہیں
شرک اس وقت ہوگا جب برابری تصورکریں گے
جہالت کی کوئی انتہا نہیں ہوتی

یہ تطبیق بھی انکی اپنی فیکڑی سے تیار کردہ ہے ، اللہ تعالی کیا ارشاد فرما رہے ہیں اور یہ قصہ کن کے متعلق وضاحت کررہا ہے ؟ یہ اس کی بجائے آیت کے چند الفاظ کو لیکر اپنی تطبیق کررہے ہیں ،اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے ، آپ اپنا وقت برباد نہ کریں ایسی پوسٹوں کے پیچھے

مزید تفصیل یہاں اہل علم بتادینگے ان شاءاللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جبریل اور نیک مومن بھی مددگارہیں( التحریم)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
مدد اور استعانت
کی دوقسمیں ہیں:
(1) مافوق الاسباب اور (2) ما تحت الاسباب

(1) ما فوق االاسباب مدد جو صرف اللہ رب العزت سے مانگی جاسکتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد دیکھئے :
(عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: «يا غلام إني أعلمك كلمات، احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف» هذا حديث حسن صحيح ") (جامع الترمذي' صفة القيامة' باب حديث حنظلة' ح: 5216 ،مسند الامام احمدؒ 2669 )
قال الشيخ شعيب الارناؤط : إسناده قوي،
وأخرجه ابن أبي عاصم في "السنة" معلقاً (316) ، والترمذي (2516) ، والطبراني (12988) ، وابن السني في "عمل اليوم والليلة" (425) ، والبيهقي في "شعب الإيمان" (195) من طرق عن الليث بن سعد، به. قال الترمذي: حسن صحيح.

ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا:' اے لڑکے! میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں "
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

"جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔"
یعنی انسان کو جب ایسی کسی چیز کی حاجت ہو جو ظاہری اسباب سے پوری ہونے والی نہ ہو یا اس کی دسترس میں نہ ہو تو انسان وہ چیز صرف اللہ سے مانگے، اسی سے دعا و التجا کرے۔ اس لئے کہ مافوق الاسباب طریقے سے دعاؤں کا سننے والا اور اسباب کے بغیر کسی کی حاجت پوری کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس کے سوا کسی کے اندر یہ قوت و طاقت نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدد طلب کرنے کی دوسری قسم
(2) اور اسباب کے ماتحت تو انسان ایک دوسرے کی مدد کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اس لئے اسباب کی حد تک ان سے سوال کرنا بھی جائز ہے جیسے کسی زندہ انسان سے ایک شخص کوئی چیز مانگے، تو وہ سننے پر بھی اور اس کی حاجت پوری کرنے پر بھی قادر ہے،
اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے کہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو:
(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) (المائدہ : 2)
"نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو "
یہی مدد انبیاء علیھم السلام نے بھی اللہ کے بندوں سے مانگی، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا :
(مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ) "اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے میں کون میری مدد کرنے والا ہے؟
"حواریوں نے کہا، (نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ) (آل عمران: 52) "ہم اللہ کے مددگار ہیں" (یعنی اللہ کی طرف بلانے میں آپ کی مدد کرنے والے ہیں)
خود ہمارےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت بھی ثابت ہے کہ دس سالہ مکی دور میں جب کہ تبلیغ اسلام میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مخالفتیں تھیں، حج کے موسم میں آپ مختلف قبائل عرب پر اسلام پیش کرتے اور ان سے اپنی قوم (قریش) کے ظلم و ستم سے بچاؤ کے لئے مدد بھی طلب فرماتے اور یہ استدعا کرتے کہ کوئی ایسا ہے جو مجھے پناہ دے اور میری مدد کرے تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ مسند میں صحیح اسناد سےحدیث بیان فرماتے ہیں:
حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن خثيم، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: مكث رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة عشر سنين، يتبع الناس في منازلهم بعكاظ ومجنة، وفي المواسم بمنى، يقول: " من يؤويني؟ من ينصرني حتى أبلغ رسالة ربي، وله الجنة؟ " (مسند الامام احمد 14454 )
قال الشيخ شعيب الارناؤط في خاشية المسند : إسناده صحيح على شرط مسلم، وأبو الزبير قد صرح بالتحديث عند المصنف في الحديث الآتي برقم (14653) .
وأخرجه البزار (1756- كشف الأستار) ، وابن حبان (6274) ، والبيهقي 8/146 من طريق عبد الرزاق، بهذا الإسناد. ورواية البيهقي مختصرة
"یعنی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ رواایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے کے دس سالہ دورِ قیام میں موسم حج میں، بمقام منیٰ لوگوں کی قیام گاہوں، عکاظ اور مجنہ میں لوگوں کے پیچھے جاتے اور فرماتے : کون ہے جو مجھے جگہ (پناہ) دے؟ کون ہے جو میری مدد کرے؟ تاکہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں، اس کے بدلے اس کے لئے جنت ہے۔"
ایک موقعہ پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح فرما رہے تھے:
(( كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس بالموقف فيقول هل من رجل يحملنى الى قومه فان قريشا قد منعونى أن ابلغ كلام ربى عز وجل، فاتاه رجل من همدان فقال ممن أنت فقال الرجل من همدان، قال فهل عند قومك من منعة؟ قال نعم ۔۔۔))
کون ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے کیونکہ قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں؟ تو ہمدان قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے پوچھا، (هل عند قومك من منعة) کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ (الفتح الربانی: 20 / 267)​
کون ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے جائے کیونکہ قریش مجھے اس بات سے روکتے ہیں کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں؟ تو ہمدان قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا، آپ نے اس سے پوچھا، (هل عند قومك من منعة) کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ (الفتح الربانی: 20 / 267)
مکمل حدیث یوں ہے :
حدثنا أسود بن عامر، أخبرنا إسرائيل، عن عثمان يعني ابن المغيرة، عن سالم بن أبي الجعد، عن جابر بن عبد الله، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يعرض نفسه على الناس بالموقف فيقول: " هل من رجل يحملني إلى قومه، فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي "، فأتاه رجل من همدان فقال: " ممن أنت؟ " فقال الرجل: من همدان قال: " فهل عند قومك من منعة؟ " قال: نعم، ثم إن الرجل خشي أن يخفره قومه، فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: آتيهم، فأخبرهم، ثم آتيك من عام قابل، قال: " نعم "، فانطلق وجاء وفد الأنصار في رجب ))
ترجمہ "
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ اور عرفات کے میدانوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش فرماتے اور ان سے فرماتے کہ کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے کیونکہ قریش نے مجھے اس بات سے روک رکھا ہے کہ میں اپنے رب کا کلام اور پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں اس دوران ہمدان کا ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلے سے ہے اس نے کہا ہمدان سے تو پیارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا کیا تیری قوم کے اندر حفاظت و نگرانی کرنے والے لوگ ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں پھر اس کے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ کہیں اس کی قوم اسے ذلیل ہی نہ کردے اس لئے اس نے جناب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا پہلے میں اپنی قوم میں جا کر انہیں مطلع کرتا ہوں پھر آئندہ سال میں آپ کے پاس آؤں گا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اس پر وہ چلا گیا اور اگلے سال سے پہلے رجب ہی میں انصار کا وفد پہنچ گیا۔
التخريج : أخرجه أبو داود (4734)، والترمذي (2925) واللفظ له، والنسائي في ((السنن الكبرى)) (7727)، وابن ماجه (201)، وأحمد (15192) اور دیکھئے :انیس الساری ،حدیث 4057 )
اور سنن الترمذی میں حدیث ہے :
قال الامام الترمذي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ المُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ يَعْرِضُ نَفْسَهُ بِالْمَوْقِفِ، فَقَالَ: «أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلْنِي إِلَى قَوْمِهِ؟ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» (سنن الترمذي 2925 )
قال الالبانى: صحيح، ابن ماجة (201)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (حج کے موقع پر )منیٰ اور عرفات کے میدانوں میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش فرماتے اور ان سے فرماتے کہ کیا کوئی ایسا آدمی ہے جو مجھے اپنی قوم میں لے جائے کیونکہ قریش نے مجھے اس بات سے روک رکھا ہے کہ میں اپنے رب کا کلام اور پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں "

بیعت عقبہ ثانیہ، جس میں 72 پاکیزہ نفوس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی تھی، اس بیعت میں دیگر باتوں کے ساتھ ایک عہد یہ تھا:
(وعلي ان تنصروني فتمنعوني اذا قدمت عليكم ما تمنعون منه انفسكم وازواجكم وابناءكم) (الفتح الرباني: 20/270)
"اور یہ کہ جب میں تمہارے پاس آؤں گا تو تم میری مدد کرو گے اور میری طرف سے اسی طرح مفادعت کرو گے، جیسے تم اپنی جانوں، اپنی بیویوں اور اپنے بیٹوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔"

اس تفصیل سے مقصد اس پہلو کی وضاحت کرنا ہے کہ انبیاء علیھم السلام سمیت تمام انسان ظاہری اسباب کی حد تک ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر زندگی گزار ہی نہیں سکتے۔ اس لئے اسباب کے ماتحت ایک دوسرے سے سوال کرنا، ایک دوسرے سے مدد مانگنا اور چیز ہے اور ماورائے اسباب طریقے سے سوال کرنا اور مدد مانگنا اور چیز ہے۔

پہلی صورت نہ صرف جائز ہے بلکہ ناگزیر ہے، جب کہ دوسری صورت صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ کوئی انسان بھی ماورائے اسباب طریقے سے نہ کسی کی بات سن سکتا ہے اور نہ مدد کر سکتا ہے۔ یہ صفات صرف اللہ کی ہیں، اللہ کے سوا کوئی ان صفات کا حامل نہیں، حدیث مذکور الصدر میں پہلی صورت کا نہیں، بلکہ دوسری صورت کا ذکر ہے۔ یعنی ماورائے اسباب طریق سے سوال کرنا ہو تو صرف اللہ سے کرو، مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ سے مانگو، کیونکہ دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد وہی سن سکتا ہے اور وہی ہر ایک کی مدد کر سکتا ہے،
اور فوت شدہ افراد کسی کی فریاد سن سکتے ہیں نہ مدد کر سکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
غیر اللہ کے عشاق

ہمارے ہاں پاک و ہند کے قبر پرست بھی عجب مخلوق ہیں ،
اپنے شرکیہ عقیدہ اور غیر اللہ کو اللہ تعالی کے اختیارات میں شریک و سہیم ثابت کرنے کیلئے قرآن و حدیث کے الفاظ و اصطلاحات کو سمجھے بغیر اپنی دلیل کے طور پر اچھالنا شروع کردیتے ہیں ؛
اللہ عزوجل کے سوا بھی کوئی کسی کی مدد و نصرت پر قادر ہے یا نہیں ؟
اس ضمن میں یہ بے چارے جہاں نصرت و استعانت کا لفظ دیکھتے ہیں ، نعرہ حیدری کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں ؛
یہ وہی طرز عمل ہے جو مشرکین عرب کا تھا ،جسے قرآن نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے :
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر 45)
اور جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل گھٹ جاتے ہیں ، اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔"

بالکل اسی طرح مسلم مشرکین " غیر اللہ سے مدد مانگنے " کے ثبوت میں جہاں لفظ " مدد " اور "نصرت " دیکھتے ہیں ، اسے اپنی دلیل سمجھ کر چلانا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو یہاں بندوں سے مدد و نصرت مانگنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
جیسا کہ یہاں اس سوال میں یہی صورتحال نمایاں ہے ،
حالاں کہ :لفظ " مدد " اور "نصرت " کا مطلب ہر جگہ ایک ہی نہیں ہواکرتا ،
مثلاً دیکھئے ایک مدد بندے اللہ کی کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [٤٧:٧]
اے اہل ایمان! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
یہاں اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اپنے عمل سے اور دین کیلئے جہاد کرکے اور اس کی تبلیغ ودعوت کی صورت میں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح وغلبہ عطا کرتا ہے (احسن البیان )
امام ابن جریرؒ محمد بن جرير الطبري (المتوفى: 310هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وقوله (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ) يقول تعالى ذكره: يا أيها الذين صدّقوا الله ورسوله، إن تنصروا الله ينصركم بنصركم رسوله محمدا صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم على أعدائه من أهل الكفر به وجهادكم إياهم معه لتكون كلمته العُليا ينصركم عليهم، ويظفركم بهم، فإنه ناصر دينه وأولياءه.
یعنی یہاں سورۃ محمد کی اس آیت میں جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ :" اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا ، اور اللہ کی مدد سے مراد دین کے دشمنوں کے خلاف پیغمبر اکرم ﷺ کی مدد کرنا ہے ، اور اللہ کے دین کیلئے پیغمبر کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کرنا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ (یعنی دین حق ) غالب اور اونچا رہے ،اس صورت میں اللہ تعالی کفار کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ،تمہیں ان پر فتح اور غلبہ عطا فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالی اپنے دین اور اپنے اولیاء یعنی مومنین کا خود ناصر و مدد گار ہے "

اور امام ابن الجوزیؒ عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) زادالمسیر میں لکھتے ہیں :
قوله تعالى: إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ أي: تنصُروا دينه ورسوله يَنْصُرْكُمْ على عدوِّكم وَيُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ عند القتال "
یعنی اللہ تعالی کے ارشاد "اگر تم اللہ کی مدد کرگے " کا معنی ہے " اگر تم اللہ کے دین اور اس کے رسول کی مدد کروگے ،تو اللہ کریم تمہارے دشنوں کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ، اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدد کی یہ قسم جو حقیقت میں "خدمت ،اطاعت ، فرمانبرداری ،تعاون ،معیت وغیرہ کے مفہوم کیلئے آتی ہے ۔
مدد اور تعاون کی اس قسم میں عام انسان بھی انبیاء جیسے عظیم اور پاک نفوس کی مدد کرتے ہیں ،
جیسے درج ذیل آیات میں واضح ہے
:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (سورۃ المائدۃ 52)
جب جناب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا ، تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 52)
اور دوسری جگہ فرمایا کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (سورۃ الصف )
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ ! جس طرح ہمارے پیغمبر عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں ۔
اور فرمایا :

ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ
پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس موجود شریعت کی تصدیق کرے ، تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 81)
اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ "
اے ایمان والو! نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ۔ (سورہ المائدہ ، آیت : 2)

مطلب یہ کہ ماتحت الاسباب مدد ، یعنی اسباب و وسائل کی موجودگی میں کسی کی مدد کرنا تو وہ ہر شخص کرتا ہے ، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم اور خواہ نیک ہو یا گناہگار۔ اس میں کسی کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔
بلکہ آپ نے کئی دفعہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ اپنی زندگی میں اور اسباب و وسائل کے تحت کوئی غیرمسلم کسی مسلمان کی یا کوئی گناہگار کسی نیک شخص کی اخلاقی و مالی مدد کرتا ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ غیراللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا جائز ہے؟
کیا غیر مسلم این جی اوز مسلمانوں کو بددین کرنے کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں کرتیں؟
کیا قبر پرستی میں مبتلاء حضرات کسی غیرمسلم کو بھی اس کی موت کے بعد مدد کے لیے پکاریں گے؟
 
شمولیت
جولائی 23، 2017
پیغامات
40
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
36
غیر اللہ کے عشاق

ہمارے ہاں پاک و ہند کے قبر پرست بھی عجب مخلوق ہیں ،
اپنے شرکیہ عقیدہ اور غیر اللہ کو اللہ تعالی کے اختیارات میں شریک و سہیم ثابت کرنے کیلئے قرآن و حدیث کے الفاظ و اصطلاحات کو سمجھے بغیر اپنی دلیل کے طور پر اچھالنا شروع کردیتے ہیں ؛
اللہ عزوجل کے سوا بھی کوئی کسی کی مدد و نصرت پر قادر ہے یا نہیں ؟
اس ضمن میں یہ بے چارے جہاں نصرت و استعانت کا لفظ دیکھتے ہیں ، نعرہ حیدری کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں ؛
یہ وہی طرز عمل ہے جو مشرکین عرب کا تھا ،جسے قرآن نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے :
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر 45)
اور جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل گھٹ جاتے ہیں ، اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔"

بالکل اسی طرح مسلم مشرکین " غیر اللہ سے مدد مانگنے " کے ثبوت میں جہاں لفظ " مدد " اور "نصرت " دیکھتے ہیں ، اسے اپنی دلیل سمجھ کر چلانا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو یہاں بندوں سے مدد و نصرت مانگنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
جیسا کہ یہاں اس سوال میں یہی صورتحال نمایاں ہے ،
حالاں کہ :لفظ " مدد " اور "نصرت " کا مطلب ہر جگہ ایک ہی نہیں ہواکرتا ،
مثلاً دیکھئے ایک مدد بندے اللہ کی کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [٤٧:٧]
اے اہل ایمان! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
یہاں اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اپنے عمل سے اور دین کیلئے جہاد کرکے اور اس کی تبلیغ ودعوت کی صورت میں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح وغلبہ عطا کرتا ہے (احسن البیان )
امام ابن جریرؒ محمد بن جرير الطبري (المتوفى: 310هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وقوله (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ) يقول تعالى ذكره: يا أيها الذين صدّقوا الله ورسوله، إن تنصروا الله ينصركم بنصركم رسوله محمدا صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم على أعدائه من أهل الكفر به وجهادكم إياهم معه لتكون كلمته العُليا ينصركم عليهم، ويظفركم بهم، فإنه ناصر دينه وأولياءه.
یعنی یہاں سورۃ محمد کی اس آیت میں جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ :" اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا ، اور اللہ کی مدد سے مراد دین کے دشمنوں کے خلاف پیغمبر اکرم ﷺ کی مدد کرنا ہے ، اور اللہ کے دین کیلئے پیغمبر کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کرنا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ (یعنی دین حق ) غالب اور اونچا رہے ،اس صورت میں اللہ تعالی کفار کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ،تمہیں ان پر فتح اور غلبہ عطا فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالی اپنے دین اور اپنے اولیاء یعنی مومنین کا خود ناصر و مدد گار ہے "

اور امام ابن الجوزیؒ عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) زادالمسیر میں لکھتے ہیں :
قوله تعالى: إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ أي: تنصُروا دينه ورسوله يَنْصُرْكُمْ على عدوِّكم وَيُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ عند القتال "
یعنی اللہ تعالی کے ارشاد "اگر تم اللہ کی مدد کرگے " کا معنی ہے " اگر تم اللہ کے دین اور اس کے رسول کی مدد کروگے ،تو اللہ کریم تمہارے دشنوں کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ، اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدد کی یہ قسم جو حقیقت میں "خدمت ،اطاعت ، فرمانبرداری ،تعاون ،معیت وغیرہ کے مفہوم کیلئے آتی ہے ۔
مدد اور تعاون کی اس قسم میں عام انسان بھی انبیاء جیسے عظیم اور پاک نفوس کی مدد کرتے ہیں ،
جیسے درج ذیل آیات میں واضح ہے
:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (سورۃ المائدۃ 52)
جب جناب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا ، تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 52)
اور دوسری جگہ فرمایا کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (سورۃ الصف )
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ ! جس طرح ہمارے پیغمبر عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں ۔
اور فرمایا :

ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ
پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس موجود شریعت کی تصدیق کرے ، تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 81)
اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ "
اے ایمان والو! نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ۔ (سورہ المائدہ ، آیت : 2)

مطلب یہ کہ ماتحت الاسباب مدد ، یعنی اسباب و وسائل کی موجودگی میں کسی کی مدد کرنا تو وہ ہر شخص کرتا ہے ، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم اور خواہ نیک ہو یا گناہگار۔ اس میں کسی کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔
بلکہ آپ نے کئی دفعہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ اپنی زندگی میں اور اسباب و وسائل کے تحت کوئی غیرمسلم کسی مسلمان کی یا کوئی گناہگار کسی نیک شخص کی اخلاقی و مالی مدد کرتا ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ غیراللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا جائز ہے؟
کیا غیر مسلم این جی اوز مسلمانوں کو بددین کرنے کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں کرتیں؟
کیا قبر پرستی میں مبتلاء حضرات کسی غیرمسلم کو بھی اس کی موت کے بعد مدد کے لیے پکاریں گے؟
غیر اللہ کے عشاق

ہمارے ہاں پاک و ہند کے قبر پرست بھی عجب مخلوق ہیں ،
اپنے شرکیہ عقیدہ اور غیر اللہ کو اللہ تعالی کے اختیارات میں شریک و سہیم ثابت کرنے کیلئے قرآن و حدیث کے الفاظ و اصطلاحات کو سمجھے بغیر اپنی دلیل کے طور پر اچھالنا شروع کردیتے ہیں ؛
اللہ عزوجل کے سوا بھی کوئی کسی کی مدد و نصرت پر قادر ہے یا نہیں ؟
اس ضمن میں یہ بے چارے جہاں نصرت و استعانت کا لفظ دیکھتے ہیں ، نعرہ حیدری کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں ؛
یہ وہی طرز عمل ہے جو مشرکین عرب کا تھا ،جسے قرآن نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے :
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر 45)
اور جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل گھٹ جاتے ہیں ، اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔"

بالکل اسی طرح مسلم مشرکین " غیر اللہ سے مدد مانگنے " کے ثبوت میں جہاں لفظ " مدد " اور "نصرت " دیکھتے ہیں ، اسے اپنی دلیل سمجھ کر چلانا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو یہاں بندوں سے مدد و نصرت مانگنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
جیسا کہ یہاں اس سوال میں یہی صورتحال نمایاں ہے ،
حالاں کہ :لفظ " مدد " اور "نصرت " کا مطلب ہر جگہ ایک ہی نہیں ہواکرتا ،
مثلاً دیکھئے ایک مدد بندے اللہ کی کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [٤٧:٧]
اے اہل ایمان! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
یہاں اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اپنے عمل سے اور دین کیلئے جہاد کرکے اور اس کی تبلیغ ودعوت کی صورت میں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح وغلبہ عطا کرتا ہے (احسن البیان )
امام ابن جریرؒ محمد بن جرير الطبري (المتوفى: 310هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وقوله (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ) يقول تعالى ذكره: يا أيها الذين صدّقوا الله ورسوله، إن تنصروا الله ينصركم بنصركم رسوله محمدا صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم على أعدائه من أهل الكفر به وجهادكم إياهم معه لتكون كلمته العُليا ينصركم عليهم، ويظفركم بهم، فإنه ناصر دينه وأولياءه.
یعنی یہاں سورۃ محمد کی اس آیت میں جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ :" اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا ، اور اللہ کی مدد سے مراد دین کے دشمنوں کے خلاف پیغمبر اکرم ﷺ کی مدد کرنا ہے ، اور اللہ کے دین کیلئے پیغمبر کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کرنا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ (یعنی دین حق ) غالب اور اونچا رہے ،اس صورت میں اللہ تعالی کفار کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ،تمہیں ان پر فتح اور غلبہ عطا فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالی اپنے دین اور اپنے اولیاء یعنی مومنین کا خود ناصر و مدد گار ہے "

اور امام ابن الجوزیؒ عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) زادالمسیر میں لکھتے ہیں :
قوله تعالى: إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ أي: تنصُروا دينه ورسوله يَنْصُرْكُمْ على عدوِّكم وَيُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ عند القتال "
یعنی اللہ تعالی کے ارشاد "اگر تم اللہ کی مدد کرگے " کا معنی ہے " اگر تم اللہ کے دین اور اس کے رسول کی مدد کروگے ،تو اللہ کریم تمہارے دشنوں کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ، اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدد کی یہ قسم جو حقیقت میں "خدمت ،اطاعت ، فرمانبرداری ،تعاون ،معیت وغیرہ کے مفہوم کیلئے آتی ہے ۔
مدد اور تعاون کی اس قسم میں عام انسان بھی انبیاء جیسے عظیم اور پاک نفوس کی مدد کرتے ہیں ،
جیسے درج ذیل آیات میں واضح ہے
:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (سورۃ المائدۃ 52)
جب جناب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا ، تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 52)
اور دوسری جگہ فرمایا کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (سورۃ الصف )
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ ! جس طرح ہمارے پیغمبر عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں ۔
اور فرمایا :

ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ
پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس موجود شریعت کی تصدیق کرے ، تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 81)
اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ "
اے ایمان والو! نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ۔ (سورہ المائدہ ، آیت : 2)

مطلب یہ کہ ماتحت الاسباب مدد ، یعنی اسباب و وسائل کی موجودگی میں کسی کی مدد کرنا تو وہ ہر شخص کرتا ہے ، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم اور خواہ نیک ہو یا گناہگار۔ اس میں کسی کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔
بلکہ آپ نے کئی دفعہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ اپنی زندگی میں اور اسباب و وسائل کے تحت کوئی غیرمسلم کسی مسلمان کی یا کوئی گناہگار کسی نیک شخص کی اخلاقی و مالی مدد کرتا ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ غیراللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا جائز ہے؟
کیا غیر مسلم این جی اوز مسلمانوں کو بددین کرنے کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں کرتیں؟
کیا قبر پرستی میں مبتلاء حضرات کسی غیرمسلم کو بھی اس کی موت کے بعد مدد کے لیے پکاریں گے؟
غیر اللہ کے عشاق

ہمارے ہاں پاک و ہند کے قبر پرست بھی عجب مخلوق ہیں ،
اپنے شرکیہ عقیدہ اور غیر اللہ کو اللہ تعالی کے اختیارات میں شریک و سہیم ثابت کرنے کیلئے قرآن و حدیث کے الفاظ و اصطلاحات کو سمجھے بغیر اپنی دلیل کے طور پر اچھالنا شروع کردیتے ہیں ؛
اللہ عزوجل کے سوا بھی کوئی کسی کی مدد و نصرت پر قادر ہے یا نہیں ؟
اس ضمن میں یہ بے چارے جہاں نصرت و استعانت کا لفظ دیکھتے ہیں ، نعرہ حیدری کی صدائیں بلند کرنے لگتے ہیں ؛
یہ وہی طرز عمل ہے جو مشرکین عرب کا تھا ،جسے قرآن نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے :
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر 45)
اور جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل گھٹ جاتے ہیں ، اور جب اللہ کے علاوہ دوسروں کا ذکر کیا جائے تو ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔"

بالکل اسی طرح مسلم مشرکین " غیر اللہ سے مدد مانگنے " کے ثبوت میں جہاں لفظ " مدد " اور "نصرت " دیکھتے ہیں ، اسے اپنی دلیل سمجھ کر چلانا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو دیکھو یہاں بندوں سے مدد و نصرت مانگنے کا ثبوت ملتا ہے ۔
جیسا کہ یہاں اس سوال میں یہی صورتحال نمایاں ہے ،
حالاں کہ :لفظ " مدد " اور "نصرت " کا مطلب ہر جگہ ایک ہی نہیں ہواکرتا ،
مثلاً دیکھئے ایک مدد بندے اللہ کی کرتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۝۷ [٤٧:٧]
اے اہل ایمان! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔
یہاں اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اپنے عمل سے اور دین کیلئے جہاد کرکے اور اس کی تبلیغ ودعوت کی صورت میں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح وغلبہ عطا کرتا ہے (احسن البیان )
امام ابن جریرؒ محمد بن جرير الطبري (المتوفى: 310هـ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
وقوله (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ) يقول تعالى ذكره: يا أيها الذين صدّقوا الله ورسوله، إن تنصروا الله ينصركم بنصركم رسوله محمدا صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم على أعدائه من أهل الكفر به وجهادكم إياهم معه لتكون كلمته العُليا ينصركم عليهم، ويظفركم بهم، فإنه ناصر دينه وأولياءه.
یعنی یہاں سورۃ محمد کی اس آیت میں جو اللہ تعالی نے فرمایا کہ :" اے اہل ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا ، اور اللہ کی مدد سے مراد دین کے دشمنوں کے خلاف پیغمبر اکرم ﷺ کی مدد کرنا ہے ، اور اللہ کے دین کیلئے پیغمبر کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کرنا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ (یعنی دین حق ) غالب اور اونچا رہے ،اس صورت میں اللہ تعالی کفار کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ،تمہیں ان پر فتح اور غلبہ عطا فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالی اپنے دین اور اپنے اولیاء یعنی مومنین کا خود ناصر و مدد گار ہے "

اور امام ابن الجوزیؒ عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى: 597هـ) زادالمسیر میں لکھتے ہیں :
قوله تعالى: إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ أي: تنصُروا دينه ورسوله يَنْصُرْكُمْ على عدوِّكم وَيُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ عند القتال "
یعنی اللہ تعالی کے ارشاد "اگر تم اللہ کی مدد کرگے " کا معنی ہے " اگر تم اللہ کے دین اور اس کے رسول کی مدد کروگے ،تو اللہ کریم تمہارے دشنوں کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا ، اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدد کی یہ قسم جو حقیقت میں "خدمت ،اطاعت ، فرمانبرداری ،تعاون ،معیت وغیرہ کے مفہوم کیلئے آتی ہے ۔
مدد اور تعاون کی اس قسم میں عام انسان بھی انبیاء جیسے عظیم اور پاک نفوس کی مدد کرتے ہیں ،
جیسے درج ذیل آیات میں واضح ہے
:
فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (سورۃ المائدۃ 52)
جب جناب عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا کفر محسوس کرلیا ، تو کہنے لگے اللہ تعالیٰ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون کون ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ رہیے کہ ہم تابعدار ہیں۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 52)
اور دوسری جگہ فرمایا کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيِّينَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (سورۃ الصف )
اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار بن جاؤ ! جس طرح ہمارے پیغمبر عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنے؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کی راہ میں مددگار ہیں ۔
اور فرمایا :

ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ
پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس موجود شریعت کی تصدیق کرے ، تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے۔ (سورہ آل عمران ، آیت : 81)
اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ :

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ "
اے ایمان والو! نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ ظلم زیادتی میں مدد نہ کرو ۔ (سورہ المائدہ ، آیت : 2)

مطلب یہ کہ ماتحت الاسباب مدد ، یعنی اسباب و وسائل کی موجودگی میں کسی کی مدد کرنا تو وہ ہر شخص کرتا ہے ، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم اور خواہ نیک ہو یا گناہگار۔ اس میں کسی کو کوئی خصوصیت حاصل نہیں۔
بلکہ آپ نے کئی دفعہ مشاہدہ کیا ہو گا کہ اپنی زندگی میں اور اسباب و وسائل کے تحت کوئی غیرمسلم کسی مسلمان کی یا کوئی گناہگار کسی نیک شخص کی اخلاقی و مالی مدد کرتا ہے۔ کیا اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ غیراللہ سے ما فوق الاسباب مدد مانگنا جائز ہے؟
کیا غیر مسلم این جی اوز مسلمانوں کو بددین کرنے کے لیے ان کی مالی معاونت نہیں کرتیں؟
کیا قبر پرستی میں مبتلاء حضرات کسی غیرمسلم کو بھی اس کی موت کے بعد مدد کے لیے پکاریں گے؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791

afroz.saddam

مبتدی
شمولیت
جون 26، 2019
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
7
جزاکم اللہ خیر واحسن الجزاء

Sent from my SM-J250F using Tapatalk
 
Top