مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 463
- پوائنٹ
- 209
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔
(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
غیرمسلم تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں جنہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں ذکر کیا ہے ۔
ان میں سے ایک یہ ہے ۔
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم۔
ترجمہ:قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]
اس کی سند میں موجود قابوس بن ابی ظبیان پر ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے جبکہ اسے کئی محدثین نے قابل حجت قرار دیا ہے ۔
(1) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اس کی توثیق کی ہے۔
(2) ابواحمد بن عدی نے "لاباس بہ" کہکر توثیق کی ہے۔
(3) علامہ ذہبی نے تاریخ الاسلام میں قابوس کو"حَسَنُ الْحَدِيثِ " کہا ہے ۔
(4) احمد بن سعید نے اسے "جائز الحدیث " کہاہے۔
(5) امام طبرانی نے ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہےاسے حسن کہا ہے۔
(6) امام ابن حجر نے اپنی کتاب "الداریہ فی تخریج احادیث الھدایہ" میں ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہے اس سے استدلال کیا ہے ۔
(7) امام ترمذی نے قابوس والی ایک روایت کو حسن کہا ہے ، روایت وحکم دیکھیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْنَا لابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ}[الأحزاب: 4] مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا يُصَلِّي؛ فَخَطَرَ خَطْرَةً؛ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلاَ تَرَى أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ، قَلْبًا مَعَكُمْ وَقَلْبًا مَعَهُمْ؟! فَأَنْزَلَ اللَّهُ:{مَاجَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ }[الأحزاب: 4].(ترمذی :3199)
قال ابوعیسی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
گویا قابوس ترمذی کے نزدیک قابل حجت ہیں۔ ترمذی کی 3927 نمبر کی حدیث میں بھی قابوس موجود ہے، اس روایت کے متعلق امام ترمذی نے صرف قابوس کے والد ابوظبیان کا سلمان فارسی کے زمانہ نہ پانے کی بات ذکرکی ہے ۔
(8) احمد شاکر نے بھی ترمذی والی سند کو صحیح کہا ہے ۔(مسند أحمد: 4/132 )
اسی طرح دوسرا اثر دیکھیں :
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)
مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔
تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے سے متعلق شیخ الاسلام کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہور شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کے معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے ۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔
مقبول احمد سلفی
(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
غیرمسلم تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں جنہیں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں ذکر کیا ہے ۔
ان میں سے ایک یہ ہے ۔
حدثنا جرير ، عن قابوس ، عن أبيه ؛ أن امرأة سألت عائشة قالت : إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا ؟ فقالت : أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ، ولكن كلوا من أشجارهم۔
ترجمہ:قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہوئے کہا: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 87]
اس کی سند میں موجود قابوس بن ابی ظبیان پر ضعف کا حکم لگایا جاتا ہے جبکہ اسے کئی محدثین نے قابل حجت قرار دیا ہے ۔
(1) امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اس کی توثیق کی ہے۔
(2) ابواحمد بن عدی نے "لاباس بہ" کہکر توثیق کی ہے۔
(3) علامہ ذہبی نے تاریخ الاسلام میں قابوس کو"حَسَنُ الْحَدِيثِ " کہا ہے ۔
(4) احمد بن سعید نے اسے "جائز الحدیث " کہاہے۔
(5) امام طبرانی نے ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہےاسے حسن کہا ہے۔
(6) امام ابن حجر نے اپنی کتاب "الداریہ فی تخریج احادیث الھدایہ" میں ایک روایت کو جس میں قابوس موجود ہے اس سے استدلال کیا ہے ۔
(7) امام ترمذی نے قابوس والی ایک روایت کو حسن کہا ہے ، روایت وحکم دیکھیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا صَاعِدٌ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، أَخْبَرَنَا قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْنَا لابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ: {مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ}[الأحزاب: 4] مَا عَنَى بِذَلِكَ؟ قَالَ: قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ ﷺ يَوْمًا يُصَلِّي؛ فَخَطَرَ خَطْرَةً؛ فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ مَعَهُ: أَلاَ تَرَى أَنَّ لَهُ قَلْبَيْنِ، قَلْبًا مَعَكُمْ وَقَلْبًا مَعَهُمْ؟! فَأَنْزَلَ اللَّهُ:{مَاجَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ }[الأحزاب: 4].(ترمذی :3199)
قال ابوعیسی : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
گویا قابوس ترمذی کے نزدیک قابل حجت ہیں۔ ترمذی کی 3927 نمبر کی حدیث میں بھی قابوس موجود ہے، اس روایت کے متعلق امام ترمذی نے صرف قابوس کے والد ابوظبیان کا سلمان فارسی کے زمانہ نہ پانے کی بات ذکرکی ہے ۔
(8) احمد شاکر نے بھی ترمذی والی سند کو صحیح کہا ہے ۔(مسند أحمد: 4/132 )
اسی طرح دوسرا اثر دیکھیں :
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]
اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے ۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)
مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔
تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے سے متعلق شیخ الاسلام کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہور شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کے معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے ۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔
مقبول احمد سلفی