• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیرمسلم تہوار کی مٹھائی : تجزیاتی تحریر

sheikh fam

رکن
شمولیت
اپریل 16، 2016
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
53
کیا غیر مسلم تہوار میں شرکت اور تہوار کی مبارکباد دی جا سکتی ہے ؟​
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
943
پوائنٹ
120
کیا غیر مسلم تہوار میں شرکت اور تہوار کی مبارکباد دی جا سکتی ہے ؟​
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
درج ذیل مضمون کا مطالعہ فرمایے ، اِن شاء اللہ ، آپ کے سوال کا جواب مل جائے گا، اور اِس دھاگے میں رواں موضوع کے بارے میں بھی کچھ معلوما ت میسر ہوں گی :
::: غیر مُسلموں کے تہواروں میں شمولیت :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://forum.mohaddis.com/threads/غیر-مسلموں-کے-تہواروں-میں-شمولیت.4135/
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ آپ کی اس تحریر کا جواب شیخ @کفایت اللہ حفظہ اللہ نے یوں دیا ہے اور اس تحریر کو پڑھنے کے بعد آپ کا موقف بھی جاننا چاہتا ہوں۔جزاک اللہ خیراً
شیخ کی تحریر ملاحظہ ہو:

غیرمسلم تیوہارکی مٹھائی : تجزیاتی تحریر کاجائزہ
از: کفایت اللہ سنابلی


غیرمسلم کے تیوہار پر ہدیہ قبول کرنے سے متعلق بعض آثار ملتے ہیں لیکن یہ سارے آثار ضعیف وغیر ثابت ہیں جیساکہ میں نے اپنے ایک مضمون میں وضاحت کی ہے۔
لیکن حال ہی میں محترم مقبول احمد سلفی صاحب نے ان آثار میں سے دو اثر کو بڑے ہی عجیب وغریب انداز میں صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ذیل میں اس کا جائزہ پیش خدمت ہے:
◼ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کااثر:
حدثنا وكيع ، عن الحسن بن حكيم ، عن أمه ، عن أبي برزة ؛ أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔
ترجمہ:ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے کچھ مجوسی پڑوسی تھے جو انہیں نیروز اور مہرجان کے تیوہاروں میں ہدیہ دیتے تھے ، تو آپ اپنے گھروالوں سے کہتے تھے کہ : میوے کی شکل میں جوچیز ہو اسے کھالو اور اس کے علاوہ جو ہو اسے لوٹادو[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88]

اس سند میں حسن بن حکیم کی والدہ ہیں ان کی کوئی توثیق کہیں نہیں ملتی حتی کی ان کے نام تک کی صراحت مجھے کہیں نہیں مل سکی ۔اب جس کی توثیق تو درکنار اس کا نام تک معلوم نہ ہوسکے اس کی روایت کو کیونکر صحیح کہا جاسکتاہے! لیکن مقبول احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں:
⬅ ’’اس میں حسن بن حکیم ثقفی کی ماں جوکہ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے مولاۃ ہیں کا حال نامعلوم ہے۔ یہ اثر ایک دوسرے طریق سے بھی مروی ہے۔
حدثنا وكيع عن الحكم بن حكيم عن ابيه عن أبي برزة :أنه كان له سكان مجوس ، فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان ، فكان يقول لأهله : ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه ۔ (اعلام السنن 12/706 علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی)مجہول الحال کی روایت متابعات و شواہد میں قابل قبول ہے ۔‘‘

⬅ یہاں مقبول سلفی صاحب نے مشہور دیوبندی عالم ظفر تھانوی صاحب کی کتاب سے یہی روایت نقل کرکے اسے دوسرا طریق بتا دیا !!! علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی یہ پڑھ کرحیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کیونکہ ظفر تھانوی صاحب نے بھی اس روایت کو مذکورہ سند ہی سے ذکرکیا اور ابن ابی شیبہ ہی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔پھر یہ دوسرا طریق کیسے ہوگیا ؟

غور کریں سند بھی ایک ، کتاب بھی ایک ، پھر دوسرا طریق کیسے ؟

⬅ واضح رہے کہ ظفر تھانوی صاحب کی جس عبارت سے مقبول سلفی صاحب نے حوالہ پیش کیا ہے وہ اصل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام ہے جسے تھانوی صاحب نے اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ سے نقل کردیاہے۔اورابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔

ظفر تھانوی صاحب نے نقل میں غلطی کی یا کاتب نے غلطی کی اور سند کے اندر ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے نیچے (عن ابیہ) لکھ دیا جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں (عن امہ) ہے دیکھئے : (اقتضاء الصراط المستقیم ص:120 مطبوعہ المطبعۃ الشرفیۃ ، الطبعۃ الاولی)۔اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی (عن امہ) ہے۔ دیکھئے: ( مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 8/ 88 )

⬅ نیز سند میں وکیع کے شیخ کی جگہ الحکم بن حکیم لکھا ہوا ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب میں بھی ایسے ہی ہے اوریہیں پر ناسخ سے غلطی ہوئی ہے کیونکہ ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ کی اصل کتاب مصنف میں وکیع کے شیخ کانام پوری صراحت سے الحسن بن حكيم ہی لکھا ہواہے۔ اور اس اثر کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ میں کوئی دوسرا طریق ہے ہی نہیں ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اقتضاء الصراط کے ناسخ نے غلطی سے نام غلط درج کردیا ہے ۔ چناں چہ اقتضاء الصراط کے محقق نسخے میں اس کی اصلاح کردی گئی اور محقق نے اصل کتاب میں اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے صحیح نام الحسن بن حكيم ہی درج کیا ہے اور حاشیہ میں لکھا:

في المطبوعة: الحكم، وهو خطأ، والصواب هو: الحسن بن حكيم بن طهمان أبو حكيم
یعنی (قدیم) مطبوعہ نسخے میں یہاں حکم لکھا ہے جو غلط ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ الحسن بن حكيم بن طهمان أبو حكيم ہے(اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم 2/ 52)

⏺ اس تفصیل سے واضح ہوگا کہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب اثر کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے اور یہی سند ظفر تھانوی صاحب کی کتاب میں بھی درج ہے لیکن بعض راویوں کے نام میں کتابت کی غلطی ہے ۔اس حقیقت سے غافل ہو کر مقبول سلفی صاحب نے اسے دوسرا طریق سمجھ لیا جو سخت حیرت کا باعث ہے کیونکہ اس طرح کی غلطیوں پر علم حدیث کا معمولی طالب علم بھی آگاہ ہوجاتا ہے ۔

الغرض جب واضح ہوگیا کہ اس کی صرف اور صرف ایک ہی سند ہے جو ضعیف ہے تو پھر متابع اور شاہد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

◼ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کااثر:

حدثنا جریر ، عن قابوس ، عن أبیہ ؛ أن امرأۃ سألت عائشۃ قالت: إن لنا أظآرا من المجوس ، وإنہ یکون لہم العید فیہدون لنا ؟ فقالت: أما ما ذبح لذلک الیوم فلا تأکلوا ، ولکن کلوا من أشجارہم۔
قابوس بن ابی ظبیان اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا۔ اس نے کہا کہ: ہماری کچھ مجوسی پڑوسن ہیں ، اوران کے تیوہار کے دن ہوتے ہیں جن میں وہ ہمیں ہدیہ دیتے ہیں ، اس کا کیا حکم ہے؟ تو اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:اس دن جو چیز ذبح کی جائے اسے نہ کھاؤ ، لیکن ان کی طرف سے سبزی اور پھل کی شکل میں جو ملے اسے کھالو۔(مصنف ابن أبی شیبۃ: سلفیۃ:۸؍۸۷)

⏺ ہم نے اس سند کو ضعیف لکھا تھا کیونکہ قابوس ضعیف ہے ، نیز جریر نے صراحت کردی ہے کہ انہوں نے قابوس سے جب سنا تھا تو اس وقت قابوس کا حافظہ فاسد تھا۔اس لئے اس اثر کے ضعیف ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا لیکن مقبول سلفی صاحب نے جریر کے صریح بیان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس مردود اثر کو صحیح ثابت کرنے کے لئے صرف یہ کیا کہ بعض اہل علم سے قابوس کی توثیق نقل کردی جبکہ ہم نے اپنے مضمون میں خود یہ لکھ رکھا تھا کہ بعض محدثین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن اس کا ضعیف ہونا ہی راجح ہے ، اس لئے محض بعض محدثین سے اس کی توثیق نقل کردینا کہاں کا انصاف ہے ؟ مقبول سلفی صاحب نے قابوس کی توثیق ثابت کرنے کے لئے کل آٹھ حوالے دئے ہیں ان کاجائزہ پیش خدمت ہے:

پہلا حوالہ ابن معین رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے حالانکہ ابن معین رحمہ اللہ نے اس راوی کو ضعیف الحدیث بھی کہا ہے دیکھئے [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 29]

لہٰذا توثیق میں ان کا حوالہ ساقط ہے اور تطبیق دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ توثیق دینداری کے لحاظ سے ہے اور تضعیف حافظہ کے لحاظ سےہے۔

دوسرا حوالہ امام ابن عدی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے "لاباس بہ" کہہ کر توثیق کی ہے۔

عرض کہ امام ابن عدی کے الفاظ’’وأرجو انه لا بأس به ‘‘ ہیں دیکھیں: [الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 7/ 176]

اور اس صیغے سے امام ابن عدی ہرجگہ توثیق نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی جن کو وہ ضعیف مانتے ہیں ان کے لئے بھی وہ الفاظ بول دیتے ہیں اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جائے گی چنانچہ ایک راوی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وأرجو أنه لا بأس به، وهو من جملة الضعفاء الذين يكتب حديثهم[الكامل لابن عدي ت عادل وعلي: 2/ 219]

تیسرا حوالہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں اسے حسن الحدیث کہا ہے ۔

عرض ہے کہ امام ذہبی نے تاریخ اسلام میں اس راوی کے ترجمہ میں نہیں بلکہ ایک دوسری جگہ اسے حسن الحدیث کہا ہے اورحاشیہ میں محقق دکتور بشار عواد نے امام ذہبی رحمہ اللہ کی تردید کردی ہے دیکھئے: [تاريخ الإسلام ت بشار 2/ 400]۔

دوسری طرف تاریخ اسلام میں جہاں امام ذہبی نے اس راوی کا ترجمہ پیش کیا ہے وہاں صرف اس پر جرح ہی نقل کی ہے اور کسی ایک بھی امام کی توثیق نقل نہیں کی ہے اور انہ ہی اسے خود اسے حسن الحدیث کہاہے دیکھیں:[تاريخ الإسلام ت بشار 3/ 952]۔

بلکہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب میں پوری صراحت کے ساتھ اسے ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے:

قابوس بن أبي ظبيان ضعيف ، یعنی قابوس بن ابی ظبیان ضعیف ہے[المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 450]

چوتھا حوالہ احمدبن سعید کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے جائز الحدیث کہا ہے ۔

عرض ہے کہ یہ توثیق نہیں ہے کیونکہ ضعیف کے لئے بھی ایسا کہا جاتا ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی حدیث لکھی جاسکتی ہے۔

نیز مجھے اس قول کا مصدر نہیں مل سکا کہ موصوف نے اسے کہا ں سے نقل کیا ہے ؟ مجھے لگتا کہ ابن معین کے شاگر احمدبن سعید نے جو ابن معین کا قول جائز الحدیث نقل کیا ہے اس سے مقبول سلفی صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ یہ احمدبن سعید کا قول ہے ۔جبکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ امام ابن معین کا قول ہے اور اوپر بتایا جاچکا ہے خود امام ابن معین نے اسے ضعیف کہاہے۔اگر ایسا ہی ہے تو اسماء الرجال پر بات کرتے ہوئے اس طرح کی لاپروائی انتہائی معیوب بات ہے۔

پانچوں حوالہ امام طبرانی کا دیا گیا ہے کہ انہوں نے اسے کی ایک روایت کو حسن کہا ہے۔

عرض ہے کہ یہ ضمنی توثیق ہے اور راجح صریح توثیق کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

چھٹا حوالہ یہ دیا گیا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے درایہ میں اس کی روایت سے استدلال کیا ہے۔

عرض ہے کہ اس سے توثیق کہاں ثابت ہوئی ؟ روایت سے استدلال روایت کی تصحیح کو مستلزم نہیں ہے اس لئے یہ دور کی کوڑی بے کارہے۔مزید یہ کہ خود ابن حجرحمہ اللہ نے اس راوی کو لين کہا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5445]
اور بعض کتب میں اس کی روایت کی تخریج کرتے ہوئے اس پرجرح نقل کی ہے مثلا ایک جگہ کہا:

وقابوس ضعفه النسائي ،یعنی امام نسائی نے قابوس کو ضعیف قراردیاہے[التمييز لابن حجر، ت دكتور الثاني: 1/ 340]

ساتواں حوالہ امام ترمذی کا ہے کہ انہوں نے اس کی حدیث کو حسن کہا ہے۔'

عرض ہے کہ تحسین میں امام ترمذی رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے :

فلا يغتر بتحسين الترمذي ،یعنی امام ترمذی کی تحسین سے دھوکہ نہیں کھانا چاہے[ميزان الاعتدال للذهبي ت البجاوي: 4/ 416]

لہٰذا دیگر ائمہ فن کی کی تضعیف کے مقابلے میں اس تحسین کو پیش کرنا غلط ہے۔

آٹھواں حوالہ علامہ شاکر رحمہ اللہ کا دیا گیا ہے جو معاصرین میں سے ہیں اور یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ راوی کی توثیق کے باب میں ناقدین ائمہ فن کی فہرست میں بطور حجت کسی معاصر محقق کا قول پیش کرنا بالکل بے معنی ہے ۔ہاں ایک شخص اپنی رائے کی تائید میں معاصر کا قول پیش کرسکتا ہے لیکن ائمہ ناقدین کے مقابلے میں آج کے معاصرین کی بات پیش کرنا عجیب تر ہے۔

علاوہ بریں معاصرین میں بھی اکثر اس راوی کو ضعیف ہی مانتے ہیں ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس راوی کو کئی مقامات پر ضعیف قرار دیا ہے مثلا دیکھیں: ( الأحاديث الضعيفة 9/ 367)

حافظ زبیرعلی زئی صاحب نے اسے جمہور کی نظر میں ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا:

قابوس ضعیف ضعفہ الجمھور، یعنی قابوس ضعیف ہے جمہور نے اسے ضعیف قرار دیاہے۔ (انوار الصحیفہ ابو داؤد رقم 3032سنن ترمذی مع تحقیق علی زئی رقم633 )

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ راوی ضعیف ہے اور اکثر محدثین نے بھی اسے ضعیف ہی کہا ہے ۔ لہٰذا مقبول سلفی صاحب کا بعض کمزور اور کچھ غیرمتعلق حوالوں سے اسے ثقہ ثابت کرنا عجیب وغریب بات ہے ۔ اور حق اور راجح یہی ہے کہ جمہور و اکثر محدثین نے اس راوی کو ضعیف کہا ہے اور یہ ضعیف ہی ہے۔

مقبول سلفی صاحب نے آٹھ حوالے دئے ہیں جن میں ایک معاصر کا حوالہ اور ایک بے اصل حوالہ ہے یعنی احمدبن سعید کا اور کئی غیر متعلق حوالے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اگر وہ آٹھ کی تعداد ہی دکھانا چاہتے ہیں توہم ذیل میں آٹھ کے دو گنا سولہ محدثین سے اس راوی پر جرح پیش کرتے ہیں:

▪(1) جرير بن عبد الحميد الضبى(المتوفى188)نے کہا:

أتينا قابوس بعد فساده [التاريخ الكبير للبخاري 7/ 193]

▪(2) امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:

وفيه ضعف لا يحتج به[الطبقات الكبرى ط دار صادر 6/ 339]

▪(3)امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:

ضعيف الحديث [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 3/ 29]

▪(4)امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:

ليس هو بذاك[العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت الأزهري: 1/ 205]

▪(5)امام أبو حاتم الرازی رحمہ اللہ (المتوفی:277)نے کہا:

ضعیف الحَدیث لین، یکتب حَدیثہ، ولا یحتج بہ[الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم، ت المعلمی:۷؍۱۴۵]

▪(6)امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:

ليس بالقوي ضعيف [تهذيب التهذيب : 8/ 306 نیز دیکھیں: الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 88]

▪(7)امام زكريا بن يحيى الساجى رحمه الله (المتوفى307)نے کہا:

ليس بثبت[تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 8/ 306]

▪(8)امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354)نے کہا:

کان ردیء الحفظ یتفرد عن أبیہ بما لا أصل لہ[المجروحین لابن حبان:۲؍۲۱۶]
▪(9)امام دارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385)نے کہا:

ضعیف، ولکن لا یترک[سؤالات البرقانی للدارقطنی، ت الأزہری: ص:۱۲۱]

▪(10)امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:

وقابوس لا يحتج بحديثه [مختصر خلافيات البيهقي 1/ 292]

▪(11)محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:

وقابوس ضعيف [ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 1/ 555]

▪(12)امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:

وقابوس مضعف [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 4/ 626]

▪(13)امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:

قابوس بن أبي ظبيان ضعيف [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 2/ 450]

▪(14)امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:

وقابوس هذا ليس بالقوي[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 375]

▪(15)امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:

رواه الطبراني، وفيه قابوس بن أبي ظبيان وهو ضعيف[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 7/ 43]

▪(16)حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:

لين [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5445]

ہم صرف سولہ اقوال پر اکتفاء کرتے ہیں ورنہ ہمارے پاس ابھی اور بھی اقوال ہیں ۔

اس تفصیل کے بعد ہر انصاف پسند شخص کے لئے واضح ہوجائے گا کہ یہ راوی ثقہ ہے یا ضعیف ؟

خلاصہ کلام یہ کہ محترم جناب مقبول سلفی صاحب نے جن دو آثار کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ دونوں آثار ضعیف و مردود ہیں ۔
وکتبہ
کفایت اللہ سنابلی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرا نقطہ نظر اپنی موجود ہے ۔ پھر سے پڑھ لیں ۔ آثار کی حیثیت مثل تائید ہوتی ہے ۔
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔
(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے سے متعلق شیخ الاسلام کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہور شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کے معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے ۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
معذرت کے ساتھ، دو مشائخ کے درمیان ہونے والی گفتگو پر ایسا لکھنا میری نظر میں مناسب نہیں اس سے ماحول بگڑ جاتا ہے، سامنے والا اگر مناسب سمجھتا ہے تو وقت ملنے پر جواب دے سکتا ہے اور نہیں بھی، اس لئے ایسا لکھنے سے احتیاط برتنا بہتر ہے۔
یہ عامر عدنان صاحب کی غلطی نہیں سنابلی صاحب کا مسئلہ ہے ، ان کا جواب اکثرجدل ومناظرہ والاہوتا ہے جوبسااوقات آپس میں ہی فتنہ کا سبب بنتا ہے ۔ میرا مضمون اوپر موجود ہے اس میں معروضی انداز میں بات کی گئی ہے دیکھا جاسکتاہے جبکہ سنابلی صاحب نے مجھے ٹارگٹ بناکے بات کی ہے جیساکہ میں نے ان کے خلاف کچھ لکھ دیاہوجس کی وجہ سے یہاں ہی نہیں فیس بوک اور واٹس ایپ پربھی مضحکہ خیزتبصرہ کئے جارہے ہیں۔
اس وقت سوشل میڈیا کافی عام ہوگیا ہے اپنی اور جماعت کی بھلائی کے لئے آپس میں اس طرح کی تحریراور ٹارگٹ سے پرہیز کریں، میری تحریر یا کسی کی تحریرکا جواب ذاتیات سے ہٹ کر معروضی انداز میں دیاجائے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یہ عامر عدنان صاحب کی غلطی نہیں سنابلی صاحب کا مسئلہ ہے ، ان کا جواب اکثرجدل ومناظرہ والاہوتا ہے جوبسااوقات آپس میں ہی فتنہ کا سبب بنتا ہے ۔ میرا مضمون اوپر موجود ہے اس میں معروضی انداز میں بات کی گئی ہے دیکھا جاسکتاہے جبکہ سنابلی صاحب نے مجھے ٹارگٹ بناکے بات کی ہے جیساکہ میں نے ان کے خلاف کچھ لکھ دیاہو۔
محترم جناب مقبول صاحب مجھے یہی لگا کہ آپ نے میرے خلاف ہی لکھا ہے گرچہ میرا نام نہیں لیا ہے۔ میرا مضمون شیخ سرفراز کے مضمون میں شامل ہوکر نشر ہوا ہے جس میں متعلقہ آثار کو میں نے ضعیف لکھا ہے اس کے بعد آپ کی تجزیاتی تحریر آئی ہے جس میں ان آثار کو آپ نے صحیح کہا ہے اور تضعیف کا جواب دیا ہے حالانکہ اس سے قبل بھی آپ کی ایک تحریر آچکی تھی اس میں ایسا رنگ نہیں تھا ۔
اگر آپ اپنی پرانی تحریر پراکتفاء کرتے تو مجھے جواب دینے کی قطعا حاجت نہ تھی ۔
لیکن جب شیخ سرفراز کے مضمون کے ساتھ میرے مضمون کا بھی تجزیہ آپ نے پیش کیا ہے تو ظاہر ہے کہ جواب دیا جاسکتا ہے ۔
اوریہ صرف میں نے ہی نہیں سمجھا ہے کہ آپ نے میرے مضمون کا جواب دیا ہے بلکہ دو دن سے نہ جانے میرے پاس کتنے لوگوں نے میسج کیا کہ مقبول سلفی صاحب نے آپ کا رد کیا ہے ۔
جب لوگوں میں اس طرح کی بے چینی پھیل جائے تو آپ ہی بتائیں کیا کیا جائے ؟
یہاں سب جانتے ہیں کہ میں ہر ایک کا جواب نہیں دیتا اور نہ دوسر وں پر نقد کرنے کا مجھے شوق ہے ۔
میری جن تحریروں کو آپ جدل ومناظرہ کا نام دے رہے ہیں اگر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر تحریریں اپنے اوپر کئے گئے اعتراضات ہی کے جواب میں ہیں ۔
یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ مجھ پر اعتراضات کرنے کی سب کو آزادی ہے اور میں جواب دے دوں توفتنہ ؟ استغفراللہ
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
محترم جناب مقبول صاحب مجھے یہی لگا کہ آپ نے میرے خلاف ہی لکھا ہے گرچہ میرا نام نہیں لیا ہے۔ میرا مضمون شیخ سرفراز کے مضمون میں شامل ہوکر نشر ہوا ہے جس میں متعلقہ آثار کو میں نے ضعیف لکھا ہے اس کے بعد آپ کی تجزیاتی تحریر آئی ہے جس میں ان آثار کو آپ نے صحیح کہا ہے اور تضعیف کا جواب دیا ہے حالانکہ اس سے قبل بھی آپ کی ایک تحریر آچکی تھی اس میں ایسا رنگ نہیں تھا ۔
اگر آپ اپنی پرانی تحریر پراکتفاء کرتے تو مجھے جواب دینے کی قطعا حاجت نہ تھی ۔
لیکن جب شیخ سرفراز کے مضمون کے ساتھ میرے مضمون کا بھی تجزیہ آپ نے پیش کیا ہے تو ظاہر ہے کہ جواب دیا جاسکتا ہے ۔
اوریہ صرف میں نے ہی نہیں سمجھا ہے کہ آپ نے میرے مضمون کا جواب دیا ہے بلکہ دو دن سے نہ جانے میرے پاس کتنے لوگوں نے میسج کیا کہ مقبول سلفی صاحب نے آپ کا رد کیا ہے ۔
جب لوگوں میں اس طرح کی بے چینی پھیل جائے تو آپ ہی بتائیں کیا کیا جائے ؟
یہاں سب جانتے ہیں کہ میں ہر ایک کا جواب نہیں دیتا اور نہ دوسر وں پر نقد کرنے کا مجھے شوق ہے ۔
میری جن تحریروں کو آپ جدل ومناظرہ کا نام دے رہے ہیں اگر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے اکثر تحریریں اپنے اوپر کئے گئے اعتراضات ہی کے جواب میں ہیں ۔
یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ مجھ پر اعتراضات کرنے کی سب کو آزادی ہے اور میں جواب دے دوں توفتنہ ؟ استغفراللہ
یہ کہنے کی جگہ نہیں ہے ، ورنہ جس نے آپ کو اکسایا ہے اس کو خوب جانتاہوں ۔ہم سب کو اللہ تعالی فتنہ وفساد سے بچائے ۔ آمین
آپ کو ویسا نہیں کرنا چاہئے جیساکسی نے اکسایا، دراصل انہیں اپنے خلاف معلوم ہواتو کیا کرتا آپ کو اس کام پہ لگایا۔ اللہ تعالی آپ سے دین کا کام لے رہاہے کسی کے کہنے سننے پہ نہ جائیں ۔ خالص علمی انداز میں اپنے مشن پہ جاری رہیں ، میں اللہ تعالی سے آپ کے لئے دین ودنیا کی بھلائی کے لئے دعا کرتاہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
دونوں ہی صاحب علم و فضل شیخ ہیں ، کوئی بات نہیں ، رد و قدح تو چلتا ہی رہتا ہے ۔
میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ نام لیکر براہ راست بات کردینے سے مسئلہ جلدی حل ہوجاتا ہے ، جبکہ تعریض و کنایہ میں بات جلدی سمٹتی نہیں ، اور بغیر لب پہ آئے غلط فہمیاں پنپتی رہتی ہیں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
مختصر اضافے اور تبدیلی کے ساتھ

غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔

(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
اسلام امن و سلامتی اور الفت ومحبت کا درس دیتا ہے اپنے اسی خوبی سے دنیا میں پھیلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ نرمی برتنے ، احسان وسلوک کرنے اور خاص طور سے اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تالیف قلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ زکوۃ کا ایک مصرف ایسے ہی قسم کے لوگ ہیں ۔
اللہ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تمام کافروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ کافر جو بے ضررہوں، یا اسلام کی طرف مائل ہوں ، یا مسلمانوں کی مدد کرنے والے ہوں ایسے لوگ ہمارے احسان کے مستحق ہیں ۔
بعض کافروں نے عہد رسالت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ، تاریخ اٹھاکر دیکھیں ، شعب ابی طالب کا تین سال کا ظالمانہ محاصرہ بعض کافروں کی مدد سے ختم ہوا۔
اسی طرح اسیران بدر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لو كان المُطْعَمُ بنُ عَدَيٍّ حيًّا ، ثم كلَّمَني في هؤلاء النُّتْنَى لترَكْتُهم له.(صحيح البخاري:4024)
ترجمہ: اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔
مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ﷺکواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کےلئے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے ۔
آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہیں ، ہندوستان میں اکثر مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور دردر ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان میں سے بعض مسلمانوں کوکافروں کی امداد مل جاتی ہے ۔
اس قسم کے اچھے لوگ کافر ہونے کے باوجود مسلمان کا درد محسوس کرتے ہیں اورانہیں ظلم سے نجات کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کو وہ مسلمان جس کو کسی کافر نے مدد کی ہو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کے معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے قلبی دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے۔ ان سے ملنے جلنےاورمعاملات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو بلکہ مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام اور معاون ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔
بعض علماء نے بھی تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے کی بات کی ہےجن شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہور شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
ایک سال بعد پھر سے یہ تحریر یاد آگئی ، اس تحریر پہ حالات کےتئیں مزید کچھ اضافہ کیا ، احباب کی نذر کررہاہوں ۔

ہندوستانی مسلمان اور غیرمسلم تہوار دیوالی کی مٹھائی

تحریر:مقبول احمد سلفی

دنیا میں اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب ہیں اور اسلام سمیت تمام مذاہب میں مذہبی تہوار منایا جاتا ہے ، شاید ہی ایسی کوئی قوم یا ایسا کوئی مذہب ہے جس میں تہوار نہ منایا جاتا ہو۔ اپنے اپنے رنگ ڈھنگ میں سبھی قوم تہوار مناتی ہے ۔ ہندوستان میں دیوالی کے موقع پر مٹھائی کھانے کھلانے کی رسم بہت مشہور ہے ۔ ویسے ہندوستان کثیر الادیان، کثیراللسان اور کثیر الاقوام ہے ۔ یہاں مختلف قسم کی بولیاں بولنے والے ، مختلف قسم کی تہذیب ماننے والے اور مختلف قسم کے ادیان وملل پر چلنے والےلوگ پائے جاتے ہیں ۔ صرف مسلمانوں میں یہاں کئی فرقے ہیں اوران میں مسلکی اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اتنی شدت شاید پوری دنیاکے مسلمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی ۔ مسلمانوں کے باہمی تنازعات کا یہ حال ہے تو پھر مختلف ادیان کے درمیان کیسامعاملہ ہوگا سمجھ سکتے ہیں ۔صرف ہندو قوم کی شدت منافرت اور اسلام کے تئیں بعض وعناد کی مثال دینا چاہتاہوں کہ یہاں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں بے شمار علماء ، خطباء اور واعظین ہیں ۔ اپنے اپنے مسلک ومذہب کی ترویج واشاعت میں رات دن کوشاں ہیں ، بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسیں، سیمنار، تبلیغی دورے اورگشت وچلہ کشی ہوتی رہتی ہیں مگر کسی میں کیامجال کہ ہندؤں میں بھی تبلیغ کرسکے؟ الا ماشاء اللہ
اہل حدیث جماعت میں ایک شیر دل مرد آہن ڈاکٹر ذاکر نائک پیدا ہوا جنہوں نے پورے ہندوستان کی ہندو قوم کو اپنے پررونق اسٹیج سے للکارا ، ہزاروں کو حلقہ بگوش اسلام بھی کیا مگر ہند کی اکثریتی قوم ہندو اپنی کافرانہ طاقت کے بل بوتے ان کے سامنے بند باندھنےاور انہیں دعوت اسلام سے روکنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے عالمی دعوتی ادارے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مجھے حیرت دعوت حق کی روک اور ڈاکٹر صاحب کی بندش پہ کم اور مسلکی بغض وعناد میں ڈوبے عیار ومکار علماء سوء پر زیادہ ہے جن میں سے بہت سے کھلے اور بہت سے درپرہ اپنے ہی دین اسلام کی اشاعت روکنے میں شازشیں رچتے رہے اوربالآخر دیار ہند میں غیرمسلموں میں تیزی پھیل رہی دعوت اسلام پہ بندش لگوانے میں کامیاب ہوگئے ۔کل قیامت میں اللہ تعالی کو ایسے علماء کیا جواب دیں گے ؟
ہندوستان میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں ، گائے حلال ہے مگر ذبح نہیں کرسکتے ، قربانی نہیں دے سکتے ، حالات کا تقاضہ ہے کہ جس طرح اللہ نے تبلیغ میں حکمت وبصیرت کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا ہے یہاں رہنے سہنے میں بھی مومنانہ فراست ، حکیمانہ طور طریق اور بصیرت اندوز بودوباش اختیار کی جائے ۔ ہندوستانی علماء کے سامنے مسلم عوام دیوالی کے موقع سے عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ کفار کی دیوالی پہ ہم ان کی پیش کی ہوئی مٹھائی کھاسکتے ہیں کہ نہیں؟ ۔ اس سوال کے جواب میں بعض علماء ان کی مٹھائی کھانے سے سخت انداز میں منع کرتے ہیں اور بعض کے یہاں حکمت وبصیرت کے مدنظر کھانے کا حکم ملتا ہے ۔ ذیل میں اسی مسئلہ کی مختصر وضاحت مقصود ہے۔
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔


(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ جانیں کہ اسلام امن و سلامتی اور الفت ومحبت کا درس دیتا ہے اپنے اسی خوبی سے دنیا میں پھیلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ نرمی برتنے ، احسان وسلوک کرنے اور خاص طور سے اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تالیف قلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ زکوۃ کا ایک مصرف ایسے ہی قسم کے لوگ ہیں ۔اللہ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تمام کافروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ کافر جو بے ضررہوں، یا اسلام کی طرف مائل ہوں ، یا مسلمانوں کی مدد کرنے والے ہوں ایسے لوگ ہمارے احسان کے مستحق ہیں ۔
بعض کافروں نے عہد رسالت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ، تاریخ اٹھاکر دیکھیں ، شعب ابی طالب کا تین سال کا ظالمانہ محاصرہ بعض کافروں کی مدد سے ختم ہوا۔
اسی طرح اسیران بدر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لو كان المُطْعَمُ بنُ عَدَيٍّ حيًّا ، ثم كلَّمَني في هؤلاء النُّتْنَى لترَكْتُهم له.(صحيح البخاري:4024)
ترجمہ: اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔
مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ﷺکواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کےلئے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے ۔
آج بھی ایسےکفارہرجگہ موجود ہیں جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہیں ، ہندوستان میں اکثر مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان میں سے بعض مسلمانوں کوکافروں کی امداد مل جاتی ہے جبکہ مسلمان وکلاء، مسلمان وزراءاور مسلمان امراء ورؤساء ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہتے ہیں ۔
اس قسم کے اچھے لوگ کافر ہونے کے باوجود مسلمان کا درد محسوس کرتے ہیں اورانہیں ظلم سے نجات کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کو وہ مسلمان جس کو کسی کافر نے مدد کی ہو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کےدنیاوی معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے قلبی دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے۔ ان سے ملنے جلنےاورمعاملات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو بلکہ مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام اور معاون ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔جیسے ہم مسلمان اپنی عیدوبقر عید پہ کافروں کو تحائف دے سکتے ہیں بلکہ قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں اسی طرح کافر پڑوسی، میل جول والا، معاملات والا، احسان وسلوک والا، اسلام کی طرف رغبت رکھنے والا، مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ، اچھے اخلاق والا جسے اسلام کی دعوت دی جاسکے وغیرہ سے ان کے تہوار دوالی پہ مٹھائی یا وہ تحفہ اور کھانا قبول کرسکتے ہیں جو اسلام میں اصلا حلال ہو۔
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ کفار کے تہوار پہ مبارک باد دینا جائز نہیں ہے ، ان کے تہوار پہ خود تحفہ دنیا چائز نہیں ہے ، ان کے تہوار میں کسی کفر وشرک والے کام پر تعاون کرنا چائز نہیں ہے اوران کے تہوار میں استعمال ہونے والی مخصوص مذہبی اشیاء کی تجارت جائز نہیں ہے ۔
بعض علماء نے بھی تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے کی بات کی ہےجن شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہورعالم شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔

 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
ایک سال بعد پھر سے یہ تحریر یاد آگئی ، اس تحریر پہ حالات کےتئیں مزید کچھ اضافہ کیا ، احباب کی نذر کررہاہوں ۔

ہندوستانی مسلمان اور غیرمسلم تہوار دیوالی کی مٹھائی

تحریر:مقبول احمد سلفی

دنیا میں اسلام کے علاوہ بہت سے مذاہب ہیں اور اسلام سمیت تمام مذاہب میں مذہبی تہوار منایا جاتا ہے ، شاید ہی ایسی کوئی قوم یا ایسا کوئی مذہب ہے جس میں تہوار نہ منایا جاتا ہو۔ اپنے اپنے رنگ ڈھنگ میں سبھی قوم تہوار مناتی ہے ۔ ہندوستان میں دیوالی کے موقع پر مٹھائی کھانے کھلانے کی رسم بہت مشہور ہے ۔ ویسے ہندوستان کثیر الادیان، کثیراللسان اور کثیر الاقوام ہے ۔ یہاں مختلف قسم کی بولیاں بولنے والے ، مختلف قسم کی تہذیب ماننے والے اور مختلف قسم کے ادیان وملل پر چلنے والےلوگ پائے جاتے ہیں ۔ صرف مسلمانوں میں یہاں کئی فرقے ہیں اوران میں مسلکی اختلاف اس قدر شدید ہے کہ اتنی شدت شاید پوری دنیاکے مسلمانوں میں کہیں نہیں پائی جاتی ۔ مسلمانوں کے باہمی تنازعات کا یہ حال ہے تو پھر مختلف ادیان کے درمیان کیسامعاملہ ہوگا سمجھ سکتے ہیں ۔صرف ہندو قوم کی شدت منافرت اور اسلام کے تئیں بعض وعناد کی مثال دینا چاہتاہوں کہ یہاں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں بے شمار علماء ، خطباء اور واعظین ہیں ۔ اپنے اپنے مسلک ومذہب کی ترویج واشاعت میں رات دن کوشاں ہیں ، بڑے بڑے اجتماعات، کانفرنسیں، سیمنار، تبلیغی دورے اورگشت وچلہ کشی ہوتی رہتی ہیں مگر کسی میں کیامجال کہ ہندؤں میں بھی تبلیغ کرسکے؟ الا ماشاء اللہ
اہل حدیث جماعت میں ایک شیر دل مرد آہن ڈاکٹر ذاکر نائک پیدا ہوا جنہوں نے پورے ہندوستان کی ہندو قوم کو اپنے پررونق اسٹیج سے للکارا ، ہزاروں کو حلقہ بگوش اسلام بھی کیا مگر ہند کی اکثریتی قوم ہندو اپنی کافرانہ طاقت کے بل بوتے ان کے سامنے بند باندھنےاور انہیں دعوت اسلام سے روکنے میں کامیاب ہوگئے، ان کے عالمی دعوتی ادارے پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مجھے حیرت دعوت حق کی روک اور ڈاکٹر صاحب کی بندش پہ کم اور مسلکی بغض وعناد میں ڈوبے عیار ومکار علماء سوء پر زیادہ ہے جن میں سے بہت سے کھلے اور بہت سے درپرہ اپنے ہی دین اسلام کی اشاعت روکنے میں شازشیں رچتے رہے اوربالآخر دیار ہند میں غیرمسلموں میں تیزی پھیل رہی دعوت اسلام پہ بندش لگوانے میں کامیاب ہوگئے ۔کل قیامت میں اللہ تعالی کو ایسے علماء کیا جواب دیں گے ؟
ہندوستان میں اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے حالات خراب سے خراب تر ہورہے ہیں ، گائے حلال ہے مگر ذبح نہیں کرسکتے ، قربانی نہیں دے سکتے ، حالات کا تقاضہ ہے کہ جس طرح اللہ نے تبلیغ میں حکمت وبصیرت کو مدنظر رکھنے کا حکم دیا ہے یہاں رہنے سہنے میں بھی مومنانہ فراست ، حکیمانہ طور طریق اور بصیرت اندوز بودوباش اختیار کی جائے ۔ ہندوستانی علماء کے سامنے مسلم عوام دیوالی کے موقع سے عام طور پر سوال کرتے ہیں کہ کفار کی دیوالی پہ ہم ان کی پیش کی ہوئی مٹھائی کھاسکتے ہیں کہ نہیں؟ ۔ اس سوال کے جواب میں بعض علماء ان کی مٹھائی کھانے سے سخت انداز میں منع کرتے ہیں اور بعض کے یہاں حکمت وبصیرت کے مدنظر کھانے کا حکم ملتا ہے ۔ ذیل میں اسی مسئلہ کی مختصر وضاحت مقصود ہے۔
غیرمسلم سے اس کے تہوار پہ ہدیہ قبول کرنے سے متعلق علماء کے دو نظرئے سامنے آتے ہیں ۔


(1) ایک نظریہ تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس موقع سے ہدیہ قبول کرنا اس کے تہوار میں تعاون ہوگا۔
(2) دوسرےنظریہ کے حساب سے کفار کی طرف سے ان کی عید کی مناسبت سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے ۔
پہلے نظریہ کے حاملین عمومی دلائل پیش کرتے ہیں جن میں کفر و شرک پر تعاون پیش کرنے کی ممانعت آئی ہے ۔
یہ اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ کفاراپنے تہوار پہ اکثر غیراللہ کی عبادت بجالاتے ہیں ، ہم مسلمانوں کو ان کے کسی ایسے تہوار پر تعاون نہیں پیش کرنا چاہئے جس میں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بطور پڑوسی اور میل جول کی وجہ سے اگر کوئی ایساہدیہ پیش کرے جوغیراللہ پہ نہ چڑھایاگیا ہواور نہ ہی وہ ہدیہ شرعا حرام ہو تو اس کے قبول کرنے میں میری نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے ۔ یہ احسان وسلوک کے درجہ میں ہوگا۔ اور اس کا حکم عام ہدیہ کی طرح ہوگا جس کی قبولیت کا ثبوت ملتا ہے البتہ جومٹھائیاں مسلمانوں کی تضحیک ورسوائی ، ان کو نیچا دکھانے ، یا کسی طرح اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے تقسیم کرے تو اسے قبول نہیں جائے ، اس میں سراسراسلام اور مسلمانوں کی توہین ہے مثلا
٭ راستے میں تہوار کی نسبت سے تقسیم ہونے والی مٹھائی قبول نہ کی جائے ۔
٭ محفل قائم کرکے مسلمانوں کے نام پر یا عام محفل میں تقسیم ہونے والی مٹھائی اور ہدئے قبول نہ کئے جائیں ۔
٭بلاپہچان گھر آنے والی مٹھائی بھی تسلیم نہ کی جائے ۔
٭ اسلام اور مسلمانوں کو برابھلاکہنے والے کافر سے بھی مٹھائی قبول نہ جائے اور نہ ہی اس سے کسی قسم کا رشتہ رکھاجائے ۔
٭ ہندؤں کے ساتھ بیٹھ کر ایک جگہ مسلمانوں کو مٹھائی نہیں کھانی چاہئے ۔
٭جو اہانت وحقارت سے مٹھائی پیش کرے اس کی مٹھائی بھی قبول نہ کی جائے ۔
ان باتوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ جانیں کہ اسلام امن و سلامتی اور الفت ومحبت کا درس دیتا ہے اپنے اسی خوبی سے دنیا میں پھیلا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام غیرمسلموں کے ساتھ نرمی برتنے ، احسان وسلوک کرنے اور خاص طور سے اسلام کی طرف مائل لوگوں کی تالیف قلب کرنے کا حکم دیا ہے ۔ زکوۃ کا ایک مصرف ایسے ہی قسم کے لوگ ہیں ۔اللہ تعالی غیرمسلموں سے احسان کا حکم دیتے ہوئے فرماتاہے :
لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(الممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں کیساتھ نیکی اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کی وجہ سے تم سے لڑائی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کیا، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
تمام کافروں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہ کافر جو بے ضررہوں، یا اسلام کی طرف مائل ہوں ، یا مسلمانوں کی مدد کرنے والے ہوں ایسے لوگ ہمارے احسان کے مستحق ہیں ۔
بعض کافروں نے عہد رسالت میں بھی اسلام اور مسلمانوں کا ساتھ دیا ، تاریخ اٹھاکر دیکھیں ، شعب ابی طالب کا تین سال کا ظالمانہ محاصرہ بعض کافروں کی مدد سے ختم ہوا۔
اسی طرح اسیران بدر سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
لو كان المُطْعَمُ بنُ عَدَيٍّ حيًّا ، ثم كلَّمَني في هؤلاء النُّتْنَى لترَكْتُهم له.(صحيح البخاري:4024)
ترجمہ: اگر مطعم بن عدی آج زندہ ہوتا اور مجھ سے ان گندے قیدیوں کو رہا کرنے کی درخواست کرتا تو میں انہیں اس کی خاطر رہا کردیتا ۔
مطعم بن عدی مشرک تھا لیکن اس نے رسول اللہ ﷺکی اس وقت مددکی تھی جب آپ طائف سے زخمی حالت میں واپس تشریف لائے ۔اس نے آپ ﷺکواپنی پناہ میں لیکر مکہ میں داخل کیا ۔آپ ﷺنے اس کے احسان کا بدلہ اتارنے کےلئے یہ الفاظ ادا فرمائے تھے ۔
آج بھی ایسےکفارہرجگہ موجود ہیں جو مسلمانوں کے لئے نفع بخش ہیں ، ہندوستان میں اکثر مسلمان ظلم کے شکار ہیں اور دردر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، ان میں سے بعض مسلمانوں کوکافروں کی امداد مل جاتی ہے جبکہ مسلمان وکلاء، مسلمان وزراءاور مسلمان امراء ورؤساء ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہتے ہیں ۔
اس قسم کے اچھے لوگ کافر ہونے کے باوجود مسلمان کا درد محسوس کرتے ہیں اورانہیں ظلم سے نجات کے لئے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ اس بات کو وہ مسلمان جس کو کسی کافر نے مدد کی ہو اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں۔
ہندوستان والوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں ہندؤں کی اکثریت کی بناپر مسلمانوں کے ہزاروں قسم کےدنیاوی معاملات ہندؤں سے وابستہ ہیں، بلکہ کثیر تعداد میں مسلمانوں کے دوست واحباب ہندو ہیں ۔ کافروں سے قلبی دوستی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن دینی غرض سے کافروں سے تعلق رکھنا جائز ہے۔ ان سے ملنے جلنےاورمعاملات کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ایسے ماحول میں کافروں سے سارے معاملات کرنا اور خوشی کے موقع پر اپنے ملاقاتی جو اسلام اور مسلمانوں کی قدر کرتاہو بلکہ مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ہو تحفہ قبول نہ کرنا اس کے دل میں اسلام کے تئیں تنافر پیدا کرسکتا ہےاور یہ اسلام کے حسن سلوک اور تالیف قلب کے خلاف ہے ۔ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں غیرمسلموں کو دین کی دعوت دینا کتنا دشوارہے ، عید کا موقع ایک سنہرا موقع ہے جب ہم مائل بہ دین اسلام اور معاون ہندؤں سے حسن سلوک کے ساتھ کچھ کہہ سنا سکتے ہیں ۔ ساتھ ہی اوپر مذکور میرے چند موانع کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے ۔ میں سرے سے کفار کے تہوار پہ مٹھائی اور ہدیہ تسلیم کرنے کا قائل نہیں ہوں تاہم سرے سے انکار بھی نہیں کرسکتا۔جیسے ہم مسلمان اپنی عیدوبقر عید پہ کافروں کو تحائف دے سکتے ہیں بلکہ قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں اسی طرح کافر پڑوسی، میل جول والا، معاملات والا، احسان وسلوک والا، اسلام کی طرف رغبت رکھنے والا، مسلمانوں کا تعاون کرنے والا ، اچھے اخلاق والا جسے اسلام کی دعوت دی جاسکے وغیرہ سے ان کے تہوار دوالی پہ مٹھائی یا وہ تحفہ اور کھانا قبول کرسکتے ہیں جو اسلام میں اصلا حلال ہو۔
ساتھ ہی یہ بات بھی واضح رہے کہ کفار کے تہوار پہ مبارک باد دینا جائز نہیں ہے ، ان کے تہوار پہ خود تحفہ دنیا چائز نہیں ہے ، ان کے تہوار میں کسی کفر وشرک والے کام پر تعاون کرنا چائز نہیں ہے اوران کے تہوار میں استعمال ہونے والی مخصوص مذہبی اشیاء کی تجارت جائز نہیں ہے ۔
بعض علماء نے بھی تہوار پہ غیرمسلم سے ہدیہ قبول کرنے کی بات کی ہےجن شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں۔ ان کے علاوہ امام احمد بن حنبل اور سعودی عرب کے مشہورعالم شیخ محمد بن صالح المنجد کی یہی رائے ہے ۔

 
Top