ترک تقلید کی تحریک کوئی بہت پرانی نہیں ہے بالخصوص برصغیر ہندوپاک میں اس کا سلسلسہ ڈیڑھ صدی سے زیادہ قدیم نہیں ہے۔ جب تک انسان اہل علم کی اطاعت تقلید کرتارہااورجواہل علم تھے وہ اپنے علم کی حدود میں اپنے پیشرئوں سے اختلاف کرتے رہے معاملہ بخیرتھا لیکن جب سے ترک تقلید نے ایک تحریک کی صورت اختیار کی اورہرکہہ ومہ کو یہ اختیار دیاکہ وہ اپنی عقل اپنے فہم اوراپنے علم پر بھروسہ کرے تب سے فتنوں کا نیادروازہ کھل گیا اورہرشخص مجتہد بننے کا خواب دیکھنے لگا
اقبال علیہ الرحمہ نے ایک زمانے میں کہاتھا۔
تقلید کی روش سے توبہترہے خودکشی
لیکن پھر بعد میں انہیں ہی یہ بھی کہناپڑ
زاجتہاد عالمان کم نظر
اقتداء بارفتگاں اولی اتراست
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اقبال کو اس نتیجے پر کن واقعات نے پہنچایاہوگا اوران کی دوراندیش نگاہوں نے کن خطروں کو بھانپا
عوام کیلئے تقلید کیوں ضروری ہے اوراس تقلید کوبھی صرف چارمسالک ممیں کیوں منحصر کردیاگیاہے اس کی وجہ مشہور مورخ اورعمرانیات کے بانی ابن خلدون کی زبانی سنئے
تقلید پر کیوں اکتفاء کیاگیا
تقلید ان ہی چارمدارس فقہ میں منحصر ہوکر رہ گئی۔ اوراس باب میں نزاع وخلاف کا دروازہ بند کردیاگیا۔اس رکاوٹ اوراقرارعجز کی وجہ یہ تھی کہ فقہی اصطلاحات کی کثرت،رتبہ اجتہاد پر فائز نہ ہونے کے خطرے اوراندیشے نے کہ مبادالوگ ایسے لوگوں کی اطاعت کرنے لگیں اورایسے لوگوں کو امام فقہ ٹھرانے لگیں کہ نہ جن کی رائے پر بھروسہ ہوسکتاہے اورنہ ان کے دین پر اعتماد کیاجاسکتاہے۔اس بناء پر اجتہاد سے روک دیاگیااورکہاگیاکہ ان چاروں میں سے کسی ایک کی ہی تقلید کی جائے۔
چنانچہ اب حاصل فقہ یہ ہے کہ لوگ دیکھ لیں کہ یہ اصول جن کو ہم نقل کررہے ہیں آیاان ائئمہ تک بہ سند پہنچے ہیں یانہیں۔ اس سے زیادہ نہیں
اورکسی مدعی اجتہاد کی بات اس باب میں نہیں سنی جائے گی کیونکہ اس سے خطرہ ہے کہ دین بازیچہ اطفال نہ بن جائے۔
بحوالہ افکار ابن خلدون صفحہ٢٢٢