• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیرمقلدین کی بدعت

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میاں جی! بدعت صرف اصطلاح نہیں، بلکہ ایک لفظ بھی ہے، کسی لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرنا اصطلاحاً بدعت نہیں ہوتا!
مگر وہ کہتے ہیں نا کہ:
پڑیں پتھر سمجھ ایسی پہ کہ تم سمجھے تو کیا سمجھے!
وعلیکمالسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر اپنا کہا تم آپ سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے ایک کہے دوسرا سمجھے
حجور آپ ہی خدا لگتی کہیو کہ جب بدعت کا موجد آپ ہی کہوے کہ یہ "بدعت حسنہ ہے " تو پھر بدعت لغوی ایہاں کہاں سے ڈھونڈ لائے

سر پھوڑنا وہ! ‘غالبؔ شوریدہ حال’ کا
یاد آگیا مجھے تری تحریر دیکھ کر
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکمالسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر اپنا کہا تم آپ سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے ایک کہے دوسرا سمجھے
حجور آپ ہی خدا لگتی کہیو کہ جب بدعت کا موجد آپ ہی کہوے کہ یہ "بدعت حسنہ ہے " تو پھر بدعت لغوی ایہاں کہاں سے ڈھونڈ لائے

سر پھوڑنا وہ! ‘غالبؔ شوریدہ حال’ کا
یاد آگیا مجھے تری تحریر دیکھ کر
یہی تو سیاق و سباق و فہم و فراست کی بات ہے!
اب یہاں دیکھئے ایک ہی شعر میں ایک لفظ کے دو مختلف مطلب و مفہوم!
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی
آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یعنی یہ صاحب ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی نار ہے کو محکمہ چلر لوٹ کا رول سمجھتے ہیں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی آپ کے نزدیک یہی حیثیت ہے. تو میں کیا کہہ سکتا ہوں سواے اس کے فرمان الہی کے مطابق کہ جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے میں پس و پیش کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے. آپ کو توبہ کرلینی چاہیے.
جی یہ رول " محکمہ چلر لوٹ " یعنی وہابیہ نجدیا کا ہی رول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فرمامین کو مانے والے مسلمانوں کا رول نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ" جس نے اسلام میں اچھا طریقہ نکالا اسکو خود بھی ثواب ملے گا اور بعد میں عمل کرنے والوں کا ثواب بھی اسکو ملتا رہے گا " اب پس و پیش کئے بغیر رسول اللہ کا فرمان مان لو ورنہ آپ اپنے ہی فتویٰ کی زرد میں آجائیں گے
رہی بات چلر لوٹنے کی تو جناب اس تھریڈ میں جس طرح کودے وہ سب کو پتہ اور آپ کی نیت کتنی صاف وہ اللہ کو معلوم لیکن میں تو سو ظن ہی رکھتا ہوں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں
سورہ الحجرات :۱۲
آپ لاکھ سن کی سی داڑھی بڑھالیں یا سنگھاڑے کی جڑ کی سی میں تو ذاکر مدن ہی سمجھتا ہوں.
ویسے یہ بھی خوب کہی آپ نے " سنگھاڑے کی جڑ کی سی داڑھی " میں نے دیکھی ہے ایسی داڑھیاں زیر ناف تک یہودیوں کی سکھوں یا پھر وہابیہ نجدیا کی ، ویسے آپ کے سمجھنے یا نہ سمجھنے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے کہ کسی کو آپ ذاکر مدن سمجھے یا ذاکر نالائق
ویسے اشعار اچھے درج کیے آپ نے
شکریہ
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
آپ کے رد کفر صاحب بھی آپ کو چھوڑ غائب ہیں. غالباً میخیں نکالنے کے پیترے پر غور کر رہے ہوں گے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
آپ نے سنگھاڑے کی جڑ دیکھی ہے؟
جی ایمان والوں کے لیے ہے.
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی داڑھی کے بارے میں کچھ تذکرہ ملتا ہے؟ میرے علم میں اضافہ ہو جائے گا ذرا شئیر کرلیں برائے مہربانی.
آپ نے کہا :
"جی یہ رول " محکمہ چلر لوٹ " یعنی وہابیہ نجدیا کا ہی رول ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے فرمامین کو مانے والے مسلمانوں کا رول نہیں"
جناب بس اتنا دیں کہ یہ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے یا نہیں.
اچھا طریقہ میں ایک رکعت میں چار سجدے اور دو رکوع بھی شامل ہوسکیں گے کہ نہیں.
حسن ظن مسلمانوں سے رکھا جاتا ہے. ان سے نہیں جو صحابہ سے سو ظن رکھتے ہیں. مثلاً صحابہ سے بغض رکھنے والے فاسق و فاجر ایرانی مجوسی جن کی جڑیں کھود دیں اللہ کے شیروں نے. تو یہ ایرانی مجوسی فاسق و فاجر اور ان کے نام نہاد آیت اللہ اور ذاکرین جو کہ کذابوں کے کذاب ہیں ان سے کیا حسن ظن رکھیں رکھیں تو اس لیے کہ ہماری پیٹھ میں چھورا گھونپ کر ثواب کما لیں.
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
ان کی گستاخیاں اس سے کہیں زیادہ بڑھی ہوئی ہیں، نجانے یہ کیسے مسلمان ہیں جو شریعت کا مذاق اڑانے سے بھی بعض نہیں آتے، ان کی ایک گستاخی ملاحظہ کیجئے مجھے بتاتے ہوئے شرم آتی ہے لیکن شاید کوئی یہ پڑھ کر باز آ جائے

ایک پوسٹر بنا کر جس پر گدھے کی تصویر تھی اور ساتھ میں لوگ اس کو جاتیاں مار رہے تھے اور لکھا تھا کہ یہ غیر مقلد ہے جو مسجد میں اونچی آواز سے آمین چلاتا ہے۔

میرے خیال میں اس سے بڑی جہالت اور کیا ہو گی، آمین بالجہر کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق اڑانے والا کافر ہے، یہ جاہل انجانے میں کہیں کفر کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟ ان کو سوچنا چاہئے۔
اس طرز عمل کو سراہا تو نہیں جا سکتا البتہ چونکہ اس پوسٹر پر آپ ہی کی روایت کے مطابق "آمین چلانا" لکھا تھا، اس لئے سوچنے کی بات ہے کہ کیا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ "آمین چلاتے تھے"!! اس لئے غیر مقلدین کو "آمین چلانا" نہیں چاہئے بلکہ اپنے مسلک پر عمل کرتے ہوئے متوسط انداز سے جہر کیاکریں۔ ان شاء اللہ سنت آخر زمان پر عمل کا ثواب ملے گا۔
 
شمولیت
اکتوبر 28، 2015
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
58
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي الحنفي(المتوفى: 1052هـ):

الفصل الاول في تعداد ركعاتها فعندنا هي عشرون ركعة لما روي البيهقي باسناد صحيح انهم كانو يقومون علی عهد عمر رضي الله عنه بعشرين ركعة وفي عهد عثمان رضي الله عنه مثله وروي ابن عباس انه صلّی رسول الله صلی الله عليه وسلم عشرين ركعة في رمضان ثم أوتر بثلث لكن المحدثين قالوا ان هذا الحديث ضعيف والصحيح ما روته عائشة رضي الله عنها صلّی احدي عشرة ركعة كما هوا عادتة في قيام الليل وروي انه كان بعض السلف في عهد عمر بن عبدالعزيز يصلون احدي عشرة ركعة قصدا للتشبه برسول الله صلی الله عليه وسلم والذي استقر عليه الامر واشتهر من الصحابة والتابعين ومن بعد هم هو العشرون وما روي انها ثلث وعشرون فلحساب الوتر معها وقال مالك وروي عن الشافعي ايضا انها ست وثلثون او تسع وثلثون مع الوتر فهو عمل اهل المدينة خاصة وقالوا سبب ذلك ان اهل مكة يطوفون بالبيت اسبوعا ويصلون ركعتي الطواف بين كلّ رويحتين واهل المدينة لما بعد ومن ادراك هذه الفضيلة صلوا بين ذلك اربع ركعات ويسمونها الست عشرية واستمر عادتهم علی ذلك الیٰ الان وقد يروي ذلك عن عمرو علي رضي الله عنهما لكنه غير مشهور عنهما فان صلی غيرهم ايضا لا باس ويستوي فيه الامام وغيره وينبغي ان يصلو افرادي لان التنفيل بالجماعة في غير التراويح مكروه عندنا لكن اهل المدينة يصلونها بالجماعة والتنفيل بالجماعة لا يكره عندهم قال الشيخ قاسم الحنفي من متاخرين علماء مصر التنفيل بالجماعة مكروه لانه لو كان مستحبا كابت افضل كالمكتوبات ولو كانت افضل لكان المتهجدون والقائمون بالليل يجتمعون فيصلون جماعة طلبا للفضيلة ولما لم يرو ذلك عن رسول الله صلی الله عليه وسلم وعن اصحابه رضوان الله عليهم اجمعين علم انه لا فضل في ذلك.

پہلی فصل رکعات کی گنتی میں سو ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اتنے ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں بیس رکعتیں پڑھیں پھر اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ حديث ضعيف ہے اور صحیح وہ ہی ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھیں جیسے کہ قیام الیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے اور گنتی جو ٹھر گئی ہے صحابی اور تابعین سے اور انکے بعد لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں ۔ یہ جو روایت ہے کہ تراویح تئیس 23 رکعات ہیں سو وتر کو تراویح کے ساتھ ملا لیا ہے اور مالک کہتے ہیں اور شافعی سے بھی روایت ہے کہ تراویح مع وتر چھتیس 36 یا انتالیس 39 ہیں۔ سو یہ خاص مدینہ والوں کا عمل ہے اور کہتے ہیں کہ اسکا یہ سبب ہے کہ مکہ والے کعبہ کے ساتھ طواف کرتے ہیں اور طواف کے دو رکعت ہر دو تراویحوں کے بیچ میں پڑھتے ہیں اور مدینہ والے چونکہ اس فضیلت کے حاصل کرنے سے دور ہیں تو انہوں نے انکے بیچ میں چار رکعت پڑھنی شروع کر دیں اور ان کا نام ست عشریہ کہہ دیا اور انکی عادت آج تک وہی چلی آرہی ہے۔ اور کبھی یہی روایت عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے بھی آئی ہے ، پر ان سے مشہور نہیں ہے۔ پس اگر انکے سواء کوئی اور بھی پڑھ لے تو کیا ڈر ہے اور اسمیں امام وغیرہ سب برابر ہیں اور بہتر یہ ہے کہ الگ الگ پڑھہیں اس واسطے کہ سوائے تراویح اور نوافل جماعت سے ہمارے نزدیک مکروہ ہیں، لیکن مدینہ والے انکو جماعت سے پڑھتے ہیں اور نفلیں جماعت سے انکے نزدیک مکروہ نہیں ہیں۔ شیخ قاسم حنفی مصر کے متاخر علماء میں سے کہتا ہے کہ نفلیں جماعت سے مکروہ ہوتی ہیں اسلئے کہ اگر مستحب ہوتیں تو افضل ہوتی جیسے فرائض جماعت سے افضل ہوتی ہیں اور اگر افضل ہوتیں تو تہجد گزار اور اور رات کے قائم رہنے والے جمع ہوا کرتے اور فضیلت کی طلب میں جماعت سے پڑھا کرتے اور چونکہ یہ فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ اسمیں کچھ فضیلت نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 217 - 219 ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة مع ترجمة باللغة الأردية - عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي - بالمطبع المجتبائي بدهلي سنة 1891
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی نے صراحت سے امام مالک اور اہل مدینہ کا عمل بیا ن کر کے اجماع کی نفی کرد ی، اور نہ صرف یہ بلکہ مزید فرمایا کہ :
روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے
کہاں گیا بیس 20 رکعات تراویح پر صحابہ کا اجماع؟

كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ):

وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ. نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِ.
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً ". وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ.
وَفِي الْمُوَطَّإِ رِوَايَةٌ بِإِحْدَى عَشْرَةَ. وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ، فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ثُمَّ تَرَكَهُ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّهُ لَوْلَا خَشْيَةَ ذَلِكَ لَوَاظَبْت بِكُمْ، وَلَا شَكَّ فِي تَحَقُّقِ الْأَمْنِ مِنْ ذَلِكَ بِوَفَاتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَيَكُونُ سُنَّةً، وَكَوْنُهَا عِشْرِينَ سُنَّةُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ» نَدْبٌ إلَى سُنَّتِهِمْ، وَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنَ ذَلِكَ سُنَّتَهُ. إذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ أَوْ إلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا فَتَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةٌ وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ.
وَظَاهِرُ كَلَامِ الْمَشَايِخِ أَنَّ السُّنَّةَ عِشْرُونَ، وَمُقْتَضَى الدَّلِيلِ مَا قُلْنَا، فَالْأَوْلَى حِينَئِذٍ مَا هُوَ عِبَارَةُ الْقُدُورِيِّ مِنْ قَوْلِهِ يُسْتَحَبُّ لَا مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ فِيهِ.


اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔) ہاں موطا سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس 20 رکعات ثابت ہے، جیسا کہ یزید بن رومان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تئیس 23 رکعات قیام کیا کرتے تھے۔ اور بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی لتاب المعرفۃ میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس 20 رکعات اور وتر پڑھتے تھے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے خلاصہ میں اس کی سند کو صحیح کہا۔
اور موطا کی روایت میں گیارہ 11 رکعات ہیں، انہیں جمع کرنے کی تطبیق یہ ہے کہ پہلے گیارہ رکعات پڑھی جاتی تھیں، بعد میں عمل بیس 20 رکعات پر ہوا ، اور یہ جاری ہو گیا۔ یہاں تک کی پوری بحث کا حاصل یہ ہو ا کہ قیام رمضان بمع وتر گیارہ رکعات جماعت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے سنت ہے، اور امت پر فرض کا حکم نازل ہونے کو خوف سے آپ نے جماعت سے پڑھانا ترک کردیا، اور بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ خوف نہ رہا، تو یہ گیارہ رکعات سنت ہوئیں۔ اور بیس رکعات 20 رکعات خلفائے راشدین کی سنت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو کی بنا پر خلفائے راشدین کی سنت مندوب ہیں، اور اس سے ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مواظبت یعنی ہمیشگی کے ساتھ کی ہو، یا سوائے اس کی کہ کوئی عذر ہو، اور اگر یہ عذر نہ ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر مواظبت یعنی ہمیشگی ہوتی جو انہوں نے پہلے کیا، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ، لہٰذا بیس 20 رکعات تراویح مستحب ہے اور ان میں سے بالقدر عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی آٹھ 8) سنت ہیں۔ جیسا کہ عشاء کے بعد چار 4 رکعات مستحب ہیں اور ان میں سے دو 2 سنت ہیں۔
اور مشائخ کے کلام سے یہ ظاہر ہے کہ پوری 20 رکعتیں سنت ہیں، لیکن دلیل کا تقاضا تو وہی ہے جو میں نے بیان کیاہے، اسی صورت میں قدوری رحمہ اللہ کا یہ قول کہ وہ مستحب ہے زیادہ بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
ابن الھمام نے تو آپ کے اجماع کے دعوی کا بھانڈا ہی نہیں پھوڑ دیا بلکہ آپ کے بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے کے مؤقف کی بھی نفی کر دی!!

زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري(المتوفى: 970هـ):

جو محرر مذہب نعمانی اور ابو حنیفہ ثانی کہلائے جاتے ہیں، کو بھی دیکھ لیں کہ یہ بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے اور پر صحابی کے اجماع پر مہرلگاتے ہیں یا نہیں!
لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا لَكِنْ ذَكَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ مَا حَاصِلُهُ أَنَّ الدَّلِيلَ يَقْتَضِي أَنْ تَكُونَ السُّنَّةُ مِنْ الْعِشْرِينَ مَا فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْهَا ثُمَّ تَرَكَهُ خَشْيَةَ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْنَا وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.

چونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں تئیس 23 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور اس پر مشرق و مغرب میں لوگوں کا عمل ہے۔لیکن محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 72 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت

أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):

ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف كما ذكر صاحب المواهب فعلی هذا تكون العشرون ثابتة من فعله صلی الله عليه وسلم اوعترض قوله ثم تركه خشية أن يكتب علينا بأنه كيف يخشي ذلك وهو عليه السلام قد أمن الزيادة بقوله سبحانه بعد فرض الخمس لا يبدل القول لديّ وأجيب بأن الممنوع زيادة الاوقات وبقصانها لازيادة عدد الركعات ونقصانها ألا تری أن الصلاة فرضت ركعتين فأقرت في السفر وزيدت في الحضر أبو السعود عن الشلبيّ وبأن صلاة الليل كانت واجبة عليه صلی الله عليه وسلم ويجب علی الامة الاقتداء به في أفعاله الشرعية فترك الخروج اليهم لئلا يدخل ذلك في الواجب من طريق الامر بالاقتداء به لا من طريق انشاء فرض جديد زائد علی الخمس وهذا كما يوجب المرء علی نفسه صلاة نذر فتجب عليه ولا يلزم من ذلك زيادة فرض في أصل الشرع وبأن الله تعالی قد فرض الصلاة خمسين ثم حط معظمها بشفاعة نبيه صلی الله عليه وسلم فاذا عادت الامّة فيما استوهب لها والترمت ما استعفی لهم نبيهم عليه الصلاة السلام يستنكّر أن يثبت ذلك فرضا عليهم وبأن المخوف افترض قيام الليل علی الكفاية لا علی الاعيان فلا يكون زائدا علی الخمس المفروضة علی الاعيان فتكون نظير الوتر في أنه لم يكر زائدا علی الفرائض وبأن المخوف افتراض قيام رمضان خاصة فيرتفع الاشكال لان قيام رمضان لا يتكّرّر كل يوم بل في السنة فلا يكون قدرا زائد علی الخمس وهناك أجوبة أخری تطلب من المواهب وشرحها (تنبيه) قام صلی الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين بالصلاة الی ثلث الليل الاوّل وليلة خمس وعشرين الی نصف الليل وليلة سبع وعشرين حتی ظنوا أنهم لا يدركون السحور (قولهلم واظبة الخلفاء الراشدين) أي معظمهم والا فأبوبكر لم يفعلها وهي سنة رسول الله عليه وسلم لقوله عليه الصلاة والسلام ان الله تعالی فرض عليكم صيامه وسنت لكم قيامه كافي واشار في كتاب الكراهية من البزازية الی انه لو قال التراويح سنة عمر كفر لانه استخفاف وهو كلام الروافض وفيه نظر فقد صرّح في كثير من المتداولات المعتبرة بأنها سنة عمر لانّ النبيّ عليه الصلاة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني ولم يوظب علی ذلك وصلاها عمر بعده عشرين ووافقه الصحابة علی ذلك ودعوی الستخفاف في حيزا المنع حمويّ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 295 جلد 01 حاشية الطحطاوي على الدر المختار - أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي - طبعة القديمة في مصر

طحطاوی بحر الرائق سے ابن نجیم کا بیان کردہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور پھر صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس 20 رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ 8 پڑھیں ہیں

محمد يوسف کاندھلوی دیوبندی(المتوفى: 1384هـ):

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! آج رات مجھ سے ایک کام ہو گیا اور یہ واقعہ رمضان کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابی! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے گھر میں چند عورتیں تھیں ان عورتوں نے کہا ہم نے قرآن نہیں پڑھا۔، ہم آپ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھیں گی، چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعت نماز پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ نہ فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی بناء پر یہ سنت ہوئی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ مکتبۃ الحسن، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ دار الاشاعت،کراچی
بسم الله الرحمن الرحيم۔ الحمد لله و سلام على عباده الذين اصطفى
ما شاء اللہ! ترتیب وار نمبر لگا کر "دلائل" کے پہاڑ کھڑا کرنے میں تو آپ لوگ ید طولی رکھتے ہیں۔ دلیل ایک ہی سہی مگر وزنی ، موضوع سے متعلق اور طریق استدلال کے سلیقے کیساتھ بشرط دیانت و امانت سو فرضی دلائل پہ بھاری ہوتا ہے۔ دیکھتے ہیں، آپ کے دلائل میں کتنا وزن ہے۔
دیکھئے علامہ عبد الحق صاحب کیا ارشاد فرما رہے ہیں اور آپ اس سے کیا سمجھا رہے ہیں۔ وہ تو کہہ رہے ہیں:
عندنا هي عشرون ركعة لما روي البيهقي باسناد صحيح انهم كانو يقومون علی عهد عمر رضي الله عنه بعشرين ركعة وفي عهد عثمان رضي الله عنه مثله۔
ہمارے ہاں بیس رکعات ہیں کیونکہ حضرت عمر و عثمان سے بسند صحیح بیس رکعات ثابت ہیں اور آپ ان کے منہ میں لقمہ دے رہے ہیں کہ وہ بھی آٹھ کے قائل ہیں۔ اسی طرح آپ نے انور شاہ کشمیری کے بارے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ شاید وہ بھی آٹھ ہی کے قائل تھے جو کہ خود ان کی تصریح کے خلاف ہے۔تو لیجئے نیچے سطور میں ان کی پوری عبارت وہی سے ملاحظہ ہو جہاں سے آپ نے نقل کی ہے۔ لے دے کہ تان علامہ ابن الہمام پر ٹوٹتی ہے تو خود شاہ صاحب نے اس کے قول کو رد کیا ہے۔ اور بقیہ نام: علامہ ابن نجیم مصری اور علامہ طحطاوی کے ہیں تو معاف کیجئےان کے متعلق بھی آپ نے قارئین کو غلط تاثر دیا ہے، ان کا مذہب بھی بیس ہی رکعات کا ہے۔ ان دونوں نے محقق ابن الہمام کا قول محض نقل کیا ہے کہ اس تقدیر پر(یعنی محقق ابن ہمام کی تحقیق کو مان کر) ہمارے مشایخ کے اصول کے مطابق بارہ رکعات مستحب اور آٹھ سنت قرار پائیں گی۔ یہ نہیں کہ وہ بھی احناف کو مشورہ دے رہے ہیں کہ آٹھ ہی پڑھی جائیں۔ بہر تقدیر ابن الہمام کے قول کو شاہ صاحب کی تصریح کے مطابق کسی نے قبول نہیں کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ان کی پوری عبارت:
لم يقل أحد من الأئمة الأربعة بأقل من عشرين ركعة في التراويح وإليه جمهور الصحابة رضوان الله عنهم وقال مالك بن أنس: بستة وثلاثين ركعة فإن تعامل أهل المدينة أنهم كانوا يركعون أربع ركعات انفرادا في الترويحة وأما أهل مكة فكانوا يطوفون بالبيت في الترويحات، ثم إن حديث: يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، فيه تصريح أنه حال رمضان فإن السائل سأل عن حال رمضان وغيره كما عند الترمذي ومسلم ص 254 ، ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان بل طول التراويح وبين التراويح والتهجد في عهده لم يكن فرق في الركعات بل في الوقت والصفة أي التراويح تكون بالجماعة في المسجد بخلاف التهجدوإن الشروع في التراويح يكون في أول الليل وفي التهجد في آخر الليل نعم ثبت عن بعض التابعين الجمع بين التراويح والتهجد في رمضان، ثم مأخوذ الأئمة الأربعة من عشرين ركعة هو عمل الفاروق الأعظم، وأما النبي صلى الله عليه وسلم فصح عنه ثمان ركعات وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق وأما فعل الفاروق فقد تلقاه الأمة بالقبول واستقر أمر التراويح في السنة الثانية في عهد عمر كما في تاريخ الخلفاء وتاريخ ابن أثير وطبقات ابن سعد وفي طبقات ابن سعد زيادة أنه كتب عمر في بلاد الإسلام: أن يصلوا التراويح۔ وقال ابن الهمام: إن ثمانية ركعات سنة مؤكدة وثنتي عشر ركعة مستحبة، وما قال بهذا أحد، أقول: إن سنة الخلفاء الراشدين أيضا تكون سنة الشريعة لما في الأصول أن السنة سنة الخلفاء وسنته، وقد صح في الحديث: عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين فيكون فعل الفاروق الأعظم أيضا سنة، ثم قيل: إن شروع التراويح أول الليل من سنة عمر وأقول: إنه من سنة النبي صلى الله عليه وسلم كما يدل حديث الباب وحديث عائشة وجابر وزيد۔ ثم هل يجب بلوغ عشرين ركعة إلى صاحب الشريعة أم يكفي فعل عمر ولا يطلب رفعه إلى صاحب الشريعة؟ ففي التاتار خانية: سأل أبو يوسف أبا حنيفة: أن إعلان عمر بعشرين ركعة هل كان له عهد منه؟ قال أبو حنيفة ما كان عمر مبتدعا، أي لعله يكون له عهد فدل على أن عشرين ركعة لا بد من أن يكون لها أصل منه وإن لم يبلغنا بالإسناد القوي، وعندي أنه يمكن أن يكون عمر نقل عشرا إلى عشرين بتخفيف القراءة وتضعيف الركعات۔
خط کشیدہ الفاظ کا ترجمہ دیکھیں: ائمہ اربعہ میں سے کوئی بیس رکعات سے کم تراویح کا قائل نہیں تھا اور یہی جمہور صحابہ کا مذہب تھا۔۔۔ جہاں تک حضرت فاروق کے فعل کا تعلق ہے تو امت نے اس کو تلقی بالقبول عطا کیا اور تراویح کا معاملہ فاروق اعظم کی خلافت کے دوسرے سال قرار پذیر ہوا جیسا کہ تاریخ الخلفاء، ابن اثیر اور ابن سعد میں ہے۔۔۔۔ اور ابن الہمام نے کہا کہ آٹھ رکعات سنت موکدہ ہیں اور بقیہ بارہ مستحب ہیں اور اس قول کا قائل کوئی نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ میں ۔یعنی شاہ صاحب۔ کہتا ہوں کہ خلفائے راشدین کی سنت بھی شریعت ہی کی سنت شمار ہوگی کیونکہ اصول حدیث میں ہے کہ سنت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کی طریقہ ہے اور صحیح حدیث میں آنحضرت کا ارشاد وارد ہے کہ تم میری اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔ تو اس کی رو سے فاروق اعظم کا فعل بھی سنت ہوگا۔۔۔۔۔ ان سب کے بعد کیا بیس رکعت کا اتصال صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم تک ضروری ہے یا پھر فعل عمررضی اللہ عنہ کافی ہے اور اسےصاحب شریعت تک پہنچانےکا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ تو تاتارخانیہ میں ہے کہ امام ابویوسف نے امام صاحب سے پوچھا کہ حضرت عمر کا بیس رکعت تراویح کا فیصلہ پیغمبر سے کسی خاص وصیت یا حکم (عہد) کے سبب تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ عمر بدعتی نہیں تھا یعنی امام صاحب کا مطلب یہ تھا کہ ہو سکتا ہے پیغمبر کی طرف سے ان کو یہ حکم تھا پس بیس رکعت کی ضرور کوئی اصل پیغمبر سے موجود ہے اگر چہ ہمیں صحیح اسناد سے نہیں پہنچ سکا ہے۔ اور میرا-حضرت شاہ صاحب کا- خیال ہے کہ ممکن ہے کہ حضرت عمر دس رکعات سے بیس کی طرف قراءت کو کم اور رکعات کو دگنا کرکے منتقل ہوگئے۔ ا۔ہ۔
اور ابن نجیم رقمطراز ہیں:
وقوله عشرون ركعة بيان لكميتها وهو قول الجمهور لما في الموطإ عن يزيد بن رومان قال كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرين ركعة وعليه عمل الناس شرقا وغربا لكن ذكر المحقق في فتح القدير۔۔۔
اور صاحب کنز الدقائق کا قول کہ تراویح بیس رکعات ہیں یہ اس کی مقدار (یعنی تعداد رکعات) کا بیان ہے اور یہ جمہور کا قول ہے کیونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر کے زمانے میں تئیس رکعات (20+3) پڑھا کرتے تھے اور اس پر لوگوں کا مشرق سے لے کر مغرب تک (یعنی پوری اسلامی دنیا کا) عمل ہے۔ آگے ابن الہمام کا مذکورالصدر قول ہے۔ ا۔ہ۔
جہاں تک مولانا یوسف صاحب کاندھلوی کے قول کا تعلق ہے تو ان تصریحات کے بعد اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں۔ تاہم اتنا عرض کرنا کافی ہے کہ وہ حدیث یا فقہ کی نہیں بلکہ ترغیب اور فضائل کی ایک کتا ب ہے۔ اس سے کسی فقہی مسئلے پر حجت قائم کرنا نادانوں ہی کا کام ہوسکتا ہے۔ اس روایت کی سند شاید نہ آپ کے اصول پر ٹھیک ہو اور نہ ہی ہمارے جب کہاابھی گزرچکا اور آئندہ بھی ذکر ہوگاکہ رکعات تراویح میں کوئی عدد مسنون ہی نہیں اور نہ ہی تعداد رکعات کے سلسلےکی کوئی روایت صحیح ہے(باستثناء حدیث بخاری لیکن اس پر تفصیلی گفتگو آگے آرہی ہے)۔ یہ تو روایت کی سند ملاحظہ فرمانے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
رہی مرفوعا بیس رکعات کا ثبوت تو ہمارے ہاں اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ و سلم سے بسند ضعیف تو بیس رکعات منقول ہیں لیکن صحیح سند سے رمضان و غیر رمضان کی نماز آٹھ رکعات علاوہ وتر کے ثابت ہے اگر چہ اس امر پر اختلاف کی گنجائش ہے کہ یہ نماز تراویح ہی کی تھی اور ہمیشہ آٹھ ہی رکعات رہی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تراویح جو تین رات آپ نے مسجد میں پڑھی تھیں، ان کی تعداد رکعات کسی صحیح روایت میں مروی نہیں۔ خیر اس بات کو فی الحال رہنے دیں۔ فرض کریں کہ آنحضرت نے یہ آٹھ رکعات تراویح ہی کی پڑھی تھیں۔ اب چند بنیادی سوال اٹھتے ہیں:
1۔ آیا بیس رکعات سنت ہیں یا آٹھ؟
2۔ کیا سلف میں کسی نے آٹھ رکعات بھی پڑھی ہیں ؟
3۔ کیا حضرت عمرکا یہ عمل اور ان کے بعد صدیوں تک اس پر عمل کرنے والی جمہور امت کا یہ طریقہ بدعت تھا یا اس کی کوئی شرعی اساس ہے؟
4۔ کیا حضرت عمر خلیفہ راشد تھے ؟ اور کسی بدعت کے اجراء سے کوئی خلیفہ بدعتی بن کر رشد و ہدایت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے؟
5۔ کیا بخاری کی کوئی حدیث جمہور کے اس طرز عمل کی وجہ سے متروک یا معلل نہیں ہوسکتی؟
6۔ کیا یہ عمل امت کا اجماعی تھا؟
7۔ کیا اجماع سے نکلنا جائز ہے؟
8۔ کیا اجماع میں امت کے ہر خاص و عام کی شرکت ضروری ہے؟
اب ان کے جوابات اور اس کے ضمن میں غیر مقلدین سے سوالات ملاحظہ ہوں:
1۔ تراویح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کی سنت مؤکدہ ہے لیکن سلف کی تصریحات کے مطابق اس میں کسی مخصوص عدد کو آنحضرت کی سنت ماننا تکلف محض (بلکہ میں کہتا ہوں ہٹ دھرمی) ہے۔ ہاں خلفائے راشدین کی متواتر سنت چونکہ بیس رکعات کی ہے جس پر ان کے بعدجمہور علماء، فقہاء اور محدثین نے مداومت کی ہے اسلئے اس کے ضمن میں بیس رکعات کو آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ماننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ آپ کے اصحاب دوسروں سے بڑھ کر آنجناب کی سنت کے حریص تھے لہذا نا ممکن تھا کہ وہ اس سنت کو ترک کرتے چہ جائیکہ اس کے مقابلے میں کوئی بدعت جاری کرتے اور صحابہ کی پوری جماعت اس پر سکوت کرتی۔
2۔ شاید ایک آدھ شخص اس کا قائل ہو بھی لیکن اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ کم از کم بیس کے قائلین عدد نجوم سے زیادہ ہیں۔میں نہیں جانتا کہ یہ کون لوگ تھے جو صحابہ سے بڑھ کر سنت پر عامل تھے! البتہ فاضل مضمون نگار سے گزارش ہے کہ بسند صحیح ان لوگوں کے نام بتاکر مشکور فرمائیں۔
3۔ اس جواب کا غیر مقلد ایڈیشن تو یہ ہے کہ یہ عمل بدعت تھا کیونکہ حضرت عمر نے اس کو خود بدعت کہا تھا اور جو عمل خود اس کے موجد کے ہاں بدعت ہو وہ سنت کیونکر ہوسکتا ہے! اور اس کا معقول و متوازن جواب یہ ہے کہ یہ عمل لغوی اعتبار سے بدعت ہو تو ہو کیونکہ لغت میں ہر نئی چیز پر بدعت کا اطلاق درست ہے۔ اور حضرت عمر کے زمانے میں چونکہ پہلی مرتبہ صحابہ نے بیس رکعات پر جماعت کیساتھ مداومت و مواظبت اختیار کی تھی، اس لئے انہوں نے اس کو "بدعت" سے تعبیر کیا۔ اگر اس سے وہی تشریعی بدعت مراد ہوتی جیسا حضرات کا خیال ہےتو ان کو خلیفہ راشد ماننا تو درکنار،صحابی رسول ماننے میں بھی تامل کیا جائے گا۔ و حاشاهم من ذلك۔ خیر ان "قیاسات" کا کیا اعتبار، ان کو تو بس" سنت رسول" کو زندہ کرنا ہے چاہے اس کی قیمت کسی صحابی کو بدعتی بناکر یا شرف صحابیت سے فارغ کرکے ہی کیوں نہ ہو۔
4۔ ہمارا جواب تو ظاہر ہے کہ "ہاں" ہی ہے لیکن حیرانی ہوگی کہ ان کا جواب بھی شاید "ہاں" ہی ہو!! اس سے اس سے دو دونی چار کی طرح چار نہیں بلکہ پانچ آتا ہے۔کیونکہ ایک بدعت سے کوئی تھوڑی خلافت راشدہ کے منصب عالی سے گر سکتا ہے۔ یہ کوئی پھسلواں ڈھلواں ہے کہ معمولی پھسلن سے آدمی کو پھسلادے (پ کی زیر کیساتھ)۔ ایسی باتوں سے یہ خود کو اور دوسروں کو پھسلاتے ہیں (پ کی پیش کیساتھ)۔
5۔ بالکل ہوسکتی ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ محدثین کے نزدیک حدیث صحیح کی ایک شرط یہ ہے کہ وہ معلل نہ ہو یعنی اس میں کوئی ایسا خفی عیب نہ ہو جو صحت حدیث میں نقصان دیتا ہو اور جس کا معلوم کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ تو محدثین کی مخصوص اصطلاح ہوگئی۔ اگر اتنی معمولی باتوں سے جس کو معلوم کرنا آسان بھی نہ ہو اور اس پر کوئی عقلی و نقلی دلیل بھی نہ پیش کی جا سکتی ہو کوئی صحیح حدیث صحت کے مرتبے سے ساقط ہوکر معلول ہوسکتی ہے تو کیا صحابہ اور جمہور امت کے اجماعی تعامل سے کسی حدیث کے ظاہر پر عمل متروک کیوں نہیں ہوسکتا (یہ بھی اس تقدیر پر جیسا کہ میں ابتداء عرض کرچکا ہوں اگر بخاری کی حدیث کو اس معاملے میں نص قطعی مانا جائے)! خصوصا جب اس کا انجام صحابہ کے متعلق سوء ظن پر منتج ہو۔
6۔ بالکل اجماعی تھا! موجودہ غیر مقلدین کے سواتاریخ میں اس کا کوئی لائق التفات منکر نہیں ملا! اگر یہ زیادہ زور لگائیں تو صحابہ میں سے کوئی ایک دکھا دیں۔
7۔ الفاظ کی حد تک تو ان کے ہاں بھی حرام و نا جائز ہے۔ لیکن یہ جو شرائط عائد کرتے ہیں ایسا اجماع نہ کبھی ہوا ہے، نہ انسانی عقل میں ممکن ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو سکے گا۔ ہاں قیامت کے دن ہوگا۔ کیونکہ یہ لوگ اجماع میں قاضی شوکان اور نواب صدیق حسن خان وغیرہ کا نام مانگتے ہیں اور وہ ہم سے نہیں ہوسکتا۔ پھر یہ اس کے انعقاد کی صحیح تاریخ، معیاری وقت اور اس اجماع پر بھی اجماع مانگتے ہیں اور وہ بھی غیر مقلدین کا تو انصاف فرمائیے، ایسا اجماع کبھی ہوا ہےیا ہوسکتا ہے یا کوئی ذی شعور اس کا مدعی ہے۔
8۔ بالکل نہیں!ان کے ہاں غیر مقلدین کے بغیر اجماع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا!ہم کہتے ہیں اگر صحابہ کے مذکورہ اجماع کے بعد پوری امت کا ایک بھی فرد اس میں شامل نہ ہوتا تب بھی کچھ مضر نہ ہوتا۔ لیکن یہاں تو قرنا بعد قرن اس پر اتفاق چلا آرہا ہے۔ تو اگر مولوی محمد حسین بٹالوی یا دیگر ےاس سے اختلاف کریں تو اس کو بدعت کہا جائے گا کیونکہ جب حضرت عمر کے عمل کو آپ بے دھڑک بدعت کہنے سے نہیں چوکتے تو ہما شما کی کیا بات! دوسرا اگر مولوی موصوف کے اس عمل کو "رد کفر" صاحب نے بدعت کہا تو کیا جرم کیا! اس کو تعداد رکعات کے ساتھ بھی تو متعلق کیا جاسکتا ہےکیونکہ نفس سنیت میں کس کا اختلاف ہے۔ آپ کے صاحب نے جزم کیساتھ شاید پہلی مرتبہ تراویح کو آٹھ رکعات بنا کر اس پر عمل کا بیج بھی بو دیا حالانکہ جماہیر سلف سے اس کی کوئی نظیر نہیں۔ لہذا گزارش ہے کہ "تکفیر"کا تیر ترکش میں محفوظ رکھیں کہ ابھی ان کے کفر میں تاویل ہوسکتی ہے۔
 
Top