• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر اللہ سے مدد مانگنے کی شرعی حیثیت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
غیر اللہ سے مدد مانگنے کی شرعی حیثیت

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی آلہ و أصحابہ ومن اھتدی بھداہ ، أما بعد:
صحیفۃ (المجتمع الکوتیہ) نے شمارہ نمبر ۱۵ بتاریخ ۱۹/۴ ۔۱۳۹۰ھ بعنوان ، نبی ﷺ کی یادگار میں کچھ اشعار نشر کئے تے جو نبی ﷺ سے مدد مانگنے اور آپ سے امت کی حفاظت ،، ان کی نصرت و حمایت اور ان کوباہمی پھوٹ و اختلاف سے چھٹکارا دلانے کے مطالبہ پر مشتمل تھے اور جو آمنہ نامی خاتون کی دستخط کے ساتھ تھے، اس مضمون کے چند اشعار ذیل میں ذکر کئے جاتے ہیں:
یا رسول اللہ أدرک عالماً یشعل الحرب و یصلی من لظاھا
یارسول اللہ أدرک أمۃ فی ظلام الشک قد طال سراھا
یا رسول اللہ أدرک أمۃ فی متاھات الأسی ضاعت رؤاھا

'' اے اللہ کے رسول اس دنیاکی مدد کیجئے جو جنگ کی آگ بھڑکارہی ہے اور جو اسے بھڑکائے اسے اس میں جھلس دے رہی ہے۔
اے اللہ کے رسول اس امت کی مدد کیجئے جس کی رات کاسفر شک کی تاریکیوں میں لمبا ہوگیا ۔
یارسول اللہ اس امت کی مدد کیجئے جس کی خوشحالی رنج و غم کی پرشاں خیالیوں میں ضائع ہوگئی''۔
پھر آخر میں اس نے کہا:
یارسول اللہ أدرک أمۃ فی ظلام الشک قد طال سراھا
عجل النصر کما عجلتہ یوم بدر حنین نادیت الإلہ
فاستحال الذل نصرأ رائعاً أن للہ جنوداً لاتراھا

''اے اللہ کے رسول اس امت کی مددکیجئے جس کی رات کاسفر شک کی تاریکیوں میں لمبا ہوگیا ۔
اے نبی ﷺ آپ جلد از جلد مدد کیجئے جیساکہ آپ نے غزؤہ بدر کے دن مدد کی تھی جب آپ نے اللہ کوپکارا تھا ''۔
توذلت و خواری شاندار فتح میں تبدیل ہوگئی کیونکہ اللہ کالشکر ایسے ہیں جنہیں تودیکھ نہیں سکتا۔
(اللہ اکبر)یہ شاعرہ اس انداز سے رسول اللہ ﷺ پر اپنی پکار اور فریاد پیش کرتی ہے اور آپ سے مطالبہ کرتی ہے کہ جلد از جلد امت کی مدد فرما کر اس کاتحفظ فرمائیں اور اس بات کو ذہن سے اوجھل کردیتی ہے کہ مدد صرف ایک اللہ کے ہاتھ میں ہیں نبی ﷺ یاکسی مخلوق کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی مبین میں فرمایا : وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ۝۱۲۶ۙ
'' اور مدد تواللہ ہی کیطرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والاہے''۔
اور اللہ عزوجل نے فرمایا : اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝۰ۭ
''اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے توتم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تواس کے بعد کون ہے جوتمہاری مدد کرے''؟
کتاب و سنت کے دلائل اور اجماع امت سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مخلوق کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور اسی عبادت کی توضیح و تشریح اور اس کی جانب دعوت دینے کے لئے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور کتابیں نازل کیں ۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶
'' میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں ''۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا : وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ۝۰ۚ
'' ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (لوگو)صرف اللہ کی عبدت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں کی عبادت سے بچو''۔
نیز اللہ تعالی نے فرمایا : وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵
'' تجھ سے پہلے جو بھی رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، پس تم سب میری ہی عبادت کرو''(الانبیاء :۲۵)
نیز اللہ عزوجل نے فرمایا : الۗرٰ۝۰ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ۝۱ۙ
اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللہَ۝۰ۭ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْہُ نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ۝۲ۙ

'' الر یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ، ایک حکیم باخبر کی طرف سے ، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو، میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والاہوں''۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے مذکورہ بالا واضح آیات میں بیان فرمادیا کہ اس نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدافرمایا ہے ، اور اس اللہ کاکوئی شریک و ساجھی نہیں ہے، اس نے رسولوں کو اس عبادت کاہی حکم دینے اور اس کے منافی امور سے منع کرنے کے لئے مبعوث فرمایا اور اللہ عزوجل نے یہ بھی بتلا دیا کہ اس نے قرآن کریم کی آیات کو واضح کھلا ہوا نازل فرمایا تاکہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔
عبادت کامفہوم یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کو ایک گردانا جائے اور اس کے حکموں کو بجالا کر اور منع کردہ چیزوں کو چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی جائے، اللہ تعالی نے بہت سی آیات میں اس کاحکم دیا ہے ،چنانچہ ایک آیت کریمہ میں فرمایا : وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِــيَعْبُدُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۙ حُنَفَاۗءَ۔
'' انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیاگیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے تمام ترباطل دینوں سے اجتناب کرکے۔
نیز فرمان الہی ہے : وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۔
'' اور پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم سب اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا''۔(الاسراء: ۲۳)
نیز فرمان الہی ہے : فَاعْبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّيْنَ۝۲ۭ اَلَا لِلہِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ۔
'' پس اللہ ہی کی عبادت کریں اس کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے ، خبردار اللہ تعالی ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے''۔
اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں جو سب کی سب اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کو خالص کرنا اور اس کے سوا انبیاء وغیرہ کی عبادت سے گریز کرناضروری ہے ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دعا عبادت کی ایک اہم اور ہمہ گیر قسم ہے ، لہذا اس کاصرف ایک اللہ کے لئے خالص کرنا ضروری ہے۔
جیسا کہ اللہ عزول نے فرمایا : فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۱۴
''تم اللہ کو پکارتے رہو اس کے لئے دین کو خالص کرکے گو کافر برامانیں ''۔
اور اللہ عزوجل نے فرمایا : وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا۝۱۸ۙ
'' اور یہ مسجدیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں پس اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو''۔
یہ آیت کریمہ اللہ تعالی کے سوا تمام مخلوقات انبیاء وغیرہ کو پکارنے کی ممانعت کو شامل ہے، کیونکہ لفظ (احد)نکرہ نہی کے سیاق میں وارد ہوا ہے، لہذا یہ اللہ سبحانہ و تعالی کے علاوہ ہر چیز کو عام ہے ۔
ارشاد باری ہے : وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ۝۰ۚ
''اور اللہ کوچھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرنا جو تمہیں نہ کوئی نفع پہنچا سکے اور نہ کوئی نقصان ''۔
یہ خطاب نبی ﷺ کو ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے آپ کو شرک سے محفوظ رکھا ہے ، تواس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کو خطاب کرنے کامقصد دوسروں کو شرک سے ڈرانا ہے، پھر اللہ عزوجل نے اس آیت کے آخر میں فرمایا : ( فان فعلت فانک اذا من الظالمین )
'' اگر تونے (شرک ) کیاتو تم ظالموں میں سے ہوجاؤ گے ''۔
اگر بنی نوع انسان کے سردار نبی ﷺ کایہ حال ہوکہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارنے پر ظالموں میں ہوجائیں توپھر اگر کوئی دوسرا غیر اللہ کوپکارے تو اس کو کیاحال ہوگا ، اور لفظ ظلم جب مطلقاً استعمال کیاجائے تو اس سے مراد شرک اکبر ہے ، جیساکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : وَالْكٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۲۵۴
'' کافر لوگ ہی ظالم ہیں ''۔
اور اللہ عزوجل نے فرمایا : اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ۝۱۳
'' بیشک شرک بڑ ابھاری ظلم ہے ''۔
مذکورہ بالا اور دیگر آیات سے یہ بات معلوم ہوگئ کہ اللہ کے سوا مردوں ، درختوں ، بتوں وغیرہ کو پکارنا اللہ عزوجل کے ساتھ شرک اور عبادت کے اس عظیم مقصد کے منافی ہے جس کے لئے اللہ تعالی نے جن و انس کو پیدا فرمایا اور کتابیں نازل کیں، کلمہ لا الہ الا اللہ کامطلب بھی یہی ہے ، لا الہ الا اللہ کامعنی یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ہے، یہ کلمہ غیر اللہ سے عبادت کی نفی کرتا، اور اس کو ایک اللہ کے لئے ثابت کرتاہے ، جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا : ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَالْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ۝۰ۙ
'' یہ سب (انتظامات)اس وجہ سے ہیں کہ اللہ تعالی ہی حق ہے، اور اس کے سواجن جن کو لوگ پکارتے ہیں سب باطل ہیں ''۔
یہی دین اسلام کی جڑ اور ملت اسلامیہ کی بنیاد ہے ، اور کوئی بھی عبادت اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک کہ بنیاد درست نہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا : وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ۝۰ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۝۶۵
'' یقیناً آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام نبیوں )کی طرف بھی وحی کی گئی کہ اگر تونے شرک کیاتوبلاشبہ تیراعمل ضائع ہوجائے گا ، اور بالیقین تونقصان اٹھانے والوں میں ہوجائے گا''۔
نیز اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۸۸
''اور اگر بالفرض یہ حضرات (انبیاء کرام )بھی شرک کرتے توجو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وہ سب اکارت ہوجاتے ''۔
دین اسلام دو عظیم اصول پر مبنی ہے:
اول : تمام تر عبادتیں صرف اللہ وحدہ لاشریک کے لئے انجام دی جائیں ۔
دوم : عبادت نبی کریم ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق انجام دی جائے، کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کایہی معنی ہے ۔
لہذا جو شخص مردوں مثلاً انبیاء وغیرہ کو یابتوں یادرختوں یاپتھروں یاان کے علاوہ دیگر مخلوقات کو پکارے ، یاان سے مدد طلب کرے ، یاان کے لئے ذبح یانذر و نیاز پیش کرکے ان کاتقرب چاہے، یاان کے لئے نماز پڑھے یاسجدے کرے ، توبلاشبہ اس نے اللہ کے سوا انہیں رب بنالیا ، اور اللہ سبحانہ و تعالی کاساجھی ٹھہرالیا ، یہ ساری چیزیں اس اصل سے ٹکرائیں اور کلمہ کے پہلے جز لا الہ الا اللہ کے معنی کے منافی ہیں ۔
اسی طرح اگر کوئی شخص دین اسلام میں کوئی نیاکام گھڑ کر انجام دے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی تواس نے کلمہ کے دوسرے جز محمد رسول اللہ ﷺ کی گواہی کے معنی کوثابت نہیں کیا۔
اللہ عزوجل نے فرمایا : وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰہُ ہَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا۝۲۳
'' اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا ''۔
اکارت کئے جانے والے اعمال ان لوگوں کے ہوں گے جن کا شرک ہی پر انتقال ہوگیا، اسی طرح وہ خود ساختہ اعمال بھی جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے ، موافقت شریعت کی شرط سے عاری ہونے کی وجہ سے بروز قیامت پراگندہ ذروں کو طرح ہوں گے ۔
جیساکہ نبی ﷺ نے فرمایا : '' جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نیاکام نکالا جو (دراصل )اس میں سے نہیں ہے وہ ناقابل قبول ہے'' (اس حدیث کی صحت برامام بخاری و مسلم کااتفاق ہے )۔
مذکورہ اشعار میں اس شاعرہ نے اپنی فریاد اور پکار نبی کریم ﷺ پر پیش کی ہے اور سارے جہاں کے پروردگار سے روگردانی کی ہے ، جس کے ہاتھ میں مدد نفع و نقصان کے اختیارات ہیں ، اور اس کے سوا کسی کے پاس بھی ان چیزوں کااختیار نہیں ہے،بلاشبہ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا بہت بڑا ظلم شرک او ربزدلی ہے۔
اللہ عزوجل نے حکم دیا ہے کہ صرف اس ذات کو پکارا جائے اور وعدہ کیا ہے کہ جو اسے پکارے گاوہ اس کی پکار کو قبول فرمائے گا ، اور دھمکی دی کہ جو اس کو پکارنے سے تکبر اپنائے گا اسے جہنم میں داخل فرمائے گا ، جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا : وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِيْنَ۝۶۰ۧ
'' اور تمہارے رب کافرمان (سرزد ہوچکا ) ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا یقین مانو کہ جولوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی بھی ذلیل ہوکر جہنم میں پہنچ جائیں گے ''۔
اس آیت میں (داخرین )کامعنی ذلیل و رسوا۔
یہ آیت کریمہ اس بات پردلالت کرتی ہے کہ دعا عبادت ہے، اور اس سے تکبر اختیار کرنے والے کاٹھکانہ جہنم ہے ، جب اللہ تعالی کو پکارنے سے تکبر اختیار کرنے والے کاانجام یہ ہے تو اس شخص کاانجام کیاہوگاجو اللہ سبحانہ و تعالی سے اعراض کرے اور اس کے سوا دوسروں کوپکارے؟
اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا : وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶
'' جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے قبول کرتاہوں اس لئے لوگوں کوبھی چاہیئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کاباعث ہے ''۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک صحیح حدیث میں خبر دی کہ دعا عبادت ہے، آپ ﷺ اپنے چچا زاد بھائی عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں :'' تم اللہ تعالی کو یاد کرو اللہ تعالی تمہاری حفاظت فرمائے گا ، تم اللہ تعالی کو یاد کرو اسے اپنی جانب پاؤگے ، جب تم سوال کروتو اللہ سے کرو اور جب تم مدد طلب کرو تواللہ تعالی سے طلب کرو'' (ترمذی)
نیز نبی ﷺ نے فرمایا : '' جو شخص اس حال میں مرا کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک پکارتا تھا تووہ دوزخ میں داخل ہوگا''۔
صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کون ساہے؟ تو آپ نے فرمایا : '' توکسی کو اللہ کامد مقابل سمجھے جبکہ اسی نے تجھے پیداکیا ہے''،(ند)کامعنی نظیر اور مثیل کاہے۔
لہذا جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو پکارے یا اس سے فریاد کرے، یا اس کے لئے نذرو نیاز پیش کرے یااس کے لئے قربانی کرے یاعبادت کی کوئی بھی قسم اس کے لئے انجام تواس نے اس کو اللہ کامد مقابل بنایا، خواہ وہ کوئی نبی ، ولی ، فرشتہ جن یابت یامخلوق میں سے کوئی اور چیز ہو۔
البتہ زندہ حاضر شخص سے کسی چیز کاسوال کرنا اور ظاہری امور میں اس سے فریاد طلب کرنا جس کی وہ قدرت رکھتاہو، شرک نہیں ہے ، بلکہ یہ توایک عام سی چیز ہے جو مسلمانوں کے درمیان جائز ہے۔
جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں اللہ تعالی نے فرمایا فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِہٖ عَلَي الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّہٖ۝۰ۙ
'' موسیٰ کی قوم والے نے موسیٰ سے اس کے خلاف فریاد کی جو ان کے دشمنوں میں سے تھا''۔
اور جب اللہ تعالی نے موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں فرمایا : فَخَـــرَجَ مِنْہَا خَاۗىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ۔(القصص: ۲۱)
'' پس موسیٰ خوفزدہ ہوکر وہاں سے دیکھتے بھالتے نکل کھڑے ہوئے''۔
اس کی ایک مثال یوں سمجھیں کہ جس طرح لوگ جنگ وغیرہ کے دوران باہم ایکد وسرے کی مدد کے محتاج ہوتے اور بعض درپیش امور میں اپنے ساتھیوں سے فریاد کرتے ہیں شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو یہ حکم دیاکہ وہ لوگوں کویہ بات پہنچا دیں کہ وہ کسی کے نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں ، چنانچہ اللہ تعالی نے سورہ الجن میں فرمایا : قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَلَآ اُشْرِكُ بِہٖٓ اَحَدًا۝۲۰ قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۝۲۱
'' آپ کہہ دیجئے میں توصرف اپنے رب ہی کوپکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نقصان و نفع کااختیار نہیں ''۔
نیز اللہ تعالی نے سورۃ الاعراف میں فرمایا : قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝۰ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ۝۰ۚۖۛ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ۝۰ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝۱۸۸ۧ
'' آپ فرمادیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کااختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کامگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہواور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تومیں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ''۔
اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں ۔
اور خود آپ ﷺ کاحال یہ تھا کہ آپ اپنے رب کے سوا نہ کسی کو پکارتے اور نہ ہی مدد کاسوال کرتے تھے ۔ غزؤہ بدر کے دن آپ اپنے رب سے پوری الحاح و گریہ زاری کے ساتھ دشمنوں کے خلاف مدد طلب کررہے تھے اور فرمارہے تھے :
'' یارب انجزلی ما وعدتنی ''
'' اے میرے رب تونے جو مجھ سے فتح سے نصرت کاوعدہ فرمایا ہے اس کو پورا فرمادیجئے ''۔
یہاں تک کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا: '' اے اللہ کے رسول بس کافی ہے، اللہ نے آپ سے جو فتح و نصرت کاوعدہ فرمایا ہے اسے پورا کرے گا''۔
اس موضوع کے بارے میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعددآیات نازل فرمادیں چنانچہ فرمایا :
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۝۹
وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِہٖ قُلُوْبُكُمْ۝۰ۚ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝۱۰ۧ
'' اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے ، پھر اللہ نے تمہاری فریاد سن لی کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ، اوراللہ نے یہ امدا دمحض اس لئے کی کہ بشارت ہواور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہوجائے اور مدد صرف اللہ کی طرف سے ہے، جو کہ زبردست حکمت والا ہے ''۔
ان آیات میں اللہ سبحانہ و تعالی نے مومنوں کو اپنی فریاد رسی یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس نے ان کی پکار کوقبول کرلیا اور فرشتوں کے ذریعہ مدد فرمادی ، پھر اللہ تعالی نے واضح کردیاکہ مدد فرشتوں کی جانب سے نہ تھی بلکہ اللہ کی جانب سے تھی یہ فرشتوں کانزول توخوشخبری دینے اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا (ورنہ وہ اللہ فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا )جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا: ( وما النصر الا من عند اللہ )
'' اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے ''۔
اور اللہ عزوجل نے سورہ آل عمران میں فرمایا: وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۝۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲۳
'' جنگ بدر میں اللہ تعالی نےعین اس وقت تمہاری مدد فرمائی تھی جبکہ تم نہایت گری ہوئی حالت میں تھے، اس لئے اللہ ہی سے ڈرو (کسی اور سے نہیں )تاکہ تمہیں شکر گزاری کی توفیق ہو۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ غزؤہ بدر کے دن اللہ سبحانہ و تعالی ہی معین و مددگار تھا، اس سے معلوم ہواکہ مسلمانوں کی ہتھیار ، قوت اور فرشتوں سے جو مدد کی تھی یہ سب کچھ مدد خوشخبری اور اطمینان قلب کے اسباب تھے، بذاب خود مدد نہ تھے، بلکہ مدد توصرف اللہ کی طرف سے تھی ۔
پھراس شاعرہ یا کسی اور کے لئے کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی فریاد اور مدد کے مطالبہ کو نبی ﷺ پر پیش کرے ، اور سارے جہاں کے پروردگار سے روگردانی کرے جو ہر چیز کامالک اور ہر چیز پرقدرت رکھنے والا ہے۔
بلاشبہ یہ بدترین جہالت اور بڑا شرک ہے، لہذا اس شاعرہ پر واجب ہے کہ اللہ کے دربار میں سچی توبہ کرے ، توبہ کاطریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو، فوراً اس گناہ سے رک جائے، اور اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے اس کے لئے اخلاص اپناتے ہوئے اس کے حکموں کو بجا لاتے ہوئے اور منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرتے ہوئے آئندہ ایسا کام کبھی نہ کرنے کاپختہ عہد کرے ، یہی سچی توبہ ہے اور اگر معاملہ مخلوق کے حق کاہو تو اس میں ایک چوتھی شرط کابھی پایا جانا ضروری ہے ،کہ صاحب حق کو اس کاحق لوٹا دیاجائے، یایہ کہ اس سے یہ حق معاف کرالیا جائے۔
اللہ تعالی نے بندوں کوتوبہ کرنے کاحکم دیااور ان سے اس کی قبولیت کاوعدہ فرمایا ہے ، چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے: وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱
'' اے مسلمانو تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ''۔
اور اللہ تعالی نے ایک دوسرے مقام پر نصاریٰ کے بارے میں فرمایا : اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللہِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۷۴
'' یہ لوگ (نصاری) کیوں اللہ کی طرف نہیں جھکتے اور کیوں استغفار نہیں کرتے؟ اللہ تعالی توبہت زیادہ بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہے۔ نیز اللہ عزوجل نے فرمایا : وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُوْنَ۝۰ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا۝۶۸ۙ يُّضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ وَيَخْلُدْ فِيْہٖ مُہَانًا۝۶۹ۤۖ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕكَ يُبَدِّلُ اللہُ سَـيِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ۝۰ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝۷۰
'' اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالی نے منع کردیا ہو وہ بغیر حق کے قتل نہیں کرتے، نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے اور وہ اپنے سخت وبال لائے گا ، اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیاجائے گا، اور وہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اس میں رہے گا ، سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں میں بدل دیتا ہے ، اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
نیز فرمان الہی ہے : ہُوَالَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَيَعْفُوْا عَنِ السَّـيِّاٰتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ۝۲۵ۙ
'' وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے ، اور گناہوں سے در گزر فرماتا ہے ، اور جو کچھ تم کررہے ہو(سب )جانتا ہے''۔
اور نبی ﷺ سے ایک صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :'' اسلام پچھلے تمام گناہوں کو منہدم کردیتا ہے ، اور توبہ سابقہ گناہوں کوختم کردیتی ہے ۔
چونکہ شرک غایت درجہ کا سنگین جرم اور بہت بڑا گناہ ہے ۔ اوراس شاعرہ کی تحریروں سے لوگوں کے دھوکہ میں مبتلا ہونے کااندیشہ ہے اور اللہ اور اس کے بندوں کے ساتھ خیر خواہی ایک اسلامی فریضہ بھی ہے، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس بارہ میں کچھ مختصر کلمات تحریر کردوں ۔
میں اللہ عزوجل سے دعاکرتاہوں کہ ان باتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچائے ہمارے اور تمام مسلمانوں کے احوال کی صلاح فرما دے اور دین کی سمجھ اور اس پر ثابت قدمی عطافرماکر ہم سب پر احسان فرمائے، نیز ہمیں اور تمام مسلمانوں کونفس کی برائیوں اور بداعمالیوں سے اپنی پناہ میں رکھے، وہ اس بات کاکارساز اور اس پر قادر ہے۔
اور اللہ اپنے بندے اور رسول ہمارے نبی محمد ﷺ پر اور آپ کے اہل و عیال اور ساتھیوں پر رحمت و سلامتی اور برکت نازل فرمائے۔​
کتاب : توحید کا قلعہ
تالیف : عبدالملک القاسم
دارالقاسم للنشر والتوبیح​
 

فرحان

رکن
شمولیت
جولائی 13، 2017
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


محترم ایک دعا کی تصدیق درکار ہے :

اللھم انی اسئلک منک یا اللّٰہ
اے اللہ میں تجھ سے تجھ کو ہی مانگتی ہوں

یہ دعا صحیح ہے کس دعا کی کتاب میں یہ دعا ہے رہنمائ فرما دیں ؛ جزاک اللہ خیراً
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


محترم ایک دعا کی تصدیق درکار ہے :

اللھم انی اسئلک منک یا اللّٰہ
اے اللہ میں تجھ سے تجھ کو ہی مانگتی ہوں

یہ دعا صحیح ہے کس دعا کی کتاب میں یہ دعا ہے رہنمائ فرما دیں ؛ جزاک اللہ خیراً
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
(اللھم انی اسئلک منک یا اللہ ) ان الفاظ کا ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ،تجھ میں سے ۔۔
ان الفاظ سے کوئی دُعـاء مروی اور منقول نہیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں اردو کے ایک شاعر امیر مینائی کا شعر ہے :
تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے

امیر مینائی

اور صحیح دعا اس طرح ہے :
( اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ )
اے اللہ ! میں تجھ سے تیرا فضل اور تیری رحمت مانگتا ہوں ،
میں تجھ سے ہی میرے خدا مانگتا ہوں
کسی سے نہ تیرے سِوا مانگتا ہوں
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَـنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۝۰ۭ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۝۰ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّہُمْ يَرْشُدُوْنَ۝۱۸۶ ](البقرۃ:۱۸۶)
اس آیت کاترجمہ وتفسیر مشہور بریلوی عالم غلام رسول سعیدی صاحب کے قلم سے ملاحظہ کیجئے،لکھا ہے:
ترجمہ: اور(اے رسول) جب آپ سےمیرے بندے میرے متعلق سوال کریں(توآپ فرمادیں) بے شک میں ان کے قریب ہوں، دعا کرنے والاجب دعا کرتا ہے تومیں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو چاہیے کہ وہ(بھی) میراحکم مانیں اور مجھ پر ایمان برقرار رکھیں تاکہ وہ کامیابی حاصل کریں۔(تبیان القرآن 690/1)
اور اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ہمار ے زمانے میں بعض جہلاء اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کے بجائے اپنی حاجتوں کاسوال پیروں،فقیروں سے کرتے ہیں اور قبروں اور آستانوں پر جاکر اپنی حاجات بیان کرتے ہیں اور اولیاء اللہ کی نذر مانتے ہیں،حالانکہ ہر چیز کی دعا اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے اور اسی کی نذر ماننی چاہیے ،کیونکہ دعا اورنذر دونوں عبادت ہیں اور غیراللہ کی عبادت جائز نہیں۔
(تبیان القرآن ۱؍۶۹۱،۶۹۲مطبوع فرید بک سٹال،لاہور)
 
Top