رضا میاں
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 1,557
- ری ایکشن اسکور
- 3,581
- پوائنٹ
- 384
آپ کی ساری باتوں کا جواب شیخ صالح المنجد کے اس لنک میں ہے۔ میں اس جواب کو اختصار سے بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں ان شاء اللہ۔اس لۓ بات واضح نہیں ہوسکی. کیا ایسی کوئی کتاب اردو میں (خاص طور سے) یا عربی میں ہو جس میں مختلف یا بظاہر متعارض احادیث میں تطبیق دی گئی ہو. ؟
کفار کے بچوں کے متعلق علماء میں درج ذیل اقوال میں اختلاف پایا جاتا ہے:
پہلا قول: یہ ہے کہ کفار کے بچے بھی جنت میں جائیں گے، جبکہ بعض علماء نے کہا ہے کہ وہ اعراف کے مقام پر رہیں گے (جو جنت اور جہنم کے درمیان کی جگہ ہے) اور ان کے اس قول کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ جنت میں جائیں گے کیونکہ اہل اعراف کا آخری مقام جنت ہی ہو گا۔ یہ اکثر اہل علم کی رائے ہے جیسا کہ ابن عبد البر نے التمہید (18:96) میں نقل کیا ہے۔
اس قول کی دلیل: ان کے اس قول کی دلیل حضرت سمرۃ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ: نبی علیہ السلام نے معراج پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ مسلمانوں اور مشرکین کے بچوں کو دیکھا (صحیح البخاری: 6640)۔
دوسری دلیل حسناء بنت معاویہ کی حدیث ہے وہ جو اپنے عم سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ جنت میں کون ہو گا؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا: جنت میں انبیاء ہوں گے، شہداء ہوں گے، نومولود بچے ہوں گے، اور وہ لڑکیاں ہوں گی جو بچپن میں دفنا دی جاتی تھیں۔ (مسند احمد 5:409)۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الجامع میں ضعیف قرار دیا ہے۔
دوسرا قول: یہ ہے کہ وہ بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ جہنم میں ہوں گے۔ اس قول کو قاضی ابو یعلی نے امام احمد کی طرف منسوب کیا ہے، لیکن شیخ الاسلام نے ان کی اس پر شدید تردید کی ہے۔ دیکھیں حاشیہ ابن القیم علی سنن ابی داود (7:87)
اس قول کی دلیل: سلمہ بن قیس کی حدیث ہے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی کے ہمراہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ ہماری والدہ دورِ جاہلیہ میں فوت ہو گئ تھیں اور وہ ایک مہمان نواز اور رشتوں کا پاس رکھنے والی عورت تھیں لیکن انہوں نے ہماری ایک نا بالغ بہن کو دورِ جاہلیہ میں زندہ دفنا دیا تھا، تو نبی ﷺ نے فرمایا: "جس کو دفن کیا گیا اور جس نے اسے دفن کیا دونوں جہنم میں ہیں الا یہ کہ جس نے دفن کیا اس نے اسلام کو پا لیا اور مسلمان ہو گئی۔"
اس حدیث کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں حسن قرار دیا ہے اور ابن عبد البر نے اسے صحیح کہا ہے۔
اس کے علاوہ اس پر دیگر احادیث بھی ہیں لیکن وہ سب ضعیف ہیں۔
تیسرا قول: یہ ہے کہ اس پر کوئی رائے نہ دی جائے اور اس معاملے کو اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ یہ قول حماد بن زید، حماد بن سلمہ، عبد اللہ بن مبارک، اور اسحاق بن راہویہ کا ہے۔
اس قول کی دلیل: ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے مشرکین کے بچوں کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
"الله أعلم بما كانوا عاملين" اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے۔ (البخاری: 1383، ومسلم: 2660) وغیرہ
چوتھا قول: یہ ہے کہ وہ بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے۔
شیخ الاسلام کہتے ہیں: "اس قول کی کوئی اصل نہیں ہے" (مجموع الفتاوی 4:279)
میں (شیخ المنجد) کہتا ہوں کہ اس کے اوپر بھی ایک حدیث مروی ہے جسے طبرانی اور بزار نے نقل کیا ہے لیکن اسے ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں ابن حجر بھی شامل ہیں۔
پانچواں قول: یہ ہے کہ آخرت میں وہ آزمائے جائیں گے پس جس نے اس وقت اللہ کی اطاعت کی وہ جنت میں جائیں گے اور جس نے نافرمانی کی وہ جہنم میں جائیں گے۔ یہ قول جمہور ائمہ اہل السنہ الجماعت کا ہے جسے ابو الحسن الاشعری نے نقل کیا ہے، اور یہی قول امام بیہقی ودیگر محققین کا ہے۔ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امام احمد سے نصوص کا یہی مطلب نکلتا ہے اور ابن کثیر نے بھی اسی قول کو سب سے صحیح قرار دیا ہے۔
ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس قول سے تمام احادیث میں تطبیق بھی ہو جاتی ہے اور اوپر بیان کردہ تمام احادیث ایک دوسرے کی شاہد ہیں۔
اس قول کی دلیل: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"يؤتى بأربعة يوم القيامة : بالمولود ، والمعتوه ، ومن مات في الفترة ، والشيخ الفاني ، كلهم يتكلم بحجته ، فيقول الرب تبارك وتعالى لعُنُق من النار : أُبْرزْ ، ويقول لهم : إني كنت أبعث إلى عبادي رسلا من أنفسهم ، وإني رسول نفسي إليكم ، اُدخلوا هذه ( أي النار ) ، قال : فيقول من كتب عليه الشقاء : يا رب أنى ندخلها ومنها كنا نفرّ ، قال : ومن كتب عليه السعادة يمضي فيقتحم فيها مسرعاً ، قال : فيقول الله تعالى أنتم لرسلي أشد تكذيبا ومعصية ، فيدخل هؤلاء الجنة وهؤلاء النار"
قیامت والے دن چار (قسم کے) لوگوں کو لایا جائے گا: نومولد بچہ، پاغل انسان، وہ شخص جو دورِ فترۃ میں فوت ہو گیا (یعنی دو نبیوں کے درمیان کا وقت)، اور بہت بوڑھا شخص۔ سب اپنے دفاع میں بولیں گے۔ تو رب تبارک وتعالیٰ جہنم کی گردن کو حکم دیں گے کہ قریب آ جا اور ان لوگوں سے کہیں گے، "میں لوگوں میں اپنے بندوں میں سے رسول بھیجا کرتا تھا اور آج میں خود تمہاری طرف رسول ہوں پس اس جہنم کی آگ میں داخل ہو جاؤ۔" پس جن پر بدبختی لکھی جا چکی ہے وہ کہیں گے: "اے رب ہم اس میں کیسے داخل ہو جائیں جب کہ ہم اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔" جبکہ وہ لوگ جن پر خوش بختی لکھی جا چکی ہے وہ اس میں داخل ہونے میں ذرا دیر نہیں لگائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کہے گا: تم میرے رسولوں کے تو پھر اس سے زیادہ نافرمان اور جھٹلانے والے ہوتے، چنانچہ وہ لوگ جنت میں داخل کردیے جائیں گے اور یہ لوگ جہنم میں۔
(مسند ابی یعلی: 4224) اس حدیث کے کئی شواہد ہیں جنہیں ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے۔
تمام اقوال میں تطبیق:
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وهذا أعدل الأقوال وبه يجتمع شمل الأدلة وتتفق الأحاديث في هذا الباب . وعلى هذا فيكون بعضهم في الجنة كما في حديث سمرة ، وبعضهم في النار كما دل عليه حديث عائشة ، وجواب النبي صلى الله عليه وسلم يدل على هذا ؛ فإنه قال : "الله أعلم بما كانوا عاملين إذْ خلقهم" ، ومعلوم أن الله لا يعذبهم بعلمه فيهم ما لم يقع معلومه ، فهو إنما يعذب من يستحق العذاب على معلومه وهو متعلق علمه السابق فيه لا على علمه المجدد وهذا العلم يظهر معلومه في الدار الآخرة.
وفي قوله : "الله أعلم بما كانوا عاملين" : إشارة إلى أنه سبحانه كان يعلم ما كانوا عاملين لو عاشوا ، وأن من يطيعه وقت الامتحان كان ممن يطيعه لو عاش في الدنيا ، ومن يعصيه حينئذ كان ممن يعصيه لو عاش في الدنيا فهو دليل على تعلق علمه بما لم يكن لو كان كيف كان يكون ."
"اور یہ سب سے معقول قول ہے جس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے اور اس باب کی تمام احادیث متفق ہو جاتی ہیں۔ پس اس طرح ان میں سے بعض جنت میں جائیں گے جیسا کہ سمرۃ کی حدیث میں ہے، اور بعض جہنم میں جائیں گے جیسا کہ عائشہ کی حدیث میں ہے۔ اور نبی ﷺ کا جواب کہ 'اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرتے' بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ اللہ کسی کو اپنے علم کی بنا پر سزا نہیں دیتا جب تک جو وہ جانتا ہے وہ واقع نہ ہو جائے۔ پس ۔۔۔" باقی ترجمہ کرتے ہوئے مجھے سستی لاحق ہو گئی، ابتسامہ!
(حاشية ابن القيم على سنن أبي داود " ( 7/87 ))
بقیہ حصہ:
وما جاء في بعض الأحاديث السابقة أنهم في الجنة أو النار لا يشكل على ما رجحناه ، قال ابن كثير رحمه الله : أحاديث الامتحان أخص منه فمن علم الله منه أنه يطيع جعل روحه في البرزخ مع إبراهيم وأولاد المسلمين الذين ماتوا على الفطرة ومن علم منه أنه لا يجيب فأمره إلى الله تعالى ويوم القيامة يكون في النار كما دلت عليه أحاديث الامتحان ونقله الأشعري عن أهل السنة . أ.هـ " التفسير " ( 3 / 33 ) .
= وما جاء من قوله صلى الله عليه وسلم " الله أعلم بما كانوا عاملين " : لا يدل على التوقف فيهم .
قال ابن القيم رحمه الله : وفيما استدلت به هذه الطائفة نظر والنبي صلى الله عليه وسلم لم يُجِب فيهم بالوقف وإنما وكل علم ما كانوا يعملونه لو عاشوا إلى الله وهذا جواب عن سؤالهم كيف يكونون مع آبائهم بغير عمل وهو طرف من الحديث …. والنبي صلى الله عليه وسلم وَكَل العلم بعملهم إلى الله ، ولم يقل الله أعلم حيث يستقرون أو أين يكونون ، فالدليل غير مطابق لمذهب هذه الطائفة. أ.هـ " حاشية ابن القيم على سنن أبي داود " ( 7/ 85 ) .
والله أعلم .