- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
ابن جوزی صاحب کی مشارکات خاص طور پر جوابی مشارکات پڑھ کر پنجابی کا ایک مقولہ یاد آ جاتا ہے کہ :
أنّا مارے أنّی نوں تے مکے وجن تھمی نوں ۔
اگر کسی بھائی کو پنجابی سمجھ نہیں آتی تو وہ اردو کے اس مقولے کا سہارا لے سکتا ہے کہ سوال گندم اور جواب چنا ۔
اتنا فضول وقت تونہیں ہے کہ ابن جوزی صاحب کے گندم کے جواب میں چنے کو گندم بناؤں اور پھر گندم کا جواب گندم سمجھ کر بحث شروع کروں البتہ یوں ہوسکتا ہے ہم گندم کو ہی چنا سمجھ کر کچھ نہ کچھ کرنےکی کوشش کرتے ہیں ۔
میں نے گزارش کی تھی کہ :
ٹھیک ہے جناب تقلید شفاء ہے اور تقلید کی بنی نوع انسانی کو دور أول سے ضرورت ہے تو پھر انبیاء کرام ، صحابہ کرام اور خود آئمہ أربعہ اس شفاء سے محروم کیوں رہے اور کیوں ساری عمر عدم تقلید کی مرض میں ہی گزار گئے تھے ؟( نعو ذ باللہ من الخذلان )
اور اگر ان کے لیے عدم تقلید میں ہی شفاء تھی تو پھر کس حکیم یا طبیب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اب معاملہ اس کے بر عکس ہو گیا ہے ۔ اور جو بھی تقلید کا پٹہ گلے سے اتارے گا وہ منکر حدیث کہلائے گا ۔
کیا جس طرح قرآنی آیات و أحادیث کے وہ مخاطب تھے کہ براہ راست ان کی اتباع و اطاعت کریں ، ہم یہ بھی یہی مطالبہ نہیں ہے اگر ان سےیہ مطالبہ تھأ اور مقلدین سے یہ مطالبہ رفع ہوگیا ہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟
قرآن کی کون سی آیت ہے جس میں أفلا بتدبرون أقوال الإمام لکھا ہوا ہے ۔ کس حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ترکت فیکم أقوال الإمام الفلانی لن تضلوا ما تمسکتم بھا ۔۔۔
اور حقیقت یہ ہےکہ اس حدیث کی رو سے
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ
جس نے بھی قرآن و سنت سے اعراض کرکے کسی اور چیز سےتمسک کیاتو اس کے لیے گمراہی و ضلالت کی گارنٹی اسی طرح ہے جس طرح تمسک بالکتاب و السنۃ کرنے والے کے لیے ہدایت یافتہ ہونے کی سند ہے ۔
کئی لوگ عدم تقلید سے مجتہد بن جاتے جب کہ دوسرے اسی کا م سے منکر حدیث بن جاتے ہیں ۔ تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ترک تقلید کو انکار حدیث کےساتھ لازم ملزوم کردیا جائے ۔ اور خاص طور پر حقیقت حال بھی اس کے بر عکس ہو۔ فیا للأسف علی ما تفعلون ۔
اور یہ جان کر ابن جوزی صاحب ضرور ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے مسائل کو تین اقسام قرار دیا ہے جن میں سے ایک قسم میں مجتہد اجتہاد اور مقلد تقلید کرے گا جب ایک قسم وہ ہے جس میں نہ مجتہد کے اجتہاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی مقلد تقلید کرے گا ۔ یعنی امام صاحب جو صرف مجتہد ہیں ان کام بھی ختم اور ان کے بھولے بھائے مقلدین کا کھیل بھی ختم ۔۔ گزارش ہے کہ جب تقلید شفاء ہے تو پھر یہ شفاء بعض مسائل کے ساتھ خاص ہوکر کیوں رہ جاتی ہے ۔ اور جن مسائل میں اجتہاد کی ضرورت نہیں امام صاحب ان میں کیا کرتے ہیں ؟
قلت :
تو بھائی جب ہم بھی تقلید کرتےہیں اور آپ بھی تقلید کرتے ہیں تو پھر ہم پر ملامت کی وجہ ؟ گزارش ہےکہ اپنے اور ہمارے درمیان فرق کرنے کے لیے اتنا ظلم نہ کریں کہ آپ کے آباء و اجداد تو ہوئے غیر مقلدین و مجتہدین اور جن سے ہم استفادہ کر لیں وہ غیر مقلدین و غیر مجتہدین ۔ جناب ذرا وضاحت فرمائیں کہ آپ کا ہونا یہ کوئی سند فضیلت ہے کہ اس کو حاصل کرکے مجتہد بن جاتا ہے اور جب کے ہمارا ہونا کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے درجہ اجتہاد پر نہین پہنچا جا سکتا ۔
ایک گزارش ہے کہ آباء چاہے آپ کے ہوں یا ہمارے ۔۔۔ ایک بات میں تو اتفاق ہے کہ سب کے سب تقلید جیسی شفاء سے محروم ہیں ۔۔۔ لہذا کوشش کریں کہ آئندہ عدم تقلید کو نشانہ نہ بنا ئیں کہ اس طرح خود آپ اپنے دام مین صیاد آ جائے گا ۔
مزید فرماتے ہیں :
میں نے گزارش کی تھی :
ابن جوزی صاحب نے کمال کردیا ہے لکھتے ہیں :
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
اسی طرح ذرا اصول حدیث کی کسی کتاب کو اگر پڑھ سکتے ہیں تو ذرا دیکھ کر بتائیں کہ شاذ ، معلول ، معنعن ، متروک وغیرہ احادیث حدیث ضعیف کی اقسام کے تحت درج نہیں ہیں ؟
آخر میں خلاصۃ میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ اہل حدیث پر اپنی جہالت کی وجہ سے انکار حدیث کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ اہل حدیث حدیث رسول کا انکار نہیں کرتے بلکہ غیر رسول کی حدیث کی نسبت إلی الرسول کا انکار کرتے ہیں ۔
اور آپ کو ذرا ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ آپ اس بات پر مصر ہیں کہ ہم ایسی بات جس کوحضور صلی اللہ علیہ نے نہیں کہا اس کی نسبت بھی حضور کی طرف کردیں ۔
أنّا مارے أنّی نوں تے مکے وجن تھمی نوں ۔
اگر کسی بھائی کو پنجابی سمجھ نہیں آتی تو وہ اردو کے اس مقولے کا سہارا لے سکتا ہے کہ سوال گندم اور جواب چنا ۔
اتنا فضول وقت تونہیں ہے کہ ابن جوزی صاحب کے گندم کے جواب میں چنے کو گندم بناؤں اور پھر گندم کا جواب گندم سمجھ کر بحث شروع کروں البتہ یوں ہوسکتا ہے ہم گندم کو ہی چنا سمجھ کر کچھ نہ کچھ کرنےکی کوشش کرتے ہیں ۔
میں نے گزارش کی تھی کہ :
ابن جوزی صاحب ارشاد فرماتے ہیں :(١) تقلید کی بیماری صدیوں بعد پیدا ہوئی ہے ۔۔ خود جن کی تقلید کی جاتی ہے وہ بھی آپ کی اصطلاح میں غیر مقلد ہی تھے ۔ اس لحاظ سے انکار حدیث کو عدم تقلید سے جوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ کیا خیال ہے آپ کا ؟
ابن جوزی صاحب کو ثابت کرنا چاہیےتھا کہ نہیں جنا ب یہ تقلید تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی چلی آرہی تھی صحابہ بھی مقلد تھے ، تابعین بھی مقلد تھے ، امام ابو حنیفہ بھی مقلد تھے اور اس کے بعد آج تک سب مقلد ہیں سوائے منکرین حدیث کہ وہی غیر مقلد ہیں اس وجہ سے فتنہ انکار حدیث نے سر أٹھایا ۔حضر صاحب کا پہلا اعتراض انکے لئے لفظ غیر مقلد کے استعمال پر ہے۔
١۔تقلید شفاء ہے، ٢۔ تقلید کی بنی نوع انسانیت کو اولین دور سے ہر میدان میں ناگزیرضرورت رہی ہے۔ ٣۔ فقہی میدان میں جن کی تقلید کی جاتی ہے ہماری اصطلاح میں بالاتفاق انہیں مجتھد کہا جاتا ہے۔ ٤ ۔آپ کا خیال غلط ہے
ٹھیک ہے جناب تقلید شفاء ہے اور تقلید کی بنی نوع انسانی کو دور أول سے ضرورت ہے تو پھر انبیاء کرام ، صحابہ کرام اور خود آئمہ أربعہ اس شفاء سے محروم کیوں رہے اور کیوں ساری عمر عدم تقلید کی مرض میں ہی گزار گئے تھے ؟( نعو ذ باللہ من الخذلان )
اور اگر ان کے لیے عدم تقلید میں ہی شفاء تھی تو پھر کس حکیم یا طبیب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اب معاملہ اس کے بر عکس ہو گیا ہے ۔ اور جو بھی تقلید کا پٹہ گلے سے اتارے گا وہ منکر حدیث کہلائے گا ۔
کیا جس طرح قرآنی آیات و أحادیث کے وہ مخاطب تھے کہ براہ راست ان کی اتباع و اطاعت کریں ، ہم یہ بھی یہی مطالبہ نہیں ہے اگر ان سےیہ مطالبہ تھأ اور مقلدین سے یہ مطالبہ رفع ہوگیا ہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟
قرآن کی کون سی آیت ہے جس میں أفلا بتدبرون أقوال الإمام لکھا ہوا ہے ۔ کس حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ترکت فیکم أقوال الإمام الفلانی لن تضلوا ما تمسکتم بھا ۔۔۔
اور حقیقت یہ ہےکہ اس حدیث کی رو سے
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ
جس نے بھی قرآن و سنت سے اعراض کرکے کسی اور چیز سےتمسک کیاتو اس کے لیے گمراہی و ضلالت کی گارنٹی اسی طرح ہے جس طرح تمسک بالکتاب و السنۃ کرنے والے کے لیے ہدایت یافتہ ہونے کی سند ہے ۔
کئی لوگ عدم تقلید سے مجتہد بن جاتے جب کہ دوسرے اسی کا م سے منکر حدیث بن جاتے ہیں ۔ تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ترک تقلید کو انکار حدیث کےساتھ لازم ملزوم کردیا جائے ۔ اور خاص طور پر حقیقت حال بھی اس کے بر عکس ہو۔ فیا للأسف علی ما تفعلون ۔
اور یہ جان کر ابن جوزی صاحب ضرور ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے مسائل کو تین اقسام قرار دیا ہے جن میں سے ایک قسم میں مجتہد اجتہاد اور مقلد تقلید کرے گا جب ایک قسم وہ ہے جس میں نہ مجتہد کے اجتہاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی مقلد تقلید کرے گا ۔ یعنی امام صاحب جو صرف مجتہد ہیں ان کام بھی ختم اور ان کے بھولے بھائے مقلدین کا کھیل بھی ختم ۔۔ گزارش ہے کہ جب تقلید شفاء ہے تو پھر یہ شفاء بعض مسائل کے ساتھ خاص ہوکر کیوں رہ جاتی ہے ۔ اور جن مسائل میں اجتہاد کی ضرورت نہیں امام صاحب ان میں کیا کرتے ہیں ؟
قلت :
ابن جوزی صاحب کو جواب دینا چاہیے تھا کہ جنا ب ہم نے تو کسی بھی حدیث کا انکار نہیں کیا اور مجھ سے ثبوت کا مطالبہ کرنا چاہیےتھا ۔ لیکن انہوں نے کیا کیا ملاحظہ فرمائیں :(٢) منکرین حدیث میں مقلدین بھی آجاتے ہیں کیونکہ امام صاحب کے قول کےمقابلے میں حدیث کا رد کر دیتے ہیں ۔ تو اس طرح آپ کی عبارت یوں ہو گی کہ غیر مقلدین مقلدین کی ڈگر پر ۔۔۔ کیا آپ اس سے راضی ہیں ؟ یقینا نہیں ! کیوں ؟
یعنی جس بات پر سارےمضمون کی بنیاد تھی کہ غیر مقلدین عدم تقلید کی وجہ سے منکر ین حدیث بن جاتے ہیں اسی بات پر پانی پھیر تےہوئے ان کو بھی مقلدین ہی بنا ڈالا ہے ۔ گویا کہ ایک نیا پینترا بدلا اور انکار حدیث کا سبب عدم تقلید سے ترقی کر کے ان علماء کی تقلید بن گیا جو تقلید نہیں کرتے اور اجتہاد بھی نہیں کرتے ۔۔ جی ہاں غیر مقلد غیر مجتھد علماء کے مقلدین بھی منکرین حدیث میں آجاتے ہیں
٢۔اگر امام سے آپ کی مراد امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہیں۔ تو آپکا یہ قیاس مردود ہے۔ اس لئے کہ امام صاحب اجتھاد فرماتے ہیں اور انکی بنیاد پر احادیث میں سے سنت پر عمل راجح قرار دیتے ہیں۔
تو بھائی جب ہم بھی تقلید کرتےہیں اور آپ بھی تقلید کرتے ہیں تو پھر ہم پر ملامت کی وجہ ؟ گزارش ہےکہ اپنے اور ہمارے درمیان فرق کرنے کے لیے اتنا ظلم نہ کریں کہ آپ کے آباء و اجداد تو ہوئے غیر مقلدین و مجتہدین اور جن سے ہم استفادہ کر لیں وہ غیر مقلدین و غیر مجتہدین ۔ جناب ذرا وضاحت فرمائیں کہ آپ کا ہونا یہ کوئی سند فضیلت ہے کہ اس کو حاصل کرکے مجتہد بن جاتا ہے اور جب کے ہمارا ہونا کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے درجہ اجتہاد پر نہین پہنچا جا سکتا ۔
ایک گزارش ہے کہ آباء چاہے آپ کے ہوں یا ہمارے ۔۔۔ ایک بات میں تو اتفاق ہے کہ سب کے سب تقلید جیسی شفاء سے محروم ہیں ۔۔۔ لہذا کوشش کریں کہ آئندہ عدم تقلید کو نشانہ نہ بنا ئیں کہ اس طرح خود آپ اپنے دام مین صیاد آ جائے گا ۔
مزید فرماتے ہیں :
جیسا کہ میں سابقہ مشارکت میں واضح کر چکا ہوں کہ اگر اہل حدیث کو منکر حدیث مان بھی لیا جائے تو پھر مقلدین منکر ین حدیث سے زیادہ مشابہت رکھتے ہین کیونکہ ان دونوں کے حیلے بھی قریب قریب ہیں ۔ ایک حدیث کو رد کر نے کا بہانہ عقل بنا تا ہے تو دوسرا قیاس کی آڑ لیتا ہے اب جو فرق عقل اور قیاس میں ہے وہی فرق منکر ین حدیث اور مقلدین میں ہے ۔ اور یقینا مقلدین کے قیاس اور عقل میں بعد المشرقین ہوگا اسی لیے خود کو منکرین حدیث نہین سمجھتے ۔دونوں کا وطیرہ انکار حدیث کا ہے اس لئے دونوں ایک ہی راہ کے راہی ہیں۔ گرچہ دونوں کے حیلے مختلف ہیں
میں نے گزارش کی تھی :
جس کے جواب میں ابن جوزی صاحب گویا ہوئے ہیں کہ :(٤) حدیث رسول کو غیروں کے اقوال سے منزہ و منقح کرنا یہ انکا رحدیث ہےہی نہیں چہ جائیکہ اس کو چور دروازہ قرار دیا جائے ۔ کیونکہ محدثین نےجو اصول و قوانین بنائےہیں وہ حدیث رسول کی حفاظت کے لیےہیں نہ کہ اس کا انکار کرنےکےلیے فن مصطلح الحدیث کی کوئی بھی کتاب اگر آپ کے پاس موجود ہے تو اس میں شروع میں فن مصطلح الحدیث کی غرض و غایت پڑھیں اور اپنی سوچ پر نظر ثانی کر یں ۔
اور اس کے باوجود بھی اگر آپ اس کو انکارحدیث سے تعبیر کرنےپر مصر ہیں تو پھر آپ کو حدیث (سنت ) کی
تعریف میں تبدیلی کرنی چاہیے کہ حدیث سے مراد یہاں رسول اور غیر رسول سب کے اقوال اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ اصول حدیث سے حدیث رسول کا انکا رنہیں ہوتا بلکہ غیر رسول کی بات کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا انکار کیا جاتا ہے ۔ اور ہر قول کی نسبت اس کےقائل کی طرف متعین کی جاتی ہے ۔ کیا اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتےہیں ؟
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ متعصب مقلدین کی اس طرح کی احادیث :
ابو حنیفہ نامی شخص میری امت کے لیے سورج کی مانند ہے جبکہ محمد بن ادریس الشافعی میری امت کے لیے شیطان سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔
کو حدیث رسول قرار دے دیا جائے ؟ اگر اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتے ہیں تو یہ عین مطلوب ہے ۔
یقینا آپ اس کو انکار حدیث نہیں سمجھتے کیونکہ آپ کے نزدیک بھی موضوع حدیث کا انکار کرنا انکار حدیث نہیں ۔ تو گزارش یہ ہےکہ موضوع حدیث کا انکار کرنا جن محدثین کا فیصلہ ہے انہیں کا یہ فیصلہ ہے کہ حدیث ضعیف کی دیگر قسموں مثلا متروک و معلول اور شاذ وغیرہ کو رد کیا جائےگا۔ آپ کے پاس اس بے تکے فرق کی کیا دلیل ہے ؟
جواب ڈھونڈنے کے لیےعینک کی فرمائش بھی ابن جوزی صاحب سے کرنی پڑے گی ویسے تو نظر آنے سے رہا ۔ہم نے آئمہ حدیث کے اصول و اقوال کو انکار حدیث کا چور دروازہ نہیں کہا۔ آپ ہمارے بارے سوئے ظن سے کام لے رہے ہیں۔ نا ہم انکے اقوال و اصولوں کو زیر بحث لائے ہیں۔ بلکہ ہم نے غیر مقلدوں کے ایک چال کے طرف عنوان میں اشارہ کیا ہے اور اصل مضمون میں کفائت اللہ مولوی صاحب کے اقوال پیش کر کے اسے ثابت بھی کیا ہے
ابن جوزی صاحب نے کمال کردیا ہے لکھتے ہیں :
سبحان اللہ جو ایک فرق رہ گیا تھا وہ بھی ختم ہوگیا ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی غیر مقلد تھے اور مجتہد تھے یہاں ہمیں بھی وہی سند ہبہ کردی گئی ہے ۔ اب گزارش ہے کہ اللہ کے واسطے ہمارے ساتھ بھی وہ سلوک نہ کیجیے گا جو امام صاحب کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔ صدقے جاوں اس تقلیدانہ اجتہاد یا ایسی تقلید پر جو مجتہدانہ رنگ لیےہوئےہیں جسے جو چاہا کر دکھایا ۔جیسا کہ میں پہلے آپکو غیر مقلدمیں مجتھد قرار دے چکا ہوں۔
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
قبل اس کے یہاں کچھ بات کی جائےپہلے اپنی ہی بات پر غور کریں :خلاصہ کے تعین میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ ایک اس لئے کہ ہم نے الزام نہیں لگایا ثابت بھی کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا مقدمہ ضعیف حدیث کی بجائے ثابت شدہ احادیث سے بحث کرتا ہے۔ جن میں صحیح کے علاوہ کے غیر مقلدین منکر ہیں
آپ کے نزدیک ضعیف حدیث ثابت ہے یا غیر ثابت ؟ مقبول ہے یا مردود ؟من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔
اسی طرح ذرا اصول حدیث کی کسی کتاب کو اگر پڑھ سکتے ہیں تو ذرا دیکھ کر بتائیں کہ شاذ ، معلول ، معنعن ، متروک وغیرہ احادیث حدیث ضعیف کی اقسام کے تحت درج نہیں ہیں ؟
آخر میں خلاصۃ میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ اہل حدیث پر اپنی جہالت کی وجہ سے انکار حدیث کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ اہل حدیث حدیث رسول کا انکار نہیں کرتے بلکہ غیر رسول کی حدیث کی نسبت إلی الرسول کا انکار کرتے ہیں ۔
اور آپ کو ذرا ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ آپ اس بات پر مصر ہیں کہ ہم ایسی بات جس کوحضور صلی اللہ علیہ نے نہیں کہا اس کی نسبت بھی حضور کی طرف کردیں ۔