• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مقلدین منکرین حدیث کی ڈگر پر ۔ انکار حدیث کے چور دروازے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابن جوزی صاحب کی مشارکات خاص طور پر جوابی مشارکات پڑھ کر پنجابی کا ایک مقولہ یاد آ جاتا ہے کہ :
أنّا مارے أنّی نوں تے مکے وجن تھمی نوں ۔
اگر کسی بھائی کو پنجابی سمجھ نہیں آتی تو وہ اردو کے اس مقولے کا سہارا لے سکتا ہے کہ سوال گندم اور جواب چنا ۔
اتنا فضول وقت تونہیں ہے کہ ابن جوزی صاحب کے گندم کے جواب میں چنے کو گندم بناؤں اور پھر گندم کا جواب گندم سمجھ کر بحث شروع کروں البتہ یوں ہوسکتا ہے ہم گندم کو ہی چنا سمجھ کر کچھ نہ کچھ کرنےکی کوشش کرتے ہیں ۔
میں نے گزارش کی تھی کہ :
(١) تقلید کی بیماری صدیوں بعد پیدا ہوئی ہے ۔۔ خود جن کی تقلید کی جاتی ہے وہ بھی آپ کی اصطلاح میں غیر مقلد ہی تھے ۔ اس لحاظ سے انکار حدیث کو عدم تقلید سے جوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ کیا خیال ہے آپ کا ؟
ابن جوزی صاحب ارشاد فرماتے ہیں :
حضر صاحب کا پہلا اعتراض انکے لئے لفظ غیر مقلد کے استعمال پر ہے۔
١۔تقلید شفاء ہے، ٢۔ تقلید کی بنی نوع انسانیت کو اولین دور سے ہر میدان میں ناگزیرضرورت رہی ہے۔ ٣۔ فقہی میدان میں جن کی تقلید کی جاتی ہے ہماری اصطلاح میں بالاتفاق انہیں مجتھد کہا جاتا ہے۔ ٤ ۔آپ کا خیال غلط ہے
ابن جوزی صاحب کو ثابت کرنا چاہیےتھا کہ نہیں جنا ب یہ تقلید تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی چلی آرہی تھی صحابہ بھی مقلد تھے ، تابعین بھی مقلد تھے ، امام ابو حنیفہ بھی مقلد تھے اور اس کے بعد آج تک سب مقلد ہیں سوائے منکرین حدیث کہ وہی غیر مقلد ہیں اس وجہ سے فتنہ انکار حدیث نے سر أٹھایا ۔
ٹھیک ہے جناب تقلید شفاء ہے اور تقلید کی بنی نوع انسانی کو دور أول سے ضرورت ہے تو پھر انبیاء کرام ، صحابہ کرام اور خود آئمہ أربعہ اس شفاء سے محروم کیوں رہے اور کیوں ساری عمر عدم تقلید کی مرض میں ہی گزار گئے تھے ؟( نعو ذ باللہ من الخذلان )
اور اگر ان کے لیے عدم تقلید میں ہی شفاء تھی تو پھر کس حکیم یا طبیب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اب معاملہ اس کے بر عکس ہو گیا ہے ۔ اور جو بھی تقلید کا پٹہ گلے سے اتارے گا وہ منکر حدیث کہلائے گا ۔
کیا جس طرح قرآنی آیات و أحادیث کے وہ مخاطب تھے کہ براہ راست ان کی اتباع و اطاعت کریں ، ہم یہ بھی یہی مطالبہ نہیں ہے اگر ان سےیہ مطالبہ تھأ اور مقلدین سے یہ مطالبہ رفع ہوگیا ہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟
قرآن کی کون سی آیت ہے جس میں أفلا بتدبرون أقوال الإمام لکھا ہوا ہے ۔ کس حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ترکت فیکم أقوال الإمام الفلانی لن تضلوا ما تمسکتم بھا ۔۔۔
اور حقیقت یہ ہےکہ اس حدیث کی رو سے
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ
جس نے بھی قرآن و سنت سے اعراض کرکے کسی اور چیز سےتمسک کیاتو اس کے لیے گمراہی و ضلالت کی گارنٹی اسی طرح ہے جس طرح تمسک بالکتاب و السنۃ کرنے والے کے لیے ہدایت یافتہ ہونے کی سند ہے ۔
کئی لوگ عدم تقلید سے مجتہد بن جاتے جب کہ دوسرے اسی کا م سے منکر حدیث بن جاتے ہیں ۔ تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ترک تقلید کو انکار حدیث کےساتھ لازم ملزوم کردیا جائے ۔ اور خاص طور پر حقیقت حال بھی اس کے بر عکس ہو۔ فیا للأسف علی ما تفعلون ۔
اور یہ جان کر ابن جوزی صاحب ضرور ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے مسائل کو تین اقسام قرار دیا ہے جن میں سے ایک قسم میں مجتہد اجتہاد اور مقلد تقلید کرے گا جب ایک قسم وہ ہے جس میں نہ مجتہد کے اجتہاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی مقلد تقلید کرے گا ۔ یعنی امام صاحب جو صرف مجتہد ہیں ان کام بھی ختم اور ان کے بھولے بھائے مقلدین کا کھیل بھی ختم ۔۔ گزارش ہے کہ جب تقلید شفاء ہے تو پھر یہ شفاء بعض مسائل کے ساتھ خاص ہوکر کیوں رہ جاتی ہے ۔ اور جن مسائل میں اجتہاد کی ضرورت نہیں امام صاحب ان میں کیا کرتے ہیں ؟
قلت :
(٢) منکرین حدیث میں مقلدین بھی آجاتے ہیں کیونکہ امام صاحب کے قول کےمقابلے میں حدیث کا رد کر دیتے ہیں ۔ تو اس طرح آپ کی عبارت یوں ہو گی کہ غیر مقلدین مقلدین کی ڈگر پر ۔۔۔ کیا آپ اس سے راضی ہیں ؟ یقینا نہیں ! کیوں ؟
ابن جوزی صاحب کو جواب دینا چاہیے تھا کہ جنا ب ہم نے تو کسی بھی حدیث کا انکار نہیں کیا اور مجھ سے ثبوت کا مطالبہ کرنا چاہیےتھا ۔ لیکن انہوں نے کیا کیا ملاحظہ فرمائیں :
۔ جی ہاں غیر مقلد غیر مجتھد علماء کے مقلدین بھی منکرین حدیث میں آجاتے ہیں
٢۔اگر امام سے آپ کی مراد امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہیں۔ تو آپکا یہ قیاس مردود ہے۔ اس لئے کہ امام صاحب اجتھاد فرماتے ہیں اور انکی بنیاد پر احادیث میں سے سنت پر عمل راجح قرار دیتے ہیں۔
یعنی جس بات پر سارےمضمون کی بنیاد تھی کہ غیر مقلدین عدم تقلید کی وجہ سے منکر ین حدیث بن جاتے ہیں اسی بات پر پانی پھیر تےہوئے ان کو بھی مقلدین ہی بنا ڈالا ہے ۔ گویا کہ ایک نیا پینترا بدلا اور انکار حدیث کا سبب عدم تقلید سے ترقی کر کے ان علماء کی تقلید بن گیا جو تقلید نہیں کرتے اور اجتہاد بھی نہیں کرتے ۔
تو بھائی جب ہم بھی تقلید کرتےہیں اور آپ بھی تقلید کرتے ہیں تو پھر ہم پر ملامت کی وجہ ؟ گزارش ہےکہ اپنے اور ہمارے درمیان فرق کرنے کے لیے اتنا ظلم نہ کریں کہ آپ کے آباء و اجداد تو ہوئے غیر مقلدین و مجتہدین اور جن سے ہم استفادہ کر لیں وہ غیر مقلدین و غیر مجتہدین ۔ جناب ذرا وضاحت فرمائیں کہ آپ کا ہونا یہ کوئی سند فضیلت ہے کہ اس کو حاصل کرکے مجتہد بن جاتا ہے اور جب کے ہمارا ہونا کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے درجہ اجتہاد پر نہین پہنچا جا سکتا ۔
ایک گزارش ہے کہ آباء چاہے آپ کے ہوں یا ہمارے ۔۔۔ ایک بات میں تو اتفاق ہے کہ سب کے سب تقلید جیسی شفاء سے محروم ہیں ۔۔۔ لہذا کوشش کریں کہ آئندہ عدم تقلید کو نشانہ نہ بنا ئیں کہ اس طرح خود آپ اپنے دام مین صیاد آ جائے گا ۔
مزید فرماتے ہیں :
دونوں کا وطیرہ انکار حدیث کا ہے اس لئے دونوں ایک ہی راہ کے راہی ہیں۔ گرچہ دونوں کے حیلے مختلف ہیں
جیسا کہ میں سابقہ مشارکت میں واضح کر چکا ہوں کہ اگر اہل حدیث کو منکر حدیث مان بھی لیا جائے تو پھر مقلدین منکر ین حدیث سے زیادہ مشابہت رکھتے ہین کیونکہ ان دونوں کے حیلے بھی قریب قریب ہیں ۔ ایک حدیث کو رد کر نے کا بہانہ عقل بنا تا ہے تو دوسرا قیاس کی آڑ لیتا ہے اب جو فرق عقل اور قیاس میں ہے وہی فرق منکر ین حدیث اور مقلدین میں ہے ۔ اور یقینا مقلدین کے قیاس اور عقل میں بعد المشرقین ہوگا اسی لیے خود کو منکرین حدیث نہین سمجھتے ۔
میں نے گزارش کی تھی :
(٤) حدیث رسول کو غیروں کے اقوال سے منزہ و منقح کرنا یہ انکا رحدیث ہےہی نہیں چہ جائیکہ اس کو چور دروازہ قرار دیا جائے ۔ کیونکہ محدثین نےجو اصول و قوانین بنائےہیں وہ حدیث رسول کی حفاظت کے لیےہیں نہ کہ اس کا انکار کرنےکےلیے فن مصطلح الحدیث کی کوئی بھی کتاب اگر آپ کے پاس موجود ہے تو اس میں شروع میں فن مصطلح الحدیث کی غرض و غایت پڑھیں اور اپنی سوچ پر نظر ثانی کر یں ۔
اور اس کے باوجود بھی اگر آپ اس کو انکارحدیث سے تعبیر کرنےپر مصر ہیں تو پھر آپ کو حدیث (سنت ) کی
تعریف میں تبدیلی کرنی چاہیے کہ حدیث سے مراد یہاں رسول اور غیر رسول سب کے اقوال اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ اصول حدیث سے حدیث رسول کا انکا رنہیں ہوتا بلکہ غیر رسول کی بات کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا انکار کیا جاتا ہے ۔ اور ہر قول کی نسبت اس کےقائل کی طرف متعین کی جاتی ہے ۔ کیا اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتےہیں ؟
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ متعصب مقلدین کی اس طرح کی احادیث :
ابو حنیفہ نامی شخص میری امت کے لیے سورج کی مانند ہے جبکہ محمد بن ادریس الشافعی میری امت کے لیے شیطان سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔
کو حدیث رسول قرار دے دیا جائے ؟ اگر اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتے ہیں تو یہ عین مطلوب ہے ۔
یقینا آپ اس کو انکار حدیث نہیں سمجھتے کیونکہ آپ کے نزدیک بھی موضوع حدیث کا انکار کرنا انکار حدیث نہیں ۔ تو گزارش یہ ہےکہ موضوع حدیث کا انکار کرنا جن محدثین کا فیصلہ ہے انہیں کا یہ فیصلہ ہے کہ حدیث ضعیف کی دیگر قسموں مثلا متروک و معلول اور شاذ وغیرہ کو رد کیا جائےگا۔ آپ کے پاس اس بے تکے فرق کی کیا دلیل ہے ؟
جس کے جواب میں ابن جوزی صاحب گویا ہوئے ہیں کہ :
ہم نے آئمہ حدیث کے اصول و اقوال کو انکار حدیث کا چور دروازہ نہیں کہا۔ آپ ہمارے بارے سوئے ظن سے کام لے رہے ہیں۔ نا ہم انکے اقوال و اصولوں کو زیر بحث لائے ہیں۔ بلکہ ہم نے غیر مقلدوں کے ایک چال کے طرف عنوان میں اشارہ کیا ہے اور اصل مضمون میں کفائت اللہ مولوی صاحب کے اقوال پیش کر کے اسے ثابت بھی کیا ہے
جواب ڈھونڈنے کے لیےعینک کی فرمائش بھی ابن جوزی صاحب سے کرنی پڑے گی ویسے تو نظر آنے سے رہا ۔
ابن جوزی صاحب نے کمال کردیا ہے لکھتے ہیں :
جیسا کہ میں پہلے آپکو غیر مقلدمیں مجتھد قرار دے چکا ہوں۔
سبحان اللہ جو ایک فرق رہ گیا تھا وہ بھی ختم ہوگیا ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی غیر مقلد تھے اور مجتہد تھے یہاں ہمیں بھی وہی سند ہبہ کردی گئی ہے ۔ اب گزارش ہے کہ اللہ کے واسطے ہمارے ساتھ بھی وہ سلوک نہ کیجیے گا جو امام صاحب کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔ صدقے جاوں اس تقلیدانہ اجتہاد یا ایسی تقلید پر جو مجتہدانہ رنگ لیےہوئےہیں جسے جو چاہا کر دکھایا ۔
جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے
خلاصہ کے تعین میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ ایک اس لئے کہ ہم نے الزام نہیں لگایا ثابت بھی کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا مقدمہ ضعیف حدیث کی بجائے ثابت شدہ احادیث سے بحث کرتا ہے۔ جن میں صحیح کے علاوہ کے غیر مقلدین منکر ہیں
قبل اس کے یہاں کچھ بات کی جائےپہلے اپنی ہی بات پر غور کریں :
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔
آپ کے نزدیک ضعیف حدیث ثابت ہے یا غیر ثابت ؟ مقبول ہے یا مردود ؟
اسی طرح ذرا اصول حدیث کی کسی کتاب کو اگر پڑھ سکتے ہیں تو ذرا دیکھ کر بتائیں کہ شاذ ، معلول ، معنعن ، متروک وغیرہ احادیث حدیث ضعیف کی اقسام کے تحت درج نہیں ہیں ؟
آخر میں خلاصۃ میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ اہل حدیث پر اپنی جہالت کی وجہ سے انکار حدیث کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ اہل حدیث حدیث رسول کا انکار نہیں کرتے بلکہ غیر رسول کی حدیث کی نسبت إلی الرسول کا انکار کرتے ہیں ۔
اور آپ کو ذرا ہوش کے ناخن لینے چاہییں کہ آپ اس بات پر مصر ہیں کہ ہم ایسی بات جس کوحضور صلی اللہ علیہ نے نہیں کہا اس کی نسبت بھی حضور کی طرف کردیں ۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
خضر حیات صاحب نے بدستور اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوکر روایتی قسم کی سطحی پھبتیاں کسی ہیں۔ ہم انکی تعریضات سے صرف نظر کرتے ہوئے انکی شاندرا ڈھٹائی کا ذکر ضرور کرنا چاہیں گے جو ہماری خارج از موضوع ابحاث کی نشاندہی اور استدعا کے باوجود انہوں نے اپنی بے بسی چھپانے اور اصل موضوع کا رخ بدلنے کیلئے اختیار فرمائی ہے۔ دیکھئے ہم نے انکو موضوع تک محدود رکھنے کیلئے لکھا
از ابن جوزی
حضر صاحب کا پہلا اعتراض انکے لئے لفظ غیر مقلد کے استعمال پر ہے۔
١۔تقلید شفاء ہے، ٢۔ تقلید کی بنی نوع انسانیت کو اولین دور سے ہر میدان میں ناگزیرضرورت رہی ہے۔ ٣۔ فقہی میدان میں جن کی تقلید کی جاتی ہے ہماری اصطلاح میں بالاتفاق انہیں مجتھد کہا جاتا ہے۔ ٤ ۔آپ کا خیال غلط ہے
اصولی بات: پہلے اعتراض میں پیش کئے گئے نکات موضوع خارج ہیں اور یہ تھریڈ ان غیر ضروری الجھاو کا متحمل نہیں۔ بہر حال اگر آپکو اس حوالے سے بحث کرنی ہو تو الگ تھریڈ بنالیں۔
ہماری استدعا کے باوجود حضرت موصوف نے کمال استکبار سے ہماری درخواست رد فرمائی ہے۔ اور اپنے من کی سیاہی سےقرطاس سیاہ فرمایا ہے
ازخضر حیات
ابن جوزی صاحب کو ثابت کرنا چاہیےتھا کہ نہیں جنا ب یہ تقلید تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی چلی آرہی تھی صحابہ بھی مقلد تھے ، تابعین بھی مقلد تھے ، امام ابو حنیفہ بھی مقلد تھے اور اس کے بعد آج تک سب مقلد ہیں سوائے منکرین حدیث کہ وہی غیر مقلد ہیں اس وجہ سے فتنہ انکار حدیث نے سر أٹھایا ۔
ٹھیک ہے جناب تقلید شفاء ہے اور تقلید کی بنی نوع انسانی کو دور أول سے ضرورت ہے تو پھر انبیاء کرام ، صحابہ کرام اور خود آئمہ أربعہ اس شفاء سے محروم کیوں رہے اور کیوں ساری عمر عدم تقلید کی مرض میں ہی گزار گئے تھے ؟( نعو ذ باللہ من الخذلان )
اور اگر ان کے لیے عدم تقلید میں ہی شفاء تھی تو پھر کس حکیم یا طبیب نے یہ انکشاف کیا ہے کہ اب معاملہ اس کے بر عکس ہو گیا ہے ۔ اور جو بھی تقلید کا پٹہ گلے سے اتارے گا وہ منکر حدیث کہلائے گا ۔
کیا جس طرح قرآنی آیات و أحادیث کے وہ مخاطب تھے کہ براہ راست ان کی اتباع و اطاعت کریں ، ہم یہ بھی یہی مطالبہ نہیں ہے اگر ان سےیہ مطالبہ تھأ اور مقلدین سے یہ مطالبہ رفع ہوگیا ہے تو اس کی دلیل کیا ہے ؟
قرآن کی کون سی آیت ہے جس میں أفلا بتدبرون أقوال الإمام لکھا ہوا ہے ۔ کس حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ ترکت فیکم أقوال الإمام الفلانی لن تضلوا ما تمسکتم بھا ۔۔۔
اور حقیقت یہ ہےکہ اس حدیث کی رو سے
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنۃ رسولہ
جس نے بھی قرآن و سنت سے اعراض کرکے کسی اور چیز سےتمسک کیاتو اس کے لیے گمراہی و ضلالت کی گارنٹی اسی طرح ہے جس طرح تمسک بالکتاب و السنۃ کرنے والے کے لیے ہدایت یافتہ ہونے کی سند ہے ۔
کئی لوگ عدم تقلید سے مجتہد بن جاتے جب کہ دوسرے اسی کا م سے منکر حدیث بن جاتے ہیں ۔ تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ترک تقلید کو انکار حدیث کےساتھ لازم ملزوم کردیا جائے ۔ اور خاص طور پر حقیقت حال بھی اس کے بر عکس ہو۔ فیا للأسف علی ما تفعلون ۔
اور یہ جان کر ابن جوزی صاحب ضرور ورطہ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے مسائل کو تین اقسام قرار دیا ہے جن میں سے ایک قسم میں مجتہد اجتہاد اور مقلد تقلید کرے گا جب ایک قسم وہ ہے جس میں نہ مجتہد کے اجتہاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی مقلد تقلید کرے گا ۔ یعنی امام صاحب جو صرف مجتہد ہیں ان کام بھی ختم اور ان کے بھولے بھائے مقلدین کا کھیل بھی ختم ۔۔ گزارش ہے کہ جب تقلید شفاء ہے تو پھر یہ شفاء بعض مسائل کے ساتھ خاص ہوکر کیوں رہ جاتی ہے ۔ اور جن مسائل میں اجتہاد کی ضرورت نہیں امام صاحب ان میں کیا کرتے ہیں ؟
موصوف اس واہمہ میں مبتلا ہیں کہ غیر مقلدوں کو منکر حدیث ہم ترک تقلید یا عدم تقلید کے با وصف ٹہرارہے ہیں۔ دیکھئے عنوان کے ایک لفظ سے موصوف نے کیا کیا استنباظات فرمائے ہیں۔ اور اپنے قیاسات کو ہمارا خیال باور کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں غیر مقلدیت ایک زینہ ہے جس کی منازل انکار حدیث، نیچریت اور دہریت وغیرہ فتن ہیں۔ لیکن ہمارا مقدمہ عدم تقلید سے بحث ہی نہیں کرتا بلکہ عدم تقلید کے علاوہ غیر مقلدوں کے ایک اضافی وصف سے بحث کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں اصول حدیث میں غیر مقلدین آئمہ حدیث و رجال کے جامدمقلد ہیں ہم نے جس بات کی نشاندہی کی ہے وہ ہے ثابت شدہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ میں سے صرف سندا صحیح احادیث کو ماننا اور باقی کو ضعیف کہہ کر ٹھکرانا۔ چونکہ آپ ہمارا موقف سمجھے بغیر اپنے قیاس کو ہمارا موقف کہہ رہےہیں ہم سمجھ سکتے ہیں آپ کس قدر انہماک سے قیاس فرماتے ہونگے۔ اگر آپ کے انہماک میں خلل نہ ہو اور قیاسات سے تھوڑا باہر نکلیں تو ہمارے مضمون کو ذرا دقت نظر سے پڑھ لیں۔ کسی ایک لفظ میں الجھ کر قیاسات نا فرمائےگا۔
ہمیں شکوہ ہے کہ خضر صاحب نے ہمارے اصل نکات کو سرمو آگے نہیں بڑھایا۔ جانے کیا بات کہ انکا زور انہیں خارج از موضوع باتوں کی طرف رہا ہے جن سے ہم انہیں منع کرتے آرہے ہیں
١۔ جی ہاں غیر مقلد غیر مجتھد علماء کے مقلدین بھی منکرین حدیث میں آجاتے ہیں
٢۔اگر امام سے آپ کی مراد امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہیں۔ تو آپکا یہ قیاس مردود ہے۔ اس لئے کہ امام صاحب اجتھاد فرماتے ہیں اور انکی بنیاد پر احادیث میں سے سنت پر عمل راجح قرار دیتے ہیں۔
اصولی بات:
آپکا پیش فرمودہ یہ نکتہ بھی خارج از موضوع ہے۔ جواب اس لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ حسب سابق جواب نہ دینے کا رونا نا روئیں۔ امید کرتا ہوں آئندہ موضوعیت تک محدود رہیں گے۔
موضوع کا جواب نا سہی اپنی خفت مٹانے کو کچھ الٹا سیدھا ادھر ادھرتو لکھنا تھا نا۔ اپنے مقلدین پر علمیت کا رعب بھی تو ڈالنا تھا کہ دیکھو فلاں کو کیسا رد لکھا ہے ویسے زیر بحث مضمون اوراس میں آپکی خارج از موضوع باتوں پر یہ محاورہ فٹ ہے سوال گندم اور جواب چنا ۔
از خضر حیات
یعنی جس بات پر سارےمضمون کی بنیاد تھی کہ غیر مقلدین عدم تقلید کی وجہ سے منکر ین حدیث بن جاتے ہیں اسی بات پر پانی پھیر تےہوئے ان کو بھی مقلدین ہی بنا ڈالا ہے ۔ گویا کہ ایک نیا پینترا بدلا اور انکار حدیث کا سبب عدم تقلید سے ترقی کر کے ان علماء کی تقلید بن گیا جو تقلید نہیں کرتے اور اجتہاد بھی نہیں کرتے ۔
تو بھائی جب ہم بھی تقلید کرتےہیں اور آپ بھی تقلید کرتے ہیں تو پھر ہم پر ملامت کی وجہ ؟ گزارش ہےکہ اپنے اور ہمارے درمیان فرق کرنے کے لیے اتنا ظلم نہ کریں کہ آپ کے آباء و اجداد تو ہوئے غیر مقلدین و مجتہدین اور جن سے ہم استفادہ کر لیں وہ غیر مقلدین و غیر مجتہدین ۔ جناب ذرا وضاحت فرمائیں کہ آپ کا ہونا یہ کوئی سند فضیلت ہے کہ اس کو حاصل کرکے مجتہد بن جاتا ہے اور جب کے ہمارا ہونا کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے درجہ اجتہاد پر نہین پہنچا جا سکتا ۔
ایک گزارش ہے کہ آباء چاہے آپ کے ہوں یا ہمارے ۔۔۔ ایک بات میں تو اتفاق ہے کہ سب کے سب تقلید جیسی شفاء سے محروم ہیں ۔۔۔ لہذا کوشش کریں کہ آئندہ عدم تقلید کو نشانہ نہ بنا ئیں کہ اس طرح خود آپ اپنے دام مین صیاد آ جائے گا ۔
آپ قیاسات میں منہمک رہیں گے اور ایک ایک لفظ میں الجھ کر استنباطات فرمائیں گے ۔ تو پورے مضمون کو پڑھنے اور سجھنے کی نوبت کب آئے گی۔ مجھے لگتا ہے آپ کسی کی تحریر شاید پڑھتے ہی نہ ہو آپکا مذہب استنباطات کرکے دوسروں کیلئےلکھنا ہو کہ وہ اسے پڑھ کر علم و وجدان میں اضافہ کریں۔
آپ نے صرف عنوان کے الفاط سے متعلقہ سوالوں کے ہی جواب دئے ہیں جو آپ سے مطلوب نہیں تھے۔ اصل مضمون کو آپ نے ہاتھ تک نہیں لگایا ہے اور سیدھے خلاصے کی طرف پھدکیاں ماری ہیں۔آپکے غلط خلاصے پر ہمارے اعتراض کے جواب میں آپ نے ہمارا اقتباس پیش فرمایا ہے اور اسکے نیچے لکھا ہے
از خضر حیات
آپ کے نزدیک ضعیف حدیث ثابت ہے یا غیر ثابت ؟ مقبول ہے یا مردود ؟
ہمارا اقتباس کوٹ کرنے کے بعد یہ سوال کرنا اس بات کی غماز ہے کہ یا تو آپکو واقعی عینک کی ضرورت ہے یا اپنے پسندیدہ مشغلہ میں منہمک رہے ہونگے اور اسی عالم میں اس پر سے گزر گئے ہونگے۔ ہم اپنے اقتباس کو دوبارہ پیش کئے دیتے ہیں اور اہم نکات کو ملون کئے دیتے ہیں شاید آپ کی نظر کرم پڑجائے
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔
اپنے تفردات کے برعکس خضرحیات صاحب کفایت اللہ صاحب کی طرح احادیث صحیحہ کے سوا تمام ذخیرہ احادیث کے منکر ہو گئے ہیں درج ذیل مراسلات ملاحظہ ہوں


کیا دنیا میں مسلمانوں کا کوئی ایسے فرقہ ھے جو پچیس سے زائد کتابوں میں درج ساری احادیث رسول اللہ کو سو فیصد صحیح مانتا ھو؟؟؟؟؟
تمام ذخیرہ کو سو فیصدصحیح ماننے کا اقرار
اہل حدیث ۔
انتباہ
شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ کتب احادیث میں تو موضوع احادیث بھی درج ہیں۔ اہل حدیث کہاں ان سب کو سو فیصد صحیح مانتے ہیں؟
ضعیف حدیث کی تمام اقسام کا انکار
عابد بھائی نے صرف احادیث نہیں کہا بلکہ ’’ احادیث رسول ‘‘ کہا جس سے حدیث ضعیف کی تمام اقسام جس میں موضوع بھی شامل ہے ، نکل جاتی ہیں ۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
ابن جوزی ،
ابھی چند روز قبل جمشید صاحب سے بھی یہی گزارش کی تھی کہ اخلاقیات کا دامن تھام کر گفتگو کریں۔ خصوصاً جب آپ اہل علم حضرات سے گفتگو کر رہے ہوں۔ ورنہ اچھے الفاظ میں، مہذب قسم کی گالیاں دے کر مخالف کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرنا ہمیں بھی خوب آتا ہے۔ ایسے الفاظ دوسروں کے بارے استعمال نہ کریں جو آپ کے بارے میں استعمال ہوں تو آپ کو برا لگے۔ نفس مسئلہ پر گفتگو کریں نا کہ دوسرے کی شخصیت پر۔

اس تمہید کے بعد گزارش ہے کہ اس ساری مراسلت میں آپ کو کوئی شدید غلط فہمی لاحق ہوئی ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم صرف صحیح احادیث کو مانتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم حسن احادیث کا بھی انکار کر رہے ہیں اور حدیث کی قسم "صحیح" کے علاوہ دیگر تمام روایات ہمارے نزدیک قابل رد ہیں۔

ہمارے علمائے کرام کی اس موضوع پر سینکڑوں کتب موجود ہیں، جس میں انہوں نے حجیت حدیث پر مفصل گفتگو کر رکھی ہے۔عام گفتگو میں صحیح اور ضعیف احادیث کے جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ حدیث کی اصطلاحات کے عمومی متبادل ہیں۔

عام گفتگو میں صحیح حدیث دراصل حدیث مقبول کا متبادل ہے۔ ہر وہ حدیث جس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔ اس میں سنداً صحیح احادیث بھی شامل ہیں اور حسن بھی۔ اسی طرح بہت سی کم ضعف والی احادیث مل کر حسن لغیرہ کے مرتبے کو پہنچ کر مقبول ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحیح حدیث میں خود بخود متابعت والی کم ضعیف احادیث بھی شامل ہیں۔
اسی طرح عام گفتگو میں ضعیف حدیث دراصل حدیث مردود کا متبادل ہے نا کہ محدثین کی اصطلاحی ضعیف احادیث۔ حدیث مردود میں وہ تمام احادیث شامل ہیں جن کی سند ثابت نہیں۔ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں اور دیگر شدید ضعف والی احادیث بھی جن سے احتجاج نہیں کیا جاتا۔

لہٰذا ایک ایسی بات کو ثابت کرنے میں توانائیاں صرف نہ کریں جس کے بارے میں عام اہلحدیث نوجوانوں سے لے کر علمائے کرام تک میں کوئی ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں کہ مثلاً "حسن احادیث بھی حجت ہیں۔"

آپ کے انداز سے لگتا ہے کہ آپ کے نزدیک "موضوع حدیث" کے علاوہ تمام احادیث قابل احتجاج ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو تصدیق کر دیں۔
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
وقت مسلمان کا سرمایہ ہے- اس کےاستعمال میں احتیاط نہایت ضروری ہے-

بحث کے دوران خاص کریہ بات ملحوض خاطر رکھنی چاہیئے کہ دلیل کس درجے کی ہے اور مخالف کا مقصود بحث برائے بحث تو نہیں-
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
ابن جوزی ،
ابھی چند روز قبل جمشید صاحب سے بھی یہی گزارش کی تھی کہ اخلاقیات کا دامن تھام کر گفتگو کریں۔ خصوصاً جب آپ اہل علم حضرات سے گفتگو کر رہے ہوں۔ ورنہ اچھے الفاظ میں، مہذب قسم کی گالیاں دے کر مخالف کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرنا ہمیں بھی خوب آتا ہے۔ ایسے الفاظ دوسروں کے بارے استعمال نہ کریں جو آپ کے بارے میں استعمال ہوں تو آپ کو برا لگے۔
محترم راجا بھائی آپکی اس تقریر کے اصل حق دار تو خضر حیات صاحب بنتے ہیں۔ جنہیں اپنے وقار کا ذرا بھی خیال نہیں آیا اور آپ ہمیں درس دے رہے ہیں۔ کمال ہے آپ کو اپنے عالم کا نحوت و استہزاءنظر نہیں آرہا۔ کم از کم روئے سخن ہماری طرف کرنے سے پہلے آپکو انکی تہذیب کرنی چاہئے تھی۔ اور ہمیں کیا معلوم خضر صاحب عالم ہیں یا متعلم؟ انکی خلاف وقار گفتگو علماء کی شان سے میل تو نہیں کھا رہی؟ بہر حال ہمیں آپکی یہ بات تسلیم ہے کہ اہل علم بلکہ کسی بھی شخص سے بات چیت کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔

عام گفتگو میں صحیح حدیث دراصل حدیث مقبول کا متبادل ہے۔
آپ نے دعوے تو بہت سارے کئے ہیں لیکن دلیل ایک بھی نہیں دی ہے۔ چلئے اپنے اسی دعوے کی دلیل میں برصغیر کے کسی بھی تین نامور یا جیدغیر مقلد علماء کی تحریریں باحوالہ دیدیں۔
نیز ان سوالات کے جوابات دیکر ہماری غلط فہمی دور کردیں یا جوابات پاکر ہم آپکی غلط فہمی دور کردیں گے۔
١۔ جو حدیث مقبول ہوکر حجت بن جائےاس کا کیا حکم ہے۔ اور اسکے تارک کا کیا حکم ہے؟
 

محمد بن محمد

مشہور رکن
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
224
پوائنٹ
114
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم خضر حیات و راجا صاحبان و غیرھما آپ کن لوگوں سے اصول حدیث کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کو اصول حدیث کی ابجد کا بھی علم نہیں۔ وہ لوگ تو حدیث بھی بطور برکت اپنے مدارس میں آخری سال میں پڑھتے ہیں۔ اصول حدیث کی ساری کتب میں ثبوت و عدم ثبوت کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں صحیح اور ضعیف۔ پھر اس میں دونوں کی مزید اقسام ہیں جیسا کہ خضر حیات بھائی نے ذکر کیں لیکن جو تقسیم ابن جوزی نے کی ہے یہ ان کی اپنی اختراع تو ہو سکتی ہے ماہرین اصول حدیث کے نزدیک تو یہ نہیں پائی جاتی۔ باقی ان کی تضاد بیانی دیکھیں کہ منکرین حدیث کو اہل حدیث میں سے شمار کرتے ہیں اور پھر اہل حدیث کو منکرین حدیث کی ڈگر پر چلنے والا بتاتے ہیں۔ یعنی پھل پہلے لگے گا اور پیڑ بعد میں اگے گا۔ ما شآ اللہ۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
نہ جانے یہ پوسٹ ابن جوزی اور دیگر حنفی بھائیوں کے ہاں شرف قبولیت کیوں نہیں پا سکی؟؟؟
درج بالا پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن جوزی صاحب کے ہاں صحیح حدیث کے علاوہ دیگر احادیث بھی مقبول ہیں، انہیں عقیدہ وعمل میں دلیل بنایا جا سکتا ہے، اور جو غیر صحیح احادیث کو نہ مانے وہ منکر حدیث ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ابن الجوزی صاحب کی ذاتی جہالت ہے یا وہ احناف کی طرف سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ابن جوزی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ واضح کریں کہ ان کے نزدیک غیر صحیح احادیث میں سے کن احادیث کو عقیدہ وعمل کیلئے دلیل وبنیاد بنایا جا سکتا ہے؟؟؟ تاکہ بات دوٹوک آگے بڑھ سکے۔

فورم پر موجود دیگر حنفی حضرات کو اس اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہئے کہ کیا وہ بھی ابن جوزی سے اتفاق کرتے ہیں؟؟؟
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہر حال ہمیں آپکی یہ بات تسلیم ہے کہ اہل علم بلکہ کسی بھی شخص سے بات چیت کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔
شکریہ۔

وقت مسلمان کا سرمایہ ہے- اس کےاستعمال میں احتیاط نہایت ضروری ہے-
بحث کے دوران خاص کریہ بات ملحوض خاطر رکھنی چاہیئے کہ دلیل کس درجے کی ہے اور مخالف کا مقصود بحث برائے بحث تو نہیں-
آپ کی بات سمجھ آ گئی۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
نہ جانے یہ پوسٹ ابن جوزی اور دیگر حنفی بھائیوں کے ہاں شرف قبولیت کیوں نہیں پا سکی؟؟؟
محترمی ابو مالک صاحب آپ کی پوسٹ پر ہمارا تبصرہ شاید آپکی نظر سے نہیں گزرا؟ اس لئے ہم اسے دوبارہ پوسٹ کرتے ہیں
اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: ابو مالک پیغام دیکھیے
درج بالا پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن جوزی صاحب کے ہاں صحیح حدیث کے علاوہ دیگر احادیث بھی مقبول ہیں
جس پر ہم نے ذیل تبصرہ کیا تھا۔
یعنی ابو مالک بھائی کے نزدیک صحیح حدیث کے علاوہ دیگر احادیث مردود ہیں۔
دیکھئے یہی بات ہم بھی کہہ رہے ہیں
 
Top