محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
محترم بات صرف اتنی ہے کہ :اس بات کو تھریڈ کے موضوع سے خارج سمجھتے ہوئے صرف ایک جملہ تفسیر ابن کثیر سے نقل کر رہا ہوں:
وقال علي بن أبي طلحة، عن ابن عباس: {وأولي الأمر منكم} يعني: أهل الفقه والدين. وكذا قال مجاهد، وعطاء، والحسن البصري، وأبو العالية: {وأولي الأمر منكم} يعني: العلماء. والظاهر -والله أعلم-أن الآية في جميع (4) أولي الأمر من الأمراء والعلماء، كما تقدم.
"علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رض سے روایت کرتے ہوئے کہا: و اولی الامر منکم یعنی اہل فقہ و الدین۔ اور مجاہد اور عطا اور حسن بصری نے فرمایا ہے۔ اور ابو العالیہ نے کہا ہے: و اولی الامر منکم یعنی علماء۔ اور ظاہر یہ ہے۔ و اللہ اعلم۔ کہ اولی الامر امراء اور علماء (دونوں میں سے) ہیں جیسا کہ پیچھے گزر گیا۔"
سوره النساء کی اس آیت سے واضح ہے کہ أُولِي الْأَمْرِ سے مراد چاہے صاحبِ اقتدار ہو یا چاہے صاحب علم - دونوں صورتوں میں ان کی اطاعت، اللہ رب العزت اور نبی کریم صل الله علیہ وآله وسلم کی اطاعت سے مشروط ہے- وگرنہ ان کی اطاعت واجب نہیں- مقلدین پر اصل اعتراض ہی یہی ہے کہ وہ اس مشروط اطاعت کے قائل نہیں ہیں - ان کے نزدیک ان کے امام کا قول ہی حرف آخر ہے چاہے وہ قرآن کی صریح نص یا صحیح احادیث نبوی کے صریح خلاف ہی کیوں نہ ہو- بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ مقلدین خصوصاً احناف کے نزدیک اللہ رب العزت اور نبی کریم صل الله علیہ وآله وسلم کی اطاعت ان کے امام کی اطاعت سے مشروط ہے اور اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں- یعنی ان کے نزدیک جس طرح ان کے امام نے قرآن و احادیث نبوی کو سجھا اس طرح کوئی اور نہ سمجھ سکا- یہی وجہ کہ احناف لفظأُولِي الْأَمْرِ سے مراد اپنا امام تصورکرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ آئمہ اربعہ لیتے ہیں - جب کہ اگر أُولِي الْأَمْرِ سے مراد صاحب علم یا اصحاب فقہ ہیں تو کیا ١٤٠٠ سالوں میں عالم اسلام صرف چار فقہا یا عالم دین ہی پیدا کرسکا- جن کی پیروی واجب قرار پائی ؟؟ کیا ان فقہا و مجتہدین کی تعداد ہزاروں میں نہیں ہے جن کو أُولِي الْأَمْرِ میں شمار کیا جاسکے؟؟-