اکثرو بیشتر محدثین و مجتہدین و اہل سلف کی بات کو بلا دلیل مان کر اور پیش کرکے آپ کیا بنے؟؟؟
خیر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جس زمانہ کے محدثین و مجتہدین و اہل علم نے یہ کہا اس وقت صاحبِ اقتدار عموماً صاحبِ علم ہوتے تھے۔ اس آیت میں بھی حقیقی طور پر صاحبِ علم کی طرف ہی رجوع ہے نہ کہ صاحبِ اقتدار۔ کیونکہ ”فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ “ سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ صاحبِ اقتدار نہیں بلکہ صاحبِ علم مراد ہیں۔ کیونکہ صاحب اقتدار تو اکیلا ہوتا ہے اس کا جھگڑا کس سے ہونا ہے؟
محترم بات صرف اتنی ہے کہ :
سوره النساء کی اس آیت سے واضح ہے کہ
أُولِي الْأَمْرِ سے مراد چاہے صاحبِ اقتدار ہو یا چاہے صاحب علم - دونوں صورتوں میں ان کی اطاعت، اللہ رب العزت اور نبی کریم صل الله علیہ وآله وسلم کی اطاعت سے مشروط ہے- وگرنہ ان کی اطاعت واجب نہیں- مقلدین پر اصل اعتراض ہی یہی ہے کہ وہ اس مشروط اطاعت کے قائل نہیں ہیں - ان کے نزدیک ان کے امام کا قول ہی حرف آخر ہے چاہے وہ قرآن کی صریح نص یا صحیح احادیث نبوی کے صریح خلاف ہی کیوں نہ ہو- بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ مقلدین خصوصاً احناف کے نزدیک اللہ رب العزت اور نبی کریم صل الله علیہ وآله وسلم کی اطاعت ان کے امام کی اطاعت سے مشروط ہے اور اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں- یعنی ان کے نزدیک جس طرح ان کے امام نے قرآن و احادیث نبوی کو سجھا اس طرح کوئی اور نہ سمجھ سکا- یہی وجہ کہ احناف لفظ
أُولِي الْأَمْرِ سے مراد اپنا امام تصورکرتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ آئمہ اربعہ لیتے ہیں - جب کہ اگر أُولِي الْأَمْرِ سے مراد صاحب علم یا اصحاب فقہ ہیں
تو کیا ١٤٠٠ سالوں میں عالم اسلام صرف چار فقہا یا عالم دین ہی پیدا کرسکا- جن کی پیروی واجب قرار پائی ؟؟ کیا ان فقہا و مجتہدین کی تعداد ہزاروں میں نہیں ہے جن کو أُولِي الْأَمْرِ میں شمار کیا جاسکے؟؟-