• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتح مباھلہ الیاس ستار کی حقیقت!

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
ڈیفنڈر بہایی جواب دینے والے کو بولو جواب دو اتنا لمبا افسانھ لکہنے کی کیا درورت جواب لہکو مختصر جواب
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
میرے دوست آپ ماشا اللہ اہل علم ہیں آپ بھی جانتے ہیں کے سوال کرنا آسان اور اس کا تسلی بکش جواب دینا مشکل کام ہے اور کسی کو تسلی بکش جواب دینے کے لیے اس کی تفسیل دینا لازمی ہوتا ہے۔
ویسے بھی الیاس صاحب نے تحقیق مانگی تھی یہ تحقیق ہی ہے اور تحقیق دو لفظوں میں ختم نہیں ہوتی۔

جسے راہ حق کی تلاش ہوتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کے راہ کتنی لمبی ہے وہ صرف یہ دیکھتا ہے کے یہ راہ حق ہے۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
میں امید کرتا ہوں کے الیاس ستار صاحب بہت جلد اس کا جواب دیں گے اور اللہ اور اس کے رسول S.A.W.W کی طرف ریجو کریں گے۔۔
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
استادِ محترم جناب الیاس ستارصاحب کا چیلنج​

جناب محمد حسین میمن صاحب،

السّلام علیکم
آپ کا شکریہ کہ آپ نے تقریباً چار سال بعد اپنی خاموشی کو توڑا۔ آپ نے تقریباً چار سال قبل مجھے ٹیلی فون پر یہ کہا تھا کہ سود کے سوال کو چھوڑ دو اور کوئی سوال کرو۔ اس وقت بھی آپ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور آپ کے موجودہ جواب میں بھی کوئی جواب نہیں ہے۔
میں نے اعتراض کیا تھا کہ صحیح مسلم کی دو حدیثوں میں تضاد ہے۔ آپ نے اس تضاد کو دور کرنے کے لیے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔میں نے کہا تھا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں کجھور کے نقد النقد سودے کو ’’عین سود‘‘ قرار دیا گیا۔اور اسی صحیح مسلم کی دوسری حدیث میں کہا گیا ہے کہ نقدالنقد سودے میں کوئی ربا نہیں ہے۔یہ تضاد کوئی ظاہری تضاد نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقی تضاد ہے۔
میر ا چیلنج ہے کہ آپ پاکستان یا دُنیا کی کسی بھی سپریم کورٹ میں یہ ثابت کردیں کہ یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ تو میں ایک کروڑ روپے نقد انعام دوں گا۔انعام میں شک ہے تومیں بینک گارنٹی ایڈوانس میں فراہم کروں گا۔
دُنیا کی عدالت سے فرار ہے تو پھر اللہ کی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کرو۔آپ نے کچھ عرصے قبل اپنے تحریر میں لکھا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان مباہلہ ہوسکتا ہے۔ آئیے میں آپ کو مباہلہ کی آفر کرتا ہوں ۔ آؤ کھلے میدان میں اگر تم سچے ہو۔
اگر آپ کو یہ تضاد ٹیری جونس یاکوئی کرسچن بتائے کہ اس تضاد کو دور کرو۔تو کیاآپ اس کو یہ جواب دیں گے کہ عمر رضی اللہ عنہ کا احترام کرو اور اس تضاد کو نظر انداز کرو۔
یہ کرسچن توحضرت محمد ﷺ کے بھی کارٹون بناتے ہیں ۔ یہ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کیا احترام کریں گے؟؟؟؟؟؟لہٰذا احترام کے بجائے دلیل سے ثابت کریں کہ یہ تضادآپ کیسے رد کریں گے۔
اگر میں بائبل میں کوئی نقص نکالوں اور پادری حضرات جواب میں یہ کہیں کہ یہ تو سینٹ پاؤل کا فرمان ہے تو کیا میں مطمئن ہو جاؤں گا۔ ہرگز نہیں !!! میں پادری
سے دلیل کا مطالبہ کروں گا۔ سینٹ پاؤل کے فرمان کہنے سے کیا آپ مطمئن ہو جائیں گے؟؟؟؟
آپ تو دفاعِ حدیث کی تحریک چلاتے ہیں لیکن دفاعِ حدیث بغیر دلیل کے ممکن نہیں ہے۔ صرف احترام سے کام نہیں چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے لوگوں میں یہ بات پھیلائی تھی کہ دل میں جو بھی سوال اُبھرے آپ اس سوال کا جواب دیں گے۔اب میرے دل سے جو تضاد والا سوال اُبھرا ہے اس کا بھی جواب دیں۔
دل کو مطمئن کریں دل لگی نہ کریں۔اپنے دل کی ضمیر کی عدالت کو قبول کریں ۔اگر ضد یا انا سے چھٹکارہ ممکن نہیں تو انسانوں کی اعلیٰ عدالت سے ر جوع کریں یا پھرسب سے اعلیٰ عدالت اللہ کی عدالت یعنی مباہلہ کو قبول کریں۔
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
اُستادِ محترم جناب علامہ الیاس ستّار کا جواب بنام جناب محمدحسین میمن صاحب کو


محترم جناب محمّد حسین میمن صاحب،

السّلام علیکم،

بائبل میں یہودہ اسکراتی کی دو الگ الگ طریقے سے مرنے کا ذکر ہے۔ ایک پھانسی کے ذریعے اور دوسری پیٹ پھٹنے کے ذریعے۔ جس سے بائبل کا تضاد نمایاں طور پر ہر خاص و عام کو نظر آجاتا ہے۔ اگر میں کسی پادری سے پوچھوں کہ اس تضاد کا کیا جواب ہے اور وہ کہے کہ بائبل اللہ کا کلام ہے اور اسی جواب کو مدلل جواب سمجھے۔ تو آپ بھی اس پادری کے بارے میں یہی سوچ رکھیں گے جو سوچ آپ کے بارے ميں رکھتا ہوں۔

جس طرح یہودہ کی دو اموات والی تضاد دور نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح صحیح مسلم میں موجود دو احادیث میں بھی کھلا تضاد دور نہیں ہوسکتا۔

پادری جان چھڑانے کی کوشش کریے گا یہ کہہ کر کہ بائبل اللہ کا کلام ہے اور اسی طرح آپ بھی حدیث کو اللہ کا کلام کہہ کر اپنی جان نہيں چھڑا سکیں گے۔

ان شاء اللہ آپ بھی پادری سے کم شرمندہ نہیں ہوں گے۔

کورنگی میں آپ نے جو دفاع حدیث کورس کیا تھا اس میں آپ نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ حدیث شریف کا نزول حضرت جبرائل [ع] کے ذریعے اس طرح ہوا جس طرح قران شریف کا نزول ہوا۔ اور اللہ نے جس طرح قرآن کی حفاظت کی اس طرح حدیث شریف کی بھی حفاظت کی۔ تو پھر حدیث میں اتنا بڑا اور کھلا تضاد کیوں موجود ہے۔جس کے رد ميں ابھی تک آپ نے کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی۔

آپ نے پیسوں کا تو انکار کیا ہے۔ لیکن مباہلے کی تو کوئی تاریخ دے دیں۔

آپ کے ساتھی "سلمان " نے کہا ہے کہ الیاس ستار کا دماغ خراب ہے۔ آئے مباہلے کے ذریعے اللہ سے فیصلہ کرالیں کہ سلمان اور محمد حسین کا دماغ خراب ہے یا الیاس ستار کا۔ یعنی کس کا موقف اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔

نوٹ: میں نے جان بوجھ کر آج انعام کی رقم کی کوئی آفر نہیں کی۔ تاکہ اس کے جواب ميں آپ صرف پیسوں کا ذکر کر کے باقی باتوں سے جان نہ چھڑائیں۔
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
BHOT HI ACHA JAWAB DI DOST APNAY APNAY SHAYAD UNKA DIA GAY DALAEEL PARHAY NAHI WO QURAN OR SAHI HADEES SA DIA GAYA THAY...MAGAR APKA JAWAB DAIKHA KA MALOOM HOWA KA ILYYAS SATTAR SAHAB QURAN OR SAHI HADEES KO DALLEEL NAHI MANTAY BALKAY BIBLE KO DALLEEL MANTY HAI JABHI UNHO NA EXAMPLE BHI BILBLE KI DI...CHALO MAI APKA DIL KUSH KARNA KA LIA QURAN E PAK SA HI DALAEEL DAI DAITA HO...ALLAH PAK SAHAYAD APKO HIYADYAT SA NAWAZDAY
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
یہ ہے الیاس ستار کے جواب کا جواب

افسوس صدافسوس
الیاس ستار صاحب جواب دینے سے قاصر رہے۔
علمی دلیل کا رد علمی دلیل سے کرنے کے بجائے سپریم کوٹ اور پیسو کی لالچ تک دینے پر اتر آئے ۔
الیاس ستار صاحب کے دل کو ٹھندا کرنے کے لئے محمد حسین میمن صاحب نے پہلے بھی علمی اور شرعی دلائیل دئے تھے مگر آپ نے شاید پڑھنے کی زحمت تک نہیں کی،مگر میں پھر بھی یہاں وضاحت کر دیتا ہو۔
MUTARIZ KAY ATIRAZAT OR UNKAY JAWABAT | Facebook
صفہ نمبر:3سے13حدیث میں تتبیک اور منسلک باقی حدیثوں سے وضا حت
صفحہ نمبر:13 سے 16 کھلا چیلنج "امیرمعاویہ کے قول کو حدیث ثابت کریں"
صفحہ نمبر:17 سے 25 قرآن اور حدیث سے مثالیں دے کر وضاحت
صفحہ نمبر: 26 سے 29 قرآن پاک میں ہمارے مکف کی نس
صفحہ نمبر:29سے30 غور طلب آخری کلمہ خاص آپکے لیے
تکہ آپ کو ڈھونڈنے اور پڑھنے میں زحمت نہ کرنا پڑے۔

اگر کوئی یہ کہے کہ میرا کوا سفید ہے توکوئی اس کے کوے کوکالا نہیں کر سکتا۔ محمد حسین میمن صاحب کا کام حق بات پہنچا دینا ہے منوانا نہیں۔ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔۔
ایک بار حجت پوری ہوجائے تو انشأللہ ہم مباھلہ بھی کریں گے ...مگر اس سے پہلے دلیل کا جواب دلیل سے دیں ...
ابھی نہ تو ہم کسی کرسچن پادری سے بات کر رہے ہیں اور نہ ہی سینٹ پاؤل سے،جب یہ لوگ اعطراض کریں گے تو ان کو ان کے حساب سے جواب دے دیا جائے گا،آج تک کسی پادری نے ان احادیث اعطراض نہیں کیا کیوں کہ ان کی نگاہ میں بھی یہ تعارض نہیں ہے اگر ہوتا تو وہ اس کو ذکر ضرور کرتا۔
یہ روپیہ پیسہ آپ کے لیئے آہمیت رکھتے ہونگے مگر اہل علم کے لیئے نہیں ...
دنیاوی و لفاظی باتوں کو چھوڑیں اور جواب دیں...آپکے جواب کا انتظار رہے گا ...
اور امید کرتا ہوں کے آپ اس بار سپریم کوٹ اور روپیہ پیسہ کی باتیں چھوڑ کے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کی دلیل سے جواب دیں گے اور جو چلینج محمد حسین میمن صاحب نے آپ کو دیا ہے اس کو قبول کریں ..
جواب دیں ...جواب دیں...جواب دیں......
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
اور یہ آپ کی بائیبل کی دلیل کے رد میں قرآن سے مثالیں۔۔۔۔
قارئنک کرام کئی صحابہ ایسے ہں جن تک احادیث نہ پہنچںک بظاہر ان کا فتوی حدیث کے مطابق نہ ہوتا مگر جوں ہی حدیث کے علم کا انہں ادراک ہوتا وہ فوراً بغراکسی چوں چراکے اپنے موقف سے رجوع کرتے ۔ ایک قائدہ یہاں ذکر کرتا چلوں کہ اگر کوئی صحابی یہ کہے کہ مںر نے رسول اللہ ﷺ سے فلاں حدیث نہںع سنی اور اسی مسئلہ مںہ دوسرے صحابی یہ کہںس کہ مںو نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث سنی ہے تو بات اس صحابی کی مانی جائے گی جو یہ کہتا ہے کہ مںی نے سنی ہے کوثنکہ جس صحابی نے انکار کاس تو وہ ایک عذر ہے کوگنکہ انہوں نے نبی ﷺ سے نہںر سنا ۔لہٰذا امرے معاویہ  نے وہ حدیث نہیں سنی جس کا علم عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا مگر عبادہ بن صامت نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو سنا تو بات اب ان کی قبول کی جائے گی کوینکہ علم ان کے پاس ہے ۔ اور صحابہ نبی کریم ﷺ کے پاس چوبسن گھنٹے ساتھ نہںر ہوا کرتے تھے۔ یہ بات تو واضح ہے امر معاویہ  بھی ہر وقت نبی کریمﷺ کے ساتھ نہںے ہوتے تھے کو نکہ صحابہ کرام  کے ساتھ معاش اور گھریلو مصروفاست بھی ہوا کرتی تھں یی وجہ ہے کہ ہر حدیث ہر صحابی تک نہںک پہنچتی ۔ مریے خارل سے معترض چاشت کی نماز کے تو قائل ہونگے ؟ اگر ان کو اس مںہ کوئی تعارض نظر نہ آیا ہوگا تو ۔۔۔۔مگر امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہںں کہ :
’’ما صلی رسول اللہ ﷺ الضحٰی قط فی حضر ولا سفر‘‘
(صحیح البخاری، ج۱، ص۱۹۷)
’’میں رسول اللہ ﷺ کو صلاة الضحٰی (چاشت) کی نماز کبھی بھی پڑھتے نہیں دیکھا۔‘‘
اب اگر معترض کو یہ کہا جائے کہ آپ چاشت کی نماز کے اگر قائل ہںھ تو امی عائشہ  نے تو کبھی بھی نبی کریم ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے نہں دیکھا لہٰذا چاشت کی نماز درست نہںک اور مںر مباہلہ کا اعلان کرتا ہوں وغریہ وغرلہ تو کای یہ بات درست ہوگی؟؟
ہر گز نہںی کویں کہ دانائی حکمت کی ییں سب سے بڑی دللہ اور تقاضا ہے کہ شریعی دلائل پر غور کان جائے کو نکہ عدم ذکر سے عدم شئی لازم نہںہ آتا۔
بالکل اسی طرح سے امی عائشہ  کے علم نہ ہونے کی وجہ سے چاشت کی نماز کا نہ ہونا ثابت نہ ہوگا کوونکہ جو انہوں نے دیکھا انہوں نے باعن کردیا اور جو دوسرے صحابہ نے دیکھا تو انہوں نے بارن کردیا ۔ام ھانی نے چاشت کی نماز کا ذکر فرمایا۔ کیونکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو پڑھتے دیکھا۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ام ھانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور پھر آٹھ رکعت (چاشت) کی نماز پڑھی۔ (صحیح بخاری، کتاب التھجد، رقم:۱۱۷۶)
لہٰذا ام ھانی نے نبی کریم ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا سو انہوں نے اس حدیث کو آگے پہنچا دیا۔
اب ہم یہاں مزید وضاحت کلئےا چند مثالںے پشم کرتے ہںہ جو کہ اس بات کی دللی ہے کہ کئی احادیث کئی صحابہ کے علم مں موجود نہ تھںی ان کے علم نہ ہونے کی وجہ سے حدیث کی حت ک پر کوئی فرق نہںن پڑا۔مثلا:
 فاروق اعظم  اور عمار  کا تییم کے بارے مںل واقعہ معروف ہے ۔ حضرت عمر  سے کسی نے پوچھا ۔ اگر مںو جنبی ہوجاؤں اور پانی نہ پاؤں تو کافکروں ؟ انہوں نے فرمایا ایی صورت مںو نماز نہ پڑھو۔ حضرت عمار نے فرمایا امرح المومن ۔ کاں آپ کو یاد نہںا مںا اور آپ سفر مںا تھے ہمںی غسل کی ضرورت پڑی پانی تھا ، آپ نے نماز نہ پڑھی اور مں زمن پر لوٹ پوٹ ہوگاو۔ پھر نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت مں حاضرہوئے تو یہ سارا ماجرہ کہہ دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے ییا کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمن پر مارتا پھر ان پر پھونک مارکر اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لتا ۔ عمر  نے فرمایا مجھے مزید یاد نہںک ۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم کتاب التییم رقم ۳۳۸)
 سدونا ابو بکر الصدیق  پر دادی کی مر اث والی حدیث نہں پہنچی یہاں تک کہ انہںر مغرمہ بن شعبہ نے یہ حدیث سنائی ۔ (موطأ امام مالک ۵۱۳/۲)
 عمر  کو انگلیوں کی دیت کی حدیث معلوم نہ تھی یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد انہں ال عمروبن حزم کی کتاب سے دللپ ملی کہ نبی ﷺ نے فرمایا تمام انگلیاں دیت کے اعتبار سے یکساں ہںک ۔ (سنن البیھقی ج۸ص۹۳)
 عمر کے پاس یہ حدیث موجود نہ تھی کہ کسی کے گھر جاؤ تو تن مرتبہ اجازت چاہو حتی کہ انکو ابو موسی نے اس حدیث کی خبر دی۔ (صحیح بخاری رقم ۷۳۵۳)
 طلاق ثلاثۃ کے بعد عورت کا اپنے خاوند جس سے طلاق ہوئی اس کے گھر مںب نہ اس کی عدت ہے اور نہ ہی اس کے خاوند پر عورت کا نفقہ اور سکنی ہے یہ حدیث عمر کو معلوم نہ تھی فاطمہ بنت قسا  نے انہیں خبر دی ۔ (صحیح مسلم رقم ۱۵۵۰)
ایسے انگنت مسائل موجود ہں جن کا علم صحابہ کو نہ تھا مگر نبی کریم ﷺ کے دور مبارک مںس یا آپ کے بعد صحابہ کو دوسرے صحابی کے ذریے احادیث کا ادراک ہوا بعنب ییا بات امرن معاویہ  پر صادر آتی ہے کہ آپ کو اس حدیث کا علم نہ تھا جس کا علم عبادۃ بن صامت  کو تھا یہ قاعدہ اہل اصولنص کے نزدیک متفقہ ہے کہ اگر ایک صحابی کسی مسئلہ مںک انکار کرتا ہے اور دوسرا صحابی اقرار کرتا ہے تو بات ان صحابی کی مانی جائے گی جو اثبات مںب باکن کرتے ہںب کوکنکہ جو صحابی انکار کررہے ہںن انہں اس حدیث کا علم نہ ہوسکا اور جن صحابی کو اس کا علم ہوگا تو انہوں نے اسے با ن کردیا۔ 
امرا معاویہ  ان جلیل وقدر صحابہ مںے شمار ہوتے تھے جو رسول اللہ ﷺ سے بہت قریب اور آپ کے جانشن تھے معاویہ  کے بارے میں یہ بات یاد رکھں کہ اگر وہ کوئی حدیث بارن کرتے تو وہ نبی کریم ﷺ سے سنی ہوتی تو وہ لازماً اس کا حوالہ نبی کریم ﷺ سے بالن کرتے اور اگر ان کی رائے ہوتی تو معاویہ  خاموشی اختاہر کرتے جسا کہ عبادہ بن صامت  کے سامنے خاموشی اختاکر کی کو نکہ وہاں آپ کی رائے تھی اور جہاں آپ کی رائے نہ ہوتی تو وہاں واضح کردیتے کہ مںا نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے مثلا:
امری معاویہ  نے جب کچھ لوگوں کو عصر کی نماز کے بعد دو رکعتںس پڑھتے دیکھا تو آپ  نے فوراً انکا ردّ کیا اورفرمایا:
’’ہم نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختاےر کی ہے اور ہم نے یہ نماز پڑھتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو نہںے دیکھا بلکہ عصر کے بعد آپ ﷺ نے ان دو رکعتوں کو پڑھنے سے روکا ہے ۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب رقم ۳۷۶۶)
اب ذرا غور کجئے معاویہ  کے ان الفاظ پر جو آپ کی رائے تھی اور وہ جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی ۔
معاویہ  کی رائے کے الفاظ:
’’ہم نے نبی ﷺ کی صحبت پائی اور ہم نے یہ حدیث نبی ﷺ سے نہںل سنی۔‘‘
عبادہ بن صامت  نے معاویہ  کو فرمایاتھاکہ آپ اپنی رائے مجھے بتاتے ہںی اور مںی حدیث۔۔۔۔۔
وہ الفاظ جو معاویہ  نے بالمشافہ نبی ﷺ سے سنے ہم نے نبی ﷺ کی صحبت پائی اور آپ ﷺ نے ان دو رکعتوں کو پڑھنے سے منع کاا۔
غور کجئے جس طرح عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے مںک معاویہ  نے ممانعت کی حدیث کا ذکر فرمایا اگر عبادۃ بن صامت کے مقابلے مں ان کے پاس حدیث ہوتی تو وہ باحن کرتے کہ مںن نے نبی کریم ﷺ کو منع کرتے ہوئے سنا۔۔۔۔جو اس بات کی واضح دلل ہے کہ امرں معاویہ  کا موقف رائے پر مبنی تھا اور سدپنا عبادۃ  کا موقف قوی اور حدیث پر مبنی تھا اسی لئے عمر نے عبادۃ بن صامت  کے موقف کو نافذ کروایا اور اسے شریعت قراردیا۔ معاویہ  کا کہنا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فعل کرتے ہوئے نہںر دیکھا تو قاعدہ یاد رکھنا چاہئیے کہ کئی احادیث کین صحابہ تک نہں پہنچتںح اس کی ایک طویل فہرست موجود ہے یہاں استعاوب مقصود نہں پچھلے اوراق مںت مں نے چند نظائر قارئنو کی خدمت مںر گوش گوار کئے ہںک۔
الحمد للہ ہم نے دلائل اور براہنق سے ثابت کردیا کہ صححہ مسلم کی جن تنس احادیث صحیحہ کے بارے مںں معترض نے اعتراضات کئے اور زبردستی ان احادیث کو معارض ہونا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہم ان احادیث مںد تطبقک اصولوں اور ضوابط کی روشنی مںں پشد کردیتے ہںک ۔
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
jisko ap afsana keh rahay thay elyasi sahab eik bar agar parhlaitay to shayad faida hojata magar apnay parhnay tak ki zehmat nahi ki...or kindly ab ustad e mohtarak sa kahiya ga ka daleel ka jawab dallel sa dain.....or daleel QURAN OR SAHI HDEES KI HONA CHAIYA BIBLE KI NAHI...

ummeed karta ho KA ILLAYS SUTTAR SAHAB AB DALEEL PAISH KARAY GAY..LAFAZI NAHI...
 
Top