• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فاتح مباھلہ الیاس ستار کی حقیقت!

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اُستادِ محترم جناب علامہ الیاس ستّار کا جواب بنام جناب محمدحسین میمن صاحب کو


محترم جناب محمّد حسین میمن صاحب،

السّلام علیکم،

بائبل میں یہودہ اسکراتی کی دو الگ الگ طریقے سے مرنے کا ذکر ہے۔ ایک پھانسی کے ذریعے اور دوسری پیٹ پھٹنے کے ذریعے۔ جس سے بائبل کا تضاد نمایاں طور پر ہر خاص و عام کو نظر آجاتا ہے۔ اگر میں کسی پادری سے پوچھوں کہ اس تضاد کا کیا جواب ہے اور وہ کہے کہ بائبل اللہ کا کلام ہے اور اسی جواب کو مدلل جواب سمجھے۔ تو آپ بھی اس پادری کے بارے میں یہی سوچ رکھیں گے جو سوچ آپ کے بارے ميں رکھتا ہوں۔

جس طرح یہودہ کی دو اموات والی تضاد دور نہیں ہو سکتا ۔اسی طرح صحیح مسلم میں موجود دو احادیث میں بھی کھلا تضاد دور نہیں ہوسکتا۔

پادری جان چھڑانے کی کوشش کریے گا یہ کہہ کر کہ بائبل اللہ کا کلام ہے اور اسی طرح آپ بھی حدیث کو اللہ کا کلام کہہ کر اپنی جان نہيں چھڑا سکیں گے۔

ان شاء اللہ آپ بھی پادری سے کم شرمندہ نہیں ہوں گے۔

کورنگی میں آپ نے جو دفاع حدیث کورس کیا تھا اس میں آپ نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ حدیث شریف کا نزول حضرت جبرائل [ع] کے ذریعے اس طرح ہوا جس طرح قران شریف کا نزول ہوا۔ اور اللہ نے جس طرح قرآن کی حفاظت کی اس طرح حدیث شریف کی بھی حفاظت کی۔ تو پھر حدیث میں اتنا بڑا اور کھلا تضاد کیوں موجود ہے۔جس کے رد ميں ابھی تک آپ نے کوئی ٹھوس دلیل پیش نہیں کی۔

آپ نے پیسوں کا تو انکار کیا ہے۔ لیکن مباہلے کی تو کوئی تاریخ دے دیں۔

آپ کے ساتھی "سلمان " نے کہا ہے کہ الیاس ستار کا دماغ خراب ہے۔ آئے مباہلے کے ذریعے اللہ سے فیصلہ کرالیں کہ سلمان اور محمد حسین کا دماغ خراب ہے یا الیاس ستار کا۔ یعنی کس کا موقف اللہ کے نزدیک صحیح ہے۔

نوٹ: میں نے جان بوجھ کر آج انعام کی رقم کی کوئی آفر نہیں کی۔ تاکہ اس کے جواب ميں آپ صرف پیسوں کا ذکر کر کے باقی باتوں سے جان نہ چھڑائیں۔
گویا الیاس ستار صاحب احادیث مبارکہ کو اللہ کی وحی نہیں مانتے؟؟؟

الیاسی اور مفتی عبداللہ صاحبان! کیا آپ حضرات بھی اس بارے میں اپنے استاد کے ساتھ متفق ہیں؟؟؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
بھت زیادہ دکھ ہوا آپ کا یہ سوال دیکھ کر خدا کی بندوں کیوں ھمیں جبرا کافر بنادیتے ہو کیوں لوگوں کو دین کی قریب لانے میں رکاوٹ بنتے ہوالٹا سوال ناکرو جھاں تک حدیث ماننے کی بات ہے تو اس میں میرے استادمحترم جناب الیاس ستار صاحب حفظہ اللہ تعالی کی رای یہ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اس کا زیر زبر بھی کویی نامانے تو وہ کافر ہےبلکہ ان کی سامنے تو اونچے آواز سے
بات کرنا بھی ممنوع تھا لیکن اپنے طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بھی کفر ہے
بھت افسوس سے کہنا پڑتا ہےکہ چنداحادیث قرآن کی بھی متضاد ہےمثلا قرآن شریف کہتا کہ دودھ پلانے کا پیرڈ دوسال
ہے حولین کاملین لیکن مسلم شریف میں ہے کہ ایک ڈاڑھی والے نے بھی ایک عورت سے دودھ پیا حدیث نمبر ۳۴۲۸ تو
ناصرف میں بلکہ یہ حدیث میں جس کو بھی سناتا ھو تو توبہ کرتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ عرض الحدیث علی کتاب اللہ کو
مانا جاے اسی طرح معارف القرآن کی سورہ نساء کی آیت نمبر چار میں بقول مفتی شفیع صاحب ایک قراءت میںمن امہ بھی
موجود ہے سعد بن ابی قاص رضی اللہ تعالی عنہ کا قرات ہے لیکن آج کسی بھی قرآن مجید میں یہ لفظ نھی ہے اگر اس بات کو صحیح تسلیم کریں تو یہ بھی نتیجہ اخذ کرنا ھوگاکہ قرآن مجید بھی محفوظ نھی ہےاب آپ اور مفتی شفیع صاحب ھر بات کو صحیح مانو میرا نام اس فھرست میں شامل نھی ھوگا
اس لیے ھر بات کولاریب کتاب قرآن مجید پر پرکھنا چاھیے کہ کہیں اس کی خلاف تو نھی ہے؟
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
یعنی جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی فرمان ہے اور رسول اللہ سے ثابت ہے اور ٖقرآن کی خلاف بھی ہے اس کو میں بسر وچشم مانتا ہو جناب من
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
گویا الیاس ستار صاحب احادیث مبارکہ کو اللہ کی وحی نہیں مانتے؟؟؟

الیاسی اور مفتی عبداللہ صاحبان! کیا آپ حضرات بھی اس بارے میں اپنے استاد کے ساتھ متفق ہیں؟؟؟
جناب انس نظر صاحب پہلے لکھ چکاھوں کہ جناب الیاس ستار صاحب سے بھت سارے باتوں میں قوی اختلاف رکھتا ہو اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے میں نے بھت کوشش کی لیکن مجھ سے کویی جواب نھی بن سکا علماء کرام سے بھی پوچھا مفتیان سے بھی پوچھا لیکن جواب نھی مل سکا اس لیے تو میمن صاحب کو للکارا تھا اور آپ کو بھی کہتا ھوں کہ اگر غیرت ہے تو میرے استاد محترم کو جواب دیدو میں ان کی ساتھ اختلاف تو ضرور کرتاہو لیکن جواب نھی دے سکتا اس سوال کا آپ لوگ مجھ سے بڑے علماء ہے جواب دیدو ھم بھی آپ کی شاگرد بنینگے اگر آپ کی جواب میں وزن ھوا تو
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
ا
انس نظر صاحب کے غلط فھمی کا ازالہ

جناب انس نظر صاحب آپ نے مجھ کو غالبا منکر حدیث یا مستخف حدیث یا دور جدید کا فتنہ سمجھا ایسانھی ہے میں دورجدید کی تین شخصیات سے بھت متاثر ہو بہت زیادہ نمبرون تو میں استاذہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی صاحبہ سے دور جدید کی علماء وعالمات میں بھت زیادہ متاثر ھو مجھے نھی پتہ اگر ان کا عمر میرے ماں کی برابر ہے تو اس کو ماں کہونگا اور اگر ان کاعمر میری بڑے بھن کی برابر ہے تو ان کو بڑی بھن کھونگا میں طالب العلمی کی زمانے سے ان کا دروس سنتا ہوں اور ان کی کتابیں پڑھتاھوں ان کیساتھ کسی مسئلےمیں میرا کویی اختلاف نھی دوسرا شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ سے اور تیسرا استاد محترم جناب الیاس ستار صاحب سےجوکہ اس دور کی متقی ترین اورپاکیزہ ترین شخصیات میں سے ہیں جن کی زندگی دین اسلام کی تبلیغ میں گذری یہ تینوں مجتھد ہے اس دور کی ان اصابوا فلھم اجران وان اخطئو فلھم اجر واحد مجھے بھی جناب الیاس ستار صاحب کایہ سوال بھت عرصہ بعد سمجھ آیا اس دور کی علمائکرام مفتیان کرام وشیوخ الحدیث سے پوچھ پوچھ کر تھک گیا جواب نھی ملا میں اب بھی اس مسئلے میں جناب الیاس ستار صاحب سے متفق نھی اور اس پر کویی بحث بھی نھی کرسکتا کیونکہ معیشت میرا موضوع نھی میں ان دونوں احادیث مبارکہ کو صحیح سمجتھا ھوں کیونکہ بخاری کی طرح مسلم بھی اصح الکتب ہےلیکن ان دونوں احادیث کا اصل مقصد نھی سمجتھا اس لیے میں توقف کرتاہو
واللہ اعلم باالصواب البتہ استاد محترم نےتوعلماء سے گذارش کی تھی تو ان کی پرانے دوست اور یار جناب میمن صاحب غصے میں آگیے اور گالی گلوچ شروع کردیا توھین آمیز کلمات کھے اور پھر جواب الجواب شورع اب میمن صاحب کافرض ہے کہ مدلل جواب دین یا مباھلہ کریں اور آپ سے بھی گزارش ہے کہ پہلی ان دونوں کی سابقہ
دوستی وجہ اختلاف اور ذاتی اختلاف دیکھ کر فیصلہ کرو کھیں یہ جناب الیاس ستار صاحب کے اصل کام کافروں کو مسلمان بنانے مین رکاوٹ ڈالنے کی سازش تو نھی ؟؟؟؟
کھیں یہ دو دوستوں کی گھر کی لڑایی تو نھی ضد اور اختلاف مین جاکر دونوں طرف سے عجیب الزامات سامنے آینگے ؟؟؟؟؟جیسا کہ جگھڑوں میں ھوتے ھیں ؟؟؟؟؟؟ آپ کو ان دونوں کی ذاتی زندگی کا پتہ ہے؟؟؟؟؟ عشق کی سمندر میں قدم خیال سے رکھنا بھای جان اخلاق حسنہ پر بھی بخاری مسلم میں بھت احادیث ہے برادر عزیز اللہ تعالی ھمسب کوحق سمجھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرماے آمین
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
ا
فسوس صدافسوس
الیاس ستار صاحب جواب دینے سے قاصر رہے۔
علمی دلیل کا رد علمی دلیل سے کرنے کے بجائے سپریم کوٹ اور پیسو کی لالچ تک دینے پر اتر آئے ۔
استغفر اللہ سفید جھوٹ استغفر اللہ لالچ کویی اور چیزہے انھوں نے آپ کو کھا تھا کہ اگر آپ نے جواب دیا تو انعام دونگا بھای جان اس کو لالچ نھی کہا جاتا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھت زیادہ دکھ ہوا آپ کا یہ سوال دیکھ کر خدا کی بندوں کیوں ھمیں جبرا کافر بنادیتے ہو کیوں لوگوں کو دین کی قریب لانے میں رکاوٹ بنتے ہوالٹا سوال ناکرو
مجھے افسوس ہے کہ آپ کو دکھ ہوا، لیکن یہ معلوم نہیں کہ کیوں ہوا؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کے دکھ ختم کردیں!

میں نے آپ کے ’استادِ محترم‘ کا ایک اقتباس اوپر نقل کیا تھا، جس میں انہوں نے احادیث مبارکہ کو بائبل کے ساتھ ملاتے ہوئے احادیث مبارکہ کے ’مبینہ‘ (ظاہری) تعارض (جس کو وہ سمجھ نہیں سکے) کو بائبل کے تضادات کے ساتھ تشبیہ دی تھی اور بڑی صراحت سے احادیث مبارکہ کے وحئ الٰہی ہونے سے انکار کیا تھا۔ اس پر میں نے تبصرہ لکھا کہ
گویا الیاس ستار صاحب احادیث مبارکہ کو اللہ کی وحی نہیں مانتے۔
پھر آپ دونوں حضرات، جو ان کے شاگرد ہونے کے دعوے دار ہیں، سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کی بھی یہی رائے ہے؟؟؟

نہ جانے آپ کو اس سے بہت زیادہ دکھ کیوں ہوا؟؟؟

آپ کے ’استادِ محترم‘ نے احادیث مبارکہ پر حملہ کیا تو آپ کو کوئی دُکھ نہیں ہوا لیکن میرے اس سوال سے دُکھ ہوا کہ کیا آپ دونوں حضرات اپنے استاد سے متفق ہیں؟

دین پر حملہ برداشت ہے اور ذات پر حملہ کیا ہی نہیں لیکن وہ بھی ناقابل برداشت! کیا اسی کو غیرتِ دینی کہتے ہیں؟

غصہ کرنا شریعت کی نظر میں

آپ نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا کہ میں نے آپ کو جبراً کافر بنایا ہے؟؟؟ کیا آپ اپنے اس دعوے کو ثابت کرسکتے ہیں کہ میں نے آپ کو کافر قرار دیا ہو؟؟؟ آپ کو اس کی معذرت کرنا ہوگی۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ۔۔۔ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ١١ ﴾ ۔۔۔ سورة الحجرات
اور آپس میں ایک دوسرے پر الزام نہ لگاؤ ۔۔۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں (11)
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جھاں تک حدیث ماننے کی بات ہے تو اس میں میرے استادمحترم جناب الیاس ستار صاحب حفظہ اللہ تعالی کی رای یہ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اس کا زیر زبر بھی کویی نامانے تو وہ کافر ہے بلکہ ان کی سامنے تو اونچے آواز سے
بات کرنا بھی ممنوع تھا لیکن اپنے طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنا بھی کفر ہے
نبی کریم ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنے والا شخص جہنّمی ہوتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے پتہ لگے گا کہ فلاں حدیث مبارکہ صحیح ہے یا کسی نے نبی کریمﷺ پر ایک جھوٹی بات منسوب کردی ہے؟؟؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ سند سے پتہ لگے گا۔

کسی حدیث مبارکہ کی سند صحیح ہے، یعنی سند میں کوئی انقطاع نہیں، تمام راوی ثقہ (بمعنیٰ عادل وضابط ہیں) اور کوئی شذوذ اور مخفی علت بھی نہیں

تو وہ حدیث مبارکہ صحیح ہے۔ اس کی نسبت نبی کریمﷺ تک بالکل صحیح ہے۔

اگر وہ ہمیں خود سمجھ آجائے تو بہت اچھی بات ہے، ورنہ اپنے سے زیادہ علم والے سے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور محدثین کرام کی تشریحات پر غور کرنا چاہئے۔

اب درج بالا صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ صحیح الاسناد ہیں کیونکہ وہ صحیح مسلم میں ہیں لہٰذا ان کی نسبت نبی کریمﷺ تک بالکل صحیح ہے اور وہ نبی کریمﷺ کا مبارک فرمان ہیں۔

اگر کسی حدیث پر سند کی رو اعتراض کیا جائے تو سمجھ آتی ہے، لیکن اگر اس کی بجائے متن پر اعتراض کر دیا جائے تو دراصل یہ اعتراض نبی کریم ﷺ پر ہوتا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ الیاس ستار صاحب کو دو احادیث مبارکہ کی سمجھ نہ آئی تو انہوں نے ان پر اعتراض کر دیا۔ انہیں بائبل کے ساتھ ملانے لگے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اپنی سمجھ کا علاج کراتے، ان احادیث مبارکہ کے متعلق کتب احادیث میں وضاحت سے ان کی تشریح موجود ہے، انہیں پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے، لیکن افسوس!!

ویسے، بقول آپ کے، وہفرماتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا اس کا زیر زبر بھی کوئی نہ مانے تو وہ کافر ہے۔
گویا الیاس ستار صاحب کے نزدیک جو کسی حدیث کی زیر زبر نہ مانے تو وہ تو کافر ہے۔

لیکن جس نے حدیث کا ردّ کرنا ہو تو آنکھیں بند کرکے اسے حدیث ماننے سے ہی انکار کر دے تو یہ ٹھیک ہے، خواہ وہ سندا بالکل صحیح روایت ہو، بخاری ومسلم کی روایت ہو، اس سے نہ اسلام بگڑے گا نہ ایمان میں خلل آئے گا۔

کتنا آسان طریقہ ہے حدیث کو رد کرنے کا!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھت افسوس سے کہنا پڑتا ہےکہ چنداحادیث قرآن کی بھی متضاد ہےمثلا قرآن شریف کہتا کہ دودھ پلانے کا پیرڈ دوسال
ہے حولین کاملین لیکن مسلم شریف میں ہے کہ ایک ڈاڑھی والے نے بھی ایک عورت سے دودھ پیا حدیث نمبر ۳۴۲۸
گویا آپ کا موقف بھی اپنے استادِ محترم والا ہی ہے۔ آپ بھی احادیث مبارکہ کو اللہ کی وحی نہیں سمجھتے لہٰذا انہیں قرآن سے ٹکڑا کر رد کرتے جاتے ہیں۔
حالانکہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن پاک کے متضاد نہیں ہو سکتی۔
میرے بھائی! جو لوگ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کو اللہ کی کلام نہیں سمجھتے (مثلاً مستشرقین) تو وہ آیات قرآنیہ یا احادیث مبارکہ کا آپس تضاد دکھا کر انہیں ردّ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہی کام منکرین حدیث کا ہے، وہ احادیث کا قرآن سے تضاد دکھاتے ہیں، حالانکہ یہ تضاد ان کے فہم کا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر قرآن وحدیث دونوں اللہ کی طرف سے ہیں تو ان میں کبھی تضاد نہیں ہو سکتا ۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ‌ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرً‌ا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (82)

ثابت ہوا کہ جو چیز اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اس میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔

آپ نے فرمایا کہ سیدنا سالم﷜ نے بڑی عمر میں دودھ پیا اور صحیح مسلم کی یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے۔
حالانکہ یہ قرآن کے قطعاً مخالف نہیں، کیونکہ قرآن کریم میں دودھ پینے کے حوالے سے ایک اصول بیان ہوا ہے، اور یہ واقعہ ایک استثنائی واقعہ ہے، اور استثناء کا اصول سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر اصول یہ ہے کہ امت محمدیہ کا کوئی مسلمان بیک وقت چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرسکتا لیکن نبی کریمﷺ کی چار سے زیادہ شادیاں ایک استثنائی واقعہ ہے۔
اسی طرح اگر کوئی خاتون اپنے آپ کو کسی مرد کیلئے ہبہ کردے تو یہ جائز نہیں، لیکن اگر وہ اپنے آپ کو نبی کریمﷺ کیلئے ہبہ کردے تو یہ آپ ﷺ کی ایک استثنائی خاصیت ہے اور جائز ہے۔

اب آپ کے اصول کے مطابق ہی آپ سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا آپ مچھلی کھاتے ہیں؟ اگر کھاتے ہیں تو ذبح کرکے یا ویسے ہی مردہ مچھلی کھا جاتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم میں صراحت ہے کہ مردار حرام ہے۔ پھر آپ کے کیلئے مچھلی کھانا کیونکر جائز ہے؟؟؟

تو ناصرف میں بلکہ یہ حدیث میں جس کو بھی سناتا ھو تو توبہ کرتا ہے
احادیث مبارکہ کو سن کر، نبی کریمﷺ کے مبارک فرمان کو سن کر توبہ کرتے ہیں؟!! لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم! تو پھر وہ آپ جیسے ہی مسلمان ہوں گے؟!!

اس لیے ضروری ہے کہ عرض الحدیث علی کتاب اللہ کو مانا جاے
یہ اصول آپ نے کس آیت کریمہ سے اخذ کیا ہے؟؟؟

میرے بھائی! نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مخالفت کرنے کیلئے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ اس لئے آپ کو نبی بنایا تھا کہ آپ امت کو قرآن بھی پہنچائیں اور پھر اس قرآن کریم کی تشریح بھی امت کے سامنے واضح کریں! فرمانِ باری ہے: ﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُ‌ونَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل کہ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں (44)

الله تعالیٰ نے آپﷺ تک قرآن پہنچانے کی ذمہ داری بھی خود اٹھائی تھی اور پھر اس کی تشریح آپ تک وحی کرنے کی ذمہ داری بھی خود ہی لی تھی، لہٰذا قرآن کریم بھی وحی ہے، اس کی تشریح (احادیث مبارکہ) بھی اللہ کی طرف وحئ الٰہی ہے، فرمانِ باری ہے: ﴿ لَا تُحَرِّ‌كْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ١٦ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْ‌آنَهُ ١٧ فَإِذَا قَرَ‌أْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْ‌آنَهُ ١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة القيامة کہ (اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (16) اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے (17) ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں (18) پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے (19)

لہٰذا قرآن کریم اور احادیث میں آپس میں تعلق ٹکراؤ اور مخالفت کا نہیں بلکہ اجمال وبیان، اور تشریح وتبیین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرو اور جو قرآن سے مخالف ہو اسے ردّ کر دو، نہ ہی کبھی صحابہ کرام﷢ نے ایسا کیا کہ انہیں نبی کریمﷺ کے کسی کام کا حکم دیا ہو اور انہوں نے جواب میں یہ کہہ کر انکار کر دیا ہو کہ نہیں ہم نہیں مانتے، آپ کا یہ حکم قرآن کے مخالف ہے۔

بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ حکم دیا ہے:
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الحشر
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے (7)

نیز فرمایا:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَ‌سُولُهُ أَمْرً‌ا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَ‌ةُ مِنْ أَمْرِ‌هِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَ‌سُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ٣٦ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحزاب
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا (36)

اسی طرح معارف القرآن کی سورہ نساء کی آیت نمبر چار میں بقول مفتی شفیع صاحب ایک قراءت میں من امہ بھی موجود ہے سعد بن ابی قاص رضی اللہ تعالی عنہ کا قرات ہے لیکن آج کسی بھی قرآن مجید میں یہ لفظ نھی ہے اگر اس بات کو صحیح تسلیم کریں تو یہ بھی نتیجہ اخذ کرنا ھوگاکہ قرآن مجید بھی محفوظ نھی ہےاب آپ اور مفتی شفیع صاحب ھر بات کو صحیح مانو میرا نام اس فھرست میں شامل نھی ھوگا
آپ بات سمجھے ہی نہیں اور اعتراض شروع کر دیا۔ من أم والی قراءت قراءت متواترہ نہیں بلکہ شاذہ ہے، اسے کوئی بھی قرآن نہیں مانتا، نہ ہی اسے قرآن کی طرح نماز میں تلاوت کرنا جائز سمجھتا ہے۔
البتہ اس سے تفسیر قرآن میں مدد ملتی ہے۔

تفصیل کیلئے دیکھئے:
http://www.kitabosunnat.com/forum/علم-القراءات-224/مدارسِ-دینیہ-میں-تدریس-ِقراء-ات-کی-ضرورت-اوررشد-’قراء-ات-نمبر‘-3516/#post20349

اگر آپ اسے نہیں مانتے تب پھر درج ذیل آیات کریمہ کا (ظاہری) تعارض آپ کیسے دور کریں گے؟
﴿ وَإِن كَانَ رَ‌جُلٌ يُورَ‌ثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَ‌أَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ‌ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَ‌كَاءُ فِي الثُّلُثِ ۔۔۔ الآية ١٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اور جن کی میراث لی جاتی ہے وه مرد یا عورت کلالہ ہو (یعنی اس کا باپ اور اس کی اولاد نہ ہو۔) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اس سے زیاده ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہیں (12)
﴿ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُ‌ؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَ‌كَ ۚ وَهُوَ يَرِ‌ثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَ‌كَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّ‌جَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ‌ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ١٧٦ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے (176)

پہلی آیت کریمہ میں ایک بھائی یا ایک بہن کو چھٹے حصے کا وارث قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں ایک بہن کو تو آدھے حصے کا جبکہ ایک بھائی کو مکمل مال کا وارث قرار دیا گیا ہے۔

اسی طرح پہلی آیت کریمہ میں ایک سے زیادہ بہن بھائیوں کو ایک تہائی حصے میں برابر کا شریک قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں دو بہنوں کو کل ترکہ کا دو تہائی دیا گیا ہے۔ اور اگر وہ مخلوط ہوں (ملے جلے بہن بھائی ہوں) تو انہیں برابر نہیں بلکہ مرد کو عورت سے ڈبل کا وارث قرار دیا گیا ہے۔

پوری امت کا اجماع ہے کہ پہلی آیت کریمہ ماں شریک (اخیافی) بہن بھائیوں کے بارے میں جبکہ دوسری آیت کریمہ حقیقی اور باپ شریک (علاتی) بہن بھائیوں کے بارے میں ہے۔ اور اس کی بنیاد یہی قراءت شاذہ ہے۔

اس لیے ھر بات کولاریب کتاب قرآن مجید پر پرکھنا چاھیے کہ کہیں اس کی خلاف تو نھی ہے؟
لیکن یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ وہ حدیث واقعی ہی قرآن کے خلاف ہے؟ ممکن ہے وہ قرآن کے خلاف ہونے کی بجائے آپ کے ناقص قرآنی فہم کے خلاف ہو؟؟؟
کیا پھر بھی آپ حدیث کو ردّ کر دیں گے؟؟!!
یعنی دوسرے الفاظ میں نبی کریمﷺ کے مبارک فرمان کو اپنی ناقص عقل سے رد کر دیں گے؟؟؟!!!! پھر آپ مسلمان رہیں گے؟؟؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
یعنی جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی فرمان ہے اور رسول اللہ سے ثابت ہے اور ٖقرآن کی خلاف بھی ہے اس کو میں بسر وچشم مانتا ہو جناب من
سمجھ نہیں آئی آپ کی بات کی؟

پچھلی پوسٹ میں آپ ان احادیث مبارکہ کو جو آپ کے نزدیک قرآن کے خلاف ہیں، ردّ کر رہے ہیں

اور یہاں آپ فرماتے ہیں کہ میں خلافِ قرآن احادیث کو بسر وچشم مانتا ہوں۔

نہ جانے آپ کا کون سا موقف صحیح ہے؟؟؟
 
Top