بھت افسوس سے کہنا پڑتا ہےکہ چنداحادیث قرآن کی بھی متضاد ہےمثلا قرآن شریف کہتا کہ دودھ پلانے کا پیرڈ دوسال
ہے حولین کاملین لیکن مسلم شریف میں ہے کہ ایک ڈاڑھی والے نے بھی ایک عورت سے دودھ پیا حدیث نمبر ۳۴۲۸
گویا آپ کا موقف بھی اپنے استادِ محترم والا ہی ہے۔ آپ بھی احادیث مبارکہ کو اللہ کی وحی نہیں سمجھتے لہٰذا انہیں قرآن سے ٹکڑا کر رد کرتے جاتے ہیں۔
حالانکہ امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن پاک کے متضاد نہیں ہو سکتی۔
میرے بھائی! جو لوگ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کو اللہ کی کلام نہیں سمجھتے (مثلاً مستشرقین) تو وہ آیات قرآنیہ یا احادیث مبارکہ کا آپس تضاد دکھا کر انہیں ردّ کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، یہی کام منکرین حدیث کا ہے، وہ احادیث کا قرآن سے تضاد دکھاتے ہیں، حالانکہ یہ تضاد ان کے فہم کا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر قرآن وحدیث دونوں اللہ کی طرف سے ہیں تو ان میں کبھی تضاد نہیں ہو سکتا ۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ٨٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے (
82)
ثابت ہوا کہ جو چیز اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، اس میں کبھی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
آپ نے فرمایا کہ سیدنا سالم نے بڑی عمر میں دودھ پیا اور صحیح مسلم کی یہ حدیث قرآن کے مخالف ہے۔
حالانکہ یہ قرآن کے قطعاً مخالف نہیں، کیونکہ قرآن کریم میں دودھ پینے کے حوالے سے ایک اصول بیان ہوا ہے، اور یہ واقعہ ایک استثنائی واقعہ ہے، اور استثناء کا اصول سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر اصول یہ ہے کہ امت محمدیہ کا کوئی مسلمان بیک وقت چار سے زیادہ شادیاں نہیں کرسکتا لیکن نبی کریمﷺ کی چار سے زیادہ شادیاں ایک استثنائی واقعہ ہے۔
اسی طرح اگر کوئی خاتون اپنے آپ کو کسی مرد کیلئے ہبہ کردے تو یہ جائز نہیں، لیکن اگر وہ اپنے آپ کو نبی کریمﷺ کیلئے ہبہ کردے تو یہ آپ ﷺ کی ایک استثنائی خاصیت ہے اور جائز ہے۔
اب آپ کے اصول کے مطابق ہی آپ سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا آپ مچھلی کھاتے ہیں؟ اگر کھاتے ہیں تو ذبح کرکے یا ویسے ہی مردہ مچھلی کھا جاتے ہیں؟ حالانکہ قرآن کریم میں صراحت ہے کہ مردار حرام ہے۔ پھر آپ کے کیلئے مچھلی کھانا کیونکر جائز ہے؟؟؟
تو ناصرف میں بلکہ یہ حدیث میں جس کو بھی سناتا ھو تو توبہ کرتا ہے
احادیث مبارکہ کو سن کر، نبی کریمﷺ کے مبارک فرمان کو سن کر توبہ کرتے ہیں؟!!
لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم! تو پھر وہ آپ جیسے ہی مسلمان ہوں گے؟!!
اس لیے ضروری ہے کہ عرض الحدیث علی کتاب اللہ کو مانا جاے
یہ اصول آپ نے کس آیت کریمہ سے اخذ کیا ہے؟؟؟
میرے بھائی! نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ نے
قرآن کریم کی مخالفت کرنے کیلئے مبعوث نہیں فرمایا تھا، بلکہ اس لئے آپ کو نبی بنایا تھا کہ آپ امت کو قرآن بھی پہنچائیں اور پھر اس قرآن کریم کی تشریح بھی امت کے سامنے واضح کریں! فرمانِ باری ہے:
﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ٤٤ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل کہ یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وه غور وفکر کریں (
44)
الله تعالیٰ نے آپﷺ تک قرآن پہنچانے کی ذمہ داری بھی خود اٹھائی تھی اور پھر اس کی تشریح آپ تک وحی کرنے کی ذمہ داری بھی خود ہی لی تھی، لہٰذا
قرآن کریم بھی وحی ہے، اس کی
تشریح (احادیث مبارکہ) بھی اللہ کی طرف وحئ الٰہی ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ١٦ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ١٧ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ١٩ ﴾ ۔۔۔ سورة القيامة کہ (اے نبی) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (
16) اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھنا ہمارے ذمہ ہے (
17) ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں (
18) پھر
اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے (
19)
لہٰذا قرآن کریم اور احادیث میں آپس میں تعلق
ٹکراؤ اور مخالفت کا نہیں بلکہ اجمال وبیان، اور تشریح وتبیین کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرو اور جو قرآن سے مخالف ہو اسے ردّ کر دو، نہ ہی کبھی صحابہ کرام نے ایسا کیا کہ انہیں نبی کریمﷺ کے کسی کام کا حکم دیا ہو اور انہوں نے جواب میں یہ کہہ کر انکار کر دیا ہو کہ نہیں ہم نہیں مانتے، آپ کا یہ حکم قرآن کے مخالف ہے۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں یہ حکم دیا ہے:
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ٧ ﴾ ۔۔۔ سورة الحشر
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے (
7)
نیز فرمایا:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ٣٦ ﴾ ۔۔۔ سورة الأحزاب
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وه صریح گمراہی میں پڑے گا (
36)
اسی طرح معارف القرآن کی سورہ نساء کی آیت نمبر چار میں بقول مفتی شفیع صاحب ایک قراءت میں من امہ بھی موجود ہے سعد بن ابی قاص رضی اللہ تعالی عنہ کا قرات ہے لیکن آج کسی بھی قرآن مجید میں یہ لفظ نھی ہے اگر اس بات کو صحیح تسلیم کریں تو یہ بھی نتیجہ اخذ کرنا ھوگاکہ قرآن مجید بھی محفوظ نھی ہےاب آپ اور مفتی شفیع صاحب ھر بات کو صحیح مانو میرا نام اس فھرست میں شامل نھی ھوگا
آپ بات سمجھے ہی نہیں اور اعتراض شروع کر دیا۔
من أم والی قراءت قراءت متواترہ نہیں بلکہ
شاذہ ہے، اسے کوئی بھی قرآن نہیں مانتا، نہ ہی اسے قرآن کی طرح نماز میں تلاوت کرنا جائز سمجھتا ہے۔
البتہ اس سے تفسیر قرآن میں مدد ملتی ہے۔
تفصیل کیلئے دیکھئے:
http://www.kitabosunnat.com/forum/علم-القراءات-224/مدارسِ-دینیہ-میں-تدریس-ِقراء-ات-کی-ضرورت-اوررشد-’قراء-ات-نمبر‘-3516/#post20349
اگر آپ اسے نہیں مانتے تب پھر درج ذیل آیات کریمہ کا (ظاہری) تعارض آپ کیسے دور کریں گے؟
﴿ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۔۔۔ الآية ١٢ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
اور جن کی میراث لی جاتی ہے وه مرد یا عورت کلالہ ہو (یعنی اس کا باپ اور اس کی اولاد نہ ہو۔) اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان
دونوں میں سے ہر ایک کا چھٹا حصہ ہے اور اس سے زیاده ہوں تو ایک
تہائی میں سب شریک ہیں (
12)
﴿ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّـهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ١٧٦ ﴾ ۔۔۔ سورة النساء
آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور
ایک بہن ہو تو اس کے لئے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وه
بھائی اس بہن کا وارث ہوگا اگر اس کے اولاد نہ ہو۔ پس اگر
بہنیں دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا۔ اور اگر کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے (
176)
پہلی آیت کریمہ میں
ایک بھائی یا
ایک بہن کو
چھٹے حصے کا وارث قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں
ایک بہن کو تو
آدھے حصے کا جبکہ
ایک بھائی کو
مکمل مال کا وارث قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح پہلی آیت کریمہ میں
ایک سے زیادہ بہن بھائیوں کو ایک
تہائی حصے میں
برابر کا شریک قرار دیا گیا ہے، جبکہ دوسری آیت کریمہ میں
دو بہنوں کو کل ترکہ کا
دو تہائی دیا گیا ہے۔ اور اگر
وہ مخلوط ہوں (ملے جلے بہن بھائی ہوں) تو
انہیں برابر نہیں بلکہ مرد کو عورت سے ڈبل کا وارث قرار دیا گیا ہے۔
پوری امت کا اجماع ہے کہ پہلی آیت کریمہ ماں شریک (اخیافی) بہن بھائیوں کے بارے میں جبکہ دوسری آیت کریمہ حقیقی اور باپ شریک (علاتی) بہن بھائیوں کے بارے میں ہے۔ اور اس کی بنیاد یہی قراءت شاذہ ہے۔
اس لیے ھر بات کولاریب کتاب قرآن مجید پر پرکھنا چاھیے کہ کہیں اس کی خلاف تو نھی ہے؟
لیکن یہ فیصلہ کیسے ہوگا کہ وہ حدیث واقعی ہی قرآن کے خلاف ہے؟ ممکن ہے وہ قرآن کے خلاف ہونے کی بجائے آپ کے ناقص قرآنی فہم کے خلاف ہو؟؟؟
کیا پھر بھی آپ حدیث کو ردّ کر دیں گے؟؟!!
یعنی دوسرے الفاظ میں نبی کریمﷺ کے مبارک فرمان کو اپنی ناقص عقل سے رد کر دیں گے؟؟؟!!!! پھر آپ مسلمان رہیں گے؟؟؟