• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فجرومغرب کے بعد دس بار لا الہ الاللہ۔۔ پڑھنے سے متعلق روایات کاجائزہ۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
حدیث ابوالدرداء رضی اللہ عنہ

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خُنَيْسٍ الدِّمْيَاطِيُّ، ثنا مُوسَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَطَاءٍ الْبَلْقَاوِيُّ، ثنا هَانِئُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَرُدَيْحُ بْنُ عَطِيَّةَ، أَنَّهُمَا سَمِعَا إِبْرَاهِيمَ بْنَ أَبِي عَبْلَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، تَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَهُوَ ثَانٍ رِجْلَهُ قَبْلَ أَنْ يَتَكَلَّمَ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ , وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٍ عَشْرَ مَرَّاتٍ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ مَرَّةٍ عَشْرُ حَسَنَاتٍ , وَمُحِيَ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ , وَرُفِعَ لَهُ عَشَرُ دَرَجَاتٍ , وَكُنَّ لَهُ فِي يَوْمِهِ ذَلِكَ حِرْزًا مِنْ كُلِّ مَكْرُوهٍ وَحِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ , وَكَانَ لَهُ بِكُلِّ مَرَّةٍ عِتْقُ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ , ثَمَنُ كُلِّ رَقَبَةٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا وَلَمْ يَلْحَقْهُ يَوْمَئِذٍ ذَنْبٌ إِلَّا الشِّرْكَ بِاللَّهِ , وَمَنْ قَالَ ذَلِكَ بَعْدَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ كَانَ لَهُ مِثْلُ ذَلِكَ»
صحابی رسول ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فجرپڑھنے کے بعد سیدھا بیٹھ کر بغیرکوئی کلام کئے ہوئے دس مرتبہ یہ پڑھے :لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ , لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ , وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٍ تو ہربار پڑھنے کے عوض اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور دس گناہ مٹائے جائیں گے اور دس درجات بلند کئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لئے اس دن ہر تکلیف دہ چیز سے نیز شیطان سے حفاظت کا ذریعہ بنیں گے اور ہربار اسے خاندان اسماعیل سے ایسا غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا جس کی قیمت بارہ ہزار درہم ہو اور اس دن شرک کے علاوہ اسے کوئی اور گناہ نہیں مل سکتا اورجس نے مغرب کے بعد ان الفاظ کو کہا اور اسے بھی اسی طرح کا اجر ملے گا[مسند الشاميين للطبراني 1/ 37]۔

یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے دیکھیں ضعیف الترغیب للالبانی ص 136۔
اس کی سند میں ایک راوی ''موسى بن محمد البلقاوي'' ہے یہ کذاب یعنی بہت بڑا جھوٹاہے۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
كان يكذب ويأتي بالأباطيل
یہ جھوٹ بولتا تھا اور جھوٹی حدیثیں بیان کرتاتھا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
يحدث عن الثقات، بالبواطيل
یہ ثقہ راویوں کے حوالہ سے باطل اور جھوٹی حدیثین بیان کرتاتھا[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 169]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
يَضَع الحَدِيث على الثِّقَات
یہ ثقہ راویوں کے حوالہ سے حدیث گھڑ کر بیان کرتاتھا[المجروحين لابن حبان: 2/ 243]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
يسرق الحديث
یہ حدیث چور تھا[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 8/ 64]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
كذاب
یہ بہت بڑا جھوٹاہے[الموضوعات لابن الجوزي 2/ 267]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
كذاب متهم
یہ بہت بڑا جھوٹا اور متہم شخص ہے[المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 74]۔
معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
حدیث عبد الرحمن بن غنم (تابعی)رحمہ اللہ

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا روح ، حدثنا همام ، حدثنا عبد الله بن أبي حسين المكي ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : من قال قبل أن ينصرف ويثني رجله من صلاة المغرب ، والصبح : لا إله إلا الله ، وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد ، بيده الخير ، يحيي ويميت ، وهو على كل شيء قدير عشر مرات ، كتب له بكل واحدة عشر حسنات ، ومحيت عنه عشر سيئات ، ورفع له عشر درجات ، وكانت حرزا من كل مكروه ، وحرزا من الشيطان الرجيم ، ولم يحل لذنب يدركه إلا الشرك ، وكان من أفضل الناس عملا ، إلا رجلا يفضله ، يقول : أفضل مما قال.
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے فجر اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد اپنا پاؤں جائے نماز سے پھیرنے سے پہلے دس مرتبہ یہ پڑھے :''لا إله إلا الله ، وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد ، بيده الخير ، يحيي ويميت ، وهو على كل شيء قدير'' تو ہربار پڑھنے کے عوض اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی ، اور دس گناہ مٹائے جائیں گے اور دس درجات بلند کئے جائیں گے اور یہ کلمات اس کے لئے اس دن ہر تکلیف دہ چیز سے نیز شیطان مردود سے حفاظت کا ذریعہ بنیں گے اورشرک کے علاوہ کوئی گناہ اس کے حصہ میں نہیں آسکتا اوراس دن وہ سب سے بہتر عمل کرنے والا شمار ہوگا الایہ کہ کوئی اس سے بہتر بات کہہ دے۔[مسند أحمد ط الميمنية: 4/ 227 واخرجہ ایضا الترمذی رقم 3474 من طریق شھربن حوشب بہ موصولاعن ابی ذر، لیکن لیس فیہ تقیید بعد صلاۃ المغرب، وایضا اخطاء شہربن حوشب فی وصلہ والصواب ارسالہ کما قال الدارقطی۔ انظر: علل الدارقطني: 6/ 248]۔

یہ روایت ضعیف ہے اس میں دو علتیں ہیں:
الف: ارسال:
یہ روایت مرسل ہے کیونکہ اسے عبدالرحمن بن غنم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے روایت کررہے ہیں اور یہ صحابی نہیں ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ انہوں نے نہیں پایا۔ لہٰذا یہ روایت مرسل ہے اور مرسل حدیث ضعیف ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس حدیث کا مرسل ہونا ہی راجح قرار دیا ہے ، چنانچہ:

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
والصحيح عن ابن أبي حسين المرسل ابن غنم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے ابن غنم روایت کررہے ہیں (اور انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں کیونکہ یہ صحابی نہیں ہیں)[علل الدارقطني: 6/ 248]۔

ب: شہربن حوشب کا اضطراب شدید:
اس روایت کا دار مدار شہربن حوشب پرہے اور یہ ا س روایت کو بیان کرنے میں سند و متن دونوں اعتبار سے شہربن حوشب بہت زیادہ اضطراب کا شکار ہوا ہے
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
ويشبه أن يكون الاضطراب فيه من شهر ، والله اعلم
اس روایت میں اضطراب کاذمہ دار شہربن حوشب ہی معلوم ہوتا ہے واللہ اعلم [علل الدارقطني: 6/ 248]۔

اس اٍضطراب کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے ہم صرف علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ میں خلاصہ نقل کرنے پراکتفاء کرتے ہیں ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وفي تصحيحه نظر لأنه من رواية شهر بن حوشب عن عبد الرحمن بن غنم وقد اضطرب شَهْر في إسناده ومتنه على ابْنُ غَنْم: أما الإسناد فمرة يقول: عن ابْنُ غَنْم مرفوعاًَ. وابْنُ غَنْم مُخْتَلَفٌ في صحبته، فهو مرسل. وهو رواية أحمد (4\ 227) ومرة يقول: عنه عن أبي ذَرٍّ مرفوعاً، وهو رواية التِّرْمِذِيّ وكذا النَّسَائِيّ في عمل اليوم والليلة (رقم12). وتارة يقول: عنه عن مُعَاذ. وهو رواية النَّسَائِيّ (126). وأخرى يقول: عنه عن فاطمة رضي الله عنها، وهو رواية لأحمد (6\ 298). فهذا اضطراب شديد من شَهْر يدل على ضعفه كما تقدم، ولذلك قال النَّسَائِيّ عقبه: وشَهْر بن حَوْشَب ضعيف، سُئِلَ ابْنُ عون عن حديث شَهْر؟ فقال: إن شَهْراً تركوه (أي طعنوا عليه وعابوه)، وكان شُعْبة سَيِّئَ الرأي فيه، وتركه يحيى القطان. وأما المتن: فتارة يذكر صلاة الفجر دون المغرب، كما في حديث أبي ذَرٍّ. وتارة يجمع بينهما، كما في حديث ابْنُ غَنْم المرسل، وحديث فاطمة، وأخرى يذكر العصر مكان المغرب، وذلك في حديث مُعَاذ، وتارة يذكر «يحيى ويُمِيِت» وتارة لا يذكرها، وتارة يزيد قبلها «بيده الخير»، وتارة لا يذكرها، وتارة يذكر: «قبل أن ينصرف ويَثْنِي رجليه». وتارة لا يذكرها. وتارة يضطرب في بيان ثواب ذلك بما لا ضرورة لبيانه الآن. وبالجملة فهذا الاضطراب في إسناده ومتنه لو صدر من ثقة لم تطمئن النفس لحديثه فكيف وهو من شهر الذي بالضعف اشتهر ؟
اس حدیث کو صحیح قرار دینا محل نظر ہے کیونکہ اسے شہربن حوشب نے عبدالرحمن بن غنم سے بیان کیا ہے اور شہربن حوشب اس حدیث کو ابن غم سے نقل کرنے میں سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کا شکار ہوا ہے ، جہاں تک سند کامعاملہ ہے تو کبھی یہ ابن غنم سے اسے مرفوعا نقل کرتاہے اورابن غنم کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے لہٰذا یہ طریق مرسل ہوا یہ روایت مسند احمد (4\ 227) میں ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن ابی ذر کے واسطہ سے نقل کرتا ہے یہ ترمذی اور نسائی عمل اليوم والليلة (رقم12) کی روایت ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن معاذ کے واسطہ سے نقل کرتاہے یہ نسائی (126). کی روایت ہے ۔ اور کبھی ابن غنم عن فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے نقل کرتاہے یہ مسنداحمد(6\ 298). کی روایت ہے ، تو یہ شہربن حوشب کا شدید اضطراب جو اس کے ضعیف ہونے پردلالت کرتاہے کمامضی ۔ اوراسی لئے امام نسائی نے اس کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہاکہ شہربن حوشب ضعیف ہے ۔اورابن عون سے حدیث شہرکے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: کہ محدثین نے اسے متروک سمجھا ہے (یعنی اس پر طعن کیا ہے اور اس پرجرح کی ہے) ۔اور امام شعبہ رحمہ اللہ اس کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے۔اورامام یحیی بن سعید القطان نے اسے متروک سمجھا ۔
اورجہاں تک متن میں اضطراب کی بات ہے تو کبھی یہ مغرب کے بجائے صرف نماز فجر کا ذکر کرتاہے جیساکہ (اس کی نقل کردہ ) ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔اورکبھی دنوں نمازوں کو ایک ساتھ ذکر کرتاہے جیساکہ ابن غنم کی مرسل حدیث اور حدیث فاطمہ میں ہے ۔ اور کبھی مغرب کی جگہ عصر کی نماز کا ذکر کرتاہے اور ایسا معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے ۔اورکبھی «يحيى ويُمِيِت» کے الفاظ بھی بیان کرتاہے اور کبھی ان الفاظ کو چھوڑ دیتا ہے ۔ اورکبھی ان الفاظ سے قبل «بيده الخير» کا اٍضافہ کرتا ہے اورکبھی یہ اضافہ نہیں کرتا ۔ اورکبھی «قبل أن ينصرف ويَثْنِي رجليه» کے الفاظ ذکر کرتاہے اور کبھی ان کا ذکر نہیں کرتا۔ اورکبھی اس عمل کے ثواب کو بیان کرنے میں اضطراب کا شکار ہوتا ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔الغرض یہ کہ ایک ہی حدیث کی سند و متن میں اس طرح کے اضطراب کا صدور اگر کسی ثقہ راوی سے ہوجائے تو اس کی حدیث بھی محل نظر ہوجائے گی چہ جائے کہ ایسے اٍضطراب کا صدور شہربن حوشب کی طرف سے ہو جو ضعیف ہونے میں مشہہور ہو[تمام المنة ص: 229]۔

علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف تسلیم کرنے بعد شواہد کے پیش نظر اس کے الفاظ کو قوی قرار دیا ہے لیکن ان تمام شواہد میں فجراورمغرب کی نماز کے بعد کی قید نہیں ہے بلکہ مجموعی سیاق اس بات پردلالت کرتا ہے کہ ان الفاظ کو صبح وشام کے اذکار کے طور پر ذکر کیا گیا ۔
اورعلامہ البانی رحمہ اللہ کا بھی قدیم موقف یہی تھا کہ نماز کے قید کے ساتھ یہ روایت صحیح نہیں ہے البتہ صبح وشام کے اذکار کے طور پر یہ روایت صحیح ہے جیساکہ علامہ موصوف نے سلسلہ صحیحہ رقم 113رقم 114کے تحت وضاحت کی تھی ، لیکن بعد میں علامہ البانی رحمہ اللہ کو ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول بھی ایک روایت ملی جس میں نماز کے بعد کی قید ہے اور محض اسی روایت کو بناد بناکر علامہ البانی رحمہ اللہ نے شہربن حوشب کی روایت کو حسن لغیرہ کہا [سلسلہ صحیحہ رقم 114] اوربعض دیگرروایات کے عموم کو بھی اسی پرمحمول کیا دیکھئے[صحیح الترغیب :ج 1 ص 322] حالانکہ ان روایات کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنے قدیم موقف میں صبح و شام کے اذکار کے شمار کیا تھا دیکھئے [سلسلہ صحیحہ رقم 113]۔

عرض ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حدیث جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مرکزی شاہد باور کیا ہے وہ شاہد بننے کے قابل ہی نہیں تفصیل اگلی سطور میں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
حدیث ابی امامہ رضی اللہ عنہ

امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ بْنُ دَاوُدَ، ثنا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، ثنا آدَمُ بْنُ الْحَكَمِ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ الْوَلِيدِ النَّرْسِيِّ، ثنا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، ثنا أَبِي، ثنا آدَمُ بْنُ الْحَكَمِ، ثنا أَبُو غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدْيرٌ مِائَةَ مَرَّةٍ قَبْلَ أَنْ يَثْنِيَ رِجْلَيْهِ، كَانَ يَوْمَئِذٍ أَفْضَلَ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَى مَا قَالَ "
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز فجرکے بعد جائے نماز سے اپناپاؤن پھیرنے سے پہلے سو (100) بار کہا: ''لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدْيرٌ'' وہ اس دن روئے زمین کا سب افضل شخص ہوگا الا یہ کہ کوئی اوربھی اسی طرح کہہ دے یا اس سے زیادہ کہہ دے[المعجم الكبير للطبراني 8/ 280]۔

عرض ہے کہ یہ روایت گذشتہ روایت کی شاہد نہیں بن سکتی اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ:
کیونکہ اس کا متن گذشتہ روایت کے متن سے بہت مختلف ہے ، چنانچہ:
اس روایت میں کلمات مذکورہ کو سوبار پڑھنے کے لئے کہا گیا ہے جبکہ گذشتہ حدیث میں دس بار کاذکرہے۔
اس روایت نماز مغرب کا بھی ذکر نہیں ۔

دوسری وجہ:
متن کے اس اختلاف کے ساتھ ساتھ یہ حدیث بھی سخت ضعیف ہے سند میں ''أبو غالب حزور الباهلي'' ہے یہ ضعیف ہے بلکہ بعض ناقدین نے اس پرسخت جرح کی ہے چنانچہ:

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
كانَ ضَعيفًا، مُنكَرَ الحَديثِ
یہ ضعیف اورمنکرحدیث بیان کرے والا تھا[الطبقات الكبير لابن سعد 9/ 236]

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
مُنكر الْحَدِيث عَلَى قلته لَا يَجُوز الِاحْتِجَاج بِهِ إِلَّا فِيمَا يُوَافق الثِّقَات
یہ کم حدیث والا ہونے کے ساتھ ساتھ منکر حدیث بیان کرتا تھا اس سے احتجاج جائز نہیں جب تک کہ ثقہ رواۃ اس کی موافقت نہ کردیں[المجروحين لابن حبان: 1/ 267]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
ليس بالقوي
یہ قوی نہیں ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 315]

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
ضَعِيف
یہ ضعیف ہے[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 115]
سند میں ایک دوسرا راوی ''آدم بن الحكم البصري'' بعض محدثین نے اس پر بھی جرح کی ہے چنانچہ:

امام علي بن المديني رحمه الله (المتوفى234)نے کہا:
ضَعِيف ضَعِيف[سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 67]۔

امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
تغير حفظه [لسان الميزان ت أبي غدة 2/ 15]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
خلاصہ بحث

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فجرومغرب کے بعد مذکورہ ذکر پڑھنے سے متعلق ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے منقول روایت موضوع ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہاہے۔
اور ابن غنم کی حدیث کو شہربن حوشب نے روایت کیا اور شدید اضطراب کا شکار ہوا ہے لہٰذا اس کی یہ روایت بھی ضعیف ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہاہے۔
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایت جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے مرکزی شاہد باور کیا ہے [سلسلہ صحیحہ رقم 114] وہ سخت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ متن کے اعتبارسے بالکل علیحدہ روایت ہے لہٰذا اسے شاہد قرار دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، نتیجۃ یہ روایت ہرحال میں ضعیف ہی ہے۔
امام دارقطنی (العلل:6/ 248) امام احمد (الفتح لابن رجب: 7/428) امام نسائی (سنن النسائي الكبرى 6/ 37) اور امام ابن رجب (فتح الباری:7/ 428) رحمہمااللہ نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔
معاصرین میں سے بھی متعدد اہل علم نے اسے ضعیف قرار دیاہے مثلا دیکھئے [المصطفى من أذكار المصطفى ص: 13].
 
شمولیت
اکتوبر 22، 2015
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
9
kazi ismail
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ عَنْ شُعَيْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا رَمَلَ مِنْهَا ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ قَامَ عِنْدَ الْمَقَامِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَرَفَعَ صَوْتَهُ يُسْمِعُ النَّاسَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَاسْتَلَمَ ثُمَّ ذَهَبَ فَقَالَ نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهَا حَتَّى بَدَا لَهُ الْبَيْتُ فَقَالَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ فَكَبَّرَ اللَّهَ وَحَمِدَهُ ثُمَّ دَعَا بِمَا قُدِّرَ لَهُ ثُمَّ نَزَلَ مَاشِيًا حَتَّى تَصَوَّبَتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْمَسِيلِ فَسَعَى حَتَّى صَعِدَتْ قَدَمَاهُ ثُمَّ مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَصَعِدَ فِيهَا ثُمَّ بَدَا لَهُ الْبَيْتُ فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ قَالَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ ذَكَرَ اللَّهَ وَسَبَّحَهُ وَحَمِدَهُ ثُمَّ دَعَا عَلَيْهَا بِمَا شَاءَ اللَّهُ فَعَلَ هَذَا حَتَّى فَرَغَ مِنْ الطَّوَافِ
(سنن النسائی ،حدیث 2964 )
ترجمہ :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے۔ ان میں سے (پہلے) تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں آرام سے چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس کھڑے ہوئے۔ اور دو رکعات پڑھیں، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: {وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی} ’’تم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔‘‘ آپ نے لوگوں کو سنانے کے لیے یہ الفاظ بلند آواز سے ادا فرمائے، پھر آپ (حجر اسود کی طرف) گئے۔ اسے بوسہ دیا، پھر (صفا مروہ کی طرف) چلے اور فرمایا: ’’ہم اسی جگہ سے ابتدا کریں گے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے۔‘‘ تو آپ نے کوہِ صفا سے ابتدا کی۔ اس پر چڑھے حتیٰ کہ آپ کو بیت اللہ نظر آنے لگا۔ آپ نے تین بار (یہ کلمات) پڑھے:
[لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ… شَیْئٍ قَدِیْرٌ] ’’اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، حکومت اور تعریف اسی کی ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔‘‘ پھر آپ نے تکبیریں کہیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی، پھر آپ نے دعائیں فرمائیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مقدر کی تھیں، پھر آپ چلتے ہوئے نیچے اترے حتیٰ کہ جب آپ کے قدم مبارک نشیب میں جا گزیں ہوئے تو آپ دوڑنے لگے حتیٰ کہ (مروہ کی) چڑھائی شروع ہوگئی تو آپ آرام سے چلنے لگے حتیٰ کہ مروہ پہنچ گئے۔ تو اس پر چڑھتے رہے، پھر جب بیت اللہ نظر آنے لگا تو آپ نے یہ کلمات دا فرمائے: [لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ… شَیْئٍ قَدِیْرٌ] ’’اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی اور تعریف اسی کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ آپ نے یہ کلمات) تین بار پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور سبحان اللہ اور الحمد للہ پڑھتے رہے، پھر آپ نے اس پر دعائیں فرمائیں جو اللہ نے چاہیں (پھر) اسی طرح کیا حتی کہ آپ (صفا مروہ کے) چکروں سے فارغ ہوگئے۔"
ـــــــــــــــــــــــــــ
تشریح : امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے :
الْقَوْلُ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ (طواف کی دو رکعتوں کے بعد کیا کہا جائے؟)
ان کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ طواف کی دو رکعتوں کے بعد مذکورہ بالا آیت پڑھنا مسنون ہے اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا یہ آیت پڑھنا بطور استدلال تھا کہ اس سے مراد طواف کی دو رکعتیں ہیں۔ یہی صحیح ہے۔ اسی لیے علماء نے دو رکعتوں کے بعد اس آیت کے پڑھنے کو مسنون نہیں لکھا، نیز بعض روایات میں منقول ہے کہ آپ نے یہ آیت دو رکعتوں سے پہلے پڑھی تھی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الحج، حدیث: ۱۲۱۸، وسنن النسائی، مناسک الحج، حدیث: ۲۹۶۵، ۲۹۶۶) یاد رہے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے جاتے ہیں مگر صفا سے مروہ تک آنا ایک چکر شمار ہوتا ہے اور مروہ سے صفا پر آنا دوسرا چکر۔ اس طرح مروہ پر ساتواں چکر پورا ہوگا۔
علامہ البانیؒ نے اس حدیث کوصحيح النسائي میں درج کیا ہے ،
ــــــــــــــــــــــــــ
kazi ismail
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ فِي دُبُرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدْيرٌ مِائَةَ مَرَّةٍ قَبْلَ أَنْ يَثْنِيَ رِجْلَيْهِ، كَانَ يَوْمَئِذٍ أَفْضَلَ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ مَا قَالَ أَوْ زَادَ عَلَى مَا قَالَ "
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز فجرکے بعد جائے نماز سے اپناپاؤں پھیرنے سے پہلے سو (100) بار کہا: ''لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدْيرٌ'' وہ اس دن روئے زمین کا سب افضل شخص ہوگا الا یہ کہ کوئی اوربھی اسی طرح کہہ دے یا اس سے زیادہ کہہ دے[المعجم الكبير للطبراني 8/ 280]۔

اس حدیث کو حافظ زکی الدین عبدالعظیم المنذریؒ (المتوفی 656 ھ) نے الترغیب والترہیب میں نقل فرمایا اور ساتھ لکھا ہے کہ :
رواه الطبراني في "الأوسط" بإسناد جيد. یعنی اس حدیث کو امام ابوالقاسم الطبرانیؒ نے "المعجم الاوسط " میں عمدہ اسناد سے روایت کیا ،
اور علامہ البانیؒ نے اسے صحیح الترغیب والترہیب میں درج کیا ہے اور اسے " حسن " کہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[ وفي الكبير أيضاً من حديث أبى الدرداء، ولفظه: ] من قال بعد صلاة الصبح وهو ثان رجليه قبل أن يتكلم لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيى ويميت بيده الخير وهو على كل شيء قدير عشر مرات كتب الله له بكل مرة عشر حسنات ومحا عنه عشر سيئات ورفع له عشر درجات وكن له في يومه ذلك حرزا من كل مكروه وحرسا من الشيطان الرجيم وكان له بكل مرة عتق رقبة من ولد إسماعيل ثمن كل رقبة اثنا عشر ألفا ولم يلحقه يومئذ ذنب إلا الشرك بالله ومن قال ذلك بعد صلاة المغرب كان له مثل ذلك
ترجمہ : اور امام ابوالقاسم الطبرانیؒ کی کتاب "المعجم الکبیر " میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' جوشخص صلاۃ فجر کے بعد جب کہ وہ پیر موڑے (دوزانوں) بیٹھا ہوا ہو اور کوئی بات بھی نہ کی ہو ،وہ یہ ذکر :( لاَ إِلَہَ إِلاً اللَّہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ ) دس مرتبہ پڑھے تو اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کی دس برائیاں مٹادی جائیں گی، اس کے لیے دس درجے بلند کئے جائیں گے اور وہ اس دن پورے دن بھر ہر طرح کی مکروہ وناپسندیدہ چیز سے محفوظ رہے گا، اور شیطان کےشر سے محفوظ رہنے کا سبب بن جائے گا ۔"
المصدر: الترغيب والترهيب للمنذريؒ - خلاصة حكم المحدث: [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 31، 2016
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
40
اس کلمے کی بہت زیادہ فضیلت ہے کیونکہ توحید سب سے بڑی نیکی ہے،
فرائض کی پابندی اور اس کلمہ توحید کے معانی کا ادراک و فہم کے بعد پڑھنے سے مکمل فائدہ حاصل ہوگا۔

اِنْ شَاءَاللہُ الرَّحْمٰنْ
 
Last edited by a moderator:
Top